متفرق مضامین

جلسہ سالانہ قادیان 1969ء پر پاکستانی قافلہ نیز ربوہ میں جلسہ سالانہ کی رُوح پرور یادیں

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

یہ 1969ء کی بات ہے جبکہ خاکسار جامعہ احمدیہ ربوہ میں ابھی تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ میرے دل میں قادیان دارالامان دیکھنے اور جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کا شوق پیدا ہوا۔ اُس وقت پاسپورٹ بھی آسانی سے نہیں بنتا تھا اور بھارت تک آمدورفت بھی عام نہیں تھی۔ ہر سال کوشش کی جاتی تھی کہ جماعت کا ایک وفد پاکستان سے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہو۔ وہاں جانے کے خواہش مند احباب کی طرح نظارت خدمت درویشا ن ربوہ کو مَیں نے بھی اپنی درخواست بھجوادی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن خوش قسمت احباب کی لسٹ میں خاکسار کا نا م بھی تھا جن کی درخواست منظور ہوئی تھی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ پاسپورٹ کے حصول کے لیے دفتر خدمت درویشان میں جا کر ضروری کاغذات پُر کیے اور فارموں پر دستخط کیے۔ جب روانگی کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ امیر قافلہ پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب ہیں اگرچہ ناظر خدمت درویشان سیّد میر داؤد احمد صاحب خود بھی اِس قافلہ میں شامل تھے۔ روانگی سے قبل پاسپورٹ ہمیں مل گئے جو کہ محدود مدّت کے لیے تھے اور جن پر لکھا ہوا تھا:

for Qadian India Pilgrims

اٹاری واہگہ بارڈر ہمارا پہلا سٹاپ تھا۔ پاسپورٹ کے کنٹرول کے بعد انڈیا کے بارڈر تک سامان اُٹھا کر پیدل گئے۔ نوجوانوں کو بعض بوڑھوں کا سامان بھی اٹھانا پڑا۔ الحمدللہ خاکسار کو بھی اس خدمت کی سعادت ملی۔ جب منتظمین میں سے ایک شخص نے میرے سر پر کسی بزرگ کا سامان رکھنا چاہا تو محترم میر داؤد احمد صاحب نے فرمایا : ’’بے فکر ہو کر رکھ دیں میں نے چوزے نہیں پالے ہوئے۔‘‘ بھارت کی طرف پاسپورٹ کنٹرول والے ہمارے ساتھ بہت عزّت و تکریم سے پیش آئے۔ جب وہاں سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قادیان سے چودھری مبارک علی صاحب ناظر امور عامہ کچھ خدّام کے ساتھ ہمارے استقبا ل کے لیے موجود تھے۔ وہ ہمیں بسوں پر امرتسر ریلوے سٹیشن پر لے گئے اور وہاں سے ہم ریل گاڑی کے ذریعہ قادیان گئے۔ گاڑی میں ہی جب منارۃالمسیح کو دیکھا تو دید کی منتظر آنکھوں کو قرار آیا۔ پھر قادیان ریلوے سٹیشن سے تانگہ کے ذریعہ محلہ احمدیہ گئے اور اُس پاک بستی کو دیکھا جس نے مسیحا کے قدم چومے تھے اور جس کو دیکھنے کی تڑپ بچپن سے میرے دل میں تھی۔ ہر جگہ کو دل چاہتا تھا کہ چوم لیں۔ قافلے کے ٹھہرنے کا اہتمام سکول کی ایک عمارت میں تھا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں کے مہمان آرہے تھے مگر کشمیر سےا ٓئے ہوئے احمدیوں کا رنگ ہی اور تھا۔ اخلاص اور محبت کے پتلے نظر آتےتھے۔ وہاں پر کل چھ سات روز کا قیام تھا۔ جس میں جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے علاوہ جی بھر کر مقدّس مقامات کی زیارت کی توفیق ملی۔ مسجد مبارک میں تو پہلے روز ہی نماز پڑھنے کی سعادت مل گئی۔ دوسرے تیسرے روز بیت الدّعا میں جانے اور نوافل ادا کرنے کا موقع ملا۔ بیت الفکر میں جا کر بھی دعا کی۔ مسجد اقصیٰ میں جا کر نہ صرف بعض نمازیں پڑھیں بلکہ ایک بار منارۃالمسیح پر چڑھ کر قادیان اور اس کے اردگرد کا نظّارہ بھی کیا۔

پنجاب میں پڑنے والی سردی کا کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر قادیان میں اور ایک کھلے احاطے میں جہاں جلسہ ہورہا تھا۔ نسبتاً زیادہ سردی محسوس ہوتی تھی۔ دوپہر کے وقت سورج دکھائی دیتا تھا جبکہ صبح کے وقت دھند رہتی تھی۔ ایسے میں صرف جلسہ میں شامل ہونے اور تقاریر سننے کا شوق ہی جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی ہمت دلاتے تھے۔ اب پچاس سال گزرنے کے بعد بھی مولانا شریف احمدامینی صاحب،مکرم بشیر احمد صاحب دہلوی اور مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ اور جلسہ کی اختتامی تقریر اور اختتامی دعا کے وقت حاضرین کے جوش و خروش کے ساتھ جلسہ گاہ کی طرف بڑھنے اور پھر پرالی پر بیٹھ کر جلسہ سننے کا نظارہ آنکھوں میں آجاتا ہے تو سرور تازہ ہو جاتا ہے۔ جلسہ کے بعد مساجد کی طرف رخ ہوتا تھا۔ مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبد الرحمٰن جٹ صاحبؓ امامت کرواتےتھے۔

ایک امر جس کا ذکر کرنا مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ وہاں کے احباب کا مہمانوں کے ساتھ حُسن سلوک اپنی مثال آپ ہے۔ مالی لحاظ سے وہ زیادہ استطاعت نہیں رکھتےتھے مگر پھر بھی احمدیہ محلہ میں ہر کوئی چائے کی دعوت ضرور دیتا تھا۔ بلکہ بضد ہوتے تھے کہ ہم ضرور چائے پئیں۔ پھر ٹی سٹال پر بہت عمدہ اور اعلیٰ کوالٹی کی چائے ملتی تھی۔ آج تک اُس کا ذائقہ نہیں بھولا۔ قرآن مجید میں جو صحابہ کی شان میں یہ آیا ہے کہ

وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ (الحشر:10)

اور وہ باوجود اس کے کہ خود غریب تھے مہاجرین کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے تھے کا انہیں مصداق پایا۔

صرف چائے کی دعوت نہیں بلکہ بہت سے نوجوان ملتے تھے جو یہ کہتے تھے کہ بہشتی مقبرہ دعا کے لیے جانا ہے؟بہشتی مقبرہ نسبتاً ایک طرف ہے۔ اور ڈھاب والا پُل گزر کر جانا ہوتا تھا۔ اس لیے وہاں ساتھ چلنے کی بھی کئی بار پیشکش ہوئی۔

بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزارِ مبارک پر کھڑے ہو کر چشمِ تصور میں موعود مسیح کو آنحضرتﷺ کا سلام پہنچانا بھی قادیان جانے کی اغراض میں شامل تھا۔ اس کے لیے وہاں بھی دو تین بار جانا ہوا۔ حضور علیہ السلام کے مزار پر دعا کرنے اور حضورﷺ کا سلام پہنچانے کے بعد دِل کوایک قسم کی تسلی ہو گئی کہ الحمد للہ میں نے حضورﷺ کے فرمان کی تعمیل کی سعادت پا لی ہے۔

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ

ربوہ کے جلسہ سالانہ کی ابتدائی یادیں اُس وقت سے ہیں جب خاکسار ابھی نو عمر تھا اور والد صاحب چودھری رستم علی صاحب مرحوم ناصر آباد اسٹیٹ اور پھر کنری سے جلسہ سالانہ کے لیے ربوہ جاتے اور واپسی پر تبرک کے علاوہ کینوں مالٹے لاتے تھےاور پھر رات کے وقت ہم ان کو کھاتے اور اُن سے جلسہ سالانہ کی باتیں سنا کرتے تھے۔ 1962ء میں خاکسار کو پہلی بار جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہو نے کی توفیق ملی۔ اس سال میں بطور واقف زندگی جامعہ احمدیہ ربوہ کی سپیشل میٹرک کلاس (جو کہ بعد میں درجہ ممہدہ کہلائی ) کا طالب علم تھا۔ جلسہ سالانہ سے کچھ عرصہ قبل دستور کے مطابق جلسہ سالانہ کے کارکنان کی ڈیوٹیوں کا چارٹ شائع ہوا تو پتہ چلا کہ میری ڈیوٹی شعبہ استقبال والوداع میں ہے۔ جس کے ناظم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب تھے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر لاری اڈا اور ریلوے اسٹیشن پر باقاعدہ مہمانو ں کا اِستقبال کیا جاتا تھا۔ مولانا ابو المنیر نور الحق صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ کے استاد بھی تھے۔ انہوں نے ربوہ اسٹیشن والے دفتر کا انچارج خاکسار کومقرر کر دیا۔ قُلیوں کو اجازت نامے بھی اِسی دفتر سے جاری کیے جاتے تھے۔ 22؍دسمبر 1962ء کو ڈیوٹیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا جس کے لیے ایک تقریب مکرم میرداؤد احمد صاحب مرحوم، افسر جلسہ سالانہ کے دفتر کے سامنے منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی۔ شعبہ استقبال والوداع کے لیے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ایک خیمہ لگا ہوا تھا، وہاں پر قائم کردہ دفتر میں ہم نے کام شروع کر دیا۔ ناظم صاحب نے معاونین کو ڈیوٹی ادا کرنے کی بابت ہدایات دیں اور گاڑیوں کی آمد ورفت کے وقت کہے جانے والے الفاظ سکھائے گئے جن کا بوقت ضرورت لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا جا تا تھا۔ میری ڈیوٹی کئی سال تک اسی شعبہ میں لگتی رہی اور حسبِ معمول خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ان دنوں جلسہ سالانہ پر اسپیشل ٹرینیں بھی آتی تھیں۔ سب سے مشہور اور بڑی ٹرین ’’نارووال اسپیشل‘‘ ہوتی تھی۔ اسپیشل ٹرینوں کے علاوہ بعض جگہوں سے ریگولر چلنے والی گاڑیوں کے ساتھ کچھ زائد ڈبے بھی لگے ہوتے تھے جو کہ احمدیوں نے ریزرو کروائے ہوتے تھے۔ کراچی کی طرح میرپور خاص سندھ سے بھی چناب ایکسپریس کے ساتھ ایسے ایکسٹرا ڈبے آتے تھے۔ جلسہ کے دنوں میں ریل گاڑیاں معمول سے ذرا زیادہ وقت کے لیے ربوہ اسٹیشن پر ٹھہرتی تھیں۔ گاڑیوں کے آتے وقت مہمانوں میں بہت جوش وخروش ہوتا تھا اور فضا نعرہ ہائےتکبیر۔ اللہ اکبر۔ اور احمدیت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔ معاونین مہمانوں کے سامان اتروانے میں مدد دیتے اور جس جگہ انہوں نے جا نا ہوتا تھا اس کی طرف رہ نمائی بھی کرتے تھے۔ قلی جو ریلو ے اسٹیشن پر بھرتی کیے جاتے تھے وہ قریب کے دیہات سے آئے ہوئے لوگ ہوتے تھے۔ ناظم صاحب ان کی درخواستوں کو چیک کرتے اور معمولی فیس لے کر ان کو رجسٹرڈ کر لیا جاتا تھا۔ وہ بھی اپنا کام اخلاص سے سرانجام دیتے اور جتنے سال میں نے کا م کیا کبھی کسی قُلی کے بارے میں شکایت نہیں آئی تھی۔ چونکہ گاڑیاں کچھ وقفے وقفے کے بعد آتی تھیں اس لیے جلسہ کے ایّام میں باری باری معاونین کو جلسہ گاہ میں جانے اور تقاریر سننے کا موقع دیا جاتا تھا۔ افسر جلسہ گاہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ ناظر اصلاح و ارشاد ہوا کرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ کا جو صحن ہے یہاں اور اس کے سامنے کےمیدان میں جلسہ گاہ کا انتظام ہوتا تھا۔ یہاں پر ہی ربوہ میں آخری جلسہ سالانہ منعقد ہوا تھا۔ تا ہم مستورات کے لیے جلسہ گاہ کا انتظام ریلوے لائن کے شمالی جانب نصرت گرلز ہائی سکول و کالج وغیرہ کےاحاطہ میں ہوتا تھا۔ جلسہ گاہ سے نمازیں اور تقاریر وہاں Transmit ہوتی تھیں۔ یہ جلسہ گا ہ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بعد مشرقی جانب دار البرکات کی طرف بڑھتی گئی۔ حتیٰ کہ حاضرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سٹیڈیم کی طرز پر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی گئی۔ تا ہم زیادہ لوگ زمین پر ہی بیٹھتے تھے جہاں پرالی بچھی ہوتی تھی۔ اس جلسہ گاہ کو ہمارے قارئین میں سے ہزاروں احمدیوں نے دیکھا ہو گا۔ نماز ظہر و عصر جلسہ گاہ میں ہوتی تھیں اور باقی نمازیں مسجد مبارک اور محلے کی دوسری مسجدوں میں جاکر پڑھی جاتی تھیں۔ اس طرح قیام گاہوں میں بھی نمازیں باجماعت ہوتی تھیں۔ اجتماعی قیام گاہوں میں شعبہ مہمان نوازی کے کارکنان کے ذریعہ کھانا پیش کیا جاتا تھا اور جن گھروں میں مہمان ٹھہرے ہوتے تھے وہ میزبان صدر حلقہ کی تصدیق کے ساتھ پرچی خوراک لےکر لنگر خانوں سے کھانا لے کر آتے تھے۔ فی کس دو روٹیاں ملتی تھیں اورکھانا دو وقت صبح دال اور شام کو آلوگوشت ملتا تھا۔ اس دال اور آلوگوشت کا ذائقہ بیان سے باہر ہے۔ گوشت بڑا یعنی گائے وغیرہ کا ہوتا تھا اور آلوچھلکے کے ساتھ پکے ہوتے تھے مگر مجال ہے کہ کبھی کِرک وغیرہ ہو۔ الغرض بہت عمدہ ذائقہ ہوتا تھا اور بعض لوگ تو دوران سال یاد کرتے تھے کہ کب جلسہ آئے اور ہم جلسے کی دال اور آلوگوشت کھائیں۔

جلسہ کے دنوں میں خدمت خلق کے معاونین سڑکوں پر جلسہ گاہ کی طرف جانے والے لوگوں کی رہ نمائی کے لیے کھڑے ہوتے تھےاس انتظام میں اطاعت کا یہ عالم تھا کہ جب اور جہاں بھی اگر کسی کو روکا گیا وہ ادھر ہی رُک جاتا تھا۔ احباب جماعت کی تربیت میں یہ ڈیوٹیاں بڑا اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ گول بازار میں دکانوں پر رونقیں بہت بڑھ جاتی تھیں اور درمیانی خالی جگہ پر Extra دکانیں لگتی تھیں جن پر پکوڑے مچھلی اور چاٹ وغیرہ فروخت ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں بچوں کی دلچسپی کی بھی بعض دکانیں ہوتی تھیں جہاں کھلونے اور نشانے بازی کی چیزیں ہوتی تھیں۔ عورتیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ پردے کی رعایت سے خریداری کے لیے آتیں۔ یہ دکاندار باہر کے شہروں سے آئے ہوئے زیادہ تر غیر از جماعت احباب ہوتے تھے۔

قیام گاہوں میں رات کے وقت علمی مجالس بھی ہوا کرتی تھیں۔ بعض دیہاتی مبلغ بڑی اچھی محفلیں لگایا کرتے تھے، بیرکوں میں ٹھہرنے والے اپنے منتظمین کو بعض مخصوص انداز میں نظمیں پڑھنے والوں کو بلانے کے لیے کہتے تھے۔ بعض مخصوص جگہوں پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ بھی سوال وجواب کی مجالس بھی سجتی تھیں۔

1970ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈیوٹیوں کی نوعیت بدل گئی۔ جب لاہور میں مربی کے طور پر ڈیوٹی سپرد تھی تو شعبہ پریس میں ڈیوٹی لگتی رہی۔ روزانہ جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے کچھ دیر بعد خاکسار اور مکرم مولوی شیر الدین احمدصاحب معلم سلسلہ شالیمار ٹاؤن پریس ریلیز لے کر بس کے ذریعہ لاہور جاتےاورپھر رات بھر رکشوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر اخبار والوں کو وہ پریس ریلیز دیتے اور پھر دوسرے دن آکر جلسہ میں شامل ہوتے اور پھر اگلی شام کو پریس ریلیز لے کر جاتے۔

ایک دفعہ Perimeterربوہ کی ڈیوٹی بھی لگی جس کاانچارج خاکسار کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس ڈیوٹی کے تحت رات کے وقت ربوہ کی سرحدوں پر موٹر سائیکل پر چکر لگائے جاتے تھے تا کہ مشکوک افراد پر نظر رکھی جا سکے۔ دن کے وقت بھی ساہیوال روڈکے ساتھ ساتھ فصلوں کے وسیع وعریض علاقے پر نظر رکھنا بھی ہمارے فرائض میں شامل تھا۔ اس سال قائد صاحبان ضلع سرگودہا اور جھنگ اس شعبے میں نائبین کے طور پر خدمات بجا لا رہے تھے۔ 1974ء سے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ربوہ کے جلسوں میں کئی بار شامل نہ ہو سکا۔ جب کبھی پاکستان میں ہوتا تو جلسوں میں شامل ہونے کی سعادت پاتا رہا۔

ربوہ میں مہمانوں کی رہائش کے لیے لنگر خانے کے علاوہ جامعہ احمدیہ، ہوسٹل جامعہ، ہائی اسکول وبورڈنگ اسی طرح ٹی۔ آئی کالج۔ فضلِ عمر ہوسٹل کی عمارات بھی استعمال ہوتی تھیں۔ اس کےعلاوہ بعض کھلی جگہوں پر چھولداریاں یا خیمے بھی لگائے جاتے تھے۔ گھروں میں بھی بہت مہمان ٹھہرتے تھے، بعض لوگ تو اپنے مکان یا مکانوں کا کچھ حصہ مہمانوں کے لیے پیش کر دیتے تھے، علاوہ ازیں گھروں میں بعض میزبان خیمے بھی لگوالیتے تھے۔ تا ہم جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے کھانا لنگر خانوں سے مل جاتا تھا، باقی صاحب خانہ کی طرف سے انہیں بہت سہولتیں مل جاتی تھیںاس لیے گھروں میں ٹھہرنا مہمانوں کے لیے بہت آرام دہ ہوتا تھا۔

اجتماعی رہائش گاہوں میں معاونین کی ڈیوٹیاں لگی ہوتی تھیں جو کہ بڑی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی عارضی بیت الخلا بھی بنائے جاتے تھے جہاں مٹی کے لوٹے رکھے جاتے تھے۔ اسی طرح سالن کے لیے مٹی کے پیالے اورپانی پینے کے لیے مٹی کے آب خورے ہوتے تھے۔ مہمان بستر اپنے ساتھ لاتے تھے۔ مریضوں کے لیے پرہیزی کھانا پکتا تھا جو کہ بکرے کے گوشت اور چاولوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اسی طرح مونگ کی دال بھی مریضوں کے لیے پکتی تھی۔ لنگر خانے مختلف جگہوں پر بنے ہوتے تھے۔ دارالصدر ریلوے اسٹیشن کے سامنے جانب شمال لنگر خانہ نمبر1 کہلاتا تھا اور دارالرحمت (غلہ منڈی ) میں لنگر خانہ نمبر 2۔ اسی طرح ہائی اسکول کے ایریا میں لنگر خانہ نمبر 3 تھا۔ بعد میں پھر دُور دُور کے محلوں میں بھی لنگر خانے بن گئے۔ اور اب گذشتہ سال 2019ءمیں دارالفضل میں لنگر خانہ نمبر16کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ دیکھیں کب خدا تعالیٰ ان لنگر خانوں کی رونقیں واپس لاتا ہے۔ اب ساری دنیا میں منعقد ہونے والے جلسہ ہائے سالانہ میں قادیان اورربوہ کے جلسوں کی ہی سج دھج دکھائی دیتی ہے اور دنیا کے کسی ملک میں جائیں وہی بابرکت نظام نظر آتا ہے۔

لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ کَانَ اُکُلِیْ

وَصِرْتُ الْیَوْمَ مِطْعَامَ الْاَھَالِیْ

کون جانتا تھا کہ دستر خوان کے پس خوردہ ٹکڑے کیا رنگ لائیں گے۔ کیسے کیسے خوانوں، کیسے کیسے ایوانوں، کیسے کیسے لنگروں کو جنم دیں گے۔

ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی

فسبحان الذی اخزی الاعادی

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button