متفرق مضامین

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحبؓ

(حافظ قدرت اللہ)

ماہنامہ خالد ربوہ نے حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد آپؓ کے بارے میں ایک خاص نمبر دسمبر 1985ء ، جنوری 1986ءمیں شائع کیا۔ اس میں سے ایک مضمون ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (ادارہ)

عالم احمدیت کا وہ مایہ ناز اور جلیل القدر فرزند اور سلسلہ کا وہ مخلص اور قابل صد رشک فدائی خادم جو آسمان احمدیت پر اس صدی کے شروع سے ایک درخشندہ ستارہ بن کر آب و تاب سے چمکا اور بڑی شان و شوکت سے جلوہ گر رہا یعنی حضرت چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحبؓ کا وجود بابرکات۔ وہ بالآخر ہمارے قلوب کو حزیں بنا کر اور ہماری آنکھوں کو اشکبار چھوڑ کر ہم سے جدا ہوگیا۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین

ذاتی تاثرات

حضرت چودھری صاحبؓ کے تعلق میں جہاں تک ذاتی تاثرات کا سوال ہے ان کیفیات کا بیان کوئی ایسا سہل کام نہیں۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ اس تعلق میں آپ کی زندگی کے متفرق واقعات خواہ کتنے ہی اختصار کے ساتھ ان کو الگ الگ بیان کیا جائے اپنی افادیت کے لحاظ سے پھر بھی یقیناً اپنے اندر بہت سے اہم پہلو لیے ہوئے ہیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی شخص کی شہرت کو دور سے یا غائبانہ سنا ہو تو اس کا اثر طبیعت پر مختلف ہوتا ہے۔ مگر جب اس شخص کو قریب سے ہو کر دیکھنے کا موقع ملے تو اس کی عظمت اکثر طور پر اس رنگ میں قائم نہیں رہتی بلکہ اس میں کمی آجاتی ہے۔ لیکن حضرت چودھری صاحبؓ کو جس قدر بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے آپ کی عظمت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ کیونکہ آپ کا ظاہر اور باہر حتی الامکان ایک تھا۔ آپ جو کہتے تھے وہی کرتے تھے۔ لغو اور بےفائدہ امور سے آپ کو پرہیز تھا۔ نظام کی پابندی آپ کا شیوہ تھا۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا آپ کی زندگی کا اصول تھا۔ وقت کی پابندی اور اس کی پوری پوری قدر کرنا آپ کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ تمام نمازوں کو آپ حتی المقدور اپنے وقت پر ادا فرماتے۔ سادہ زندگی، غریب پروری نیز دین کے لیے غیرت کے جذبات اور پھر اس کے لیے جذباتی، مالی اور وقت کی قربانی آپ کی زندگی کا ایک عام معمول تھا۔

ہالینڈ کے قیام کے دوران ایک لمبا عرصہ آپ کو قریب سے دیکھنے اور آپ سے فیضیاب ہونے کے مواقع اس عاجز کو میسر آئے اور میں اس بنا پر علی وجہ البصیرت یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کو انہی اوصاف سے متصف پایا جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔

آپ کا عجز و انکسار

عجز و انکسار کا ایک اور اہم وصف ایک سچے مومن کا خاصہ ہوتا ہے۔میں نے اس وصف کو بھی نہایت عمدہ رنگ میں آپ کی ذات میں جلوہ گر پایا۔ اس ضمن میں آپ کے سوانح حیات پر مشتمل کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ کا ذکر بےجا نہ ہوگا۔ مجھے یاد ہے اور یہ اس کتاب کے وجود میں آنےسے پہلے کی بات ہے کہ میں نے چند ایک دفعہ نہایت ادب سے حضرت چودھری صاحبؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی زندگی اور اس میں ہونے والے واقعات کا تعلق صرف آپ کی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق تو ایک پوری جماعت اور ایک قوم کے ساتھ ہے بہتر ہے آپ انہیں تحریر میں کبھی لے آئیں کہ یہ حالات قوم کی رہنمائی کا باعث ہوں گے۔ مگر آپ ہر وفعہ یہی فرماتے رہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں کوئی عُجب کا خودنمائی کا احساس کسی رنگ میں پیدا نہ ہوجائے۔ مگر آخر کار جب آپ کو آپ کے قریبی احباب نے قرآن کریم کی آیت

اَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ

کی روشنی میں اس کی طرف توجہ دلائی اور اس کی تحریک کی تو پھر آپ نے مجبور ہو کر یہ قدم اٹھایا۔ چنانچہ اسی مناسبت سے پھر آپ نے اس کا نام بھی ’’تحدیث نعمت‘‘ رکھا۔

پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے آپ کو اپنے حالات کے بیان کرنے میں لفظ ’’میں‘‘ کا استعمال مرغوب نہیں تھا۔ اور اس لفظ سے آپ ہمیشہ بچنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد آپ نے اپنے سوانح کو جب انگریزی میں ڈھالاتو وہاں لفظ ’’I ‘‘ سے بچنے کے لیے آپ نے ’’He‘‘ کے لفظ کا استعمال فرمایا جس سے پڑھنےوالے کو کچھ الجھن ضرور ہوتی ہے لیکن آپ نے ’’I‘‘ کی بجائے ’’He‘‘ سے ہی کام چلانا بہتر خیال فرمایا۔ اور پھر یہیں تک بس نہیں آپ نے انکساری کے خیال سے اس انگریزی ایڈیشن کا نام بھی Servant of God رکھا تاکہ ’’He‘‘ کے پیچھے بھی جو جذبات کارفرما ہوسکتے ہیں ان کا بھی بالکل ہی خاتمہ ہوجائے۔

اسلامی اخلاق کا نمونہ

حضرت چودھری صاحبؓ کے اسلامی اخلاق حسنہ اور آپ کے اوصاف حمیدہ جو دنیا کے کونے کونے سے اور دنیا کی عظیم ہستیوں اور مسلم اکابر سے خراج تحسین حاصل کررہے ہیں۔ اور ان سے ایک سچے اور فدائی مسلمان ہونے کا اقرار کروا رہے تھے۔ آپ کے یہ اخلاق فاضلہ آپ کی زندگی کے صرف آخری سالوں کا ہی عکس نہیں بلکہ ایام جوانی میں بھی آپ کے یہ اسلامی اخلاق حسنہ آپ کے زمانہ کے نامور مسلمانوں کو آپ کا گرویدہ کیے ہوئے تھے۔چنانچہ آج سے 50سال قبل 1937ء میںحضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عشق رسولؐ کا جذبہ اور حضرت نبی پاکؐ کے اسوہ کی پیروی کی لگن عالم جوانی میں بھی آپ کی زندگی کا ایک جزو لا ینفک اور آپ کی زندگی کا مقصود تھا۔ خواجہ حسن نظامی ہندوستان کے ایک مشہور گدی نشین اور اہل قلم تھے۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں متعدد معروف لوگوں کا قلمی خاکہ کھینچا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے حضرت چودھری صاحبؓ کی زندگی کا جو خاکہ کھینچا وہ اگرچہ مختصر تھا مگر اپنے مفہوم کے لحاظ سے وہ ایک نہایت جامع اور قابل قدر مضمون اپنے اندر لیے ہوئے تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر میری زندگی میں سر ظفراللہ ہوتا تو محمدؐ کی سیرت مجھے اپنا غلام بنا لیتی کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔‘‘

کہنے کو تو یہ ایک فقرہ ہے مگر اس مختصر تحریر میں خواجہ صاحب نے حضرت چودھری صاحبؓ کے اوصاف کو ایسے جامع اور حسین انداز میں بیان کیا ہے کہ گویا سمندر کو کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔

دینی اور دنیوی پہلو

حضرت چودھری صاحبؓ کا وجود جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے ایک نادرالمثال وجود تھا۔اور بیک وقت مختلف النوع صفات کا حامل تھا۔ جن کا دائرہ نہ صرف یہ کہ مذہبی دنیا تک وسیع ہے بلکہ بین الاقوامی خدمات پر بھی حاوی ہے۔ اور یہی کیفیت دراصل ایک کامیاب زندگی کا اعلیٰ تصور بھی ہے جس کی نشاندہی سید سلیمان ندوی صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں کی ہے۔ سید سلیمان ندوی ایک ممتاز عالم اور مصنف ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ

’’ایک زندگی تب ہی پوری طرح کامیاب تصور کی جاسکتی ہے جب کسی کی زندگی کے روحانی اور جسمانی دونوں پہلو کامیاب ہوں۔‘‘

چنانچہ اس لحاظ سے جب ہم حضرت چودھری صاحبؓ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ کی زندگی میں بھی یہ دونوں پہلو شانہ بشانہ اکٹھے قدم بڑھاتے نظر آتے ہیں اور زندگی کا یہ اعلیٰ اور کامیاب تصور آپ پر پورے طور پر چسپاں ہوتا نظر آتا ہے۔

جہاں تک حضرت چودھری صاحبؓ کی قومی، ملی اور بین الاقوامی خدمات کا تعلق ہے وہ تو ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح واضح اور روشن ہیں مگر اپنی زندگی میں جہاں جہاں بھی آپ نے قیام فرمایا اور جو موقع بھی کسی لحاظ سے آپ کو میسر آیا آپ نے دینی خدمات کی انجام دہی میں بھی وہاں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور پھر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جس رنگ میں گزرے ان کی تو مثال شاید کم ہی کسی جگہ ملے۔ یہ کوئی خدائی اشارہ ہی تھا کہ آپ نے اپنے تمام اعلیٰ ترین مناصب اور دیگر مشاغل کو یک قلم خیرباد کہہ کر اور ان سے کنارہ کش ہوکر اپنی بقیہ زندگی خصوصی طور پر دین کے لیے وقف کردی اور لندن میں قیام فرمایا۔

ہالینڈ کی مسجد سے تعلق

اس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت چودھری صاحب کا اپنی زندگی میں جہاں بھی قیام رہا ان کا وجود ہر جگہ ہی دینی خدمات کے ضمن میں وہاں کی جماعت کے لیے بہت مفید اور برکات کا موجب رہا۔ چنانچہ اس لحاظ سے ہمارا ہالینڈ کا مشن اور وہاں کی جماعت بڑی خوش قسمت ہے کہ انہیں سالہا سال حضرت چودھری صاحبؓ کے وجود کی برکات سے مستفیدہونے کا موقع ملا۔ بلکہ کچھ اتفاق ایسا ہے کہ جب سے ہالینڈ کی مسجد کی تعمیر کا پروگرام شروع ہوا ہے حضرت چودھری صاحبؓ کا خاص تعلق اس مسجد سے رہا ہے۔

چنانچہ مجھے یاد ہے 1950ء میں حضرت المصلح الموعودؓ کی طرف سے جب ارشاد موصول ہوا کہ ہالینڈ کی مسجد کی تعمیر کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کی جائے تو ان ایام میں بھی جبکہ حضرت چودھری صاحبؓ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے ہالینڈ میں ابھی پاکستان کی کوئی ایمبیسی وغیرہ بھی نہ تھی ۔حضرت چودھری صاحبؓ کا گزر ہالینڈ سے ہوا بلکہ حضرت چودھری صاحبؓ کی یہ آمد ایمبیسی پاکستان کے قیام ہی کے ضمن میں تھی۔ ادھر مسجد کے لیے زمین کی خرید کا معاملہ بھی ابتدائی اور ضروری مراحل میں تھا۔ اس وقت حضرت چودھری صاحب کی رہ نمائی اور آپ کا مشورہ ہمارے لیے برکت کا موجب ہوا اور ہم نے وہ زمین مسجد کے لیے خرید لی۔ اس کے بعد مسجد کی تعمیر کے ضمن میں نقشے وغیرہ کے مراحل تھے۔ ان امور میں بھی حضرت چودھری صاحبؓ کا صلاح مشورہ ہمارے بہت کام آتا رہا۔ آخر مسجد کی تعمیر کی ابتدا ہوئی اور تکمیل پر مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔ ان دونوں اہم موقعوں کا اعزاز حضرت خلیفة المسیح الرابع (رحمہ اللہ)کے ارشاد پر حضرت چودھری صاحبؓ کے حصہ میں آیا۔ بلکہ اس کے بعد حضور(رحمہ اللہ)ہی کے ایما سے حضرت چودھری صاحبؓ نے کچھ عرصہ اپنی رہائش بھی اسی مسجد کے ایک کمرے میں اختیار فرمائی۔

جماعتی تقریبات میں شمولیت

جہاں تک جماعتی تقریبات کا تعلق ہے حضرت چودھری صاحبؓ اپنے ہالینڈ کے عرصہ قیام کے دوران اکثر اہم جماعتی تقریبات میں بھی اپنی بابرکت حاضری سے جماعت کو مستفیض فرماتے رہے۔ چنانچہ ایک دفعہ جب عرب کے پرنس فیصل جو سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے لارڈ میئر تھے جماعت کی دعوت پر مشن تشریف لائے تو اس موقع پر حضرت چودھری صاحبؓ بھی موجود تھے بلکہ حضرت چودھری صاحبؓ کی موجودگی اور آپ کی ملاقات سے لارڈ میئر بہت ہی خوش تھے۔ خاکسار نے عربی زبان میں ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا اور تحفۃً کچھ کتب بھی پیش کیں۔

اسی طرح ایک موقع پر ملائیشیاکے وزیر اعظم Tunku Abdul Rahmanجب تشریف لائے اور پھر ایک اور موقع پر جب نائیجیریا کے وزیراعظم Sir Abubakar Tafawa Balewaتشریف لائے تو ان مواقع پر بھی حضرت چودھری صاحبؓ کی موجودگی ہمارے لیے اور معزز مہمانوں کے لیے بڑی مسرت اور شادمانی کا باعث تھی۔ ہالینڈ کے مشہور وزیر خارجہ Dr. Joseph Luns بشوق سے تشریف لائے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب حضرت چودھری صاحبؓ سے محو گفتگو رہے۔ یہی کیفیت Sir Abubakar Tafawa Balewa کی تھی۔ وہ بھی جب آئے تو دیر تک حضرت چودھری صاحبؓ سے بےتکلفانہ باتیں کرنے میں مشغول رہے۔ اسی طرح ایک اور موقع بھی ہم سب کے لیے لطف کا باعث تھا جب 1960ء میں پاکستان کی ٹیم ورلڈ ہاکی چیمپین اولمپک گولڈ میڈل جیتنے کے بعد ہالینڈ سے گزری تو جماعت نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی اور ایڈریس پیش کیا۔ اس موقع پر حضرت چودھری صاحبؓ کی موجودگی ہم سب کے لیے ایک لطف کا موجب تھی۔ ویسے تو پاکستان ورلڈ ہاکی چیمپین ٹیم ایک دفعہ 1964ء میں بھی ہمارے ہاں آئی اور ہم نے انہیں اعزازی ریسیپشن دیا مگر اس موقع پر حضرت چودھری صاحبؓ موجود نہ تھے۔ بہرحال ایسے متعدد مواقع ہیں جو حضرت چودھری صاحبؓ موصوف کی فیض بخش صحبت کے جماعت کو میسر آتے رہے جن کی یاد آج بھی ایک سرور بخشتی ہے اور اس بابرکت وجود کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔

بناوٹ اور تکلفات سے پرہیز

جیسا کہ خاکسار نے عرض کیا ہے حضرت چودھری صاحب ؓکو تصنع، بناوٹ یا تکلفات وغیرہ سے کوئی لگاؤ وغیرہ نہ تھا بلکہ آپ کی طبیعت اس سے بہت متنفر تھی۔

اس ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو طبیعت پرگہرے طور پر اثرانداز ہے۔ ہالینڈ میں ایک دفعہ یورپ کے انچارج مبلغین کی کانفرنس تھی۔ اس کا افتتاح جمعہ کی نماز کے بعد ہوتا تھا۔ تمام مبلغین جمع تھے۔پریس کے نمائندگان بھی کافی تعداد میں موجود تھے بلکہ جب پریس والوں کو معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز اور خطبہ وغیرہ حضرت چودھری صاحبؓ کی اقتدا میں عمل میں آرہا ہے تو انہوں نے پروگرام یہ بنایا کہ وہ خطبہ اور نماز وغیرہ کا سارا پروگرام ریکارڈ کریں اور پھر اسے ملکی ٹی وی پر براڈکاسٹ کریں۔ چنانچہ اس غرض کے لیے انہوں نے اپنے مورچے جما لیے۔ ساری مسجد میں فوٹوگرافروں نے تیز روشنی والے اپنے لیمپوں کا جال بچھا لیا اور مختلف اطراف میں اپنے کیمرے سیٹ کر لیے جن کا رخ محراب کی طرف تھا اور ایک بڑی گہماگہمی کا عالم تھا اور مسجد کی چھوٹی سی جگہ ایک سٹوڈیو کا سا منظر پیش کررہی تھی۔ ایسے عالم میں جب حضرت چودھری صاحبؓ نماز جمعہ کے لیے مسجد کے اندر تشریف لائے تو یہ سارا منظر ان کی طبیعت پر بہت بوجھ سا معلوم ہوا اور عبادت کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہیں گم ہوتی نظر آئی۔ چنانچہ مسجد میں داخل ہوتے ہی حضرت چودھری صاحبؓ نے بےساختہ مجھے فرمایا: ’’میں ایکٹنگ نہیں کرسکتا‘‘ فقرہ انگریزی میں تھا اور مطلب یہ تھا کہ جمعہ کی نماز کوئی اَور دوست پڑھا دیں۔ اور یہ کہہ کر آپ نے سنتیں شروع کردیں۔ ہمیں اس کیفیت کا احساس تو تھا مگر موقع کی نزاکت کے پیش نظر دوبارہ درخواست کے باجود آپ کے خیال میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔

یہ واقعہ ممکن ہے بعض کے نزدیک ایک معمولی سا واقعہ ہو مگر جہاں تک حضرت چودھری صاحبؓ کے اخلاص، آپ کے ایمانی جذبات اور آپ کی طبیعت کی گہرائیوں کا تعلق ہے، اہمیت کا حامل ہے اور ایک قابل قدر مثال ہے جس سے آپ کے کیریکٹر پر روشنی پڑ سکتی ہے اور ہم سب کے لیے ایک رنگ کا سبق ہے۔

فضول خرچی سے اجتناب

آپ کی طبیعت کا ایک خاصہ یہ تھا کہ آپ فضول خرچی اور ظاہری تکلفات سے حتی الامکان بچتے تھے اور اس سے احتراز کرتے تھے۔ اس تعلق میں آپ کی شادی کے ایام کا ایک واقعہ ذہن میں آرہا ہے جو گو بظاہر ایک معمولی سی بات ہے مگر اپنی نوعیت کے لحاظ سے کچھ منفرد ہے۔ اور اس سے آپ کی طبیعت کی وہ صفت ضرور نمایاں ہوجاتی ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ ظاہری رنگ کے تکلفات آپ کو کوئی ایسے مرغوب نہیں تھے۔

ہالینڈ کا ہی واقعہ ہے جب کچھ عرصہ کے لیے آپ کی رہائش مشن ہاؤس کے ایک کمرہ میں تھی آپ کی شادی کی تقریب تھی۔ میں نے اپنے رفیق محترم مولانا ابوبکر ایوب صاحب سے کہا کہ اگرچہ حضرت چودھری صاحبؓ کو ظاہری قسم کے تکلفات سے کوئی خاص لگاؤ نہیں اور آپ انہیں پسند نہیں فرماتے مگر آج چونکہ شادی کی تقریب ہے اگر حضرت چودھری صاحبؓ کے کمرے میں تھوڑے سے پھول گملے میں لگاکے رکھ دیے جائیں تو کیا حرج ہے۔ چنانچہ ہم نے پھول گملے میں لگا کر آپ کے کمرے میں رکھ دیے۔ لیکن اس کے بعد جب حضرت چودھری صاحبؓ باہر سے تشریف لائے اور کمرے میں داخل ہوئے تو باہر آکر فرمانے لگے یہ پھولوں کا آپ نے کیا تکلف کردیا!

آپ کا یہ اظہار بظاہر ایک معمولی سااظہار ہے مگر اس سے آپ کے اندرونۂ طبیعت پر ایک جھلک ضرور پڑتی ہے کہ آپ کو دنیا کے ظاہری سازو سامان اور ٹِپ ٹاپ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ہاں جہاں تک ضرورت آپ کو مجبور کرتی تھی وہاں تک جانے کے آپ روادار ضرور تھے مگر اس کے علاوہ ظاہری رکھ رکھاؤ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ آپ کے دل میں اگر کوئی لگن یا تڑپ یا کوئی خواہش تھی تو وہ صرف یہی تھی کہ خداتعالیٰ کی رضا کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔ اور یہی وہ لگن تھی جو ہر وقت ان کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ اور ان کا تصور اور ان کا خیال دل سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا تھا۔ اور یہ میرا تاثر بھی بغیر بنیاد کے نہیں۔ اس ضمن میں حضرت چودھری صاحبؓ کا ایک دفعہ کا ایک اظہار ایسا ہے جو اس عاجز کی طبیعت پر گہرے طور پر نقش ہے جس کا ذکر بےجا نہ ہوگا۔

خدایادی

ایک دفعہ میرا لڑکا عزیزم عزیزاللہ جب ہالینڈ آیا تو حضرت چودھری صاحبؓ اسے مشن ہاؤس میں اپنا کمرہ دکھانے لگے کہ وہ اس کمرے میں رہا کرتے تھے۔ میرے لیے یہ امر خوشی کا باعث تھا کہ حضرت چودھری صاحبؓ کا سلوک میرے لڑکے عزیزم عزیزاللہ کے ساتھ بھی بڑا مشفقانہ تھا۔ آپ بعض دفعہ بڑی بےتکلفی سے اس کے ساتھ گفتگو فرماتے اور نصائح وغیرہ اسے کیا کرتے۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے جب اسے اپنا کمرہ دکھایا تو وہ کمرہ چونکہ چھوٹا ہی تھا اس لیے عزیز موصوف نے بےساختگی سے کہا کہ آپ اس کمرے میں رہا کرتے تھے! تو اس پر حضرت چودھری صاحبؓ نے بھی بےتکلفانہ اور بلا توقف یہ اظہار فرمایا کہ عزیز! اس جسم نے آگے جس جگہ رکھا جانا ہے وہ جگہ اس سے بھی تنگ ہوگی۔

یہ گفتگو آپ کی بظاہر بہت معمولی رنگ کی ہے اور بہت سادگی کے ساتھ ہے اور کوئی پبلکی رنگ اسے حاصل نہیں مگر یہ سادہ سی گفتگو آپ کے پاک اور مقدس خیالات کی ترجمان ضرور ہے۔ اور آپ کے اندرونے کی عمدگی کے ساتھ عکاسی کررہی ہے کہ آپ اس دنیا میں خواہ کیسے بھی رہ رہے ہوں آپ نے اپنے انجام کو دل سے کبھی اوجھل نہیں ہونے دیا۔

طبیعت میں مزاح

حضرت چودھری صاحبؓ کی طبیعت میں خوش کن مزاح بھی تھا۔ اور بڑی باغ و بہار طبیعت کے مالک بھی تھے اور یہ صفت آپ کی وہ دوست خوب جانتے ہیں جنہیں آپ کی صحبت میں اکثر بیٹھنے کا اور آپ کی گفتگو سے متمتع ہونے کا موقع ملا ہو۔ میرے لیے یہ امر باعث افتخار اور مسرت ہے کہ حضرت چودھری صاحبؓ کی نوازشات اور شفقتوں اور آپ کی نصائح سے نہ صرف اس عاجز نے ایک وافر حصہ پایا بلکہ میرے لڑکے عزیزم عزیزاللہ کے ساتھ بھی آپ کا سلوک کچھ کم مشفقانہ نہ تھا بلکہ اس کے انگلستان کے تعلیمی دَور میں جبکہ میں یہاں موجود نہ تھا اس کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھا اور اس کی رہ نمائی فرمائی اور آپ کی ایسی شفقتوں کا دائرہ کوئی ایک دو افراد تک محدود نہ تھا بلکہ آپ کے ایسے فیوض کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

فَجَزَاہٗ اللّٰہُ خَیْرًا۔

بہرحال جہاں تک عزیزم عزیزاللہ کا تعلق ہے جو اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہے حضرت چودھری صاحبؓ اکثر مجھ سے اس کی صحت کے بارےمیں دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ اس کی صحت کچھ عرصہ سے خراب کیوں جارہی ہے۔ تو میرے پوچھنے پر عزیز نے جواباً لکھا کہ اس کی وجہ کیا بتاؤں کہ بس اب تو بڑھاپا ہی ہے۔ (بہت ممکن ہے وہ ان ایام میں انصاراللہ میں داخل ہورہا ہو) چنانچہ یہی اس کا جواب میں نے بےتکلفی سے حضرت چودھری صاحبؓ کی خدمت میں عرض کردیا۔ چنانچہ میرا جواب سنتے ہی حضرت چودھری صاحبؓ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میری طرف سے اسے لکھ دینا کہ تم خواہ مخواہ بوڑھے بن رہے ہو میں جو تمہارے باپ سے بھی 25سال بڑا ہوں اب بھی اگر مجھے کوئی بوڑھا کہتا ہے تو طبیعت اسے آسانی سے قبول نہیں کرتی اور تم نے ابھی سے اپنے آپ کو بوڑھا کہنا شروع کردیا ہے۔

صاف معاملگی اور دیانت

حقیقت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات اور آپ کے تعلق میں گزرے ہوئے چھوٹے چھوٹے واقعات آج ایک ایک کرکے نظر کے سامنے آرہے ہیں اور اس وقت کی یاد دلا رہے ہیں کہ وہ کیسے پربہار ایام تھے اور وہ کیسی باغ و بہار ہستی تھی جس سے بےشمار پیاسے سیراب ہوئے اور وہ کیا وجود تھا جو کتنوں کے لیے تسکین و راحت کا سرچشمہ ثابت ہوا۔ وہ اسلامی سیرت کا ایک چلتا پھرتا نمونہ تھا۔ وہ جس کا جسم تو زمین پر تھا مگر جس کا دل خداتعالیٰ کی محبت میں محو تھا۔ اس کی کون کون سی صفت بیان کی جائے اور اس کے اخلاص کی گہرائیوں کو کن پیمانوں سے ناپا جائے۔ آپ کی دیانت اور صاف معاملگی کو ہی لے لو۔ بعض دفعہ واقعہ بہت معمولی سا نظر آتا ہے مگر اس کی گہرائی ایسی ہوتی ہے کہ وہ گہرائی امانت اور دیانت کی کسی اور جگہ نظر نہیں آتی۔ بہت ممکن ہے کہ بعض دفعہ ایسے معاملات کا تعلق ان کی اپنی ذات کے لیے تو کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا ہو مگر مقصود اس کا دوسروں کی تربیت ہو یا دوسروں کی توجہ مبذول کرانا ہو۔مثلاً ایک چھوٹا سا واقعہ ہالینڈ کا ہی ہے۔ ایک دفعہ آپ کو اپنی گھریلو ضرورت کے لیے کچھ مکھن کی ضرورت تھی۔ اتوار کا دن تھا دکانیں بند تھیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کے پاس مکھن کا کوئی زائد پیکٹ ہوگا۔ مگر ساتھ ہی فرمایا کہ میری جیب میں اس وقت صرف ایک guilderہی ہے۔ ان دنوں مکھن کے پیکٹ کی قیمت ایک guilderسے کسی قدر زائد ہوا کرتی تھی۔ فرمایا بس مجھے ایک guilderکی قدر کا اس پیکٹ میں سے کاٹ دیجیے زیادہ نہیں۔ اور پھر باوجود اصرار کے انہوں نے اسی قدر اس میں سے لیا۔ یہ واقعہ بظاہر ایک بہت معمولی سا واقعہ ہے مگر حضرت چودھری صاحبؓ کے اوصاف حمیدہ اور آپ کی اندرونی کیفیات کو روشن کرنے کے لیے ایک بہت واضح مثال ہے۔

نظام کا احترام

حضرت چودھری صاحبؓ کا ایک اور اہم وصف جو اس عاجز پر گہرے طور پر اثر انداز ہے وہ ہے جماعت کے نظام کا احترام۔ آپ اس چیز کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خلیفہ کا مقام تو اپنی ذات میں ایک بہت بڑا اور عظیم الشان مقام ہے۔ ہم ایسے حقیر اور ناچیز غلام بھی جو اس نظام کا ایک نہایت ادنیٰ سا حصہ ہیں ہمارے ساتھ بھی آپ کا سلوک اس رنگ کا تھا کہ آپ کے احترام کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ ایک شرم سی محسوس ہونے لگتی تھی کہ ہم کیا ہیں اور ہمارا اس رنگ کا احترام کیا۔ مگر یہ ایک ایسی بات تھی جو آپ کے دل میں گھر کیے ہوئے تھی۔ خلافت کا احترام تو اپنی نظیر آپ تھا اور جماعت کے خلفاء سے جو آپ کو قلبی لگاؤ تھا یا جو محبت تھی اس میں آپ کا نمونہ ایک مثالی رنگ کا حامل تھا۔

مجھ سے ایک دوست نے ذکر کیا کہ آپ نے ایک دفعہ حضرت المصلح الموعودؓ کی خدمت میں اتنا بڑا تحفہ اور نذرانہ پیش کیا کہ حضورؓ نے فرمایا اتنا بڑا نذرانہ میں اپنی ذات کے لیے قبول نہیں کرنا چاہتا بہتر ہے آپ جماعت کے لیےوقف فرمادیں۔ چنانچہ ایسا ہی آپ نے عمل فرمایا۔ بہرحال خلفاء سے آپ کی محبت اور عقیدت مندی کے جذبات اپنی نظیر آپ تھے۔

وقت کی پابندی

ایک اور صفت جو آپ کی زندگی میں ہمیشہ ایک نمایاں کردار ادا کرتی رہی وہ وقت کی پابندی تھی جس کا آپ ہمیشہ خیال رکھا کرتے تھے۔چنانچہ نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنے کی پابندی بھی آپ کی اسی صفت کا ایک حصہ ہے اور اس میں آپ حتی الوسع تساہل نہیں پیدا ہونے دیتے تھے۔ آپ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پریذیڈنٹ منتخب ہوئے تو اس وقت بھی آپ کی یہ صفت خاص طور پر اجاگر ہو کر دنیا کے سامنے آگئی۔ عام طور پر اسمبلی ممبران کا طریق یہی تھا کہ تھوڑی بہت تاخیر حاضری میں ہو جائے تو اسے محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر جب تک یہ نظام آپ کے سپرد رہا سب کو وقت کی پابندی کا احساس ہوگیا اور اجلاس کی کارروائی اپنے وقت پر ہونے لگی۔ ایک دفعہ وقت کی پابندی کے ضمن میں فرمایا کہ زندگی میں میرا سیر کا وقت بھی معین ہوا کرتا تھا۔ اس حد تک کہ لوگ مجھے دیکھ کر بعض دفعہ اپنی گھڑیاں درست کرلیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ خود میرے ساتھ بھی ایک واقعہ گزرا۔ انگلستان میں ہی ایک نجی سی تقریب تھی۔ حضرت چودھری صاحبؓ کے کسی عزیز کی شادی تھی جس کے لیے دو بجے کا وقت دیا ہوا تھا۔ اس تقریب کا انتظام یا اس کی نگرانی حضرت چودھری صاحبؓ ہی فرما رہے تھے۔ اتفاق سے جب میں مشن کے محمود ہال میں پہنچا تو حضرت چودھری صاحبؓ ابھی وہاں موجود نہیں تھے۔ ادھر دو بج رہے تھے صرف ایک آدھ منٹ کا فرق ہوگا۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ حضرت چودھری صاحبؓ تو وقت کے بہت پابند ہوتے ہیں خدا جانے ابھی آپ کیوں تشریف نہیں لائے۔ میں دروازہ میں کھڑا یہ خیال ابھی کر ہی رہا تھا اور اپنی گھڑی سے وقت دیکھ رہا تھا کہ حضرت چودھری صاحبؓ ادھر سے نمودار ہوگئے اور مسکراتے ہوئے مجھے فرمایا گھڑی دیکھنے کی کیا ضرورت تھی میں جو آگیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت چودھری صاحبؓ صرف وقت کے پابند ہی نہیں تھے بلکہ وقت کی پوری قدر بھی کرتے تھے اور وقت کا کوئی لمحہ بھی ضائع کرنا آپ کو گوارا نہ تھا اور یہی آپ کے دن رات کا عالم تھا۔

الغرض حضرت چودھری صاحبؓ کا وجود مختلف جہات سے جماعت کے لیے ایک نادرالمثال وجود تھا۔ ایک طرف جہاں آپ نے بانی سلسلہ حضرت امام الزمان مہدی دورانؑ کے فیض صحبت سے حصہ پایا وہاں آپ حضور علیہ السلام کے چار خلفاء کے بابرکت زمانہ سے بھی مشرف ہوئے بلکہ ان کے خاص معتمد رہ کر جماعت کی گرانقدر خدمات انجام دیں اور یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ آپ کی 92سالہ زندگی کا عظیم الشان دور اور اس کا بھرپور حصہ خدمات دینیہ کے لیے سراسر وقف رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی نامور ہستیاں جن کو ایک طرف روحانی برکات اور دینی خدمات سے وافر حصہ ملا ہو اور دوسری طرف انہیں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے باعث بین الاقوامی شہرت سے بھی نمایاں حصہ ملا ہو بہت کم وجود میں آتی ہیں۔

دعا

ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اللہ تعالیٰ ان خدمات کی آپ کو بہتر جزا عطا فرمائے اور ہماری جماعت میں ایسے ہزاروں، لاکھوں ظفراللہ خاں پیدا کرے جو اپنے اعلیٰ کردار سے جماعت کے نام کو بلند کرنے والے اور اس کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں بٹھانے والے اور احمدیت کی اچھی شہرت کو چار چاند لگانے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم آپ کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔ آمین

(مطبوعہ خالد دسمبر1985ء،جنوری1986ء)

(مرسلہ:مرزا جواد احمد۔مربی سلسلہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button