سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمات(حصہ سوم)

مقدمات طبعاً ناپسند تھے (حصہ دوم)

مقدمات سے بیزاری کا ثبوت آپؑ کے اس ردعمل سے بھی معلوم ہوتاہے جو کسی بھی مقدمہ کے وقت آپ کی طرف سےعملی طورپرسامنے آتا۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت عرفانی صاحبؓ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’لاہور میں آپ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے اور وہاں سید محمد علی شاہ صاحب کے مکان پر اترے ہوئے تھے۔ سید محمد علی شاہ صاحب قادیان کے ایک معزز رئیس ہیں۔ اور ان دنوں محکمہ جنگلات میں وہ ملازم تھے۔ حضرت مرزا صاحب کو مقدمات کی پیروی کے لئے جب کبھی جانے کا اتفاق ہوتا تو ان کے مکان پر ٹھہرتے۔ ایک مرتبہ ایک مقدمہ کی پیروی کے واسطے گئے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کا ملازم مرزا صاحب کے لئے کھانا چیف کورٹ ہی میں لے جایا کرتا تھا۔ ایک دن وہ کھانا لے کر واپس آیا تو شاہ صاحب نے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے کھانا نہیں کھایا تو نوکر نے جواب دیا کہ انہوں نے فرمایاہے کہ گھر پر آکر ہی کھاتا ہوں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا صاحب بہت خوش اور بشاش آپہنچے شاہ صاحب نے پو چھا کہ آج آپ اتنے خوش کیوں ہیں ؟ کیا فیصلہ ہوا؟تو فرمایا کہ مقدمہ تو خارج ہو گیا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کاشکر ہے آئندہ اس کاسلسلہ ختم ہو گیا۔ شاہ صاحب موصوف کہتے ہیں کہ مجھے تو سن کر بہت افسوس ہوا مگر حضرت اقدسؑ بہرحال ہشاش بشاش تھے۔ اور باربار فرماتے تھے کہ مقدمے کے ہارنے کا کیا غم ہے۔ غورکا مقام ہے۔ کہ ایک دنیادار دنیا کی آخری عدالت میں مقدمہ ہارتا ہے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسے دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایسے موقعوں پر لوگوں نے خود کشیاں کر لی ہیں یا انکے دماغ کو کسی قسم کا صدمہ پہنچ گیا ہے۔ خود اسی خاندان میں نظیر موجود ہے کہ مرزاغلام قادر مرحوم جو آپ کے بڑے بھائی تھے۔ جب چیف کورٹ کی عدالت میں جائیداد قادیان کا مقدمہ جس کا ذکر دوسرے مقام پر آئے گا ہار گئے تو انہیں ایسا صدمہ ہوا کہ پھر اسی غم میں وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن مرزا غلام احمد صاحب چیف کورٹ میں مقدمہ ہارتے ہیں اور مقدمہ کی پیروی اپنے والد صاحب کی طرف سے ان حالات میں کر رہے ہیں جبکہ وہ اپنی جاگیروجائیداد کے تمام حقوق حاصل کرنے کے لئے بے حد فکر مند تھے۔ اور آپ کو واپس آکر والد صاحب کو بھی جواب دینا تھا مگر یہ کیسا قلب ہے کہ اسے کوئی جنبش اور اضطراب نہیں یہ سکون یہ وقار ایسا نہیں کہ ناظرین سرسری نظر سے اس پر سے گزر جائیں۔ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ اس مقدمہ کا نتیجہ مرزا صاحب نے پہلے بتا دیا تھا۔ جہاں اس سےیہ ظاہر ہے کہ آپ کو مقدمات سے نفرت تھی وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رضا بالقضاء آپ کی فطرت میں تھی ورنہ ایسی حالت میں شکر کرنا کارے دارد۔‘‘

(حیات احمدؑ، جلداول ص88، 89)

مقدمات کی تیاری

حضرت اقدسؑ کی سیرت کا ایک بہت خوبصورت باب یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود ناپسند ہونے کے اور مجبوراً ان مقدمات کی پیروی کرنے کے پھربھی جب یہ کام کرناپڑا تو پوری دیانت داری اور توجہ کے ساتھ ان مقدمات کی باقاعدہ تیاری فرماتے اور کسی بھی قسم کی لاپرواہی یا تساہل کا مظاہرہ نہ ہوتا۔ آپ ان کے لیے بڑی محنت سے ہر ممکن تیاری کرتے۔ ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کاغذات اور شواہد کا خلاصہ ضبط تحریر میں لاتے اور مشمولہ کاغذات کی نقول محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام فرماتے تاعند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو۔ آپؑ کی تیاری کا جو ایک منفرداور امتیازی نشان ہمارے سامنے آتاہے وہ ہرکام میں رضائے الٰہی کا مقدم ہوناہے۔ سبحان اللہ! کیاہی بابرکت اور عارف باللہ وہ ہستی تھی کہ ہرکام اور ہرمیدان میں ہروقت رضائے باری کاہی خیال ہے جو دل ودماغ پر چھایاہواہے۔ ان مقدمات میں کہ جن میں ہرکس وناکس کو ایک ہی دھن لگی ہوتی ہے کہ میری فتح ہو، میں جیت جاؤں اور اس جیت کے لئے وہ کسی بھی حدتک جانے کو گواراکرلیتاہے وہ پھر نہیں دیکھتاکہ سچ کیا ہے اورجھوٹ کیا ہے۔ بس یہی دل ودماغ پر سوارہوتاہے کہ جیت میری ہو۔ لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں۔ ہم اگر جستجوکرتے ہوئے آپؑ کی سیرت کو دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کل صبح مقدمہ کی پیشی ہے۔ قادیان کے رئیسوں کا مقدمہ ہے جو مالک ہیں قادیان سمیت اردگردکے کئی دیہات کے، اس مقدمہ کی پوری تیاری کی جارہی ہے۔ مسلیں پڑھی جارہی ہیں، ان کا خلاصہ اورپوائنٹس کاغذوں پر نوٹ کئے جارہے ہیں۔ وکیلوں سے بھی صلاح مشورے ہورہے ہیں اور بڑے مرزاصاحب یعنی والدصاحب، حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب سے مختارنامہ لےلیاہے اور اسباب ودلائل کی تیاری مکمل ہے۔ لیکن ابھی ایک کام رہتاہے جو اس تیاری کی اصل ہے، اورسارے کام کی روح ورواں، اوریہی ہے وہ بات جو تمام دوسرے دنیاداروں سے آپؑ کو جدا اور منفرد ونمایاں کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ یہ ساری تیاری مکمل کرنے کے بعد مسجدمیں جا کر خداکے حضور سربسجدہ ہوجاتے ہیں اورنہ جانے کیا کیامناجات ودعائیں کرتے ہوں گے۔ ہاں دل یہ گواہی دیتاہے کہ ایک دعایہ بھی ہوتی ہوگی کہ خدایا تیرے حکم کی تعمیل میں ہی یہ سب کچھ یعنی برابالوالدین ہورہاہے، ہاں ایک عرض ہے کہ میرا دل مقدمہ کی فتح وشکست سے خالی اور مبراہے بس حق وانصاف کی فتح ہو اور جس میں تیری رضا ہو وہی میرامقصودومطلوب ہے۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’حضرت مسیح موعودؑ کا معمول شروع سے یہ تھا۔ کہ آپؑ سنن و نوافل گھر پر پڑھا کرتے تھے۔ اور فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ التزام آپ کا آخر وقت تک رہا۔ کبھی کبھی جب مسجد میں بعد نماز تشریف رکھتے تو سنتیں مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ ان ایام میں جبکہ آپ کو مقدمات کی پیروی کے لئے حضرت والد صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں جانا پڑتا۔ تو آپ کا یہ بھی معمول تھا کہ جس رات کی صبح کو آپ کو تاریخ مقدمہ پر جانا ہوتا۔ تو عشاء کی نماز بڑی مسجد میں پڑھ چکنے کے بعد کہتے کہ

’’مجھ کو مقدمہ کی تاریخ پر جانا ہے۔ میں والد صاحب کے حکم کی نافرمانی نہیں کر سکتا۔ دعا کرو کہ اس مقدمہ میں حق حق ہو جاوے اور مجھے مخلصی ملے۔ میں نہیں کہتا کہ میرے حق میں ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حق کیا ہے؟پس جو اس کے علم میں حق ہے اس کی تائید اور فتح ہو۔ ‘‘ اس دعا کے لئے آپ خود بھی ہاتھوں کو خوب پھیلاتے اور دیر تک دعا مانگتے۔ اور تمام حاضرین بھی دعا میں شریک رہتے۔ دعا کے الفاظ اپنی حقیقت اور دعا کرنے والے کے دلی ارادوں اور جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔‘‘

(حیات احمدؑ جلداول ص 295)

یہ وہ کیفیت ہوتی تھی جس کے ساتھ آپ نے اپنی زندگی بھرمیں جب بھی کبھی مجبوراً ہی سہی، مقدمات کا سامنا کیاتواسی اندازمیں کیا۔ حضرت ِ عرفانی رضی اللہ عنہ مزیداسی تسلسل میں لکھتے ہیں کہ

’’پھر ان مقدمات میں ایک امر جو آپؑ کی زندگی کے مختلف پہلووٴں پر روشنی ڈالتا ہے کہ آپؑ ان مقدمات کی تیاری پورے طور پر کرتے تھے۔ اور اس کے لئے جس قدر محنت آپؑ کو کرنی پڑتی تھی۔ ہر شخص اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ یہ کام آپ کے طبعی شوق یا دلچسپی کا تو تھا نہیں۔ بلکہ بالطبع آپؑ کو کراہت تھی۔ لیکن محض حضرت والد صاحب مرحوم کے ارشاد کی اطاعت اور خدا کی رضا کے لئے آپؑ اسے کرتے تھے۔ جس کام میں انسان کو طبعاً دلچسپی ہو اس کے لئے تھوڑی سی محنت بھی بہت ہوتی ہے۔ لیکن جہاں ایک امر طبیعت کے خلاف ہو۔ اس کے لئے اپنے نفس کے ساتھ بہت بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے۔ باوجود اس کے آپؑ تمسک بالاسباب کے طور پر ہر مقدمہ کے لئے پورا تیار ہو کر جاتے تھے۔ ہر مقدمہ کے متعلق ضروری کاغذات و شواہد کا خلاصہ تحریر کر لیتے۔ اور ہر ایک قِسم کے کاغذات جو شامل کرتے یا عرضی دعویٰ وغیرہ کی نقول رکھتے۔ تا کہ عند الضرورت مقدمہ کے سمجھنے یا سمجھانے میں آسانی ہو۔ اور ان مقدمات میں گو اخراجات کی کوئی تفصیل حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم آپؑ سے نہ پوچھتے تھے۔ مگر آپؑ لکھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپؑ کی اس وقت کی بعض یادداشتیں موجود ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ آپؑ کس محنت سے تیاری کیا کرتے تھے۔

دل بہ یار دست بکار

باوجود اس کے کہ آپؑ تیاری مقدمہ میں پوری محنت اور کوشش فرماتے تھے۔ مگر ان اسباب پر آپؑ کبھی بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ بلکہ دعاوٴں سے کام لیتے اور ہر وقت خدا تعالیٰ ہی کی ذات آپؑ کے مد نظر رہتی۔ وہی معبود اور مطلوب تھا۔ اور اسی پر توکل و اعتماد۔ چنانچہ ان مقدمات کی یادداشتوں میں سے ایک پر آپؑ نے حسب ذیل دعا لکھی ہے۔ اور اس تحریر سے ثابت ہے۔ کہ یہ مئی 1871ءکی ہے…… میں پسند کرتا ہوں۔ کہ اس تحریر کو خودحضرت ہی کے رسم الخط میں دے دوں۔ مگر اولاً نستعلیق میں دیتا ہوں :وھو ھذا

بسم الله الرحمن الرحیم

۱۔ گرم ہرسرے موئے گرددزبان

برانم بہریک زتو داستاں

۲۔ چہ حاجت کہ دست دعا گسترم

کہ پیش ازدعاء میکنی ہرکرم

۳۔ چو خود میکنی جملہ کام مرا

دریں ہم نگہدار نام مرا

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button