متفرق مضامین

ارضِ موعود کی سرحدیں: سیاسیات اور الٰہیات کے تناظر میں

(آصف محمود باسط)

ارضِ موعود، یا جسے آج اسرائیل کے نام سے جانا جاتا ہے، کی سرحدیں اس دور سے ہی مبہم چلی آتی ہیں جب یہ بنجر، ویران اور ہر لحاظ سے غیر اہم نظر آنے والا خطہ سلطنتِ عثمانیہ کے تسلط میں تھا۔ تب یہ خطہ ’’فلسطین ‘‘ کے نام سے موسوم تھا۔ یروشلم، جوآج ابراہیمی مذاہب اور ان کی باہمی سیاسیات کی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے، جنگِ عظیم اوّل سے پہلے تک سبھی کے تغافل کا شکار تھا۔ مشہور مہم جو اور ماہرِ آثارِقدیمہ ٹی ای لارنس (جو بعد میں Lawrence of Arabia کے نام سے مشہور ہوا) نے اس دور کے یروشلم کو “A dirty town” کے طور پر بیان کیا۔ ماہرِ سیاحت Karl Baedekerنے اس یروشلم کی نقشہ کشی یوں کی کہ

’’گلیوں کے فرش شکستہ و بدحال، جیسے اندھیری راہداریاں اور بارش کے بعد سخت غلیظ…‘‘

(The Balfour Declaration by Jonathan Schneer، Bloomsbury, London 2010)

جب انیسویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے دیگر سلطنتوں، مثلاً روس اور آسٹریا وغیرہ، کے تسلط میں جانے لگے، تو عثمانی سلاطین کو ہوش آیا کہ اگر اب بھی انہوں نے اپنی حکومت کے اطوار میں جدت نہ پیدا کی، تو ان کی سلطنت سکڑتی سکڑتی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یوں سلاطینِ عثمانیہ نے ’’تنظیمات‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ جاری کیا، جس میں جدید طرزِ نقل و حمل اور صنعتی رجحانات کو اپنایا گیا۔

(The Balfour Declaration by Jonathan Schneer، Bloomsbury, London 2010)

یوں فلسطین کے ساتھ بھی سڑکوں کے ذریعہ رابطہ قائم ہوا۔ یروشلم کے صاحبِ ثروت گھرانوں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کاروباری وسعت حاصل کی اور باہر کے ذرائع ابلاغ کو بھی یروشلم اور فلسطین کے دیگر علاقوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ یوں فلسطین سلطنتِ عثمانیہ سے باہر کی دنیا میں متعارف ہوا۔

یہ نوآبادیات کے عروج کا دور تھا۔ یوں ہر اُبھرتے ہوئے جغرافیائی خطہ کی طرف بیرونی طاقتوں کی نظریں لگی رہتیں۔ یروشلم کے صاحبِ ثروت جاگیر داروں نے دیگر عرب ممالک کی سیر و سیاحت شروع کی اور کاروباری روابط بھی قائم ہونا شروع ہوئے، تو فلسطین بالعموم اور یروشلم بالخصوص باہر کی دنیا کی نظروں میں آیا۔

فلسطین کے جاگیر داروں کی حیثیت تو مضبوط تر ہوتی گئی، تاہم زمینوں پر کام کرنے والے کسانوں اور دیگر مزدور طبقے کے حالات زوال پذیر ہونے لگے۔ زمین کی قیمتیں بڑھ جانے سے وہ جاگیرداروں کے محتاج تر ہو گئے اور ان کے اقتصادی غلام بن کر رہ گئے۔

( The Claim of Dispossession: Jewish Land-Settlement and the Arabsاز Aryeh L Avneri، مطبوعہ Transaction Publishers, 1982)

ایسے میں زمین کے نرخ چڑھ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ میں یہودمخالف سرگرمیوں سے اکتائے ہوئے یہودی اس خطہ میں آکر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ان میں سے کچھ خود صاحبِ حیثیت تھے، مگر بیشتر یہودی وہ تھے جن کے پیچھے صاحبِ ثروت طاقتوں کا ہاتھ تھا۔ یوں یہ نئی آبادکاری شروع ہوئی جس کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

فلسطین میں یہودی آبادکاری میں صیہونیت کا کردار

انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں صیہونیت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ایک نظریاتی تحریک تھی جس کا مقصد دنیا بھر میں رہنے والے یہودیوں میں قومیت کے جذبہ کو اجاگر کرنا تھا۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس جذبہ قومیت کو اجاگر کرنے کے پیچھے کیا محرکات تھے؟

یورپ میں یہود مخالف سرگرمیاں تیز ہونے لگیں تو یورپ بھر میں پھیلے یہودیوں کو بے گھر ہونے کا احساس دلایا گیا اور اس ظلم کو ان کے بےگھر ہونے پر محمول کیا گیا۔ یوں یہودیوں میں ایک قوم ہونے کا جذبہ پیدا کر کے انہیں ایک وطن کے حصول کی طرف راغب کیا گیا۔

The Cambridge Survey of World Migration) میں شامل مضمونZionism Colonise Palestine مصنفہ (Robin Cohen

اس نظریہ کی حامل تحریکِ صیہونیت کا بانی Theodor Herzl تھا اور اسے ’’سیاسی صیہونیت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ بعد میں اس تحریک نے ایک ثقافتی رنگ بھی اختیار کرلیا جو احد حام نامی یہودی سے منسوب کی جاتی ہے۔ یوں سیاسی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہونے والی تحریکِ صیہونیت کا مطالبہ یہ ٹھہرا کہ یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست ہو جہاں وہ اکثریت میں ہوں اور جہاں وہ اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ یوں احد حام کی بدولت یہ تحریک محض ’’یہودیوں کے لیے ایک وطن‘‘ سے بڑھ کر ’’یہودی ریاست‘‘کی علمبردار بن گئی۔

( احد حام کی کتاب The Jewish State and Jewish Problem، مترجمہ Leon Simon، جیوئش پبلیکیشن سوسائٹی آف امریکہ، 1912)

یہاں ایک دلچسپ حقیقت کا بیان بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صیہونیت نے آغاز سے ہی اپنی نظریں فلسطین پر لگا رکھی تھیں۔ بلکہ آغاز میں یوگنڈا اور ارجنٹینا کو بھی یہودی ریاست کے قیام کے لیے زیر غور لایا گیا۔

1903ءمیںبرطانوی وزیرِنوآبادیاتJoseph Chamberlainنے صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کو یوگنڈا میں 5,000مربع میل کی پیشکش بھی کی۔ جب ہرزل نے یہ پیشکش World Zionist Organization کے چھٹے اجلاس (Sixth Congress, 1903)میں پیش کی تو اس پر غور و خوض کی غرض سے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کانگریس میں شامل صیہونی عمائدین کا رحجان فلسطین میں یہودی ریاست ہی کی طرف تھا مگر کمیٹی نے یوگنڈا جا کر یہودی ریاست کے قیام کے امکانات کا جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں اسے نامناسب قرار دیا۔

(In the Shadow of Zion: Promised Lands Before IsraelمصنفہAdam Rovner، نیویارک یونیورسٹی پریس، 2014ء)

اس اثنا میں تھیوڈور ہرزل وفات پا گیا۔ صیہونی عمائدین کی ساتویں کانگریس 1905ءمیں منعقد ہوئی جس میں سب عمائدین نے ہر دوسری تجویز کو مسترد کر کے صرف فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی تجویز دی۔

اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ساتویں کانگریس (1905ء)نے فلسطین میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانےکے لیے لائحہ عمل تیارکرنا شروع کردیا۔ اسی سلسلہ میں ایک تجویز یہ بھی زیر غور آئی کہ فلسطین میں زراعت اور صنعت و حرفت کی پشت پناہی کی جائے اور سہولیات فراہم کی جائیں۔

آٹھویں اجلاس (1907ء) میں اس تجویز پر تفصیلی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ فلسطین کے زرعی اور صنعتی امور میں دخل اندازی کے لیے اس کا جواز پیدا کرنا ضروری ہوگا۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہو گا کہ پہلے فلسطین میں World Zionist Organization کی ایک شاخ قائم کی جائے۔

صیہونیت کی نویں کانگریس 1909ء میں ہمبرگ میں منعقد ہوئی۔ فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کے زیر تسلط رہا تھا اور 1909ء میں Young Turk انقلاب کی وجہ سے عثمانی سلطان کا زور ٹوٹ چکا تھا، لہٰذا کانگریس میں خیال کیا گیا کہ اب انہیں وہاں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے میں سہولت ہوگی۔

کانگریس کا بارہواں اجلاس 1921ء میں منعقد ہوا۔ یہ جنگِ عظیم اوّل کے بعد منعقد ہونے والا پہلا اجلاس تھا۔ جنگ میں صیہونی عمائدین نے برطانوی اتحادی افواج کا ساتھ دیا تھا اور یوں، جنگ کے اختتام اور جرمنی کی شکست کے بعد، صیہونی تحریک کو برطانوی پشت پناہی حاصل ہو چکی تھی۔

( تفصیل کے لیے History of Zionism: 1600-1918ازNahum Sokolow مطبوعہ لندن، 1919ء، نیز صیہونیت کے بانی Theodor Herzl کے مطبوعہ روزنامچے موسوم بہ The Complete Diaries of Theodor Herzl، مطبوعہ لندن، 1960ء)

اس اجلاس میں صیہونی عمائدین نے فلسطین کا تسلط برطانیہ کو دیے جانے کے حق میں تقاریر کیں اور اس سلسلہ میں عملی اقدامات بھی کیے۔

تاہم، صیہونیت کا ایجنڈا آغاز سے ہی ایک یہودی ریاست کا قیام تھا۔ یہ بات تھیوڈور ہرزل کی ڈائری سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ اس نے سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل میں ہونے والی کانگریس کے حوالے سے اپنی ڈائری میں لکھا:

’’میں اب Jewish Company پر کام کررہا ہوں۔ بازل کانگریس کا مدعا یہودیوں کے لیے ایک معاشرہ کی تشکیل تھا، جو بڑھ کر یہودی ریاست میں تبدیل ہوجائے، اگرچہ موقع پرستی سے کام لیتے ہوئے۔ اس یہودی کمپنی کا نام ابتدا میں Jewish Colonial Bank ہوگا۔ ‘‘

(The Complete Diaries of Theodor Herzl، جلد 4۔ یہ تفصیل 6؍ اکتوبر 1897 کی تاریخ کے تحت درج ہے۔ )

برطانوی پشت پناہی سے یہودی ریاست کے قیام تک

1917ء میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد فلسطین کا تسلط برطانیہ کو حاصل ہوگیا۔ یوں فلسطین کا سرکاری نامBritish Mandatory Palestineقرارپایا اور اس کے پہلے ہائی کمشنر Herbert Samuelمقرر ہوئے۔ یہی ہربرٹ سیموئیل بعد میں بالفور ڈیکلیریشن کے کلیدی کردار بھی بنے۔

جنگِ عظیم اوّل کے دوران اتحاد کے عوض حکومتِ برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے دو معاہدات کیے۔ ایک مسلمانوں کے لیے متحدہ عرب امارات کے قیام کا، اور دوسرا یہودیوں کے لیے ایک وطن مہیا کرنے کا۔

برطانیہ کے پاس مشرقِ وسطیٰ میں جس خطہ کا تسلط تھا وہ دریائے اردن کے مغرب میں واقع علاقہ (موجودہ اسرائیل)، ویسٹ بینک اور غزہ کی پٹی(موجودہ فلسطین) تھا۔ دریائے اردن کے مشرقی طرف کا وہ خطہ بھی برطانیہ کے تسلط میں تھا جو بعد میں موجودہ اردن کی شکل میں سامنے آیا۔

(League of Nations Official Journal 1922, Vol 3)

برطانوی تسلط کی پہلی دہائی میں 120,000 یہودی ہجرت کر کے فلسطین پہنچ گئے۔ پھردوسری دہائی میں قریب 300,000 یہودی بھی ہجرت کر آئے اور سکونت اختیار کی۔

( تفصیل کے لیے Decoding the Conflict Between Israel and the Palestinians مطبوعہ Charles River Editors, 2011)

جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے، زمین کی قیمت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ مقامی عربوں کے لیے زمین کا حصول یا اپنی زمینوں کو اپنی ملکیت میں رکھنا بھی محال ہوچکا تھا۔ یوں صیہونیت کے زیر سایہ اوربرطانوی پشت پناہی میں یہاں وارد ہونے والے یہودیوں نے زمین کے حصول کا کام شروع کیا اور یوں تل ابیب اور دیگر علاقوں میں زرعی اور صنعتی ترقی کا سفر شروع ہوا۔

اس پر مسلمانوں کی طرف سے ردِّ عمل ظاہر ہونا فطری بات تھی۔ یہ ان کی سرزمین تھی جو باہر سے آنے والے یہودی آبادکاروں کے قبضہ میں جاتی چلی جارہی تھی۔

برطانوی تسلط کی تیسری دہائی میں (1937ء-.1947ء) تک کثرت سے یہودی ہجرت کر کے فلسطین آتے رہے۔ یہاں تک کہ 1947ء میں اس خطہ میں630,000 یہودی آباد ہوچکے تھے۔ جبکہ مقامی مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ سے متجاوز تھی۔

مسلمانوں اور یہودیوں میں تصادم روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔ متشدد جھڑپوں سے اکتا کر برطانوی حکومت نے 1947ء میں فلسطین پر اپنے مینڈیٹ سے دستبرداری کا فیصلہ کرلیا۔

برطانیہ نےفلسطین ایک مسلم اور دوسری یہودی ریاست میں تقسیم کردینے کی تجویز دی، اپنا دامن جھاڑا اور فلسطینی تسلط سےدستبردارہوگیا۔

اس دستبرداری سے ایک روز قبل، 14؍مئی 1948ء کو یہودی آبادکاروں کے سربراہ David Ben-Gurionنے یہودی ریاست یعنی ریاستِ اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔

ریاستِ اسرائیل کی سرحدوں کا مسئلہ

برطانوی مینڈیٹ میں فلسطین کی سرحدوں میں دریائے اردن کا مشرقی حصہ بھی آتا تھا۔ 1922ء میں لیگ آف نیشنز کی مداخلت سے Transjordan Memorandum پر عملدرآمد ہوااوریہ خطہ فلسطینی مینڈیٹ سے باہر قرار پایا۔ یوں دریائے اردن موجودہ اردن اور فلسطین کے درمیان ایک سرحد قرار پایا۔

(League of Nations Official Journal 1922, Vol 3)

اپنے قیام ہی کے وقت سے اسرائیل کی سرحدیں ایک مسئلہ رہی ہیں۔ جس روز صیہونی طاقتوں نےاسرائیل کے قیام کا اعلان کیا، اسی روز سے عرب؍اسرائیل جنگ کا آغاز ہوگیا۔

پھر مختلف وقتوں میں عرب اور اسرائیلی طاقتوں میں تصادم ہوتے رہے۔1967ء میں اسرائیل نے جنگ کے دوران مصر کی سرحد کو پار کرتے ہوئے سیناء کا علاقہ اپنے تسلط میں لے لیا۔

1979ء میں مصر نے ریاستِ اسرائیل کو تسلیم کیا اور معاہدہ کے مطابق اسرائیل نے اپنی افواج کو سنائی کا تسلط ترک کرنے اور واپس لوٹ آنے کے احکامات دیے۔ یوں اسرائیل کی موجودہ سرحدیں وضع ہوئیں۔

اسرائیل کی جغرافیائی سیاست میں الہٰیات کا دخل

جب صیہونی تحریک کو یوگنڈا اور ارجنٹینا میں یہودی بستی قائم کرنے کی دعوت دی گئی تو اسے فی الفور مسترد کردیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اصل مقصد ہی فلسطین پر تسلط تھا۔

اس سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کسی ٹھوس محرک کی ضرورت تھی۔ یہ ٹھوس محرک ملکوں ملکوں پھیلے یہودیوں کو صرف جذبہ قومیت اور یگانگت کے ذریعہ ہی دیا جاسکتا تھا۔ یورپ اور وسطی ایشیا میں ان پر کیے گئے مظالم نے ایسے جذبہ کو اجاگر کرنا اور بھی آسان بنادیاتھا۔

اس nationalism کو پیدا کرنے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا اور پرانے عہدنامے میں سے ان حصوں کو اجاگر کیا گیا جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سے خدا تعالیٰ نے ارضِ مقدس میں آباد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ پہلے اس عہد کا توریتی بیانیہ سمجھ لینا ضروری ہے۔

سب سے پہلے اس عہد کاذکر توریت کی کتاب پیدائش میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ اور ان کی امت کو کنعان کے علاقے کا وعدہ دیتا ہے۔ یہ وعدہ حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں پورا نہ ہوسکا اور ان کی امت حضرت یعقوبؑ کے زمانہ میں مصرمیں پناہ گزین ہوگئی۔ مصر سے آگے کی داستان حضرت موسیٰؑ کے زمانہ میں آجاتی ہے جہاں توریت کی کتاب خروج میں انہیں اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل سمیت کنعان ہجرت کرجانے کا الٰہی حکم ملتا ہے۔ موسیٰ ؑتو کنعان نہیں پہنچ پاتے اور وفات پا جاتے ہیں مگر یوشعؑ بن نون بنی اسرائیل کو اس خطے تک لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ باقاعدہ سلطنت حضرت داؤدؑ کے زمانہ میں بنیاد پکڑکر حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں استوار ہوتی ہے۔

یہ وہ خطہ زمین ہےجو یہودی اپنا پیدائشی حق خیال کرتے ہیں اور اس کے حصول اور سیاسی جغرافیائی حدبندیوں کے لیےپرانے عہد نامے کا حوالہ دیتے ہیں۔ سو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پرانے عہد نامے نے اس ارضِ موعود کی سرحدیں کس طرح متعین کی ہیں۔

پیدائش باب 12کی پہلی اور دوسری آیات میں خدا تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ کو ایک خطہ کا وعدہ دے کراس طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیتا ہے۔ اس خطے کی کوئی جغرافیائی تفصیلات خدا تعالیٰ کی طرف یہاں منسوب نہیں تاہم اگلی آیات میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم اپنی آل سمیت کنعان کی طرف ہجرت کرگئے۔ وہاں قحط پھیلا تو آل سمیت مصر کی طرف لوٹ آئے۔

پیدائش باب 15کی 18 ویں آیت میں حضرت ابراہیمؑ کو دی جانے والی اس سرزمین کی کچھ حدود اور سرحدیں بیان ہوتی ہیں:

’’اس روز خدا نے ابراہیم سے عہد باندھا اور کہا کہ میں تیری نسل کومصر کی وادی سے عظیم دریائے فرات تک کی زمین دوں گا‘‘۔

پھر پیدائش ہی میں خدا تعالیٰ سے منسوب کیا گیا یہ وعدہ حضرت اسحاقؑ، حضرت یوسف ؑ اور حضرت یعقوبؑ کے دیگر بیٹوں سے بھی دہرایا گیا ہے:

’’خدا اسحاق پر نمودار ہوا اور کہا کہ’نیچے مصر کی طرف نہ جانا۔ اسی زمین میں رہنا جس میں مَیں نے تمہیں رہنے کا کہا ہے۔ کچھ عرصہ اسی زمین میں رہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں گا اور تمہیں برکت دوں گا۔ تجھے اور تیری نسل کو میں یہ زمین دے کر وہ عہد پورا کروں گا جو میں نے تیرے باپ ابراہیم سے باندھا تھا‘۔ ‘‘

(پیدائش، 2-3)

اسی طرح پیدائش باب28کی آیات 4 اور 13، باب 25کی آیات 11اور12، اور باب 50کی آیت 24میں اسی سرزمین اور ابراہیمؑ سے کیے گئے وعدہ کا ذکر موجود ہے۔

اس وعدہ کا اعادہ حضرت موسیٰ ؑسے پرانے عہدنامے کی کتاب’’خروج‘‘ میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے:

’’اور میں تم کو لے لوں گا کہ میری قوم بن جاؤ اور میں تمہارا خدا ہوں گا اور تم جان لو گے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں جو تم کو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے نکالتا ہوں۔

’’اور جس ملک کو ابرہام اور اسحاق اور یعقوب کو دینے کی قسم میں نے کھائی تھی، ا س میں تم کو پہنچا کر اسے تمہاری میراث کردوں گا۔ خداوند میں ہوں۔‘‘

(خروج، باب 6، آیات 7اور8)

اسی طرح احبار میں بھی اس سرزمین کا ذکر ملتا ہے لیکن وہاں خدا اسے اپنی زمین قرا ر دے کر بنی اسرائیل کو ’’مسافر اور مہمان‘‘قرار دیتا ہے۔ زمین کی خرید و فروخت میں بھی خدا تعالیٰ اسے اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔

(احبار، باب 25، آیت 23)

گنتی کی کتاب میں موسیٰؑ کو دی جانے والی اس سرزمین کا حدود اربعہ نسبتاً تفصیل سے بیان ہوتا ہے:

’’پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا کہ

بنی اسرائیل کو حکم کر اور ان کو کہہ دے کہ جب تم ملکِ کنعان میں داخل ہو (یہ وہی ملک ہے جو تمہاری میراث ہوگا یعنی کنعان کا ملک مع اپنی حدود اربعہ کے)

تو تمہارے جنوبی سمت میں دشتِ صین سے لے کر ملک ادوم کے کنارےکنارے ہو اور تمہاری جنوبی سرحد دریائے شور کے آخر سے شروع ہو کر مشرق کو جائے۔

وہاں سے تمہاری سرحد عقرابیم کی چڑھائی کے جنوب تک پہنچ کر مڑے اور صین سے ہوتی ہوئی قادش برنیع کے جنوب میں جا کر نکلے اور حصر ادّار سے ہو کر عضمون تک پہنچے۔

پھر یہی سرحد عضمون سے ہو کر گھومتی ہوئی مصر کی نہر تک جائے اور سمندر کے ساحل پر ختم ہو۔

اور مغربی سمت میں بڑا سمندر اور اس کا ساحل ہو۔ سو یہی تمہاری مغربی سرحد ٹھہرے۔

اور شمالی سمت میں تم بڑے سمندر سے کوہ ہور تک اپنی حد رکھنا۔

پھر کوہِ ہور سے حمات کے مدخل تک تم اس طرح اپنی حد مقرر کرنا کہ وہ صداد سے جا ملے۔

اور وہاں سے ہوتی ہوئی زرفون کو نکل جائے اور حصر عینان پر جاکر ختم ہو۔ یہ تمہاری شمالی سرحد ہو۔

اور تم اپنی مشرقی سرحد حصر عینان سے لے کر سفام تک باندھنا۔

اور یہ سرحد سفام سے ربلہ تک جو عین کے مشرق میں ہے جائے اور وہاں سے نیچے کو اترتی ہوئی کنرت کی جھیل کے مشرقی کنارے تک پہنچے۔

اور پھر یردن کے کنارے کنارے نیچے کو جا کر دریائے شور پر ختم ہو۔ ان حدود کے اندر کا ملک تمہارا ہوگا۔ ‘‘

(گنتی، باب 34، آیات1 تا 12)

اسی سے ملتی جلتی حد بندی کی تفصیلات کتاب حزقی ایل کے باب 47کی آیات 13تا 20 میں بھی موجود ہیں۔

استثناء میں یہ زمین بطور تحفہ مکمل قبضہ کے لیے خدا کی طرف سے بنی اسرائیل کو دی جاتی ہے (5:31، 6:9، 17:11، 6:10-11)۔ تاہم استثناء اور احبار میں اس زمین پر سکونت اور قبضہ اعمال صالحہ سے مشروط کیا گیا ہے۔

(احبار، باب 26 آیات 32، 21 و33، استثناء باب 26آیات 63 و 64)

ارضِ موعود میں آباد ہونے والے بنی اسرائیل نے دو مرتبہ اس تعلیم کی خلاف ورزی کی اور خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ارضِ موعود سے بے دخل کر دیے گئے۔ اس بات کی تائید قرآن کریم بھی کرتا ہے اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد ؓ، خلیفۃ المسیح الثانی نے توریت ہی سے ان دونوں تباہیوں کو ثابت بھی فرمایا ہے۔

(تفسیر کبیر، از حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ، جلد چہارم، زیرتفسیر سورۃ بنی اسرائیل)

اسرائیل کے جغرافیائی پھیلاؤ کا ایجنڈا

پرانے عہد نامے میں درج خدا تعالیٰ کے وعدوں سے صیہونی تحریک کے عمائدین نے یہودیوں میں قومیت کا جذبہ تو پیدا کرلیا اور کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے، مگر اب مشکل یہ آن پڑی کہ پرانے عہدنامے کے مطابق جو سرزمین بنی اسرائیل کے لیے ’’ارضِ موعود‘‘ قرار پائی، وہ ان کے عزائم کے لیے ناکافی ہے۔

صیہونیت میں Greater Israelکا تصور اسرائیلی ریاست کے قیام سے بھی بہت پہلے سے پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس ریاست کے پہلے وزیر اعظم David Ben-Gurion نے 1937ء میں اپنے بیٹے کے نام خط میں لکھا کہ برطانوی مینڈیٹ کے مطابق جو علاقہ یہودی ریاست کے لیے مختص کیا جارہا ہے، وہ ان کے ایجنڈے کے مطابق ناکافی ہے۔ اور انہیں عربوں کو اس پورے خطے سے مکمل طور پر بےدخل کرنا ہی ہوگا۔

(یہ خط اسرائیلی ڈیفنس فورس کے آرکائیو میں Ben-Gurion records میں محفوظ ہے۔ اصل خط عبرانی زبان میں ہے۔ انگریزی ترجمہ Institute of Palestine Studiesسے حاصل کیا گیا)

اس ایجنڈے کے مطابق صیہونی عمائدین نے طویل عرصہ کام کیا۔ بالآخر 2008ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم Ehud Olmertنے بیان دیا کہ

’’اب Greater Israelکا کوئی تصور باقی نہیں۔ جو اس خیال کا حامی ہے وہ غلطی خوردہ ہے۔‘‘

(اسرائیلی وزیر اعظم کا بیان ءHa‘aretz, 14 September 2008)

لیکن آج بھی صیہونی تحریک کے حامی کہیں نہ کہیں اس خواب کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال 2018ءمیں شائع ہونے والی کتاب Return to Mecca ہے جس کے مصنف Dennis Avi Lepkin نے اپنے تئیں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پرانے عہد نامے کے مطابق ارضِ موعود میں جزیرہ نما عرب کا بیشتر حصہ بھی شامل ہے۔

نیز یہ بھی کہ جب تک مکہ اور مدینہ پر تسلط نہ ہوجائے، بنی اسرائیل سے کیا گیا خدائی وعدہ پورا نہیں ہوتا۔ مصنف نے یہ تک کھل کر لکھ دیا کہ اسلام دنیا کے تمام مذاہب کا دشمن ہے، لہٰذا مکہ اور مدینہ پر تسلط ہی ارضِ موعود کے حصول اور اسلام کی سرکوبی کا واحد راستہ ہے۔

صیہونیت کا اصل مسئلہ

اوپر کی تمام بحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ صیہونیت کا اصل مقصد صرف یہودی ریاست کا قیام تھا، اور یہ کہ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے الٰہیات کا سہارا لیا۔

پرانے عہدنامے میں بیان کردہ ارضِ موعود کی سرحدیں بہت واضح ہیں اور اسی کے مطابق اسرائیل وجود میں بھی آیا۔

اب اصل مقصد، یعنی دنیا پر طاقت اور حکمرانی کا حصول، ان کے سامنے ہے اور اس کے لیے انہیں یہ سرزمین بلاحدود و قیود پھیلاتے چلے جانا ہے۔ اس کے لیے ان کی نظریں مکہ و مدینہ پر ہیں تا کہ پہلے سے بکھری ہوئی امتِ مسلمہ کی وحدت کا مرکز بھی ان سے چھین لیا جائے۔

ارضِ موعود یا ارضِ مشروط؟

صیہونیت عزائم کے عمائدین اگرچہ توریت کو اپنے سیاسی و جغرافیائی مفادات کی بنیاد بناتے ہیں، مگر ایک اہم حقیقت کے ذکر سے اعراض کرجاتے ہیں۔ جہاں توریت میں خداتعالیٰ نے بنی اسرائیل سے ارضِ موعود کا وعدہ کیا ہے، وہاں اس میں سکونت کو الٰہی احکامات کی فرمانبرداری اور اعمالِ صالحہ سے مشروط کر دیا ہے۔ توریت کی کتاب احبار کے باب 26 کی آیت 21سے آگے کی متعدد آیات احکاماتِ الٰہی سے روگردانی کی صورت میں سخت دردناک عذاب نازل کیے جانے کی پیشگوئی موجود ہے۔ یہ بھی کہ

’’تمہارا ملک سُونا ہوجائے گا اور تمہارے شہر ویرانہ بن جائیں گے۔‘‘

پھر استثنا ءکی آیات 62تا64میں آتا ہے:

’’اور چونکہ تو خداوند اپنے خدا کی بات نہیں سنے گا اس لیے کہاں تم کثرت میں آسمان کے تاروں کی مانند ہو اور کہاں شمار میں تھوڑے ہی سے رہ جاؤگے۔ ‘‘ اور یہ کہ ’’تم اس ملک سے اکھاڑ دیے جاؤ گے جہاں تم اس وقت قبضہ کرنے جارہے ہو۔‘‘

پھر احبار اور استثناء کی دیگر آیات میں اس ارضِ موعود کے واپس ملنے کی واحد صورت توبہ کر کے فرامینِ الٰہی کی مکمل اطاعت بتائی گئی ہے۔

قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہےکہ بنی اسرائیل پر دو مرتبہ یہ واقعہ گزرا اور ان پر دو مرتبہ خدائی وعدہ کے مطابق عذاب نازل کیا گیا۔

سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 5

وَقَضَیۡنَاۤاِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا

کی تفسیر میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ، المصلح الموعودفرماتےہیں:

’’اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کے دو دفعہ باغی ہو کر الٰہی عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر اس کتاب میں پہلے سے دےدی گئی تھی۔ نئے اور پرانے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دو غلطیاں کی ہیں۔ اوّل تو یہ کہ بنی اسرائیل کی تباہی کے بعض واقعات تو درج کردیے ہیں، لیکن قرآنی الفاظ کی صداقت کے اظہار کے لیے وہ پیشگوئی درج نہیں کی جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ دوم جنہوں نے پیشگوئی بیان کرنے کی طرف توجہ کی ہے انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیشگوئی موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان کی گئی تھی۔‘‘

(تفسیر کبیر، جلد چہارم، صفحہ 299تا 300)

اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے توریت میں درج پیشگوئیوں کی تمام تفصیلات پیش فرماکر یہ ثابت فرمایا ہے کہ یہ دونوں عذاب جن میں بنی اسرائیل کو ارضِ موعود سے بے دخل کردیا گیا، گزرچکے ہیں۔

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰٮہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا (بنی اسرائیل :6)

یعنی اور جب ان دو فسادوں میں سے پہلے کے وعدے کے پورا ہونے کا وقت آیا تو ہم نے بعض اپنے ایسے بندوں کو تم پر مستولی کر کے کھڑا کردیا جو سخت جنگجو تھے۔ اور وہ تمہارے گھروں کے اندر جا گھسے اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہنے والا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسے شاہِ بابل نبوکدنصر کا حملہ قرار دیا ہے جس نے فلسطین پر حملہ کر کے صدقیاہ کو شکست دی تھی۔ پھر تفصیل سے ثابت فرمایا ہے کہ تباہی کا دوسرا وعدہ روم کے شہزادہ ٹائٹس کے حملہ سے پورا ہوا جو اس نے فلسطین میں سلطنتِ روم کے سد باب کے طور پر کیا تھا۔

پھر

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا

کی تفسیر میں فرمایا کہ

’’بنی اسرائیل کی کامل تباہی کی خبر دینے کے بعد اب قرآن کریم انہیں امید کا پہلو دکھاتا ہے اور فرماتا ہے کہ بائبل کا جہاں تک تعلق ہے تم ہمیشہ کے لیے ہلاک کردیے گئے ہو۔ مگر موسوی مذہب سے باہر ہو کر تمہاری ترقی کی راہ ابھی کھلی ہے اور وہ یہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ سے دوبارہ ترقی کرنے کا تمہاری قوم کو موقعہ دیا ہے۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوجاؤ۔ لیکن اگر تم نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا تو اللہ تعالیٰ کی سزائیں دوبارہ تم کو آگھیریں گی اور تم بالکل تباہ ہوجاؤگے۔‘‘

پس توریت کی رو سے دیکھا جائے تو ارضِ موعود میں آباد ہونے والے بنی اسرائیل انہی کی کتاب میں مذکور دوعذابوں کے مورد ٹھہر چکے۔ انہوں نے خدا سے کیے گئے وعدوں سے روگردانی کی اور خدائی وعدے کے مطابق اس زمین سے بےدخل کردیے گئے۔

اب بجائے جغرافیائی پھیلاؤ اور تجاوزات کے خواب دیکھنے کے، چاہیے تو یہ کہ ارضِ موعود کے نام پر جو میسر ہے، اس کی حفاظت کریں۔ اپنی ارضِ موعود کو بچائیں نہ کہ اس ارضِ مقدس پر قبضہ کے ارادے باندھیں جن کی حفاظت خود خداتعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔

ارضِ موعود کا مستقبل ازروئے قرآن

سورۂ بنی اسرائیل کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے کہ

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا …

یعنی واقعۂ اسرا کے احوال سے۔

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدؓ المصلح الموعود اس آیت کا ربط بعد میں آنے والی آیات جن میں بنی اسرائیل کو پیش آمدہ واقعات بیان ہوئے ہیں سے یوں بیان فرماتے ہیں:

’’ان آیات کا گذشتہ آیت اور پہلی سورۃ سے کئی طرح تعلق ہے۔

1۔ پہلی آیت میں رسول کریم صلعم اور آپ کے اتباع کو بیت المقدس دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ شہر اور اس کے گرد کا ملک پہلے الٰہی وعدہ کے مطابق حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو ملا تھا۔ مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کےاحکام کی پرواہ نہ کر کے اسے کھو دیا۔ پس ان کے واقعہ کو یاد کراکےمسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ موسوی قوم کی اچھی میراث تم کو دی جارہی ہے مگر ہوشیار رہنا۔ ایسا نہ ہوبری میراث بھی لے لو اور تباہ ہو جاؤ۔

2۔ سورۂ نحل کے آخر میں یہود سے تعلق پیدا ہونے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ اور ہدایت کی تھی کہ ان سے عمدہ رنگ میں بحث کرنا یعنی وہ ایک اہل کتاب قوم ہے ان سے مسلمہ اصول کے مطابق اور ان دلائل کے مطابق جو ان کی کتب میں مذکور ہیں بحث کرنا۔ اب اس طریق بحث کی مثال پیش کرتا ہے یعنی ان کی کتاب سے ہی وہ پیشگوئیاں پیش کرتا ہے جن سے ان کے بگڑجانے کی خبر اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہونے کی خبر ملتی ہے۔ اور بتاتا ہے کہ ان حالات میں یہود کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ اس نئے عہد کو قبول کرکے اس عذاب کو دور کریں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اگر ارضِ مقدس بحیثیت یہود ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے تو بحیثیت مسلمان وہ اس میں پھر سے داخل ہوجائیں۔ اس کے سوا ان کے لیے اور کوئی ترقی کی راہ کھلی نہیں ہے۔ ‘‘

( تفسیر کبیر، جلد چہارم، صفحہ 298)

اسی مضمون کو جاری رکھتے ہوئےحضرت مصلح موعودؓ نے امتِ مسلمہ کو بھی متنبہ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل پر دوسرا عذاب تب آیا جب انہوں نے مسیحِ ناصریؑ کا انکار کیا اور انہیں سخت اذیت سے دوچار کیا۔ اس لیے مسلمانوں کو بیت المقدس ملنے کی نوید عطا فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی بنی اسرائیل پر آنے والے عذاب کا ذکر بھی فرمادیا، تا کہ وہ امتِ محمدیہ میں آنے والےمسیح موعود کا انکار کرکے اور اسے اور اس کی جماعت کو ایذا پہنچا کر اپنا بھی وہی انجام نہ کرلیں جو بنی اسرائیل نے کرلیا تھا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button