الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

پسند آتی ہے اس کو خاکساری

اسلام عاجزی اور انکساری کا درس دیتاہے اور ہرقسم کے تکبراور تفاخر سے بازرہنے کی تعلیم سکھاتاہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا۔ (النساء:37)

ترجمہ: یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جومتکبر (اور) شیخی بگھارنے والاہو۔

اسلامی تعلیم کی روشنی میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کے بارے میں ایک خوبصورت مضمون مکرم محمود احمد انیس صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ مارچ اپریل 2013ء میں شامل اشاعت ہے۔

حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایک دوسرے سے حسدنہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے نہ بگاڑو۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور بےرُخی نہ کرو۔ تم میں سے کوئی دوسرے پرسودانہ کرے۔ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر نہ ظلم کرتاہے، نہ تحقیرکرتاہے، نہ رسوا کرتاہے۔تقویٰ یہاں ہے۔آنحضرت ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ کرکے فرمایا تقویٰ یہاں ہے۔ ایک انسان کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ ہرمسلمان کی تین چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں : اس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بنیادی اخلاقی تعلیم پر بہت زور دیا اور اسے شرائط بیعت میں شامل فرمایا۔ چنانچہ ساتویں شرطِ بیعت میں بیعت کنندہ سے اقرار لیا: یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گااور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسرکرے گا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئےکہ ہم نے بیعت کرتے ہوئے شرط تسلیم کرلی کہ تکبر نہیںکریںگے، نخوت نہیںکریں گے، اس کو بکلّی چھوڑ دیں گے۔ یہ اتناآسان کام نہیں ہے۔اس کی مختلف قسمیںہیں ، مختلف ذریعوں سے انسانی زندگی پر شیطان حملہ کرتا رہتاہے۔بہت خوف کامقام ہے اصل میں تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوتو اس سے بچاجاسکتاہے۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لیے بھی اس ساتویں شرط میں ایک راستہ دکھایا۔فرمایا جب تم تکبر کی عادت کو چھوڑوگے تو جو خلا پیداہوگا اس کو اگر عاجزی اور فروتنی سے پُرنہ کیا تو تکبر پھر حملہ کرے گا۔اس لیے عاجزی کو اپناؤ کیونکہ یہی راہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔‘‘

(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں)

ایک اور موقع پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ایمان میں کامل ہونے کے لیے عاجزی ہونا بہت ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرناہے تو عاجزی کی راہ اختیارکرنی ہوگی۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 21مارچ 2013ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بے شمار واقعات عاجزی کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہیں۔ 1868ء یا 1869ء کا واقعہ ہے کہ پنجاب میں اہلحدیث فرقہ کی شدید مخالفت تھی۔ جس مسجد کے مُلّاں کو پتہ لگتاتھا کہ اس میں کسی اہلحدیث (بقول ان کے کسی وہابی ) نے نمازپڑھی ہے بعض اوقات اس کا فرش تک اُکھڑوادیتاتھا۔ ان ایام میں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ، مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی سے نئے نئے تحصیل علم کرکے واپس بٹالہ آئے تھے۔عوام مسلمانوں میں ان کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے تھے۔ حضرت اقدس جو کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ تشریف لے گئے تو ایک شخص اصرارکے ساتھ آپ کو تبادلہ خیالات کے لیے مولوی محمد حسین صاحب کے مکان پر لے گیا۔وہاں ان کے والدصاحب بھی موجودتھے اور سامعین کا ایک ہجوم مباحثہ سننے کے لیے بیتاب تھا۔ آپ مولوی صاحب موصوف کے سامنے بیٹھ گئے اور مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا دعویٰ کیاہے ؟ مولوی صاحب نے کہا۔میرا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید سب سے مقدم ہے۔ اس کے بعد اقوالِ رسولؐ کا درجہ ہے اورمیرے نزدیک کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہؐ کے مقابل کسی انسان کی بات قابلِ حجت نہیں ہے۔حضورؑ نے یہ سن کر بےساختہ فرمایا کہ آپ کا یہ اعتقاد معقول اور ناقابلِ اعتراض ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ حضور کا یہ فرماناتھا کہ لوگوں نے دیوانہ وار یہ شورمچادیاکہ ہارگئے ہارگئے۔جو شخص آپ کو ساتھ لے گیا تھا وہ بھی سخت طیش سے بھر گیا اور کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں ذلیل و رسوا کیا۔مگر آپ تھے کہ کوہِ وقار بنے ہوئے تھے اور آپ کو لوگوں کے شوروشر کی مطلقاً پروانہ تھی۔آپ نے چونکہ یہ ترکِ بحث خالصۃً للہ اختیار کیا تھا۔اس لیے رات کواللہ تعالیٰ نے اس پر خاص اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے الہاماً فرمایا: ’’خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوااور وہ تجھے بہت برکت دے گایہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے ۔‘‘

رضائے باری تعالیٰ کی یہی راہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی پیاری جماعت کوبھی بتائی اور فرمایا:

’’درد جس سے خدا راضی ہواُس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہوجائے۔ اوروہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضبِ الٰہی ہو۔‘‘

(رسالہ الوصیت)

حضرت اقدسؑ کے صاحبزادے حضرت مرزاسلطان احمد صاحب فرماتے ہیں کہ والدصاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طورپرنہیں بلکہ فقیر کے طورپر گزاری۔

حضور علیہ السلام بہت غریب نواز اور انسانی ہمدردی کے نیک جذبہ سے سرشار تھے۔ حضوؑر یہ واقعہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں سیر کو جارہا تھا۔ایک پٹواری عبدالکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور مَیں پیچھے۔راستے میں ایک بڑھیا کوئی 70یا 75برس کی ضعیفہ ملی۔اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا۔ مگراس نے اس کوجھڑکیاں دے کر ہٹادیا۔میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اس کو لے کر ٹھہرگیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھادیا۔ اس پر پٹواری کو بہت شرمندہ ہونا پڑا کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔

حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تحریر فرماتے ہیں: بعض دوا پوچھنے والی گنوار عورتیں زورسے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادی اور گنواری زبان میں کہتی ہیں ’’میرجا جی جرا بُؤا کھولوں تاں‘‘(یعنی مرزاصاحب ذرا دروازہ تو کھولو)۔ حضرت اسی طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیاہے اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوائیں بتاتے ہیں۔ہمارے ملک میں وقت کی قدر پڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں توپھر گنوار تو اَور بھی وقت ضائع کرنے والے ہیں۔ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی ہے اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیاہے اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کردیاہے۔آپؑ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان اور نہ اشارہ سے اس کو کہتے ہیں کہ بس اب جاؤدواپوچھ لی، اب کیاکام ہے ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ وہ خودہی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اورمکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ایک دفعہ بہت سی گنوارعورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔اتنے میں اندرسے بھی چند خدمتگار عورتیں شربت شیرہ کے لیے برتن ہاتھوں میں لیے آنکلیںاور آپؑ کو دینی ضرورت کے لیے بڑااہم مضمون لکھنا تھا۔میں بھی اتفاقاً جانکلا۔ کیا دیکھتا ہوں حضرت کمربستہ اور مستعد کھڑے ہیں جیسے کوئی یورپین اپنی ڈیوٹی پرچُست اورہوشیار کھڑا ہوتا ہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ، اور کسی کو عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹہ تک یہی بازارلگارہا اور ہسپتال جاری رہا۔ فراغت کے بعد میں نے عرض کیا۔حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اللہ! اللہ!کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ : یہ بھی دینی کام ہے۔یہ مسکین لوگ ہیں یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ان لوگوں کی خاطر ہرطرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگواکررکھتاہوں جو وقت پر کام آتی ہیں۔اور فرمایا یہ ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور لاپروانہیں ہونا چاہیے۔

ایک واقعہ حضرت میاں نظام الدین صاحب کے ساتھ پیش آیاجس سے پتہ چلتاہے کہ حضورعلیہ السلام کس قدر منکسرالمزاج اور دوسروں کے جذبات کے احترام کاخیال رکھنے والے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرماتھے۔اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام الدین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضورسے چارپانچ آدمیوںکے فاصلہ پر بیٹھے تھے۔اتنے میں چند معززمہمان آکر حضورکے قریب بیٹھتے گئے۔اور ان کی وجہ سے ہردفعہ میاں نظام الدین صاحب کوپرے ہٹنا پڑا۔حتی کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے۔اتنے میں کھاناآیا تو حضورنے جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام الدین صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا: آؤ میاں نظام الدین! ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھائیں۔ یہ فرماکر مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے۔ اور دونوں نے کوٹھڑی کے اندر بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا۔اس وقت میاں نظام الدین پھولے نہیں سماتے تھے۔اور جو لوگ میاں نظام الدین کو عملاً پرے دھکیل کر خود حضرت مسیح موعودؑ کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کٹے جاتے تھے۔

حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓبیان فرماتے ہیں : آپؑ کے مزاج میں وہ تواضع اور انکسار اورہضم نفس ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ زمین پر آپ بیٹھے ہوں آپ کا قلب مبارک ان باتوںکو محسوس بھی نہیں کرتا۔ چاربرس کا عرصہ گزرتاہے کہ آپ کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے۔ جون کا مہینہ تھا اور اندرمکان نیا نیا بناتھا۔میں دوپہرکے وقت وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی اس پر لیٹ گیا۔ حضرت ٹہل رہے تھے۔میں ایک دفعہ جاگا تو آپؑ فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔میں ادب سے گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ آپؑ نے بڑی محبت سے پوچھا آپ کیوں اٹھے ہیں ؟میں نے عرض کیا آپؑ نیچے لیٹے ہوئے ہیںمَیں اوپر کیسے سو رہوں۔ مسکراکرفرمایامیں توآپ کا پہرا دے رہا تھا۔ لڑکے شورکرتے تھے انہیں روکتاتھاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ آوے۔

قادیان کے کنہیا لعل صراف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ خود حضرت مرزاصاحب کو بٹالہ جاناتھا۔آپ نے مجھے فرمایا کہ یکّہ کرادیاجائے۔ حضور جب نہر پر پہنچے تو آپ کو یادآیا کہ کوئی چیز گھرمیں رہ گئی ہے۔یکے والے کو وہاں چھوڑا اور خود پیدل واپس تشریف لائے۔یکے والے کو پُل پر اَور سواریاں مل گئیں اور وہ بٹالہ روانہ ہوگیا اور مرزاصاحب غالباً پیدل ہی بٹالہ گئے تو میں نے یکے والے کو بلاکر پیٹا اور کہا کہ کم بخت ! اگر مرزانظام دین ہوتے تو خواہ تجھے تین دن وہاں بیٹھنا پڑتا تو بیٹھتا لیکن چونکہ یہ نیک اور درویش طبع آدمی ہے اس لیے تُو ان کو چھوڑ کر چلاگیا۔جب مرزاصاحب کو اس کا علم ہوا تو آپ نے مجھے بلاکر فرمایا کہ وہ میری خاطر کیسے بیٹھا رہتا اُسے مزدوری مل گئی اور چلاگیا۔

آپؑ کے خادم مرزااسماعیل بیگ مرحوم کی شہادت ہے کہ جب حضرت اقدسؑ اپنے والد بزرگوار کے ارشاد کے ماتحت بعثت سے قبل مقدمات کی پیروی کے لیے جایاکرتے تھے تو سواری کے لیے گھوڑا بھی ساتھ ہوتاتھا اور میں عموماً ہمرکاب ہوتا تھا۔لیکن جب آپ چلنے لگتے تو آپ پیدل ہی چلتے اور مجھے گھوڑے پر سوار کرادیتے۔میں باربار انکارکرتا اور عرض کرتا حضور مجھے شرم آتی ہے۔ آپؑ فرماتے کہ ہم کو پیدل چلتے شرم نہیں آتی۔تم کو سوار ہوتے کیوں شرم آتی ہے۔

آپؓ مزید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت قادیان سے چلتے تو ہمیشہ پہلے مجھے سوارکرتے۔جب نصف سے کم یا زیادہ راستہ طے ہوجاتا تو میں اتر پڑتا اور آپ سوار ہوجاتے اور اسی طرح جب عدالت سے واپس ہونے لگتے تو پہلے مجھے سوار کراتے اور بعد میں آپ سوار ہوتے۔جب آپ سوار ہوتے تو گھوڑا جس چال سے چلتا اُسی چال سے چلنے دیتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ بہتر جانتاہے کہ میں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرابھی ترجیح نہیں دیتا۔ میرے نزدیک متکبر سے زیادہ کوئی بت پرست اور خبیث نہیں۔متکبر کسی خداکی پرستش نہیں کرتابلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ)

حضرت مرزادین محمد صاحب کا بیان ہے کہ میں اولاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے واقف نہ تھا یعنی ان کی خدمت میں مجھے جانے کی عادت نہ تھی۔ خود حضرت صاحب گوشہ نشینی اور گمنامی کی زندگی بسرکرتے تھے۔لیکن چونکہ وہ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور شریعت کے دلدادہ تھے۔یہی شوق مجھے بھی ان کی طرف لے گیا اور مَیں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔جب مقدمات کی پیروی کے لیے جاتے تو مجھے گھوڑے پر اپنے پیچھے سوار کرلیتے تھے اور بٹالہ جاکر اپنی حویلی میں باندھ دیتے۔ اس حویلی میں ایک بالا خانہ تھا۔آپ اس میں قیام فرماتے۔اس مکان کی دیکھ بھال کا کام ایک جولاہے کے سپرد تھا جو ایک غریب آدمی تھا۔ آپ وہاں پہنچ کر دو پیسے کی روٹی منگواتے۔یہ اپنے لیے ہوتی تھی اور اس میں سے ایک روٹی کی چوتھائی کے ریزے پانی کے ساتھ کھالیتے۔باقی روٹی اور دال وغیرہ جو ساتھ ہوتی وہ اُس جولاہے کو دے دیتے۔ اور مجھے کھاناکھانے کے لیے چار آنہ دیتے تھے۔ آپؑ بہت ہی کم کھایاکرتے تھے اور کسی قسم کے چسکے کی عادت نہ تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے منثور اور منظوم کلام میںجابجا عاجزی کے مضمون کی اہمیت بیان فرمائی ہے اوراپنے متبعین کو اس خلق کو اپنانے اور ہرقسم کے تکبراور خودپسندی سے بازرہنے کی تاکیدفرمائی ہے۔چنانچہ فرمایا:

’’اس کے بندوں پر رحم کرواور ان پر زبان یا ہاتھ یاکسی تدبیر سے ظلم نہ کرواورمخلوق کی بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہواور کسی پر تکبرنہ کروگواپنا ماتحت ہو۔اورکسی کو گالی مت دوگووہ گالی دیتاہو۔غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تاقبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندرسے بھیڑیے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندرسے سانپ ہیں۔سوتم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہروباطن ایک نہ ہو۔بڑے ہوکر چھوٹوں پر رحم کرونہ ان کی تحقیر۔ اور عالم ہوکرنادانوں کو نصیحت کرونہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ اورامیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرونہ خودپسندی سے ان پر تکبر۔ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خداسے ڈرتے رہواور تقویٰ اختیارکرو … اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبرہے یا ریاہے یا خودپسندی ہے یاکسل ہے توتم ایسی چیزنہیں ہوکہ جو قبول کے لائق ہو۔‘‘

(کشتیٔ نوح)

ایک اور جگہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’مجھے ان لوگوں سے کیاکام جوسچے دل سے دینی احکام اپنے سرپرنہیں اٹھالیتے۔ اور رسول کریم ؐ کے پاک جوئے کے نیچے صدقِ دل سے اپنی گردنیں نہیں دیتے اور راستبازی کو اختیار نہیں کرتے اور فاسقانہ عادتوں سے بیزارہونا نہیں چاہتے اور ٹھٹھے کی مجالس کو نہیں چھوڑتے اور ناپاکی کے خیالوں کو ترک نہیں کرتے اور انسانیت اور تہذیب اور صبر اور نرمی کا جامہ نہیں پہنتے بلکہ غریبوں کو ستاتے اور عاجزوں کو دھکے دیتے اور اکڑ کر بازاروں میں چلتے اور تکبر سے کُرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔ اور اپنے تئیں بڑاسمجھتے ہیں۔ اور کوئی بڑانہیں مگر وہی جو اپنے تئیں چھوٹا خیال کرے۔ مبارک وہ لوگ جو اپنے تئیں سب سے زیادہ ذلیل اور چھوٹاسمجھتے ہیں اور شرم سے بات کرتے ہیں اور غریبوں اور مسکینوں کی عزت کرتے اور عاجزوں کو تعظیم سے پیش آتے اور کبھی شرارت اور تکبر کی وجہ سے ٹھٹھا نہیں کرتے اور اپنے ربّ کریم کو یادرکھتے ہیں۔اور زمین پر غریبی سے چلتے ہیں۔ سو میں باربار کہتاہوں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے نجات تیارکی گئی ہے۔ جو شخص شرارت اور تکبر اور خودپسندی اور غرور اور دنیا پرستی اور لالچ اور بدکاری کی دوزخ سے اسی جہان میں باہر نہیں۔وہ اس جہان میں کبھی باہرنہیں ہوگا۔میں کیاکروںاور کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو اس گروہ کے دلوں پر کارگر ہوں۔ خدایا مجھے ایسے الفاظ عطافرما۔ اور ایسی تقریریں الہام کر جو ان دلوں پر اپنا نور ڈالیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ445)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے بھی جوآپ کی تعلیم اور نقشِ قدم پرچلنا موجبِ سعادت سمجھتے تھے عجز و انکسار کے خلق کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دل میں بھی عجزوانکساراور درویشی کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ مکرم میاں محمد عبداللہ صاحب حجام کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ قادیان میں حضرت میاں شریف احمدصاحبؓ کی کوٹھی حجامت بنانے کی غرض سے گئے تو دورانِ انتظار صوبہ سرحد کے ایک معزز دوست غلام محمد خان صاحب بھی ملاقات کی غرض سے تشریف لے آئے لیکن کرسی کے اوپر بیٹھنے کی بجائے بڑے عاجزانہ رنگ میں زمین پر بیٹھ رہے۔ جب حضرت میاں شریف احمد صاحبؓ باہر تشریف لائے تو تیزی سے بڑھ کر ان کو اٹھایا کہ اوپر تشریف رکھیں لیکن وہ زمین پر بیٹھنے پر مُصر رہے۔ بالآخر حضرت میاں صاحبؓ کے اصرارکے بعد گزارش کی کہ دراصل میرے دل پر ایک واقعہ کا بڑا اثر ہے اس لیے میں اپنے لیے خاکساری کو ہی پسند کرتاہوں۔ اور وہ واقعہ یہ سنایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جب کبھی ہم قادیان آتے تو ہمیشہ ایک بوڑھے آدمی کو بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جوتیوں میں بیٹھے ہوئے دیکھتے۔ جب حضورکا وصال ہواتو ہم بھی جلد ازجلد قادیان پہنچے تاکہ اپنے محبوب کا آخری دیدار کر سکیں۔ قادیان پہنچتے ہی ہمیں خبر ملی کہ بہشتی مقبرہ کے ملحقہ باغ میں جماعت کے نئے امام خلیفۃ المسیح بیعت لے رہے ہیں۔ چنانچہ ہم بھی دوڑتے ہوئے وہاں حاضر ہوئے لیکن ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہی جوتیوں میں بیٹھنے والا بوڑھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ کی حیثیت سے بیعت لے رہا تھا۔ یہ بتاتے ہوئے ان پر سخت رقت طاری ہوگئی اور روتے روتے کہا کہ اس وقت ہم نے سوچا کہ اللہ کیا شان ہے کہ مسیح موعودؑ کی جوتیوں میں بیٹھنے والا آج مسندِ خلافت پر رونق افروز ہے۔

مکرم صاحبزادہ مرزاوسیم احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ ایک دفعہ مسجد سے نماز پڑھ کر اپنے گھر کو جارہے تھے تو رستے میں دارالمسیح آتاہے۔ وہاں اندر سے کسی خادمہ نے آواز دی کہ کوئی آدمی ہے؟ آپؓ کے کانوں میں یہ آوازپہنچی تو پوچھا کیوں بی بی !کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگی وہ سامنے تھڑے پر پاتھیوں کی گٹھڑی پڑی ہے وہ اندر رکھنی تھی۔ حضورؓ نے اپنی پگڑی اتاری اور گٹھڑی اٹھاکر دارالمسیح کی طرف چلنے لگے۔اتنی دیر میں آپؓ کے درس میں شامل ہونے والے اَور افراد بھی آگئے۔انہوں نے اس کیفیت کو دیکھا تو حضورؓ سے خود گٹھڑی لینے کی کوشش کی لیکن آپؓ نے خود وہ گٹھڑی حضورعلیہ السلام کے گھر پہنچائی۔کسی نے عرض کیا کہ یہ خدمت ہمارے سپرد کی ہوتی ، آپ اتنے بزرگ ہیں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ حضوؑرکے گھر سے آواز آئی تھی کوئی آدمی ہے؟ تو مَیں بھی تو آدمی ہوں اور پھر اسی ناطے سے خدمت کے لیے آگے بڑھا۔

حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ بیان فرماتے ہیں: حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ سے عاشقانہ محبت تھی۔ جب دوسرے گریجویٹ اور صاحب حیثیت لوگ حضور کی آمد پر بیٹھے رہتے حضرت مولوی صاحبؓ کا یہ معمول تھاکہ آپ ادنیٰ سے ادنیٰ خدمت کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔چنانچہ میں نے خاص طور پر اس بات کو نوٹ کیاہے کہ جب حضرت اقدسؑ مسجد میں تشریف لاتے تو حضرت مولوی صاحب اس عشق و محبت سے معمور دل کے ساتھ آگے بڑھ کر حضوؑرکا جوتا اٹھالیتے اور نماز سے فراغت کے بعد جب حضوؑر رخصت ہونے لگتے تو حضوؑرکو جوتا پہنانے میں ایک سرور کی کیفیت محسوس کرتے۔

حضرت حافظ مختاراحمد صاحب شاہجہانپوریؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ باغ میں کسی تقریب پر تشریف لے گئے۔غالباً جمعہ یا عید کاموقع تھا۔ حضورکی گرگابی باہر پڑی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب تشریف لائے۔آپ عموماً اخیر میں آکر جوتوں کے پاس ہی بیٹھا کرتے تھے۔چنانچہ آپؓ وہیں بیٹھے جہاں آپؑ کی گرگابی پڑی تھی۔ جلدی سے آپؓ نے اپنا عمامہ اتارا جو دودھ کی طرح سفید تھا اور نہایت محبت سے اس کے پلّو سے حضوؑر کے جوتوں کی گرد صاف کرنے لگے۔ صاف کرنے کا انداز بتارہاتھا کہ آپؓ انتہائی ذوق و شوق اور محبت کے بھرپور جذبے سے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔

حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ جو دنیوی اعتبار سے بلندیوں کے عروج پر پہنچے اس مضمون کو خوب سمجھتے تھے کہ

’تقویٰ کی جڑ خدا کے لیے خاکساری ہے‘

حضرت چودھری صاحبؓ کی زندگی کا ایک واقعہ بہت ایمان افروز ہے جومحترم پروفیسر میاں محمدافضل صاحب نے محترم ثاقب زیروی صاحب سے سنا۔ آپ لکھتے ہیں: ایک بار حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مکرم ثاقب صاحب کو یورپ کے مختلف ممالک اور شہروں کی سیر کروانے کا ارشاد فرمایا۔ مقصد غالباً دو تھے یعنی ا ن ممالک کی جماعتوں سے رابطہ۔ نیز علمی و ادبی پروگراموں کے ذریعے غیرازجماعت دوستوں سے رابطہ۔ بہرحال حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے، جو اُن دنوں عالمی عدالت انصاف کے صدرتھے، حضرت خلیفۃ المسیح کے اس مہمان کی خاطر ایک ماہ کی چھٹی لے لی۔ حضرت چودھری صاحبؓ کی سادگی اور انکساری کا یہ حال تھاکہ جس ہوٹل میں کمرہ بُک کرواتے اس میں اپنے لیے تو چھوٹا کمرہ رکھتے جو عموماً اٹیچڈ باتھ روم کے بغیر ہوتا لیکن مکرم ثاقب صاحب کے لیے بہتر کمرہ (اٹیچڈ باتھ روم کے ساتھ) بُک کرواتے۔

محترم ثاقب صاحب نے بتایا کہ ایک صبح مَیں اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیدار ہوا تو جوتی غائب پائی۔ اب میں کیا پہنوں؟ میرے پاس تو دوسری جوتی بھی نہیں۔ میں یہی سوچ رہاتھا تو کمرے کا دروازہ کھلا۔ حضرت چودھری صاحب ہاتھ میں میری جوتی پکڑے ہوئے اندر تشریف لائے۔ فرمانے لگے میں نے سوچا تمہاری جوتی پالش کروادوں اس لیے مَیں لے گیا اور اب پالش کروا لایا ہوں۔ ثاقب صاحب فرمانے لگےمَیں ہکّا بکّا رہ گیا اور شرمندہ بھی۔عالمی عدالت کے جج میرے سامنے کھڑے تھے اور کس حالت میں؟ ایک عام سے آدمی کی جوتی ہاتھ میں اٹھائے ہوئے۔ یہ کام ملازم بھی کرسکتاتھا مگرنہیں۔مہمان کی عزت افزائی اسی میں ہے کہ خود خدمت کی جائے۔ اور جوکام اپنے ذمہ لیا وہ کتنا مشکل بلکہ بظاہر کتنا حقیر۔ مگر وہ جو مہمان کی قدرکرنا جانتے ہوں اور پھر انہیں یہ بھی خیال ہو کہ خلیفۂ وقت کے مہمان ہیں تو وہ ایسے ادنیٰ کام کو بھی باعث عزت سمجھتے ہیں۔

پس عاجزی اور انکساری کی یہ وہ تعلیم ہے جو حضرت مسیح موعودؑ اورآپؑ کے صحابہ نے اپنے عمل سے ہمیں سکھائی۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button