سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمات(حصہ دوم)

مقدمات کے لئے سفر

جیساکہ بیان ہوچکاہے کہ آپؑ کو ان مقدمات کے لئے عدالتوں اور دیگرمحکمانہ کارروائی کے لئے مختلف مقامات کا سفرکرناپڑاہوگا۔یہ سفر مختلف شہروں کی طرف اس لئے بھی اختیارکئے گئے کہ انتظامی افسران کے دفاتر تبدیل ہوتے رہتے تھے اور ضلعی اور دوسرے مقامات کی طرف جانا ہوتا تھا۔ مثال کے طورپر آپ کو ڈلہوزی جاناپڑا کہ وہاں انتظامی سربراہ کی عارضی رہائش کی منتقلی ہوئی تھی،جیساکہ اس زمانے میں انگریز افسران کا معمول ہواکرتاتھا کہ وہ موسم گرما میں ان علاقوں میں رہائش پذیرہوجاتے یا سرکاری حکام دوروں پر ہوتے لیکن اس دوران بھی وہ محکمانہ کارروائیوں میں تعطل نہ آنے دیتے اور جس جگہ مقیم ہوتے وہیں یہ معمولات سرکار جاری رہتے۔بٹالہ تحصیل ہونے کی بنا پرامرتسراور ضلعی مقام گورداسپور بھی جاناہوتا،بہت آغازمیں یعنی گورداسپورسے پہلے ضلعی مقام بھی تھوڑی دیر تک دینانگر بھی رہا۔ ڈاک کے مقدمہ کافیصلہ وہیں دینانگرمیں ہی ہواتھ۔،اسی طرح لاہورمیں جاناہوتاکہ چیف کورٹ یعنی موجودہ ہائی کورٹ لاہورمیں تھی۔

مقدمات طبعاً ناپسند تھے

قبل اس کے کہ ہم دیگر تفصیلات میں جائیں ایک امر کا اظہار ضروری ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو مقدمات سے طبعاً بیزاری اور نفرت سی تھی۔اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے عمربھر کبھی کوئی مقدمہ نہیں کیا،سوائے ایک مقدمہ کے اوروہ بھی ناگزیرتھا۔آپ جس خاندان اورجس ماحول میں پلے بڑھے اس کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مقدمات ان کے لئے کوئی نئے نہ تھے۔ اورمجبوری کے عالم میں تو خود اس خاندان کومقدمات کے ایک سلسلہ میں رہناہی پڑاتھا۔اوراس سارے ماحول میں جس سے کہ آپ بخوبی آگاہ تھے چاہتے اور اگرآپ کو یہ مشغلہ پسند ہوتاتو مخالفین اور دشمنوں پر مقدمات کرنا کوئی مشکل امرنہ تھا۔اور مخالفین اور دشمن بھی وہ کہ جو آئے دن ہتک عزت اور بے جاالزامات اور فتاوٰیٔ قتل میں نہ صرف مشغول۔ اور تو اور بعض دشمنوں نے تو حضورؑ کے قتل کی سازش بھی کی جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام کر دیا۔ اس ماحول کو دیکھتے ہوئے تو ہرمنصف مزاج بھی یہ سوچنے پرمجبورہوجائے گا کہ کیوں ایسے خونخواردشمنوں اور بے لگام مخالفوں کی روک تھام کے لئے عدالتوں میں ان کے خلاف چارہ جوئی نہ کی گئی۔ لیکن یہ ایک الگ مضمون ہے جو حضرت اقدسؑ کی وسعت حوصلہ اور صبروحلم جیسے خلق عظیم پر روشنی ڈالتاہے۔اس وقت تو صرف یہ ذکرکرنامقصودہے کہ آپ کو مقدمات سے طبعاً نفرت تھی اوریہی وجہ ہے کہ ایک یورپین عیسائی میڈیکل مشنری ڈاکٹرہنری مارٹن کلارک (Dr. Henry Martyn Clark) کی طرف سے جب آپؑ پر اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیاگیااور خداتعالیٰ نے اپنی تائیدونصرت کے نشانات دکھائے اور مقدمے کا منصف جو کہ عیسائی بھی تھااور انگریز بھی اس نے آپؑ کو اس مقدمہ سے باعزت بری قراردیا۔ اس وقت کا احوال کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ منصف نے کہا:

’’جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ کا تعلق ہے ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لئے ضمانت لی جائے یایہ کہ مقدمہ پولیس کے سپر د کیا جائے لہٰذا وہ بری کئے جاتے ہیں۔پھر عین کچہری میں انہوں نے ہنستے ہوئے حضور کو مبارکباد پیش کی اورکہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں۔ اگر چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے۔حضرت اقدسؑ نے جوایمان افروز جواب دیا وہ خدا کے اولوالعزم پیغمبروں ہی کی زبان سے نکل سکتا ہے۔حضورؑنے فرمایا :میں کسی پر مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘

( تاریخ احمدیت جلداول صفحہ633)

ایک اَور جگہ اسی کیفیت کااور اسی مقدمہ کا ذکرکرتے ہوئے حضرت اقدسؑ خودفرماتے ہیں کہ

’’ڈپٹی کمشنر…نے مجھے کہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کرسکتے ہیں۔مگرچونکہ میں مقدمہ بازی سے متنفر ہوں میں نے یہی کہا کہ میں مقدمہ کرنا نہیں چاہتا۔میرامقدمہ آسمان پر دائرہے۔‘‘( لیکچرلدھیانہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 270)

مقدمات سے اسی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :

’’میرے والدصاحب اپنے بعض آباؤاجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لئے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کررہے تھے انہوں نے ان ہی مقدمات میں مجھے بھی لگا یا اورایک زمانہ درازتک میں ان کاموں میں مشغول رہا مجھے افسوس ہے کہ بہت ساوقت عزیز میراان بے ہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اور اس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امورکی نگرانی میں مجھے لگادیا۔میں اس طبیعت اورفطرت کا آدمی نہیں تھا…مگرتاہم میں خیال کرتاہوں کہ میں نے نیک نیتی سے نہ دنیا کے لئے بلکہ محض ثواب اطاعت حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی خدمت میں اپنے تئیں محوکردیا تھا اورانکے لئے دعامیں بھی مشغول رہتاتھا اوروہ مجھے دلی یقین سے برّ بالوالدین جانتے تھے…۔‘‘

(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13صفحہ182-184حاشیہ)

حضرت اقدس ؑ کے قلب سلیم کی گواہی دیتے ہوئے آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو دوبارہ دیکھناہوگا کہ میں اس طبیعت اورفطرت کا آدمی نہیں تھا۔مقدمات کے اس عنوان کے لئے یہ الفاظ کافی ہیں۔کہ آپ کے مزاج میں ہی یہ سب کچھ نہ تھا اور محض اطاعت والدین کے جذبہ سے سرشار آپ نے کچھ عرصہ یہ مصروفیات اختیار کیںورنہ ایسے کاموں سے آپ کی طبع سلیم کوسوں دورتھی۔

ایک ہندومدرس پنڈت دیوی رام قادیان میں1875ء میں متعین تھے۔ ان کا ایک تفصیلی چشم دیدبیان سیرت المہدی میں درج ہے۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ

’’اگر کسی کی تاریخ مقدمہ پر جاناہوتا تھاتوآپ کے والدصاحب آپ کو مختارنامہ دے دیاکرتے تھے اور مرزاصاحب بہ تعمیل تابعداری فوراً بخوشی چلے جاتے تھے۔مرزاصاحب اپنے والد صاحب کے کامل فرمانبردار تھے مقدمہ پر لاچاری امرمیں جاتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر759)

آپؑ کے انہیں مقدمات کے بارے میں جن میں کہ آپ مجبوراً جایاکرتے اس زمانےمیں بھی حق اورانصاف کاخون کرنے والے مولویوں نے اعتراض کیاتھا۔ اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے ان مقدمات کی نوعیت اور ان میں شمولیت وغیرہ سب پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔اور مقدمات جیسے معاملات میں بھی اسی اعلیٰ راستبازی کے طریق پرعمل کرنے کے بعض واقعات بھی پیش فرمائے۔اورپھرمخالف معترض خاص طور پر اس کے بانی مبانی مولوی محمدحسین بٹالوی صاحب کومخاطب کرکے چیلنج بھی دیا۔ حضورؑ مولوی صاحب کومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اب اے حضرت شیخ صاحب اگر آپ کے پاس بھی اس درجہ ابتلا کی کوئی نظیر ہو جس میں آپ کی جان اور آبرو اور مال راست گوئی کی حالت میں برباد ہوتا آپ کو دکھائی دیا ہو اور آپ نے سچ کو نہ چھوڑا ہو اور مال اور جان کی کچھ پرواہ نہ کی ہو تو لِلّٰہ وہ واقعہ اپنا معہ اس کے کامل ثبوت کے پیش کیجئے ورنہ میرا تو یہ اعتقاد ہے کہ اس زمانہ کے اکثر مُلّا اور مولویوں کی باتیں ہی باتیں ہیں۔ ورنہ ایک پیسہ پر ایمان بیچنے کو طیار ہیں کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے مولویوں کو بدترین خلائق بیان فرمایا ہے اورآپ کے مجدّد صاحب نواب صدیق حسن خان مرحوم حجج الکرامہ میں تسلیم کر چکے ہیں کہ وہ آخری زمانہ یہی زمانہ ہے۔ سو ایسے مولویوں کا زہد و تقویٰ بغیر ثبوت قبول کرنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ سو آپ نظیر پیش کریں اور اگر پیش نہ کر سکیں تو ثابت ہوگا کہ آپ کے پاس صرف راست گوئی کا دعویٰ ہے مگر کوئی دعویٰ بے امتحان قبول کے لائق نہیں۔ اندرونی حال آپ کا خدا تعالیٰ کو معلوم ہوگا کہ آپ کبھی کذب اور افترا کی نجاست سے ملوث ہوئے یا نہیں۔ یا ان کو معلوم ہوگا جو آپ کے حالات سے واقف ہوں گے۔ جو شخص ابتلا کے وقت صادق نکلتا ہے اور سچ کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے صدق پر مہر لگ جاتی ہے۔ اگر یہ مہر آپ کے پاس ہے تو پیش کریں ورنہ خدا تعالیٰ سے ڈریں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی پردہ دری کرے۔

آپ کی ان بے ہودہ اور حاسدانہ باتوں سے مجھ کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے کہ آپ لکھتے ہیں کہ تم مختاری اور مقدمہ بازی کا کام کرتے رہے ہو۔ آپ ان افتراؤں سے باز آجائیں آپ خوب جانتے ہیں کہ یہ عاجز ان پیشوں میں کبھی نہیں پڑا کہ دوسروں کے مقدمات عدالتوں میں کرتا پھرے۔ ہاں والد صاحب کے زمانہ میں اکثر وکلاء کی معرفت اپنی زمینداری کے مقدمات ہوئے تھے اور کبھی ضرورتاً مجھے آپ بھی جانا پڑتا تھا مگر آپ کا یہ خیال کہ وہ جھوٹے مقدمات ہوں گے ایک شیطنت کی بدبو سے بھرا ہوا ہے۔ کیا ہر ایک نالش کرنے والا ضرور جھوٹا مقدمہ کرتا ہے یا ضرور جھوٹ ہی کہتا ہے۔ اے کج طبع شیخ خدا جانے تیری کس حالت میں موت ہوگی۔ کیا جو شخص اپنے حقوق کی حفاظت کیلئے یا اپنے حقوق کے طلب کیلئے عدالت میں مقدمہ کرتا ہے اس کو ضرور جھوٹ بولنا پڑتا ہے ہرگز نہیں۔ بلکہ جس کو خدا تعالیٰ نے قوت صدق عطا کی ہو اور سچ سے محبت رکھتا ہو وہ بالطبع دروغ سے نفرت رکھتا ہے اور جب کوئی دنیوی فائدہ جھوٹ بولنے پر ہی موقوف ہو تو اس فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ نجاست خور انسان ہر یک انسان کو نجاست خور ہی سمجھتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ بغیر جھوٹ بولنے کے عدالتوں میں مقدمہ نہیں کر سکتے۔ سو یہ قول ان کا اس حالت میں سچا ہے کہ جب ایک مقدمہ باز کسی حالت میں اپنے نقصان کا روادار نہ ہو اور خواہ مخواہ ہر یک مقدمہ میں کامیاب ہونا چاہے۔ مگر جو شخص صدق کو بہرحال مقدم رکھے وہ کیوں ایسا کرے گا جب کسی نے اپنا نقصان گوارا کرلیا تو پھر وہ کیوں کذب کا محتاج ہوگا۔اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کی حق رسی کیلئے عدالتوں میں جانا پڑتا تھا۔ مگر والد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے تھے کہ بعض آسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلا اجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھی یا بعض دیہات کے نمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے اور وہ سب مقدمات بوجہ اس احسن انتظام کے کہ محاسب دیہات یعنے پٹواری کی شہادت اکثر ان میں کافی ہوتی تھی پیچیدہ نہیں ہوتے تھے اور دروغ گوئی کو ان سے کچھ تعلق نہیں تھا کیونکہ تحریرات سرکاری پر فیصلہ ہوتا تھا۔ اور چونکہ اس زمانہ میں زمین کی بے قدری تھی اس لئے ہمیشہ زمینداری میں خسارہ اٹھانا پڑتا اور بسا اوقات کم مقدمات کاشتکاروں کے مقابل پر خود نقصان اٹھا کر رعایت کرنی پڑتی تھی اور عقلمند لوگ جانتے ہیں کہ ایک دیانتدار زمیندار اپنے کاشتکاروں سے ایسا برتاؤ رکھ سکتا ہے جو بحیثیت پورے متقی اور کامل پرہیزگار کے ہو اور زمینداری اور نکوکاری میں کوئی حقیقی مخالفت اور ضد نہیں۔ باایں ہمہ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ والدصاحب کے انتقال کے بعد کبھی میں نے بجز اس خط کے مقدمہ کے جس کا ذکر کر چکا ہوں کوئی مقدمہ کیا ہو۔ اگر میں مقدمہ کرنے سے بالطبع متنفر نہ ہوتا۔ میں والد صاحب کے انتقال کے بعد جو پندرہ سال کا عرصہ گذر گیا آزادی سے مقدمات کیا کرتا اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ان مقدمات کا مہاجنوں کے مقدمات پر قیاس کرنا کور باطن آدمیوں کا کام ہے۔ میں اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ کئی پشت سے میرے خاندان میں زمینداری چلی آتی ہے اور اب بھی ہے۔ اور زمیندار کو ضرورتاً کبھی مقدمہ کی حاجت پڑ جاتی ہے مگر یہ امر ایک منصف مزاج کی نظر میں حرج کا محل نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ 300-303)

حضورانورعلیہ السلام کی یہ تحریر ایک بنیادی اور اصولی تحریرہے جس میں آپ کے مقدمات کی نوعیت اور کیفیت اور ان میں آپ کے تقویٰ اور نیکی وراستبازی کااعلیٰ وارفع اسوہ بھی ہمیں نظرآتاہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button