متفرق مضامین

آزادیٔ ضمیر اور توہین، چار اعتراضات کا جواب

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

آج کل فرانس میں آنحضورؐ کے خاکوں کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر یہ بحث جاری ہے کہ آزادئ ضمیر کا کیا مطلب ہے، اس کی حدود کیا ہیں، اگر ہیں تو کہاں ہیں؟ اسی طرح مسلمانوں پر بھی مختلف پہلوؤں سے اعتراضات ہو رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں زیر نظر مضمون میں خالصتاً منطقی اور علمی نکتۂ نظر سے چار بڑے اعتراضات اور ان کا جواب پیش کیا گیا ہے جو کہ کسی بھی مذہب کے نہ ماننے والے دہریہ کے لیے بھی قابل فہم ہونا چاہیے۔ یہ سب اعتراضات درحقیقت کیے جاتے ہیں تاہم اس مضمون میں اعتراض بیان کرتے ہوئے جو مثالیں دی گئی ہیں وہ نہیں دی جا تیں۔ یہ مثالیں صرف قارئین پر اصل اعتراض کی نوعیت واضح کرنے کے لیے دی گئی ہیں۔

اعتراض نمبر 1

آزادئ ضمیر

مذہبی جذبات سے زیادہ اہم

آزادی ضمیر اہم ترین انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اگر کسی موقع پر دو مختلف حقوق میں ٹکراؤ ہو تو اصول یہ ہے کہ زیادہ اہم اور ضروری حق کو بالا تسلیم کیا جائے گا اور کم درجہ کے حق کی قربانی دی جائے گی۔ مثلاً جان اور مال کی حفاظت میں ٹکراؤ ہو تو جان کو فوقیت دی جائے گی۔ مذہبی جذبات کا خیال رکھنا بے شک اہم ہے مگر ضمیر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی زیادہ اہم ہیں۔ یہاں یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ بعض ممالک میں ہولوکاسٹ پر بحث کیوں ممنوع ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ ہولوکاسٹ پر بحث سب سے بالا حق یعنی زندگی کی حفاظت کی خاطر ممنوع قرار دی گئی ہے کیونکہ نازی ہولوکاسٹ کی نفی کر کے یہود کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں جس کا نتیجہ کئی ملین یہود کے قتل کی صورت میں نکل چکا ہے اور آئندہ اس سے بچنے کے لیے ہی یہ بحث ممنوع کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر ملک اور معاشرہ کی اپنی تاریخ ہے۔ جیسے اکثر مسلمان اپنی تاریخ کی روشنی میں حضرت امام حسینؓ کے واقعہ کی وجہ سے یزید نام برا سمجھتے ہیں اسی طرح یورپی ممالک ہولوکاسٹ میں کئی ملین لوگوں کے قتل کی وجہ سے ہولوکاسٹ پر بحث بری سمجھتے ہیں۔ پس ہولوکاسٹ پر بحث کی ممانعت کا حوالہ اس جگہ بے محل ہے۔

جواب

تنقید الگ چیز ہے اور توہین الگ۔ مسلمانوں کا مطالبہ یہ ہے کہ توہین نہ کی جائے۔ یہ مطالبہ نہیں کہ تنقید بند کی جائے۔ اسلام اور بانی اسلام پر ہمیشہ سے تنقید ہوتی آئی ہے، اس سے کبھی نہیں روکا گیا۔ بلکہ قرآن کریم خود اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہو یا آنحضورؐ کی صداقت کا سوال، غور کرو اور سوچ کر دیکھو۔ جب غور و فکر کیا جائے گا تو بعض سوالات بھی سامنے آئیں گے۔ بعض لوگ اعتراض بھی کریں گے۔ یہ سب امور آزادی ضمیر میں شامل ہیں۔ قرآن کریم نے مخالفین کے متعدد اعتراضات کا خود ذکر کیا ہے اور ان کا جواب بھی دیا ہے۔ مثلاً مشرکین کا حشر بعد الموت پر اعتراض کہ کبھی کسی کو مرنے کے بعد زندہ ہوتے نہیں دیکھا، یہود کا اعتراض کہ بنی اسرائیل کی طرح اسلام میں سوختنی قربانی کیوں نہیں، مسیحیوں کا دعویٰ کہ حضرت عیسیٰؑ بن باپ پیدا ہوئے اس لیے خدا کی مانند تھے وغیرہ۔ اسی طرح قرآن کریم میں آنحضورؐ پر اعتراضات کا بھی ذکر ہے مثلاً یہ کہ آپؐ کو کوئی اور قرآن سکھاتا ہے، آپؐ کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتے، آپؐ آسمان سے کتاب کیوں نہیں لاتے، آپؐ متمول کیوں نہیں ہیں، آپؐ کے ساتھ فرشتے کیوں نظر نہیں آتے، آپؐ کو نقصان کیوں پہنچتا ہے وغیرہ۔ پس اعتراضات یا تنقید نہیں بلکہ توہین وہ بات ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں بلکہ جان بوجھ کر مجروح کیے جاتے ہیں۔ اور اسی لیے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ توہین نہیں ہونی چاہیے۔ تنقید، اگر تہذیب کے دائرہ میں رہ کر کی جائے، جائز ہے اور اس کا انشاء اللہ جواب دیا جائے گا۔ بلکہ ہمارا تو ایمان ہے کہ قرآن کریم اصولی طور پر ہر قسم کی تنقید کا جواب دے چکا ہے۔ چنانچہ جب بھی اسلام پر تنقید ہو گی، اللہ تعالیٰ اس کا جواب مسلمانوں کو سمجھا دے گا اور وہ قرآن کریم ہی کی روشنی میں اس کا تسلی بخش جواب دیں گے۔

یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ہولوکاسٹ پر بحث کی ممانعت کے جو قوانین بنائے گئے ان کی بنیاد یہ ہے کہ اس بحث کے نتیجہ میں یہود پر مظالم کو معمولی اور بے ضرر نہ ثابت کیا جائے کیونکہ نازی اس بات کو یہود کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہولوکاسٹ پر بحث سے نازیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہود پر کوئی بڑا ظلم نہیں ہوا بلکہ یہود اپنے اوپر ظلم کا پراپیگنڈا کر کے بہت سے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح وہ یہود کے خلاف مزید نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں۔ تاہم انصاف کا تقاضاہے کہ یہی اصول پھر ہر جگہ لاگو ہونا چاہیے۔ مسلمان بزرگوں کی توہین کے ذریعہ بھی تو نازی یا مسلم مخالفین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط خیالات اور نفرت پھیلاتے ہیں۔ یوں غلط الزامات لگا کر مسلمانوں کے خلاف تعصب کو بھی بڑھاتے ہیں اور جب اس توہین پر کوئی اکا دکا مسلمان غلط طریق پر ردعمل دکھائے تو اور بھی زیادہ نفرت پھیلتی ہے۔ عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ یہود کے ہولوکاسٹ سے سبق سیکھ کر مسلمانوں کے ہولوکاسٹ سے بچا جائے۔ ورنہ کیا یہ ممالک مسلمانوں کے ہولوکاسٹ کے بعد پھر مسلمانوں کے متعلق قوانین بنائیں گے؟ افسوس کہ تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے اس کو دہرایا جا رہا ہے۔

اعتراض نمبر2

آزادئ ضمیر کی حد بندی کیا ہوگی؟

اگر آزادئ ضمیرپر مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کی وجہ سے قدغن لگائی جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ اس کی حد کیا ہے ؟ مثلاً آج کہا جائے گا کہ اسلام یا مسیحیت کے بانی پر تنقید ممنوع قرار دی جائے۔ کل مطالبہ ہو گا کہ پوپ یا خلفاء پر تنقید ممنوع قرار دی جائے۔ آخر کو مطالبہ ہو گا کہ محلے کے چرچ کے پادری یا محلے کی مسجد کے امام پر تنقید ممنوع قرار دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ سوال منسلک ہے کہ اگر آج کوئی شخص ایک نیا مذہب بنا لے تو کیا وہ تنقید سے بالا ہو جائے گا؟

جواب

توہین کی ممانعت میں بانیان مذاہب، خلفاء، پوپ صاحبان، بشپ بلکہ ہر ایک انسان شامل ہے، خواہ وہ کوئی مذہبی یا دنیاوی حیثیت رکھتا ہو یا کوئی بھی حیثیت نہ رکھتا ہو۔

ہر انسان خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عزت نفس رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق اس کی عزت کی حرمت آنحضورؐ کے خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں اس کے خون ہی کی طرح اہم ہے۔ چنانچہ کسی انسان کوکسی دوسرے انسان کی عزت نفس مجروح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہی آفاقی اصول مغربی ممالک کے قوانین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ 1945ء کے بعد وضع کیے گئے دستور اکثر بالوضاحت انسانی عزت و شرف کی حرمت کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً جرمنی کے دستور کا پہلا آرٹیکل ہی یہ ہے کہ (Human dignity is inviolable) ’’انسان کا شرف/وقار محترم ہے‘‘ اور یوں بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل ہر انسان کے وجود میں ودیعت شدہ عزت نفس اور اس کے وقار کی حرمت قائم کی گئی ہے۔ جبکہ دیگر ممالک کے دستور تو نہیں مگر مختلف قوانین میں انسانیت کے شرف اور وقار کو تحفظ دیا گیا ہے مثلاً سوئٹزرلینڈ، فرانس، برطانیہ وغیرہ۔ پس یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ کسی کی بھی توہین نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ کسی محلے کا پادری یا امام ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ توہین سے انسانی وقار پامال ہوتا ہے۔

اگر کوئی پادری یا مولوی غلط حرکت کرے، جیسا کہ آئے دن خبروں میں ذکر ہوتا ہے کہ کبھی بچوں کے ساتھ تو کبھی کسی اور معاملہ میں زیادتیاں اور خیانت کی جاتی ہے، تو اس پر تنقید نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے تاکہ آئندہ کے لیے پیش بندی ہو سکے۔ تاہم نفرت کسی حرکت یا عمل سے ہونی چاہیے نہ کہ کسی انسان سے۔ اگر وہ انسان اصلاح کر لے تو پھر اس کے ساتھ برتاؤ میں فرق نہیں کرنا چاہئے۔ آنحضورﷺ کے زمانے میں بعض لوگوں نے غلطیاں کیں اور ان کو حسب غلطی اس کی سزا بھی ملی۔ تاہم اس کے بعد ان کے ساتھ آنحضورؐ کا تعلق نہ صرف پہلے کی طرح برقرار رہا اور وہ آپؐ کے ہاں آتے جاتے رہے بلکہ ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ احسان کا سلوک کیا گیا۔

اعتراض نمبر 3

ہر معاشرے اور قوم کے اپنے معیار

ہر معاشرے اور ہر قوم کے اپنے معیار ہوتے ہیں۔ ایک معاشرےکی اقدار دوسرے معاشرے پر نافذ نہیں کی جا سکتیں۔ بعض معاشروں میں ایک بات بہت غلط سمجھی جاتی ہے دوسرے معاشرہ میں وہی بات معمولی سمجھی جاتی ہے۔ خود مسلمان معاشروں میں بھی ایسا فرق موجود ہے۔ مثلاً عرب بعض باتوں کو بالکل معمولی سمجھتے ہیں جبکہ وہی بات کہنا جنوبی ایشیا یا انڈونیشیا میں بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔ خاکوں اور تھیٹر کو مغرب میں اظہار رائے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ روزانہ اخباروں میں خاکے شائع ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی معاملہ کی طرف توجہ دلانا یا کسی مسئلہ کو تصویری زبان میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ کوئی سیاستدان یا گلوکار یا اداکار وغیرہ اس کو توہین نہیں سمجھتا۔ مسلمان خاکوں کو توہین آمیز سمجھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساری دنیا پر اپنی رائے مسلط کریں۔ ہم اپنی اقدار کے مطابق عمل کریں گے۔

جواب

یورپ و امریکہ و آسٹریلیا میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔ وہ اسی طرح مغربی معاشرےکا حصہ ہیں جس طرح دہریہ، مسیحی یا دیگر مذاہب کے لوگ۔ پس یہ مسلمانوں کی طرف سے مغرب پر اپنی اقدار نافذ کرنے کی کوشش نہیں بلکہ خود مغربی معاشرے کے ایک حصہ کا مطالبہ ہے۔ اسی طرح جس طرح مغربی معاشرےکے ایک اور حصہ کا مطالبہ ہے کہ ایٹمی اسلحہ ممنوع قرار دیا جائے۔ اقدار نافذ کرنے کی کوشش کا الزام محض یہ ثابت کرتا ہے کہ کچھ لوگوں نے کئی نسلوں سے مغرب میں آباد مسلمانوں کو دل سے ابھی تک اپنے معاشرے کا حصہ تسلیم نہیں کیا۔ یہی مغرب میں پھیلی نسل پرستی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس ضمن میں اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ اچھی بات جہاں سے بھی ملے اپنا لینی چاہیے۔ اگر کوئی شخص یا معاشرہ کسی اچھی بات کو محض اس لیے نہیں اپناتا کہ یہ ہماری روایت نہیں تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔

ہر معاشرے کی اقدار نہ صرف مختلف ہوتی ہیںبلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی بھی رہتی ہیں۔ مثلاً مغرب میں کسی وقت میں سیاہ فام لوگوں کے لیے ’’نیگرو‘‘ کا لفظ استعمال کرنا عام تھا۔ لیکن جب مغربی معاشرہ نے ترقی کی اور دوسروں کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوئی تو اس لفظ کو معیوب سمجھا جانے لگا۔ اسی طرح مختلف قوموں، مذاہب، خیالات رکھنے والے گروہوں، چینی، یہودی، کمیونسٹ، خواتین، معذوروں، خاص بیماریوں میں مبتلا لوگوں وغیرہ کے متعلق بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی دلآزار کلمہ استعمال نہ کیا جائے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ معاشرہ افراد کے اتحاد اور باہمی تعلق سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ چنانچہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا معاشرےکی ترقی اور اتحاد کے لیے ضروری ہے۔ اس جگہ یہ سوال پیدا نہیں ہوتا، اور نہیں پیدا ہونا چاہیے، کہ فلاں گروہ اگر فلاں بات کو اچھا نہیں سمجھتا تو ہمیں کیا، ہم کیوں ان کی اقدار اپنائیں۔ جب مسلمان اپنے بزرگوں کی غلط انداز میں تصویر کشی کو غلط سمجھتے ہیں، تو کیوں ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے؟ ورنہ تو یہ سوال ہر بات میں اٹھ سکتا ہے کہ مثلاً سیاہ فام لوگوں یا معذوروں کے جذبات کا کیوں خیال رکھا جائے وغیرہ؟

اعتراض نمبر 4

مسلمان خود دوسروں کی توہین کرتے ہیں

مسلمان دوسروں سے تو مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام، قرآن، بانی اسلامؐ کی توہین نہ کی جائے لیکن خود مسلمان دوسروں کی توہین کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں یہود کو سور اور بندر اور گدھے اور لعنتی کہا گیا ہے۔ بعض لوگوں کو ولد الحرام اور کتا کہا گیا ہے۔ جب مسلمان خود دوسروں کی توہین کرتے ہیں تو دوسروں کو کس بنا پر روکتے ہیں۔

جواب

قرآن کریم میں جہاں بھی ایسی کوئی تشبیہ دی گئی ہے وہاں مخصوص اعمال کی مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم بالوضاحت فرماتا ہے کہ مثلاً حضرت مریمؑ پر غلط الزامات لگانے کی بنا پر اور حضرت عیسیٰؑ کے قتل کی کوشش پر اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے پر یہود پر لعنت کی گئی انبیاء کی مخالفت اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کی بناپر ایسا ہوا وغیرہ۔ اس لیے وہ تمام یہودی جو ایسا نہیں کرتے وہ اس لعنت سے باہر ہیں اور ایسی دیگر تشبیہات سے بھی باہر ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم خود ہی فرماتا ہے کہ یہود میں سے وہ لوگ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے کوئی خوف اور رنج نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ زیر الزام صرف وہ ہے جو سچے پیغام کو پہچان کر پھر انکار کر دے۔ ایسا شخص بھی مذہبی طور پر تو زیر الزام ہے مگر بطور انسان اس کے تمام حقوق برقرار ہیں اور اس کی عزت اور جان و مال کی اسی طرح حرمت ہے جس طرح کسی دوسرے کے۔ کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی یہودی کو سور اور بندر یا لعنتی کہے۔ آنحضورؐ اور دیگر صحابہؓ یہود سے ملتے تھے ایک دوسرے کو تحفے بھی دیتے تھے، ایک دوسرے کے ہاں دعوتیں بھی کی جاتی تھیں۔ یہی اسوۂ حسنہ ہے۔ یہود ہی کے ساتھ میثاق مدینہ میں مسلمانوں اور یہود کو ’’امت واحدہ‘‘ قرار دیا گیا۔ قرآن کریم ہی ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ ان میں امین بھی ہیں۔ نیز اہل کتاب میں ایسے بھی ہیں جو

أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللّٰهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ

یعنی راتوں کو اُٹھ کر آیات پڑھنے اور سجدے کرنے والے بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان سب لوگوں کی ہرگز مذمت نہیں کی گئی۔ جہاں کسی پر لعنت کی گئی یا کسی جانور سے تشبیہ دی گئی ہے، وہ تمام باتیں کسی خاص حرکت کی وجہ سے ہیں۔ ہر ایک جو ان مخصوص حرکتوں سے باز رہے گا وہ اس لعنت اور تشبیہ سے بھی باہر رہے گا۔

گذشتہ انبیاء نے بھی ایسے مواقع پر سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے متعلق زناکار، سانپ کے بچے وغیرہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ لیکن یہ تنقید بھی بعض اعمال پر تھی۔ چنانچہ دوسری طرف حضرت عیسیٰؑ ہی کے متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض عورتیں جو زناکار مشہور تھیں کے ساتھ آپؑ نے بہت مہربانی کا سلوک کیا جس پر وہ توبہ کر کے آپؑ پر ایمان لے آئیں ۔

قرآن کریم میں کسی کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال کسی معین فرد کی توہین نہیں بلکہ محض مکروہ اعمال کی مذمت ہوتا ہے اور اس میں ہمیشہ انفرادی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے ایک کے سوا کسی جگہ بھی کسی مخصوص یا معین شخص کی مذمت نہیں کی۔ اور جس ایک معین شخص کی مذمت کی، یعنی ابو لہب، اس کو بھی آخرت کے اس عذاب کی خبر دی گئی ہے جس کو وہ خود اور اس کی قوم بھی تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ اس سے بڑھ کر اسے بھی کچھ نہیں کہا گیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button