تاریخ احمدیت

19؍دسمبر 1928ء: قادیان کی ترقی کا نیا دَور اور ریل کی آمد

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس وقت خدا سے حکم پاکر دعویٰ ماموریت فرمایا تھا اس وقت قادیان ایک بہت چھوٹا سا گمنام گاؤں تھا ۔قادیان کی آبادی دو ہزار نفوس سے زیادہ نہ ہوگی۔ اس کے اکثر گھر ویران نظر آتے تھے۔ اور ضروری استعمال کی معمولی معمولی چیزوں کی خرید کے لیے بھی باہر جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح اس وقت قادیان کی بستی تار اور ریل وغیرہ سے بھی محروم تھی اور دنیا سے بالکل منقطع حالت میں پڑی تھی۔ قادیان کا ریلوے سٹیشن بٹالہ تھا۔ جو قادیان سے 12میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس کے اور قادیان کے درمیان ایک ٹوٹی پھوٹی کچی سڑک تھی۔ جس پر نہ صرف پیدل چلنے والے تھک کر چور چور ہو جاتے تھے بلکہ یکےّ میں سفر کرنے والوں کو بھی بہت تکلیف اٹھانا پڑتی تھی۔

چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ اور بعض دوسرے بزرگوں کے چشم دید واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں سب سے پہلی مشکل تو اس بستی کی گمنامی کی وجہ سے اس کی تلاش تھی اور دوسرا بڑا بھاری مرحلہ قادیان پہنچنے کا تھا۔ آمد و رفت کے ذرائع کی اتنی کمی تھی کہ سواری بڑی مشکل سے ملتی تھی اور اس زمانے کی سواریاں بھی کیا تھیں۔ بیل گاڑی، ریڑھو، گڈا، اور سب سے بڑھ کر دقیانوسی یکہ۔ چلنے میں جھٹکوں کی کثرت سے پسلیاں دکھ جایا کرتیں، پیٹ میں درد اٹھنے لگتا اور جسم ایسا ہو جاتا کہ گویا کوٹا گیا ہے۔ یکہ مل جانے کے بعد دوسری مشکل یہ ہوا کرتی تھی کہ یکہ بان غائب ہو جاتا۔ وہ نہار لینے چلا جایا کرتا۔ اور جب تک کئی مسافر ہاتھ نہ آجاتے اس کی نہاری تیار نہ ہو سکتی اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو جایا کرتا۔ سڑک کی کیفیت لکھنے کی تو ضرورت نہیں کیونکہ اس کی تفصیل خود خداوند عالم الغیب نے فَجٍّ عَمِیْقٍ کے کلام میں فرما دی ہے۔ اس کی خرابی تو روز بروز بڑھتی رہتی مگر مرمت کی نوبت مدتوں تک نہ آتی۔ چونکہ غلہ اور دوسری تمام ضروری چیزیں گڈوں ہی کے ذریعہ سے آتی جاتی رہتی تھیں اس لیے سڑک اور بھی خستہ و خراب رہتی تھی۔ یکہ کی ہیئت ترکیبی کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ اچھے خاصے تازے گھوڑے کا حال بھی چند ہی روز جوتے جانے پر ایسا پتلا ہو جاتا کہ دیکھنے والوں کے دل رحم سے بھر جاتے۔ کبھی یکہ سواریوں کو لے کر چلتا اور کبھی سواریاں یکہ کو لے کر۔ حضرت مولانا انوار حسین خاں رئیس شاہ آباد ضلع ہر دوئی جوالسابقون الاولون میں سے تھے۔ یکہ تو کرایہ پر لے لیتے مگر صرف بستر اس کے پیچھے بندھوا دیتے۔ اور دوسرے لوگوں کو بٹھا دیتے اور خود تمام راستہ پیدل ہی طے فرما کر قادیان پہنچتے۔ یکہ میں بیٹھ کر سفر کا کوئی حصہ تو شاید ہی کبھی آپ نے طے کیا ہو۔ سفر کا زیادہ حصہ تو اور حضرات کو بھی پیدل ہی طے کرنا پڑتا تھا اور برسات کے موسم میں تو خدا کی پناہ۔ بعض اوقات سارا سارا دن چلنے پر بھی قادیان پہنچ جانا ممکن نہ تھا۔ یکے دلدل میں پھنس جانے پر تو ایسی مصیبت پیش آتی جو برداشت سے باہر ہو جاتی۔ سامان مزدوروں کے سر پر آتا اور سواریاں بدقت پیدل چل کر!! یکہ بان مجبور ہوکر گھوڑا اپنے ساتھ لے آتا اور یکہ سڑک پر کھڑا رہ جاتا۔

قادیان کی بستی نشیب میں واقع ہے۔ برسات میں چاروں طرف سے پانی کا سیلاب آیا کرتا جس سے گاؤں کے اردگرد کی ڈھابیں، کھائیاں اور خندقیں پانی سے بھر جایا کرتیں اور زائد پانی قریباً ڈیڑھ میل تک بٹالہ قادیان کی سڑک میں سے ہی گذرا کرتا جو بعض اوقات اتنا گہرا اور تیز رو ہو جاتا کہ اس میں سے سلامت گذر جانا بہت ہی دشوار ہو جاتا اور گاؤں صحیح معنوں میں ایک جزیرہ بن جایا کرتا۔

(’’مرکز احمدیت قادیان‘‘صفحہ49-51۔ مؤلفہ شیخ محمود احمد عرفانی مرحوم مجاہد بلاد عربیہ)

قادیان کی ترقی کے متعلق پیشگوئیاں

یہ تھے وہ حالات جن میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلسلہ کی ترقی اور قادیان کی ترقی کے بارے میں بشارتیں دی گئیں۔ چنانچہ 1902ء میں آپ کو عالم کشف میں دکھایا گیا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا اور انتہائے نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے الخ۔

(الحکم20؍اپریل1902ءصفحہ12تا13۔بحوالہ تذکرہ طبع دوم صفحہ433تا434)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہاں تک دکھایا گیا کہ قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک پہنچ جائے گی۔

(الفضل 14؍ اگست 1928ء صفحہ 6۔ کالم3و تذکرہ طبع دوم صفحہ 779)

مگر اس کے ساتھ ہی آپ کو یہ بھی اطلاع دی گئی کہ قادیان کی اس پر رونق اور وسیع آبادی سے قبل قادیان کو ابتلاؤں کے ایک سلسلہ میں سے گذرنا پڑے گا۔ مثلاً آپ کو دکھایا گیا قادیان آنے کا راستہ حضورؑ پر بند ہے۔

(تذکرہ طبع دوم صفحہ 463)

الدار کے اردگرد ایک دیوار کھینچی جا رہی ہے جو فصیل شہر کے رنگ میں ہے۔ (تذکرہ طبع دوم صفحہ 440تا443)

قادیان کے راہ میں سخت اندھیرا ہے مگر آپ ایک غیبی ہاتھ کی مدد سے کشمیری محلہ سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے ہیں۔

(تذکرہ طبع دوم833تا834)

اس سلسلہ میں حضور کو یہ الہام بھی ہوا کہ

اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقْرْآنَ لَرَادُّکَ اِلَی مَعَادٍ

یعنی وہ قادر خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا پھر تجھے واپس لائے گا۔ (تریاق القلوب صفحہ 91، تذکرہ طبع دوم صفحہ 313)

پھر اپریل 1905ء میں حضور نے رؤیا میں دیکھا کہ

’’میں قادیان کے بازار میں ہوں اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے۔ ‘‘

(الحکم 17؍ اپریل 1905ء صفحہ 12۔ بحوالہ تذکرہ صفحہ 534)

قادیان میں ریل گاڑی کے پہنچنے کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی ایک مشہور پیشگوئی ہے۔ کئی صحابہ نے اسے خود حضورؑ کی زبان مبارک سے سنا تھا حتیٰ کہ انہیں حضورؑ نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ قادیان کی ریلوے لائن نواں پنڈ اور بسراواں کی طرف سے ہوکر پہنچے گی۔ چنانچہ روایات صحابہ میں مرزا قدرت اللہ صاحب ساکن محلہ چابک سواراں لاہورشاہ محمد صاحب ساکن قادیان اور میاں چراغ دین صاحب ولد میاں صدر الدین صاحب قادیان کی شہادتیں ملتی ہیں۔

(تذکرہ طبع دوم صفحہ 780۔ 781۔ 809)

پیشگوئی کے ظہور کا وقت

ان غیبی خبروں کے پورا ہونے کا بظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا تھا بلکہ حکومت کی بے اعتنائی کا تو یہ عالم تھا کہ ریلوے لائن بچھوانے کا تو کیا ذکر صرف اتنی بات کی منظوری کے لیے کہ قادیان سے بٹالہ تک سڑک پختہ کر دی جائے اور اس کے لیے سالہا سال کوشش بھی جاری رکھی گئی تھی حکام وقت نے عملاً انکار کر دیا تھا بحالیکہ دوسرے راستے اور سڑکیں آئے دن درست ہوتی رہتی تھیں لیکن اگر آخر تک بھی نوبت نہ آئی تو اس چھوٹے سے ٹکڑے کی جو بٹالہ اور قادیان کے درمیان تھا۔ (الفضل 25؍دسمبر 1928ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنی مشہور کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘میں تحریر فرمایا ہے: ہرگز امید نہ تھی کہ قادیان میں اس قدر جلد ریل آجائے گی۔ (سلسلہ احمدیہ صفحہ 399 طبع اول)لیکن خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ جماعتی کوشش کے بغیر اچانک یہ بات معلوم ہوئی کہ ریلوے بورڈ کے زیر غور بٹالہ اور بیاس کے درمیان ایک برانچ لائن کی تجویز ہے۔

(حاشیہ: یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ قبل ازیں آخر 1914ء میں گورداسپور سے بوٹاری تک لائن بچھانے کی تجویز بھی زیر غور آئی تھی اور حکومت نے اس کی پیمائش کی ابتدائی منظوری بھی دے دی تھی۔ اور گویہ قطعی بات نہ تھی کہ یہ لائن قادیان سے ہوکر گذرے مگر درمیانی حصہ میں اہم ترین مقام قادیان ہی تھا اس لیے قرین قیاس یہی تھا کہ یہ قادیان کے راستہ سے بوٹاری تک پہنچے گی۔ لیکن یہ تجویز ابتدائی مرحلہ پر ہی ملتوی ہوگئی اور تیرہ سال تک معرض التوا میں پڑ گئی اس بات کا علم بابو قریشی محمد عثمان احمدی ہیڈ ڈرافٹس مین دفتر چیف انجینئر نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے 8؍ نومبر 1914ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے نام لکھا تھا۔ … بابو صاحب نے اس خط میں لکھا۔ ’’نئی لائنوں کی بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ منظوری گورنمنٹ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ پیمائش کرنے کے لئے ہے چنانچہ اس کی پیمائش عنقریب شروع ہونے والی ہے پھر یہ خیال ہوا کہ جب گورنمنٹ نے لائنوں کی لمبائی وغیرہ دی ہے تو پیمائش ابتدائی کے نقشے دفتر میں ہوں گے۔ مگر ابتدائی پیمائش ہی نہیں ہوئی صرف سرسری (Rangl) لمبائی نقشہ سے ناپ لی گئی ہے اور اس کی منظوری دے دی گئی۔ گورداسپور ڈسٹرکٹ کا نقشہ (map) دیکھنے سے معلوم ہوا کہ قادیان اس لائن پر آتا ہے جو گورداسپور سے بوٹاری تک منظور ہوئی جس کی لمبائی قریباً 37 میل ہوگی…اگر یہ لائن گورداسپور سے سیدھی بوٹاری جاوے تو قادیان قریباً ساڑھے تین میل رہ جاتا ہے۔ اگر قادیان ہی ہو کر جاوے تو مطلب حاصل ہے زیادہ قرینہ قوی اس بات کا ہے کہ لائن قادیان ہو کر گزرے کیونکہ اس کے گردونواح میں قادیان سب سے بڑی جگہ ہے اور لائن منظور شدہ کی لمبائی (37Miles) ہی اس وقت درست آتی ہے جبکہ لائن قادیان ہوکر گذرے‘‘۔ اگر اس تجویز کے مطابق لائن بچھائی جاتی تو اس کا سرسری نقشہ حسب ذیل ہوتا :)

مگر پھر پتہ چلا کہ محکمہ ریل کے ذمہ دار افسروں کو یہ خیال ہوا کہ یہ ریلوے جسے بعد کو بٹالہ بوٹاری ریلوے کا نام دیا گیا 1930ء تک بھی تیار نہیں ہو سکتی۔ (الفضل 25؍دسمبر 1928ء)مگر چونکہ خدا کی مشیت میں اب وقت آچکا تھاکہ قادیان کا مرکز احمدیت ریل کے ذریعہ پورے ملک سے ملا دیا جائے اس لیے ریلوے بورڈ نے 1927ء کے آخر میں قادیان بوٹاری ریلوے کی منظوری دے دی اور شروع 1928ء میں محکمہ اطلاعات حکومت پنجاب کی طرف سے سرکاری طور پر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ریلوے بورڈ نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیر انتظام پانچ فٹ چھ انچ پٹڑی کی بٹالہ سے بوٹاری تک 42میل لمبی ریلوے لائن بنانے کی منظوری دے دی ہے اس منصوبہ کا نام بٹالہ بوٹاری ریلوے ہوگا ساتھ ہی گورنمنٹ گزٹ میں اعلان ہوا کہ سروے ہو چکا ہے اور لائن بچھانے کا کام جلد شروع ہونے والا ہے۔

چنانچہ عملاً یہ کام نہایت تیزی سے جاری ہوگیا۔ اور شب و روز کی زبردست کوشش کے بعد بالآخر 14؍ نومبر 1928ء کو ریل کی پٹڑی قادیان کی حد میں پہنچ گئی۔ اس دن سکولوں اور دفتروں میں تعطیل عام کر دی گئی اور لوگ جوق در جوق ریلوے لائن دیکھنے کے لیے جاتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ارشاد فرمایا کہ نئے راستے کھلنے پر کئی قسم کی مکروہات کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ساری جماعت اور مرکز سلسلہ کے لیے ریل کے مفید اور بابرکت ہونے کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں اور صدقہ دینا چاہئے۔ چنانچہ قادیان کی تمام مساجد میں دعائیں کی گئیں اور غرباء و مساکین میں صدقہ تقسیم کیا گیا۔ 16؍ نومبر 1928ء کو ریلوے لائن قادیان کے سٹیشن تک عین اس وقت پہنچی جبکہ جمعہ کی نماز ہو رہی تھی۔ نماز کے بعد مرد عورتیں اور بچے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے اور قریباً دو اڑھائی ہزار کا مجمع ہوگیا۔ ریلوے کے مزدوروں اور ملازمین کے کام ختم کرنے پر ان میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ جس کا انتظام مقامی چندہ سے کیا گیا تھا۔

(الفضل 16۔ 20؍ نومبر 1928ء)(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 5صفحہ85تا87)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button