حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

صحابۂ رسولﷺ کا اعلیٰ نمونہ

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اور سنئےعبداللہ بن ابی ابن سلول نے جو منافق تھا۔ ایک موقع پر کہا کہ میں جو معزز شخص ہوں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ذلیل انسان ہے۔ مدینہ سے باہر نکال دوں گا۔ یہ بات اس کے بیٹے کو بھی کسی طرح سے پہنچ گئی۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کہتا ہے۔ اس کی سزا اب قتل کے سوا اور کوئی ہونہیں سکتی۔ اس لئے آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کروں تا ایسا نہ ہو کہ اور کوئی شخص اس کو قتل کرے۔ اور میرا نفس شرارت کرے۔

یہ وہ قربانیاں تھیں جو انہوں نے کیں۔ انہوں نے اپنے گھر بانٹ دیئے۔ حتیٰ کہ اپنی بیویاں دوسروں کے لئے علیحدہ کر دیں۔ جن کے پاس ایک سے زائد تھیں۔یہ وہ ایثار اور قربانی ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔

پھر غزوہ حنین کے موقعہ پر جب بارہ ہزار کا لشکر جرار آپ کے ساتھ تھا۔ بعض کے عجب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سزا نازل کی کہ لشکر کے پاؤں جنگ میں اکھڑ گئے۔ آپ پر ایسا وقت آیا کہ چار ہزار لشکر کے مقابل آپ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تھے۔ اس وقت آپ نے فرمایا۔ انصار کو بلاؤ۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا۔ کہ مہاجرین کو بلاؤ۔ پھر آواز ایسی خطرناک حالت میں جب انصار کو پہنچتی ہے تو وہ آپ کی طرف اس طرح بے اختیار دوڑے چلے آتے ہیں کہ اگر ان کے گھوڑے رکتے ہیں تو ان کی گردن کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ اگر اونٹ چلنے سے رکتے ہیں تو ان کے پاؤں کاٹ دیتے ہیں۔ اور پیادہ لبیک یا رسول اللہ لبیک کہتے ہوئے اس طرح واپس لوٹتے ہیں کہ تھوڑی دیر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بڑا جتھا اکٹھا ہوجاتا ہے۔

پھر ان کے نوجوانوں اور بچوں کا یہ حال تھا کہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کہتے ہیں میرے دل میں کفار کے مظالم کی وجہ سے لڑنے کے لئے بڑا جوش تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا۔ تو دو چھوٹے بچے تھے۔ اور ایسے موقعہ پر بہترین جنگی خدمت وہی کر سکتا ہے۔ جس کے دائیں بائیں تجربہ کار بہادر سپاہی ہوں۔ میں نے سمجھا۔ میں آج کیا لڑوں گا۔ میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ دائیں طرف سے ایک لڑکے نے مجھے کہنی مار کر اپنی طرف متوجہ کیا اور میرے کان میں کہا تا دوسرا لڑکا نہ سن لے کہ چچا وہ جو ابوجہل رسول اللہ کا بڑا دشمن ہے وہ کہاں ہے۔میں نے اسے جواب نہیں دیا تھا۔ اور میں خیال کر رہا تھا کہ باوجود میرے بہادر اور تجربہ کار سپاہی ہونے کے میرے دل میں بھی یہ خیال نہیں آیا کہ ابوجہل پر حملہ کروں۔ اسی خیال میں تھا کہ دوسرے لڑکے نے میرے کان میں کہا۔ چچا ابوجہل کہاں ہے۔میں نے انہیں اشارہ سے بتایا کہ جس کے اردگرد بڑے بڑے سردار ہیں وہ ہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کہتے ہیں۔ میری انگلی کا اٹھنا ہی تھا کہ چیل کی طرح جھپٹ کر وہ دونوں صفوں کو چیرتے ہوئے ابوجہل پر جا حملہ آور ہوئے اور اسے اتنا زخمی کر دیا کہ ان زخموں سے وہ مرگیا۔ اس سے ان لوگوں کی قربانی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد10صفحہ 65-66)

نبی تو اس شخص کی بھی اصلاح کی کوشش کرے گا جو کمزوریوں کی انتہا کو پہنچ چکا ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کی امت میں کمزور آدمی نہ ہوئے ہوں۔ یا جس کی امت میں نقص رکھنے والے اشخاص نہ پائے گئے ہوں۔ نبی کی امت انتخاب کے ذریعہ نہیں بنائی جاتی کہ جو لوگ اچھے اچھے ہوں انہیں منتخب کرلیا جائے۔ اس کی مثال تو ہسپتال کی طرح ہے۔ جہاں مختلف مرضوں والے آتے ہیں اور شفا پاتے ہیں۔ جس طرح ایک ڈاکٹر ہسپتال میں ایک مریض کی صحت کے لئے سعی کرتا ہے اسی طرح ایک نبی کا کام ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کمزوریوں اور نقصوں کی اصلاح کی کوشش کرے۔ نبی تو اس شخص کی بھی اصلاح کی کوشش کرے گا جو کمزوریوں کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اور اسے چھوڑ نہیں دیتا۔ جس طرح کہ ڈاکٹر اگر ایک مرتے ہوئے مریض کے پاس بھی بلایا جاتا ہے تو بھی نسخہ تجویز کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اب علاج نہ کراؤ۔

اعلیٰ ڈاکٹر تو ایسے نازک وقت میں بھی دوائی تجویز کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ لیکن بعض نادان ایسے ہوتے ہیں جیسا کہ آج کل بھی بعض لوگ ہیں کہ بعض ان مریضوں کو جو سخت بیمار ہوتے ہیں۔اور جن کی مرض لمبی چلی جاتی ہے اس خیال سے کہ بچنا تو ہے نہیں آج نہ مرا تو کل مرے گا بیمار کو خود ہی مار ڈالتے ہیں۔ لیکن عقلمند لوگ ایسا نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے مریض تندرست ہوجاتے ہیں۔ جن کے بچنے کی قطعاً توقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ بیسیوں ایسے مریض دیکھے گئے ہیں کہ وہ لاعلاج قرار دیئے گئے۔ مگر ان کو صحت حاصل ہوگئی۔

تھوڑے ہی دن ہوئے ہمارے ایک ڈاکٹر نے اسی قسم کا ایک واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ ایک سل کی مریضہ میرے پاس آئی۔ اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ میں نےسمجھا یہ بچ نہیں سکتی ضرور مرجائے گی۔ چونکہ اپنے پیشے کے لحاظ سے مریض کو جواب نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے اس کی تسلی کے لئے کچھ نہ کچھ دوائی دینی پڑتی ہے۔ میں نے سکاٹش املشن اور آئیڈوفارم ملا کر اسے دے دیا۔ اور اس کے ساتھ والوں کو کہہ دیا کہ یہ اسے کھلایا کرو۔ وہ اسے چارپائی پر اٹھا کر لائے تھے۔ چند ماہ کے بعد ایک عورت آئی جو بالکل تندرست تھی وہ اپنے ساتھ کچھ پھل اور کچھ اور چیزیں لائی اور مجھے دینے لگی۔ میں نے پوچھا یہ کیسے ہیں۔ ساتھ کے آدمی کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب پہچانتے ہو یہ کون عورت ہے۔ جب میں نے کہا نہیں۔ تو انہوں نے بتایا یہ وہی عورت ہے جسے چارپائی پر اٹھا کر لائے تھے اور آپ نے نسخہ دیا تھا اب تندرست ہوگئی اور آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔ تو بسا اوقات ڈاکٹر بھی ایک مریض کے متعلق خیال کر لیتے ہیں کہ یہ مرجائے گا۔ مگر وہ بعدازاں صحت یاب ہو جاتا ہے۔ جب دنیا میں ایسے نمونے نظر آتے ہیں کہ ایسا مریض جس کے متعلق ہر ایک سمجھتا ہے کہ مرجائے گا بچ رہتا ہے۔ تو کیونکر عقل اجازت دے سکتی ہے کہ اسے زہر دیا جائے اور اسے مار دیا جائے۔ اور پھر ان روحانی مریضوں کے متعلق بھی یہ کہہ دیا جائے کہ ان کی اصلاح نہ ہوگی حالانکہ وہ علاج کے لئے ایک نبی کے پاس آتے ہیں۔‘‘(خطبات محمود جلد 10صفحہ 53-54)

(مرسلہ:محمد انور شہزاد)

امریکہ کے کہنے پرجہادی بیانیے کی آبیاری کی گئی،اسی کے کہنے پر روک دی گئی

ڈاکٹر عرفان شہزاد صاحب زیرعنوان ’’جہادی بیانیے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردار‘‘ لکھتے ہیں :

’’آج مذہبی عسکریت کے لاوارث بچے کو کوئی اپنے نام سے منسوب کرنے کو تیارنہیں،لیکن ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے کہ جب اسے گود لینے کے لیے اہل مدارس میں مسابقت برپا تھی۔

یہ 80 اور 90کی دہائی کی بات ہے جب صدر ضیاء الحق کے زیر سرپرستی جہادی بیانیہ قوم کا نصب العین بنایا جارہا تھا۔مساجداورمدارس میں جہادی پروگرام منعقدکئے جارہےتھے،جہادی مقررین اپنی شعلہ بارتقاریرسے نوجوان طلباء کے جذبات کو برانگیختہ کردیا کرتے تھے،طلباء کو محاذ پر جانے کی بجائے مدرسے میں آرام سے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا خلافِ غیرت لگنے لگتا تھا،جہادیوں کے شانوں تک چھوڑے ہوئے لمبے بال،گھنی داڑھیاں،کسرتی جسم،فولادی ہاتھ اوران ہاتھوں میں اسلحہ،طلباء کے لیے ہیروازم جیسی کشش رکھتے تھے، جہادی تنظیموں کے چندے کی مہم ایسی شان سے چلائی جاتی تھی جیسے عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے چلائی تھی،لیاقت باغ راولپنڈی میں جہادی کرتبوں کا مظاہرہ ہوتا تھا،جہادی کمانڈر ایسے پروٹوکول سے جلوس نکالتے تھے کہ محسوس ہوتا کہ قرون اولیٰ کے مجاہدین واپس زندہ ہوکرآگئے ہیں،جہادی تربیتی کیمپ لگائے جاتے تھےجن میں جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کی تربیت کی جاتی اور پھر محاذ پر بھیج دیا جاتاتھا۔مدارس کی چھٹیوں میں طلباء کو جہادی کیمپوں میں جانے کی ترغیب دی جاتی تھی،دارالعلوم کراچی سے لے کر خیرالمدارس ملتان تک سب مدارس کے طلباء جہادی کیمپوں میں آتے تھے۔شہید ہوتے مجاہدین کی سمعی (Audio)کیسٹیں سنائی جاتیں جن میں وہ شہادت سے پہلے آخری گولیاں چلاتے ہوئے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوتے کہ خدا کی قسم انہیں جنت کی خوشبو آرہی ہے…۔

یہیں سے یہ بیانیہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچا۔مولانا مودودی کا لٹریچر پہلے سے وہاں موجود تھا،حاکمیت اسلام کا نعرہ پورے آہنگ سے بلند کیا گیا۔ریاست اور علماء کو کوئی نیا لٹریچر تخلیق کرنے کی زحمت بھی کرنا نہیں پڑی تھی۔جماعت اسلامی کے نظریات کو میدان عمل میسر آگیا۔انہوں نے بھی دامے درمے سخنے اپنے نوجوانوں کے خون کے نذرانے پیش کرنے کے لیے اپنی الگ عسکری تنظیم بنالی۔

اس دَور میں بھی البتہ، ہر فرقے اور ہرتنظیم نے دینی مفاد کے اشتراک کے باوجود مسلکیغیرت پر سمجھوتہ کرنا گورا نہ کیا۔جہاد جیسی نازک سرگرمی کے لیے بھی کسی ایک لیڈرشپ کی ماتحتی کی ’ہتک‘ کا تحمل نہ کیا جاسکا،اپنے اپنے مسلک کے جہادی کمانڈروں کی قیادت میں ہی جہاد کرنے کو ترجیح دی گئی۔مسلک سے وفاداری کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی کہ جس دین کی خاطر شہادت جیسی کٹھن منزل قبول کرلی گئی اس کے لیے مسلکیتفریق سے بلند ہونا گوارا نہ کیا گیا۔یوںمجاہدین کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کے رقیب بھی بنے رہتے،ایک دوسرے کے خلاف پراپیگنڈا بھی کرتے رہتے،ایک دوسرے کے کمانڈر بھی توڑتے رہتے،زیادہ سے زیادہ مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتے رہتے اور خدا کی راہ میں اپنے اپنے نوجوانوں کی جانیں بھی باقاعدگی سے پیش کرتے رہتے تھے۔

یہ دور 90کی دہائی کے آخر تک زندہ تھا،تاآں کہ جنرل مشرف نے اسی امریکہ کے ہی کہنے پر اس پر روک لگادی جس امریکہ کے کہنے پر جنرل ضیاءنے اس کی آبیاری کی تھی۔‘‘

(ماخوذ از :ماہنامہ الشریعہ جلد 28شمارہ 5؍مئی 2018ء صفحہ 26-27)

قارئین کرام اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے اس افسوس ناک باب کی درج بالا تفصیل پڑھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ۔

’’جہاد کاروباربن چکا ہے۔اس کا کوئی مستقبل نہیں‘‘

سابق صدرآزادکشمیرسردارعبدالقیوم صاحب (المعروف مجاہد اول) نے 15؍مئی 2005ء کو فرائیڈے ٹائمز کوانٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ

’’جہاد اب کاروباربن چکا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیرکاز کو سب سے زیادہ نقصان جہادیوں نے پہنچایا ہے۔انہوں نے جہاد اور اصلی مجاہدین کو بدنام کردیا ہے۔جہاد کا اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔یہ ختم ہوچکا ہے۔‘‘

(The Tribune۔چندی گڑھ انڈیا۔آن لائن اشاعت 16؍مئی 2005ء)

حضرت مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے 1902ء میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ

تم میں سے جس کو دین ودیانت سے ہے پیار

اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے استوار

لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ مسیح ہے

اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے

ہم اپنا فرض دوستو اب کرچکے ادا

اب بھی اگر نہ سمجھو تو سمجھائے گا خدا

(مرسلہ: طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button