متفرق مضامین

والدین کے حق میں دعائیں

(ھبۃ الکلیم۔ رشیا)

والدین کی خدمت اور شکر گزاری ایک ایسا دائمی سلسلہ ہے جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اولاد کے ساتھ والدین کا جسمانی تعلق تو ان کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن روحانی تعلق کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اولاد کی جانب سے صدقہ و خیرات، دعاؤ ں، قربانی کا ثواب انہیں پہنچتا ہی رہتا ہے۔ اولاد کی دعائیں اور ان کی صالحیت ان کے والدین کے ثواب میں اضافے کا موجب بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

رَبَّنَا اغۡفِرۡلِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (ابراہیم:42)

یعنی اے ہمارے ربّ! مجھے بخشش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب برپا ہوگا۔

دن میں پانچ مرتبہ ہر مسلمان یہ دعا اپنی نماز میں پڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے اپنی اور مومنین کی بخشش طلب کرتا ہے۔ کتنی ہی پیاری دعا خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے والدین کے حق میں سکھائی ہے۔

ایک اور آیت کریمہ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًا(الاحقاف:16)

یعنی اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید کی ہے۔

اس آیت کریمہ میں خدا تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی۔ انسان کو یہ نہیں کہا کہ دنیا میں ہی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو بلکہ ان کے وفات پا جانے کے بعد بھی انہیں اچھے القابات سے یاد کرو۔ ان کے لیے دعائےمغفرت کرو۔ ان تمام امور پر عمل کرنا ہی ہمارا اوّلین فرض ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کی حدیث مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہے آپﷺ نے بارہا اس کی تلقین بھی کی کہ اولاد کی اپنے والدین کے حق میں دعا ان کے درجات کی بلندی کا موجب بنتی ہیں۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یقیناً ایک شخص کے لیے جنت میں درجہ بلند کیا جاتا ہے۔ تو وہ عرض کرتا ہے اے میرے ربّ !یہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا ؟(کیونکہ میں نے تو کوئی عمل کیا ہی نہیں )۔ اس سے کہا جاتا ہے تیرے بیٹے کے تیرے لیے استغفار کرنے کی وجہ سے یہ درجہ بلند ہوا ہے۔

(سنن ابن ماجہ)

ایک روایت میں ہے حضرت ابو اسید الساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لیے کر سکوں ؟آپؐ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لیے دعائیں کرو۔ ان کے لیے بخشش طلب کرو۔ انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت واکرام کے ساتھ پیش آؤ۔

(ابوداود کتاب الادب باب فی برالوالدین)

نیک اولاد جو اعمال کرتی ہے ان میں کمی کیے بغیر ان کے والدین کو بھی ان ہی کے برابر ثواب دیا جائے گا۔

آنحضرتﷺ تمام لوگوں کے لیے رحمت بن کر آئے آپﷺ کی سنت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اگرکوئی اپنی زندگی میں نیک کا م کرتا ہے تو اس کو جاری رکھنا اولاد کا اولین فرض ہے اور جائز بھی ہے۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں۔ کیا میں وہ اس کی طرف سے رکھوں ؟ آپﷺ نے فرمایا اگر تمہاری والدہ پر قرضہ ہوتا تو کیا تم اس کی طرف سے وہ ادا کرتے ؟ اس نے کہا جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایاتو اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے۔ کہ ادا کیا جائے۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام حدیث نمبر 1923)

ایسی اعلیٰ تعلیم ہمیں آنحضرتﷺ نے دی کسی اور مذہب میں اس جیسی تعلیم نہیں ملتی۔

حضرت ابو ہریر ۃؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور اس نے مال چھوڑا ہے مگر وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ اس کا کفارہ ہوگا ؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔

(صحیح مسلم کتاب الوصیت حدیث 3067)

والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں سے بھی حسن سلوک کے بارے میں بھی ہمارے لیےاحادیث مبارکہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ احکامات موجود ہیں۔ چنانچہ عبد اللہ بن دینار حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک بادہ نشین آدمی انہیں مکہ کے راستہ میں انہیں ملا توحضرت عبد اللہؓ نے اسے سلام کہااور اسے گدھے پر سوار کر لیاجس پر وہ خود سوار ہوا کرتے تھےاور اسے وہ عمامہ بھی دیاجو ان کے سر پر تھا۔ ابن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے کہا کہ اللہ آپ کا بھلا کرے، یہ بادہ نشین لوگ ہیں اور تھوڑے پر بھی راضی ہو جاتے ہیں۔ اس پر حضرت عبد اللہؓ نے کہا کہ اس کا باپ، حضرت عمر بن خطابؓ کو پیارا تھااور میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناکہ یقیناً بیٹے کا اپنے باپ کے پیاروں سے حسن سلوک کرنا سب سے بڑی نیکی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلاۃوالاآداب حدیث 4615)

اپنے والدین کی وفات کے بعد اولاد کا حقیقی فرض بنتا ہے کہ ان کی نیکیوں کو جاری رکھاجائے۔ یہ ان کے لیے بہت بڑی نیکی ہے۔ وفات کے بعد والدین کے عزیزوں واقارب اور دوستوں سے حسن سلوک رواں رکھنا بھی ایک اہم نیکی کا درجہ رکھتاہے۔ نیز اولاد بھی والدین کی کوششوں اور کمائی کا حصہ ہیں۔ انسان کی زندگی چندروز ہے اس زندگی کے اختتام کے بعد وہ برزخی زندگی میں قدم رنجہ ہوتا ہے۔ اس وقت اس نے جو دنیا میں نیک اعمال کیے ہوتے ہیں وہی کا م آتے ہیں۔ اس وقت انسان نیک اعمال کرنے کی خواہش کرتا ہے۔ لیکن اس حسرت کے باوجود وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن خدا تعالیٰ کا مومنوں پر بےپایاں احسان ہے کہ اس نے ان کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ نیکی کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ جن کو انجام دے کر ان کی نیکیوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وضاحت میں آنحضرتﷺ نے بھی اثبات کا اظہار کیا ہے۔

حضرت ابوہر یرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب انسا ن فوت ہو جاتا ہے تو اس کے عمل اس سے منطقع ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے۔ صدقہ جاریہ کے یاایسے عمل کے جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک اولاد کے جو اس کے لیے دعا کرے۔

(صحیح مسلم کتاب الوصیت حدیث 3070)

صدقہ جاریہ کیا ہوتا ہے ؟اس کی وضاحت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’ہر ایک عمل انسان کا جو اس کے مرنے کے بعد اس کے آثار دنیا میں قائم رہیں وہ اس کے واسطہ موجب ثواب ہو تا ہے۔ مثلاً انسان کا بیٹا ہو اور وہ اسے دین سکھلائےاور دین کا خادم بنائےتو یہ اس کے واسطے صدقہ جاریہ ہے جس کا ثواب اس کو ملتا رہے گا۔ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ ہر ایک عمل جو نیک نیتی کے ساتھ ایسے طور سے کیا جائےکہ اس کے بعد قائم رہےوہ اس کے واسطہ صدقہ جاریہ ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ190، ایڈیشن1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :

’’بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے۔ باپ کی رضامندی کو مَیں نے دیکھا ہے اللہ کی رضا مندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں۔ افلاطُون نے غلطی کھائی ہے۔ وہ کہتا ہے ’’ہماری رُوح جواُوپر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گِرا کر لے آئے۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد 1صفحہ 183)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :

’’ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اَب اگر مَیں صدقہ کروں تو کیا اُسے ثواب ملے گا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں۔ تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا۔

میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو میں اس وقت بخاری پڑھ رہا تھا۔ وہ بخاری بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ میں نے اس وقت کہا اے اللہ میرا باغ تو یہی ہے تو پھر میں نے وہ بخاری وقف کر دی۔ فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد1صفحہ 184)

آپؓ مزیدفرماتے ہیں :

’’میں اپنے والدین کے لئے دعاکرنے سے کبھی نہیں تھکا۔ کوئی ایسا جنازہ نہ پڑھا ہوگاجس میں ان کے لئے دعا نہ کی ہو۔ جس قدر بچہ نیک بنے ماں باپ کو راحت پہنچتی ہے اور وہ اسی دنیا میں بہشتی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ‘‘

(حقائق الفرقان جلد 2صفحہ 529)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے وقت کا ذکر کرتےہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’آپؑ کی وفات کے معاً بعد چند لوگ گھبرائے کہ اب کیا ہو گا۔ انسان انسانوں پر نگاہ کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دیکھو یہ کام کرنے والا موجود تھا یہ تو اب فوت ہو گیا ہے اب سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب اس طرح بعض لوگ مجھے پریشان حال دکھائی دیئے اور میں نے ان کو یہ کہتے سنا کہ اب جماعت کا کیا حال ہوگا تو مجھے یاد ہے گو میں اس وقت انیس سال کا تھا مگر میں اسی جگہ حضرت مسیح موعود کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا کہ اے خدا میں تجھے حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 21؍جون 1944ء)

خدا تعالیٰ نے آپ کی اس نیک خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر آن مدد کی۔ اس بات کی دنیا گواہ ہے کہ آپ نے اس عہد کو جس شان وشوکت کے ساتھ نبھایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ فرماتے ہیں :

’’پس والدین کے حق میں جو دعائیں ہیں ان کے علاوہ یہ عملی تعلیم بھی ہے جس پر عمل بڑا ضروری ہے۔ والدین جو نیکی کیا کرتے تھے اور بیچ میں عمر کٹ گئی یعنی عمر منقطع ہو گئی اس نیکی کو اگر جاری رکھا جاسکتا ہو تو وہ نیکی ایسی ہےجو والدین کے درجات کو بلند کرنے کا موجب بنے گی۔

اس ضمن میں چندہ جات ہیں۔ بہت سے والدین باقاعدگی کے ساتھ چندہ دیتے ہیں اور وعدے کر دیتے ہیں بڑوں چندوں کے۔ مگر اس کے پہلے کہ وہ پورا کرسکیں ان کو موت آجاتی ہے۔ تو ایسی صورت میں بچوں کا فرض ہے کہ اگر وہ حقیقت میں ماں باپ سے محبت کرتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ تو خواہ باپ فوت ہو جائےاس خواہش کے ساتھ کہ میں یہ چندہ دوں گایا ماں فوت ہو جائے، دونوں کے لئے بچوں کو اس نیکی کو جاری رکھنا چاہیےاور اللہ تعالیٰ کے فضل سےجماعت میں یہ نیکی پائی جاتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد کثرت سے ان کے چندوں کو پورا کیا جاتا ہے۔ بچے چین نہیں لیتے جب تک ان کی اس نیک خواہش کو پورا نہ کر لیں خواہ کتنا ہی بوجھ اٹھاناپڑے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ نیکی بہت عام ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍فروری 2000ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مارچ2000ء)

حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’مرنے کے بعد بھی ان کے لئے دعائیں کرو، ان کے لئے مغفرت طلب کرو اور اس کے علاوہ ان کے وعدوں کو پورا کرو، ان کے قرضوں کو بھی اتارو۔ بعض دفعہ بعض موصی وفات پاجاتے ہیں۔ وہ تو بچارے فوت ہو گئے انہوں نے اپنی جائیداد کا 10؍1حصہ وصیت کی ہوتی ہے۔ لیکن سالہا سال تک ان کے بچے، ان کے لواحقین ان کا حصہ وصیت ادا نہیں کرتے بلکہ بعض دفعہ انکار ہی کر دیتے ہیں، ہمیں اس کی توفیق نہیں، گویا ماں باپ کے وعدوں کا پاس نہیں کررہے۔ ان کی کی ہوئی وصیت کا احترام نہیں کر رہے۔ والدین سے ملی ہوئی جائیدادوں سے فائدہ تو اٹھا رہے ہیں لیکن ان کے جو وعدے ان ہی کی جائیدادوں سے ادا ہونے والے ہیں وہ ادا کرنے کی طرف توجہ کوئی نہیں۔ جبکہ جائیداد کا جو دسواں حصہ ہے وہ تو بچوں کا ہے ہی نہیں۔ وہ تو اس کی پہلے ہی وصیت کر چکے ہیں۔ وہ جوان کی اپنی چیز نہیں ہے وہ بھی نہیں دے رہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بچوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے والدین کے وعدوں کو پورا کرنے والے بنیں۔ یہاں تو یہ حکم ہے کہ صر ف ان کے وعدو ں کو ہی پورا نہیں کرنا بلکہ ان کے دوستوں کا بھی احترام کرناہے، ان کوبھی عزت دینی ہے اور ان کے ساتھ جو سلوک والدین کا تھا اس سلوک کو جاری رکھناہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍جنوری 2004ء مطبوعہ12؍مارچ2004ءصفحہ10)

والدین کی وفات کے بعد بھی اُن کے درجات کی بلندی کے لیے دعا ہو سکتی ہے۔ یعنی دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص رحم میں رکھےاور اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا رہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اقتباس سے اپنے مضمون کو ختم کرتی ہوں آپؑ فرماتے ہیں :

’’مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ مادرپدر آزاد کبھی خیر وبرکت کا منہ نہ دیکھیں گے۔ پس نیک نیتی کے ساتھ اور پوری اطاعت اور وفاداری کے رنگ میں خدا رسول کے فرمودہ پر عمل کرنے کو تیا ر ہو جاؤ۔ بہتری اسی میں ہے۔ ورنہ اختیار ہے۔ ہمارا کام صرف نصیحت کرنا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 1صفحہ 296، ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button