خطبہ عید

خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ جولائی 2020ء

اگر خدا کا حکم ہے تو پھر وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا(حضرت ہاجرہؑ)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفا اور قربانی کو ہمیں اسوہ بنانا ہو گا

حضرت ہاجرہ کی قربانی کو ہمیں معیار بنانا ہو گا

عورت کو اس قربانی میں شامل کر کے عورتوں کے لیے بھی مثال قائم کر دی کہ نیک عورت اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتی ہے، اس کے آگے جھکتی ہے، اس کا قرب حاصل کرتی ہے تو اسے بھی خدا تعالیٰ نہیں چھوڑتا

دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد خالصۃً اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے

جب ہر مرد ابراہیمی نمونے پر چلنے کی کوشش کرے گا اور اس پر چلتے ہوئے وفا کے معیارکو اونچا کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب ہر عورت حضرت ہاجرہ کے نمونے کو اپنانے کے لیے تیار ہو گی اورہر نوجوان حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نمونے اپنانے کے لیے تیار ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہو گی، پھر حقیقی قربانی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ادراک اور تجربہ بھی ہو گا

اسیرانِ راہِ مولیٰ ،شہدائے احمدیت کے خاندانوں، واقفینِ زندگی، مبلغین، معلمین، مشکلات میں گھرے لوگوں کے لیے نیز خود غرض علماء کے شر سے بچنے اور ہر طاقتور شریر کے شر سے معصوم جانوں کے بچنے کے لیے دعا کی تحریک

سب احمدیوں کو عید مبارک

خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 31؍جولائی2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج عیدالاضحی ہے۔ وہ عید جو قربانی کی عید کہلاتی ہے۔ تمام مسلمان دنیا میں اسے بڑے شوق سے آج منا رہے ہیں اور وقت کے فرق کے ساتھ بعض جگہ کل بھی منائیں گے۔ اس قربانی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے یا اس واقعےکی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے جو چار ہزار سال سے بھی زائد عرصہ پہلے ہوا تھا مسلمان ابتدائے اسلام سے اس قربانی کی عید کو مناتے چلے آ رہے ہیں اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ایک مومن کے دل میں اس قربانی کی اہمیت اور اس کی یاد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی نہ ہوتی ہے۔ ہاں بے شک ایسے بےشمار لوگ ہوں گے جو صرف ایک خوشی کی تقریب کے طور پر اس عید کو یاد رکھتے ہیں، اس کا انتظار کرتے ہیں اور اسے مناتے ہیں۔ جو صرف دکھاوے اور خوشی کے اظہار کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتے ہیں لیکن ایک مومن ایک قربانی کو یاد رکھتا ہے، اس قربانی کی اہمیت کو یاد رکھتا ہے اور اس قربانی کی روح کو یاد رکھتا ہے اور اس طرح یاد رکھتا ہے جس طرح یاد رکھنا چاہیے اور اس کا حق ہے۔ ایک مومن کے دل کو یہ قربانی کا واقعہ جس کا اظہار باپ بیٹے نے ہزاروں سال پہلے کیا تھا جذباتی کر دیتا ہے۔ عموماً انسان اپنی تکلیفیں یا غم اس غم یا تکلیف سے نکلنے کے کچھ عرصے بعد بھول جاتا ہے، یاد نہیں رہتا کہ کس غم اور تکلیف سے میں گزرا تھا، پھر دنیا میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لیکن اس واقعےکو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ کر کے قربانی کا ایک معیار ہمیشہ کے لیے قائم فرما دیا اور پھر ایک مومن کو اس معیار کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ہدایت فرما کر ایک مومن کے لیے، ایک مسلمان کے لیے اس کی یاد تا قیامت قائم کر دی ہے۔ کیا اعلیٰ معیار ہے کہ آج بھی جب ہم اس واقعہ کو سنتے ہیں اس پر غور کرتے ہیں تو دل جذبات سے بھر جاتا ہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک شخص کو بڑھاپے میں اولاد عطا ہوتی ہے اور اس کی عمر بھی اس وقت نوّے سال کی یا اس کے قریب ہو جاتی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خواب میں حکم ہوتا ہے کہ اپنے لڑکے کو ذبح کر دو اور اس حکم پر اس کے ظاہری معنی لیتے ہوئے وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا یہ کیا ہی اعلیٰ معیار ہے، کیا ہی اعلیٰ مقام ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کہ اس حکم کو سن کے اس لڑکے کو لٹا کر پھر چھری پھیرنے کو تیار ہو گئے۔ اور پھر باپ ہی اس قربانی کے لیے تیار نہیں ہوا کہ اس کا ایک روحانی مقام تھا، باپ جو تھا وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے اعلیٰ مقام پر پہنچا ہوا تھا بلکہ اس بیٹے نے بھی بچہ ہونے کے باوجود اس بات کو تسلیم کر لیا کہ ٹھیک ہے اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں ذبح کیا جاؤں تو میں حاضر ہوں۔ اس بچے کے جواب کو بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ کر لیا اور اس بچے کا یہ جواب کہ

یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ(الصافات103)۔یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ۔

اے میرے باپ! جو کچھ خدا کہتا ہے وہی کر۔

سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ

تو ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے اپنے ایمان پر قائم رہنے والا اور صبر کرنے والا دیکھے گا۔ قربانی دینے والوں اور خوشی سے قربانی دینے والوں اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لانے والوں کے لیے یہ جواب بھی ایک مثال بن گیا اور نوجوانوں کو بھی بتا گیا کہ یہ ہونے چاہئیں خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھنے والوں اور قربانی کے لیے تیار رہنے والوں کے جواب اور معیار۔ پس اگر ہم غور کریں تو کون ہے جو اس جواب سے متاثر نہ ہو۔ بوڑھوں کے لیے قربانی دینے کی مثال قائم کی نوّے سالہ بوڑھے نے۔ بچوں اور نوجوانوں کے لیے مثال قائم کی ایک بچے نے۔ پس یقیناً جب ہم یہ واقعات سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں تو سب جذبات سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ اکثر کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں مگر ہمارے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کے ساتھ اپنے اس عہد کہ ہر قربانی کے لیے تیار رہوں گا اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم پر تیار ہو جانا اس لحاظ سے اَور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے بلکہ صرف تیار ہو جانا نہیں بلکہ عملاً اسے لٹا کر اس کی گردن پر چھری رکھ دینا کہ جب ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرم طبیعت کو دیکھتے ہیں ان کا دل دشمنوں کے لیے بھی نرمی سے بھرا ہوا تھا، برداشت نہیں تھا کہ دشمن کو بھی تکلیف ہو اور اس نرم دلی کا ایسا معیار تھا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خاص صفت قرار دے کر قرآن کریم میں محفوظ کر لیا اور حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں فرمایا کہ وہ حلیمٌ اور أَوَّاهٌ تھا، بہت نرم دل تھا، دل رحم سے بھرا ہوا تھا اور جب یہ حالت تھی تو کیا ان کے دل میں بیٹے کے لیے درد پیدا نہ ہوا ہو گا؟ یقینا ًپیدا ہوا ہو گا لیکن اس وقت اپنے اس ذاتی درد اور محبت کو ایک طرف رکھ کر انہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت کو ہر چیز پر مقدّم کر لیا اور اس چیز نے انہیں دوسروں سے پھر ممتاز بھی کر دیا اور یہی امتیاز ہے اور اللہ تعالیٰ سے وفا اور محبت اور قربانی دینے کا یہ معیار ہے جس کی وجہ سے تاقیامت جب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر ضرور ہو گا۔

اور صرف یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے دلی خوشی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام بھی قربانی کے لیے تیار ہوئے اور اس کا ذکر ابھی ہو چکا ہے اور ان کو بھی دوسروں سے ان کی یہ قربانی کا معیار ممتاز کر گیا۔ وہ کیوں اس قربانی کے لیے تیار ہوئے ؟ اس لیے کہ انہیں خدا تعالیٰ سے محبت کا خاص ادراک حاصل ہوا تھا۔ ان کے اندر اس ادراک کی وجہ سے یہ جذبہ پیدا ہوا کہ یہ قربانی ہماری ترقی کا موجب ہے، باپ میں بھی اور بیٹے میں بھی۔ پس ہم جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعات سن کر جذباتی ہوتے ہیں اور ہماری آنکھوں میں نمی آتی ہے تو اس لیے کہ ہمارے ذہن میں اس واقعےکا تصور ایک جذباتی کیفیت پیدا کر دیتا ہے لیکن شاید ہم میں سے اکثریت کے دل اس معیار اور اس کیفیت کو نہ پا سکیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں اس وقت تھا۔ اس وقت ان کو خیال تھا تو صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے لیے چن کر مجھ سے ایک قربانی مانگی ہے اور اس کے عوض مجھے کیا مل رہا ہے۔ مجھے میرے خدا کا، میرے محبوب کا قرب عطا ہو رہا ہے۔ یہ سوچ تھی کہ خدا تعالیٰ میرے قریب ہو رہا ہے اور پھر یہ صرف سوچ ہی نہیں تھی بلکہ ہر مسلمان جانتاہے، ہر قرآن پڑھنے والا جانتا ہے، ہر درود پڑھنے والا جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس قربانی کو یاد رکھا اور قیامت تک کے لیے امر کر دیا۔ آپ علیہ السلام کی قربانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی نشان بنا دیا اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے درد اور غم کے جذبات پر اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو غالب کر لیا کہ خدا تعالیٰ نے اس قربانی کے لیے مجھے چنا ہے۔ میرا احسان نہیں کہ میں اپنے بیٹے کی قربانی دے رہا ہوں یا میرے بیٹے کا کوئی احسان نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانی کے لیے تیار ہے بلکہ یہ کہ مجھے اور میرے بیٹے کو اس قربانی کے لیے چنا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا احسان۔ قربانی کر کے اس سوچ کو دل و دماغ پر حاوی کیا کہ میری قربانی کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اس قربانی دینے کے قابل سمجھا۔ پس ہم جب ہر قربانی کے لیے تیار رہنے کا عہد کرتے ہیں تو ہمیں بھی اس سوچ کو اپنے دل و دماغ پر حاوی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری قربانی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ اگر ہم سے کوئی قربانی لے اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا قرب عطا ہو اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری قربانیوں کی اس قربانی کے مقابلے پر کچھ بھی حیثیت نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دی یا جس کے لیے وہ تیار ہوئے۔ ہم تو اگر دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کے عہد پر ذرا سا بھی عمل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں۔ بے شمار احمدی اس کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بے شمار خطوط مجھے اس بارے میں آتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی معمولی قربانی کو بھی نوازا۔ مالی قربانی کرتے ہیں تو چند گھنٹوں میں اس کا اجر انہیں مل جاتا ہے یا اور بھی اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ پس یہ جذبہ عارضی نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقل ہونا چاہیے۔ صرف ایک دفعہ ہی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں سے فیضیاب نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی خواہش اور اس کے لیے کوشش زندگی کا مستقل حصہ بن جائے تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے عہد کو پورا کرنےکی کوشش کرنے والے ہیں اور یہ کوشش ہے جو پھر آگے جاگ لگاتی چلی جاتی ہے، نیکیوں کے اثر آگے اگلی نسلوں پر نظر آتے چلے جاتے ہیں۔ اِلّا ماشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کی سوچ پھر ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ بیوی بچوں کو بھی یہی ادراک ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کا قرب پانا ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ پس یہ ماحول گھروں میں پیدا کرنے کے لیے دعاؤں اور عمل کی ضرورت ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیار ہونا اور بیٹے کا اپنی گردن پر چھری پھروانے کے لیے تیار ہو جانا یقیناً ایک بہت عظیم جذبہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس جذبےکی قدر بھی کی اور اس جذبے کو قبول فرماتے ہوئے عملاً بیٹے کی گردن پر چھری پھیرنے سے روکتے ہوئے یہ فرمایا کہ

قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ (الصافات: 106)

تُو اپنی رؤیا پوری کر چکا۔ چھری پھیرنے کی اب ضرورت نہیں۔ ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ محسنوں کا بدلہ کیا ہے؟ محسنوں کا بدلہ یہ ہے کہ تجھے اور تیرے بیٹے کو انتہائی قرب کا مقام بخشا ہے۔ اس قرب کا مقام بخشنے کے بعد پھر قربانیوں کا دور ختم نہیں ہوا کہ ایک قربانی کر دی، مقام بخش دیا، اب قربانیوں کا دَور ختم ہو گیا بلکہ پھر اس کے بعد مزید نئی قربانیوں کا دور شروع ہوتا ہے تاکہ اس قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزید نظارے یہ دونوں دیکھیں بلکہ صرف یہ دونوں نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کو بھی اس میںشامل کر لیا کہ وہ بھی نظارہ دیکھیں تا کہ مردوں کے لیے مثال قائم ہو جائے کہ تمہاری نیکیوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق کا اثر تمہاری بیویوں پر بھی ظاہر ہو، اگر حقیقی نیک ہو تو صرف اپنے تک محدود نہ ہو بلکہ بیویوں پر بھی اثر ظاہر ہونا چاہیے۔

عورت کو اس قربانی میں شامل کر کے عورتوں کے لیے بھی مثال قائم کر دی کہ نیک عورت اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتی ہے، اس کے آگے جھکتی ہے، اس کا قرب حاصل کرتی ہے تو اسے بھی خدا تعالیٰ نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چھری پھیرنے سے بھی بڑی قربانی پیش کرنے کے لیے پورے خاندان، میاں بیوی اور بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چھری پھیرنا تو ایک وقتی قربانی تھی، ایک وقت میں ہی جذبات کی قربانی تھی لیکن ان تینوں سے جس قربانی کا مطالبہ کیا گیا وہ تھی تنہائی کی، جدائی کی اور خوف کی حالت کی مستقل قربانی۔ پس ان تین قربانیوں کا مطالبہ کیا گیاتو ان تینوں نے اسے بھی قبول کر لیا۔ اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر ایسی جگہ پہنچے جہاں میل ہا میل تک کوئی آبادی نہیں تھی بلکہ بے آب و گیاہ جگہ تھی۔ نہ پانی تھا، نہ کسی خوراک کا انتظام تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی اور بیٹے کو صرف ایک مشکیزہ پانی اور کھجوروں کی ایک تھیلی کے ساتھ اس جگہ چھوڑ دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پتہ تھا کہ یہ مشکیزہ جب ختم ہو جائے گا اور یہ کھجوروں کی تھیلی جب ختم ہو جائے گی تو نہ پانی میسر ہو گا، نہ کھانے کو کچھ میسر ہو گا۔ پھر پتہ نہیں کس طرح میرے بیٹے اور میری بیوی کا گزارا ہو لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم تھا اس قربانی کا ، اس لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے یہ قربانی کر رہے تھے۔ بہرحال جب بیوی بیٹے کو اس تھوڑی سی مقدار میں پانی اور خوراک کے ساتھ اس جگہ چھوڑ کر واپس لوٹنے لگے اور بیوی کو نہ بتایا کہ اب تم نے یہاں اکیلے ہی رہنا ہے تو حضرت ہاجرہ نے محسوس کر لیا کہ یہ جدائی عارضی نہیں لگتی بلکہ یہ تو مستقل جدائی لگتی ہے، لگتا ہے ہمیں مستقل یہاں رہنا پڑے گا۔ حضرت ابراہیمؑ کے پیچھے جا کر پوچھا کہ ہمیں چھوڑ کرکہاں جا رہے ہیں …حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے خوبصورت انداز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس حالت کا نقشہ کھینچا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس وقت اس جذبہ طبعی کے جو اُن کے قلب میں تھا یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں جو جذبہ تھا اور

أَوَّاهٌ مُنِيبٌ (هود: 76)

ہونے کی وجہ سے ان پر رقت طاری ہو گئی اور وہ جواب نہ دے سکے۔ حضرت ہاجرہ نے پھر پوچھا کہ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں! جب حضرت ہاجرہ کے کئی مرتبہ پوچھنے پر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی جذباتی کیفیت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی نرم طبیعت کے مالک کے لیے یہ ممکن بھی کس طرح ہو سکتا تھا۔ ان کو بظاہر نظر آ رہا تھا کہ اس بیابان جگہ میں بعد میں پتہ نہیں ان کی کیا حالت ہوگی۔ پس ایک طرف بشری تقاضا بیٹے اور بیوی سے محبت کا اور پھر فطرتاً انتہائی نرم طبیعت انہیں روک رہی تھی کہ اگر جواب دیا تو کہیں جذبات کا دھارا بہ نہ جائے اور حضرت ہاجرہ مزید پریشان ہوں اور دوسری طرف یہ سوچ بھی تھی کہ اگر جذبات کا دھارا بہ گیا تو اس قربانی کے معیار میں کہیں کمی نہ آ جائے جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے وہ اور ان کی بیوی اور بیٹا دینے جارہے ہیں اور جس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کا قرب ملنا ہے، وہ خاموش رہے۔ اور جب آخر حضرت ہاجرہ نے یہ کہا کہ کیا خدا نے آپ کو ایسا کرنے کا کہا ہے؟ پھر بھی جذبات سے مغلوب ہو کر صرف اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیا۔ منہ سے کچھ نہ بولے، کوئی جواب نہیں دیا۔ جب حضرت ہاجرہ نے یہ اشارہ دیکھا تو پھر کامل توکّل سے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر خدا تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ جہاں جانا ہے آپ جائیں۔

(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد 2 صفحہ 219-220 خطبہ عید الاضحی بیان فرمودہ 11 فروری 1938ء)

اب بظاہر دیکھا جائے تو اس بات کو تسلیم کرنا ناممکن ہے کہ اس بے آب و گیاہ وادی میں پانی کا مشکیزہ ختم ہونے کے بعد پانی مل سکے یا کھجوروں کی تھیلی ختم ہونے کے بعد کھجور مل سکے یا کوئی بھی خوراک مل سکے۔ یہ ناممکن تھا کہ ویران جگہ میں ان کی تکلیف دور کرنے یا کم از کم ہمدردی کرنے کے لیے ہی کوئی ہمدردی کرنے والا مل جائے۔ کسی انسان کی شکل نظر آ جائے۔ وہاں اس ویران صحرائی جگہ میں کسی نے کہاں سے آنا تھا۔ لیکن حضرت ہاجرہ میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صحبت نے یہ انقلاب پیدا کر دیا تھا کہ توکل علی اللہ اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی خواہش کا ان کا بھی معیار انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ انہوں نے بے خوف ہو کر کہہ دیا کہ اگر خدا کا حکم ہے تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں۔ یقیناً جب حضرت ہاجرہ کے یہ الفاظ عرش کے خدا نے سنے ہوں گے کہ اگر خدا کا حکم ہے تو پھر وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا تو خدا تعالیٰ نے بھی کہا ہو گا کہ بےشک میں تجھے اور تیرے بیٹے کو کبھی ضائع نہیں کروں گا ۔ اور بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ویسا ہی کیا جیسا اس سے امید رکھی گئی تھی بلکہ نہ صرف یہ کہ انہیں ضائع ہونے سے بچایا بلکہ ان کے ذریعے سے ایک ایسی زبردست قوم بنائی جس میں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم المرتبت نبی مبعوث فرمایا جو تمام دنیا کے لیے مبعوث ہوا۔ آپ ہی تمام دنیا کے روحانی بادشاہ ہیں۔ خدا تعالیٰ تک پہنچنا بھی آپ کے وسیلے سے ہی اب ممکن ہے۔

حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا کو چھوڑا تھا اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا حضرت اسماعیلؑ کی نسل کے قدموں میں لا کے ڈال دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آج لاکھوں کروڑوں لوگ حج و عمرہ کرتے ہیں تو حضرت ہاجرہ کی اس قربانی کی یاد بھی تازہ کرتے ہیں۔ پس حضرت ہاجرہ کی اس قربانی کو قیامت تک کے لیے ایک مقام دے دیا، ایک اعزاز بخش دیا۔ انہوں نے خدا تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے دنیا سے تعلق توڑا تھا اور آج دنیا مجبور ہے کہ خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے کے لیے ہی ان سے تعلق جوڑے۔ پس ان کی یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں تھی۔ ان کا اللہ تعالیٰ پریہ مان کہ جو کام خدا تعالیٰ کے لیے کیا جائے خدا تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرتا۔ کوئی معمولی مان نہیں تھا اور پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ خدا تعالیٰ نے قیامت تک اس مان کو پورا کرنے اور نوازنے کے سامان کر دیے۔

پس آج کا دن ہمیں اس خاندان کے اللہ تعالیٰ پر توکّل اور اس پر قربانی کرنے کے معیار کی یاد دلانے کے لیے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا صرف اس قربانی کے واقعہ کو اور اس خاندان کے توکل کو اور اس قربانی کو یاد کرلینا اور ذکر کر لینا ہی کافی ہے۔ نہیں!! بلکہ اس یاد کا ذکر تازہ کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفا اور قربانی کو ہمیں اسوہ بنانا ہو گا۔ حضرت ہاجرہ کی قربانی کو ہمیں معیار بنانا ہو گا۔ ہر عورت دیکھے کہ ہم نے اس معیار کو حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ لجنہ جب عہد دہراتی ہے کہ ہم اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تو میرے علم میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض عورتیں کہتی ہیں ہم اس وقت خاموش ہو جاتی ہیں کیونکہ ہم تیار نہیں ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ پر توکّل ہو، اس کی رضا کا حصول مقصد ہو، اس کے قرب کو حاصل کرنے کی خواہش ہر خواہش سے بالا ہو تو یہ سوچ آ ہی نہیں سکتی۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے، ایک ایسا عہد ہے جو خالصۃًاللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ اگر یہ عہد کیا ہے تو اسے ہر احمدی مرد، احمدی عورت، احمدی جوان اور احمدی بچے کو نبھانا ہو گا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا بلکہ نوازتا ہے۔ ہمارے مرد جب اپنے نمونے ابراہیمی معیار پر لائیں گے تو وہ روحانی معیار عورتوں اور بچوں میں بھی سرایت کر جائیں گے۔ پس سب سے پہلے مردوں کو اپنی سوچوں اور اپنی قربانی کے معیاروں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عورتوں اور بچوں کے معیار توکّل علی اللہ اور قربانی کے بڑھانے ہیں تو پھرمردوں کو بہرحال اپنے نمونے دکھانے ہوں گے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ صرف اپنے اندر معمولی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے یہ نمونے ہیں اور ان کی مثال صرف قصے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھی ہے۔ نہیں! بلکہ یہ نمونے ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ جب ہر مرد ابراہیمی نمونے پر چلنے کی کوشش کرے گا اور اس پر چلتے ہوئے وفا کے معیارکو اونچا کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب ہر عورت حضرت ہاجرہ کے نمونے کو اپنانے کے لیے تیار ہو گی اور ہر نوجوان حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نمونے اپنانے کے لیے تیار ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش بھی ہو گی۔ پھر حقیقی قربانی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے قرب کا ادراک اور تجربہ بھی ہو گا۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلام صادق کو ہم نے مانا ہے تا کہ اسلام کی نشأة ثانیہ میں حصہ دار بن سکیں اسے بھی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے۔ چنانچہ کئی مواقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً ابراہیم کہہ کر مخاطب فرمایا ۔

(تذکرہ صفحہ 82 ایڈیشن چہارم)

پس اس ابراہیم کو اگر ہم نے روحانی ترقی، اسلام کو دنیا میں غالب کرنے، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہرانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے مانا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو اسماعیل بننے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہر عورت کو ہاجرہ بننے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ہم دین کی خاطر قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں گے تو خدا تعالیٰ ہمارے لیے نئے سے نئے راستے کھولے گا اور اسلام کی ترقی کے جو راستے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعےکھولنے کے وعدے کیے ہیں ان میں ہم بھی شامل ہو سکیں گے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک حقیقت میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد پر عمل کر لے تو ایک انقلاب ہم دنیا میں لا سکتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل کر کے اپنی زندگیاں گزارنے لگ جائیں تو ایک روحانی انقلاب دنیا میں پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلا کر دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے والے بن جائیں تو ہم ان شہداء کی قربانیوں کا بہترین بدلہ لے سکتے ہیں جن کو زمانے کے ابراہیم کے ماننے کی پاداش میں شہید کیا گیاہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعے جب یہ سلسلہ قائم فرمایا تو اس لیے کہ وہ تمام برکات دنیا میں واپس لائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی ماننے والوں اور مومنین سے وابستہ ہیں۔ اس کے لیے پہلوں نے بھی قربانیاں دیں اور سب سے بڑھ کر اپنے نفسوں کی قربانیاں دیں۔ ہم بھی اپنے مال جان اور وقت کی قربانی دینے کا عہد کرتے ہیں ہمیں بھی اس عہد کو سامنے رکھتے ہوئے قربانیوں کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ہمیں بھی یہ دینی پڑیں گی اوربہت سارے لوگ دیتے آبھی رہے ہیں۔

قربانیوں کے بغیر یہ انقلاب کبھی نہیں آئے گا اور نہ کبھی انقلاب آتے ہیں۔ پس اس حوالے سے میں ان ماؤں کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو کہتی ہیں کہ ہم قربانی کے لیے چپ کر جاتے ہیں۔ ایک طرف وہ مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بچے وقفِ نو میں دے کر وقف کیے لیکن جب بچے جوان ہوتے ہیں تو بعض والدین کی طرف سے یہ عذر آ جاتا ہے کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بچہ اگر صرف جماعت کی خدمت کرے گا تو تھوڑے سے الاؤنس میں گزارا نہیں ہو گا اس لیے اس کو دنیاوی کام کرنے کی اجازت دیں۔ ایک طرف قربانی کرنے کا ایک عہد کیا اور خود ہی پیش کیا، دوسری طرف اس کو دنیاداری کی طرف بھی ڈالنے لگی ہیں۔ اسی طرح بعض واقفینِ نو بچے بھی ہیں ڈاکٹر بن جاتے ہیں، انجنیئر بن جاتے ہیں اس وقت کہتے ہیں کہ اب جماعتی خدمت بڑی مشکل ہے۔ ہمارا تھوڑے پیسوں میں گزارا نہیں ہوتا۔ ہمیں دنیاوی نوکری کرنے دیں۔ جب دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے، قربانی کا عہد کیا ہے، پیدائش سے پہلے اللہ تعالیٰ نے والدین کو توفیق بخشی کہ وہ پیش کریں تو پھر اس قسم کے عذر کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس عہد کو نبھانے کی ضرورت ہے۔ اگر تھوڑا الاؤنس بھی ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت ڈال دیتا ہے۔ پس نوجوان واقفینِ نو اپنے آپ کو مبلغ اور مربی بننے کے لیے پیش کریں۔ ڈاکٹر اور انجنیئر یا ٹیچر بن کے جماعت کے لیے اپنی خدمات پیش کریں اور قربانی دیں اور قربانیوں کے معیار کو بڑھائیں۔ صرف کہانیاں اور قصے سن کےخوش نہ ہو جایا کریں۔ صرف یہ پرانے واقعات سن کے خوش نہ ہو جائیں۔ صرف پرانے واقعات سن کے جذباتی ہونے پر خوش نہ ہو جائیں بلکہ یہ اس لیے ہیں کہ ہمیں اپنے نمونے دکھانے چاہئیں۔ ہمیں نہ دنیاوی بادشاہتوں سے غرض ہے نہ دنیاوی حکومتوں سے غرض ہے نہ حکومتوں کے نظاموں اور دولتوں سے غرض ہے اور طاقتوں سے غرض ہے اور نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی غرض ہے اور غرض ہونی چاہیے تو یہ کہ کس طرح ہم اسلام کی صداقت کو دنیا میں غالب کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کر سکتے ہیں۔ کس طرح ہم بھولی بھٹکی انسانیت کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنا سکتے ہیں۔ کس طرح ہم انسان کو ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا بنا سکتے ہیں۔ پس یہی ہمارے سلسلہ کے قائم ہونے کی غرض ہے۔ یہی احمدی کی غرض ہے اور خاص طور پر واقفینِ نو کی تو یہ غرض ہونی چاہیے۔ اسی کے لیے وہ اپنے آپ کو جامعہ میں آنے کے لیے بھی وقف کریں اور زیادہ سے زیادہ مربی بنیں مبلغ بنیں تا کہ اسلام کا یہ پیغام ساری دنیا میں جلد سے جلد تر پھیل سکے۔

پس یہ باتیں جو میں نے بیان کی ہیں یہی سلسلہ کے قائم ہونے کی غرض ہے اور اس کے لیے ہمیں قربانیاں دینی چاہئیں اور اس کا اعلان بھی بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے۔ یہ باتیں قربانی چاہتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ صرف قربانی کے واقعات پڑھ کر انقلاب نہیں آیا کرتے ، اس کے لیے ہر احمدی عورت کو ہاجرہ بننا پڑے گا اور ہر احمدی نوجوان کو اسماعیل بننا پڑے گا اور ہر ملک اور ہر قوم اور ہر نسل میں سے ہر احمدی کو یہ معیار دکھانے ہوں گے تبھی ہم دنیا میں ایک وحدت پیدا کر سکتے ہیں۔ جب اس مقصد کے حصول کے لیے یہ مشترکہ قربانی ہو گی تبھی ہم اس گھر کی تعمیر کےمقصدکو پورا کر سکیں گے یعنی توحید کا قیام جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ، حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قربانیاں دی تھیں اور خدا تعالیٰ کا پہلا گھر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا نشان بن کر ابھرا تھا اور تبھی ہم اس زمانے کے ابراہیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے بن سکیں گے یعنی دین واحد پر جمع کرنا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے اندر حقیقی قربانی کا مادہ پیدا کرے۔ ہم ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ ہر آنے والی قربانی کی عید ہمیں اسلام کی ترقی کی نئی منزلیں دکھانے والی ہو۔ ہم ایسی مقبول قربانیاں کرنے والے ہوں جس کے فیوض و برکات ہم دنیا و آخرت میں حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں ان اسیران کو بھی یاد رکھیں جو صرف احمدیت کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ دین کی خاطر سخت موسمی حالات میں جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں خاص طور پہ۔ اور خوشی سے یہ صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ایک خاتون بھی اسی قید و بند کی صعوبت برداشت کر رہی ہیں، قید و بند میں پڑی ہوئی ہیں۔ غلط الزام لگا کر، بہت خطرناک دفعات ان پر لگائی گئی ہیں۔ صرف اس لیے کہ انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ شہداء کے خاندانوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ واقفین زندگی کے لیے، مربیان ،مبلغین ،معلمین کے لیے دعا کریں کہ سب اپنے وقف نبھانے والے ہوں اور حقیقی قربانی کے ساتھ نبھانے والے ہوں۔ بہت سارے مختلف ممالک میں ، افریقہ میں بھی معلمین بہت اہم کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ تھوڑی تربیت کے باوجود جو انہوں نے معلم کلاس کا تھوڑا بہت علم حاصل کیا ہے اس کے باوجود بہت اچھے اچھے کام کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں، اخلاص میں، وفا میں، علم میں ،روحانیت میں برکت ڈالے، ان کو حفاظت میں رکھے اور جیسا کہ میں نے کہا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف نبھانے والے ہوں۔ مشکلات میں گِھرے ہوئے لوگوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو دور فرمائے، پریشانیاں دور فرمائے۔ خود غرض علماء کے شر سے بچنے کے لیے بھی دعا کریں، اِنہوں نے بھی شر پھیلایا ہوا ہے خاص طور پر پاکستان میں، اسی طرح بعض افریقہ کے ممالک میں بھی۔ ہر طاقتور شریر کے شر سے معصوم جانوں کے بچنے کے لیے دعا کریں۔ اس عید پر پاکستان میں خاص طور پر یہ شور بھی ہے اور ہمیشہ ہوتا ہے، اس دفعہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے کہ احمدی اگر عید پر جانور کی قربانی کریں گے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا، ان کو سزا دی جائے گی۔ پس اس قسم کے شریروں کے شر سے بھی اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کو ہم پورا کرنے والے ہوں۔ اس کے لیے بھی ہمیں بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور یہ دعا بھی بہت زیادہ کرنی چاہیے ،جو مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ہے وہ کیا ہے یہی کہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرائے اور دنیا میں توحید کا قیام ہو۔ یہ مخالفت کی باتیں صرف پاکستان کی بات نہیں، افریقہ میں بھی بعض جگہ پہ باہر سے لوگ جا کر وہاں کے مقامی لوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور ان میں مخالفت پیدا ہو رہی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان پر وہ قائم ہیں، مضبوط ہیں اور کسی مخالفت کی پروا نہیں کر رہے بلکہ جان لینے کی بھی دھمکیاں دی گئیں اس کے باوجود وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔ اسی طرح افریقہ میں بھی بعض جگہ ہماری مساجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں بھی حالات پیدا کرے کہ وہ جماعتی مساجد بھی جن پر دشمن غلط طریقے سے قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے واپس ملیں۔ بہرحال مجموعی طور پر ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحم کے وارث بنتے چلے جائیں۔

ان شاء اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ آج بھی اپنے وقت پہ ہی ہو گا۔ اب ہم دعا کر لیتے ہیں، لیکن دعا سے پہلے میں سب احباب کو دنیا میں پھیلے ہوئے سب احمدیوں کو آپ سب کو عید مبارک بھی کہتا ہوں۔ ابھی خطبے کے بعد دعا ہو گی۔

٭خطبہ ثانیہ، دعا٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button