یادِ رفتگاں

میرے والد محترم ملک علی محمد مرحوم آف ہجکہ

(محمد افضل ظفر۔ کینیا)

میرے والد محترم ملک علی محمد صاحب کھوکھرساکن ہجکہ نزد بھیرہ ضلع سرگودھا 20؍اور 21؍ اگست 2020ء کی درمیانی رات دو بجے ڈسٹرکٹ ہسپتال سرگودھا میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اسی روز بعد نماز جمعہ اپنے گاؤں ہجکہ میں ہی نماز جنازہ کے بعدتدفین ہوئی جس میں کثیر تعداد میں احباب جماعت شامل ہوئے۔

آپ کی عمر 90 سال تھی۔ آپ محض چند دن بعارضہ فالج بیمار رہے۔ اگرچہ بر وقت علاج کی وجہ سے فالج پر قابو پا لیا گیا تھا لیکن اچانک شوگر کا مرض لاحق ہو گیا جس نے گردوں اور دیگر اعضا کو شدید متاثر کیا اوربا لآ خر ایک دن ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

ہمارے خاندان میں احمدیت میر ے تایاجان محترم ملک ولی محمد صاحب مرحوم المعروف چوہدری ولی محمد والدمحترم برادرم ملک مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ کے ذریعہ آئی جنہوں نے 1940ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ آپ کے بعد میرے والد صاحب نے اپنے بھائی کے زیر اثر اور ایک خواب کی بنا پر 1942ء میں بیعت کی۔ میرے والد صاحب کی شادی اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ میری والدہ محترمہ نے میرے والد صاحب کے قبول احمدیت پر کبھی اعتراض نہ کیا لیکن اپنے عقیدہ پر سختی سے قائم رہیں۔ آپ کٹر سنی تھیں مگر آپ نے ہم سب بھائیوں کو جماعت سے وابستہ رکھنے اور جماعتی نظام کےتحت ہماری تعلیم و تربیت کی مقدور بھر کوشش کی۔ میری والدہ محترمہ نے1971ء میں از خود احمدیت قبول کی۔ آپ بالکل ناخواندہ تھیں مگر احمد یت قبول کرنے کے بعد احمدیت پر اس مضبوطی سے قائم ہوگئیں کہ اپنے رشتہ داروں کے طعنوں اور مخالفت کی ذرا بھر پروا نہ کی۔ 1974ء میں جب میرے والد صاحب، خاکسار، میرے تایا جان اور ان کے دو بیٹے چھ دیگر بزرگان جماعت و خدام کے ساتھ گرفتار ہوکر ڈ سٹر کٹ جیل سرگودھا میں قید تھے اور گاؤں میں شدید مخالفت تھی تو اس وقت کچھ احمدیوں نے ان حالات میں وقتی طور پر کمزوری د کھائی تھی ۔انہوں نے میری والدہ محترمہ کے پاس آکر کہا کہ’’بےبے اس وقت حالات بہت خراب ہیں آپ خو دبے شک اعلان نہ کریں ہم آپ کی طرف سے سنی ہونے کا اعلان کر د یتے ہیں۔ یہ وقت گزر جانے دو بعد میں جو مرضی ہو کر لینا۔ ‘‘اس پر میری والدہ محترمہ نے نہایت جرأت سے کہا کہ سنی ہونے کا اعلان کیوں کریں؟ ہم احمدی تھے احمدی ہیں اور احمدی رہیں گے۔ میرا خاوند اور بیٹا جیل میں ہیں یہ دو بیٹے ( عزیزم طارق محمود اور عزیزم منور اقبال) اور میں حاضر ہیں بےشک ہمیں قتل کر دیں، ہمارا گھر جلا دیں مگر ہم احمدیت سے انکار نہیں کریں گے۔ میری والدہ محترمہ 2011ء میں وفات پا گئی تھیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے آمین۔

میرے والد صاحب بچپن میں ہی سایہ پدری سے محروم ہو گئے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ نے باوجود غربت اور بیوگی کے اپنے دونوں بیٹوں یعنی میرے تایا جان اور میرے والد صاحب کو پرائمری تک تعلیم دلوائی۔ اس کے بعد دونوں بھائی محنت مزدوری کرتے رہے۔ پھر محترم تایا جان فوج میں بھرتی ہو کر کلکتہ چلےگئے تومحترم والد صاحب بھی ان کے ساتھ ہی کلکتہ چلے گئے اور وہاں کام کاج کرتےرہے۔ وہاں سے واپسی پر آپ دکانداری اور دیگر کام کرتے رہے پھر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مہندی کا کاروبار کرنے لگے، بعدہ آپ نے مہندی کے کاروبار کے ساتھ کچھ زمینیں ٹھیکے پر لے لیں۔ پھر متفرق کاروبار کرتے رہے ۔آپ نے اس طرح محنت مزدوری کرکے ہمیشہ رزق حلال کمایا ۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا اور نہ کبھی اپنی عزت نفس کو مجروح ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کی دستگیری فرمائی۔ جب میرے چھوٹےبھائی اپنے اپنے کام کرنے لگے تو انہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسائش کا وقت میسر آیا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سےمیرے والد محترم ایک نڈر، بہادر احمدی اور نماز وروزہ کے پابند تھے۔ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں پنجگانہ نمازوں اور تہجد کا پابندپایا۔ آپ رمضان کے روزوں کا خاص اہتمام کرتے حتی کہ وفات سے چند سال قبل تک جبکہ بہت کمزور ہو گئے تھے پورے روزے رکھتے۔ آپ ہمیشہ مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرتے اور جب بہت کمزور ہو گئے تو کسی کا سہارا لےکر مسجد جاتے اور با جماعت نماز ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو بارہ سال مسجد مبارک ربوہ اور تقریبا ًبیس سال اپنے گاؤں کی مسجدمیں اعتکاف کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ بفضل خدا بہت دعا کرنے والے اور عاجز انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ بہت سے معاملات میں محض اپنے فضل سےقبل از وقت آپ کی رہ نمائی فرماتا۔ خلافت رابعہ کے انتخاب کے وقت آپ ربوہ میں اپنی بھتیجی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ خاکسار بھی ڈیوٹی پر تھا تہجد کی نماز پر مسجد مبارک میں آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رات بہت دعاؤں کی توفیق ملی اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ میاں طاہر احمد خلیفہ ہوں گے۔ چونکہ ابھی انتخاب خلافت نہیں ہوا تھا اس لیے میں نے انہیں کہا ’’ابا جی یہ بہت مبارک بات ہے مگر جب تک نئے خلیفہ کا انتخاب نہیں ہو جاتا اس وقت تک کسی کو بھی یہ بات نہ بتانا اور اس وقت تک دعاؤں پر زور دیں۔‘‘ انتخاب خلافت کے بعد جب ملے تو بہت ہی خوش تھے اور اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے فضل سے ان خوش نصیبوں میں شامل فرمایا جنہیں خلیفہ کے انتخاب سے قبل اس متعلق بتا دیا گیا تھا۔ الحمد للہ۔

اسی طرح ہمارے گھر ولادت متوقع تھی۔ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری چار بیٹیاں تھیں۔ ولادت سے دو تین ہفتے قبل آپ ہمارے پاس ربوہ تشریف لائے اور مجھے اور میری اہلیہ کو بتایا کہ میں نے بہت دعا کی ہےاور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بتایا ہے کہ اس دفعہ اللہ تعا لیٰ بیٹا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعا لیٰ کے فضل سے ہمارے ہاں عزیزم عطاء المنعم اکمل ( شہید فجی ) کی پیدائش ہوئی۔ الحمد للہ۔

آپ نے تقریبا ً45سال کی عمر میں مکرم مولوی گل محمد صاحب مرحوم معلم وقف جدید سے قرآن مجید پڑھا۔ اس کے بعد ہر روز باقاعد گی سے ایک سیپارےکی تلاوت کرتے۔ عمر کے آخری سالوں میں تو ہر روز چار پانچ سیپارے روزانہ تلاوت کرتے۔ آپ نے متعدد بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت بھی حاصل کی۔ آپ چندوں میں بہت باقاعدہ تھے ہر مالی تحریک میں مقدور بھر حصہ ضرور لیتے اور اپنے بچوں کو بھی شامل کرتے۔ شروع میں آپ کی نظام وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ نہ تھی مگر جب اس طرف توجہ ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر نظام وصیت میں شمولیت کے لیے مقررہ عمر سے زیادہ تھی اس لیے نظام وصیت میں شامل نہ ہو سکے جس کا انہیں بےحد افسوس تھا۔ آپ خلافت احمدیہ کے جاںنثار اور نہایت مطیع و فرمانبردار تھے۔ آپ کو 1991ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمو لیت کی توفیق ملی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس وقت خاکسار فجی میں خدمت سلسلہ بجا لارہا تھا۔ آپ نے اپنے متعدد خطوط میں بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔

اسی طرح جلسہ سالانہ قادیان 2005ءکے موقع پر آپ کی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات ہوئی توآپ نے گھر آکر مجھے فون کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا موقع ملا ہے اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار خلفاءحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ (جن کے دست مبارک پر بیعت کر کے آپ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی تھی)سے لےکر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تک کی زیارت اور بیعت کی توفیق ملی ہے۔

ابتدا میں ہی ہمارے گھر میںایم ٹی اے کا انتظام ہو گیا تھا مگر آپ کی کوشش ہوتی کہ خلیفۃ المسیح کا خطبہ جمعہ، جلسوں کی تقاریر اور دیگر خطابات مسجد میں جا کر احباب جماعت کے ساتھ سنیں۔ آپ نظام سلسلہ کا بےحد احترام کرتے تھے اور خلیفۂ وقت کے حکم کو ہر تعلق، رشتہ داری اور کاروباری اور دنیاوی مفاد پر ترجیح دیتے۔ آپ جماعت کے کارکنان واقفین زند گی مربیان اور معلمین کی بےحد عزت کرتے۔ ہمارے گاؤں میں جن معلمین کی تعیناتی ہوتی ان کی دامے درمےقدمے سخنے ہر طرح خدمت کرتے۔ آپ کی وفات پر بہت سے معلمین اور مربیان جو ہمارے گاؤں میں متعین رہے یا وہاں دورے کرتے رہے انہوں نے اپنے تعزیتی پیغامات میں محترم والد صاحب کی اطاعت نظام، کارکنان سلسلہ سے محبت، ان کی تکریم اور مسجد سے ان کی وابستگی و مہمان نوازی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ احسن الجزا ء۔

جب تک پاکستان میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتا رہا آپ ہر سال باقاعدگی سے جلسہ سالانہ ربوہ میں شریک ہوتے اور ہمیں بھی ساتھ لے جاتے اور کوشش کرتے کہ ہر سال کسی غیر احمدی رشتہ دار یا اپنے تعلق دار کو اپنے خرچ پرساتھ لے جائیں۔ آپ مرکزی اجتماعات میں بھی باقاعدگی سے شامل ہوتے۔ آپ کوبطور قائد خدام الاحمدیہ، زعیم انصاراللہ، سیکرٹری تبلیغ، سیکرٹری اصلاح وارشاد جماعت احمدیہ ہجکہ اور نگران مجالس انصار اللہ حلقہ بھیرہ کے طور پر خدمات بجا لانے کی توفیق بھی ملی۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک

خاکسار آپ کی سب سے بڑی اولاد تھا ۔آپ مجھے انجنیئر بنانا چاہتے تھے اور سکول میں میرے مضامین بھی سا ئنس اور انجنیئرنگ تھے مگر جب میں نے زندگی وقف کرنے اور جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کےارادے کا اظہارکیا تو فوراً میری والدہ مرحومہ نے الحمد للہ کہا اور خوشی کا اظہار کیا۔ میرے والد صاحب جن کے کاروباری حالات اس وقت کافی خراب تھے اور میں کچھ سالوں بعد ان کا سہارا بن سکتا تھا انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہے تو مجھے قبول ہے ۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا وقف قبول کرے اور کوشش کروں گا کہ تمہاری جائز ضروریات پوری کروں اور تمہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔ تم بھی اپنا وقف نبھانے کے لیے دعا اور اپنی انتہائی کوشش کرنا، کبھی بھی درپیش مشکلات سے تنگ آ کر یا د نیا کی لالچ میں آ کروقف چھوڑ کر نہ خودذ لیل ہونا اور نہ مجھے خدا، اس کے رسولؐ اور نظام جماعت کے سامنے شرمندہ کرنا۔ اگر کبھی بد قسمتی سے ایسا کر بیٹھو تو پھر یہاں میرے سامنے نہ آنا کہیں اور چلے جانا۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اپنے والدین کی دعاؤں، ان کے غیر معمولی تعاون اور حوصلہ افزائی کے طفیل خاکسار آج تک نظام جماعت سے وابستہ رہ کر خدمات دین کی توفیق پا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

میرے والد صاحب بہت مہمان نوازتھے۔ آپ مہمان نوازی کا اس حد تک خیال رکھتے تھے کہ جب میرے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے تو جہاں بھی جاتے یہ کہتے کہ مجھے دیندار اور مہمان نواز بیٹی چاہیے۔ ایک دفعہ میں نے کہا اباجی آپ مہمان نوازی پر اتنا زور دیتے ہیں مجھے خدشہ ہے کہ کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ انہیں روٹیاں پکانے کے لیے نوکرانی چاہیے۔ کہنے لگے بیٹا تم ایک مربی ہو میری اس بات کی اہمیت تمہیں شادی کے بعد معلوم ہو گی۔ مربی کا گھر مہمان خانہ ہوتا ہے۔مہمان نوازی سنت انبیاء اور ہمارے معاشرے کا اہم ترین وصف ہے۔ جس گھر میں مہمان نواز بیوی ہو اس گھر پر اللہ کی رحمت برستی اور لوگوں میں اس گھر کی عزت ہوتی ہے اور جس گھر میں ایسی بیوی ہو جسے مہمان نوازی سے چڑ ہواس گھر میں نہ برکت ہوتی ہے نہ امن اور نہ عزت۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے دونوں بیویاں حد درجہ مہمان نوازاور تعاون کرنے والی عطا کیں۔ انہوں نے ہمیشہ مہمانوں کی عزت کی اور مہمان نوازی کو اپنا فرض منصبی اور عبادت سمجھ کر ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرے والدین کو اپنے والدین کی طرح سمجھا اور ان کی بے حد عزت اور خد مت کی اور میرے والدین نے بھی انہیں اپنی بیٹیاں ہی سمجھا اور انہیں ہمیشہ ماں باپ جیسا پیار دیا اور ان کی عزت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے والد صاحب بہت غریب پرور اور صلہ رحمی سے کام لینے والے تھے۔ آپ نے اپنے بہت سے رشتہ داروں اور اپنے پاس کام کرنے والوں کی شادیوں میں مالی مدد کی۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگوں کے کفن دفن کا انتظام کیا لوگوں کی پس پردہ مدد کر کے خوش ہوتے۔ الحمد للہ اپنی برادری اور دیگر لوگوں میں بھی بہت اثرورسوخ رکھتے تھے۔ کاروباری شخصیت ہونے کی وجہ سے آپ کاحلقہ احباب بہت وسیع تھا۔

میرے والد صاحب بہت صابرو شاکر انسان تھے۔ آپ ہمیشہ راضی برضائے الٰہی رہتے۔ آپ کے دس بچے کم سنی میں فوت ہوئے۔ مگر آپ اپنے ربّ کی رضا پر راضی رہے۔ 1999ءمیں میرے بچوں کے ساتھ فجی میں ایک حادثہ پیش آیا جس میں میری اہلیہ محترمہ امۃ المتین ناصرہ صاحبہ سمیت میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شہید ہو گئے تھے۔ جب اس سانحہ کی خبر ہمارے گھر پہنچی تو آس پاس کے پڑوسی اور رشتہ دار عوتوں نے سینہ کوبی شروع کردی مگر میرے والد صاحب نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ یہ اللہ کی مرضی تھی ہمیں اس پر راضی رہنا چاہیے کوئی بھی ایسا کر کے خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے اور ہمارے شہداء کی روحوں کو تکلیف نہ پہنچائے۔

میرے والد صاحب کچھ عرصے سے مجھے کہہ رہے تھے کہ ایک دفعہ آ کر مجھے بچوں سے ملا دو مگر میں بوجوہ نہ جاسکا۔ اس ماہ اگست کے وسط میں آپ کی علالت کے پیش نظر خاکسار نے پاکستان جانے کی رخصت حاصل کی مگر کورونا کی وبا کی وجہ سے بر وقت سِیٹ نہ ملنے کی بنا پرنہ جا سکا۔ امسال فروری میں میری بڑی بیٹی عزیزہ طوبیٰ فاروق پاکستان گئی تو اسے مل کر بہت خوش ہوئے اور جب ان کی بیماری کے ابتدئی ایام میں طوبیٰ ان سے دوبارہ ملی تو کہنے لگے کہ اب میرا وقت بہت قریب ہے۔ مَیں نے اپنے ربّ سے ہمیشہ اپنے خاتمہ بالخیر کی دعا کی ہے اوریہ دعا مانگی ہے کہ اے اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا اور مجھے اذ یت ناک موت سے بچانا۔ آپ نے یہ بھی بتایا کہ میں نے اللہ سے جمعہ کا دن مانگا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کی یہ ساری دعائیں قبول فرمائیں آپ کی وفات جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات دو بجے ہوئی اور آپ کوعملی طور پر صرف دو تین دن معمولی سہارے کی ضرورت پڑی۔ اس کے علاوہ آپ بالکل ٹھیک تھے۔ وفات تک مکمل ہوش و حواس میں تھے۔ آپ کے آخری کلمات جو سنے گئے وہ دُرود شریف تھا ۔اس کے بعد آپ لیٹ گئے اور اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے رحمت و شفقت کا سلوک فرمائےاور آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین۔

خاکسار میدان عمل میں ہونےکی وجہ سے اپنے والدین کے پاس زیادہ دیر نہیں رہا ۔آپ کی خدمت کی ذمہ داری میرے چھوٹےبھائیوں عزیزم طارق محمود جاوید اور عزیزم منور اقبال نوید اور ان کے بیوی بچوں نے پوری تند ہی سےنبھائی اور آپ کی جملہ ضروریات اور علاج معالجہ کا خیال رکھا۔ خدا تعالیٰ انہیں ان خدمات کا اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین۔

محترم والد صاحب نے اپنے پیچھے تین بیٹے بہوئیں اور گیارہ پوتے پوتیاں یاد گار چھوڑے ہیں۔ آپ کا ایک پوتا عزیزم کامران محمود جامعہ احمدیہ کا طالب علم ہے اور ایک پوتا عزیزم ندیم احمد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد محترم اور والدہ محترمہ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ آمین ثم آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button