حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قادیان دارالامان اور جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کےبصیرت افروز ارشادات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سےفرماتے ہیں:

’’یہ جلسہ سالانہ شاید partition کے بعد سے بعض لوگوں کے خیال میں بھارت کا جلسہ سالانہ سمجھا جاتا ہو۔ لیکن قادیان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہونے کی وجہ سے اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام اس بستی سے نکل کر پہنچنے کی وجہ سے جو حیثیت اور جو مقام حاصل ہے، وہ اس بستی کو جہاں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا مرکز بناتی ہے وہاں اس بستی میں منعقد ہونے والے جلسوں کو بھی بین الاقوامی جلسہ بناتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج وہاں بتیس تینتیس ملکوں کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ پس قادیان کی بھی ایک اہمیت ہے اور وہاں منعقد ہونے والے جلسوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔ اس بستی کے رہنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے اور اس جلسہ میں شامل ہونے والے دنیا کے کونے کونے سے آنے والے احمدیوں کی بھی ایک اہمیت ہے۔ لیکن یہ اہمیت حقیقت میں اجاگر ہو گی، تب بامقصد ہو گی جب اس بستی میں رہنے والے اس اہمیت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ جب اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے اس جلسہ کے مقاصد کے حصول کے لئے یہ دن اور راتیں جو انہوں نے وہاں گزارنی ہیں، وہ ان کو اس مقصد کے حاصل کرنے میں صَرف کریں گے جو مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور زمانے کے امام نے ان جلسوں کا بتایا ہے، اُن لوگوں کا بتایا ہے جنہوں نے آپ سے عہدِ بیعت باندھا ہے۔

عموماً دنیا کے کسی بھی ملک میں ہونے والے جلسے کا ماحول شامل ہونے والوں پر ایک روحانی اثر ڈالتا ہے۔ اور اس کا اظہار شامل ہونے والے کرتے رہتے ہیں لیکن قادیان کے جلسے کے ماحول میں روحانیت کا ایک اور رنگ محسوس ہوتا ہے۔ جنہوں نے وہاں جلسوں میں شمولیت اختیار کی ہے اُن کو اس بات کا علم ہے اور ہر مخلص کو یہ رنگ محسوس ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس بستی کی فضاؤں میں اور گلی کوچوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کی یادوں کی خوشبو روحانیت کے ایک اور ہی ماحول میں لے جاتی ہے۔ پس اس ماحول میں ملی ہوئی نصیحت بھی ایک خاص رنگ رکھتی ہے، ایک خاص اثر رکھتی ہے اور ہر مخلص کے دل پر ایک خاص اثر کرنے والی ہونی چاہئے۔ اس لئے میں اس جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین کو آج اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جہاں جلسہ میں شامل ہو کر علمی اور تربیتی تقریروں سے فیضیاب ہوں، وہاں اُن مقاصد کو بھی اپنے سامنے رکھیں اور ہر وقت اس کی جگالی کرتے رہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے انعقاد کے بیان فرمائے ہیں … حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے جلسے میں شامل ہونے والے ہر شخص کو یہ دن گزارنے چاہئیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍دسمبر2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جنوری2014ءصفحہ5تا6)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے فرماتے ہیں:

’’ایک وقت تھا کہ قادیان میں صرف جلسہ سالانہ ہوا کرتا تھا۔ پھر پارٹیشن ہوئی تو پاکستان میں بھی جلسہ سالانہ شروع ہو گیا۔ لیکن مخالفین احمدیت اور حکومتوں کو پاکستان میں احمدیوں کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنا سخت ناگوار گزراجس کی وجہ سے ایک قانون کے تحت جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے اور نام لینے سے روک دیا گیا اور اس پر عمل درآمد کے لئے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگا دی گئی اور یوں جماعت احمدیہ کے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں افراد کو اپنے زعم میں ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر سے محروم کر دیا۔ لیکن مخالفین احمدیت یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ظاہری قانونی پابندیاں جسموں کو تو پابند کر سکتی ہیں لیکن دلوں کو نہیں۔ باوجود جذباتی اذیّت کے، باوجود مالی نقصان کے، باوجود جان کی قربانی لینے کے دشمن احمدیت ہمارے دلوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں چھین سکتا۔ ہمارے دلوں سے تمام تر تکلیفیں دینے کے باوجود اور نقصان پہنچانے کے باوجود ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں نکال سکتا۔ ہمارے مخالفین جو بظاہر ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں یہ کلمے سے محبت کا عجیب دعویٰ کرتے ہیں کہ بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ مسلمانوں میں سے ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کلمے کی محبت میں نہ صرف ہر چیز قربان کرنے کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ عملاً ثابت بھی کر چکا ہے کہ کلمے کی محبت ان کے بچّے بچّے کے دل میں راسخ ہے۔ پھر بھی کلمہ پڑھنے سے روکنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین احمدیت کی احمدیوں کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں کو ہر منصف مزاج احمدیت کی مخالفت نہیں بلکہ اسلام کی ہی مخالفت کہے گا۔ بہر حال جلسے کے حوالے سے پاکستان کے احمدیوں اور پاکستان کے جلسے کا بھی ذکر آ گیا۔ ہر سال دسمبر کا مہینہ پاکستان میں بسنے والے احمدیوں کے لئے جلسے کے حوالے سے جذبات میں ایک غیر معمولی جوش پیدا کرنے والا بن کے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے یہ جذبات خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح بہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے ہر مخالفت، ہر تنگی، ہر مشکل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں اور پاکستان کے احمدی بھی ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جن سے آج دنیائے احمدیت فیض پا رہی ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے یہ جلسہ صرف قادیان میں ہوتا تھا پھر قادیان سے نکل کر ربوہ میں شروع ہوا لیکن ربوہ میں پابندیاں لگ گئیں۔ مخالفین نے تو سمجھا تھا اور حکومتِ وقت نے بلکہ حکومتوں نے جو بھی وقتی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے مخالفین پر ہاتھ رکھ کر یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں پابندیاں لگا کر وہ احمدیت کی ترقی کو روک دیں گے۔ لیکن ہوا کیا؟ جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے کہ آج ان دنوں میں دنیا کے کئی ممالک میں جلسے ہو رہے ہیں اور دوران سال اپنی اپنی سہولت اور حالات کے مطابق دنیا کے تقریباً تمام ان ممالک میں جلسے ہوتے ہیں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قائم کردہ اس جلسے کے نظام نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ گو چند ممالک میں پہلے بھی جلسے ہوتے تھے جب ربوہ میں جلسے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان جلسوں کی بھی وسعت کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے اور مزیدنئے ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کے دنیاوی لیڈر اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بلکہ بعض شریف الطبع مسلمان بھی جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کو ایک ایسی تقریب قرار دیتے ہیں جو دنیا کو اسلام کی حقیقت بتا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرتی ہے۔ پس یہ نتائج تو نکلنے تھے اور نکل رہے ہیں کہ دنیا کو جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے اسلام کا پتا لگ رہا ہے۔ دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پتا چلنا تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے جس کے بارے میں خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ

’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 281اشتہار 7دسمبر 1892ء اشتہار نمبر 91)

یعنی یہی جلسہ ہے جس کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کا نام بلند ہونا ہے کیونکہ اس جلسہ میں آنے والے وہ کچھ سیکھیں گے جو ان کی علمی اور عملی حالتوں میں ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہو گا اور پھر یہ علمی اور عملی انقلاب دنیا پر اپنی خوبصورتی ظاہر کر کے دنیا کو اسلام کی خوبصورتی اور اس کے سب سے کامل، مکمل اور سب مذاہب سے بالا تر مذہب ہونا ثابت کرے گا کیونکہ صرف انسانی کوششیں ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید یہ کام دکھائے گی۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍دسمبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جنوری2015ءصفحہ5تا6)

جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ابتدائی جلسوںکا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ کی بیان فرمودہ روایات کی روشنی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’قادیان کے جلسہ سالانہ کی خاص طور پر اس لحاظ سے بھی اہمیت ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بستی میں ہو رہا ہے اور یہیں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اِذن پا کر جلسے شروع کروائے تھے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مختلف خطابات اور خطبات میں جلسہ سالانہ کے حوالے سے ہمیں اس زمانے سے بھی آگاہی دی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تھا اور جماعت کی ابتدا تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسوں کا نقشہ کھینچا ہے کہ شروع کے جلسے کیسے ہوتے تھے وہاں بعض الہامات کا بھی ذکر فرمایا کہ کس طرح بعض الہامات کو اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں پورا ہوتا دکھایا اور دکھا رہا ہے۔ بعض الہامات آئندہ زمانوں کے متعلق ہوں گے یا ایک دفعہ پورے ہو چکے اور دوبارہ بھی پورے ہوں گے۔

…ابتدائی جلسوں میں سے ایک کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓاپنے بچپن کا تاثر اور جماعت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ 1936ء کی بات ہے جب آپ فرما رہے ہیں کہ قریباً چالیس سال پہلے اس جگہ پر جہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں (قادیان میں جو جگہ ہے) ایک ٹوٹی پھوٹی فصیل ہوا کرتی تھی۔ ایک فصیل تھی جس نے پورے قادیان کی آبادی کو گھیرا ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں قادیان کی حفاظت کے لئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی۔ وہ خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈّا اس پر چل سکتا تھا (یعنی بیل گاڑی)۔ پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تڑوا کر نیلام کر دیا تو اس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا۔ وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی۔ ایک لمبا ٹکڑا پلاٹ تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت 93ء تھا یا 94ء یا 95ء قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا۔ یہی دسمبر کے دن تھے۔ یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے جماعت یادنہیں کی جاتی تھی۔ (احمدی نام جو ہے یہ 1901ء میں رکھا گیا۔ اس سے پہلے احمدی کی باقاعدہ ایک نشانی نہیں تھی۔ احمدی کہلاتے تو نہیں تھے مگر یہی مقاصد اور یہی مدعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے) کہتے ہیں کہ مَیں نہیں کہہ سکتا آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی یا کارروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا (جہاں ذکر فرما رہے ہیں) اور بعض مسجد میں ہوا کیونکہ میری (حضرت مصلح موعود ؓکی) عمر اس وقت سات آٹھ سال کی ہو گی۔ اس لئے میں زیادہ تفصیلی طور پر اس بات کو یادنہیں رکھ سکا۔ میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے ارد گرد دوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا۔ میرے لئے اس زمانے کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں۔ اس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے اور ارد گرد دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے۔ (کہتے ہیں) ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو، دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک ہی دری تھی۔ اس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ڈیڑھ سو ہوں گے یا دو سو اور بچے ملا کر ان کی فہرست اڑھائی سو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی۔ کہتے ہیں مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایک دری تھی یا دو دَریاں۔ بہرحال ان کے لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اس جلسہ گاہ (جس پہ یہ ذکر فرما رہے ہیں اس) کے سٹیج کی جگہ ہے۔ (بلکہ آجکل ہمارے جلسوں کے سٹیج تو اور بھی بڑے ہوتے ہیں۔) کہتے ہیں مَیں نہیں کہہ سکتا کیوں؟ مگر مَیں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی۔ (ایک جگہ سے اٹھائی، پھر دوسری جگہ سے، اور پھر تیسری جگہ سے۔) پہلے ایک جگہ بچھائی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھا کر اسے کچھ دُور بچھایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھایا گیا۔ اور پھر تیسری جگہ اس جگہ سے بھی اٹھا کر کچھ اور دور وہ بچھائی گئی۔ کہتے ہیں کہ اپنے بچپن کی عمر کے لحاظ سے مَیں نہیں سکتا کہ آیا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اس جگہ دری بچھاؤ یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہرحال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی۔‘‘

(ماخوذ ازجماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ و بکا کرنے کا نتیجہ ہے… انوارالعلوم جلد14 صفحہ321تا323)

آج جو لوگ قادیان میں اس وقت جلسے کی غرض سے گئے ہوئے ہیں وہ شاید اس وقت کی حالت کا اندازہ نہ کر سکتے ہوں۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع جلسہ گاہ میسر ہے جس کو پکی چار دیواری سے گھیرا گیا ہے اور اس میں بھی کوشش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا ہوں۔ 1936ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ یہ فرما رہے ہیں اس کے بعد پارٹیشن تک مزید وسیع انتظام ہوتے گئے۔ قادیان پر بعد میں پارٹیشن کے وقت ایسا دور بھی آیا جب صرف دارالمسیح اور ارد گرد کے چند گھروں تک احمدی محدود ہو گئے بلکہ چند سو کے سوا سب کو ہجرت کرنی پڑی اور یہ جو چند ایک احمدی تھے وہ بھی بڑے کمزور تھے۔ لیکن آج پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قادیان میں وسعت پیدا ہو رہی ہے اور وہاں جانے والے جو پہلی دفعہ گئے ہوں گے، نئی نسلیں ہیں، نوجوان ہیں یا باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں، اب صرف اس وسعت کو دیکھ رہے ہوں گے۔ لیکن تاریخ کے دریچے میں سے جھانک کر ہم دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش نظر آتی ہے۔…

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو وہاں جمع تھے (جن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھایا جاتا تھا) اس نیت اور اس ارادے سے کہ اسلام دنیا میں نہایت ہی کمزور حالت میں کر دیا گیا ہے اور وہ ایک ہی نور جس کے بغیر دنیا میں روشنی نہیں ہو سکتی اسے بجھانے کے لئے لوگ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں (یعنی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو نور ہے۔) اسے وہ ظلمت اور تاریکی کے فرزند مٹادینا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں اس ایک ارب اور پچیس تیس کروڑ آدمیوں کی دنیا میں (اُس زمانے میں جو آبادی تھی) دو اڑھائی سو بالغ آدمی جن میں سے اکثر کے لباس غریبانہ تھے جن میں سے بہت ہی کم لوگ تھے جو ہندوستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی متوسط درجے کے کہلا سکیں جمع ہوئے تھے۔ اس ارادے سے اور اس نیت سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا جسے دشمن سرنگوں کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ اس جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیں گے بلکہ اسے پکڑ کر سیدھا رکھیں گے اور اپنے آپ کو فنا کر دیں گے مگر اسے نیچا نہیں ہونے دیں گے۔ اس ایک ارب پچیس کروڑ آدمیوں کے سمندر کے مقابلے کے لئے دو اڑھائی سو کمزور آدمی اپنی قربانی پیش کرنے کے لئے آئے تھے۔ (اس وقت96۔ 1895ء میں) جن کے چہروں پر وہی کچھ لکھا ہو اتھا جو بدری صحابہ کے چہروں پر لکھا ہوا تھا۔ جیسا کہ بدر کے صحابہ نے حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! بیشک ہم کمزور ہیں اور دشمن طاقتور مگر وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جبتک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے۔ ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ زندہ موتیں ہیں جو اپنے وجود سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کے دین کے قیام کے لئے ایک آخری جدو جہد کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ دیکھنے والے اُن پر ہنستے تھے۔ دیکھنے والے ان پر تمسخر کرتے تھے اور حیران تھے کہ یہ لوگ کیا کام کریں گے۔ (کہتے ہیں کہ) مَیں خیال کرتا ہوں کہ وہ ایک دری تھی یا دو دریاں۔ بہرحال ان کے لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اس سٹیج کی جگہ ہے۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کیوں مگر اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی (جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے)۔ حضرت یوسف کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں جب یوسف مصر کے بازار میں بکنے کے لئے آئے تو ایک بڑھیا بھی دو رُوئی کے گالے لے کر پہنچی۔ (چھوٹے گولے لے کے) کہ شاید میں ہی ان گالوں سے یوسف کو خرید سکوں۔ دنیا دار لوگ اس واقعہ کو سنتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ روحانی لوگ اسے سنتے ہیں اور روتے ہیں کیونکہ ان کے قلوب میں فوراً یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جہاں کسی چیز کی قدر ہوتی ہے وہاں انسان دنیا کی ہنسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ مگر مَیں کہتا ہوں یوسف تو ایک انسان تھا اور اس وقت تک یوسف کی قابلیتیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ (چھوٹی عمر تھی) آخر اس کے بھائیوں نے نہایت ہی قلیل قیمت پر اسے فروخت کر دیا تھا۔ (یہ کہانی اگر سچی بھی مان لی جائے۔) ایسی حالت میں اگر بڑھیا کو یہ خیال آیا ہو کہ شاید روئی کے دو گالوں کے ذریعہ سے میں یوسف کو خرید سکوں تو یہ کوئی بعید بات نہیں۔ خصوصاً جب ہم اس بات کو مدّنظر رکھیں کہ جس ملک سے یہ قافلہ آیا تھا وہاں روئی نہیں ہوا کرتی تھی اور وہ مصر سے ہی روئی لے جایا کرتے تھے تو پھر تو یہ کوئی بھی بعید بات معلوم نہیں ہوتی کہ روئی کی قیمت اس وقت بہت بڑھی ہوئی ہو اور وہ بڑھیا واقعہ میں یہ سمجھتی ہو کہ روئی سے یوسف کو خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن جس قیمت کو لے کر وہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقینا ً ایسی ہی قلیل تھی (یعنی کہ اس وقت یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد دو اڑھائی سو آدمی بیٹھے تھے۔ جس قیمت کو لے کر یہ لوگ جمع ہوئے تھے وہ یقینا ًایسی ہی قلیل تھی) اور یہ یوسف کی خریداری کے واقعہ سے زیادہ نمایاں اور زیادہ واضح مثال اس عشق کی ہے۔ وہ اصل چیز کیا ہے؟ یہ عشق ہے۔ جو انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ (وہ بڑھیا تو یہ سمجھی تھی کہ اس کی یہی ’’میری قیمت‘‘ کافی ہے۔ لیکن یہاں ایک اور قیمت لگ رہی ہے جو عشق کی قیمت ہے جو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے اور پھر یہ عشق) انسان سے ایسی ایسی قربانیاں کراتا ہے جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ دو یا اڑھائی سو آدمی جو جمع ہوا ان کے دل سے نکلے ہوئے خون نے خدا تعالیٰ کے عرش کے سامنے فریاد کی۔ بیشک ان میں سے بہتوں کے ماں باپ زندہ ہوں گے، بیشک وہ خود اس وقت ماں باپ یا دادے ہوں گے مگر جب دنیا نے ان پر ہنسی کی، جب دنیا نے انہیں چھوڑ دیا، جب اپنوں اور پرایوں نے انہیں الگ کر دیا اور کہا کہ جاؤ اے مجنونو! ہم سے دُور ہو جاؤ۔ (جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو ان کے باوجود بڑے ہونے کے، باپ ہونے کے، دادا ہونے کے، بچے ہونے کے، لوگوں نے ان کو گھروں سے نکال دیا کہ ہم سے دُور ہو جاؤ) تو وہ باوجود بڑے ہونے کے یتیم ہو گئے۔ کیونکہ یتیم ہم اسے ہی کہتے ہیں جو لاوارث ہو اور جس کا کوئی سہارا نہ ہو۔ پس جب دنیا نے انہیں الگ کر دیا تو وہ یتیم ہو گئے اور خدا کے اس وعدے کے مطابق کہ یتیم کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے جب وہ قادیان میں جمع ہوئے اور سب یتیموں نے مل کر آہ و زاری کی تو اس آہ کے نتیجہ میں وہ پیدا ہوا جو آج تم اس میدان میں دیکھ رہے ہو۔‘‘

(ماخوذ ازجماعت احمدیہ کی عظیم الشان ترقی آستانہ رب العزت پر گریہ و بکا کرنے کا نتیجہ ہے۔ انوارالعلوم جلد14 صفحہ322-323)

یعنی اس وقت جو لوگ جلسے میں جمع تھے اور وسیع میدان تھا۔ قادیان تھا۔ پس اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے چند ہزار لوگوں کو کہا تھا کہ ان دو اڑھائی سو لوگوں کی آہوں کا نتیجہ تم دیکھ رہے ہو۔ یعنی کہ اس میدان میں ان دو اڑھائی سو لوگوں کی آہیں تھیں جس کا نتیجہ تم یہ دیکھ رہے ہو کہ اسی میدان میں قادیان میں تم بیٹھے ہوئے ہو۔

آج جیسا کہ میں نے بتایا کہ قادیان کی جلسہ گاہ اور بھی وسیع ہو چکی ہے۔ مَیں جلسہ میں شامل ہونے والے مرد عورتیں جتنے بھی لوگ ہیں، ان سے کہتا ہوں کہ ایک وسیع میدان جس میں تمام سہولتیں بھی میسر ہیں جہاں ایک زبان کی بجائے (اس زمانے میں تو ایک زبان میں حضرت مصلح موعود تقریر فرما رہے تھے اب وہاں ایک کے بجائے) کئی زبانوں میں آوازیں پہنچائی جا رہی ہیں۔ اس وقت خطبہ بھی وہاں بیٹھ کر سن رہے ہیں۔ سات آٹھ زبانوں میں ان کو خطبہ کا ترجمہ بھی پہنچ رہا ہے۔ جہاں اس وقت مختلف قوموں کے لوگ بیٹھے ہیں، جہاں پاکستان سے آئے ہوئے اپنے حقوق سے محروم لوگ بھی بیٹھے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے آپ میں وہ ایمان اور اخلاص پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں، ایک جذبہ پیدا کریں جو اُن دو سو لوگوں میں تھا جس کی مثال حضرت مصلح موعودنے دی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍دسمبر2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جنوری2016ءصفحہ5تا6)

قادیان کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مَیں جب سے اس ملک بھارت میں آیا ہوں، مجھ سے کئی دفعہ یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ اب آپ قادیان جا رہے ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں ؟ تو میرا جواب تو ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہے اور ہر احمدی کو اس سے ایک خاص تعلق ہے، ایک جذباتی لگاؤ ہے اور جوں جوں ہم قادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں ان جذبات کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دنیا دار کا جذباتی تعلق تو ایک و قتی جوش اپنے اندر رکھتا ہے لیکن ایک احمدی کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روحانیت کے مدارج طے کرنے کے راستے دکھائے ہیں اس کا آپ سے روحانیت کا تعلق ہے۔ اس کے جذبات میں تلاطم یا جذباتی کیفیت وقتی اور عارضی نہیں ہوتی اور نہ ہی وقتی اور عارضی ہونی چاہئے۔ اس بستی میں داخل ہو کر جو روحانی بجلی کی لہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے سب احمدیوں کو، یہاں آنے والوں اور رہنے والوں کو، اس لہر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینا چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کی تویہ سب سے زیادہ ذمہ داری ہے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کے گلی کوچوں نے مسیحا کے قدم چومے۔ اور آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کی خاک نے مسیح دوران اور امام الزمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے پاؤں دم بدم چومے ہیں۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ میں سے ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے یا اُن لوگوں کی نسل میں سے ہے جنہوں نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍دسمبر2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2006ءصفحہ5)

’’اس بستی میں پہنچ کر ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ مینارۃ المسیح دُور سے ہی ایک عجیب شان سے کھڑا نظر آتا ہے۔ بہشتی مقبرہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مزار ہے، دعا کرکے عجیب سکون ملتا ہے۔ سب جانے والے تجربہ رکھتے ہیں۔ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔ قادیان میں تقریباً ایک ماہ قیام رہا۔ لیکن پتہ نہیں چلا کہ ایک ماہ کس طرح گزر گیا۔…

قادیان کے سفر کے حالات تو ایک حالِ دل کی کہانی ہے جو سنائی نہیں جا سکتی۔ … اب تک مَیں نے جو دورے کئے ہیں، سفر کئے ہیں، ان میں پہلا سفر ہے جس کی یاد ابھی تک بے چین کرتی ہے اور باقی ہے۔ عجیب نشہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بستی کا۔ اس سے زیادہ کہنا کچھ مشکل ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2006ء مطبوعہ 10؍فروری2006ءصفحہ8)

دورہ قادیان 2005ء کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’وہاں قیام کے دوران جلسے کے تین دن ہی نہیں جو تقریروں کے تین دن تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ پورا مہینہ ہی جلسے کا سا سماں ہے۔ اور ہر وقت رونق۔ کسی نے جو یورپ سے خود جلسے قادیان پر گئے ہوئے تھے مجھے خط لکھاکہ گلیوں اور سڑکوں پہ جتنا رش تھا اور جو نظارے تھے ایم ٹی اے کے کیمرے اس طرح وہ دکھا نہیں سکے۔ ان کی بات ٹھیک ہے۔ رش کا تو یہ حال تھا کہ گو سڑکیں چھوٹی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ آبادی اتنی نہیں لگتی تھی جتنا وہاں سڑکوں میں پھنسی ہوئی نظر آتی تھی۔ بعض دفعہ ٹریفک یا لوگوں کا چلنا رک جاتا تھا۔ گلیوں میں Pack Jam- تھا۔ بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ بعض دفعہ اتنا رش تھا کہ سڑکوں پر چلتے چلتے ایک دم اگر کوئی روک آجاتی تھی تو ہلنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ تو بہرحال بچے، بوڑھے، مرد، عورتیں، قادیان کے مقامی یا ہندوستان کے دوسرے شہروں سے آئے ہوئے یا باہر کے ملکوں سے آئے ہوئے مہمان جو بھی احمدی تھے اور احمدیت جن کے دلوں میں بیٹھ چکی ہے ہر ایک کے چہرے سے لگتا تھا کہ ان دنوں میں کسی اور دنیا کی مخلوق بنے ہوئے ہیں۔ کسی اور دنیا کے رہنے والوں کے چہرے ہیں۔ جلسے پر بعض دوسرے جزیروں سے، ساتھ کے چھوٹے جزیروں سے لمبا سفر کرتے ہوئے غریب لوگ پہنچے تھے۔ بعضوں کا چھ سات دن کا سفرتھا۔ ایک دن سمندر میں سفر کیا پھر انتظار کیا پھر کئی دن ٹرین پہ سفرکیا اور پھر قادیان پہنچے قادیان میں سردی بھی زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ گرم علاقوں کے لوگ تھے۔ ان کو سردی کی عادت نہیں تھی۔ لیکن ایمان کی گرمی کی شدت نے اس کا شاید اُن کو احساس نہیں ہونے دیا۔ انتہائی صبر سے انہوں نے یہ دن گزارے ہیں۔ یہ نظارے صرف وہیں نظر آ سکتے ہیں جہاں خدا کی خاطر یہ سب کچھ ہو۔ دنیا دار تو اس قربانی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعض دُور دراز سے آئے ہوئے غریب لوگوں سے آنے کے بارے میں جو پوچھو تو یہی جواب دیتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں کیونکہ جلسہ ہو رہا تھا اس لئے ہم آ گئے ہیں۔ مختلف قومیتوں کے، علاقوں کے لوگ، قبیلوں کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ مالی لحاظ سے اکثریت غریب ہے۔ ہندوستان بہت بڑا وسیع ملک ہے اور موسموں کا بھی بڑا فرق ہے، کہیں گرم علاقے ہیں کہیں بہت ٹھنڈے علاقے ہیں۔ جو گرم علاقے والے ہیں ان کو گرم کپڑوں کا تصور بھی نہیں ہے نہ ان کے پاس ہوتے ہیں۔ لیکن مسیح محمدی کے یہ متوالے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں سے جھولیاں بھرنے کے لئے کھنچے چلے آئے۔ ایم ٹی اے پر بھی آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا، رپورٹس بھی پڑھی ہوں گی۔ آنے والوں سے سنا بھی ہو گا۔ لیکن وہاں جو کیفیت تھی وہ دیکھنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ بلکہ ملاقات کے وقت بعضوں کا جو حال ہوتا تھا وہ صرف مَیں ہی محسوس کر سکتا ہوں۔ پس اخلاص و وفا اور نیکی میں بڑھنے کی یہ کیفیت اگرجماعت کے افراد اپنے اندر قائم رکھے رہے اور رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت بھی ترقی کرتی جائے گی اور جماعت کے لوگ بھی کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔

قادیان کے جلسے پر پاکستان سے آنے والوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ گو کہ زیادہ نہیں آ سکے لیکن 5ہزار سے زائد وہاں سے بھی آئے تھے۔ ان لوگوں کے احساس محرومی اور جدائی کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بعض نہ آنے والوں نے خطوں میں بھی اور بعض جن کو شعر و شاعری سے لگاؤ ہے انہوں نے شعروں میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا جنہیں پڑھ کر دل کی عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ گو کہ آنے والوں سے وقت کی کمی وجہ سے صرف مصافحے ہوئے یا ایک آدھ لفظ کسی نے بات کہہ دی لیکن یہ چند سیکنڈ بھی جو ان لوگوں سے ملاقات کے ملے تھے وہ برسوں کی کہانی سنا جاتے تھے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2006ء مطبوعہ 10؍فروری2006ءصفحہ8)

مخالفین احمدیت کا جماعت احمدیہ کے جلسوں پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’ایک ملک میں جلسے پر پابندیاں لگا کر مخالفین نے سمجھا تھا کہ ہم نے احمدیت کو بڑی کاری ضرب لگا دی۔ دشمن نادان ہے سمجھتا نہیں کہ امام الزمان ہونے کا اعلان کرنے والے نے، مسیح محمدی کا اعلان کرنے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ مَیں جماعت قائم کر رہا ہوں بلکہ فرمایا تھا کہ ’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے‘‘۔ پس اگر دشمنان احمدیت میں ہمت ہے تو خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر لیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت ہے اور کیوں نہ ہو جبکہ آپ کو تو اس زمانے میں اپنے دین کی عظمت قائم کرنے کے لئے مامور ہی خدا تعالیٰ نے کیا ہے۔ پس مخالفت سے پہلے آپ کے اس اعلان پر غور کرنا چاہئے جس میں آپ نے فرمایا۔ ایک شعر کا ایک مصرع ہے کہ

’’اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 133)

(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍دسمبر2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍جنوری2015ءصفحہ6)

اہل قادیان اور پاکستان سے حضرت خلیفۃ المسیح کی جسمانی دوری کو جلد ختم کرنے کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف انہیں توجہ دلاتے ہوئے حضور انور فرماتے ہیں:

’’جب قادیان پہنچا ہوں تو وہاں کے رہنے والوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے۔ جب واپس آ رہا تھا تو جدائی کے غم کے آنسو تھے۔ پس قادیان والوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ اس جدائی کے غم کو دور کرنے کے لئے اور دوبارہ اور بغیر کسی روک کے ملنے کے لئے ان آنسوؤں کو ہمیشہ بہنے والا بنا لیں۔ اور اہل پاکستان بھی اور اہل ربوہ بھی ہمیشہ اپنے آنسوؤں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے بہنے والا بنالیں۔ اپنی عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا گڑ گڑائیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت فرماتے ہوئے ہماری کامیابی کی منزلیں نزدیک تر کر دے۔ آمین۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جنوری2006ء مطبوعہ 10؍فروری2006ءصفحہ9)

ربوہ اور پاکستان کے احمدی گذشتہ کئی سالوں سے جلسہ سالانہ کی رونقوں سے محروم ہیں۔ اس محرومی کا ازالہ کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’آج ربوہ کے رہنے والے بھی ان دنوں بے چین ہوں گے تو انہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات بدلیں گے اور رونقیں بھی قائم ہوں گی لیکن ربوہ کے رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ پاکستان میں رہنے والوں کو دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (آل عمران: 140)

اور کمزوری نہ دکھاؤ اور غم نہ کرو۔ یقیناً تم ہی غالب آنے والے ہو جبکہ تم مومن ہو۔ شرط یہ لگائی جبکہ تم مومن ہو۔ پس ایمان میں زیادتی اور دعاؤں پر زور سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر کے حالات بدلتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍دسمبر2015ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جنوری2016ءصفحہ6)

(مرتبہ:سید احسان احمد۔ مربی سلسلہ الفضل انٹرنیشنل لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button