متفرق مضامین

عہد حاضر کے عظیم سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام (قسط اوّل)

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

’’…میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

دین اسلام علم حاصل کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔ ہر علم کی بنیاد خود قرآن کریم میں موجود ہے، کوئی بھی ایسا علم نہیں جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن کریم میں ذکر موجود نہ ہو۔ اسی لیے ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے ہر مردو زن کے لیے حصول علم کو فرض قرار دیا۔

مسلمانوں کی سائنسی ترقی کا دَور اس وقت شروع ہوا جب 92ھ بمطابق 711عیسوی میں طارق بن زیاد نے سرزمین سپین پر اپنا قدم جمایا۔ اس زمانہ کے مسلمانوں نے حیرت انگیز ترقیات اور سائنسی ایجادات کیں، ان میں جابر بن حیان، الخوارزمی، البیرونی، بو علی سینا، ابن الہیشم، ابن رشد، اور طوسی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ انہوں نے نہ صرف بنی نوع انسان کی خدمت کی بلکہ اپنے پیچھے کتابوں کی شکل میں علوم کے خزانے چھوڑے۔ پھر ایک وہ وقت بھی آیا کہ مسلمان اپنے اس قیمتی علمی ورثے کی حفاظت نہ کر سکے اور علوم کا یہ بیش قیمت سرمایہ یورپ کے علوم وفنون کے ایوان خانوں میں جا پہنچا، اور ان کے ترجموں سے ان اقوام نے بھر پور استفادہ کیا۔ آخر کئی سو سال کی خاموشی کے بعد چودھویں صدی ہجری کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان نے علم کے میدان میں سب سے بڑا انعام ’’نوبیل انعام ‘‘حاصل کر کے تاریخ کے دھارے کو موڑ دیا۔ انہی دنوں جماعت احمدیہ کو سات سو سال بعد سپین کی سرزمین پر پہلی مسجد تعمیر کرنے کی تو فیق بھی ملی۔ جس طرح اسلام کی پہلی صدی کے آخر میں سپین کی فتح اور مسلمانوں کے ذریعے علم کی ترقی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی خاص تقدیروں میں سے ہے اسی طرح احمدیت کی پہلی صدی کے آخر میں ایک احمدی سائنسدان کا عالمی سطح پر ابھرنا اور سپین میں مسلمانوں کے زوال کے سات سو سال بعد جماعت احمدیہ کے ذریعے نئی مسجدکا بننا بھی کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ خاص تقدیر الٰہی ہے۔

(ماخوذ از پہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 1)

گذشتہ دنوںسوشل میڈیا پہ شعبہ فزکس سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ہود بھائی کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں انہوں نے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے بارے میں چند حقائق پیش کیے ہیں تو بے ساختہ دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس عظیم آدمی کے بارے میں کچھ معلومات قارئین تک پہنچائی جائیں جو حقیقت پہ مبنی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہوں۔ ا ن واقعات کے پیش نظرخاکسار نے گذشتہ صدی کے اس عظیم سائنسدان کے حالات زندگی آپ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا تاکہ خصوصیت سے احمدی نوجوان ان کے نمونے کو سامنے رکھ کر علم کے میدان میں ساری دنیا سے آگے نکل جائیں اور مخلوق خدا کی خدمت کریں۔ آمین۔

15؍اکتوبر1979ءکا دن تاریخ عالم میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سال فزکس کا سب سے بڑا عالمی انعام دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ پہلے مسلمان سائنسدان کو دیے جانے کا اعلان ہوا۔ اس صدی کے پہلے مسلمان سائنسدان نے یہ خبر لندن میں سنی اور اس کا سر حمد الٰہی سے جھک گیا، اوروہ خانہ خدا کی جانب بڑھے اور مسجد فضل لندن میں جاکر سجدہ ریز ہوگئے اور بانی جماعت کی وہ عظیم الشان پیشگوئی پوری ہوئی کہ

’’…میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ ‘‘

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 409)

اس عظیم سائنسدان کا نام عبدالسلام تھا۔ آپ جھنگ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو روپیہ پیسہ کم ہونے کی وجہ سے غریب تھا، لیکن اس گھرانے کے افراد کے دل ایمان کی دولت سے بھرے ہوئے تھے۔ جھنگ کے چھوٹے سے گھرانے میں پلنے والے عبدالسلام کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ انہیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ عام سے سکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر علم کی پیاس بجھانے والے اس عبدالسلام نے ابتدائی دَور تعلیم سے لےکر 1946ءتک ہر تعلیمی میدان میں نہ صرف اوّل پوزیشن حاصل کی بلکہ تمام پرانے ریکارڈ توڑ کر نئے تعلیمی ریکارڈ قائم کیے۔ اس احمدی نوجوان کی کامیابیوں نے اپنے زمانے کے قابل ترین لوگوں کو ورطہ ٔحیرت میں ڈال دیا۔ Ph.Dکرنے کے بعد سائنس کی دنیا کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھرے۔ انہوں نے وسیع و عریض کائنات میں پھیلی ہوئی ایٹمی قوتوں کو یکجا کرنے میں طبعیات کی سالہاسال سے الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا دیں اور دنیا کے مشہور سائنسدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک غریب باپ کا بیٹا عبد السلام ایک دن علم کی روشنی کا مینار بن جائے گا۔ انہیں غریبوں سے پیار تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے انعاموں کا اکثر حصہ غریب طا لب علموں پر خرچ کرتے تھے۔ ان کے دل میں اسلام کی خدمت کا جذبہ بےپناہ تھا وہ چاہتے تھے کہ مسلمان سائنسی تعلیم حاصل کرکے اپنی قابلیت کی بدولت اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر سکیں۔ گذشتہ 800سالوں میں آپ پہلے مسلمان سائنسدان تھے جنہوں نے سائنس کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ آپ اپنی سائنسی تحقیق کے لیے ہمیشہ قرآن سے رہ نمائی حاصل کرتے، اور سائنسی اصولوں کی قرآن کریم سے وضاحت کرتے تھے۔ اور ہر کام میں سنت رسولﷺپر عمل کرنے کی کوشش کرتے اور ایک بہترین داعی الی اللہ تھے۔ آپ کی شخصیت میں سادگی کے ساتھ ساتھ بے پناہ عاجزی و انکساری کا مادہ پایا جاتا تھا۔

( ماخوذازپہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 1)

خاندانی حالات

ڈاکٹر عبداسلام صاحب کا تعلق پنجاب کے شہرجھنگ سے تھا۔ آپ کے والد کانام چوہدری محمد حسین صاحب اور والدہ کانام ہاجرہ بیگم صاحبہ تھا۔ آبا و اجداد کا تعلق راجپوت خاندان کے شہزادوں سے تھا۔ آپ کے جد امجد سعد بڈھن حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ کی تبلیغ سے جو ایک نامور عالمِ دین تھے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بعد ازاں آپ نے باقی زندگی خدمت اسلام میں وقف کردی۔ حضرت بہاء الدین زکریاؒ نے اپنے مریدوں کے ذمہ مختلف علاقے لگائے تو آپ کے بزرگوں کے ذمہ جھنگ کا علاقہ کیا گیا۔ اس طرح یہ خاندان جھنگ آکر آباد ہوا اور خدمت دین کا پرچار کرتا رہا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے زمانہ میں اس خاندان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ چوہدری محمد حسین صاحب کو خواب میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی زیارت ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جن کی آپ کو تلاش ہے۔ چنانچہ چوہدری محمد حسین صا حب نے قادیان جا کر حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ ان کے احمدی ہونے کے فقط اٹھارہ دن بعد حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات ہوگئی۔

30؍اپریل 1921ءکو آپ سعیدہ بیگم صاحبہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی مگر ساتھ ہی آپ کی بیگم کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وفات کے تین سال بعد آپ کا رشتہ حافظ نبی بخش پٹواری کی بیٹی ہاجرہ بیگم سے ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے خود نکاح پڑھا اور دعا کروائی۔ 12؍مئی1925ءکو آپ کی شادی ہوئی۔

پیدائش و حالات زندگی

3؍جون1925ءکو انگلستان کے بادشاہ کا یوم پیدائش تھا۔ چوہدری محمد حسین صاحب مغرب کی نماز ادا کرنے مسجد احمدیہ جھنگ گئے۔مغرب کی سنتیں ادا کرتے ہوئے آپ یہ دعا کر رہے تھے ’’ اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔ ‘‘( الفرقان :75)

اس دوران ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اور ایک فرشتہ ظاہر ہوا۔ ان کے ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا۔ فرشتہ نے وہ بچہ آپ کو پکڑایا اور کہا۔ اللہ کریم نے آپ کو بیٹا عطا کیا ہے۔ انہوں نے بچے کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’عبد السلام ‘‘۔

خدائی بشارتوں کے مطابق یہ بچہ 29؍جنوری 1926ءکو جمعہ کےروزسنتوکوداس میں پیدا ہوا۔بچے کی پیدائش پر چوہدری صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں نام رکھنے کی درخواست کی تو حضورؓ نے فرمایا :

’’جب اللہ تعالیٰ نے خود نام رکھ دیا ہے تو ہم کیسے دخل دیں ‘‘۔

چنانچہ اس بچے کانام عبد السلام رکھا گیا۔ آپ کے والدین نے خدائی بشارتوں کے ماتحت ہونے والے اس بچے کی پرورش اور صحت کا خاص خیال رکھا۔ اور اس کے لیے بہت دعائیں کیں۔ جوں جوں عبد السلام بڑے ہورہے تھے باپ کی دعائیں بیٹے کے حق میں پوری ہورہی تھیں اور خدا تعالیٰ ان کے مستقبل کے بارے میں خبریں دے رہا تھا۔ آپ کے والد صاحب لکھتے ہیں کہ

’’ایک روز عزیز سخت بیمار ہوگیا جان کا بھی خطرہ محسوس ہوا۔ بہت دعا کی تو خواب میں عزیز ایک اچھے قد والا جوان دکھایا گیا ‘‘گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے والد صاحب کو ان کی صحت اور لمبی عمر کی خبر دی۔ ان بشارتوں سے ان کے والدین اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اپنے بیٹے کی صحت اور پرورش پر زیادہ زیادہ توجہ دیتے، دعائیں کرتے اور حضرت خلیفۃ المسیحؓ کو بھی دعائوں کے لیے لکھتے رہتے۔

عام طور پر بچے جس عمر میں بولنا شروع کرتے ہیں عبدالسلام اس عمر کو پہنچ گئے لیکن ابھی بولتے نہ تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کی والدہ آپ کو ایک احمدی بزرگ صحابی حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے پاس لے گئیں اور ان سے دعا کروائی اور وہ بولنے لگ گئے۔ آپ کے والد اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں :

’’ایک مرتبہ مولوی صاحب چند روز ہمارے گھرجھنگ شہر میں مہمان رہے عزیز عبد السلام کی عمر اس وقت چھوٹی تھی اور وہ بولتا نہ تھا جس کا اس کی ماں کو سخت احساس تھا۔ حضرت مولوی صاحب کے پاس سلام سلمہ ٗکولے جا کر شکایت کی کہ یہ بولتا نہیں دعا فر مادیں۔ مولوی صاحب نے بڑی محبت کے لہجے میں عزیز سے خطاب کیا اور کہا ’’او گونگو! کیوں نہیں بولتا‘‘ اور فرمانے لگے کہ ’’انشاء اللہ یہ اتنا بولے گا کہ دنیا سنے گی۔‘‘ والد صاحب فرماتے ہیں کہ جوان ہو کر عزیز نے ریڈیو پر ایک ایسی تقریر کی کہ ساری دنیا میں سنائی گئی۔ غرض دعائو ں کی بدولت عبدالسلام صاحب نے بولنا شروع کیا۔

(ماخوذ از پہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 4)

ابتدائی تعلیم اور شاندار کامیابیاں

عبدالسلام صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن کریم پڑھ لیا اور اس کا تر جمہ بھی سیکھا۔ بچپن میں آپ کو کہا نیاں سننے کا بے حد شوق تھا اور بے حد ذہین اور اچھے حافظے کے مالک تھے۔ اسی بنا پر آپ کو صرف ساڑھے چھ سال کی عمر میں سیدھا تیسری جماعت میں داخلہ ملا اور اپنے اساتذہ کی توقع کے عین مطابق ایک بہترین طالب علم کے روپ میں سامنے آئے۔ آپ کی ذہنی صلاحیتوں کو مزید ابھارنے کے لیے آپ کے والد اور اساتذہ آپ پر خاص توجہ دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کو بچپن ہی سے علم سے محبت پیدا ہو گئی تھی۔ اس بارے میں آپ کی بہن کہتی ہیں کہ ’’بھائی جان بچپن سے ہی اپنی تعلیم میں ایسے مشغول رہتے تھے کہ کبھی بےکار گپ شپ یا کھیل کود میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا۔ ‘‘

( ماخوذ ازپہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 5)

1943ءمیں جھنگ بورڈ سے چوتھی کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس وقت آپ کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ آپ کی بچپن سے عادت تھی کہ جو سبق اگلے دن سکول میں پڑھنا ہوتا تھا وہ اسے گھر سے پڑھ کر جاتے تھے۔ 1938ءمیں مڈل کے امتحان میں ضلع بھر میں اوّل آئے اور چھ روپے ماہوار وظیفہ حاصل کیا۔ انہی دنوں جھنگ میں ایک تقریب میں ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں عبدالسلام صاحب نے ایک مضمون پڑھا، جس کو سن کر ڈپٹی کمشنر صاحب نے آپ کے والد کو پیغام بھیجا کہ اس لڑکے کی تعلیم کی جانب خاص توجہ دیں اور پھر 1938ءسے1946ءتک آپ نے ہر میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔ عبدالسلام صاحب بچپن سے ہی نہ صرف پڑھائی میں لائق تھے بلکہ اور بھی بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ چھوٹی عمر سے بہت پختہ نمازی تھے اور وقت بالکل ضائع نہیں کرتے تھے۔ گالی گلوچ سے پرہیز کرتے تھے اپنے ماں باپ، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کرتے تھے۔ آپ کی ہمشیرہ محترمہ حمیدہ بیگم آپ کے بچپن کے بارے میں بیان کرتی ہیں :

’’بھائی جان کو کبھی اونچی آواز میں بات کرتے یا کسی سے گالی گلوچ کرتے نہیں دیکھا، والدین اور بزرگوں کا بے حد احترام کرتے، ابا جان کے ایک لا ولد چچا تھے بھائی جان نے ان سے بہت دعائیں لیں۔ بھائی جان کا پسندیدہ کام یہ تھا کہ جمعہ کے دن مسجداحمدیہ میں صفائی کرنی اور ہمیشہ مغرب سے پہلے مسجدجا کر اذان دینی۔ سادگی بچپن سے ہی طبیعت میں بھری ہوئی تھی، …جو ملا پہن لیا۔ خوراک کے معاملہ میں والدین کو ہم سب کا بہت خیال رہتا تھا۔ اناب شناب یا ریڑھی چھابوں سے کبھی کوئی چیز لےکر کھانے کی عادت نہ ڈالی تھی۔ ابا جان نے بازاری چیزوں سے ایسا پرہیز بتایا ہوا تھا کہ کوئی بھی کبھی باہر سے لا کر کچھ نہ کھاتا اور نمونہ ہمارے بھائی جان تھے۔ ‘‘

( بحوالہ پہلا احمدی مسلمان سائنسدان )

ڈاکٹرعبدالسلام صاحب اپنی چیزوں اور کتابوں کو ہمیشہ احتیاط اور ترتیب سے رکھتے تھے۔ کالج کے زمانہ میں کالج میگزین کے چیف ایڈیٹر رہے۔ آپ بڑے محنتی اور ذمہ دار طالب علم تھے۔ آپ کی والدہ بیان کرتیں ہیں :

’’سلام جب سائنس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو روز رات کو کہتا کہ امی مجھے پڑھنا ہے۔ آپ صبح سویرے چار بجے ضرور اٹھا دیں، اور جب میں اٹھانے جاتی تو وہ پہلے ہی جاگ گیا ہوتا اور اپنی پڑھائی میں مصروف نظر آتا۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ مجھے سویرے سوتے ہوئے ملا ہو اور مجھے اسے جگانا پڑا ہو۔ نہ معلوم وہ کب اور کتنے اندھیرے میں اٹھ بیٹھتا تھا۔ اسے بچپن ہی سے علم سے محبت تھی اور ہمیشہ اول آتا۔ ‘‘

(’’مشرق‘‘لاہور19؍اکتوبر1979ء)

آپ نے کامیابیاں ایسے گھر میں رہ کر حاصل کیں جو بےحدچھوٹا تھا۔ اس میں بجلی نہ تھی۔گھر میں چھوٹے بہن بھائیوں کا شور بھی بہت تھا۔ اس کے باوجود نہ صرف خود اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں بلکہ پڑھائی میں اپنے بہن بھائیوں کی بھی مدد کرتے رہے۔ خود رات کی خاموشی میں دیے کی روشنی میں محنت کرتے تھے۔ سکول اور کالج کی پڑھائی کے دوران باقاعدہ تلاوت قرآن پاک، احادیث کا مطالعہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے۔ ریاضی کے علاوہ انہیں تاریخ اسلام، فلاسفی، معاشیات اور معاشرتی علوم سے خاص دلچسپی تھی اور کئی کتابیں پڑھ کر ان علوم میں بھی مہارت پیدا کی۔ دوران تعلیم ہوسٹل میں قیام کے دوران آپ کی علمی جستجو اور لگن کو ایک دوست جو ملک میں چیف آف ایئر سٹاف رہ چکے ہیں کہتے ہیں :

’’سلام صاحب اپنے کمرہ کو اس غرض سے باہر سے تالا لگوایاکرتے تھے تاکہ کوئی دوست اور عام ملنے والے ان کا وقت ضائع نہ کریں۔ ‘‘

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے والد صاحب کی آمدنی تھوڑی تھی اور گھر کے افراد زیادہ تھے تاہم تائیدایزدی ان کے ساتھ تھی۔ چنانچہ آپ کو اپنی قابلیت کی بناپر جماعتی طور پر وظیفے بھی ملتے رہے۔

1939ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریک فرمائی جس میں نوجوانوں کی ہمت بڑھانے کی خاطر وظائف کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق ملی۔ حضورؓ نے ا س تحریک کااعلان ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر فرمایا۔ اسی شام ملاقات کے دوران ڈاکٹر سلام صاحب کے والدصاحب نے حضورؓ کو بتایا کہ سلام انشاء اللہ یہ سب وظیفے لے گا اورایسا ہی ہوا۔

اعلیٰ تعلیم اور حیران کن کامیابیاں

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے دل میں شدیدخواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر جائیں۔ لیکن ان کی مالی حالت اس کی متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ مگر خدا ئے قدیرنے غیب سے سامان پیدا فرمائے اور نا ممکن بات کو اس طرح ممکن بنا دیا کہ خضر حیات ٹوانہ ایک مشہور زمیندار تھا جس نے دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں کی امداد کے لیے پندرہ لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کی تھی۔ وہ 1945ءمیں جنگ بند ہونے کی وجہ سے بچ گئی۔ انہوں نے 1946ءمیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بن کر اس رقم میں سے چھوٹے زمینداروں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفے دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اس فنڈ سے 550روپے کا وظیفہ ملا۔ ستمبر 1946ءمیں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب وظیفہ لےکر انگلستان کی یونیورسٹی کیمبرجCambridgeمیں داخل ہوگئے۔ خدا کی قدرت کہ اگلے سال ہندوستان تقسیم ہو گیا اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے علاوہ یہ وظیفہ کسی اور کو نہ مل سکا۔

اکتوبر1946ءسے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کیمبرج Cambridgeمیں ریاضی کا تین سالہB.Aآنرز کا کورس شروع کیا اور یہ کورس آپ نے تین کی بجائے دو سال میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ مکمل کیا۔ اس کے بعد آپ واپس آنا چاہتے تھے مگر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خواہش کے احترام میں فزکس میں داخلہ اور تین سال کا فزکس کا کورس ایک سال میں مکمل کیا۔ تین سال بعد 1949ءمیں واپس آئے اور آپ کا نکاح اپنے تایا کی بیٹی امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ہوا۔ کیمبرج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد آپ PhDکرنا چاہتے تھے جس کے لیے گورنمنٹ نے ان کے وظیفے میں دو سال کی توسیع کر دی۔ تاہم یہ وظیفہ آپ کی بیوی کا خرچ برداشت کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ اس لیے آپ شادی کے چھ ہفتے بعد اکیلے واپس لندن چلے گئے۔ اور PhDفزکس کے لیے کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ آپ نے ڈاکٹریٹ کے لیے THEORETICAL PHYSICS(نظریاتی طبعیات) میں اس مضمون کا انتخاب کیا، جس پر اس وقت کے مایہ ناز دماغ عرصہ دراز سے تحقیق کر رہے تھے۔ صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں آپ نے دیا گیا مسئلہ حل کر دیا اور اسی سال 1950ءمیں انہیں ’’سمتھ اعزاز‘‘دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ایٹمی ذرات پر مشتمل اپنا تحقیقی مقالہ ایک مشہور سائنسدان’’ ڈائسن ‘‘کو پڑتال کے لیے بھجوایا جو خود اس ریسرچ میں ناکام ہو چکے تھے۔ وہ آپ کے کام سے بے پناہ خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے برمنگھم میں ایک لیکچر دینا تھا جس پر انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو بھی بلایا اور ان سے لیکچر دلوایا اور پھر بعد میں انہی کے توسط سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب PhDکا دوسرا سال مکمل کرنے پر ’’پرنسٹن یونیورسٹی ‘‘امریکہ گئے جہاں انہیں چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران آپ کو گذشتہ صدی کے سب سے بڑے سائنسدان آئن سٹائن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جو ان دنوں کشش ثقل اور برقی مقناطیسی قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ اس طرح انہوں نے ایک سال دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ کام کیا۔ تیسرا سال گزارنے کے لیے آپ واپس کیمبرج آئے مگر وظیفہ ختم ہو چکا تھا۔ چنانچہ انہیں قابلیت کی بنا پر رعایت دی گئی کہ آپ واپس وطن جاکر وہیں ریسرچ کریں اور وہیں سے اپنا مقالہ بھیج دیں۔ کیمبرج چھوڑنے سے پہلے انہوں نے اپنے نگران پروفیسر کو کہا کہ انہیں وہ ایک سرٹیفیکیٹ دے دیں کہ ’’میں نے دوسال پی ایچ ڈی کا کام تسلی بخش کیا ہے۔ ‘‘ان کے نگران پروفیسر نے جو ان کی قابلیت سے بے حد متاثر ہوچکے تھے کہنے لگے کہ ’’میرے خیال میں آپ مجھے ایک سند لکھ دیں کہ آپ نے میرے ساتھ کام کیا ہے۔ ‘‘

آپ 1951ءمیں وطن واپس آئے اور ایک سال بعد 1952ءمیں آپ نے تحقیقی مقالہ مکمل کرکے کیمبرج یو نیورسٹی بھیجا اور آپ کو ’’ری نارملائیز یشن تھیوری ‘‘ پر عمدہ کار کردگی کی وجہ سے PhDکی ڈگری سے نوازا گیا۔

انگلستان سے واپسی پر آپ کو امپیریل کالج کی جانب سے نوکری کی پیش کش ہوئی لیکن ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے دل میں وطن کی خدمت کا جذبہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس کے باوجود پروفیسر لیوی نے انہیں کہا کہ وہ اگرکبھی انگلستان آنا چاہیں تو وہ امپیریل کالج میں انہیں لیکچرار لگوا دیں گے۔

پاکستان آکر آپ نے گورنمنٹ کالج کی انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ریسرچ کو ترقی دیں مگر انتظامیہ نے مخالفت کی اور انہیں فٹ بال کلب کا صدر بنا دیا۔ انہوں نے گورنمنٹ کومشورہ دیا کہ سائنس کی الگ وزارت قائم کی جائے لیکن ان کی بات ماننے سے انکار کردیا گیا۔

1953ءمیں جماعت احمدیہ کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی تو آپ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا۔ اسی دوران آپ کو کیمبرج یونیورسٹی سے ملازمت کی پیشکش ہوئی اور جنوری 1954ءمیں آپ کیمبرج چلے گئے۔

یہاںآکرآپ نے تحقیق کا کام جاری رکھا۔ 1954ءسے1956ءتک مجموعی طور پرآپ نے دس تحقیقی مقالہ جات لکھے۔ اس کے علاوہ 1955ءمیں جنیوا میں منعقد ہونے والی ایٹمی توانائی کے پر امن استعمال کے حوالے سے پہلی بین الاقوامی کانفرنس کاسیکرٹری ڈاکٹر صاحب کو منتخب کیا گیا۔ اگلے سال جب یہ کانفرنس منعقد ہوئی تو ڈاکٹر صاحب دوبارہ اس کانفرنس کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔

1957ءمیں امپیریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں آپ کو نظریاتی طبعیات کا صدر اور بانی پروفیسر بنا دیا گیا۔ اگلے سال آپ کو’’آدم پرائز ‘‘ ملا۔ اور اسی سالHOPKINS PRIZEکے مستحق قرارپائے۔

ڈاکٹرعبدالسلام صاحب وہ پہلے احمدی مسلمان اور پاکستانی ہیں جنہیں 1961ءمیں انگلستان میں سائنس کی سب سے بڑی فزیکل سوسائٹی کی جانب سے (Maxwell Medal)اور ایک سَوگنی انعام ملا۔

1959ءمیں حکومت پاکستان نے آپ کو ستارۂ امتیاز، پرائڈ آف پرفارمنس اور بیس ہزار روپے انعام سے نوازا۔

1964ءمیں ڈاکٹر سلام صاحب کو دنیا کی سب سے پرانی (Royal Society)نے (Hughes Medal)دیا۔ 1969ءمیں انہیں امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی نے Oppenheimer Memorial Prizeمیڈل دیا۔

1970ءمیں سویڈن نے اور 1971ءمیں روس اور امریکہ نے ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کو اپنی اپنی تحقیقی سوسائٹی کاکا رکن بنا لیا۔

ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نے 1976ءمیں اپنی تحقیق کے نتیجہ میں چار میں سے دو بنیادی قوتوں کو یکجا کرنے کا نظریہ (Unified Electroweak Theory) پیش کیا جس پر لندن کے طبعیات کے ادارے نے انہیں 1976ءمیں Guthrie Medal and Prizeدیا۔

(ماخوذازپہلا احمدی مسلمان سائنسدان، صفحہ 6-8)

نوبیل انعام کا حصول

ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کی خواہش تھی کہ انہیں نوبیل انعام ملے، کیونکہ اس انعام کا حاصل کرنا اسلام اور پاکستان کے لیے باعث فخر ہونا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ 1978ءمیں کسر صلیب کانفرنس کے لیے یورپ تشریف لے گئے تو ڈاکٹرعبدالسلام صاحب نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور حضورؒ کو دعا کی درخواست کی۔ حضورؒ نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر سلام صاحب نے اب تک جو تحقیق کی ہے اس پر نوبیل انعام مشکل ہے۔ البتہ اگلے سال تک جو کام وہ کریں گے اس پر انہیں نوبیل انعام مل سکے گا۔

چنانچہ اگلے سال 1979ء میں پروفیسر عبدالسلام کو دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ فزکس کے بہترین کام پر نوبیل انعام مل گیا (روز نامہ مشرق 19؍اکتوبر 1979ء)اور یہ حضرت خلیفۃ المسیح کی دعائوں اور ڈاکٹرعبدالسلام صاحب کی محنت کا نتیجہ تھا۔

ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے10؍دسمبر1979ءکو stockholm میں شاہ سویڈن کارل گستاف سے نوبیل انعام حاصل کیا۔ اور وہاں فزکس میں انعام حاصل کرنے والوں کی نمائندگی میں تین منٹ کی تقریر کی۔

آپ نے تقریر کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس قسم کی تقریب میں قرآن کریم کی تلاوت کی گئی۔

اس پر مسرت موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو مبارکباد کا تار ارسال فرمایا۔ اور تو اور اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیا ء الحق نے بھی مبارکباد کا تار دیا اور ساتھ ہی ساتھ اعزاز ’’نشان ِامتیاز ‘‘دیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نوبیل انعام کی دنیا بھر میں عزت افزائی ہوئی۔ اٹلی کے وزیراعظم نے 8؍نومبر1979ء کوآپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ اور اس کے بعد دنیا کی مختلف 36؍یونیورسٹیوں نے بھی آپ کو اعزاری ڈگریوں سے نوازا۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button