متفرق مضامین

انیسویں صدی میں مسیحی مشن کی حکمت عملی اور کاسر صلیب کا جواب

(عبدالرحمٰن)

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کے احیائے نو کے لیے مبعوث فرمایا۔احادیث نبویہ میں مسیح موعود کی علامات میں سے یکسر الصلیب و یقتل الخنزیردرج ہے۔یعنی وہ صلیب توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا۔ شارحین کے نزدیک اس سے مراد عیسائی مذہب کا بطلان ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ

٭…مسیح موعودؑ کی آمد کے وقت اسلام پر عیسائی مذہب کا سخت حملہ ہو گا۔

٭…مسیح موعودؑ اس حملہ کا اس طریق پر جواب دے گا کہ گویا صلیب کو توڑ دے گا۔

جارحانہ حکمت عملی

19ویں صدی کے آغاز میں عیسائی مشنریوں نے گویا ہندوستان پر مذہبی حملہ کردیا۔انہوں نے خاص طور پر مسلمانوں کوتوہین آمیز حملوں کا نشانہ بنایا۔ Claudius Buchanan جو کہ ہندوستان کے ابتدائی مشنریو ں میں سے تھے، اپنے ایک خط محررہ 7؍نومبر1807ءمیں لکھتے ہیں کہ مشنریوں کی توہین آمیز حملوں کی پالیسی غلط ہے۔ ان کو دلائل سے مسلمانوں کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

‘‘The Missionaries have, in a certain paper, applied abusive epithet to Mahomet. The Missionaries certainly mistake the proper method of convincing the minds of men.’’

(An Apology for promoting Christianity in India p 75)

یعنی ایک اخبار میں مشنریوں نے (حضرت) محمد(رسول اللہﷺ )کو توہین آمیز لقب سے یاد کیا ہے۔مشنریوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں کی سوچ بدلنے کا یہ مناسب طریق نہیں۔

لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اس سےمراد یہ نہیں کہ حضرت اقدس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عزت و احترام سے کریں:

‘‘At the same time, Christian Teachers are not to speak with reverence or courtesy’’

(An Apology for promoting Christianity in India p 75)

یہ عنصر مشنری سرشت میں ہمیشہ مستحکم رہا۔وہ کسی ایسی تحریر کو برداشت نہیں کرتے تھے جو کہ آنحضرتﷺ یا اسلام پر غیر جانبدارنہ تجزیہ کر رہی ہو۔اس کی ایک مثال ہمیں پادری ھیوز کے مضمون میں ملتی ہے۔پادری ھیوز، جان ڈیون پورٹ اور بوسورتھ سمتھ وغیرہ کی کتب پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘If such a state of mind is the true qualification for the Christian Missionary, we can only say that any attempt to influence –we do not say convert- Muhammadanism would be a hopeless task.’’

(Church Missionary Intelligencer Nov. 1874 p 332)

یعنی اگر اس قسم کے سوچنے کا زاویہ عیسائی مشنری ہونے کا معیار ہو تو پھر اسلام کو متاثر کرنا بھی بہت مشکل ہے چہ جائیکہ اسے عیسائی بنایا جائے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس کے مقابل پر مباحثات کا ایسا اصول وضع فرمایا جو نہ صرف عالمی امن کی بنیاد ڈالنے والا بلکہ پادریوں کی مسلمانوں سے متعلق مخصوص حکمت عملی کوبالکل بےاثر کرنے والا ہے جس کا اعتراف پادری ھیوز نے مندرجہ بالا حوالہ میں کیا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں:

’’اے عزیزو!! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو توہین سے یاد کرنا اور اُن کو گالیاں دینا ایک ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرکے دین اور دُنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے۔ وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کرسکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں۔ اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہوسکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یا رشی اور اوتار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا۔ خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگرچہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتی مگر آنجناب ؐ کو ان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ اُن کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجز تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے۔

اور ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہرگز بد زبانی نہیں کرتے۔ بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگوں نے ان کو مان لیاہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گزر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی خدا اپنے مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے…

میں اس وقت کسی خاص قوم کو بے وجہ ملامت کرنا نہیں چاہتا۔ اور نہ کسی کا دل دُکھانا چاہتا ہوں بلکہ نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اِسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہرایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دُنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کو حاصل ہے۔ جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ

لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ۫ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ

یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کردیں۔

(پیغام صلح،روحانی خزائن جلد23صفحہ 452تا459)

اس تعلیم کے مقابلہ پر عیسائی مشنری ایک دوسرے کو کس قدر محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس کا ایک اندازہ Erich Bethmannکی درج ذیل عبارت سے ہوتا ہے:

‘‘You have conceded nothing when you call Muhammad the “Prophet of Islam”. If you call him “a prophet”, that would lead to misunderstandings.’’

(Bethmann, Bridge to Islam, p 205)

یعنی اگر تم محمد (ﷺ) کو’ْاسلام کا نبی‘کہہ کر پکارو گے تو اس صورت میں تم نے کچھ بھی تسلیم نہ کیا۔ اگر صرف نبی کہہ کر پکارو گے تو اس سے غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں۔

پادریوں کا علمی حربہ

مشنری حکمت عملیوں میں مختلف عملی تجربات کی رو سے تبدیلی اور بہتری آتی رہی۔اس کا ایک اندازہ اس دور کے مخصوص رسائل و اخبارات دیکھنے سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔لیکن سب سے بڑا علمی حربہ جو ہمیں ایک تسلسل کے ساتھ مستعمل نظر آتا ہے وہ ’’زندہ اور وفات یافتہ نبی‘‘ کی بحث ہے۔یعنی حضرت محمدﷺ وفات پا چکے ہیں جبکہ حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔

پادری وھیری نے1882-1883ءمیںکلکتہ میں ہونے والی دوسری مشنری کانفرس میں “Work Amongst Mahomedans” کے عنوان سے ایک مضمون پڑھا۔اس مضمون میں وہ مسلمانوں کو تبلیغ کرنے کا بہترین طریق بتاتے ہیں:

‘‘The kind of subjects best suited to arrest the attention of Muslims, and by God`s blessing to lead to solemn thought, are such as…why he has been exalted on high; Jesus Christ a present, living mediator—dead prophets cannot help sinners.’’

(Report of the Second Decennial Missionary Conference Held at Calcutta 1882- 83 p 230)

یعنی تبلیغی سرگرمیوں کے دوران جو موضوعات مسلمانوں کی توجہ مبذول کرواتے ہیں وہ یہ ہیں…یسوع مسیح کا رفع جسمانی،زندہ شفیع،مردہ انبیاء گناہ گاروں کی مدد نہیں کر سکتے۔

پادری Hardingاپنے تبلیغی تجربہ کا خلاصہ یوں لکھتے ہیں :

‘‘I have found most effective the argument that Jesus is alive and Muhammad is dead’’

(Tisdall, A manual of the leading Muhammadan Objections to Christianity p130)

یعنی میں نے سب سے زیادہ مؤثر دلیل یہ پائی ہے کہ عیسیٰ زندہ ہے اور محمد(ﷺ ) وفات پا گئے ہیں۔

پادریTisdallاس کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘This is a very general experience of missionaries, and much use should be made of the admitted fact.’’

(ibid. p130)

یعنی عمومی طور پر مشنریوں کو یہی تجربہ ہے اور اس تسلیم شدہ صداقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔

عیسائی مشنریوں نے اپنی حکمت عملیوں کو اس قدر مفید پایا کہ مسلمانوں کے ساتھ مباحثات میں عملاً فتح کا اعلان بھی کردیا۔چنانچہ پادری عمادالدین صاحب لکھتے ہیں:

‘‘We can, I think, now say that the controversy has virtually been completed, and that too successfully: and that, through God`s grace, the Christians have obtained a complete victory.’’

(Church Missionary Intelligencer Sep.1875 p 276)

یعنی اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ مباحثہ کا سلسلہ کامیابی سے ختم ہوا اور عیسائیوں نے کامل فتح پائی ہے۔

یہ بات صرف موقف کی حد تک نہیں تھی بلکہ عیسائی مشنریز اس کو عملی میدان میں استعمال کرتے تھے۔اس کی کچھ مثالیں خاکسارذیل میں درج کرتا ہے:

٭…پادریRalph Eteson بنارس میں ایک مسلمان کو تبلیغ کرنے کا واقعہ درج کرتے ہیں جو 1830ء میں وقوع پذیر ہوا۔پادری صاحب لکھتے ہیں:

‘‘You affirm that Jesus is alive …Mahomet is not alive, in the same manner that Christ is.’’

(Church Missionary Record Vol.1 No.11 Nov. 1830 p 242)

یعنی تم یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسیٰؑ زندہ ہیں اور محمدﷺ ان معنوں میں زندہ نہیں جن معنوں میں عیسیٰؑ۔

٭…یہ دلیل ایسی کارآمد ثابت ہوئی کہ عملاً کئی مسلمانوں نے لاجواب ہو کر بپتسمہ لے لیا۔مثلاًمصر کے پادری W.H.T Gairdner اپنی تبلیغی سرگرمی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘Now then, woman when I am gone you just remember one thing-Jesus is alive and Mohammed is dead. What have you to do with a dead man??…I heard quite independently that when the Moslem women came around, having heard that she was going to be baptized , and heckled her as to her reasons, she had only one reply “Jesus is alive and Mohammad dead; how can a dead man save?”

(The Church Missionary Gleaner Jan.1907 p13)

پادری صاحب زیر تبلیغ عورت کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب جب میں واپس جاؤں تو تم صرف ایک بات پر غور کرنا وہ یہ کہ عیسیٰؑ زندہ ہیں اور محمد(ﷺ) وفات پا چکے ہیں۔(معاذ اللہ) وفات یافتہ سے تمہیں کیا کام؟…مجھے آزاد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان عورتیںاس کے پاس جمع ہوئیں۔انہیں معلوم تھا کہ یہ عورت بپتسمہ لینے لگی ہے۔ وہ اس کی عقل کو کوسنے لگیں مگر اس کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ عیسیٰ زندہ ہے اور محمدﷺوفات پا چکے ہیں۔ایک وفات یافتہ انسان کس طرح بچا سکتا ہے؟

٭…صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہ دلیل ایسی آسان فہم اور کارآمد معلوم ہوئی کہ انہوں نے اپنے سکولوں اور ہسپتالوں میں بھی یہ زہر کا ٹیکہ مسلمانوں میں لگانا شروع کر دیا۔مثلاًDr. R.H Blandلکھتے ہیں:

‘‘In our hospitals and schools we are trying to sow the Sudanese the gospel of love, and the power to live such a gospel through Jesus, a living Christ and not a dead prophet.’’

(Church Missionary Outlook, Oct. 1931 p 209)

یعنی اپنے سکولوں اور ہسپتالوں میں ہم سوڈانی لوگوں میں محبت کا بیج بو رہے ہیں نیز انہیں قائل کر رہے ہیں کہ اس طرح کی زندگی صرف عیسیٰ مسیح کے ذریعہ ہی ممکن ہے نہ کہ کسی وفات یافتہ نبی کے ذریعہ۔

٭…خواتین مشنری اس حربہ کو خواتین کے دماغوں میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔مثلاًMiss Bardsleyخواتین کی مشنری کانفرنس میں اپنا تجریہ پیش کرتے ہوئے لکھتی ہیں:

‘‘Is there not a difference in our faith? You and I believe in a living Savior, who has redeemed us and they in a dead prophet, who may do something for them “someday”.

(Supplement to Indias Women and Chinas Daughters 1898 p11 to 12)

یعنی کیا ہمارے اور ان (مسلمانوں)کے عقیدے میں کوئی فرق نہیں؟آپ اور میں ایک زندہ نجات دہندہ کو مانتے ہیں جس نے ہمیں نجات دی اور وہ ایک وفات یافتہ نبی کو جو ان کے لیے ’’ایک دن‘‘ کچھ کرے گا۔

غرضیکہ یہ ایک غیر معمولی حملہ تھا۔الفاظ میں سادہ اور مختصر مگر اپنے زور میں بڑی بڑی مناظرانہ کتب پر حاوی تھا۔مصری پادری W.H.T Gairdner لکھتے ہیں:

‘‘The contrast between their dead Prophet, lying in his splendid tomb in Medina, and the Christ who rose triumphant from grave, and lives to make a perpetual intercession, is found time after time strike Moslems very forcibly. Many a simple man and woman has, even without definitely quitting Islam, found the sheet-anchor of a new life of faith in the one thought: “The dead Prophet; the living Intercessor”

(The Moslem World Vol.18 Issue.4 Oct.1928 p 347)

ان کے وفات یافتہ نبی سے،جو مدینہ میں ایک عظیم الشان مقبرہ میں مدفون ہے، اس مسیح کا امتیاز جو فاتحانہ انداز میں قبر سے زندہ اٹھا اور ایک دائمی شفاعت کرنے کے لیے زندہ ہے،مسلمانوں کو بہت چبھتا ہے۔بہت سے سادہ لوح مسلمان مرد اور عورتیں اگرچہ اسلام کو نہ بھی چھوڑیں مگر وہ ’’وفات یافتہ نبی اور زندہ شفیع‘‘ کے خیال میں ایمانی زندگی کا ایک نیا سہارا پاتے ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ اسلام کے مرد مجاہد کی صورت میں سامنے آئے اور دنیا ایک نئے قسم کے علم الکلام سے روشناس ہوئی جس نے بڑھتی ہوئی عیسائیت کے قدم روک دیے۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے مسلمانوں کو ہدایت دی کہ’’اے میرے دوستو! اب میری ایک آخر ی وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے۔ تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقاتِ عزیز کو ضائع کرو۔ صرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پُر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر دو۔ جب تم مسیح کا مُردوں میں داخل ہونا ثابت کردو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کردو گے تو اُس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا۔ یقینًا سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو اُن کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں۔اُنکے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اُٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 402)

’’خوب یاد رکھو کہ بجز موتِ مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی سو اس سے فائدہ کیا کہ برخلاف ِتعلیم قرآن اس کو زندہ سمجھا جائے۔اس کو مرنے دو تا یہ دین زندہ ہو۔‘‘

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 71)

’’اور یہ بھی پکّی بات ہے کہ اسلام کی زندگی عیسٰی کے مرنے میں ہے۔اگر اس مسئلہ پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہی مسئلہ ہے جو عیسائی مذہب کا خاتمہ کر دینے والا ہے۔یہ عیسائی مذہب کا بہت بڑا شہتیر ہے اور اسی پر اس مذہب کی عمارت قائم کی گئی ہے اسے گرنے دو۔‘‘

(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ290)

پس حیات مسیحؑ کے عقیدے میں حیات مسیحیت ہے اور وفات مسیحؑ کے عقیدہ سے یہ مذہب مر جاتا ہے۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ

’’لدھیانہ میں ایک دفعہ ایک پادری میرے پاس آیا۔اثنائے گفتگو میں مَیں نے اسے کہا کہ عیسیٰ ؑکی موت ایک معمولی بات ہے اگر تم مان لو کہ عیسٰی مر گیا ہے تو اس میں تمہارا کیا حرج ہےتواس پر وہ کہنے لگاکہ کیا یہ معمولی سی بات ہے۔اسی پر تو ہمارے مذہب کا تمام دارو مدار ہے۔‘‘(ملفوظات جلد5 صفحہ 395تا396،ایڈیشن1988ء)

پادریوں کو روحانی مقابلہ کی دعوت

گذشتہ سطور میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عیسائی مشنری کیسے بار بار زندہ مسیح کی برکات اور فیض رسانی کا ذکر کرتے ہیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے علم الکلام کی امتیازی شان یہ ہے کہ آپؑ نے آسمانی نشانوں کے ثبوت میں مقابلہ کا چیلنج دیا۔آپؑ فرماتے ہیں:

’’تیسری صورت صلیبی مذہب پر غلبہ پانے کی یہ ہے کہ آسمانی نشانوں سے اسلام کی برکت اور عزت ظاہر کی جائے اور زمین کے واقعات سے امور محسوسہ بدیہیہ کی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر گئے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرگئے۔ اور یہ تیسری صورت ایسی ہے کہ ایک متعصب عیسائی بھی اقرارکرسکتا ہے کہ اگر یہ بات بپایہ ثبوت پہنچ جائے کہ حضرت مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے او ر نہ آسمان پر گئے تو پھر عیسائی مذہب باطل ہے اورکفارہ اور تثلیث سب باطل اور پھر اس کے ساتھ جب آسمانی نشان بھی اسلام کی تائید میں دکھلائے جائیں تو گویا اسلام میں داخل ہونے کے لئے تمام زمین کے عیسائیوں پر رحمت کا دروازہ کھول دیا جائے گا۔ سو یہی تیسری صورت ہے جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے ایک طرف تو مجھے آسمانی نشان عطا فرمائے ہیں اورکوئی نہیں کہ ان میں میرا مقابلہ کرسکے۔اور دنیا میں کوئی عیسائی نہیں کہ جو آسمانی نشان میرے مقابل پر دکھلا سکے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 167تا168)

’’مجھے خدا نے اپنی طرف سے قوت دی ہے کہ میرے مقابل پر مباحثہ کے وقت کوئی پادری ٹھہر نہیں سکتا اور میرا رُعب عیسائی علماء پر خدا نے ایسا ڈال دیا ہے کہ اُن کو طاقت نہیں رہی کہ میرے مقابلہ پر آسکیں۔ خدا نے مجھے رُوح القدس سے تائید بخشی ہے اور اپنا فرشتہ میرے ساتھ کیا ہے اس لئے کوئی پادری میرے مقابل پر آہی نہیں سکتا یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معجزہ نہیں ہوا کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی اور اب بُلائے جاتے ہیں پر نہیں آتے اس کا یہی سبب ہے کہ ان کے دلوں میں خدا نے ڈال دیا ہے کہ اس شخص کے مقابل پر ہمیں بجز شکست کے اورکچھ نہیں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 149تا150)

’’میں تمام دنیا سے زیادہ حیران ہوں کہ کونسی کوئی خاص فضیلت مسیح ابن مریم میں تھی جس کی وجہ سے اس کو خدا بنایا گیا کیا اس کے کوئی خاص معجزات تھے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر یہاں معجزات ظاہر ہو رہے ہیں۔ کیا اس کی پیشگوئیاں اعلیٰ قسم کی تھیں مگر میں خلاف واقعہ کہوں گا اگر یہ اقرار نہ کروں کہ جو پیشگوئیاں مجھے عطا کی گئی ہیں وہ مسیح ابن مریم سے بہت بڑھ کر ہیں کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انجیلوں میں مسیح ابن مریم کی شان میں بڑے اعلیٰ درجہ کے لفظ ہیں جن سے ان کو خدا ماننا پڑتا ہے مگر میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا دنیا اور آخرت میں موجب لعنت ہے کہ وہ الفاظ جو خداتعالیٰ کی طرف سے میری شان میں وارد ہوئے ہیں جن کی نسبت میں پھر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ خالص خدا کے الفاظ ہیں نہ انجیلوں کی طرح محرّف۔ مبدّل۔ مغیر۔ وہ ان الفاظ کی شان سے کہیں بڑھ کر ہیں جو مسیح ابن مریم کی نسبت پادری صاحبان انجیلوں میں دکھلاتے ہیں مگر کیا مجھے جائز ہے کہ میں بھی خدائی کا دعویٰ کروں یا خدا کا بیٹا کہلاؔ ؤں پس اسی طرح یقیناًسمجھو کہ مسیح ابن مریم بھی خدا کا بیٹا نہیں نہ خدا ہے میں مسیح محمدیؐ ہوں اور وہ مسیح موسوی تھا۔

(عصمت انبیاء علیھم السلام،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 697تا698)

وہ پادری حضرات جو ایک زندہ مسیح کی برکات سناتے نہیں تھکتے تھے، اس دلیل کے سامنے ایسے دم بخود ہوئے کہ بجائے مقابلہ پر آنے کے دیگر مسلمانوں کی مخالفت کا سہارا لیا۔چنانچہ پادری وھیری 1902ء میں ہونے والی مشنری کانفرنس میں حضرت اقدس ؑکی مندرجہ بالا تحدی درج کر کے لکھتے ہیں:

‘‘It goes without saying that the teaching of Mirza Ghulam Ahmad is heretical and blasphemous in the ears of all sincere Muslims.’’

(Report of the Fourth Decennial Indian Missionary Conference held in Madras Dec.11th to 18th 1902 p 345)

یعنی یہ کہنے میں کوئی تأمل نہیں کہ مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کی تعلیمات تمام ’’مخلص مسلمانوں‘‘کے نزدیک توہین آمیز اور ملحدانہ ہیں۔

بالفاظ دگر ان کے پاس اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں۔

پادری ہمیشہ سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے علم الکلام سے مرعوب رہے ہیں۔اس کی ایک مثال ہمیں 1926ء کی ابتداء میں ملتی ہے۔مشہور پادری زویمر کا اعلان اخبار نورافشاں میں چھپا :

’’میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دوسرے نبیوں پر یسوع کو یہ فوقیت ہے کہ وہ آج زندہ ہے یعنی وہ اس زمانہ کا بخشندہ حیات ہے۔‘‘

(نور افشاں یکم جنوری1926ءصفحہ 8)

اس کے جواب میں حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے لکھا:

’’ہم علی الاعلان کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت مسیح کو کوئی ایسی زندگی نہ حاصل تھی اور نہ حاصل ہے اور نہ ہو سکتی ہے جو آپ کو دیگر تمام انبیاء سے افضل قرار دے سکے۔خود اناجیل ہمارے بیان کی شاہد ہیں جو کہ ان کی موت کا بالصراحت ذکر کرتی ہیں۔پس مسیح کی زندگی کا خیال محض ایک وہم اور طفل تسلی ہے۔ہم عیسائی دنیا سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حضرت مسیحؑ کی غیر معمولی زندگی کا کوئی ثبوت کوئی شاہد پیش کرے۔مسیح کا فیضان ختم ہو گیا۔یہی وجہ ہے کہ آج اناجیل کی مقرری علامات رکھنے والا عیسائی روئے زمین سے معدوم ہے۔کیا ڈاکٹر صاحب موصوف جن کو حضرت مسیحؑ کے زندہ ہونے کا زعم ہے میدان آزمائش میں آکر مسیحی کسوٹی کے فیضان کو ثابت کریں گے؟

(الفضل 2؍فروری 1926ء صفحہ 8)

اس سیدھے سادھے چیلنج کے مقابلہ میں عیسائیوں نے مسلمان علماء کی آڑ لی اور پادری زویمر کو مشورہ دیا کہ وہ بلاشبہ مرزائیوں کے چیلنج منظور فرما لیں۔امداد کے لیے جناب بابو حبیب اللہ کے مضامین مندرجہ اخبار اہلحدیث موجود کرنا نور افشاں کا کام ہو گا۔(نور افشاں 26؍مارچ 1926ء صفحہ 6)

پس حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ اصول عیسائی عقیدہ کی بیخ کنی کرتے ہیں۔آپؑ نے ان کی جارحانہ حکمت عملی کے مقابل پر صلح کل کی اسلامی تعلیم پیش فرمائی۔علمی حربہ کے مقابلہ میں وفات مسیحؑ کا ثبوت کتب مقدسہ و تاریخ سے پیش فرمایا اور یسوع مسیح کےروحانی فیوض و برکات کے راگ الاپنے والوں کے مقابل پر اپنی ذات کو روحانی مقابلہ کے لیے پیش فرمایا۔اس کے مقابلہ میں عیسائی پادریوں نے مسلمان علماء کے فتاویٰ کی پناہ لی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’ہمارے اصول عیسائیوں پر ایسے پتھر ہیں کہ وہ ان کا ہرگز جواب نہیں دے سکتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 165،ایڈیشن1988ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button