سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمات

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ

[یہاں صرف ان مقدمات کومدنظررکھاگیاہے جو خاندان کی طرف سے موروثی مقدمات تھے۔یعنی آپ کے والدصاحب کی وفات تک]

مقدمات کی نوعیت

جب ہندوستان کی مغلیہ سلطنت رُو بہ زوال ہوئی اور مرکزکی گرفت کمزور پڑنے لگی تو بعض دیگر علاقوں کی طرح پنجاب میں سکھوں نے طاقت پکڑنا شروع کی اور مختلف جتھوں کی صورت میں یہ لوٹ مارکرتے ہوئے دیہاتوں اور شہروں پر کنٹرول حاصل کرنے لگے۔اور اسی انارکی (Anarchy) اور لوٹ کھسوٹ کے دور میں سکھ آہستہ آہستہ زور پکڑنے لگے اور بالآخرقادیان کی کئی سو دیہات پر مشتمل ایک عظیم اور وسیع ریاست پر بھی سکھوں نے قبضہ کرلیا البتہ معجزانہ طور پر قادیان کے اس حکمران خاندان کو قتل کرنے کی بجائے جیساکہ عموماً سکھوں نے کیا،انہیں یہاں سے بحفاظت چلے جانے کی اجازت دے دی جس پر یہ خاندان قریبی ریاست کپورتھلہ میں پناہ گزین ہوگیا۔وہاں کے رئیس سردار فتح سنگھ آہلووالیہ نے ان کی مہمان نوازی کرتے ہوئے ان کو ان کے مقام کے مطابق عزت واکرام کے ساتھ رکھا اور بیگووال کے مقام پر ان کی رہائش کا انتظام کیاگیا جہاں یہ خاندان کم و بیش تیس سال تک مقیم رہا۔1830ء کے لگ بھگ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جبکہ اس خاندان کی سربراہی حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کے سپردتھی ، ان کو اپنے دربار میں عزت واحترام کا مقام دیتے ہوئے قادیان کے پانچ یا سات دیہات واپس کرتے ہوئے انہیں قادیان واپس جانے کی اجازت دی۔ لیکن تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ 1839ء میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا اور سکھ حکومت کے پائے بری طرح لرزنے لگے یہاں تک کہ مارچ 1849ء میں سکھ حکومت کا خاتمہ ہوگیااور انگریز پنجاب کی اس وسیع وعریض ریاست پر بھی قابض ہوگئے۔انگریزوں نے اس ریاست کی جاگیریں ضبط کرلیں۔خاص طورپران کی جنہوں نے سکھوں کی حکومت کے خلاف اس وقت انگریز حکومت کی مدد نہ کی۔وہ وفادار رؤساء جنہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کیں اور سکھ حکومت سے وفاداررہے ان میں سے ایک حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا خاندان بھی تھا۔ ویسے بھی انگریز حکمران مسلمانوں کو عموماً اور مغلیہ خاندان کے افرادکوبالخصوص کمزور سے کمزورترکرنا چاہتے تھے خصوصاً وہ کہ جو صاحب فہم وفراست اور حکومت وریاست کے والی رہ چکے ہوں۔ انگریز اب انہیں کسی صورت بھی طاقتور دیکھنے کے روادار نہ تھے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی سیاسی ودیگر اسباب ہوسکتےہیں۔یا کئی قانونی امورکی بھول بھلیوں کا سہارا بھی لیاجاتاہوگا کہ یہ جاگیریں چونکہ سکھوں نے چھینی ہوئی تھیں اور سکھوں سے اب یہ علاقے انگریز نے چھینے ہیں یا تاوان جنگ کے طور پر لئے گئے ہیں یاکسی اَورمعاہدہ کے تحت ان علاقوں کی خریدوفروخت ہوچکی تھی وغیرہ وغیرہ۔ اس لئے اب یہ حکومت کی جائداد اور زمین ہی متصور ہوگی۔اس پر تفصیل سے تو تبھی کچھ کہاجاسکتاہے جب وہ عدالتی ریکارڈ ہمارے سامنے ہو کہ فریقین نے کیا کیا موقف اپنایا ہوگا اور عدالت عالیہ یا جس کسی عدالت نے بھی فیصلے کئے تو وہ کن قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کئے تھے۔

بہرحال حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کو قادیان کی بستی سے اپنے بزرگوں کی مقدس یادگار ہونے کی وجہ سے نہایت درجہ عقیدت تھی اور آپ اکثر اس کا اظہار فرماتے اور کہتے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت انگریزی کی طرف سے بےدخلی کے اعلان پرجب آپ نے مختلف کوششوں کے بعد دیکھا کہ یہ جائداد اس طرح واپس نہیں مل رہی تو آپ نے اپنے اس جائز حق کے لئے عدالت سےرجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اس وقت انگریز نے سلطنت پنجاب میں نئی نئی عدالتیں بھی قائم کردی تھیں اور جلد ہی ’’چیف کورٹ‘‘پنجاب کا بھی قیام عمل میں آگیا جو کہ لاہور میں قائم ہوئی۔جسے آج کل ہائی کورٹ یا عدالت عالیہ پنجاب کہا جاتاہے۔

چیف کورٹ کہاں تھی؟

بعض احباب کے لئےیہاں ایک وضاحت دلچسپی کا باعث ہوگی اوروہ یہ کہ لاہورمیں جس جگہ آجکل ہائی کورٹ کی عمارت ہے ،یعنی شاہراہ قائداعظم /مال روڈ، ایک طرف G.P.Oجنرل پوسٹ آفس کی عمارت ہے اور اس کے ساتھ ہائی کورٹ کی پرانی طرز تعمیر کی خوبصورت بلڈنگ موجودہے عموماًیہ سمجھاجاتاہے کہ یہی وہ جگہ یا عمارت ہے جہاں ان مقدمات کی پیروی کے لئے حضرت اقدس ؑ تشریف لاتے ہوں گے۔جبکہ یہ درست نہیں ہے۔چیف کورٹ جوبعدمیں ہائی کورٹ کہلائی اپنے اولین زمانہ میں اس جگہ پرتھی جہاں آج کل سول سیکرٹریٹ کے دفاترہیں اور انارکلی کا مقبرہ بھی ہے۔کئی سال بعد یہاں سے چیف کورٹ کو اس وقت منتقل کیاگیا جب موجودہ جگہ پر عمارت تعمیرہوئی۔خاکسارکے سامنے اس وقت ایک کتاب ہے ۔ جس کانامThe Lahore High Court and its Principal Bar ہے۔ اس کتاب کے مصنف Rustam Sohrabji Sidhwa ہیں جوایم اے۔ ایل ایل بی ،ایڈووکیٹ آف ہائی کورٹ مغربی پاکستان اور لاء کالج کے ریڈربھی تھے ۔

اس کتاب کے صفحہ3پر چیف کورٹ کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں :

The Chief Court Act, IV of 1866, received the assent of the Governor-general on 16th February, 1866 and came into operation on 17th February, 1866. (Notification No. 1583 dated 17.2.1866 in the Gazette of India bearing even date.) On 17th February 1866, the Home Secretary to the Governor Government of India sent a telegram to the Secretary to the Government of the Punjab stating that the Chief Court Bill had been passed and that the Notification bringing the Act into operation had issued that day. The Telegram further stated that under section 2 of Act IV of 1866 Mr. A. A. Roberts, judicial Commissioner, automatically became a judge of the Chief Court and that Mr. Charles Boulnois, Barrister-at-Law, had been appointed as the second judge. The Telegram further pointed out that the declaration of the judges required by Section 5 of the Act should be received at once.Page;3

17؍ فروری 1866ء کو چیف کورٹ کاقیام عمل میں آیا۔ اور اس کے پہلے جج Mr. A. A. Robertsاور ان کے ساتھ دوسرے نمبر پر Mr. Charles Boulnois جج مقررہوئے ۔ اس وقت موجودہ سول سیکرٹریٹ کی عمارت میں کہ جہاں فنانشل کمشنرکاآفس تھا اس کے ایک حصہ میں چیف کورٹ کے دفاترقائم ہوئے۔

اوراب جس جگہ ہائی کورٹ کی موجودہ عمارت ہے اس کی تعمیرکامنصوبہ 1877ء میں کاغذات کی حدتک شروع ہوا اور ایک لمبی دفتری کارروائی اور جگہ کی تلاش وغیرہ کے بعد 1883ء کے لگ بھگ اس عمارت کاسنگ بنیادرکھاگیا۔ اور ستمبر 1887ء کوچیف کورٹ کے دفاتر سول سیکرٹریٹ سے اس نئی تعمیرشدہ عمارت میں منتقل ہوگئے۔ اوریہی چیف کورٹ بعدمیں ہائی کورٹ کہلائی ۔

بہرحال حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے انگریزی عدالتوں تک پہنچنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمہ کیا۔ جس میں آپ نے کشمیر میں ملازمت اور بعد کے عرصہ میں جمع کی ہوئی ایک لاکھ روپے یا ستر ہزارروپے کے قریب رقم پانی کی طرح بہادی۔ حالانکہ اس زمانے میں اس قدر رقم سے سوگُنا بڑی جائیداد از سر نو خرید کی جا سکتی تھی۔ لیکن ان مقدمات کے نتیجہ میں اس بڑی زبردست جدو جہد کے بعد انہیں بمشکل قادیان کی زمین کے ایک حصہ پر عمل دخل ملا اور اس کے ماحول میں بھینی، ننگل اور کھارا کے دیہات کی ملکیت کے رسمی حقوق واپس ہوئے جو 1947ء کے ہنگامہ ہجرت تک بدستور قائم رہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس غصب شدہ جائدادکے مقابلہ پر اس کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔ لیکن اس زمانہ میں جو مقدمات تھے ان میں سے ایک سلسلہ تو ان مقدمات کا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ مقدمات ایسے ہواکرتے تھے جو زمینوں اور اردگردکے کچھ علاقوں کے مالک کی حیثیت سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے ایک زمیندارکو مجبوراً عدالتوں کا رخ کرناپڑتاتھا۔ مثلاً لگان کی وصولی اورمزارعین کے باہم تنازعات وغیرہ اور یہ مقدمات چیف کورٹ میں نہیں بلکہ اس کی ماتحت عدالتوں میں زیرسماعت ہواکرتے تھےاوراسی طرح کے اور معمولی نوعیت کے مقدمات وغیرہ کی پیروی کے لئے کبھی بڑے مرزاصاحب یعنی والد ماجد حضرت اقدسؑ مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو خود اورکبھی ان کی طرف سے مختارکے طورپر جن لوگوں کو جاناپڑتا۔ جیسا کہ گذشتہ اقساط میں ذکر ہو چکا ہے کہ کبھی حضرت اقدس علیہ السلام برّبالوالدین کے عملی اظہار کے طورپر ان مقدمات کی پیروی کے لیے بھی بطور مختار جایاکرتے تھے۔اور اس کام کے لئے حضورؑ نے بٹالہ، امرتسر، گورداسپور، ڈلہوزی اور لاہور کے سفر فرمائے۔ بعض اوقات لمبے سفر پیادہ ہی کرنے پڑتے۔ ان مقدمات کی نوعیت کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ة والسلام خودبیان فرماتے ہیں:

’’اب یہ بھی واضح رہے کہ یہ سچ ہے کہ والد مرحوم کے وقت میں مجھے بعض اپنے زمینداری معاملات کی حق رسی کے لئے عدالتوں میں جانا پڑتاتھا۔مگروالد صاحب کے مقدمات صرف اس قسم کے تھے کہ بعض آسامیاں جو اپنے ذمہ کچھ باقی رکھ لیتی تھیں یا کبھی بلااجازت کوئی درخت کاٹ لیتی تھی یا بعض دیہات کےنمبرداروں سے تعلق داری کے حقوق بذریعہ عدالت وصول کرنے پڑتے تھے۔‘‘

( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 302)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button