متفرق مضامین

حیات مسیحؑ کا عقیدہ اسلام کے لیے خطرناک ہے

(ساجدمحمود بٹر۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پاکر دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ اور جس موعود کے آنے کی الٰہی نوشتوں میں خبر دی گئی تھی وہ آپ کی بابرکت ذات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے الہام میں فرمایا:

’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)

مذکورہ بالا الہام میں دو دعوے ہیں۔ پہلا دعویٰ وفات مسیح کا ہے اور اس پر بنیاد رکھتے ہوئے دوسرا دعویٰ حضرت مرزا صاحبؑ کا مثیل مسیح ہونے کا ہے۔ آپ علیہ السلام نے قرآن کریم، احادیث نبویہﷺ کے ٹھوس اور مضبوط دلائل و براہین سے وفات مسیح کے مسئلہ کو ثابت کیا اور عقل و نقل کے ذریعے اس مسئلہ کے ہر پہلو پر خوب روشنی ڈالی۔

آج بھی امت محمدیہ کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کی قائل ہے۔ قرآن و حدیث کے دلائل و براہین کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگر صرف اس امر پر غور کیا جائے کہ حیات مسیحؑ اور وفات مسیحؑ کے عقیدے میں سے کونسا عقیدہ اسلام کے لیے مضر ہے تو ہر انصاف پسند نظر اس نتیجے پر پہنچے گی کہ حیات عیسیٰ کا عقیدہ ہر پہلو سے اسلام کے لیے خطرناک اور نقصان دہ ہے۔

مندرجہ ذیل چند امور ہماری رہ نمائی کرتے ہیں کہ یہ عقیدہ کس طرح اسلام کے لیے نقصان دہ ہے اوراس نے کس قدر اسلام کو نقصان پہنچایا۔

حیات مسیح کا عقیدہ عیسائیوں کے الوہیت مسیح کے مؤقف کو تقویت دیتا ہے

دنیا کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا ئی کا مقام دیتا ہے۔ حیات مسیح کا عقیدہ عیسائیوں کے اس مؤقف کو تقویت دیتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا ہیں۔ اس عقیدہ کو ماننے کی صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر اب دو ہزار سال سے زیادہ تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ یہ غیرمعمولی لمبی عمر ما فوق البشر ہے۔ دنیا میں کسی انسان کی عمر ہمیں ایسی نظر نہیں آتی۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کامقا م انسان والا نہیں ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی غیر معمولی حفاظت انہیں جملہ انبیاء سے بالا مقام دیتی ہے

اگر کسی جگہ لوگوں کا اجتماع اور جلسہ ہو اور اس جلسہ میں ملک کا سربراہ بھی شامل ہو تو اس کی حفاظت کے خاص انتظامات کیے جائیں گے۔ یہ انتظامات عام آدمیوں کی حفاظت سے کہیں بڑھ کر ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کیوں ہوتا ہے؟حالانکہ اس اجتماع اور جلسہ میں شامل ہونے والے دوسرے لوگ بھی انسان ہی ہیں۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ملکی سربراہ کا مقام اور مرتبہ عام شہریوں سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کی حفاظت کے لیے خاص انتظامات کیے جاتے ہیں۔ یہ موٹا اور بنیادی اصول ہماری رہ نمائی کرتا ہے کہ جو انسان جتنا اعلیٰ مقام کا حامل ہوگا اس کی اتنی ہی زیادہ حفاظت کے سامانوں کا بندوبست کیا جائے گا۔

تاریخ انبیاء کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء پر مشکلات اور مصائب کے ادوار آئے۔ انہیں طرح طرح کی تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی انبیاء کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کی کوشش ہوئی۔ لیکن خداتعالیٰ نے انہیں زمین پر رکھ کر ہی ان کی حفاظت کی۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں پھینک کر شہید کرنے کی کوشش کی۔ خداتعالیٰ نے برادران یوسف کے منصوبوں کو خاک میں ملادیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کی حفاظت فرمائی۔ لیکن یہ حفاظت بھی زمین پر ہی رکھ کرہوئی۔ انہیں آسمان پر نہیں اٹھایا۔

سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ نےہمارے آقا و مولیٰ آنحضرتﷺ کی حفاظت فرمائی۔ آپؐ کو شہید کرنے کی متعدد کوششیں ہوئیں۔ خدا تعالیٰ نے دشمنوں کی ہر کوشش کو ناکام و نامراد کیا۔ ان کے گھناؤنے منصوبوں کو تباہ و برباد کرکے اپنے محبوب کی معجزانہ حفاظت فرمائی۔ لیکن آپ کی حفاظت بھی زمین پر رکھ کر کی۔ آپ کو آسمان پر نہیں اٹھایاگیا۔

ان تمام انبیاء کے برعکس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کا معاملہ آیا تو خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو حفاظت کے لیے آسمان پر اٹھالیا۔ حضرت عیسیٰ ؑکے ساتھ یہ الگ اور نرالا سلوک انہیں تمام انبیاء سے اعلیٰ اور افضل ثابت کرتا ہے۔ اور باقی تمام انبیاء بشمول ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ سے نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ چنانچہ حفاظت الٰہی کا یہ خارق عادت امر بھی عیسائیت کو تقویت دیتا ہے۔

حیات مسیح کے عقیدے میں امت محمدیہ کی توہین

بیماریوں کے علاج کے حوالے سے بالعموم پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے صاحب وسائل امراء کا طبقہ ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ملکوں کے بڑے لوگ کبھی بھی پسماندہ ملکوں میں علاج نہیں کرواتے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ پسماندہ ممالک کے صاحب ثروت احباب کو پتہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک طبابت کے میدان میں ان سے بہتر ہیں۔ ان کے وسائل اعلیٰ ہیں۔ ان کی ٹیکنالوجی بہتر ہے۔ اپنے ملکوں کو چھوڑنا اور ترقی یافتہ ملکوں میں جاکر علاج کروانے کا یہی سبب ہوتا ہے کہ وہ ممالک اس میدان میں بہت بہتر ہیں۔

اس اصول کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو تمام مسلمان آخری زمانے میں مسیح کے منتظر ہیں۔ جماعت احمدیہ کے نزدیک امت کے بگاڑ کی صورت میں امت کا رہ نما اسی امت میں سے مبعوث ہوگا۔ روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے لیے روحانی طبیب اسی امت میں سے ہوگا۔ یہ امت قرآنی دعویٰ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍکے مطابق باقی تمام امتوں سے اعلیٰ اور افضل ہے۔ جبکہ ہمارے غیر احمدی بھائی یہ عقیدہ لیے ہوئے ہیں کہ بگاڑ اور روحانی بیماریوں کو دُور کرنے کے وقت جب طبیب کی ضرورت ہوگی تو نعوذباللہ یہ طبیب اس امت کا فرد نہیں ہوگابلکہ اس مقصد کے لیے خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک نبی کو ابھی تک رکھا ہوا ہے۔ ضرورت پڑنے پر خدا تعالیٰ اسے آسمان سے اتارے گا اور وہ روحانی بیماریوں، بدیوں اور برائیوں کا علاج کرے گا۔

ان دونوں عقائد میں سے کونسا عقیدہ امت محمدیہ کی شان کو بڑھانے والا ہے اور کونسا عقیدہ امت محمدیہ کی شان کو کم کرنے والاہے۔ ہر صاحب فراست اور صاحب بصیرت انسان ادنیٰ سے غور اور تدبر سے آسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ حیات مسیح کا عقیدہ امت محمدیہ کی توہین پر منتج ہوتا ہے۔ جبکہ ضرورت کے زمانے میں عظیم رہ نما کا امت محمدیہ میں سے ہی آنا امت کی شا ن و شوکت کو بڑھانے والا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس مضمون کو ایک شعر میں کیا خوب ادا فر مایا ہے۔

ہمارا جرم بس یہ ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں

کہ جب ہوگا اسی امت سے پیدا رہنما ہوگا

حیات مسیحؑ کے نتیجے میں عیسائیت کی حیران کن ترقی

حیات مسیح کے عقیدہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے دیگر کئی ایسے باطل خیالات بنالیے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باقی تمام انبیاء سے اعلیٰ اور افضل ثابت کرتے۔اور ان کو خدائی صفات میں شریک کرتے ہیں۔ مثلاً یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰؑ ظاہری مُردوں کو زندہ کرتے تھے اور پرندوں کی تخلیق کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ حالانکہ یہ امور روحانی مُردوں کو زندہ کرنے اور روحانی پرندوں کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

عیسائیت کی پوری دنیا میں برق رفتاری سے ترقی اورلاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کاعیسائیت کی آغوش میں گرنایا عیسائیت کے بہت قریب آنے میں ان باطل عقائد کا بہت بڑا دخل تھا۔ زندہ نبی اور مردہ نبی کی بحثوں کا جواب کسی مسلمان عالم کے پاس نہیں تھا۔ نتیجۃً عیسائیت بہت مضبوط ہوتی گئی اور اسلام کمزور ہوتا گیا۔

برصغیر میں عیسائیت کی حیران کن ترقی کی ایک جھلک

برصغیر میں سب سے پہلے چرچ مشنری سوسائٹی نے 1799ء میں تبلیغی کام شروع کیا تھا۔ 1901ء میں ہندوستان میں مشنری سوسائٹیوں کی تعداد 37تھی۔ ان سوسائٹیوں کے ہیڈ کوارٹرز انگلستان، جرمنی اور امریکہ وغیرہ ممالک میں تھے۔ ایک بہت بڑی تعداد عیسائی مشنریوں کی ایسی بھی تھی جو ان سوسائٹیوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ہندوستان میں عیسائیت کی تبلیغ عنفوان شباب پر تھی۔ مختلف شہروں اور دیہات میں ان کے مشن قائم تھے۔ جگہ جگہ سکول اور کالجز کھولے گئے تاکہ تعلیم کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کی جائے۔ ہسپتال تعمیر کیے گئے اور کروڑوں کی تعداد میں کتب، پمفلٹ اور اشتہارات مفت تقسیم کیے جا رہے تھے۔ حکومت وقت خود عیسائی مذہب رکھتی تھی اس لیے چرچ کی حکومت کی طرف سے بھی خوب مدد اور پذیرائی ہو رہی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا حیات مسیح کا عقیدہ جو بد قسمتی سے مسلمانوں میں رواج پا چکا تھااور اس جیسے دوسرے عقائد مثلاً مسیح کامُردوں کو زندہ کرنا اور خلق طیور وغیرہ عیسائیت کے پھیلاؤ میں مضبوط کارگر ہتھیار کا کام کر رہے تھے۔ ہندوستانی مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ پے درپے عیسائی ہورہے تھے۔ یہاں تک کہ یہ خیال کیا جانے لگا کہ چند سالوں میں ہی ہندوستان عیسائیت کی آغوش میں آجائے گا۔

چنانچہ 1888ء میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے بمقام شملہ مسیحی مبلغوں کی ایک میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے چار پانچ گناتیز رفتار سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے۔ اوراس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداددس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ‘‘

(دی مشنز، مصنفہ ریورنڈ رابرٹ کلارک بحوالہ روحانی خزائن جلد6تعارف کتاب ’’جنگ مقدس‘‘)

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ1851ء میں ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد صرف 91,000تھی۔

(روحانی خزائن جلد1تعارف کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب فتح اسلام میں عیسائیت کی ایک سوسائٹی کی تبلیغی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ

’’بیان کیا جاتا ہے کہ برٹش اور فارن بائبل سوسائٹی نے ابتدا قیام سے یعنی گذشتہ اکیس 21 سال کے عرصہ میں عیسائی مذہب کی تائید میں سات کروڑ سے کچھ زیادہ اپنی مذہبی کتابیں تقسیم کر کے دنیا میں پھیلائی ہیں۔ اس وقت کے ذی مقدرت مگر کاہل مسلمانوں کو یہ مضمون جو اکتوبر اور نومبر 1890ءکے اخبارات میں چھپ کر شائع ہوا ہے بہ نظر غورو شرم پڑھنا چاہیئے۔ کیا یہ کتابیں بیچنے والوں کے ہاتھ سے شائع ہو ئی ہیں یا ایک قوم کی سر گرم سو سائٹی نے اپنے دین کی امداد میں مفت بانٹی ہیں۔ ‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ28حاشیہ)

انگریزی حکومت اس لیے عیسائیت کی تبلیغ اور پھیلاؤ میں دلچسپی لے رہی تھی کہ اسے معلوم تھا کہ اگر ہندوستان کے باشندوں کا مذہب عیسائیت ہو جائے تو ان کی سلطنت مکمل طور پر مستحکم ہو جائے گی۔ چنانچہ لارڈ لارنس نے ایک موقع پر کہا:

’’کوئی چیز بھی ہماری سلطنت کے استحکام کا اس امر سے زیادہ موجب نہیں ہو سکتی کہ ہم عیسائیت کو ہندوستان میں پھیلا دیں۔ ‘‘

(لارڈ لارنس لائف جلد 2 صفحہ313 بحوالہ روحانی خزائن جلد 3 تعارف کتب صفحہ2)

یہ تمام چیزیں عیسائیت کے عالمگیر غلبے کے امکان کو اس قدر استحکام بخش رہی تھیں کہ مشہور عیسائی مناد ڈاکٹر بیروز نے بڑے فاتحانہ انداز میں اسلامی ملکوں میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

(ترجمہ) ’’یہ صورت حال اس آنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق اور تہران خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے حتیٰ کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعے مکہ اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہو گی اور بالآخر وہاں صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ حقیقی اور واحد خدا کو اور یسوع مسیح کو جانیں جس کو تو نے بھیجا۔ ‘‘

(بیروز لیکچرز صفحہ42 از ڈاکٹر جان ہری بیروزایڈیشن اول 1897ء مدراس۔ زیر اہتمام The Christian Literature Society For India)

وفات مسیحؑ کا عظیم الشان آسمانی حربہ

عیسائیت کی اس حیران کن ترقی کے دور میں اللہ تعالیٰ نےحضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔

وَکَانَ وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کے واضح اور ٹھوس دلائل سے وفات مسیح ثابت کرکے مسلمانوں کے حیات مسیح کے عقیدہ کا بطلان ثابت کیا تو دوسری طرف عیسائیت کے باطل عقائدکی تردید کی۔ آپ علیہ السلام نے عقلی دلائل اور نقلی براہین سے یعنی بائبل اور کتب تاریخ سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت کر دی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر مرے نہیں تھے بلکہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب سے اتارا گیا تھا تو آپ اس وقت زندہ تھے اور زخموں کی وجہ سے بے ہوش ہو چکے تھے۔ آپ کا مرہم عیسیٰ سے علاج کیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام شفایاب ہو کر اس علاقے سے ہجرت کر کے کشمیر آگئے اور یہیں پر فوت ہوئے۔ آپ نے اس نظریے کو عیسائیوں کی مقدس کتاب بائبل ہی سے دلائل و براہین سے ثابت کر کےدکھایا۔ علاوہ ازیں آپ نے بڑے قوی دلائل اور واضح براہین سے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود نہیں ہیں بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح وفات پا کر کشمیر کے شہر سری نگر میں مدفون ہیں۔

حضرت بانی جماعت احمدیہؑ کا یہ ایسا محیر العقول اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس نے عیسائی مذہب کو اعتقادی لحاظ سے جڑوں سے اکھیڑ ڈالا اور اسی وفات مسیح کے نظریے سے آپ نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو عبرت ناک شکست دی۔

1891ء میں آپ علیہ السلام نے وفات مسیح کا اعلان کیا اور اپنے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا۔ اپنی وفات یعنی 1908ء تک آپ نے عیسائیت کے ان باطل عقائد کے توڑ کے لیے عظیم الشان لٹریچر چھوڑا۔ ان مختصر18سالوں میں آپ کو کسرِ صلیب میں کس قدر کامیابی ہوئی اور اس میدان میں کس قدر کامرانیاں نصیب ہوئیں اس کا اندازہ درج ذیل حوالوں سے ہوتا ہے۔

مولانا ابو الکلام آزاد صاحب جو ایک مایہ ناز مصنف اور عالم تھے، نے آپؑ کی وفات پر لکھا کہ

’’وہ (حضرت مرزا صاحب علیہ السلام۔ ناقل) اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے… مسلمانوں کی طرف سے (عیسائیت کے خلاف۔ ناقل) وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا۔ اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا۔ ‘‘

(تحریر مولانا ابوالکلام آزاد۔ اخبار وکیل۔ بحوالہ بدر قادیان 18؍جون 1908ء صفحہ2)

مرزا حیرت دہلوی ایڈیٹر کرزن گزٹ دہلی نے لکھا ہے:

’’بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا۔ ‘‘

(کرزن گزٹ یکم جون 1908ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ189۔ بار اول دسمبر 1939ء)

مولوی نور محمد صاحب نقشبندی نے شاہ رفیع الدین اور علامہ اشرف علی تھانوی قادری کے ترجمۂ قرآن’’معجز نما کلام قرآن شریف مترجم‘‘ میں لکھا :

’’اس زمانہ میں پادری لیفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بناؤں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں د اخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا۔ اسلام کی سیرت و احکام پر جو اس کا حملہ ہوا تو وہ ناکام ثابت ہو اکیونکہ احکام اسلام وسیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراحکام انبیاء بنی اسرائیل اور ان کی سیرت جن پر اس کا ایمان تھا یکساں تھے۔ پس الزامی و نقلی وعقلی جوابوں سے ہار گیا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پربجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا۔ تب مولوی غلام احمدصاحب قادیانی کھڑے ہوئے اور لیفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کر لو۔ اس ترکیب سے اس نے لیفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو اپنا پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔ ‘‘

(معجز نما کلام قرآن شریف مترجم از شاہ رفیع الدین و اشرف علی تھانوی مقدمہ نور محمد قادری نقشبندی چشتی صفحہ30)

’’یقینا ًسمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو ان کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا‘‘

حضرت اقدس بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام کاسر صلیب فرماتے ہیں :

’’اے میرے دوستو! اب میری ایک آخری وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ در حقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتح یاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دو گے۔ تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقاتِ عزیز کو ضائع کرو۔ صرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پُر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر و۔ جب تم مسیح کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کرو گے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کر دو گے تو اس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا۔ یقیناًسمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو ان کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا اور دوسری تمام بحثیں ان کے ساتھ عبث ہیں۔ ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)

ایک طرف آپ نے وفات مسیح ناصریؑ کے اعلان کے بالکل ابتدا میں مسلمانوں کو وفات مسیح کی اہمیت کے متعلق آگاہ کیا۔ دوسری طرف زندگی کی آخری تقریر میں بھی جو 25؍مئی1908ء کو قبل از عصر کی، اسی مضمون پر زور دیتے ہوئے پرشوکت اور پر جلال انداز میں فرمایا:

’’تم عیسیٰ کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے۔ ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمدی کو آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ694، ایڈیشن1988ءحاشیہ)

انیسویں اور بیسویں صدی کے سنگم پر کاسرِ صلیب نے کسرِ صلیب کی جو بنیاد جماعت احمدیہ کو فراہم کی تھی یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بڑی تیزی کے ساتھ پوری دنیا سے بالخصوص مغربی ممالک جو ایک زمانے میں عیسائیت کا مرکز تھے، عیسائیت کے عقائد سے اپنی بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں اور عیسائیت کے عجیب و غریب عقائد کی وجہ سے ہی مذہب کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ کاسر صلیب کی ضرب کاری کا ہی یہ پھل ہے کہ شہرۂ آفاق انگریزی روزنامہ The Timeنے اپنی 13؍جنوری 2000ء کی اشاعت میں لکھا:

’’انگلستان کے چرچ اپنی موت مر رہے ہیں۔ ‘‘

(اخبار The Timesمضمون نگارLudovic Kennedy۔ 13؍جنوری 2000ء بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 24؍مارچ2000ءصفحہ11)

عیسائیوں کا اپنے مزعومہ عقائد سے بڑھتا ہوا انحراف دراصل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی درج ذیل پیشگوئی کے پورا ہونے کی نویدسنا رہا ہے۔ حضرت اقدس بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام اپنی کتاب’’ تذکرة الشہادتین ‘‘میں فرماتے ہیں :

’’یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اوربدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔ ‘‘

(تذکرة الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ67)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button