متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان 2005ء۔ تعلق باللہ اور محبت امام کے پاکیزہ نظارے

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر افتتاحی خطاب میں فرمایا تھا:

’’قادیان آنے سے متعلق یہ پہلا سفر ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ جب دوبارہ خدا مجھے یہاں لے کے آئے گا اور آئندہ خلفاء کو بھی لے کے آئے گا اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان آئندہ خلفاء کی راہ میری آمد سے ہموار کردی جائے گی یا یہ توفیق کسی اور خلیفہ کو ملے گی۔ لیکن یہ تو مجھے کامل یقین ہے کہ جس خدا نے حضرت اقدس مسیح موعوؑد کو آخرین کا امام بنا کر بھیجا تھا وہ ضرور اپنے وعدے سچے کردکھائے گا اور ضرور بالآخر خلافت احمدیہ اپنے اس دائمی مقام کو واپس لوٹے گی۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 30؍دسمبر2005ء)

1991ء کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2005ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت فرما ہوئے۔ یہ مضمون اسی کی یادوں پر مشتمل ہے۔

جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کو جو چیز ہر دوسرے جلسہ اور اجتماع سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی للہیت اور خدانمائی ہے۔ یہ مجمع خدا کے لیے ہے اور خداتعالیٰ کی عظیم برکات اور نشانات کا جلوہ گاہ ہے۔ اس کا ہر بول، اس کا ہر سانس اور اس کا ہر نظارہ انسان کو خدا کی یاد دلاتا ہے اور اس کے قرب میں آگے بڑھاتا ہے۔

2005ء کا جلسہ سالانہ قادیان ان تمام ارفع مقاصد کا بھرپور خزانہ تھا۔ قادیان تو اپنی ذات میں حق نمائی کا ایک مصفٰی آئینہ ہے اور پھر جب خدا کا مقدس خلیفہ ہزاروں برکتوں کے ساتھ جلوہ گر ہو تو خوش نصیبی اور خوبیٔ قسمت پر ناز کیوں نہ کیا جائے۔ اس لیے شاملین جلسہ نے اپنے محبوب امام کی سرکردگی میں محبت مولیٰ میں بہت لمبے اور طویل سفر کیے۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف تو تعلق باللہ کی پاکیزہ خوشبو ہر سمت پھیلتی رہی اوردوسری طرف امام وقت سے فدائیت اور محبت میں نئے اضافے ہوئے۔ یہ مضمون انہی نظاروں کی چند جھلکیاں پیش کرنے کے لیے سپرد قلم کیا جارہا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میں نماز اداکرنے کا شوق اور ولولہ محبت الٰہی اور محبت امام کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ حضور جب قادیان تشریف لائے تو مسجد مبارک میں نمازیں پڑھاتے رہے۔ مگر مہمانوں کی تعداد بڑھی تو مسجد مبارک خواتین کے لیے مختص کردی گئی اور حضور 21؍دسمبر 2005ء سے مسجد اقصیٰ میں نمازیں پڑھانے لگتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ فجر کے وقت نمازیوں سے پُرہوچکی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کا اندرونی حصہ اور صحن بھر گیا ہے تو احباب کو چھت پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اب صحن کی سیڑھیوں کے سامنے والی جگہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ احمدیہ مرکزی لائبریری کا برآمدہ اور صحن دفتر محاسب کے ساتھ والی کھلی جگہ چھلک گئی ہے۔ اس کے بعد احباب مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والی گلیوں میں چادریں اور جائے نماز بچھا لیتے ہیں۔ کئی دفعہ کالا گیٹ یعنی مقامات مقدسہ میں داخلہ کا مرکزی دروازہ بند کردیا گیا تو اس کے باہر صفیں بننی شروع ہوجاتی ہیں۔ جو ایک طرف احمدیہ چوک اور دوسری طرف جامعہ احمدیہ کے انتہائی جنوبی کنارہ تک پہنچ گئی ہیں۔ سخت سردی میں ٹھنڈے فرش پر بعض لوگ بغیر کسی چادر یا کپڑے کے نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ سب کیفیات ان دلوں کے سجدہ ریز ہونے کی مظہر ہیں اور یہی احمدیت اور اس کے جلسہ سالانہ کا مقصود عین ہے۔

یہ کیفیت صرف فجر میں ہی نہیں، ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں میں بھی تھی۔ ایام جلسہ میں حضور ظہر و عصر کی نمازیں تو جلسہ گاہ میں جمع کراتے ہیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں مسجد اقصیٰ میں ادا کرنے کا پروگرام تھا مگر بعض ایام میں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے یہ نمازیں بھی جلسہ گاہ میں پڑھائیں۔

نمازیوں کی کثیر تعداد اور مسجد اقصیٰ کی تنگ دامانی کی وجہ سے انتظامیہ کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ احباب اپنی اپنی قیام گاہوں کے علاوہ مسجد ناصر آباد، مسجد دارالانوار، مسجد ننگل، مسجد نور، مسجد دارالرحمت اور مسجد دارالبرکات میں بھی نمازیں ادا کرسکتے ہیں مگر حضور کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذوق احباب کو دور دور سے کھینچ کر لے آتا ہے۔ بعض قیام گاہیں مرکزی علاقہ سے بہت فاصلہ پر تھیں۔ مجھے اسلام آباد پاکستان کے ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اس دوری کو معذوری نہیں بننے دیا اور انہوں نے قیام قادیان کے دوران تمام نمازیں حضور کے پیچھے اداکیں۔

اس ضمن میں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مسجد اقصیٰ کے اندر جگہ لینے کے لیے احباب نماز سے 2,2 گھنٹے پہلے پہنچ جاتے تھے اور عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔

23؍تا 30؍دسمبر مسجد اقصیٰ میں اجتماعی نماز تہجد ادا کی گئی جس کی امامت کی سعادت مختلف احباب کو ملی۔ نماز تہجد قریباً 5تا 6 بجے ہوتی ہے مگر احباب اس میں شرکت اور اگلی صفوں میں بیٹھنے کے لیے 3 بجے کے قریب پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور خدا کا گھر آنسوؤں کے تاروں سے جگمگا اٹھتا ہے۔ اکثر احباب پوری باقاعدگی سے اس اجتماعی نماز میں بھی شرکت کرتے رہے ہیں۔ نماز فجر کے بعد مختصر درس القرآن ہوتا تھا جس کے متعلق حضور کا ارشاد تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ یا مصلح موعودؓ کی تفسیر پر مشتمل ہو۔ اس عاجز کو بھی ایک دن حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس پڑھ کر سنانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

احباب بڑے ذوق سے یہ درس سنتے ہیں اور اس کے بعد تمام راستے بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ صبح سویرے ہجوم عاشقاں حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک کے اردگرد جمع ہوجاتا ہے اور رحمتوں سے اپنا دامن بھرتا نظر آتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آغاز میں حضور معمول کے ساتھ عصر کی نماز کے بعد بہشتی مقبرہ پیدل تشریف لے جاتے۔ احباب حضور کی رہائش گاہ سے لے کر بہشتی مقبرہ کی چاردیواری تک دو رویہ قطاروں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے نہایت بے قراری سے انتظار کرتے ہیں۔ حضور ہاتھ اٹھا کر سلام کا جواب دیتے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ نعروں کی گونج سے پتہ لگ جاتا ہے کہ حضور کس طرف سے گزر رہے ہیں۔ تاہم حضورانور نے بہشتی مقبرہ کے اندر نعرے لگانے سے منع فرمادیا تھا۔

اس موقع پر خلافت سے محبت کے ایمان افروز نظارے دکھائی دیے۔ مرد، عورتیں اور بچے انتہائی سکون اور تنظیم کے ساتھ انتظار کرتے۔ بہتوں کے ہاتھ میں کیمرے ہوتے تھے اور وہ اونچے ہو کر حضور کا دیدار کرنے اور تصویر بنانے کے لیے کوشاں ہوتے۔ صرف حضور ہی چاردیواری کے اندر تشریف لے جاتے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے جبکہ دیگر احمدی اجتماعی دعا میں شریک ہوجاتے اور پھر حضور کی واپسی پر وہی منظر دہرائے جاتے۔ بہت سے احباب فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور یہ منظر بہت ہی بھلا لگتا۔ قیام گاہوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی کئی اطراف سے قرآن پڑھنے کی آواز آتی تو دل سرور سے بھر جاتے۔

بیت الدعا تو ہمہ وقت عاشقوں کی بانہوں میں رہا۔ اس میں دعا کی خاطر عورتوں اور مردوں کے اوقات مخصوص کردیے گئے ہیں اور کثرت ہونے پر منتظمین نے وقت بھی کم کردیا ہے۔ مگر اس میں جانے کے امیدوار لمبی قطاریں لگا کر بعض دفعہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ بیت الدعا سارا دن اور ساری رات آباد رہتا ہے۔ کوئی وقت بھی ایسا نہیں جب اس کا فرش آنسوؤں کی سوغات سے خالی ہو۔ منتظر لوگ اپنی اپنی جگہ پر نوافل پڑھ رہے ہیں۔ دعائیں کررہے ہیں۔ بظاہر خاموشی ہے مگر اندر طوفان مچل رہے ہیں۔ کمرے کے اندر سے آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ یہی چیخیں دنیا کے امن و سکون کا ذریعہ بننے والی ہیں۔

بیت الفکر اور سرخی کے چھینٹوں کے نشان والے کمرے کا بھی یہی حال ہے۔ احباب آتے ہیں اور نذرانہ دل و جان پیش کرکے آنسو پونچھتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں مگر اتنے ہی فگار سینے اور آجاتے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح سے ملاقات کا اشتیاق بھی دیدنی تھا۔ حضور جب قادیان تشریف لائے تو آغاز میں دفتر میں ملاقاتیں کرتے رہے اور کچھ وقت بھی دیتے رہے مگر حاضری مسلسل بڑھتی ہے تو 24؍دسمبر کو حضور مسجد اقصیٰ کے اندر تشریف لاتے ہیں اور کئی گھنٹے مسلسل کھڑے ہو کر احباب کو شرف مصافحہ بخشتے ہیں۔ فوٹو گرافر ساتھ ساتھ تصویریں اتارتے ہیں مگر اس سے پیاس تو اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اور اس کے اردگرد ملاقات کے خواہشمندوں اور اجازت مل جانے والوں کا ایک تانتا بندھا رہتا۔ یہ فیملیز ملاقات کرکے باہر آرہی ہیں۔ بچوں نے ہاتھوں میں پین اور چاکلیٹ پکڑے ہوئے ہیں اور خوشی ان کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہے۔

حضور کی مصروفیات کا عالم بھی عجب ہے۔ ڈاک انتہائی تیزی سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ باہر سے آنے والی ڈاک کے علاوہ مقامی خطوط بھی بے انتہا ہیں۔ بیسیوں لوگ روزانہ دعا کے خطوط بھی بھیج رہے ہیں۔ حضور کے ساتھ کھینچی ہوئی تصویریں بھی تیار ہورہی ہیں۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے عملہ کے کچھ لوگ ڈاک اور تصاویر کی واپسی کے لیے وقف ہیں۔

پاکستان سے 5 ہزار کے لگ بھگ افراد کو قادیان جانے کا موقع ملا مگر اس سے کم ازکم 3گنا لوگ تو سرکاری مصلحتوں کا شکار ہوگئے اور لاکھوں دل اپنے امام کی محبت میں تڑپتے رہے اور تڑپ رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن نے کچھ آگ بجھائی مگر اس سے زیادہ بھڑکا دی ہے۔

پاکستان کے علاوہ دنیا کے 54کے قریب ممالک کے احمدی اپنے دائمی مرکز اور محبوب امام کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ حضور نے پاک و ہند کے مہجوروں کا خیال کرتے ہوئے اعلان فرمایا تھا کہ حضور امریکہ اور یورپ وغیرہ سے آنے والے احمدیوں سے الگ ملاقات نہیں کرسکیں گے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے دور دراز علاقوں سے پُرخلوص لوگ آئے۔ قادیان تو ایک سرحدی قصبہ اور ملک کے کنارے پر واقع ہے۔ اس لیے جماعتیں بہت دور دراز سے آتی ہیں۔ سفر کی مشقتیں، راستے کے اخراجات سب کے لیے ممکن نہیں مگر یہ تو دل کے جذبوں اور سچے عشق کی باتیں ہیں، جو کشاں کشاں ان کو در محبوب پر لیے آتی ہیں۔

مختلف علاقوں سے آنے والے کتنے ہی نومبائعین ہیں جن کو مخالفین نے گذشتہ سالوں کی طرح مارا پیٹا، قید کیا، محاصرہ کیا اور روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر یہ دل والے کہیں نہایت حوصلہ کے ساتھ علی الاعلان اور کہیں حکمت اور تدبیر کے ساتھ چھپ چھپا کر قادیان آگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو واپسی پر کامل خیریت اور سلامتی کے ساتھ لے جائے۔

انتہائی دور افتادہ علاقوں میں مالدیپ کے قریب جزائر سے بھی عشاق آئے جن کا بحری سفر ڈیڑھ دن کا اور ٹرین کا سفر 3 دن کا تھا۔ پھر بس کا 2گھنٹے کا سفر تھا۔ بعض علاقوں میں اتنی سردی کا تصور بھی نہیں کیاجاتا۔ ان لوگوں کے پاس ٹھنڈ سے بچاؤ کے پورے کپڑے بھی نہیں۔ بعض کو رہائش بھی خیموں میں ملی ہے جو رات کو یخ بستہ ہو جاتے ہیں مگر ان کے ایمان کی گرمی ہر برف کو پگھلا دیتی ہے۔ ان سے مل کر اور ان کے حالات سن کر آنکھیں چھلکے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ مگر ان کی آنکھیں خوشی سے دمک رہی ہیں۔ اپنے مرکز اور امام کو دیکھ کر شاداں و فرحاں ہیں۔ اڑیسہ، کیرالہ اور دوسری ریاستوں کے ساتھ ساتھ کشمیری بھی لمبے چغے پہنے نظر آتے ہیں۔ یہ سب لوگ جلسہ کے انتظامات میں ہاتھ بٹارہے ہیں۔ رنگ الگ، زبانیں الگ، تمدن الگ مگر مرکز توحید پر سب اکٹھے ہیں۔ لوگ بھاگلپور سے ایک ہزار کلومیٹر، حیدرآباد، یادگیراور بنگلور سے اڑھائی ہزار کلومیٹر، کالیکٹ اور Payangadiسے تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے قادیان پہنچے ہیں۔

کئی معذور ایسے بھی ہیں جو چلنے پھرنے سے عاری ہیں ان کے ساتھی ان کو وہیل چیئر پر قادیان کی سیر کرارہے ہیں۔ مصنوعی ٹانگوں والے بھی ہیں جنہوں نے معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ نابینے بھی ہیں۔ ایک سے جب کہا گیا کہ تم حضور کو کیسے دیکھو گے تو اس نے کہا میں ان کی آواز تو سن سکتا ہوں وہ سن کر میرے اندر گرمی آجائے گی۔ ایسے بزرگ تو کثرت سے ہیں جن کو گھٹنوں کی تکلیف ہے چلنے پھرنے میں دقت ہے مگر خوشی اور مسرت سے اچھلتے پھرتے ہیں۔

جلسہ گاہ میں مجھے دور دراز ریاست کا ایک نہایت بوڑھا احمدی بتارہا ہے کہ اس کو خدا نے حضور کے خلیفہ بننے کی پہلے ہی اطلاع دے دی تھی اور وہی شکل دکھائی تھی جو وہ آج دیکھ رہا ہے۔ خدا کی قسم ان گدڑیوں میں لعل چھپے ہیں۔ ان کی راہ میں آنکھیں بچھاؤ کہ یہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں۔

چک نمبر 219 فیصل آباد کے 81 سالہ بزرگ عبدالحفیظ صاحب باوجود بیماری اور کمزوری کے قادیان پہنچے ہوئے تھے۔ سفر کی کوفت کی وجہ سے قادیان میں ہی ان کی وفات ہوگئی۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ گاہ میں ان کاجنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کی سعادت حاصل ہوئی۔

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ایم ٹی اے نے بھی احمدیت پر عجیب دن چڑھایا ہے۔ زمین پر یہ توحید کا منظر ہے جو سچی توحید کا لازمی تقاضا ہے۔ جلسہ کے موقع پر بعض لوگوں کو سالوں بعد ملنے کا موقع ملتا ہے۔ کہیں کسی محلہ یا ضلع کے لوگ اکٹھے ہیں، کہیں کلاس فیلوز کی چائے کی تقریب ہے۔ کہیں پرانی یادیں تازہ کی جارہی ہیں اور قادیان کی گلیاں اور کوچے، سڑک بازار اور ہوٹل ان پاکیزہ محبتوں کے امین بن گئے ہیں۔

حضور نے پُرمعرفت خطبے ارشاد فرمائے۔ ایمان افروز تقاریر فرمائیں، غیروں کو زندگی بخش پیغام پہنچایا۔ جنازے پڑھائے، نکاحوں کا اعلان کیا۔ عالمی اجتماعی دعائیں کرائیں۔ یہ سب محبت مولیٰ کی شاخوں پر لگنے والے شیریں پھل تھے۔ ہزاروں نے یہ پھل چکھے اور لاکھوں نے محسوس کیے۔ اللہ تعالیٰ اس نعمت کو اور بھی فزوں تر کرتا چلاجائے اور یہ شجر اور زیادہ پھل دار ہوتا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button