متفرق مضامین

تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کی روح پرور یادیں

(م م طاہر)

آہ کیسی خوش گھڑی ہو گی کہ بانیلِ مرام

با ندھیں گے رختِ سفر کو ہم برائے قادیاں

یہ شعر حضرت مصلح موعودؓ کی اس نظم کا ہے جو آپ نے سفر یورپ1924ء کے دوران قادیان سے عارضی جدائی کے وقت قادیان کی یاد میں لکھی تھی۔ بچپن سے اپنے والدین اور بزرگان سے قادیان کی محبت اور مسیحا کی اس پاک بستی کے بارے میں باتیں سننا ہماری روزمرہ گفتگو کا ایک لازمہ تھا۔ قادیان کی مقدس بستی کی زیارت کی خوش گھڑی کا انتظار اور تڑپ ستائے رکھتی تھی۔ تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان سے قبل ایک دو سال ویزا کی کوشش کی لیکن بانیلِ مرام نہ ہوئے۔

1991ء کا تاریخی سال آیا جس میں جلسہ سالانہ کے نظام کو قائم ہوئے سو سال پورے ہورہے تھے۔ 1947ء کی ہجرت کے بعد جماعت کے دائمی مرکز قادیان میں خلیفۃ المسیح کا جانا ممکن نہیں ہو سکا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جہاں قادیان کا تذکرہ تھا وہاں قادیان واپسی کی بابت بھی اشارے موجود تھے۔ اب اہل قادیان کی 44سالہ جدائی ختم ہونے کا وقت آگیا اور دوسری طرف پاکستان کے احمدیوں کے لیے 1984ء میں خلافت کی ہجرت کے بعد وصل کی خوش گھڑی میسر آنے کے سامان ہونے لگے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1991ء کے جلسہ قادیان میں شرکت کا فیصلہ فرمایا۔

الحمدللہ کہ میرا ان خوش قسمت لوگوں میں شمار ہوا جن کو قادیان جانے کی سعادت ملنے والی تھی۔ میں ان دنوں ایم اے (ابلاغیات) کی تعلیم کے لیے بہاولپور میں مقیم تھا۔ 17؍دسمبر1991ءکی رات بہاولپور سے ربوہ کے لیے روانہ ہوا۔ 18؍دسمبر کو ربوہ میں خوب گہما گہمی تھی۔ دفتر جلسہ سالانہ ربوہ کی رونقیں بحال ہو کر عروج پر پہنچ چکی تھیں اور یہاں بھی جلسہ کا سماں بنا ہوا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اپنے تاریخی سفر قادیان کے لیے 15؍دسمبر کو لندن سے روانہ ہوکر 16؍دسمبر کو دہلی پہنچے اور19؍دسمبر کو آپ نے قادیان میں ورود مسعود فرماچکے تھے۔ دہلی سے امرتسر آپ (شانِ پنجاب ایکسپریس)ٹرین کے ذریعہ پہنچے جبکہ امرتسر سے قادیان تک میلہ ایکسپریس کے ذریعہ سفر طے فرمایا۔ قادیان کے لیے ٹرین ایک لمبے تعطل کے بعد دوبارہ روانہ ہورہی تھی اور یہ اہل قادیان کے لیےایک روح پرور نظارہ تھا جب حضرت صاحبؒ نے قادیان میں قدم رکھے۔

ربوہ میں ہمیں حضرت صاحبؒ کے دہلی پہنچنے کی خبر پہنچی تو اس خبر نے ہمیں شاداں کر دیا کہ اب خلیفۃ المسیح کو دیکھنے کے لیے ترستی نگاہوں کو وصل کے لمحات میسر آنے والے تھے۔ 19؍دسمبر اس خوش گھڑی کے لیے رختِ سفر باندھنے کا دن تھا۔ مجھے ربوہ سے قادیان کے لیے روانہ ہونے والے پہلے قافلہ میں ہی سفر کرنے کا موقع میسر آرہا تھا۔ اس قافلہ میں زیادہ تر ڈیوٹی دینے والے کارکنان تھے۔ 19؍اور 20؍ دسمبرکی درمیانی رات 2بجے دفتر انصاراللہ پاکستان میں پہنچنے کی ہدایت تھی۔ یہاں سے بسوں پر سوار ہو کر لاہور روانہ ہونا تھا۔ مرکزی ہدایت کے مطابق اپنے بستر بھی ہم راہ لے جانے تھے۔ چنانچہ 20؍دسمبر کی صبح تین بجے دفترانصاراللہ سے ہماری بس لاہور ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئی۔ ہم صبح 6بجے لاہور پہنچ گئے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے بذریعہ ٹرین اٹاری تک سفر کرنا تھا۔ لاہور اسٹیشن پر جماعت احمدیہ لاہور کے رضا کار قافلے کی خدمت کے لیے موجود تھے۔ میرے ساتھ سفر کرنے والوں میں میرے والد محترم اور کوارٹرز تحریک جدید کے میرے کئی دوست اور بزرگان بھی شامل تھے۔ لاہور اسٹیشن پر ضروری کارروائی کے بعد 2:30بجے دوپہر ٹرین اٹاری کے لیے روانہ ہوئی۔ انتہائی سست رفتاری سے چلتی ہوئی یہ ٹرین تقریباً ایک گھنٹہ بعد اٹاری پہنچ گئی۔ یہاں امیگریشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہم خصوصی طورپر آئی ہوئی بسوں پر سوار ہوئے جن کے ذریعہ ہم نے قادیان دارالامان پہنچنا تھا۔

اٹاری سے قادیان کے لیے بس روانہ ہوئی تو عجب کیفیت تھی کہ ہم آج مسیح پاک کی مقدس بستی کو دیکھ لیں گے جس کا ابھی تک ہم کتابوں یا تقریروں میں تذکرہ پڑھتے اور سنتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح کا دیدار بھی نصیب ہونا تھا جن کو دیکھنے کے لیے آنکھیں بے تاب تھیں۔ قادیان دیکھنے کے خواب کو آج تعبیر مل رہی تھی۔ قادیان پہنچنے سے کئی میل پہلے ہماری نگاہوں نے منارۃ المسیح کو دیکھنے کےلیے ٹکٹکی باندھ لی تھی۔ ہماری آنکھ نے منارۃ المسیح کو پہلی بار دیکھنا تھا۔ رات کی تاریکی میں جب مینارۂ بیضاء برقی قمقموں سے روشن نظر آیا تو دل اللہ کی حمد اور شکر کے جذبات سے بھر گیا۔ اک عجب خوشی اور طمانیت حاصل ہونی شروع ہوئی۔ بسوں میں ہی نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ساڑھے نو بجے رات ہم قادیان دارالامان پہنچ گئے۔ احمدیہ گراؤنڈ میں جب ہماری بسیں پہنچیں تو ساری فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ ایک خوبصورت روحانی منظر تھا جو ہماری آنکھوں نے دیکھا، حسین اور یادگار لمحات جن کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

قادیان پہنچے تو موسم سخت سرد تھا۔ ہماری رہائش کا انتظام بہشتی مقبرہ میں لگے خیموں میں تھا۔ ان یخ بستہ خیموں میں ایمانی حرارت کے ساتھ رات بسر کرتے لیکن کوئی حرف شکایت زبان پر آنے کا سوال ہی نہ تھا۔ ہم تو نوجوان تھے لیکن ہمارے بزرگ بھی اسی سرد ماحول میں ان خیموں میں آبسے تھے۔ ان کی ہمت اورقادیان سے محبت دیدنی تھی۔ ان سب کا بچپن قادیان میں گزرا تھا۔ میرے والد محترم چودھری محمد صادق صاحب واقف زندگی، میرے بزرگ استاذی المحترم مولانا محمد صدیق گورداسپوری صاحب اور مولانا منیر احمد عارف صاحب استاد جامعہ احمدیہ بھی اسی خیمہ میں ٹھہرے تھے۔ نوجوانوں میں میرے دوست ڈاکٹر میرمقبول احمد صاحب حال امریکہ اور ڈاکٹر عبدالصبور صاحب حال امریکہ، عبدالقدوس صاحب کینیڈا اور جمیل احمد صاحب کارکن وکالت علیا اسی خیمہ میں مکین تھے۔ چند روز بعد مولانا گورداسپوری صاحب تو غالباً اپنی ڈیوٹی (مہمان نوازی مرکزی)کی وجہ سے خیمہ سے منتقل ہو گئے لیکن ان کےبیٹے محمد سعید خالد صاحب مربی سلسلہ امریکہ ہمارے خیمہ میں آبسے۔

21؍دسمبرکے دن کاآغاز نماز تہجد باجماعت سے کیا اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اقتدا میں نمازِ فجر ادا کی۔ ساڑھے سات سال سے زائد عرصہ کے بعد حضورؒ کا دیدار نصیب ہوا اور ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ ترستی نگاہوں کو دیدارِ یار حاصل ہوا۔ یہ منظر بیان سے باہر ہے۔ وصل کی یہ گھڑیاں برابر دو ہفتے ہمیں نصیب ہوتی رہیں۔ حضرت صاحبؒ کی اقتدا میں نمازیں، بہشتی مقبرہ میں حضورؒ کی آمد، کوچہ ہائے قادیان میں حضورؒ کا ورود مسعود، جلسہ سالانہ کے تینوں دن آپ کے روح پرور خطابات، اجتماعی ملاقات، شرف مصافحہ یہ وہ خوش گھڑیاں تھیں جنہوں نے آس کی پیاس بجھائی۔ ان گھڑیوں نے ہمارا سفر قادیان امر کر دیا۔ لمبی جدائی کے بعد وصل کے لمحات کیسے ہوتے ہیں۔ آقا اپنے غلاموں کو دیکھ کر سراپا محبت بنا ہوا تھا اور غلام آقا کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھندا کر رہے تھے۔ اس دوطرفہ محبت کے روح پرور اور دلنشیں نظارے کوچہ ہائے قادیان میں دیکھنے کو ملے۔

22؍دسمبر جلسہ سالانہ قادیان 1991ءکی ڈیوٹیز کے باقاعدہ آغاز کا دن تھا۔ اس روز حضور رحمہ اللہ نے انتظامات جلسہ کا معائنہ فرمایا۔ دارالمسیح کے سامنے کارکنان سڑک کے دونوں اطراف قطاروں میں کھڑے تھے۔ حضرت صاحبؒ نے سب کارکنان کو شرفِ مصافحہ بخشا۔ قادیان سے عشق اور احباب جماعت سے بے مثال محبت کی گواہی حضورؒ کی آنکھوں کی سرخی دے رہی تھی۔ اس روز انتظامات جلسہ کا جائزہ لینے کے لیے حضورؒ مدرسہ احمدیہ، دارالضیافت، بہشتی مقبرہ، لنگر خانہ، دفتر جلسہ سالانہ، محلہ دارالانوار، کوٹھی دارالسلام، تعلیم الاسلام سکول و کالج اور بورڈنگ تحریک جدید بھی تشریف لے گئے۔ احباب جماعت کو شرف مصافحہ بخشتے رہے اور پھر آخر پر مسجد اقصیٰ قادیان میں کارکنانِ جلسہ کو اپنی زریں نصائح سے بھی نوازا۔

حضرت صاحبؒ جب کوچہ ہائے قادیان سے گزرتےاور جن مقامات میں رونق افروز ہوتے تو جہاں آپ احباب جماعت کے لیے محبتیں بکھیرتے وہاں آپ کا مبارک وجود غیرمسلم سکھوں اور ہندوؤں کے لیے بھی توجہ کا مرکز بنا ہواہوتا اور وہ آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب نظر آتے۔ بارہا انہیں ڈیوٹی کارکنان کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’’سانوں وی درشن کر لین دیو‘‘یعنی ہمیں بھی حضورؒ کی ایک جھلک دیکھ لینے دیں۔

جلسہ سالانہ کے تین ایام یعنی 26، 27، 28؍دسمبر 1991ءقادیان کی رونق اور روحانی مناظر کے معراج تھے۔ پہلے دن افتتاحی خطاب، دوسرے روز مستورات سے خطاب اور تیسرے روز حضور رحمہ اللہ نے اختتامی خطاب فرمایا۔ حاضرینِ جلسہ میں دوسرے مذاہب کے کثیر لوگ شامل رہے اور حضورؒ کے خطابات سے فیضیاب ہوئے۔

جلسہ کے پہلے روز جب حضرت صاحبؒ سٹیج پر تشریف لائے آپ نے حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ فرمایا جو خاص طور پر جلسہ قادیان میں شرکت کے لیے ربوہ سے تشریف لائے تھے۔ لوائے احمدیت لہرانے کی پُر وقار تقریب کے بعد قادیان کی فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ پاکستان کے احمدیوں نے 1983ء کے بعد نعروں کی یہ گونج سنی تھی جس کی وجہ سے وہ فرط جذبات سے نہال تھے۔ افتتاحی تقریب میں تلاوت کے بعد ناصر علی عثمان صاحب نے جب اپنی پُر کیف آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ وجد آفریں کلام سنایا:

ہے شکر رب عزّوجلّ خارج از بیاں

تو حاضرین جلسہ کے جذبات حمد اور شکر سے لبریز ہوگئے۔ دل گداز اور آنکھیں پُر نم تھیں ایسے میں حضرت صاحبؒ نے سٹیج سے خود نعرے لگوا کر فرزندانِ احمدیت کا لہو گرم کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کی نظم :

ہے رضائے ذاتِ باری اب رضائے قادیاں

کو داؤد احمد ناصر صاحب نے ایسی خوبصورت لحن میں پڑھا کہ قادیان کی محبت، عظمت اور اس کی دلنشیں یادوں نے سامعین کو مرغ بسمل کی طرح تڑپا دیا۔ حضرت صاحبؒ نے اپنے معرکہ آرا اور شکرو حمد کے جذبات سے بھرپور افتتاحی خطاب سے شرکائے جلسہ کو مستفیض فرمایا جس سے پیاسی روحیں سیراب ہوئیں۔

27؍دسمبر 1991ءجلسہ کا دوسرا روز تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ۔آج سے سو سال پہلے اسی روز پہلا جلسہ سالانہ قادیان میں منعقد ہوا جس میں صرف 75؍افراد شریک ہوئے تھے۔ باجماعت تہجد اور حضورؒ کی اقتدا میں نماز فجر ادا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بہشتی مقبرہ قادیان دعا کے لیے گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کے پاس آپ کے صحابی حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے بھی دعا کے لیے تشریف فرما تھے۔ احباب جماعت ان سے شرفِ مصافحہ حاصل کر رہے تھے کہ ان ہاتھوں نے مسیح پاک کو چھونے کا اعزاز حاصل کر رکھا تھا۔ میں نے بھی آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی اور آپ کے ساتھ فوٹو بھی بنوایا۔ اس موقع پر استاذی المحترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب بھی آپ کے پاس موجود اور محو گفتگو تھے۔

جلسہ سالانہ کے دوسرے روز کی کارروائی کی خاص بات حضرت صاحبؓ کا جلسہ مستورات سے خطاب تھا۔ اس موقع پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی قادیان کے بارے وہ معروف نظم پڑھی گئی جو حضرت مصلح موعودؓ کی یادِ قادیان سے متعلق نظم کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ اس نظم نے بھی ایک پُر کیف اور خوبصورت کیفیت طاری کر دی تھی۔ حضرت صاحبؒ کا خطاب ہر دل میں اتر رہا تھا۔

28؍دسمبر جلسہ سالانہ قادیان 1991ء کا آخری روز تھا۔ وصل کی گھڑیاں اب جدائی کے اشارے دینے لگی تھیں۔ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ایسے میں حضورؒ نے قادیان کے بارے لکھی ہوئی اپنی تازہ نظم :

اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا

پڑھنے کے لیے قادیان کے جوان ناصر علی عثمان صاحب کو سٹیج پر بلایا۔ اس نظم نے سامعین پر عجب کیفیت طاری کر دی۔ ہر شعر قادیان سے محبت اور عقیدت سے بھرپور تھا۔ اس نظم نے محض اس جلسہ میں ہی پُر کیف منظر پیش نہ کیا بلکہ جلسہ کے بعد یہ نظم کوچہ ہائے قادیان میں ساؤنڈ سسٹم پر سنائی دیتی رہی اور جب بھی قادیان جلسہ پر جانے کا موقع ملااس نظم کی گونج جلسہ سالانہ قادیان 1991ءکی یاد تازہ کرتی رہی اور قادیان سے محبت اور عقیدت کے جذبات میں اضافے کا موجب بنتی رہی۔

جلسے کے موقع پر اختتامی خطاب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی محمد حسین صاحبؓ سبز پگڑی والے کا دیدار سب حاضرین جلسہ کو کروایا اور فرمایا کہ ان کا دیدار کر کے آپ سب تابعی بن جائیں۔ اسی طرح جلسہ گاہ مستورات میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی ایک صحابیہ حضرت رسول بی بی صاحبہؓ موجود تھیں۔ ان کی کرسی جلسہ گاہ مستورات کے سٹیج پر رکھوا دی گئی تھی۔ یہ دونوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے گواہ کے طور پرآج سو سال بعد بھی موجود تھے۔ حضرت صاحبؒ کے اختتامی خطاب نے شرکائے جلسہ پر وجد طاری کر دیا۔ جلسہ سالانہ کی فضا عجب روحانیت بکھیر رہی تھی۔ قادیان کی فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج رہی تھی۔ شجر احمدیت کی سر سبز شاخیں وفورِ جذبات سے معمور تھیں۔ ان روح پرور نظاروں اور پُر سوز دعاؤں کے ساتھ جلسہ سالانہ قادیان کا اختتام ہوا۔

جلسہ کے اگلے روز 29؍دسمبر کو جلسہ گاہ میں ہی حضورؒ کی صدارت میں مجلس مشاورت منعقد ہوئی۔ یہ شوریٰ انٹرنیشنل حیثیت اختیار کرگئی تھی کیونکہ اس میں مختلف ممالک کے نمائندگان شریک تھے۔ خاکسارکو بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ شوریٰ کے دو اجلاس ہوئے اور یہ اسی روز اختتام پذیر ہوگئی۔

سال 1991ءکا اختتام اور نئے سال 1992ء کا طلوع ہمیں قادیان میں میسر آیا۔ سال 1992ءکی پہلی نماز فجر حضورؒ کی اقتدا میں پڑھنے کی سعادت ملی۔ اس موقع پر حضورؒ نے نماز کے بعد سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش فرمائی۔ آج کے دن سب مربیان کو اجتماعی طور پر مسجد اقصیٰ قادیان میں حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور گروپ فوٹوز بھی ہوئے یوں یہ یادگار لمحات کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے۔

تاریخی صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان1991ءکے مبارک موقع پر کثیر تعداد میں پاکستان سے رضا کاروں نے قادیان میں جلسے کی ڈیوٹی سرانجام دینے والے بھائیوں کی معاونت کے فرائض سرانجام دیے۔ خاکسار بھی ڈیوٹی کارکنان میں شامل تھا۔ میری ڈیوٹی لنگر خانہ میں تقسیم کھانا محلہ ناصر آباد تھی۔ یوں مجھے مہمانانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی طرح جلسہ سالانہ کے تینوں ایام میں خدمتِ خلق کے تحت بھی ڈیوٹی دینے کی توفیق ملی۔ یہ ڈیوٹی دارالمسیح کے سامنے ٹریفک کنٹرول پر رہی اوردوران ڈیوٹی ایک بار حضورؒ کے خطاب کے دوران سٹیج کے سامنے بھی ڈیوٹی کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

جلسہ سالانہ قادیان کے دوران ایک روح پرور ماحول حضورؒ کی موجودگی کی وجہ سے بن چکا تھا اور قادیان کی بستی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ ان روحانی اور نورانی ساعتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی سعادت ملی۔ دستی بیعت کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا۔ حضورؒ کی مجالس عرفان میں شرکت کی سعادت ملی جو باعث ازدیاد ایمان و ازدیاد علم تھیں۔ بیت الدعا، بیت الفکر اور بیت الذکر میں دعاؤں اور نوافل کا موقع میسر آتا رہا۔ تمام نمازیں قیام قادیان کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اقتدا میں ادا کرنے کی توفیق ملی جو سوز دعا سے بھرپور تھیں۔

قادیان میں ریل کی آمد بھی ایک نشان تھا۔ 1928ءمیں پہلی بار قادیان میں ریل آئی۔ ہجرت کے بعد بھی اس میں تعطل آگیا تھا۔ اب ایک لمبے وقفہ کے بعد جلسہ 1991ء کے دوران دوبارہ ریل جاری ہوئی۔ قادیان ریلوے اسٹیشن پر ریل کے ذریعہ عشاقانِ احمدیت کے قافلوں کی آمد کا روح پرور نظارہ دیکھنے کا موقع بھی ملا۔

درویشانِ قادیان کے تذکرہ کے بغیر یہ مضمون نامکمل رہےگا۔ یہ وہ 313خوش قسمت اور مبارک وجود ہیں جن کو ہجرت قادیان کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے مامور فرمایا تھا۔ ان درویشان نے انتہائی مشکل حالات میں قربانیاں دےکر قادیان کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی اور درویش کہلائے۔ معاشی اور معاشرتی مشکلات اور اپنے عزیزوں سے دوری کی قربانی کے ساتھ ساتھ ریاستی مشکلات کا سامنا بھی کیا اور قادیان کی مقدس بستی کی نیک روایات کو قائم رکھا۔ 1991ءکے جلسہ کے موقع پر ان درویشوں کی شان اور مقام دیکھنے کے لائق تھا لیکن انہوں نے اپنی درویشانہ صفات کو برقرار رکھا اور کوئی دنیاوی آلائش اپنی درویشی پر نہیں لگنے دی۔

حضورؒ کی قادیان آمد درویشانِ قادیان کے لیے عید کا سماں بن گئی تھی۔ حضرت صاحبؒ معذور اور بیمار درویشان کی خبر گیری کے لیے ان کے گھروں میں تشریف لے گئے۔ درویشانِ قادیان کے ساتھ ملاقاتیں اور علیحدہ گروپ فوٹو بھی ہوا۔ درویشانِ قادیان میں حضرت مصلح موعودؓ کے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی شامل تھے جو ان دنوں ناظر اعلیٰ قادیان کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ آپ اہل قادیان کے لیے ایک شفیق باپ کے طور پر تھے۔ آپ کی عاجزی، میٹھی آواز، خوش خلقی اور چہرے پر موجود مسکراہٹ ہر ایک کو متاثر کرتی تھی۔

جلسہ سالانہ کے مقاصد میں ایک مقصد احباب جماعت کے درمیان تعارف اور محبت کے رشتہ کو پروان چڑھانا بھی تھا۔ چنانچہ اس موقع پر دنیا بھر اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مخلص اور فدائی احمدیوں سے ملاقات اور تعارف ہوا جو باہمی الفت و محبت کا باعث بنا۔ عاشقانِ احمدیت اور شمع خلافت کے پروانوں کے ایسےد لکش، دلنشیں اور روح پرور نظارے دیکھنے کو ملے کہ روح وجد میں آجاتی تھی۔ ہندوستان کے دورافتادہ علاقوں اڑیسہ، بہار، بنگال، آسام، مدراس، کیرالہ، وادی کشمیر اور متفرق علاقوں سےتہی دامن اور تہی دست پروانے پہلی بار خلیفۃ المسیح کے دیدار کے لیے قادیان دارالامان میں دیوانہ وار کئی دن کے سفر کر کے آپہنچے تھے۔ سخت سردی کے موسم میں ہم نے ایسے سینکڑوں فدائی احمدی بھی دیکھے جن کے پاس پارچہ سرمائی نہ تھا۔ معمولی لباس زیب تن کیے ہوئے پاؤں میں چپل پہن کر عشقِ خلافت میں سرشار وہ قادیان پہنچ گئے تھے۔ ان کے جسموں کو سوائے ایمانی حرارت کے کوئی گرم لباس حرارت نہیں پہنچا رہا تھا۔ ان میں سے بہت سے ایسے علاقوں سے بھی آئے تھے جہاں انہوں نے کبھی سردموسم نہ دیکھا تھا۔ لیکن ان سب کا خلافت احمدیت کے ساتھ عشق اور والہانہ عقیدت نیز پاکستانی احمدی بھائیوں کے ساتھ محبت دیدنی تھی۔ یورپ، امریکہ اور شرقِ اوسط سے میرے بہت سے عزیزان اور دوست بھی جلسہ پر تشریف لائے ان سے محبت بھری ملاقاتیں بھی اس جلسہ کی برکات کا حصہ تھیں۔ بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں لگے خیموں میں جہاں ہم ٹھہرے تھے ایک رات شدید سرد موسم میں بارش ہوگئی تو بارش کا پانی ہمارے خیمہ میں آگیا۔ بزرگان بھی خیمہ میں موجود تھےلیکن کسی کی زبان پر حرف شکایت نہیں آیا اور اسی خیمہ میں ہی بقیہ ایام قیام پذیر رہے۔

صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان کی روح پرور یادوں اور برکاتِ خلافت کے خزانہ کو سمیٹے ہوئے 2؍جنوری1992ءکی صبح جلسہ گاہ قادیان سے اٹاری کے لیے روانہ ہونے والی بسوں میں ہم سوار ہوگئے۔ اداس کیفیت اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ مسیح پاک کی اُچی اور سُچی بستی سے الوداع ہوئے۔ اٹاری سے ٹرین کے ذریعہ لاہور پہنچے۔ لاہور سے ربوہ کے لیے بسوں کی سہولت جماعتی انتظام کے ذریعہ کی گئی تھی ان پر سوار ہو کر رات 9بجے ربوہ واپس پہنچ گئے۔

ان تاریخی اور روحانی لمحات کو گزرے آج 29؍سال ہوگئے ہیں لیکن اس تاریخی سفر کی نہ بھولنے والی خوبصورت اور وجد آفرین یادیں سرمایہ زیست ہیں۔ اور اس روحانی انقلاب کی ہی یاد دلاتی ہیں جو احمدیت نے برپا کیا ہے۔ یہ یادیں مسیح پاک سے روحانی تعلق کو مضبوط بناتی اور خلافتِ احمدیت سے والہانہ عقیدت کی عکاس ہیں۔ ان روح پرور یادوں کا اختتام اہل قادیان سے درخواستِ دعا بزبانِ حضرت مصلح موعودؓ کرتا ہوں

جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا

یاد کر لینا ہمیں اہلِ وفائے قادیاں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button