متفرق مضامین

یہ دن ہوں مبارک، مبارک ہوں یہ دن… خلافت سے پُر نور، یہ ماہ، یہ سِن

(شمیم اختر گیانی۔ قادیان)

اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات میں سے ایک عظیم تر احسان خدا وندی خاکسار پر یہ ہے کہ اُس نے مجھ جیسی ناچیز گنہگار کو مسیح پاک کی اس مقدس بستی قادیان دار الامان میں درویش والدین (والد محترم گیانی عبد اللطیف صاحب درویش مرحوم اور والدہ محترمہ ثمینہ بیگم صاحبہ مرحومہ)کے ہاں پیدا کیا اور درویشانہ ماحول میں خاکسار نے پرورش پائی۔ ا س مقدس بستی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسکن و مدفن ہے، کی بابرکت مٹی میں چلتے پھرتے، گرتے پڑتے بڑی ہوئی تو درویشوں کی قربانیوں کی قدر دل میں اُجاگر ہونے لگی۔اپنے والدین کے ساتھ اور ان کی تربیت کے زیر سایہ زندگی میں آنے والے ہر ابتلا کا نہایت ہی صبر وہمت کے ساتھ سامنا کیا مگر کبھی ماتھے پر شکن نہ آنے دی، نہایت ہی تنگ دستی کے دور دیکھے، مگر اپنے درویش والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ خدا کی رضا پر راضی اورخوش رہے۔ الحمدللہ۔

مقامات مقدسہ کی حفاظت کا جو عہد اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر ان قادیان کے درویشوں نے کیا تھا اُس کو اُنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک خوب نبھایا جس کی گواہی اُن درویشوں کی زندہ اولادیں آج دے رہی ہیں۔ اللہ کرے کہ ان درویشوں کی قربانیوں کو خداتعالیٰ بھی اپنے فضل سے قبول کرے اور آخرت کی ساری خوشیاں اُن کو نصیب ہوں اور ہمیں اپنے درویش والدین کی نیکیوں کو نسل در نسل جاری رکھنے کی توفیق دے، نیز ہمیں قادیان میں رہنے کا حق حقیقی معنوں میں ادا کرنے والا اور پیارے آقا کا حقیقی سلطان نصیر بنائے۔آمین

مقامات مقدسہ کے در کے ان درویش گداؤں کو خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ خاکسار کو یاد ہے کہ جب کبھی بھی کسی درویش کے سامنے خلیفہ وقت کا ذکر خیر ہوتا تو اُن کی آنکھوں سے برسات کی موسلا دھار بارش کی طرح آنسو رواں ہو جاتے۔اور ہمیشہ یہ کہتے کہ…’’ اک واری ساڈا پیارا خلیفہ قادیان آ جاوے‘‘ … یعنی ایک بار ہمارے پیارے خلیفہ قادیان آجائیں…… آگے معلوم نہیں اُن کے دل میں کیا راز تھے، اپنے خلیفہ وقت سے کیا اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے، کیا فریادیں لے کر بیٹھے تھے، خیر اُن کی دُعائیں خداکے در میں قبول ہوئیں اور وہ وقت آن پہنچا جب ہجرتِ قادیان 1947ءکے بعد پہلی مرتبہ ہمارے پیارے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع ؒ1991ء میں قادیان دار الامان کی مقدس بستی میں تشریف لائے۔ آپؒ کی تشریف آوری قادیان کےباسیوں کے لیے ایک چمتکار (معجزہ)سے کم نہیں تھی۔ قادیان کے باسیوں کو تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہے ہوں۔ قادیان کے چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے، عورت مرد ہر کوئی اپنے اپنے رنگ میں اپنی خوشیوں کا اظہار کر رہا تھا۔ اُس وقت قادیان کے ماحول کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ قادیان کے چرند پرند اور زمین و آسمان کی فضا بھی مسیح و مہدی کے اس خلیفہ کی آمد پر خوشیوں کے ترانے گا رہی ہو۔

جلسہ سالانہ قادیان 1991ء تاریخ احمدیت قادیان کا وہ چمکتاہوا روشن باب ہے جس میں 1947ءکے بعد پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کے کسی خلیفہ نے بنفسِ نفیس شرکت کی ہو۔اُس تاریخ ساز جلسہ سالانہ قادیان کے مختلف مناظر کی ویڈیو ریکارڈنگز عالمگیر جماعت احمدیہ بہت مرتبہ ایم ٹی اے پر مشاہدہ کر چکی ہے، مگر وہ مزا کہاں جو براہِ راست اس جلسہ سالانہ قادیان کی ان رونقوں میں شامل ہوکر لطف اندوز ہونے کا تھا۔قادیان کے باسی ہونے کے ناطے ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے اس موقع پر مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کا حق ہمیں دیا، کہاں وہ قادیان کے مٹھی بھر مردوزن اور بچے بوڑھے اور کہاںا س تاریخ ساز جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے بیس ہزار کے قریب عشاق احمدیت اور خلافت کے پروانے۔خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور طاقت سے ان مٹھی بھر قادیان کے دیوانوں نے جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانان کرام کی دل و جان سے خدمت کی۔ کسی نے اپنے گھروں کے زائد سامان کو اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھا دیا تو کسی نے اپنے صحن میں اپنے سامان کو ایک طرف کونے میں ڈھیر کر دیا تاکہ مہمانوں کی رہائش کا زیادہ سے زیادہ انتظام ہو سکے۔ مہمانوں کی سہولت کے لیے کئی ایک گھر والے اپنی چھتوں پر ٹینٹ لگاکر سو لیے تو کسی نے باورچی خانہ کو اپنی ایک دو گھنٹہ کی آرام گاہ بنا لیاتو کسی نے شدید سردی کی پروا کیے بغیر اپنے گھر کے برآمدہ میں سونا گوارا کر لیا۔ کیا نظارہ تھا وہ جس کو ضبط تحریر میں لانا ناممکن ہے۔ جلسہ سالانہ پر مہمانان کرام کی تشریف آوری کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر گنگنانے میں ایک عجیب قسم کی لذت محسوس ہوتی ہے:

مہماں جو کر کے الفت آئے بصد محبت

دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت

پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت

یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ

جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والے مہمانان کرام کی میزبانی کا جوحق خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم قادیان کےباسیوں کو دیا وہ بھی خدا تعالیٰ کے ان گنت احسانوں میں سے ایک احسان ہے۔ خلافت کے بابرکت سایہ تلے ایک لڑی میں پروئے ہوئے مہمانوں کے آرام کی خاطر بچپن سے لے کر بڑھاپے تک قادیان کے مرد و زن اور بچے بوڑھے نے مختلف نوعیت کی ڈیوٹیاں دےکر بھی میزبانی کا حق ادا کیا۔ راتوں کی نیندوں اور دن کے آرام کو اپنے اوپر حرام کر لیا۔

اس الٰہی جماعت میں شامل ہونے کی برکت سے خدا تعالیٰ معجزانہ طور پر جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک نئی طاقت ایک نیا جوش اور ایک نیا ولولہ ہر فرد جماعت کے اندر ودیعت کر دیتا ہے۔کوئی نمازوں اور تہجد کے ذریعہ اپنے خدا کو راضی کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوتا ہے ،کوئی خدمت خلق کے کاموں کو تن دہی سے انجام دے کر خدا تعالیٰ کو خوش کرنا چاہ رہا ہوتا ہےتو کوئی مہمانوں کی میزبانی کا حق کماحقہٗ ادا کرکے خدا کا پیارا بننا چاہتا ہے۔ غرض یہ کہ جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں مہمان ہو یا میزبان ہر ایک کا مطمح نظر اپنے پیارے خدا کے پیار کی نظر اور اس کے پیار کی ایک جھلک کو پانا ہوتا ہےجس کو یہ نصیب ہو جائے تو وہ تو دُنیا و آخرت میں فلاح پا گیا اور سرخر و ہوگیا۔

جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کے موقع پر درویشان کرام کے گھروں میں کثرت سےمہمانانِ کرام کی رہائش کا یہ حال تھا کہ جیسے ایک ڈربے میں مرغیوں کو بند کیا جاتا ہےتو جب صبح اُن کو نکالا جاتا ہے تب صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ اس ڈربے کے اندر کتنی زیادہ تعدادمیں مرغیاں بند تھیں۔ ا س واقعہ کا ذکر ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے بھی بڑے ہی پیارے انداز میں فرمایاہے۔

درویشان کرام کا یہ کہنا کہ ’’اک واری ساڈا پیارا خلیفہ قادیان آ جاوے‘‘ بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ درویشان کرام کی جھولیوں کو دینی و دنیاوی برکتوں سے پُر کر گیا۔ پیارے خلیفہ کےبابرکت قدم قادیان دارالامان کی مقدس بستی پر پڑتے ہی اہالیان قادیان کے حالات بدلنے شروع ہو گئے۔ تنگ دستی کا زمانہ آرام وآسائش میں بدل گیا اور درویشان قادیان نے اپنے خلیفہ کی آمد کی برکتوں سے وافر حصہ پایا۔ خلافت کے سائے تلے ہونے والی ان برکتوں کی برسات سے قادیان میں رہائش پذیر ہر مذہب کے لوگوں نے بھی وافر حصہ پایا اور قادیان کی شکل وصورت ہی بدل گئی۔

پھر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی قادیان سے واپسی کا وقت آن پہنچاتو اہالیان قادیان میں سے کسی کو یہ گوارہ نہ تھا کہ ہمارا پیارا خلیفہ ہم سے جدا ہو۔ خیر سب کو الٰہی اذن کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ روتے دلوں اور چیخ و پکار کی آہ و بکا کے ساتھ دُعائیں دیتے ہوئے اہالیان قادیان نے اپنے پیارے خلیفہ کو الوداع کہا اور پھر ہر سال جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر پیارے خلیفہ کی تشریف آوری کا انتظار کرتے کرتے زندگی کے دن کاٹنے لگے۔اسی انتظار میں چند ایک درویش اپنے مولیٰ کو پیارے ہو گئے۔

آخر 14 سال کے انتظار کے بعد دوبارہ وہ خوش نصیب گھڑی آن پہنچی جب ہمارے پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ قادیان 2005ء کے موقع پر قادیان تشریف لائے۔ اہالیانِ قادیان کے لیے 1991ءکے بعد ایک بار پھر ایک چمتکار کا سا سماں بند ھ گیا۔ اپنے پیارے آقا کی آمد کے لیے اہالیان قادیان اس کرموں والی اُچی بستی کو دلہن کا روپ دینے کے لیے دن رات تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ بزرگ درویشوں نے دُعاؤں پر مزید زور دے کر جلسہ سالانہ کی تیاریوںمیں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ گھر وں میں سفیدی کرواکرصفائی کی جا رہی تھی۔ گھروں میں جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی میزبانی کے لیے خرید و فروخت کی جا رہی تھی تاکہ مہمانان کرام کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔قادیان کا بوڑھا بچہ، چھوٹا بڑاہر مردو زن اپنے اپنے رنگ میں اپنے آپ کو جلسہ سالانہ قادیا ن پر آنے والے مہمانوں اور سب سے بڑھ کر اپنے دل و جان سے پیارے آقا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قادیان آمد پر اپنا تن من د ھن قربان کرنے کے لیے اَھْلًا وَّ سَھْلًا وَّ مَرْحبَاً کے ترانے گا کر روحانیت کی مستی میں جھومنے لگا۔

آخر وہ خوش نصیب دن آن پہنچا جب ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس مقدس بستی قادیان دار الامان میں خدا تعالیٰ کی بے شمار برکتوں اور اُس کی رحمتوں کی برکھا کرتے ہوئے بخیر یت تشریف لائے۔الحمدللہ۔سیدنا حضور انور کے استقبال کے لیے انصار اور خدام نے نہایت ہی نظم و ضبط کے ساتھ سڑکوں کے دونوں اطراف قطاروں میں کھڑے ہوکر پیارے آقا کا استقبال اور دیدار کیا۔ کسی نے مختلف ترانے گا کر اور کسی نے ہاتھ ہلا کر السلام علیکم کا تحفہ پیش کرتے ہوئے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔ قادیان کے بزرگ درویشان کرام نے بھی ایک قطار میں کھڑے ہوکر نم آنکھوں کے ساتھ پیارے آقا کا استقبال کیا۔ لجنہ و ناصرات نے بھی ایک جگہ جمع ہوکر مختلف ترانوں کے ساتھ پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔مقدس بستی کے چاروں اطراف سے ترانوں اور نعرۂ ہائے تکبیر کی بلند آوازوں نے ایک خوبصورت سماں باندھ دیا تھا جس کو سن کر یقیناً ہمارا پیارا خدا اور اس کے فرشتے بھی خوش ہو رہے ہوں گے اور پیارے خلیفہ کی آمد پر بے شمار برکتوں اور رحمتوں کا نزول قادیان کی مقدس بستی پر کر رہے ہوں گے۔اہالیان قادیان کی خوشیاں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ سب کا ایک ہی نقطۂ نظر تھا کہ خلیفہ وقت کی بابرکت صحبت سے فائدہ اُٹھا یا جائے ۔کوئی دن رات کی ڈیوٹیوں میں مصروف تھا تو کوئی اپنے گھر کے مہمانوں کی میزبانی میں مصروف۔گویا اہالیان قادیان کے لیے دن رات ایک ہو گئے تھے۔ نہ کوئی تھکاوٹ، نہ کوئی نیند کا تصور، اور نہ ہی شدید سردی کے باوجود بیمار ہونے کا کوئی ڈر خوف۔ یہی تو خلافت کی برکت اور نظام جماعت کی برکت ہے جو ایک بیش بہا قیمتی انمول نعمت کے روپ میں ہمیں ملی ہے جس کے نظارے ہمیں روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔الحمدللہ

2008ء کا جلسہ سالانہ قادیان ہم قادیان کےباسیوں کو خوشیوں کی بجائے اُداسیاں اس رنگ میں دے گیا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز انڈیا تشریف لانے کے باوجود حالات خراب ہونے کی وجہ سے قادیان کے جلسہ سالانہ میں بنفسِ نفیس شرکت نہ کر سکے۔

اہالیان قادیان بہت ہی خوش نصیب ہیں کہ اُن کے گھروں کو جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے بنفس نفیس تشریف لاکر برکتوں سے بھر دیا تھا وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی بے انتہا جماعتی مصروفیات کے باوجود اہالیان قادیان کے ہر گھر میں تشریف لاکر برکتوں کی برسات ہی برسا دی۔ ان برکتوں کی بدولت ہر گھر دینی و دنیوی نعمتوں سے مالامال ہو گیا۔جماعتی طور پر پیارے آقا کی ازراہِ شفقت منظوری سے قادیان میں تعمیراتی کام ہوئے اور ابھی بھی جاری ہیں جس کے تحت خوبصورت گیسٹ ہاؤسز بنوائے گئے، تمام جماعتی عمارات کی رینوویشن کا کام احسن طریق پر سر انجام دیا گیا جس کی وجہ سے قادیان دارالامان حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کے الہام:

’’ایک دن آنے والا ہے جو قادیان سورج کی طرح چمک کر دکھلا دے گی کہ وہ ایک سچے کا مقام ہے‘‘

کا ایک ظاہری طور پر جیتا جاگتا ثبوت نظر آنے لگا ہے۔اور ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ مسیح پاک کی یہ مقدس بستی قادیان دار الامان اپنی روحانیت کے لحاظ سے پوری دُنیا میں سورج کی طرح چمک کر دکھلائے گی۔ ان شاءاللہ۔

جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ حالات خراب ہونے کی وجہ سے جلسہ سالانہ قادیان دو سال سے نہ ہو سکا۔جلسہ سالانہ کی تاریخوں کی آمد آمد ہے لیکن ماہ دسمبر جلسہ سالانہ کی وجہ سے ہونے والی مصروفیات اور رونقوں سے خالی بڑی تیزی کے ساتھ گزرتا چلا جا رہاہے۔ جلسہ سالانہ کی برکتوںسے محرومی ہمارے جسموں کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر آنے والے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس مہمانانِ کرام بھی اداسی کی گھڑیاں کاٹ رہے ہیں۔ ہر پل ہر لمحہ جلسہ سالانہ کی یادوں کو تازہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ مہمانانِ کرام بھی بذریعہ فون اُداس دلوں اور نیک جذبات و خلوص کے ساتھ اپنی یادوں کو قادیان کےباسیوں کے ساتھ تازہ کر رہے ہیں۔

ہم سب خدا کے حضور دُعا گوہیں کہ خدا کرے کہ دُنیا کے حالات جلد ٹھیک ہوں تاکہ جلسہ سالانہ کی رونقیں دوبارہ ہمیں دیکھنی نصیب ہوںاور خلافت کے بابرکت سایہ تلے ہم ایک نئے ولولہ اور نئے جوش اور حقیقی اخلاص و وفا کے ساتھ جلسہ سالانہ کی برکات سے اپنی جھولیوں کو بھرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والوں کے لیے جو دُعائیں کی ہیں، خدا کرے کہ وہ ہم سب کے حق میں بھی پوری ہوں۔ آمین۔

(خاکسار بفضلہ تعالیٰ جلسہ سالانہ قادیان کی پُر سرور یادوں کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں قارئین الفضل انٹرنیشنل یوکے کے ساتھ شیئر کرنے کی توفیق پا رہی ہے۔خاکسار کی یہ سادگی سے پُر تحریر اصل میں میرے دل کے جذبات ہیں جو دل کی گہرائیوں سے نکلے ہیں۔ اُمید ہے کہ قارئین ان کو پڑھ کر خاکسار کو اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں گے۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button