متفرق مضامین

جلسہ سالانہ کے ایام اور ’’مسلمانوں کےلیڈر‘‘ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ

(ابن فضل الرحمٰن)

مسلمانوں کے لیڈر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کا آغاز 27؍دسمبر 1891ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون ’’آسمانی فیصلہ‘‘ اپنی پر شوکت اور بلند آواز میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے پڑھ کر سنایا اور اس کی اشاعت کا فیصلہ ہوا۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ (پیدائش1858ء۔ وفات 11؍اکتوبر 1905ء) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہ صرف کئی اہم پبلک لیکچر پڑھ کر سنانے کی سعادت حاصل ہوئی بلکہ آپ جلسہ سالانہ کے صف اول کے مقررین میں سے تھے۔ 1900ء میں آپ کو حضور علیہ السلام کےالہام میں ’’مسلمانوں کے لیڈر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔

حامی دیں آنکہ یزداں نام او لیڈر نہاد

یعنی وہ دین اسلام کا حامی تھا اس کا خدا نے لیڈر نام رکھا تھا۔

آپ صرف 47سال کی عمر میں وفات پاگئے جس سے حضور علیہ السلام کو بڑا صدمہ پہنچا۔ حضورؑ تعریفی انداز میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ کا ذکرِ خیر فرماتے رہتےتھے۔

زبردست تقریر کرنے والے

ڈائری26؍نومبر1905ء

فرمایا:’’مولوی صاحب ہر تقریب اور ہر جلسہ پر یاد آجاتے ہیں۔ ان کے سبب لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا وہ بڑی زبردست تقریر کرنے والے تھے۔ میں نے مقابلہ کرکے خوب دیکھا ہے ان کے اندر محبت اور اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 570، ایڈیشن1988ء)

حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ کے ایک لیکچر کی تعریف

حضرت مولانا مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے لیکچر (موسومہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا اصلاح اور تجدید کی) کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھا اور 26؍فروری 1899ء کو مسجد مبارک میں احباب سے فرمایا کہ

’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سب دوست اسے ضرور پڑھیں اس لئے کہ اس میں بہت سےنکات لطیفہ ہیں اور یہ نمونہ ہے ایک شخص کی قوت تقریر کا اور اسی منوال پر مخصوصا ًہماری جماعت کو مقرربننے کی کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 194، ایڈیشن1988ء)

سلسلہ کے لیے ان کی قلم ہمیشہ چلتی رہی

’’مولوی عبد الکریم کی قلم ہمیشہ چلتی رہتی تھی ‘‘

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ584، ایڈیشن1988ء)

ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا:

’’ ان کے بیان میں ایک اثر ڈالنے والا جوش ہے اخلاص کی برکت اور نورانیت ان کے چہرہ سے ظاہر ہے‘‘۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 523)

’’یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ آپ معارف الٰہیہ کے بیان میں بلند چٹان پر قائم ہو گئے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ 362، ایڈیشن1988ء)

جلسہ مذاہب اعظم

1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اس شان سے آپ نے پڑھا کہ اپنوں اور غیروں نے اس کی بہت تعریف کی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

’’اس روز ہماری جماعت کے بہادر سپاہی اور اسلام کے معزز رکن حبی فی اللہ مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے مضمون کے پڑ ھنے میں وہ بلاغت فصاحت دکھلائی کہ گویا ہر لفظ میں ان کوروح القدس مدد دے رہا تھا‘‘۔

(انجام آتھم، روحانی روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 316)

میری تمام جماعت میں آپ دو ہی آدمی ہیں

ایک مرتبہ آپ کی بیماری کا سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےآپ کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:

’’میری جماعت میں آپ دو ہی آدمی ہیں جنہوں نے میرے لئے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔ ایک آپ ہیں اورایک مولوی حکیم نور الدین صاحب۔ ابھی تک تیسرا آدمی پیدا نہیں ہوا‘‘۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 189)

قلمی خدمات

1۔ لیکچر گناہ

2۔ لیکچر، حضرت مسیح موعودؑ نے کیا اصلاح و تجدید کی

3۔ سیرت مسیح موعودؑ

4۔ اثبات خلافت شیخین

5۔ خلافت راشدہ (حصہ اول)

6۔ الفرقان خلافت راشدہ (حصہ دوم)

7۔ القول الفصیح فی اثبات حقیقۃالمسیح

8۔ دعوۃ الندوہ

9۔ خطبات کریمیہ (مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ )

ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نےفرمایا:

’’مولوی عبدالکریم مرحوم (بڑی لمبی دعا ان کے لئے فرمائی) مجھ کو بہت پیارا تھا میں اس کی تقریر اور تحریر کو پیار سے پڑھتا اور سنتا تھا۔ ان کی تحریر میں اور تقریر میں تیزی ہوتی تھی‘‘۔

(ارشادات نور جلد سوم صفحہ 45)

’’سچ تو یہ ہے کہ یہ شخص بڑی ترقی کر رہا ہے اور مجھ سے بڑھ گیا ہے ۔‘‘

(ارشادات نور جلد اول صفحہ 208)

’’مولوی عبد الکریم صاحب جب پہلے پہل مجھ سے ملے تو ان کی بہت چھوٹی عمرتھی۔ پتلے دبلے اور بہت صاف دل تھے۔ میں نے ان سے جموں میں کہا کہ تم میرے پاس آیا کرو۔ مولوی عبدالکریم چار زبانیں جانتے تھے۔ انگریزی، عربی، فارسی، اردو۔ میں نے تو اس وقت تک اپنی جماعت میں کوئی شخص دیکھا نہیں جو ان کی طرح چار زبانیں اچھی طرح جانتا ہو‘‘۔

(مرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ 250)

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’ایک دفعہ جناب مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے دہلی میں مباحثہ سے ایک روز پیشتر قصیدہ نعتیہ مندرجہ براہین احمدیہ پارسی لب و لہجہ میں سنایا تھا اس وقت سے ان کی حالت ذوق و شوق زیادہ بڑھ گئی اور پھر دوسری بار دوسرے روز حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ ایک دفعہ اور وہی قصیدہ اسی طرز پر سنائیں مولوی صاحب نے پھر سنایا۔

مولوی صاحب کا پڑھنا عجیب و غریب ہوتا تھا فارسی پڑھتے تو بالکل فارسیوں کے لب ولہجہ میں کہ گویا کوئی ایرانی یا شیخ سعدی و نظامی وغیرہ بول رہے ہیں اور جو اردو پڑھتے تو اسی لب و لہجہ میں اور جو عربی پڑھتے تو بالکل عرب معلوم ہوتے تھے اور پنجابی نظم و نثر پڑھتے تو ہو بہو پنجابی ادا میں اور جو انگریزی پڑھتے تو عین انگریزی طرز میں پڑھتے تھے کہ گویا ایک یورپین انگریز بول رہا ہے اور جو قرآن شریف پڑھتے تو بالکل عرب معلوم ہوتے تھے اور جو وعظ یا خطبہ پڑھتے تو اس میں کمال تھا کہ سننے والے ذوق و شوق میں محو و مستغرق ہو جاتے تھے اور آپ کی تحریر تو بے نظیر تھی ‘‘۔

(تذکرۃ المہدی، صفحہ 19)

ارشادات حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ

حضرت مصلح موعودؓ نےفرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نمازیں پڑھایا کرتے تھے ان کا لہجہ بڑا عمدہ تھا آواز بڑی بلند تھی اور ان کی تقریر میں بڑا جوش پایا جاتا تھا‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد پنجم (سورۂ مریم) صفحہ 240)

ان کے ایک رشتہ دار کے خطبہ نکاح میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

’’مسجد مبارک کے پرانے حصہ کی اینٹیں اب بھی ان کی زور دار تقریروں سے گونج رہی ہیں ‘‘۔

(غیر مطبوعہ خطبہ نکاح بحوالہ سیرت و سوانح حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی ؓصفحہ 36 )

’’میں ان کے پر زور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت اور ان کی محب مسیح موعود کا معتقد تھا ‘‘۔

(الحکم جوبلی نمبر دسمبر 1939ء۔ سیرت و سوانح حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹی ؓصفحہ 37)

حضرت مسیح موعودؑ کے دو فرشتے

حضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ان دنوں میں یہ بحثیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کون سا ہے اور بایاں کون سا؟

بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں۔

علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت نہ تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسی محبت کی وجہ سے جو خلیفۂ اولؓ مجھ سے کیا کرتے تھے میں نورا لدینوں میں سے تھا۔

ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی۔‘‘

(سوانح فضل عمر حصہ اول صفحہ306تا307)

دسمبر کا مہینہ جہاں جلسہ سالانہ کی یاد دلاتا ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ’’ مولوی صاحب… ہر جلسہ پر یاد آجاتے ہیں ‘‘۔

گرچہ جنسِ نیکواں ایں چرخ بسیار آورد

کم بزاید مادرے با ایں صفا در یتیم

اگرچہ آسمان نیکوں کی جماعت بکثرت دلاتا رہتا ہے مگرایسا شفاف اور قیمتی موتی ماں بہت کم جنا کرتی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button