متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان کی انمٹ حسین یادیں

(شیخ مجاہد احمد شاستری۔ ایڈیٹر البدر (ہندی) قادیان)

امام الزمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی اذن سے جماعت احمدیہ کی روحانی ترقی کے لیے جو ذرائع اختیا ر فرمائے، جلسہ سالانہ اُن میں سے ایک بنیادی ذریعہ ہے۔جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی کا ایک عظیم الشان نشان ہے۔ جلسہ سالانہ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود رکھی اور پہلاجلسہ سالانہ 27؍دسمبر 1891ء کو قادیان دارالامان میں منعقد ہوا جس میں 75 خوش قسمت مخلصین سلسلہ نے شرکت کی۔ پھر ایک اشتہار کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری جماعت کو اطلاع دی کہ ہر سال 29,28,27 دسمبر کی تاریخوں میں جلسہ منعقد ہوا کرے گا۔ بعدہٗ ہر سال جلسہ سالانہ کا مستقل انعقاد دسمبر میں قادیان میں ہونا شروع ہوا۔ 27؍دسمبر 1893ء کا جلسہ بوجوہ ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں دسمبر میں جلسہ کا انعقاد مستقل ہوگیا۔

محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جلسہ سالانہ قادیان 1995ء سے خطاب فرما رہے ہیں
محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب معائنہ انتظامات کے موقع پر نصائح فرما رہے ہیں
جلسہ سالانہ قادیان کے موقعے پر معائنہ انتظامات کا ایک منظر
جلسہ سالانہ قادیان کا ایک منظر

دسمبر کا مہینہ آتےہی ہر ایک مخلص احمدی کے دل میں جلسہ سالانہ کی یادیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اور وہ زور شور سے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ جوں جوں جلسہ کے دن قریب سے قریب تر آتےہیں یہ تیاریاں اپنے جوبن پر پہنچ جاتی ہیں۔ مخلصین فرداً فرداًاور قافلوں کی شکل میں جلسہ میں شامل ہوتے ہیں۔اخلاص اورنیک نیت سے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی اُن اغراض و مقاصد سے بھر پور حصہ پاتا ہے جو جلسہ سالانہ کے بارےمیں امام الزمان سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں۔ اور ان شاء اللہ تا قیامت پاتا رہےگا۔

جلسہ سالانہ کے حوالہ سےہر ایک مخلص احمدی کی اپنی اپنی منفرد اور حسین یادیں ہیں جن سے وہ ساری زندگی مستفیض ہوتا ہے۔ اور اپنی نسلوںکو خوشی اور فخر سے بیان کرتا ہے۔ جلسہ سالانہ قادیان کے حوالہ سے خاکسار اپنی چند انمٹ حسین یادیں قارئین الفضل کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرےگا۔

اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم احسان

خاکسار کے آبا واجداد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بنگال سے ہے۔ دادا جان محترم شیخ عبد الرؤف صاحب مرحوم نے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کی اور اس کےبعد سارے گاؤں میں شدید مخالفت کا دور شروع ہوا۔ والد محترم شیخ عبد المومن صاحب مرحوم نے اپنے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نامساعد حالات کی وجہ سے قادیان میںہجرت کر لی اور خاکسار کی پیدائش قادیان میں ہوئی۔ اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کا یہ عظیم الشان احسان ہے کہ اُس نے اس مبارک و مقدسی بستی میں پیدا ہونے اور نشوونماو تعلیم کا موقع فراہم کیا۔

میرابچپن اور جلسہ سالانہ کی یادیں

مرکزی جلسہ سالانہ کی ابتدا قادیان کی مقدس بستی سے ہوئی۔قادیان ایک وقت میں گمنام اور نامعلوم بستی تھی۔جلسہ سالانہ کی برکت سے ’’کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر‘‘والا دور ختم ہوا اور یہی مقدس بستی مرجعِ خواص بن گئی۔ہر سال جلسہ کے موقع پر اس بستی کی شان دیکھنے والی ہوتی ہے۔تقسیم ہند1947ء کے بعد بھی قادیان میں جلسہ سالانہ کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا۔نامساعد حالات کے باوجود عشاق دین اس جلسہ کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھرتے رہے۔ چنانچہ تقسیم ہند کے ابتدائی زمانہ 1951ء کےجلسہ سالانہ کے بارےمیں خبر دیتا ہوئےمشہور اخبار ہندوستان ٹائمز (کلکتہ ) نے اپنی اشاعت 25؍ دسمبر1951ء میں تحریرکیا کہ’’قادیان جو احمدی فرقہ کے مسلمانوں کا مقدس مذہبی مرکز ہے آئندہ کرسمس کے ہفتہ میں مذہبی تقاریر سے گونجےگا۔ اس موقع پر قریباً آٹھ سو زائرین جن میں سے ایک صد کے قریب پاکستانی ہوں گے اور بقیہ ہندوستان کے تمام حصوں سے آئیں گے۔جلسہ سالانہ میںشرکت کے لیے قادیان میں جمع ہوں گے۔ اس قسم کا جلسہ آج سے ساٹھ سال پیشتر ہوا جس کی ابتدا(حضرت) مرزا غلام احمد( صاحب) بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے کی۔ ملک کی تقسیم سے پہلے اس مقام میں دنیا کے تمام علاقوںسے زائرین جمع ہوتے تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد ان کی تعداد چند سو رہ گئی۔‘‘

( بحوالہ رسالہ الفرقان درویشان قادیان نمبراگست ستمبر، اکتوبر 1963ء صفحہ152)

قادیان میںہمارا مکان محلہ باب الابواب میں بر لب سڑک ہے۔ یہ مکان موجودہ فتر جلسہ سالانہ قادیان کے بالکل دوسری جانب سڑک کےساتھ ہے۔ 1947ء کے بعد ابتدائی سالوں میں جلسہ سالانہ قادیان مسجد اقصیٰ قادیان میں منعقد ہوتا رہا۔ بعد ہ فضل عمر پریس کے ساتھ جو کشادہ خالی جگہ تھی وہاں جلسہ سالانہ کا انعقاد ہونا شروع ہوا۔ اسی خالی جگہ کےایک حصہ پر اب موجودہ دفتر جلسہ سالانہ قادیان اور سٹور موجود ہے۔دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ جلسہ سالانہ قادیان کا انعقاد ہمارےگھر کےبالکل سامنے سڑک کے دوسری جانب ہوتا تھا۔

جلسہ سالانہ ہم بچوں کے لیے بہت سی انجانی خوشیاں لے کر آتا۔ کئی دن پہلے شروع ہو ئی چہل پہل، پرا لی سے بھرے گڈوں کی لمبی لمبی قطاریں اور پرالی کی سوندھی سوندھی خوشبو فضا میں ہر طرف پھیلی ہو تی۔ پرالی کے ڈھیروں پر لوٹیں لگانا، جلسہ گاہ کے سٹیج پر اچھلناکودنا ہم بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا۔ سادگی کا زمانہ تھا ہم بچوں کے لیے جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کی طرف سے سٹیج کےسامنے ہی پرالی کے اوپر دریاں بچھا دی جاتیں اور تمام بچے سامعین کی شکل میں سامنے بیٹھ جاتے۔ جہاںکسی بچہ نے شرارت کی بزرگان نے توجہ دلائی۔ ادھر بزرگان کی نظر بچی پھر وہی بچگانہ حرکتیںشروع ہو جاتیں۔اُس زمانہ اور عمر میں جلسہ سالانہ کی تقاریر کی تو سمجھ نہ آتی تھی۔ ہاں یہ پتہ ہوتا تھا کہ فلاں مولوی صاحب ہیں ان کی تقریر پر بہت نعرہ ہائےتکبیر لگتےہیں۔ اور ہم بچے اس کام میں سب سے آگے ہوتے۔جلسے کے اختتام پر جلسہ گاہ سے پرالی کی صفائی ہو تی جس کےنیچے سے پیسے ڈھونڈنا اور ساتھ ساتھ جلسہ سالانہ میں عمدہ پڑھی جانے والی نظموںکو دہرانا بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ جلسہ گاہ سے اگر کوئی چیز یا نقدی کسی کو ملتی تو وہ دفتر میں جمع کروا دی جاتی تا جس کسی کی چیز گم ہوئی ہے اُسے باحفاظت مل جائے۔

جلسہ سالانہ کی اغراض میں مختلف اقوام کا ایک جگہ جمع ہونا بھی ہے۔ جلسہ سالانہ قادیان میں یہ نظارہ بکثرت نظر آتا تھا۔ بچپن کے دنوں میں عموماً افریقہ کے احمدی احباب جلسہ سالانہ قادیان میں تشریف لاتے۔

جلسہ سالانہ قادیان کے چند مقررین کے متعلق میری یادیں

عمر کےساتھ ساتھ شعور بڑھنے لگا۔ جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد اور اہمیت واضح ہونے لگی۔ مقررین کی تقاریر کو غور سےسننا شروع کیا۔ آج بھی جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو چشم تصور میں اُس زمانہ کے جلسہ سالانہ کے مقررین کی آوازیں کانوں میں گونج رہی ہیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مرحوم و مغفور اکثر سیرت النبیﷺ کے اہم موضوعات پر تقاریر فرمایاکرتے تھے۔ خاکسار کے نزدیک آپ کی تقریر کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ بالکل آسان اور سادہ انداز میں سیرت النبیﷺ کے واقعات بیان فرماتے جو سارا سال یاد رہتے۔ دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی یہ باتیں سیدھا دل پر اثر کرتی تھیں۔

محترم حافظ صالح محمد الہ دین صاحب مرحوم کی تلاوت کا ایک مخصوص انداز تھا۔ اور عموماً اکثر آپ کی ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر تقریر ہوتی تھی۔ تشہد اور سورۃ فاتحہ پڑھنے کا ایک منفرد ہی انداز تھا، جو آج بھی کانوں میں رس گھول رہا ہے۔ہر سال منفرداور سائنسی نکات کے ساتھ، نئے نئے دلائل کےساتھ آپ انتہائی شفقت اور نرمی کےساتھ اس مضمون کو بیان فرماتے۔

محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مولف اصحاب احمد عموماً سیرت اصحاب احمد کے حوالہ سے تقاریر فرماتے۔آپ کی آواز دھیمی اور بہت نرم تھی۔ اندازِ بیان اور مضمون میں اس قدر ڈوب جاتے کے وقت کی بندش کا خیال نہ رہتا۔ اصحابِ احمد کے واقعات ایسی محویت میں بیان کرتے تھے کہ اصحاب احمد کا ایک جامع نقشہ ذہنوں میں راسخ ہو جاتا۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کی روایات کا ایک سیل رواں ہوتا جو پورے جوش سے اُبل رہا ہوتا۔

محترم مولانا حکیم محمد دین صاحب اپنی تقاریر میں اکثر عینی واقعات بیان فرماتے اور تقاریر کا عجب لطف آتا۔ ایک موقعہ پر آپ نے ایک مخالف کا ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہانت کے نتیجہ میں عبرت کا نشان بنایا۔

محترم مولانا شریف احمد امینی صاحب مرحوم میں مزاح کا بھی عنصر تھا۔ اکثر آپ اپنی تقاریر میں کو ئی لطیفہ یا ہنسی کی بات بیان کرتے جس کے نتیجہ میں ساری مجلس آپ کی طرف متوجہ ہو جاتی اور اُس کے بعد پھر آپ اُس ہی میں سے اس اچھوتے رنگ میں استدلال کرتے کہ حیرانی ہو تی تھی۔ مثلاً آج تک یاد ہے کہ ایک تقریر میں آپ نے شروع میں بیان کیا کہ’’ ایک ایکم ایک اور دو دونی چار۔ چھوٹی چھوٹی باتوںمیں بنٹ گیاسنسار‘‘ اس کے بعد آپ نے دنیا میں موجودہ تفرقہ اورا نتشار کا ذکر کیا۔ اور پھر اُس کا اسلامی حل بیان فرمایا۔

محترم مولانا بشیر احمد صاحب دہلوی کا اپنا انداز تھا۔ آپ اسلامیات کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کے بھی عالم تھے اور سنسکرت زبان جانتے تھے۔ آپ اپنی تقاریر میں سنسکرت کے شلوک بیان کرتے، جس سے تمام سامعین محظوظ ہوتےتھے۔

محترم مولانا حمید الدین شمس صاحب کی پر جوش تقاریر دسمبر کی سردی کے موسم میں جلسہ گاہ کو گرما دیتی تھیں۔ آپ کی آواز بھاری اور رعب دار تھی۔ انتہائی جوش و خروش کے ساتھ تقریر کرتے تھے۔ عموماً پنجابی زبان میں آپ کی تقریر ہوتی اور غیر مسلم حاضرین اس کو خاص طور پر پسند کرتے تھے۔

ان کے علاوہ بھی دیگر تمام مقررین بہترین انداز میں تقاریر کرتے تھے۔

جلسہ سالانہ سے قبل تیاریوں کاعالم

دار الامان قادیان احمدیہ مسلم جماعت کا دائمی مرکز ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔ امام الزمان سیدنا حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا مولد، مسکن و مدفن ہونے کی وجہ سے اس بستی کا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ تمام دنیا کے احمدیوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ جب کبھی اُنہیں موقع ملے وہ اس مقدس بستی میںآئیں اور اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوں۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میںکئی عشاق احمدیت جوق در جوق قادیان میں تشریف لاتےہیں۔

جلسہ سالانہ قادیان کی اہمیت کے حوالہ سے قادیان کے مستقل مکینوں پر بھی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جلسہ سے قبل اجلاسات کے ذریعہ ساکنین قادیان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کے حوالہ سے توجہ دلائی جاتی اور میزبانوں کے فرائض اور سلسلہ کی روایات کا ذکر کیا جاتا۔قادیان کی ظاہری صفائی کی طرف خاص توجہ دی جاتی۔ ہر گلی کوچہ میں ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی۔

بچپن کے زمانہ میں بہشتی مقبرہ میں قبروں پر دُوب کی گھاس بکثرت ہوتی تھی۔ جس کی جڑیں گہرائی تک جاتی ہیں۔ یوں تو سارا سال بہشتی مقبرہ کی صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ لیکن جلسہ سالانہ کے دنوں میں اس طرف خاص توجہ دی جاتی۔ مختلف گروپ بنا کر اُن کے ذمہ الگ قبروں کی صفائی اور خصوصاً گھا س نکالنے کا کام وقار عمل کے ذریعہ کیا جاتا۔ کیا بچہ کیا بوڑھا، جوان سب ایک جوش اور ولولہ کے ساتھ یک سوئی سے اپنے اس کام میں جُت جاتے۔ دل و جان سے صفائی تو سبھی کرتے لیکن اس میں اوّل نمبر اُستاذی مکرم عطا ءاللہ صاحب درویش مرحوم کا ہوتا تھا۔ آپ کے ذمہ جو قطعہ تھا آپ سارا سال اُس کی صفائی کرتے تھے اور صفائی کا یہ عالم ہوتا کہ گھا س کا ایک تنکا تک نظر نہ آتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو غریق رحمت کرے۔ آمین

جس جگہ آج کل دفاتر صدر انجمن احمدیہ موجود ہیں،وہاں جامعہ احمدیہ قادیان اور تعلیم الاسلام ہائی اسکول کی عمارتیں تھیں۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں اکثرمہمانان ان عمارتوں میں ٹھہرتے تھے۔ اس لیے جامعہ کے طلباء ان کمروںکو خالی کر دیتے تھے۔ دسمبر کےمہینہ کے وسط سےہی ریڑھیوں پر طلباء اپنی عارضی قیام گاہوں میںمنتقل ہونا شروع ہو جاتے اور قادیان کے گلی کوچوں میں رونق لگ جاتی۔ رات گئے تک کوئی آرہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ غرض گہما گہمی کا ایک عجیب عالم ہوتا۔

خاص جلسہ گاہ کی تیاری کے لیے گراؤنڈ میں کرسیاں لگاکر الگ الگ پارٹیشن کی جاتی تھی۔ جس کے ذمہ جو کام بھی سپرد کیا جاتا وہ انتہائی بشاشت اور شوق سے اُسے بجالاتا تھا۔ کچھ کاموں کے لیے کچھ احباب مخصوص تھے۔ یا اپنی صلاحیت کی وجہ سے اُن کے ذمہ وہ کام سپرد کیا جاتا تھا۔ لوائے احمدیت کی تنصیب اور اُس کے پہرہ کے حوالہ سے مکرم مستری منظور احمد صاحب دریش مرحوم، مکرم مستری دین محمد صاحب درویش مرحوم، مکرم محمد دین صاحب درویش مرحوم، اورمکرم خواجہ عبد الغفار صاحب وغیرہ ہر سال یہ ذمہ داری ادا کرتے۔ لاؤڈ اسپیکر کی ڈیوٹی عموماً مکرم ماسٹر ابراہیم صاحب درویش کے ذمہ ہوتی تھی۔ گھروں میں ٹھہرے ہوئےمہمانوں کو شعبہ فیملیز کی طرف سے بروقت کھانا پہنچایا جاتا۔مکرم بدرالدین عامل صاحب درویش مرحوم اس کے لیے پرچی جاری کیا کرتے تھے۔

قادیان کی مساجد اور مقامات مقدسہ کی رونقیں

1947ء سے قبل قادیان میں کئی مساجد تھیں اور ہر حلقہ کی مسجد آباد اور ذکر الٰہی سے بھری رہتی تھی۔ تقسیم ہند کے نتیجہ میں قادیان سے اکثر احمدیوں کی آبادی ہجرت کر گئی۔ قادیان کی حفاظت کے لیےحضرت مصلح موعود ؓنے درویشان قادیان کو قادیان میں آباد کیا، جنہوںنے انتہائی نامساعد حالات میں شعائرہ کی آبادی کا اہم کام سر انجام دیا۔ آج ان درویشان کی اکثریت اپنی ذمہ داری کو ادا کر کے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کو اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے۔اس وقت دو درویشان قادیان مکرم طیب علی صاحب اور مکرم محمد ایوب بٹ صاحب بفضلہ تعالیٰ حین حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور فیض میں برکت عطا فرمائے۔

خاکسار نے اپنے بچپن میں چار مساجد(مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ، مسجد ناصر آباد اور مسجد سخا، واقع کوٹھی دار السلام)کو آباد دیکھا۔ اس کے علاوہ جو مساجد تھیں آباد نہ تھیں۔ کچھ غیروںکے قبضہ میںتھیں۔

جلسہ سالانہ کے ایام میںان چاروں مساجد کی رونقیں ناقابل بیان ہیں۔ خصوصاً مسجد مبارک کی نمازوں کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے۔ادھر مینارۃ المسیح پر مؤذن نے اللہ اکبر کی صدا دی اور اُدھر نمازیوں کا جم غفیر مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ کچھ لوگ تو اذان سے پہلے ہی مسجد میں حاضر ہو جاتے تھے۔ مسجد مبارک میں کم و بیش200آدمی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن نمازیوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوتی تھی۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ مسجد مبارک میں زیادہ سے زیادہ فرض نمازیں ادا کرے۔ مسجد بھر جانے پر مجبوراً لوگ مسجد اقصیٰ تشریف لے جاتے۔

مسجد مبارک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ

مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍمُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ

ترجمہ:یہ مسجد برکت دہندہ ہے (یعنی برکت دینے والی) اور برکت یافتہ (یعنی اسے برکت دی گئی ہے) اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا۔(تذکرہ صفحہ 83)

فرض نمازوں کے علاوہ دیگر اوقات میں مسجد مبارک، بیت الدعا، سرخ چھینٹوں کے نشان والے کمرہ میں نوافل ادا کرنے والوں کی مسلسل لائن ہوتی۔ ہر ایک نمازی زیادہ سے زیادہ وقت بیت الدعا میں دعا کرتے ہوئے گزارنے کی خواہش کرتا۔ غرض جلسہ سالانہ کے ایام میں دار المسیح کی بہاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ محسوس کرنے والے اسے محسوس کرتے ہیں۔ اور بصیرت کی آنکھ رکھنے والے ان سےجِلا پاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیت الدعا کی تعمیر کی غرض درج ذیل الفاظ میں بیان فرمائی۔

’’ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں۔ستّر سال کے قریب عمر کے گزار چکے ہیں۔موت کا وقت مقرر نہیں۔خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے۔ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے۔رہی سیف سو اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں۔لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعدا پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا دے‘‘

(ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ109)

مسجد مبارک،بیت الدعا اور مسجد اقصیٰ میں صدق دل سے کی گئی دعاؤں نےبہتوں کی قسمت سنوار دی۔ اُن کی بگڑی بنا دی۔ اور یہ فیض آج تک جاری و ساری ہے۔ اور ان شاءاللہ تا قیامت جاری رہے گا۔

مزار مبارک پر دعا کا دلفریب نظارہ

قادیان سیدناحضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کا مولد و مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ مدفن بھی ہے۔ یہیں پر الٰہی بشارتوںسےتیار کردہ قبرستان بہشتی مقبرہ میںآپ کی آخری آرام گاہ ہے۔قادیان کے مقدس مقامات میں سے اہم ترین مقام بہشتی مقبرہ ہے۔اور یہی وہ جگہ ہے جس کی مٹی حضورؑکو کشف میں چاندی کی دکھائی گئی تھی اور جس کا ذکر حضورؑنے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے۔یہی وہ بہشتی مقبرہ ہے جہاں آپ کے اُن ساتھیوں کی قبریں ہیں جنہوں نے احمدیت کے شجرکی آبیاری اپنے خون سے کی۔یہی وہ بہشتی مقبرہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو یہ خوشخبری دی تھی کہ یہ اُن برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں۔یہی وہ بہشتی مقبرہ ہے جہاں قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوا۔

جلسہ سالانہ کے دنوں میں خصوصاً ہر دن عشاق احمدیت نماز فجر اور تلاوت قرآن مجید کے بعد مزا رمبارک سیدنا حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام پر دعا کرنے کے لیےحاضر ہوتے ہیں۔

جلسہ سالانہ 1991ء اور خلیفۂ وقت کا پہلی بار دیدار

جلسہ سالانہ قادیان1991ء ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔1991ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بنفس نفیس قادیان کے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرماکر اسے ایک تاریخی جلسہ سالانہ بنا دیا۔حضور کی آمد کے پیش نظر متوقع مہمانان کرام کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ اس لیے جلسہ گاہ کشادہ کرنے کی ضرورت تھی۔ مسجد ناصر آباد کے سامنے کے کھیتوں کو ہموار کیا گیا۔ اور ایک کشادہ جلسہ گاہ تیار ہوگیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی 19؍ دسمبر1991ء شام سات بجے بذریعہ ٹرین قادیان آمد ہوئی۔ 44سال کے طویل انتظار کے بعد وہ تاریخی لمحات آن پہنچے جب قادیان دارالامان کی مقدّس سرزمین پر خلیفۃ المسیح نے اپنے مبارک قدم رکھے۔ حضور کے استقبال کے لیے ہم بچے مختلف ٹولیوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اور ہر گروپ ایک دعائیہ ترانہ پڑھ رہا تھا۔ ہمارا گروپ’’ ہے دست قبلہ نما لا الہ الااللّٰہ‘‘ بلندآواز سے ترانہ کی شکل میں پڑھ رہا تھا۔ تمام اہالیان قادیان کی آنکھیں اپنے پیارے آقا کے دیدار کے لیے ترس رہی تھیںان کی محبت ووارفتگی قابل دید تھی۔ حضور ؒمزار مبارک پردعا کے بعد پیدل دار المسیح کی طرف روانہ ہوئے۔ سب مشتاق آنکھوںنے خلیفۂ وقت کا دیدار کیا۔ یہ زندگی کی انمول گھڑی تھی جب پہلی بار خلیفہ وقت کو اپنی آنکھوںسے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔حضور ؒکی اقتدا میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی، حضور ؒکا گلی محلوں میں دیدار ہمیشہ کے لیےذہن میں نقش ہو گیا۔

تقسیم ہند کے بعد پہلی بار خلیفۂ وقت قادیان تشریف لائے تھے۔ ہندوستان کے احباب جماعت میں سے اکثر ایسے تھے جو پہلی بار کسی خلیفۂ وقت سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل کر رہے تھے۔ غریب اور مفلس لیکن ایمان و اخلاص کی دولت سے مالا مال احمدی ہندوستان کی دور دراز جماعتوں سے پیارے آقا کی ایک جھلک پانے کےلیے تشریف لائے تھے۔ ہر ایک احمدی کا گھر ایک چھوٹی قیام گاہ کا نظارہ بن گیا تھا۔ ایک ایک گھر میں بیس بیس، تیس تیس مہمان سمو گئے۔ میزبان خندہ پیشانی سے ہر ایک کا مسکرا کر استقبال کر رہے تھے۔ خود ہمارے مکان میں تیس سے زائد مہمان تشریف لائے۔ جس کو جہاں جگہ ملتی وہیں سو جاتا۔ یہاں تک کے سٹور روموں اور بڑی پیٹیوں کے اوپر بھی لوگ آرام سے سو گئے۔ یہ صرف ہمارے گھر کا حال نہ تھا بلکہ اکثر گھروں کی یہی حالت تھی۔

جلسہ سالانہ کے تینوں دن جلسہ گاہ وقت سے بہت پہلے بھر گئی تھی۔سب کی خواہش تھی کہ اسٹیج کے قریب سے قریب تر جگہ ملے تا پیارے آقا کا دیدار بآسانی کر سکے۔ حضور کے خطابات جہاںاپنوں کے لیے ایمان و عرفان میںاضافہ کا باعث تھے وہاں غیر مسلم شرکاء نے بھی اس سے بھر پور استفادہ کیا۔ جلسہ سالانہ قادیان1991ء میں ناصر علی عثمان صاحب کی آواز میں پڑھی جانے والی نظم’’ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی توگھر تھا‘‘ جلسہ گاہ میں سننے کا سماں آج بھی من و عن حافظہ میں موجود ہے۔

ہندوستان کی سرزمین پر حضور ؒکی پرسوز دعائیں رنگ لائیں اور ہندوستان میں ایک عظیم روحانی بیداری پیدا ہو ئی۔ آسمان سے رحمتوں کی بارشیں ہونے لگیں۔اور ہر سال احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوگیا۔نئے احمدیوں کے وفود قافلہ در قافلہ جلسہ سالانہ قادیان میں آنے لگے اور اب تو قادیان کا جلسہ سالانہ سرزمین ہند پر مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع بن چکا ہے جس کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور روحانی کیفیات بھی۔

جلسہ سالانہ 2005ء میں پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قادیان تشریف آوری

2005ء کا جلسہ سالانہ پیارے آقاحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قادیان تشریف لانے کی وجہ سے یادگار جلسہ سالانہ بن گیا۔2005ء کے وسط سے ہی یہ اطلاع مل رہی تھی کہ پیارےآقا اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان تشریف لائیں گے۔ جلسہ سالانہ کی تیاریاں بھی اسی مناسبت سے پچھلے سالوں کےجلسوں سے بڑھ کر تھیں۔ جیسے جیسے دسمبر کا مہینہ قریب آنا شروع ہوا قادیان کے ہر اک مکین نے اپنی تیاریوں کو تیز کر دیا۔آخر 15؍ دسمبر2005ء شام 4؍ بجکر 50 منٹ وہ تاریخ ساز لمحہ آ پہنچا جب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قادیان کی بستی میں داخل ہوئے اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک قدم پہلی بار قادیان کی سر زمین پر پڑے۔ منارۃ المسیح، مساجد،مرکزی عمارتیں، گھر،گلی کوچے سب حضور کی آمد کی خوشی میں جگمگا رہے تھے۔ پوری بستی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ہر احمدی بچے بوڑھے مرد و عورت کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ حضور قادیان رونق افروز ہونے کے بعد سیدھے بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے اور مزار مبارک پر لمبی اور پر سوز دعا کی اور پھر پیدل ہی دارالمسیح تشریف لائے۔ راستہ میں دونوں طرف احباب قادیان پیارے آقا کی جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ خواتین تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں جمع تھیں۔ حضور انور خواتین کی طرف بھی تشریف لے گئے جہاں سے پھر دارالمسیح تشریف لے گئے۔

جلسہ سالانہ کے مقررہ ایام26، 27اور28؍دسمبر تھے۔ جلسہ سالانہ سے قبل قادیان کے احباب کادار المسیح میں پیارے آقا سے فیملی ملاقاتوں کاسلسلہ جاری تھا۔ تمام اہالیان قادیان کی خوشی ناقابل بیان تھی۔ دوپہر تک دوستوں میں یہ باتیں ہوتیں کہ آج کن خوش نصیبوںکو ملاقات کو موقع مل رہاہے۔ جب کہ شام کو اس بات پر گفتگو ہوتی کہ حضور انور نے اس فیملی کو اس طرح پیار سے نواز اور دعائیں دیں۔

اپنی باری کاانتظار قادیان کا ہر ایک مکین کر رہا تھا۔ اچانک ایک دن انچارج صاحب شعبہ ملاقات کی طرف سے اطلاع ملی کہ کل آپ کی فیملی کی حضور انور سے ملاقات ہے۔ اس خبر کا ملنا تھا کہ دل خوشی سے جھومنے لگا۔ اور تمام گھر والوںنے مل کر فہرست بنائی کہ حضور کی خدمت میں ان ان امور کے بارے میں دعا کی درخواست کریںگے۔ اگلے دن جب مقررہ وقت پر ہم حضور انور کے دفتر میں داخل ہوئے تو حضور پُر نور کا مبارک چہرہ دیکھتے ہی سب کچھ بھول گئے۔ اور اُس وقت جویاد آیا اُس کے بارے میںدعا کے لیے درخواست کی۔ خاکسار کو اس بابرکت موقعے پر حضور انور نے از راہ شفقت ’الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ‘ کی ایک متبرک انگوٹھی عنایت فرمائی۔

قادیان کے احباب کی یہ خوش قسمتی رہی کہ حضور انور نے اپنے دفتر میں ملاقات کا شرف عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں میں بنفسِ نفیس تشریف لے جا کر بھی ان کی خیر و عافیت دریافت کی۔ فو ٹو کھنچوائے۔تحفے تقسیم فرمائے۔

محبت کے ان نظاروں میں عجیب عجیب نظارے بھی ہوئے۔ ہر گھر یہ چاہتا تھا کہ حضور ان کی فیملی کے ساتھ فوٹو کھنچوائیں، ان کی اشیاء کو متبرک فرمائیں اور ان کے گھروں کے کمرے کمرے کواپنی برکتوںسے بھر دیں۔ لیکن یہ سب کچھ اتنی جلدی ہو جاتا کہ حضور انور کو گھر سے واپس جاتے ہوئےدیکھ کراہلِ خانہ بس ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہی رہ جاتے۔

ہمارے مکان میں حضور انور تشریف لائے اور الحمدللہ ہمیں حضور انور کےساتھ فیملی تصویر بنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس موقع پر والدہ محترمہ نے حضور انور کی خدمت میں درخواست دعا کی کہ چھوٹا بیٹا اب بر سر روزگار نہیں ہے۔ حضور دعا فرمائیں کہ اسے روزگار مل جائے۔ حضور کی دعاؤں کے طفیل چھوٹے بھائی کو اگلے سال ہی ملازمت مل گئی۔

ایسی کہانیاں قادیان کے ہر گھر کی میراث ہیں۔ بعض دفعہ کوئی ممبر تصویر کھنچوانے سے پیچھے رہ جاتا تو حضور اس کی شکل دیکھ کر ہی پھانپ جاتے اور فرماتے آؤ فوٹو کھنچوا لو۔ حضور ہر ایک کی دلداری فرماتے اور ہر ایک پر محبت کے پھول لُٹاتے۔

الحمد للہ ہم کتنے امیرہیں اور کتنا گھنا سایہ ہے ہمارے سروں پر۔ قادیان کے احباب کو اس روز احساس ہوا کہ مرکز میں رہائش رکھنے کا ان کو کتنا بڑا انعام ملا ہے،کتنا بڑا احسان مالک حقیقی نے کیا ہے۔ ہم اس پر جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔

اسی طرح ہندوستان کے غریب احمدیوں کی بھی خوش قسمتی تھی کہ ہر ایک نے کئی کئی بار حضور انور سے ملاقات کی۔ دفتر میں ملاقات، مساجد میں ملاقات، بہشتی مقبرہ میں ملاقات، ہزاروں احمدی جو کبھی بھی لندن نہیں جا سکتے تھے دیوانہ وار کسی بھی طرح جوق در جوق قادیان تشریف لائے اور اپنے پیارے امام سے ملاقات کی۔

جلسہ گاہ کے لیے نئی کشادہ جگہ تیار کی گئی تھی۔ تینوں دن جلسہ سالانہ الحمد للہ بخیر و خوبی گزرا۔

ہمارے پیارے امام نے قادیان سے تشریف لےجاتے ہوئے اور بعد میں اپنے خطبات و خطابات میں اہالیان قادیان سے جو توقعات وابستہ کی ہیں اور ہم پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں ہمیںاور ہماری نسلوں کوچاہیے کہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔

احباب جماعت اور بھارت کےاحمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایاتھا:

’’ ایک احمدی جب یہاں آیا اور یہاں رہا تو مَیں یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عشق ہی انہیں یہاں کھینچ لایا ہو گا۔ آپ سے مَیں یہی کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ایک احمدی پر اس بستی کا یہی حق ہے اور ایک احمدی جو اس بستی میں رہتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ صرف دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائیں۔ درویشوں کی نسلیں بھی اور نئے آنے والے بھی، سب یہ بات یاد رکھیں۔ خدا سے ایسا تعلق قائم ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے۔ یہاں باہر سے آنے والے احمدیوں کو بھی اور غیروں کو بھی نظر آئے اور یہاں رہنے والے غیروںکو بھی نظر آئے۔ اور وہ تب نظر آئے گا جب ہر ایک میں دعائیں، استغفار اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف خاص تو جہ پیدا ہوگی۔‘‘

پھر فرمایا

’’ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ نیکیوں پر قائم رہنے، دعائوںپر تو جہ دینے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ اور صرف منہ سے ہی استغفار نہ کرتے رہیں بلکہ اس مضمون کو سمجھ کر استغفار کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ واسطہ دے کر استغفار کرنے والے ہوں کہ اے اللہ! ہم کمزور ہیں،تیرے مسیح موعود ؑکی اس بستی میںرہنے والے ہیں، ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی فرما۔ہمیں اس بستی کا حق ادا کرنے والا بنا۔پہلے سے بڑھ کر ہم تیرے مسیح کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں، اس کو آگے پہنچانے والے ہوں۔ اور پیغام کو آگے پہنچانا بھی ہر احمدی کا فرض ہے۔‘‘

(بحوالہ خطبات مسرور جلد3 صفحہ723 اور729)

حضور انور کے مبارک قدموں کےوارد ہونے اور آپ کی بابرکت رہ نمائی کے طفیل قادیان ہر لحاظ سے ترقیات کی نئی منازل طے کررہا ہے۔ ہر میدان میں ایک نیا تغیر اور تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ ہر چڑھنے والا دن اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ

’’ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے‘‘

(دافع البلاء روحانی خزائن جلد18صفحہ231)

الحمد للہ خاکسار کوجلسہ سالانہ قادیان میں مختلف حیثیتوںسے خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر مزید مقبول خدمات بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ احمدیت کی صداقت کابھی ثبوت ہے اور شان احمدیت کا آئینہ دار بھی۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ایک شجرۂ طیبہ کی طرح اکناف عالم میں پھیلاتا چلا جائے اور اس کی برکتیں ساری دنیا پر محیط ہوجائیں۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button