متفرق مضامین

اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

(امجد گکھڑوی)

دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو بہت سی حسین یادیں لے کر آتا ہے۔ آج بھی اس کی یخ بستہ ہوائیں اس مقدس بستی کی روح پرور یادوں سےمشام جاں کو معطر کردیتی ہیں اور یادوں کےدریچے کھلتے چلے جاتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے۔ ہمارا بچپن گکھڑ منڈی میں گزرا۔ دسمبر کا مہینہ قریب آتا تو جلسے کی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔ گرم کپڑوں اور بستر کا انتظام کیاجاتا۔ ہمارے والد مشتاق احمد صاحب مرحوم جو محکمہ واپڈا میں ملازم تھے سارا سال نوکری کے امور میں الجھےرہتے لیکن بچوں کی تربیت کے لیے ہرسال جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہونے کی کوشش ضرور کرتے۔ ہماری والدہ بتاتی ہیں کہ ہمارے والد جلسے پر جانے سے قبل جب اپنے محکمےسےچھٹی کے لیےدرخواست دیتے تومحکمےکی طرف سے ان کوبعض کاموں کا ٹاسک دیاجاتاکہ اگرآپ یہ کام مکمل کریں گے توآپ کوچھٹی ملے گی۔ چنانچہ والد صاحب دن رات لگاکروہ ٹاسک مکمل کرتے اورپھرجلسے پرجاتے اوریہ ہم پر ان کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں بچپن ہی سے جلسہ سالانہ کی برکات سے روشناس کروایا اور ہمارے ذہنوں میں ان یادوں کو نقش کردیا۔ خاکسار کو اپنی ہوش کی عمر میں 1980ءکے بعدکے جلسوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ان جلسوں کا ایسا روحانی اثر تھاکہ ابھی تک وہ روح پرورمناظر آنکھو ں کے سامنے آتے ہیں تو روح کی تازگی کے ساتھ ساتھ ایک اداسی بھی طار ی ہوجاتی ہے۔

نومبر کےمہینےمیں ہی جلسےکے پروگراموں پر مشتمل اشتہار مل جاتا تھا۔ چنانچہ تمام اشتہار پر نظر ڈالتےکہ حضورانور کے خطاب کے علاوہ کن علمائے سلسلہ کی تقاریر ہیں۔ لیکن والد صاحب کی ایک مستقل نصیحت یہی تھی کہ ساری تقاریر سننی ہیں اور وہاں جاکر شرارتیں نہیں کرنی۔ جونہی دسمبر شروع ہوتا جلسے کی تیاریاں بھر پور طریقے سے شروع ہوجاتیں۔ جن میں ایک اہم کام قافلے کی تشکیل تھا۔ پھر گھر میں بڑوں کی میٹنگ ہوتی اور ہم دعائیں کررہے ہوتے کہ یااللہ ربوہ جانے والے قافلےمیں ہمارا نام بھی آجائے تو کتنا اچھا ہو۔ آخر ہماری دعائیں رنگ لائیں اور ہمارا بھی انتخاب ہوگیا۔ چک پٹھان سے ہماری پھوپھو بھی اس جلسے میں جانے کے لیے ہمارے گھر تشریف لے آتیں اور یوں یہ مختصر سا قافلہ ایک روحانی مقصد کے لیے گوجرانوالہ سےبذریعہ بس روانہ ہوجاتا۔ بس کا سفر پانچ گھنٹے پر مشتمل تھا جو جلسے کے شوق میں جلد ہی گزر جاتا۔ بس جونہی دریائے چناب کا پل کراس کرتی تو اس عظیم بستی کی آمد کے تصور سے ہمارا جوش اور ولولہ اور بڑھ جاتا۔ بس سٹاپ پر رکتے تو نعرہ ہائے تکبیر اور اھلا وسھلا ومرحبا کے پرجوش نعروں سے مہمانوں کا استقبال کیاجاتا۔

ربوہ میں ہمارا پڑاؤ مکر م چودھری اللہ داد صاحب کے گھر ہوتا تھا۔ ان کاگھر مسجد مبارک کے قریب واقع کوارٹرز میں تھا۔ موصوف کو خدا کے فضل سے خلافت ثالثہ کےدور سے ہی حضورؒ کے گھوڑوں کے انچارج کے طورپر خدمت کی توفیق ملتی رہی جس کو آپ نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ تادم وفات نبھایا۔ ہماری ا ن سے بظاہر کوئی رشتے داری نہیں تھی۔ان کاتعلق میرے نانامولوی نور داد صاحب کے گاؤں اسماعیلہ ضلع گجرات سے تھا۔ یہ صر ف احمدیت کا اٹوٹ رشتہ تھاجس کی وجہ سے وہ جلسے کے مہمانوں کی خدمت کے لیے اپنی فیملی سمیت ہر دم وقف رہتے۔ مہمانوں کی آمد سے قبل اپنے گھر کاساراسامان نکال کر صحن میں رکھ دیتے۔ ویسے تو ناشتہ لنگر خانہ سے آتا تھا لیکن اس کے باوجود مہمانوں کے لیےصبح صبح پراٹھے، دیسی گھی، لسی، دہی اور چائے کی سہولت موجود ہوتی جووہ مہمانوں کی فرمائش پر پیش کرتے اور اس خدمت پر فخر کرتے۔ ان کے گھر میں کچن کے ساتھ ہی ایک بڑا سا کمرہ مہمانوں کے لیے وقف تھا جہاں پرالی بچھاکررہائش کا انتظام کیاجاتا۔ مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہوئے لوگ ایک ہی برادری کا منظر پیش کررہے ہوتے۔ یہاں ہمارے لیے بہت بڑی سہولت یہ تھی کہ مسجد مبارک نزدیک تھی جہاں پیارے آقا پانچ وقت بنفس نفیس تشریف لاکر نمازیں پڑھاتےتھے۔ جونہی اذان کی آواز سنائی دیتی ہم بھاگ کر مسجد مبارک کے بیرونی دروازے کے پاس پہنچ جاتے جہاں کسی زمانے میں حدیقہ المبشرین کادفتر ہوا کرتا تھا۔ بچوں اور بڑوں کانماز سے قبل اپنے آقا کی ایک جھلک دیکھنےکے لیے بہت رش ہوتاتھا۔ جونہی حضور نماز پڑھانے کے لیے تشریف لاتے آپ کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے اور سفر کی ساری تکان دورہوجاتی۔ پیارےآقا تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہمیں سلامتی کا تحفہ دےکر نماز کے لیے مسجد مبارک کے اندر تشریف لے جاتے۔ حضورؒ کی اقتدامیں نماز پڑھنے کی توفیق ملتی۔ نماز میں حضور کی پر سوز تلاوت کا وجد آفریں نظارہ ہوتا۔ نمازوں کے بعد مہمانوں کی خدمت میں رات کا کھانا پیش کیاجاتا۔ اس مقصد کے لیے چودھری اللہ داد کے بیٹے (حال کارکن دارالضیافت)باقاعدگی سے ڈیوٹی ادا کرتے۔ وہ روزانہ صبح اور شام مہمانوں کی تعداد نوٹ کرکے شعبہ تصدیق پرچی خوراک سے تصدیق شدہ چٹ لے کر گھر سے برتن لیتےاور قریبی لنگر خانے چلے جاتے۔ بعض دفعہ ہمیں بھی ساتھ جانے کاموقع مل جاتا۔ لنگر خانے میں دیگر میزبان بھی کھانا لینے کےلیے لمبی لائنوں میں لگے ہوتے۔ لنگر خانے کی دال نہایت لذیذہوتی جسے ہم مزے لے لے کر کھاتے تھے۔ اس دال میں وہ مزہ ہوتا جو روسٹ اور قورمہ میں بھی نہیں آتا تھا۔ مسیح موعودؑ کا یہ لنگر آج دنیا کے کئی ملکوں میں جاری وساری ہے۔ رات کے کھانےکے بعدمہمانوں کی خدمت میں گرماگرم چائے پیش کی جاتی۔ سب لوگ ایک فیملی کی طرح چائے نوش کرتے اور دن بھر کی مصروفیات پر تبصرہ کرتے۔ پھر اگلے دن کا پروگرام بنا تے۔ اگلی صبح کا آغاز نماز تہجد سے ہوتا۔ رات کےپچھلے پہر جب سخت سردی ہوتی ہمارے والد صاحب ہمیں بیدار کرتے اور ہمیں گرم کپڑوں سے کور (cover)کرنے کے بعد مسجد مبارک کی طرف چل پڑتے۔ مجھے یاد ہے کہ والدصاحب جب مسجد کے صحن کے باہر شمالی کونے کے پاس پہنچتے۔ جہاں اس زمانے میں ایک موٹر لگی ہوئی تھی آپ وضو کرنے کے لیے اپنی جیکٹ اور ٹوپی وغیر ہ اتارکر مجھے پکڑادیتے اور خود قریبی غسلخانوں کی طرف چلے جاتے۔ وضو وغیرہ کرنے کے بعد ہم مسجد کے اندر چلے جاتے۔ بعض دفعہ رش کی وجہ سےاندر جگہ نہ ملتی توہم صحن میں بیٹھ جاتے۔ پھر حافظ صدیق صاحب نماز تہجد پڑھانے کے لیے تشریف لاتے۔ خاکسار کی عمر اس وقت دس، بارہ سال ہو گی۔ مجھے وہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا جب میں ایک دن مسجد مبارک کے صحن میں نماز تہجد پڑھ رہا تھا۔ ایک بزرگ میرے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے بعد انہوں نے سلام پھیرا اور مجھے دیکھا تو نہایت شفقت اور پیار بھر ے لہجے میں مجھےتھپکی دی اور اپنی جیب سے دس روپے کاایک نوٹ نکالااور مجھے دیتے ہوئے کہنے لگے یہ لو بیٹا۔ یہ تمہارا انعام ہے اس سے دودھ پی لینا۔ بظاہریہ ایک معمولی واقعہ ہے لیکن جوں جوں میں بڑا ہوا تو اس کی حکمت واضح ہوتی گئی۔ ایک بزرگ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والے بچے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کو انعام دیا تاکہ وہ آئندہ بھی اس عادت پرقائم رہے۔ مجھےآج تک نہیں پتہ کہ وہ بزرگ کون تھے لیکن جوبھی تھےوہ جلسہ سالانہ کی برکت سے میری تربیت کرگئےجو ابھی تک میرے ذہن پر نقش ہے۔

نماز تہجد کے بعد پیار ے آقا کی اقتدا میں نمازفجر اداکرنے کی سعادت نصیب ہوتی۔ اس کے بعد ناشتہ اورچائے سے فارغ ہوکر ہم تیار ہوکر جلسہ گاہ کے لیےروانہ ہوجاتے۔ مسجد مبار ک سے دارالضیافت اور پھر یادگار روڈ سے ہوتے ہوئےاقصیٰ چوک کا راستہ پید ل طے کیاجاتا۔ مردوخواتین الگ الگ پرراستوں چلتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتے۔ راستوں میں اطفال اور خدام ڈیوٹی والےرومال پہنے ہوئے اپنی ڈیوٹی پر مستعد کھڑے ہوتے۔ جلسے کی کارروائی سے قبل سٹیج پر مختلف احباب کو نظمیں پڑھنے کی سعادت بھی ملتی۔ ہماری آواز تو اتنی اچھی نہیں تھی لیکن نظمیں سن کر ہمیں بھی شوق پید اہوا کہ کاش اس مبارک سٹیج سے ہمیں بھی نظم پڑھنے کا موقع مل جائے۔ چنانچہ ڈرتے ڈرتے ہمارے قدم سٹیج کے عقب میں ڈیوٹی پر موجود خدام کی طرف بڑھنے لگے۔سیکیورٹی والوں نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے مدعابتا یا تو پہلےتو انہوں نے معذرت کی لیکن ہمارے اصرار کو دیکھتے ہوئے ہمیں اجازت دے دی گئی اور خدا کے فضل سے ہمیں زندگی میں پہلی دفعہ جلسہ سالانہ کے سٹیج سے نظم پڑھنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ۔

جہاں تک جلسہ گاہ کا تعلق ہے اس کا ایک الگ روحانی ماحول تھا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جلسہ گا ہ کے مختلف داخلی گیٹ بنے ہوئے تھے جس میں سیکیورٹی چیک کے بعد ہم اندر داخل ہوئے تو نہایت روح پرور اور پر سرور سماں تھا۔ ایک وسیع وعریض میدان میں جابجا نرم اور گرم پرالی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ہم نےبھی ایک جگہ منتخب کرکے پرالی بچھاکر اس پر چادر بچھائی اور بیٹھ گئے۔ والد صاحب اور بڑے بھائی بھی ساتھ تھے۔ ارد گرد چاروں طرف سے لوگ جوق در جوق آرہے ہیں۔ اس منظر کے متعلق ایک مصنف نے کیاہی خوب لکھا کہ اس نے دیکھا کہ لوگ روتی آنکھوں اور مسکراتےہوئے چہروں کےساتھ آرہے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے پورے شہر میں ایک نور کی بارش ہورہی ہے۔ ہر نگاہ سٹیج کی طرف ہے۔ ابھی پیارے آقا کا قافلہ آنے والا ہے۔ آخر کار وہ روح پر ور لمحہ قریب آپہنچا جب لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور شیر خدا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابعؒ سٹیج پر تشریف لا ئے۔ یوں لگا جیسے چوھدویں کا چاند طلوع ہوگیاہے۔ پھر کیا تھا جلسہ گاہ کی فضا فلک شگاف نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ پھر تلاوت اور نظم پیش کی جاتی۔ محترم چودھری شبیر احمد صاحب اور ثاقب زیروی صاحب کی نظمیں دلوں کو گرمادیتیں۔

اس کے بعد پیار ے آقا کا ایمان افروز افتتاحی خطاب ہوتا جس سے دلوں میں حرارت ایمانی بڑھ جاتی اور نئے سرےسے پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طر ف توجہ پیدا ہوجاتی۔ حضور کے خطاب کے بعد علمائے سلسلہ کی علمی تقاریر سننے کا موقع ملتا جس میں اس وقت کے ناظر اصلاح وارشادمرکزیہ مولانا عبدالمالک خانصاحب، مورخ احمدیت مولانا دوست محمد صاحب شاہد اور مولانا عبدالسلام طاہر صاحب کی معرکہ آرا تقاریر قابل ذکر ہیں۔ نما ز ظہرو عصر کے وقفے کے دوران ہم بازار کا چکر لگاتے۔ کچھ ریفریشمنٹ بھی کرلیتے۔ نماز کی تیاری کے بعد پھر جلسہ گاہ واپسی ہوجاتی۔

شام کو مسجد مبارک میں نکاحوں کے اعلانات ہوتے جس میں خلیفہ وقت بھی تشریف لاتےاور دعا کرواتے۔ ایک اور بہت بڑی سعادت جو نصیب ہوتی وہ حضور کے ساتھ مختلف جماعتوں کی ملاقات کاشیڈیو ل کا اعلان کیاجاتا۔ جس دن گوجرانوالہ کی باری ہوتی۔ ہم بے چینی سے اس گھڑ ی کا انتظار کررہے ہوتےکہ کب وہ مبارک لمحات آئیں گے جب ہم پیارے آقا سے شرف ملاقات حاصل کریں گے اور دید کی ترسی نگاہوں کو کب اپنی پیاس بجھانے کا موقع ملے گا۔ رات کونماز مغرب وعشاءکے بعد اس دن ہماری باری تھی۔ مسجد مبارک سے قصر خلافت تک ملاقاتیوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی خاکسار بھی اپنے والد اور بھائیوں کے ہم راہ قطار میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا تھا۔ قطار آہستہ آہستہ چلتی رہی اور آخر ایک طویل اور صبرآزما انتظا ر کے بعد ہم حضورؒ کے قریب پہنچ گئے۔ ہم اس کمرے میں پہنچ گئے تھے جہاں حضورؒ رونق افروز تھے۔ ایسے لگ رہا تھاجیسے ایک نور کاہالہ ہے جس نے پورے کمرے کو منور کررکھا ہے۔ ایک مسکراتاہوا چہرہ، محبت وشفقت سے لبریز وجودہمارے سامنے تھا۔ ایسی مقناطیسیت تھی جس نے ہمیں مکمل طورپر اپنے سحر میں جکڑ لیاتھا۔ اور اس محبت بھرے حصار سے باہر نکلنے کودل نہیں کررہا تھا۔ آخرہم حقیر سا نذرانہ پیش کرکے بے حساب روحانی برکات سے جھولیاں بھر کر واپس آگئے۔ لیکن وہ محبتوں کا حصار ابھی تک ہمیں اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ جو نہ صرف محبتوں کا بلکہ عافیت کاحصار بھی ہے

مسیح الزماں نے کیا خوب فرما یاکہ

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کاہوں حصار

1983ءمیں ربوہ میں آخری جلسہ سالانہ ہواتھا۔ اس جلسہ گاہ میں بلندہونے والے نعرے اب پوری دنیامیں پھیل چکے ہیں۔ اس بستی کی رونقیں بھی ان شاء اللہ ضرور بحال ہوں گی اور تشنہ روحوں کی سیرابی کے سامان جلد پید ا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ہمیشہ اپنے اندروہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی توفیق عطافرمائے جو ان جلسوں کا اولین مقصد ہےاور ہمیں خلافت احمدیہ کے فیوض وبرکات عطافرماتارہے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button