ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 55)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

متقی پر مصائب و تکالیف ترقی کا باعث ہوتے ہیں

اور جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتےہیں۔ اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتا بھی ہے۔توپھر جان لینے ہی کے لئے پکڑتاہے۔ مگر مومن کے حق میں اس کی یہ عادت نہیں ہے۔ اُن کی تکالیف کا انجام اچھاہوتاہے اور انجام کار متقی کے لیے ہی ہے۔جیسے فرمایا:

وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ (القصص:84)

اُن کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتی ہیں تاکہ ان کوتجربہ ہو جاوے۔اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے۔اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے شکنجہ کے دن آتے ہیں اس پر بہائمی زندگی کا اثر نہیں رہتا۔ اس پر ایک موت ضرور آجاتی ہے اور خدا شناسی کے بعد وہ لذتیں ا و رذوق جو بہائمی سیرت میں معلوم ہوتے تھے،نہیں رہتے۔بلکہ ان میں تلخی اور کدورت و کراہت پیدا ہوتی ہے اور نیکیوں کی طرف توجہ کرنا ایک معمولی عادت ہوجاتی ہے پہلے جو نیکیوں کے کرنے میں طبیعت پرگرانی اور سختی ہوتی تھی وہ نہیں رہتی۔

پس یاد رکھوکہ جب تک نفسانی جوشوں سے ملی ہوئی مُرادیں ہوتی ہیں۔ اس وقت تک خداان کو مصلحتاًالگ رکھتاہے اور جب رجوع کرتاہے تو پھر وہ حالت نہیں رہتی۔ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ دنیا روزے چند آخر کار با خدا وند۔اتنا ہی کام نہیں کہ کھا پی لیا اور بہائم کی طرح زندگی بسر کر لی۔انسان بہت بڑی ذمہ داریاں لے کر آتا ہے۔اس لئے آخرت کی فکر کرنی چاہئے اور اس کی تیاری ضروری ہے۔اس تیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج و تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کا مزہ چکھانا چاہتا ہے۔

وَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمٰن:47)

مصائب آتے ہیں تاکہ ان عارضی اُمور کو جو تکلف کے رنگ میں ہوتے ہیں نکال دے۔ مولوی رومیؔ نے کیا اچھا کہا ہے۔

عشق اوّل سر کش وخُونی بود

تا گریزد ہر کہ بیرونی بود

سید عبدالقادر جیلانی بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن، مومن بنناچاہتاہے تو ضرور ہے کہ اس پردکھ اور ابتلا آویں اور وہ یہاں تک آتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کوقریب موت سمجھتاہے اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتاہے تو رحمت الٰہیہ کاجوش ہوتاہے۔ تو

قُلْنَایَانَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَسَلَامًا (الانبیاء:70)

کا حکم ہوتا ہے۔اصل اور آخری بات یہی ہے۔ ؎

مگر نہ شنیدہ ٔکہ خدا داری چہ غم داری۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ 207-208)

اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا ایک شعر اور ایک ضرب المثل استعمال کی ہے۔ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

عِشْق اَوَّل سَرْکَشْ وخُوْنِی بُوَدْ

تَاگُرِیْزَدْ ہَرْ کِہ بِیْرُوْنِی بُوَدْ

ترجمہ:۔ شروع میں عشق بہت منہ زور اور خونخوار ہوتا ہے،تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔

یہ شعر جلال الدین محمد بلخی معروف بہ مولانا،مولوی و رومی کا ہے اور آپ کے دیوان میں ایک شعر اس طرح بھی ملتا ہے۔

عِشْق اَزْ اَوَّل سَرْکَشُ وخُوْنِی بُوَدْ

تَاگُرِیْزَدْ آنْکِہ بِیْرُوْنِی بُوَدْ

اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر تحریر کیا جا چکا ہے۔

مثنوی میں مولانا نے اس مضمون کو اس طرح بھی بیان کیا ہے۔

عِشْق اَزْ اَوَّل چِرَا خُوْنِی بُوَدْ؟

تَا گُرِیْزَدْ ہَرکہ بِیْرُوْنِیْ بُوَدْ

ترجمہ :۔شروع میں عشق کیوں منہ زور اور خونخوا ر ہوتا ہے تا وہ شخص جو صرف تماشائی ہے بھاگ جائے۔

مَگَر نَشَنِیْدِۂ کِہ خُدَا دَارِیْ چِہ غَمْ دَارِی۔(ضرب المثل)

ترجمہ:۔ کیا تو نے نہیں سنا ہے،کہ جب خدا تیرا ہے تو تجھے کیا غم ہوسکتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button