متفرق مضامین

جلسہ سالانہ پر احمدیوں کا بے مثال تقلیدی نمونہ

(عبدالحفیظ شاہد۔ لندن)

بچپن میں جب ذرا ہوش سنبھالا تو ربوہ کے ماحول میں بفضلہ تعالیٰ جماعتی ترقیات اورغریبانہ عمارتوں کی جگہ نئے عالیشان اور کشادہ دفاتر اور قصر خلافت اور مساجد کی تعمیر،گیسٹ ہاؤسز،لنگر خانہ جا ت وسیع و عریض قیام گاہیں اور خداتعالیٰ کے بے شمار فضلوں کا نزول اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا۔ چونکہ والد محترم مکرم عبدالسلام صاحب عملہ حفاظت خاص میں بفضل اللہ خدمت کی تو فیق پا رہے تھے اس لیے ربوہ میں بھی قصر خلافت کے بہت قریب حلقہ مسجد مبارک میں رہائش ہونے کی وجہ سے جلسہ کے ماحول کو قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا۔

جلسہ سے ایک ماہ قبل ربوہ میں ہرطرف صفائی ستھرائی کا کام شروع ہوجاتا۔گھروں میں پینٹ وغیرہ اور گھریلو ماحول کی صفائی،سردیوں کے لحاظ سے بستر رضائیوں کی دھلائی اور روئی والی مشینوں پر جا کر روئی کو اچھی طرح دھنا کر واپس لانا اور پھر گھر میں ان رضائیوں کی مکمل سلائی وغیرہ کر لی جاتی تھی۔

قصر خلافت کے قرب و جوار میں رہائش ملنا بڑے نصیب کی بات ہوتی تھی تا کہ مسجد مبارک میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی اقتدا میں نمازوں کاقیام ممکن ہو اور درس القرآن یا درس حدیث سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل رہے۔نمازفجر کے بعد چونکہ درس اردو زبا ن میں ہوتا تھا اور جلسہ کے دنوں میں خاص اہتمام ہوتا۔ عموماً حضرت مولانا عبدالمالک خانصاحب جو کہ ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ ہوتے تھے اردو نہ جاننے والوں کے لیے درس کا خلاصہ بیان کر کے ان کے ازدیاد ایمان کا باعث ہوتے۔

درس کے بعد عموماً اکثر احباب اور خاص طور پر جلسہ کے مہمان سیدھے بہشتی مقبرہ جاکرمقدس مزارات اور بزرگان سلسلہ کی قبور کی زیارت کرتے اسی طرح اپنے عزیزو اقارب کی قبروں پر جا کر دعائے مغفرت کرتے۔

جلسہ سالانہ کے پروگرام کے بڑے بڑے پوسٹر ز عموماً شروع دسمبر میں ہی مسجدوں کے داخلی دروازوں کے قریب یا جہاں نوٹس بورڈ وغیرہ ہوتے وہاں لگ جاتے تھے جس میں جلسہ کی تاریخوں کا اعلان،مقررین کے اسماء اور ان کی تقاریر کے عناوین لکھے ہوتے تھے۔ تلاوت،نظم کے آگے نام نہیں لکھے ہوتے تھے۔ یہ عام طورپر جلسہ والے دن ہی معلوم ہوتا کہ کون صاحب تلاوت اور نظم پڑھیں گے۔محترم قاری محمد عاشق صاحب،محترم حافظ مسعود صاحب سرگودھا والے اکثر خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کریم کی سعادت حاصل کرتے۔محترم چودھری شبیر احمدصاحب وکیل المال اول اور محترم ثاقب زیروی صاحب عموماً نظم پیش کرنے کی سعادت پاتے۔

جلسہ سالانہ سے قبل تیاری جلسہ کا ایک بہت بڑا اور مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔کئی ماہ قبل جلسہ سالانہ کی اجازت کے لیے حکومتی اداروں کو اور ضلعی اور لوکل انتظامیہ کو باقاعدہ لکھ کر اجازت لی جاتی اور اس کے مطابق پھر بعض دوسرے کام شروع کیے جاتے۔

مجھے یاد ہے جب جلسہ سالانہ سے قبل گھر سے گندم پسوانے کے لیے محترم ابراہیم صاحب دارالرحمت وسطی ( کچا بازار ) کی چکی پر جاتے تو وہاں آٹا پیسنے والی چکی پر کئی کئی گھنٹے جلسہ سالانہ کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں بوریا ں آٹا پیس پیس کر اور لوڈ کروا کر جماعتی نظام کے تحت دارالضیافت یا لنگر خانوں میں بھجوائی جاتیں جہاں ان کو ایک مناسب انتظام کے ساتھ جلسہ کے لیے سٹور کیا جاتا تھا۔

چنددن قبل محلہ جات میں پرالی (کسیر) پہنچ جاتی اور قصر خلافت میں مسجد مبارک کے مشرقی صحن میں جہاں کسی زمانہ میں پرانا دارالضیافت ہوتا تھا اور اس کے آثار کا اندازہ بعض پرانے مٹی کے زمین دوز تنوروں کی موجودگی سے ہوتا تھا وہاں پر حلقہ مسجد مبارک کے محلہ کی سطح پر اور گھروں میں کمرہ جات کے تناسب سے یہ پرالی تقسیم ہوتی جس پر جلسہ کے دنوں میں مہمان اپنے بستر وغیرہ بچھاتے اور چند دن قیام کرتے۔

بعض دوست احباب یا عزیز جلسہ سے قبل ہی ایڈوانس کہہ دیتے کہ پرالی ضائع نہیں کرنی ہم جلسہ کے بعد اکٹھی کر کے لے جائیں گے۔ربوہ میں ان دنوں میں گیس وغیرہ یا گیس کے سلنڈر دستیاب نہیں ہوتے تھے اس لیے لکڑی اور ایندھن کی قلت کو پورا کرنے کے لیے گھروں میں جلسہ کے بعد پرالی بھی جلائی جاتی۔عموماً بڑی توی (حالانکہ وہ دو تین تووں کے برابر ہوتی تھی) کے نیچے جلا کر ضرورت پورا کرتے تھے۔

ربوہ میں جب مہمانوں کی بہت زیادہ کثرت ہونے لگی اور بیرون پاکستان سے بھی وفود کی شکل میں مہمانان کرام کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ میں چودھری بشیر احمد صاحب (کنوینرمجلس صحت ) کے نظام کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ باہر سے آنے والوں کے استقبال اور اظہار مسرّت کے طور پر اھلا و سھلا و مرحبا وغیرہ کے آٹھ نہایت خوبصورت دروازے بنوائیں۔آٹھ کیوں یہ میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا۔اس کے علاوہ بھی اس موقع پر ربوہ کو صاف ستھرا کر کے اس میں جھنڈیا ں لگا کر اسے دلہن کی طرح سجا دیں کیونکہ یہ ایک بہت بڑا نظام ہے۔یہ ایک بہت بڑی اور عجیب انسٹی ٹیوشن ہے جو اللہ تعالیٰ کے بڑے فضلوں کا مظہر ہے…‘‘

(خطبہ جمعہ 23 نومبر 1973ء)

مسجد مبارک کے مشرقی گیٹ کے سامنے ایک خوبصورت آرائشی گیٹ تیار کیا جاتا جو کہ جلسہ پر آنے والے مہمانوں کو اھلاً و سھلاً و مرحبا کے الفاظ کے ساتھ بعض دوسری تحریروں سے مزّین ہوتا۔اسی طرح کے مختلف گیٹ مسجد اقصیٰ کے سامنے اور بسوں کے اڈا پر بھی بنایا جاتا۔ساتھ رنگ برنگی جھنڈیاں آویزاں کی جاتیں۔بعض دفعہ جامعہ کے طلباء اپنی فنیّ مہارت دکھاتے ہوئے گنبد اور دوسری محرابیں خوبصورت انداز میں آرائشی گیٹوں پر سجا کر مہمانوں کو خوش آمدید کہتے۔

مسجد مبارک کے صحن میں جو اکثر جلسہ کے ایّام میں بھرا ہوتا تھا بکثرت صفیں بچھ جاتیں اور نماز تہجّد اور نماز فجر میں نمازی باہر تک مسجد کے صحنوں میں نمازیں ادا کررہے ہوتے۔سردی کی شدّت سے بچنے کے لیے اوپر شامیانے لگائے جاتے۔

حلقہ مسجد مبارک میں رات گئے مہمان ملاقات کے لیے مسجد مبارک کے اندرونی حصہ میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے احاطہ میں لمبی قطاریں لگا کراس انتظا رمیں رہتے کہ کب پیارے آقا کا دیدار اور ملاقات نصیب ہو۔اس دوران کئی مہمان قریبی گھروں میں انتظار کا وقت گزارتے اور دوسرے مہمانوں سے تعارف حاصل کرتے۔

محترم والد صاحب کے جاننے والے مختلف علاقوں سے جلسہ سے قبل اپنی بکنگ کرو ا لیتے کہ آپ کے ہاں ٹھہرنا ہے اور مقصد وہی ہوتا کہ مسجد مبارک کے نزدیک رہ کر فیض حاصل کریں۔ سگے بھائیوں سے بڑھ کر والد صاحب کے ایک بہت ہی پیارے دوست محترم چودھری محمود احمد بھٹی صاحب سابق امیر جماعت چک 98 شمالی سرگودہا جلسہ کے دنوں میں اپنے باغات سے تازہ سنگترے اور کینو بڑی تعداد میں مہمانوں اور اہل خانہ کے لیے ہمیں بھجواتے اور خاص طور پر جلسہ کے دنوں میں اور چند دن بعد تک ان کا ملازم روزانہ فجر کے وقت گاؤں سے بھینسوں کا تازہ دودھ لے کر آتا اور اسی طرح تازہ گُڑ بھی ساتھ ہوتا اور پھر سارا دن اور رات مہمانوں کو گُڑ والی تازہ چائے پیش کی جاتی۔مہمانوں کی تعداد عموماً 50 ، 60 سے زیادہ ہی ہوتی۔الحمد للہ

ان دنوں میں جو لنگر پیش کیا جاتا تو جلسہ پر تشریف لانے والے مہمان بڑی عقیدت اور تبّرک کے طور پراسے تناول فرماتے۔ایک جلسہ کے موقع پر ہمارے ہاں ایک فیملی جو جلسہ پر تشریف لائی ان کے ایک بچہ کو پیچش کی تکلیف تھی۔جلسہ کے دنوں میں اس چھوٹے بچے نے لنگر کی سوکھی روٹی لے کر کھانی شروع کی۔تو چند گھنٹوں کے بعد اس کی یہ تکلیف بالکل رفع ہو گئی اور جلسہ کے باقی دن بہت خوشگوار گزارےاور اس کے والدین کی پریشانی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دو ر ہو گئی۔ اسی طرح جلسہ کے بعد بھی اکثر مہمان کرلنگر کی روٹیاں اور دال بطور تبرک ساتھ لے جاتے اور ہمسایوں اور دیگر احباب میں تقسیم کرتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا:

’’کھانے کے لحاظ سے بھی زمیندار بڑے مشہور ہیں۔میں پہلے بھی کئی دفعہ بتا چکا ہوں ایک زمیندار دوست جلسہ کے موقع پر میرے ہاں مہمان تھے۔اور بھی مہمان تھے جن کے لیے کھانا عموماً گھر ہی میں پکا کرتا تھا۔ایک دن انہوں نے کہا صبح لنگر سے کھانا منگوا دیں۔چنانچہ میں نے رات کا کھا نا منگوایا جو بڑی دیر سے پہنچا۔اتنے میں ہم کھانا کھا چکے تھے۔یہ زمیندار دوست بھی کھانا کھا چکے تھے۔جب لنگر کا کھانا آیا جو بائیس روٹیاں اور اس کے مطابق سالن تھا تو یہ زمیندار کہنے لگے صبح تک تو یہ خراب ہو جائے گا۔تو میں ہی کھا لیتا ہوں چنانچہ انہوں نے رات کا کھانا کھانے کے باوجود 22 روٹیاں اور سالن کھا لیا۔پس زمیندار دوست کھانے پر صبر بھی کر سکتے ہیں اور پانچ پانچ دن کا کھانا اکٹھے بھی کھا لیتے ہیں۔شہری لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 8 دسمبر 1972ء )

جلسہ سالانہ کے دوران ایک موقع پر جب روٹی بنانے والے نان بائی آپس میں لڑ پڑے تو ایک نئی مشکل درپیش آگئی۔ہمارے گھر میں اس موقع پر بھی چونکہ حلقہ مسجد مبارک کے کوارٹرز میں گیس کی سہولت میّسر تھی تو والدہ محترمہ نے بعض دوسری مہمان خواتین کے ساتھ مل کر 100 سے زائد روٹیاں پکا کر دیں جو لنگر خانہ نمبر 1 میں جاکر تقسیم روٹی کے شعبہ کے حوالے کیں۔الحمد للہ

اس اچانک صورتحال کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’یہ جماعت اتنی پیاری ہے کہ دو تین سال ہوئے جلسہ کے موقع پر آپس میں نان بائی لڑ پڑے تھے اور روٹیوں میں کچھ کمی واقع ہو گئی تو صبح کی نماز سے پہلے اطلاع مجھے ملی،میں نے صبح کی نماز کے وقت یہ اعلان کیا کہ آج ہر آدمی خواہ مہمان ہے یا مقیم ہے ایک روٹی فی کس کھائے گا اور ہم نے اپنے گھروں میں بھی یہی کیا تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ایک روٹی کھا لی بعض دوستوں نے مجھے کہا کہ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کہا کیا فرق پڑتا ہے ہم سارا جلسہ ہی ایک روٹی کھائیں گے…‘‘

( خطبہ جمعہ یکم نومبر 1974)

فرمایا : ’’…مجھ سے تو بہت سے دوستوں نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو ہم تین دن روزہ رکھ کر بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔میں نے انہیں کہا کہ نہیں روزہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کم کھانے کا ہم سے مطالبہ کر رہا ہے اور جو مطالبہ ہے وہی پورا کرنا چاہئے۔ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے جماعت کا امتحان لیا اور خدا تعالیٰ کی توفیق سے جماعت اس امتحان میں کامیاب ہوئی۔…‘‘

(خطبہ جمعہ 26 جنوری 1968ء)

خلافت احمدیہ کی برکت سے ربوہ میں گیس کی سہولت بھی میسّر ہو گئی اس طرح پھر جلسہ سالانہ کے لیے روٹی بنانے والی مشین لگانے کا فیصلہ ہوا جس کی ایک لمبی تفصیل ہے چنانچہ روٹی بنانے کے نظام کو بہترکرنے کے لیے تا کہ کوئی آئندہ دقت نہ ہوربوہ کے لنگرخانوں میں روٹی پلانٹ کی تنصیب شروع ہوئی۔

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 12؍اپریل 2008ء میں مکرم محمد اسلم صاحب نے ربوہ میں لنگرخانوں میں روٹی پلانٹ کی تنصیب کی تاریخ بیان کی ہے جس میں حضرت میر داؤد احمد صاحب (افسر جلسہ سالانہ) اور احمدی انجینئرز کی ناقابل فراموش خدمات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

موصوف لکھتے ہیں کہ 1968ء میں لنگر خانہ نمبر 1 دارالصدرمیں گیس لگ گئی تو گیس تندوروں نے کام شروع کردیا۔ لیکن یہ احساس ہوا کہ نانبائیوں کی رفتار اتنی نہیں کہ بروقت مطلوبہ تعداد میں روٹی حاصل کی جاسکے۔ چنانچہ روٹی پلانٹ کی تیاری کا کام شروع ہوا۔ اس کے لیے مکرم منیر احمد خانصاحب انجینئر اورمکرم نعیم احمد خانصاحب انجینئر نے کراچی کے ایک کارخانہ میں ابتدائی کام کیا اور ایک چھوٹی مشین تیار کرواکے ربوہ بھجوائی جو دارالضیافت میں لگائی گئی۔ اس میں ایک ایک کر کے روٹی لگائی جاتی تھی۔ روٹی مشین پر بھی لگی رہ جاتی تھی۔ پھر حضرت میر صاحب کی ہدایت پر چوڑی مشین تیار کی گئی جس میں دو قطاروں میں روٹی لگتی تھی۔ پھر اس طرح کی دس مشینیں بنوائی گئیں جو کہ لنگرخانہ نمبر 2 میں فٹ کی گئیں۔ لیکن جلسہ سالانہ پر جب ان مشینوں کو چلایا گیا اور روٹی لگانی شروع کی گئی تو معلوم ہوا کہ جس مشین کو چلایا جاتا کچھ چل کر جام ہوجاتی اور پھر گریس وغیرہ دے کر چلانا پڑتا۔ جلسہ کے بعد خاکسار نے ایک ڈرائنگ بنا کر دی اور میری گزارش پر ایک مشین میں تبدیلی کرکے دیکھا گیا تو وہ مشین قریباً بارہ گھنٹے چلتی رہی۔ چنانچہ پھر ساری مشینوں کو اُسی ڈرائنگ کے مطابق بدل دیا گیا۔

پھر ایک دوسرے کارخانہ سے بیس مشینیں تیار کروائی گئیں۔ جلسہ سے چند روز پہلے مشینیں نصب ہوگئیں لیکن جب چلائی گئیں تو ہر مشین کچھ دیر بعد جام ہوجاتی۔ کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ چار دن رات مَیں اور میرے شاگرد کوشش کرتے رہے۔ مَیں نے رات کو اُن سے کہا کہ اب سب آرام کرو اور سو جاؤ۔ وہ تو آرام سے سوگئے لیکن خاکسار جاگتا رہا۔ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے لگ گیا اور قریباً دوگھنٹے نماز میں رو کر دعا کرتا رہا کہ یہ سب کچھ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کے لیے ہے، خدایا ہماری مدد فرما۔ رات بارہ بجے مجھے نیند آگئی۔ ہم سوئے ہوئے تھے کہ بڑی زور سے آواز آئی پلیٹیں نکال دو۔ میں نیند سے جاگ اٹھا اور اپنے شاگردوں کو جگانا شروع کیا۔ اُن سے کہا کہ ہر مشین کے کنویئر سے ایک پلیٹ نکال دو۔ پہلی مشین سے پلیٹ نکال کر چلایا گیا تو وہ بالکل ٹھیک چلتی رہی۔ پھر ساری مشینوں سے پلیٹیں نکال کر چلادی گئیں۔ روٹی لگنی شروع ہوگئی۔ 6دن تک مشینیں چلتی رہیں اور کوئی بھی مشین بند نہیں ہوئی۔

جلسہ کے بعد حضرت میر صاحب نے فیصلہ کیا کہ اب مشین ربوہ میں ہی تیار کی جائے۔ اس کام کے لیے مکرم مرزا لقمان احمد صاحب لیکچرار تعلیم الاسلام کالج اور مکرم منور احمد صاحب آف لاہور (لیکچرار کالج) نے بہت اخلاص سے کام کیا۔ ہم سب نے پندرہ بیس دن میں مشین تیار کردی اور پھر دو مزید مشینیں تیار کیں۔ یہ تینوں مشینیں دارالضیافت میں اب تک چل رہی ہیں۔ اس کے بعد محترم چودھری حمیداللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ بنے تو انہوں نے مجھے بیس عدد مشینیں تیار کرنے کا آرڈر دیا۔ سامان لاہور سے خریدا گیا اور مکرم مرزا لقمان احمد صاحب لیکچرار کی نگرانی میں یہ کام لنگر3 میں مکمل کیا گیا اور اس طرح پہلی مشینوں کے نقائص بھی دُور ہوگئے۔ بعد میں خاکسار نے دو دیگر لنگروں کے لیے مزید بیس مشینیں بھی تیار کیں۔

حضرت میر صاحب کے دَور میں ہی آٹومیٹک روٹی پلانٹ کی تیاری کا کام شروع ہوچکا تھا لیکن کامیابی بعد میں ہوئی۔ خاکسار نے جلسہ سالانہ کے لیے پیاز کاٹنے کی بارہ مشینیں بھی تیار کی ہیں۔ ایسی ایک مشین جرمنی کے جلسہ والوں کو بھی بھجوائی گئی ہے۔

خاکسار نے دس سال کی عمر میں یہ کام سیکھا تھا۔ قریباً بارہ سال ملتان میں کام کرتا رہا پھر ربوہ آکر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے کارخانہ میں ملازم ہوگیا۔ جب کارخانہ کی آمد بہت کم ہوگئی تو مَیں نے خود میاں صاحب سے عرض کیا کہ مجھے فارغ کردیں، مَیں خراد چلاکر گزارہ کرلوں گا۔ لیکن آپ نے مجھے کہا تم کام کرتے رہو۔ پھر بڑی مشکل سے اجازت دی اور کہا کہ ہر ہفتہ آکر آپ کو بتایا کروں کہ میرا کام کیسا چل رہا ہے۔ پھر خدا کے فضل سے مجھے جلسہ سالانہ کا کام ملتا رہا جو مَیں نے قریباً چالیس سال تک کیا۔

جلسہ کے نظام میں خدا تعالیٰ کے فضل اور خلافت احمدیہ کی برکت اور رہنمائی سے ہر سال وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولٰی (الضحىٰ 5) بہتری پیدا ہوتی گئی۔بیرون پاکستان سے احباب وفود کی شکل میں جلسہ سالانہ پر کثرت سے آنے شروع ہوگئے۔افریقن احمدی جہاں جماعت تیزی سے خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیل رہی تھی انہیں قریب سے نظام جماعت کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملنے لگا۔اور ایک بڑی جماعت کا وعدہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا ہم اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ مختلف قوموں کے لوگو ں کو جب اسی ایک چشمہ سے پانی پیتا دیکھا تو بے اختیار دل اللہ کی حمد سے بھر گیا۔اس کا ایک بہت پیارا مشاہدہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بیان فرمایا۔

’’ دیر کی بات ہے میں اس وقت کالج کا پرنسپل اور افسر جلسہ سالانہ بھی تھا۔ہمارے ایک افریقن دوست جلسہ سالانہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔25؍ دسمبر کی شام کو وہ باہر ٹہل رہے تھے کہ اسی اثنا میں سیا لکوٹ کی طرف سے ایک سپیشل ٹرین آئی جس میں اتنی بھیڑ تھی کہ بعض لوگ دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اور وہ سب نعرے لگا رہے تھے۔ ہمارے اس افریقن دوست نے جب یہ نظارہ دیکھا تو پوچھنے لگے کہ یہ سارے احمدی ہیں؟انہیں بتایا گیا کہ ہاں یہ سارے ماشاء اللہ احمدی ہیں۔ابھی وہ وہیں کھڑے تھے کہ ایک اور سپیشل آگئی اور وہ بھی بھری ہوئی تھی اور جس میں سے دوست نعرے لگا رہے تھے۔انہوں نے جب دوبارہ یہ نظارہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرط جذبات سے کہنے لگے یہ سارے احمدی ہیں؟ اتنے زیادہ احمدی ہیں؟اب ان کا اپنے ملک میں احمدیوں کا تصور اور تھا مگر جب انہوں نے یہاں آکر دیکھا تو نقشہ ہی اور تھا۔کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس کا تجربہ جلسہ سالانہ پر آنے ہی سے ہوتا ہے‘‘۔

(خطبہ جمعہ19 اکتوبر 1973ء)

جلسہ سالانہ کے موقع پر محترم ثاقب زیروی صاحب اپنا کلام نہایت دلسوز اور اپنے منفرد انداز میں پیش کیا کرتے تھے۔1977ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مشہور زمانہ نظم ’’انجام ‘‘جب پڑھی تو اس بارہ میں خودمحترم ثاقب زیروی صاحب لکھتے ہیں :

’’یہاں تک کہ ۱۹۷۷ء میں مقتدرِ وقت پسِ زنداں پہنچ گیا۔ چنانچہ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سیدنا ناصرؔ کی اجازت سے ۷۷ء کے جلسہ سالانہ میں ۲۷؍دسمبر کو ایک نظم ’’انجام‘‘ کے عنوان سے پڑھی جس کے چند اشعار یوں تھے ؂

فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا

کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے کیوں خون ہواارمانوں کا

طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی

مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا

پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں

انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا

۱۹۷۷ء کے اس جلسہ سالانہ میں جھنگ کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے علاوہ حکومت کی طرف سے ایک فوجی کرنل صاحب بھی آن ڈیوٹی (on duty)تھے۔راولپنڈی کے ایک صحافی نے جو رپورٹنگ کے لیے بطورِ خاص آئے تھے بتایا کہ نظم پڑھے جانے کے دوران حاضرین کے بے محابا جوش وخروش اور نعرہ بازی کو دیکھ کر (جسے موصوف ’’اشتعال‘‘ سمجھتے تھے) کرنل صاحب بہت مضطرب تھے۔ انہوں نے دو ایک دفعہ بڑے اضطراب سے کہا کہ ’’مجمع قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے‘‘۔ جب تیسری دفعہ بھی انہوں نے اسی رنگ میں اپنے اضطراب کا اظہار کیا تو ڈپٹی کمشنر (جھنگ ) نے چند منٹ اور صبر وضبط سے نظارہ دیکھنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا:۔

’’آپ شاید اس جماعت کے مزاج سے واقف نہیں۔ نظم ختم ہونے کے بعد جونہی اس کے امام مائیک کے سامنے آئیں گے۔ آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے یہاں کوئی بیٹھا ہوا ہی نہیں‘‘۔

اور وہی ہوا۔ جونہی مرزا صاحب نے سورۂ فاتحہ کی تلاوت شروع کی ہر طرف ایک گھمبیر سناٹا چھاگیا۔ جس پر کرنل صاحب نے بڑی حیرت سے کہا :۔

’’یہ کس ملک کے باشندے ہیں؟ کس قدر کنٹرول ہے انہیں اپنے جذبات پر‘‘۔

اس جلسہ سالانہ پر حکومت نے جلسہ گاہ کے اردگرد خصوصی پولیس خاص طور پر متعین کی تھی۔ نظم پڑھنے کے بعد میں نے بیتابانہ معانقے کرنے والوں کے چہروں کو دیکھ کر محسوس کیا کہ جیسے میں نے اپنے دل ہی کی نہیں اُن کے دل کی بات بھی کہی ہے۔ مگر اگلی صبح ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا۔ میں جلسہ گاہ کی اسٹیج کے پاس پہنچا تو ناظر صاحب امور عامہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے مجھے ایک طرف لے جاکر بتایا کہ ایک ’’ایس پی‘‘ تمہیں رات سے ڈھونڈ رہا ہے۔ میں نے کہا ’’پٖاگل ہے اب ڈھونڈنے کا کیا فائدہ؟ نظم تو میں نے پڑھ لی۔ اِس بات کا حضور کو علم تو نہیں ہوا؟‘‘ جواب ملا۔ وہ تو میں نے بتادیا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ باجوہ صاحب نے مضطرب ہو کر حضور کو بھی پریشان کیا۔ میں نے کہا میں اسٹیج پر فلاں جگہ بیٹھوں گا اگر اب وہ ایس پی صاحب یا اُن کا کوئی ماتحت پولیس افسر ادھر آنکلے تو مجھے بلوا لینا۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ میں اسٹیج سے اُترا تو دیکھا کہ میرے ایک پُرانے شناسا ادب پرست پولیس افسر ہیں۔قریب آئے اور ہم بڑی گرمجوشی سے جو ایک دوسرے سے لپٹے تو باجوہ صاحب کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ ’’شاہ جی! اتنے سارے پھول کیسے لگ گئے؟‘‘ کہنے لگے ’’ آج ہم سات سال کے بعد مل رہے ہیں۔کیاسات سال میں مجھ ایسے لائق پولیس افسر کا انسپکٹر سے ایس پی ہوجانا اچنبھے کی بات ہے؟‘‘ اسٹیج کے پیچھے حضرت مولوی محمد دین صاحب کے لیے جیپ کھڑی تھی۔ مکرم باجوہ صاحب، حضرت چودھری احمد مختار صاحب، مولانا احمد خان نسیم، شاہ صاحب (ایس پی) اور خاکسار کو لے کر اس میں جا بیٹھے۔ اور مہمان کی چائے اور خشک میووں سے تواضع کی۔

پھر شاہ صاحب اپنے ماتحت افسروں کے ساتھ راؤنڈ پر چلے گئے اور میں بھاگا بھاگا قصرِ خلافت پہنچا کہ حضور کی پریشانی دور کروں۔ اس وقت شاید سیالکوٹ کی جماعت کی ملاقات ہورہی تھی۔ حضور نے مجھے دیکھا۔ میرے چہرے کا بغور جائزہ لیا کہ پریشان نہیں ہے۔ پھر اشارے سے اپنے پاس بلایا۔دو منٹ کے لیے ملاقات روک دی گئی۔ میں نے من وعن سارا واقعہ سنایا تو حضور اپنے مزاج اور عادت کے خلاف بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور فرمایا۔ ’’لو تمہار ا’’جہاں میں ہوں‘‘ (لاہور کا ایک مستقل کالم)بن گیا ‘‘۔ اس سے بہتر اور جامع تبصرہ اس صورت حال پر نہیں ہوسکتا۔

پھر ربوہ کے ماحول میں عام پبلک جگہوں میں ایک لمبا عرصہ تک سگریٹ نوشی بہت کم تھی۔ خاص طور ایک سگریٹ ڈھونڈنے کے لیے بھی سٹیشن یا لاری اڈا کا رخ کرنا پڑتا تھا۔بہرحال یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔اور عام لوگوں اور غیروں پر بھی یہی تاثر تھا کہ یہاں سرعام سگریٹ نوشی نہیں کی جاتی۔سمجھانے والے بھی کثرت سے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ ایک تو میں یہ کہوں گا کہ دوستوں کو سگریٹ اور حقہ پینے کی عادت نہ ہونی چاہئے۔لیکن اگر کسی کو اس کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ اسے چھوڑ نہیں سکتا تو اسے چاہئے کہ پبلک جگہوں پر یعنی بازاروں میں بر سر عام سگریٹ یا حقہ نوشی نہ کرے گو اس بات کا سارا سال خیال رکھنا چاہئے لیکن جلسہ سالانہ کے موقع پر تو خاص طور پر اس قسم کی کوئی حرکت نہ اہل ربوہ کی طرف سے ہونی چاہئے اور نہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے دوستوں کی طرف سے ہونی چاہئے کیونکہ پاکستان میں بسنے والے احمدی بیرونی ممالک کے احمدیوں کی نگاہ میں ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس میں احمدیت کا مرکز ہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ ان پر (منجملہ اہل ربوہ)زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ایک دفعہ ایک بہت بڑے ملک کے سفیر ربوہ آئے۔ انہیں کسی نے یہ بتایا تھا کہ یہاں پبلک میں سگریٹ نوشی نہیں ہوتی اس لیے جس وقت وہ حدودِ ربوہ میں داخل ہوئے انہوں نے سگریٹ پینا بند کر دیا اور پھر جتنا عرصہ وہ یہاں رہے انہوں نے اپنے کمرے سے باہر نکل کر سگریٹ نہیں پیا۔چنانچہ انہوں نے اس حد تک احترام کیا کہ جب وہ واپس جانے لگے اور اپنی موٹر میں بیٹھ گئے اور موٹر پختہ سڑک پر پہنچ گئی تو انہوں نے اپنا کوٹ اتارا اور سگریٹ کا بکس اور دیا سلائی کی ڈبیہ اپنی قمیص کی جیب میں ڈالی تو میزبان نے کہا کہ آپ نے ربوہ کا بڑا احترام کیا اب تو آپ جا رہے ہیں اس لیے سگریٹ پی لیں تو انہوں نے جواب دیا کہ جب تک میں ربوہ کی حدود سے باہر نہیں نکلوں گا سگریٹ نہیں پیوں گا۔

پس اگر ایک غیر مسلم سفیر ربوہ کو تو اس عزت کی نگاہ سے دیکھے مگر ایک احمدی مسلمان (ربوہ کا مکین ہو یا پاکستان کے کسی بھی حصہ سے آنے والا ہو)ربوہ کے اس مقام کونہ پہچانے تو یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی‘‘۔

(خطبہ جمعہ 30 نومبر 1973ء)

جلسہ سالانہ کے موقع پر اطفال و خدام،انصار،لجنہ اور ناصرات ہر گھر میں سے اپنی اپنی مجوزہ ڈیوٹی ادا کرنے کی توفیق پارہے تھے۔جس میں اجرائے پرچی خوراک محلہ کی سطح پر اور پھر اجتماعی قیام گاہوں پر،لنگر خانہ جات،استقبال،خدمت خلق،صفائی اور گویا مختلف شعبہ جات پر اکثر اہل ربوہ ڈیوٹی دینا اپنا اعزاز سمجھتے تھے۔لنگر خانہ میں روٹی پکوائی،آٹا گندھوائی،تقسیم روٹی،تقسیم سالن وغیرہ شعبوں میں بھی اپنے بزرگوں کے ساتھ خدمت کا موقع ملا۔

احمدی بچوں کا رضا کارانہ جذبہ خدمت کیسا شاندار ہے جو غیر وں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

’’پچھلے سال چونکہ جلسہ سالانہ کے موقع پر پولیس کا بھی بڑا انتظام تھا۔ایک چھوٹا بچہ جو رات کا کھانا لے کر جا رہا تھا اس سے ایک پولیس افسر نے علم حاصل کرنے کے لیے پوچھا بچے! تمہیں اس کام کے کتنے پیسے ملتے ہیں؟تو وہ ہنس پڑا۔کہنے لگا تم پیسوں کی بات کرتے ہو میں ربوہ کا رہنے والا نہیں؟میں باہر سے آیا ہوں اور بڑی سفارش کروا کر میں نے جلسہ کے کام کرنے کے لیے ڈیوٹی لگوائی ہے ورنہ باہر والوں کو عام طور پر نہیں لگاتے اور تم مجھ سے یہ پوچھتے ہو کہ مجھے پیسے کتنے ملتے ہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نےقادیان کے جلسہ کے بارہ میں فرمایا:

’’ دیر ہوئی قادیان کی بات ہے میں اس وقت ابھی بچہ ہی تھا میرا ہم عمر ایک اور بچہ مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرے میں بطور معاون کا م کر رہا تھا۔میری عمر اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ میرے بزرگ حضرت میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ جو اس وقت جلسہ سالانہ کے انچارج ہوتے تھے وہ اپنے دفتر میں میری ڈیوٹی تو لگا دیتے تھے لیکن ان کی طرف سے ڈیوٹی لگانے کا مطلب صرف یہ ہوتا تھا کہ مجھے جلسہ سالانہ کے کام کرنے کی عادت پڑجائے۔ ورنہ اس عمر میں جو عام جلسہ کا انتظام ہے اس قسم کے کام میں نہیں کرسکتا تھا۔بس کبھی وہ مجھے کوئی پیغام دے کر بھیج دیتے تھے کبھی ویسے ہی بٹھا ئے رکھتے تھے اور میں ان کو کام کرتے دیکھتا رہتا تھا۔یا ان کے کاغذ وغیرہ ٹھیک کرتا رہتا تھا۔ایک دفعہ رات کے وقت جبکہ قریباً سب مہمان کھانا کھانے سے فارغ ہو چکے تھے وہ مجھ سے کہنے لگے مدرسہ احمدیہ کے کمروں میں جا کر دیکھ آؤ۔کیا سب مہمان ٹھیک ٹھا ک ہیں ان کو کھانا مل گیا ہے یا نہیں۔آیا سب آرام سے ہیں کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں؟

چنانچہ میں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ کے دروازہ پر جب پہنچا تو اس کا دروازہ ذرا سا کھلا تھا۔ان دنوں جلسہ سالانہ کے دوران رضاکاروں کو رات کے وقت ایک دو بار چائے کی پیالی بھی مل جایا کرتی تھی۔

میں نے دیکھا کہ ایک رضا کار اپنی چائے کی پیالی لے کر جب کمرے میں آیا تو وہاں ایک مہمان بیمار پڑا تھا اسے غالباً لرزہ کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ یہ بچہ شاید مجھے بیمار دیکھ کر میرے لیے چائے لے کر آیا ہے۔چنانچہ عین اس وقت جب میں ذرا سا دروازہ کھول کر اندر جانے لگا تو اس بیمار دوست نے پوچھا میرے لیے چائے لے کر آئے ہو؟مجھے تو پتہ تھا کہ یہ فلاں لڑکا ہے (جو اس وقت مجھ سے ذرا بڑا ہوگا)اور یہ اپنے لیے چائے لے کر آیا ہے۔میں باہر کھڑا ہو گیا یہ دیکھنے کے لیے کہ اب اس کا ردّ عمل کیاظاہر ہوتا ہے۔میں نے دیکھا کہ ایک لمحہ کے لیے اس طفل نے یہ نہیں ظاہر ہونے دیا کہ وہ اپنے لیے چائے لے کر آیا ہے۔وہ فوراً کہنے لگا ہاں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔آپ یہ چائے پیٔیں۔اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کے لیے چائے لے کر آیا ہوں کیونکہ اس طرح غلط بیانی ہو جاتی‘‘۔

(خطبہ جمعہ 14 نومبر 1975ء)

فرمایا’’بہترین بیان جو جلسہ کی رحمتوں کے متعلق میرے سننے میں آیا وہ یہ ہے کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر جو ہمارے بزرگ دعا گو اور بڑا ہی اخلاص رکھنے والے ہیں14 جنوری کی صبح کو جبکہ جماعت ہائے ضلع لائل پور کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہنے لگے میں 57 سال سے جلسہ سن رہا ہوںاور کوئی ناغہ نہیں ہوا ہر سال ہمارا جلسہ ایک منزل اوپر ہوتا ہے اس سال یہ جلسہ دو منزل اوپر ہوا ہے۔ ایک منزل نانبائیوں کی وجہ سے ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ جس رنگ میں روٹی پکانے کا نظام ناکام اور ناکارہ ہو گیا تھااس کے نتیجہ میں اتنے بڑے اجتماع میں ابتری اور انتشار پید اہونا لازمی تھا اگر یہ اجتماع محض خدا کے لیے منعقد نہ ہوتا۔لیکن اس انتہائی کرائسس (Crisis)کے وقت اللہ تعالیٰ نے جس بشاشت اور اخلاص اور ایثار کا مظاہرہ کرنے کی جماعت کو توفیق عطا کی وہ اپنی ہی مثال ہے اور اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پہلی صدی ہجری کو چھوڑ کر ہماری تاریخ میں شاید ہی اس قسم کا کوئی نظارہ ہمیں ملے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 26 جنوری 1968ء)

فرمایا:’’جلسہ سالانہ کا جو نظام ہے اسے ہر سال پہلے سے بہتر ہونا چاہئے اور ہے مگر کچھ چیزیں تو ایسی ہیں جن کا علم تجربہ سکھاتا ہے۔مثلاً جب مجھے پہلی دفعہ افسر جلسہ سالانہ مقرر کیا گیا تو مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ دال کی دیگ کا نسخہ کیا ہے یعنی ایک دیگ میں دال کتنی پڑتی ہے اس میں کتنا نمک،کتنی ہلدی اور مرچ پڑتی ہے کتنا مصالحہ اور کتنا گھی پڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ اس وقت اجناس کے جو افسر تھے اور کئی سال سے کام کرتے چلے آرہے تھے۔میں نے ان سے پوچھا تم بتاؤ،کہنے لگے مجھے تو پتہ نہیں۔میں نے کہا پھر تم کیا کرتے ہو؟کہنے لگے بس دیگیں پکانے والے جو چیزیں مانگتے ہیں وہ ہم دے دیتے ہیں۔میں نے کہا یہ تو ٹھیک نہیں۔چنانچہ میں نے قادیان لکھا۔انہوں نے دیگوں کے نسخے بھجوائے تو ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ قادیان میں دال کی دیگ میں جتنا نمک پڑتا ہے اتنی ہی دال جو ربوہ میں پکتی ہے اس میں کم نمک پڑتا ہے۔یہاں کا پانی نمکین ہے یا کیا بات ہے بہرحال فرق ہے۔اسی طرح مرچ وغیر ہ میں بھی فرق نظر آیا۔یہاں کے تجربے کے مطابق یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا گیا۔پھر میں نے اخبار میں اشتہار دینا شروع کیا اور یہ سلسلہ کئی سال تک جا ری رہا کہ جس دوست کے دماغ میں جو چیز آئے وہ ہمیں لکھ بھیجے وہ اعتراض نہیں ہوگا وہ مشورہ ہوگا اور افسر کا کام ہے کہ وہ مشورہ طلب کرے اور اس سے فائدہ ٹھائے۔کسی نے لکھا آپ جو چیز نیچے بچھاتے ہیں (دَبّ) وہ بہت تکلیف دیتی ہے۔دراصل ان دنوں بُوجوں والی گھا س کاٹ کاٹ کر نیچے بچھا دیا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں اس علاقے میں چاول کی فصل نہیں ہوتی تھی۔یہ تو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو آرام پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زمین کو کہا یہاں چاول اُگا۔ورنہ پہلے تو یہاں چاول نہیں ہوتا تھا۔غرض کسی دوست نے لکھا کہ یہ تکلیف ہے کسی نے لکھا وہ تکلیف ہے کسی دوست نے مشورہ دیا کہ یہ انتظام ٹھیک ہونا چاہئے اور کسی نے کہاوہ انتظام ٹھیک ہونا چاہئے۔یہ سب مشورے بھی اسی رجسٹر میں لکھے جاتے تھے جو بعد میں ’’لال کتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئی۔

پھر اس کتاب میں Forecastکا طریقہ بھی درج کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ پچھلے سال سے دس فیصد زیادہ مہمانوں کے لیے صبح شام اتنی دیگیں زیادہ لگیں گی،اتنا آٹا زیادہ ہوگا،اتنا گوشت کا اندازہ ہے،اتنا گھی،اتنی دال،اتنا نمک اور اتنی مرچ زیادہ پڑے گی۔غرض ایک ایک چیز کے اندازے جولائی،اگست اور ستمبر میں تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘

فرمایا’’سب سے زیادہ مزیدار روٹی جو میں نے عمر میں کھائی ہے وہ تازہ گرم گرم تنوری روٹی تھی جو جلسہ سالانہ کے تنور سے نکلی اور میں نے بغیر سالن کے کھالی اور ساتھ پانی پی لیا۔ایسے بہت سے کھانے بھی میں نے کھائے ہیں اب بھی اس روٹی کی لذت دل میں سرور پیدا کرتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 14 نومبر 1975ء)

اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کا پہرہ

فرمایا:’’اناسی (79) جلسے ہوچکے ہیں۔اتنے بڑے اجتماع میں کبھی اللہ کے فضل سے وبا نہیں پھیلی۔ چاروں طرف سے دوست آرہے ہوتے ہیں اور بے احتیاطی سے وبائی امراض کے علاقوں سے بھی آجاتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو نظر آجاتا ہے کہ یہاں اللہ کے فرشتوں کا پہرہ ہے۔ پھر اتنا بڑا کھانے کا انتظام اتنی سہولت اور اتنے آرام سے ہو جاتا ہے اور کھانے والوں اورکھلانے والوں کے باہمی تعاون اور دعاؤں کے نتیجہ میں ہر دو جو اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرتے ہیں اس کی وجہ سے باہر سے آنے والے حیران ہو جاتے ہیں۔

آٹھ دس سال ہوئے ایک انگریز عورت انگلستان سے آئی تھیں وہ کہنے لگیں کہ میں واپس جا کے جب اپنے خاندان کو یہ انتظام بتاؤں گی کہ وہاں یہ ہوتا ہے اور پچاس ساٹھ ہزار مہمانوں کے کھانے کا جماعت انتظام کرتی ہے تو میرے رشتہ دار اور دوست سمجھیں گے کہ میں وہاں گرم ملک میں گئی تھی اور میرا دماغ خراب ہو گیا اور پاگلوں والی باتیں شروع کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دور بیٹھے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ دیکھنے کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1970ء)

فرمایا:’’ میں نے جلسہ سالانہ سے قبل اہل ربوہ سے کہا تھا یہ دقتیں ہیں اس لیے جلسہ پر آنے والے بھائیوں کو تم اپنے سینوں سے لگا لو اور میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ربوہ کو یہ توفیق عطا کی کہ آنے والے مہمانوں کو انہوں نے اپنے سینوں سے لگایا اور اپنے گھروں میں اُن کو جگہ دی اور بہتوں نے خلاف دستور لنگر سے کھانا بھی نہیں منگوایا بلکہ اپنے گھروں میں پکا کر اُن کو کھانا بھی دیا۔

مجھے معلوم ہوا جلسہ کے ایام میں مستورات اپنی قیام گاہوں میں آتی تھیں تو چونکہ عمارتیں تو نہیں تھیں کچھ شامیانے تھے اور کچھ خیمے تھے اس قسم کے انتظامات تھے۔ وہاں آکر وہ اپنا سامان رکھتی تھیں پھر کہتی تھیں ہم مکانوں کی تلاش میں نکلتی ہیں۔اب اگر دس عورتیں تلاش کے لیے جاتیں تھیں تو دو تین واپس آجاتی تھیں باقیوں کو مکانوں میں جگہ مل جاتی تھی اُن کو جو واقف،شناسا تھیں وہ کہتی تھیں ٹھیک ہے ہمارے پاس آجاؤ۔

غرض ایک طرف ایسا عظیم کردار اہل ربوہ نے دکھایا ہے کہ اس کرۂ ارض پر اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔‘‘

دعا ہے کہ اہل ربوہ کو اللہ تعالیٰ وہ نظارے ایک بار پھر دکھا دے ،یہ بابرکت دن اپنی آب و تاب سے لوٹ آئیں اور ربوہ کی سرزمین جلسہ سالانہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق پانے لگے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button