متفرق مضامین

بھول گئے ہم سارے موسم، یاد رہا برسات کا نام

(زاہدہ راحت۔ کینیڈا)

والدین کا جلسہ سالانہ کی اہمیت دل میں ڈالنا

میری جلسہ سالانہ کی یادوں اور اس کی برکات کا تذکرہ در اصل میرے والدین سے شروع ہوتا ہے۔ جو تقسیمِ برصغیر سے پہلے قادیان دار الامان کے جلسہ ہائے سالانہ میں شمولیت کا شرف پاتے رہے۔ میری امی جی مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری بشیر احمد صاحب مرحوم بیان کرتی تھیں کہ ان کی والدہ (یعنی میری نانی جان فضل بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی عبد الرحمٰن صاحب آف کھاریاں ) نے اپنے سارے بچوں میں چھوٹی عمر سے جلسہ سالانہ کی اہمیت اور اس کے تقدّس کا سبق دیا۔ نانی جان فرمایا کرتی تھیں کہ جلسہ سالانہ پر جانا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ اس کے لیے خاص تیاری کی ضرورت ہے۔ وہ تیاری کوئی دنیاوی تیاری نہ تھی بلکہ روحانی زادِ راہ جمع کرنے کی تیاری تھی کہ سارا سال پنجگانہ نمازوں کی پابندی کرنی ہے، دعائیں کرنی ہیں اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ صرف اُنہی بچوں کو دسمبر میں قادیان جلسہ سالانہ پر جانے کی اجازت ہوتی جو سال بھر اپنے دینی فرائض کی پابندی کرتے۔ چنانچہ یہ وہ پاک سبق تھا جو میری نانی جان کی طرف سے ہمیں ورثہ میں ملا۔

بچپن میں جلسہ کی پہلی یادیں

(1971ء تا 1973ء)

اوائل بچپن کی یادوں میں سب سے حسین اور نمایاں یاد جلسہ سالانہ ربوہ پر جانے کی تیاریاں یاد ہیں۔ جب سردیوں کی ٹھنڈی ہوائیں اور چھوٹے دن اور اندھیری راتیں ہمارے چھوٹے سے شہر کھاریاں کا رُخ کرتی تھیں۔ جب گرم رضائیاں تیار ہوتیں اور رات کو گرم کرنے کے لیے انگیٹھیاں کمروں میں سلگائی جاتیں تھیں۔ اُنہیں دنوں میں گھر میں چہل پہل ہوتے ہوئے ایک پانچ چھ سال کی بچی خاموشی کے ساتھ دیکھتی تھی کہ کس طرح جلسہ سالانہ پر جانے کے لیے ’’بستر بند‘‘ منگوائے جاتے تھے۔ یہ بستر بند میری امی جی صحن میں چارپائیوں پر کھول کر رضائیوں اور تکیوں کے ساتھ بھروا کر بند کرواتی تھیں۔ میرے لیے یہ ایک عجیب قسم کی چیز تھی جو کہ سبز رنگ کا فوجیوں کے یونیفارم سے ملتا جلتا کپڑے کا بنا ہوتا تھا اور پھر اس کو لپیٹ کر باہر سے بیلٹ سے بند کر دیا جاتا تھا۔ اور جب یہ کام ہو جاتا تو گویا جلسہ سالانہ ربوہ جانے کی تیاری مکمل ہو جاتی تھی۔ یہ 1971ءسے 1973ء کا زمانہ تھا۔ اور میری عمر پانچ چھ سال کی تھی۔ ہم انتہائی خوشی کے ساز و سامان، والدین اور بہن بھائیوں کے ہم راہ فوجیوں کی طرح مستعد ہو کر کھاریاں سے ربوہ ٹرین پر جلسہ سالانہ جانے کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ وہ سہانی یادیں اب سرمایہٴ حیات ہیں۔

پھر ربوہ ٹرین سٹیشن پر ہم اکثر اوقات رات کے اندھیرے میں پہنچتے جہاں ڈیوٹی پر مامور خدّام سائیکلوں پر موجود ہوتے اور وہ سب کی مدد کر کے لوگوں کو گھروں میں پہنچا دیتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے گھروں کے کمروں سے سامان نکال کر خالی کمرے پرالیوں (hay stacks)سے بھردیے جاتے تھے۔ پرالیوں پر بستر بند کھول کر سونے کے لیے رضائیاں تکیے نکالے جاتے تھے اور ہم بچوں کو ایک عجیب campingکی طرح کا ماحول میسّر آتا جو بہت لطف اندوز ہوتا تھا۔

رات آرام کر کےصبح سویرے نمازِ فجر کے بعد بہشتی مقبرہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا اور دیگر بزرگان کے لیے دعا کرنے جاتے۔ پھر تازہ دم ہو کر ناشتہ کے بعد سب جلسہ گاہ کی طرف رُخ کرتے جس کی طرف ربوہ کی خوبصورت گلیوں میں صاف ستھرے لباس پہنے بڑے چھوٹے جوش و خروش کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اور درود شریف پڑھتے ہوئے گامزن ہوتے۔

جلسہ سالانہ پر جانے کا ایک بڑا مقصد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیارت ہوتا تھا۔ جب حضورؒ خواتین کے جلسہ گاہ میں تشریف لاتے تو دُور سے امی جی گود سے اُٹھا اُٹھا کر دکھاتیں کہ حضورؒ کا دیدار کر لو۔ پھر مردانہ جلسہ گاہ سے لاؤڈ سپیکر پر حضورؒ کی تقاریر کی آواز سن کر دل شاد ہو جاتا کہ آواز کانوں میں پڑی ہے۔ اگر چہ کم سنی کی وجہ سے کبھی مطالب نہ سمجھ پاتی۔ جب لاؤڈسپیکر سے آواز گونجتی اور ربوہ کی پہاڑیوں سے بازگشت واپس آتی تو وہ میرے لیے بھی ایک خاص توجہ طلب بات تھی۔ کیونکہ ہر ایک چیز جو میرے مشاہدہ میں آئی وہ دماغ میں data entry کی طرح قائم ہو جاتی۔

بچپن میں بچے صرف اپنے بڑوں کے نمونہ کو ہی دیکھتے ہیں اور والدین کی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری بچوں کے دلوں میں بڑا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ جب اپنی امی جی اور خالہ جی (امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ چودھری محمد اسمٰعیل صاحب خالدؔ) کو نمازوں اور عبادتوں اور جلسے کے ماحول میں گریہ و زاری کرتے ہوئے دیکھتی تو یہ کبھی سمجھ نہ آتی تھی کہ جلسہ سالانہ پر دعائیں کرتے ہوئے امی جی کے آنسو کیوں رواں ہوتے ہیں۔ یہ تو بعد میں بڑے ہونے پر علم ہوا کہ شیدائی احمدیت کا اظہارِ محبت اشکوں کے سیلِ رواں سے ہی ہوتا ہے۔

دوپہر کے وقت ربوہ کی دھوپ میں جلسہ سنتے ہوئے مائیں اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے کھانے پینے کا کچھ سامان بھی ساتھ لے جاتیں اور خاص کر کینو اور مالٹے کی خوشبو بڑی بھلی لگتی اور اُس وقت وہاں جلسہ سنتے ہوئے کینو کھانا اور مونگ پھلی کھانا بہت مزا دیتا تھا۔

پھر ہم بچوں کو دوپہر میں بھوک لگ جاتی اور لنگر کی دال اور روٹیاں تو سب سے بڑی نعمت لگتے اور خوب کھانا بھی کھایا جاتا۔ اسی طرح آلو گوشت کا ذائقہ بھی نہیں بھولا۔ غرض روحانی مائدہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر کا کھانا ہر مہمان کی ضیافت کے لیے مہیا ہوتا۔ سبحان اللہ۔

تین دن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے اور سب جھولیاں بھر بھر کر اپنے آئندہ آنے والے سال کے لیے روحانی ذخیرہ جمع کرتے کہ یہی ہمارا سرمایہٴ زیست ہے۔ تیسرے اور آخری دن دعا کے بعد جب واپسی کا وقت آتا تو وہ بے چینی اور اُداسی میرے چھوٹے ذہن اور دل پر گزرتی کہ بیان سے باہر ہے۔ رونے کی وجہ کچھ بھی بن جاتی مگر بتا نہ پاتی کہ یہ اداسی تو جلسہ ختم ہونے کی ہے۔ دل چاہتا کہ ساری عمر اِسی طرح جلسہ پر گزار دیں۔ یہ تھیں میری جلسہ سالانہ ربوہ کی ابتدائی یادوں کی چند جھلکیاں۔

جلسہ سالانہ کے لیے کراچی سے ربوہ کے سفر

پھر ایک دَور وہ آیا جب ہم 1975ء میں ہجرت کر کے کراچی چلے گئے۔ اورہم 1980ء، 1981ء، اور 1982ء کے تین جلسوں میں کراچی سے سفر کر کے شامل ہوئے۔ وہ جلسے ہماری زندگیوں کے یادگار جلسے بن گئے۔

کراچی کی جماعت ٹرین کے کچھ ڈبے احبابِ جماعت کی سہولت کے لیے ریزرو کرواتی تھی۔ وہ بہت ہی حسین یادوں کے سفر ہوتے تھے جب دعاؤں کے ساتھ سفر کا آغاز ہوتا اور ہم اپنے والدین اور احبابِ جماعت کے ساتھ گویا دنیا کے سب سے محفوظ اور خوش قسمت ترین انسان بن جاتے۔ ان کیفیات کو احاطہ تحریر میں لانے کے لیے میرے قلم میں طاقت نہیں۔

1980ء کے جلسہ پر میری بڑی آپا کا نکاح ہوا اور اس طرح جلسہ کے مقاصد میں سے یہ بھی علم ہوا کہ یہ تو مزید خوشیاں لے کر آنے والا ہے۔ ربوہ میں اباجان نے گھر خرید لیا تھا اور ہم ’’جلسہ ہاؤس ‘‘جانے کی تیاریوں میں مگن ہو تے۔ ہمارا گھر ربوہ میں دارالصدر غربی میں تھا جہاں ہم نے تمام عزیزوں کو مدعو کیا ہوتا اور دیگر جماعت کے احباب کے لیے گھر کھلا ہوتا جتنے بھی لوگ اُس بڑے گھر میں آسکتے تھے وہ آتے اور میں اپنی کزنز اور سہیلیوں کے ہم راہ خوشی سے پھولے نہ سماتی۔ دُور نزدیک سے سب عزیز آئے ہوتے۔ پھر وہی رونقیں ہوتیں اور ہم ہوتے۔

اب جبکہ ذرا عمر میں بڑی تھی اس لیے میں نے تقاریر کو زیادہ غور سے سننے کی کوشش کی۔ اورحضرت خلیفۃ المسیح سے تعلّق باللہ اور عشقِ رسولﷺ کے قیمتی درس حاصل کیے۔

جلسہ سالانہ 1982ء

1982ء کا جلسہ سالانہ میرا پاکستان کا آخری جلسہ تھا۔ جلسہ سے پہلے میری امی جی بیمار ہو گئیں اور مجھے بڑی پریشانی ہو گئی کہ میں تو کسی صورت جلسہ چھوڑ نہیں سکتی۔ میری عمر 16؍سال ہو چکی تھی اور میرے لیے جلسہ کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے بہت دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ سے منت سماجت کی کہ امی جی ٹھیک ہو جائیں ورنہ جلسہ پر جانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ پھر اباجان نے بھی فرمادیا کہ بیٹا میں آپ کی امی جی کو بیمار چھوڑ کر جلسہ پر نہیں جا سکتا۔ پھر کیا تھا کہ میں بھی لاڈلی اور چھوٹی ہونے کی وجہ سے رونے لگ پڑی کہ جلسہ پر تو میں نے جانا ہی جانا ہے۔ لہٰذا میں نے اباجان سے اجازت طلب کی کہ آپ دونوں والدین بے شک نہ جائیں مگر ہم جماعت کے پروگرام کے ساتھ جائیں گے۔ پھر اباجان نے مجھے اور میرے بڑے اورچھوٹے بھائی کو جلسہ پر جانے کی اجازت دےدی۔ اور ساتھ کہا کہ کسی احمدی لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ۔ میرے کزن کی بیٹی کراچی میں تھی اور اُس نے کبھی جلسہ سالانہ نہیں دیکھا تھا اُن کے والد صاحب (جو رشتے میں میرے چچاجان ہیں) سے اجازت لے کر ہم چاروں بہن بھائی جماعتی انتظام کے تحت والدین کے بغیر جلسہ پر روانہ ہو گئے۔ لمبے سفر اور گھر سے دوری کے باوجود کوئی خوف و خطر نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے ہماری خود مدد کی اور ہم بخیریت ربوہ پہنچ گئے۔

جلسہ سالانہ کی رونقیں دیکھنے کے لیے اور روحانی ماحول سے فیضیاب ہونے کے لیے میرے دونوں بھائیوں نے میری بہت مدد کی۔ اور ہم ہنسی خوشی جلسہ سالانہ کی برکتوں سے مستفیض ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے روح پرور خطابات سنے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام سے ہمارے دل شاد ہوئے اور روح کو تسکین ملی۔ الغرض ہم اس روحانی دولت سے مالامال ہو کر گھر لوٹے اور امی جی کو رُو بصحت پایا تو خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ٴ شکر بجا لائے۔

انہی برکتوں اور اسی فیض کے سبب سے اللہ تعالیٰ نےہمارے کینیڈا ہجرت کے سامان پیدا فرمائے اور ہم بہن بھائی اپنے والدین کے ہم راہ 1983ء میں کینیڈا آ کر آباد ہو گئے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اطاعت کے بڑے پھل عطا کیے۔

جلسہ سالانہ کا نیا دَور

یہ میری بچپن اور لڑکپن کی حسین یادیں تھیں جن کی بنا پر میں نے اپنے بچوں میں بھی ہمیشہ جلسہ سالانہ کی محبت اور اس کی اہمیت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے 2001ء کے انٹرنیشنل جلسہ سالانہ پر بچوں کو لے کر جرمنی جانے کی توفیق ملی اور ہم نے حضورؒ کی ملاقات کا شرف پایا۔ پھر قدرتِ ثانیہ کے مظہرِ خامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک عہدِخلافت میں 2007ء میں برطانیہ کے جلسہ میں فیملی کے ساتھ شمولیت کی توفیق پائی۔

جب جلسہ سالانہ برطانیہ پر جانے کا موقع نہیں ملتا تو MTAکی برکات سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی جلسہ سالانہ بڑے اہتمام اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اُسی طرح مَیں لنگر کی دال، آلو گوشت اور گھر کی تندور کی روٹیاں بناتی ہوں اور جلسہ کے تمام اجلاسات اور انٹرنیشنل بیعت میں ہم سب شامل ہوتے ہیں۔

جلسہ سالانہ کے اس نئے دَور میں مَیں ہر جلسہ میں جلسہ سالانہ ربوہ کی سی رونق دیکھتی ہوں۔ خواہ وہ برطانیہ میں ہو یا کینیڈا یا امریکہ یا جرمنی میں۔ یہ آنحضرتﷺ اور آپ کے عاشقِ صادق حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام کا جاری فیضان ہے کہ ہم آج ہر ملک میں اور ہر قوم میں جلسہ سالانہ کی برکات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کی صداقت کہ

’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لیے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی ‘‘ آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

(مجموعہ اشتہارات، جلد 1، صفحہ 341، مطبوعہ 1984ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی میری آنے والی نسلوں کو جلسہ سالانہ میں شامل ہونے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی ہمیشہ توفیق بخشے اور ہم حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہر فرمان پر لبیک کہنے والے ہوں۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button