خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍نومبر2020ء

ہم نے یہی کوشش کرنی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت ﷺ کے جھنڈے تلے لائیں۔ یہی تحریکِ جدید کا بھی مقصد ہے

اس سال جماعتہائے احمدیہ عالمگیر کو تحریک جدید کے مالی نظام میں 14.5 ملین یعنی ایک کروڑ چون لاکھ پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتاہے میری توجہ حاصل کرنے کے لیے، میری رضا حاصل کرنے کے لیے خالص ہو کر میری رضا کے حصول کے لیے جب خرچ کرو گے تو پھر میرا وعدہ ہے کہ میں تمہارے خوف بھی دور کروں گا، تمہارے غم بھی دور کروں گا، تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان کروں گا ،تمہیں تسلی دوں گا، تمہیں اپنی گود میں لے لوں گا

قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی ہیں بشرطیکہ ان قربانیوں کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو

تحریکِ جدیدکے چھیاسیویں سال کے کامیاب اور بابرکت اختتام اور ستاسیویں سال کے آغاز کا اعلان

اس سال تحریک جدید کے تحت مالی قربانی کرنے والے پہلے دس ممالک میں جرمنی، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، پھر مشرقِ وسطیٰ کا ایک ملک، بھارت، آسٹریلیا، انڈونیشیا، گھانا اور پھر مشرقِ وسطیٰ کا ایک اَور ملک شامل ہیں

دنیا بھرمیں بسنے والے، مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے احمدی مرد و زن اور بچوں نیز نومبائعین کی بے مثال قربانیوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے الٰہی افضال کا تذکرہ

موجودہ حالات میں عالَمِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍نومبر2020ء بمطابق 06؍نبوت1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾


اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔ (البقرة 275)


وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی، چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متعدد جگہ مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس آیت میں بھی ہم نے دیکھا مومنوں کی اس خصوصیت کا ذکر فرمایا ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ کی راہ میں رات دن خرچ کرتے رہتے ہیں اور یہ خرچ ان کا چھپ کر بھی ہوتا ہے اور دکھا کر بھی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دونوں طریق قبولیت کا درجہ پاتے ہیں یعنی مخفی خرچ بھی اور ظاہر خرچ بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا کہ ان مومنوں کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہوتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے

وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللّٰهِ (البقرة :273)

یعنی اللہ کی رضا کے حصول کے لیے وہ خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی رضا کے حصول کے علاوہ کبھی خرچ ہی نہیں کرتے یعنی ان کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتا ہے۔ پس ایک حقیقی مومن کی یہی نشانی ہے کہ وہ نیکیاں بجا لائے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے پاکیزہ مال سے خرچ کرے۔ دن اور رات نیکیاں بجا لانے کی فکر ہو۔ کبھی ظاہر کرکے نیکی کرے، کبھی چھپ کر نیکی کرے۔ کبھی ظاہر طور پر مالی قربانی کرے، کبھی چھپ کر مالی قربانی کرے۔ یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی ہیں بشرطیکہ ان قربانیوں کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ اگر صرف دکھاوے کی قربانیاں ہیں تو پھر ایسی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاتیں۔ یہ قربانیاں ان دکھاوے کی قربانیاں کرنے والوں کے منہ پر ماری جاتی ہیں۔ پس یہ ہے وہ روح جس کو سامنے رکھ کر ایک مومن کو قربانی کرنی چاہیے اور یہ ہے وہ روح جس کو سامنے رکھتے ہوئے افرادِ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیاں کرتے ہیں۔ اگر یہ روح نہیں تو ہماری قربانیاں بے فائدہ ہیں اور رائیگاں جانے والی ہیں اگر یہ قربانیاں اس غرض کے لیے ہو رہی ہیں کہ فلاں شخص نے اتنی قربانی کی ہے اور مَیں نے اس سے زیادہ قربانی کرنی ہے تو بے فائدہ ہے یا فلاں جماعت یا حلقہ کہیں قربانی میں ہم سے زیادہ بڑھ نہ جائے اور پھر لوگ ہمیں کیا کہیں گے۔ مسابقت کی روح بےشک اچھی چیز ہے لیکن یہ فکر کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے یہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم ان سے زیادہ قربانی کرنے والے ٹھہریں پھر تو یہ مسابقت کی روح ہے۔ یا اس لیے چندہ دے رہے ہیں کہ لوگوں کو فخر سے بتائیں کہ مَیں نے اتنا چندہ دیا ہے یا کبھی کسی اختلاف پر انتظامیہ کو جتلا ہی دیا کہ مَیں اتنی مالی قربانی کرنے والا ہوں میرا حق بنتا ہے کہ میری فلاں بات مانی جائے یا فلاں سہولت مجھے مہیا کی جائے یا کسی کو یہ خیال آ جائے کہ مَیں اتنی مالی قربانی کر کے خلیفہ وقت یا عہدیداروں کی نظر میں آ جاؤں گا اور میری تعریف ہو گی تو یہ سب باتیں غلط ہیں، بے فائدہ ہیں، فضول ہیں اور قربانی کی روح کے خلاف ہیں بلکہ الٹا نقصان کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب باتیں غلط ہیں، میرے راستے میں خرچ کرنا ہے تو پھر صرف اور صرف ایک مقصد ہونا چاہیے کہ میری رضا حاصل کرنی ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ عزت بھی دیتا ہے لیکن عزت اسے عاجزی اور انکساری میں اَور بڑھانے والی ہونی چاہیے بلکہ اس بات پر اسے شرمندگی ہوتی ہے کہ لوگ میری تعریف کریں۔ خلیفہ وقت کی نظر میں آنے کی اگر خواہش ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ میرے لیے وہ دعا کریں اور ایک پختہ تعلق پیدا ہو۔ جس شخص کی بیعت کی ہو قدرتی بات ہے انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی دعاؤں سے بھی حصہ لے۔ اگر خلافت حقہ پر یقین ہے تو ایسی خواہش میں کوئی حرج بھی نہیں ہے لیکن نیت دکھاوا نہ ہو بلکہ نیت یہی ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کروں اور اس قربانی کی وجہ سے خلیفۂ وقت میرے لیے دعا کریں کہ میں خدا تعالیٰ کے اَور قریب ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنوں اور مومنوں کی ایک دوسرے کے لیے دعائیں ہی ہیں جو ایک دوسرے کی روحانی ترقی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ پس یہ سوچ بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے میری توجہ حاصل کرنے کے لیے، میری رضا حاصل کرنے کے لیے، میری رضا کے حصول کے لیے جب خالص ہو کر خرچ کرو گے تو پھر میرا وعدہ ہے کہ میں تمہارے خوف بھی دور کروں گا، تمہارے غم بھی دور کروں گا، تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان کروں گا ،تمہیں تسلی دوں گا، تمہیں اپنی گود میں لے لوں گا۔ یہ سوچ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس گروہ کی ہے جس نے اس زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ِصادق کو مانا ہے کہ خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر مالی قربانی کرنی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پھر اس مالی قربانی کو بغیر پھل لگائے نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ تو اس لیے کیا کہ اس کی رضا حاصل ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے بسا اوقات ساتھ کے ساتھ ہی نواز دیا کبھی مال کی شکل میں کبھی کسی اَور انعام کی شکل میں اور اس کی مثالیں آئے دن ہم جماعت میں دیکھتے ہیں۔ دس بیس یا سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں یہ مثالیں ہیں بلکہ میں کہوں گا لاکھوں میں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے گزرتے ہیں اور اپنے اوپر لاگو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ پھر ان کے ایمان مضبوط ترقی کرتے ہیں۔ یقیناً ان مالی قربانی کرنے والوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے بیوی بچوں کے بھی ان پر حقوق ہیں اور یہ حقوق ادا کرنا بھی ایک مومن کا فرض ہے۔ اپنے بیوی بچوں کو حق سے محروم رکھنا ،ان کی ضروریات کو پورا نہ کرنا بھی گناہ ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قناعت پیدا کرتے ہوئے اور اپنے گھر والوں کو قناعت کی اہمیت بتاتے ہوئے اور احساس دلاتے ہوئے مالی قربانی کی طرف توجہ بھی کرنی چاہیے اور کروانی چاہیے اور پھر ایسے لوگوں کی اولادیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ ایسے ایسے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اس وقت مَیں بعض قربانی کرنے والوں پر قربانیوں کی وجہ سے جو فضل ہوئے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مال خرچ کرنے کی طرف تحریک ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح نوازا اس کے چند واقعات پیش کروں گا ۔اور یہ واقعات اس لیے بھی بعض دفعہ پیش کرنے فائدہ مند ہوتے ہیں کہ اس سے دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہوتی ہے اور بعض لوگ لکھتے بھی ہیں کہ ان واقعات نے ہم پر اثر کیا اور ہمیں بھی مالی قربانی کی تحریک پیدا ہوئی اور پھر ہم نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے مشاہدہ کیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’قرآن کہتا ہے کہ تم ایسا مت کرو کہ اپنے سارے کام لوگوں سے چھپاؤ بلکہ تم حسبِ مصلحت بعض اپنے نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجا لاؤ جب کہ تم دیکھو کہ پوشیدہ کرنا تمہارے نفس کے لیے بہتر ہے اور بعض اعمال دکھلا کر بھی کرو جب کہ تم دیکھو کہ دکھلانے میں عام لوگوں کی بھلائی ہے تا تمہیں دو بدلے ملیں اور تا کمزور لوگ ……تمہاری پیروی سے اس نیک کام کو کر لیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’…… نہ صرف قول سے لوگوں کو سمجھاؤ بلکہ فعل سے بھی تحریک کرو کیونکہ ہر ایک جگہ قول اثر نہیں کرتا بلکہ اکثر جگہ نمونے کا بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 31-32)

پس یہ واقعات جو میں بیان کرتا ہوں یا آج کروں گا ان کے بارے میں لوگ تو نہیں لکھتے کہ بیان کریں بلکہ خود بیان کرتا ہوں تا کہ اس نمونے کا نیک اثر لوگوں پر ہو بلکہ بعض تو لکھ دیتے ہیں کہ اگر بتانا بھی ہے تو ہمارا نام نہ لیں۔ بہرحال اب میں کچھ واقعات پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ واقعات ان لوگوں کے لیے بھی دوہرے ثواب کا باعث بنیں جن کے ساتھ یہ واقعات گزرے۔ ایک ثواب تو یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کی اور ایک یہ کہ ان کے نمونوں اور واقعات کی وجہ سے دوسروں کو بھی مالی قربانیاں کرنے کی تحریک پیدا ہوئی یا ہو گی اور مالی قربانی کا ادراک پیدا ہوا یا ہو گا۔

بیعت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کس طرح مال کو خرچ کرنے کی تڑپ ہوتی ہے۔جلسہ سالانہ 2020ء کا جو اختتامی خطاب تھا، جلسے کی جو تقریر میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اوپر کی تھی اس بارے میں مبلغ البانیا صمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک البانین دوست جعفر کوچی صاحب یہ خطاب سن رہے تھے اور میں نے اس میں ان کی قبولِ احمدیت کا ذکر بھی بیان کیا تھا ۔ مبلغ سلسلہ یہ لکھتے ہیں کہ اگست تک ان کی کوئی آمدنی نہیں تھی۔ ایک روز نماز جمعہ کے بعد پوچھنے لگے کہ دوسرے احمدی لڑکے جو چندے دیتے ہیں مجھے بھی ان کی تفصیل بتائیں۔ چنانچہ انہیں دوبارہ سے چندہ جات کا تعارف کروایا گیا، پہلے بھی کروایا تھا۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ اسی ماہ ان کا فلیٹ کرائے پر لگا ہے اور انہیں کرایہ وصول ہوا ہے۔ اس پہلی آمد میں سے شرح سے کافی زیادہ چندہ لے کر آئے۔ چنانچہ موصوف نے کہا کہ جو شرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے اس کی ادائیگی کے بعد باقی جو رقم بچتی ہے وہ تحریک جدید اور وقف جدید میں ڈال دیں۔ کہتے ہیں میں نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں وعدہ ہے کہ وہ مالی قربانی کرنے والوں کو بڑھا کر دیتا ہے تو موصوف کہنے لگے کہ میں نے اس نیت سے چندہ نہیں دیا۔ میں نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے چندہ دیا ہے۔ اس نیت سے دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے کہ دین کی خاطر مالی قربانیاں بھی کرو اور اسلام کا یہ حکم ہے کہ دین کی خاطر مالی قربانی کرنی چاہیے اور اب یہ باقاعدہ ہر ماہ چندہ بھی ادا کرتے ہیں۔ تو ان دنیا داروں کی یہ سوچ بھی ایک دم میں بدل جاتی ہے۔

سرور صاحب ارجنٹائن کے مبلغ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ارجنٹائن میں کورونا وائرس اور عمومی انفلیشن (Inflation)کی وجہ سے عوام کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود نومبائعین کو بتایا گیا کہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے اور جماعت احمدیہ میں اس الٰہی حکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک شاخ تحریک جدید کی سکیم بھی ہے تو اس پر لوکل نومبائعین نے بڑھ چڑھ کر اپنی حیثیت کے مطابق قربانیاں پیش کیں۔ اس میں ایک فاطمہ ویرونیکا (Fatima Veronica) صاحبہ ہیں ان کو غیرمعمولی قربانی کی توفیق ملی۔ موصوفہ بیوہ ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ان کی معمولی سی تنخواہ ہے۔ جب سب نومبائعین کو اجتماعی طور پر تحریک کی گئی کہ سال ختم ہونے میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں تو موصوفہ نے مبلغ کو ،کہتے ہیں مجھے پیغام بھیجا کہ ابھی ان کو استطاعت نہیں ہے لیکن یہ اگلے کچھ دنوں میں کوشش کریں گی کہ کچھ رقم جمع کروا دیں۔ چنانچہ کچھ دنوں بعد ہی موصوفہ نے پانچ ہزار ارجنٹین پیسوز جمع کروا دیے۔ مبلغ لکھتے ہیں، ان کی حیثیت کے مطابق بلکہ ارجنٹائن کےعمومی معاشی حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے یہ غیر معمولی رقم تھی۔ کہتے ہیں ان کا یہ جذبہ دیکھ کر مَیں نے ان کو کہا کہ مَیںآپ کا بہت زیادہ شکرگزار ہوں۔ اس پر کہنے لگیں کہ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ کہتی ہیں مَیں نے اسلام دلی خوشی سے قبول کیا ہے۔ اس کو سمجھ کے قبول کیا ہے اور اس کے احکامات میں سے ایک یہ حکم ہے کہ دین کی خاطر قربانیاں کی جائیں۔ میں تو بلکہ شرمندہ ہوں کہ اپنے کام کی مصروفیت کی وجہ سے دین کی خاطر وقت کی قربانی اس طرح پیش نہیں کر سکتی جیسا کہ ایک احمدی مسلمان کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ یہ انقلاب ہے جو مسیح موعود کی جماعت میں کامل وفا کے ساتھ شامل ہونے والوں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کس طرح حاصل کرنی چاہیے۔ اس کے لیے کیا کوشش کرنی چاہیے اور کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔

انڈونیشیا، دنیا کا ایک اور دوسرا سِرا، وہاں جزائر ہیں۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ٹنگرینگ (Tangerang) شہر کی ایک خاتون مَرْسِیْلَا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی۔ انہوں نے کاروبار شروع کیا مگر منافع نہیں ہوا۔ پھر آن لائن موٹر سائیکل ٹیکسی میں کام شروع کیا۔ اس میں بھی وہی مشکلات پیش آتی رہیں یہاں تک کہ حالت یہ ہو گئی کہ سوچتے تھے کہ اگلے دن کے لیے کھانے کو کچھ ملے گا بھی کہ نہیں۔ کہتی ہیں ہماری خواہش تھی کہ رمضان میں ہم تحریک جدید کے وعدے کو پورا کر دیں اور میرے شوہر، کہتی ہیں، مجھے صرف دعا کے لیے کہتے تھے دعا کرو کہ وعدہ پورا ہو جائے۔ کہتی ہیں رمضان میں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھے کہہ رہا ہے کہ کیا تم نے کوئی وعدہ کیا ہوا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ اس وعدے کو پورا کرو۔ جب آنکھ کھلی تو تہجد کا وقت تھا۔ تہجد کے بعد سحری کے وقت مَیں نے یہ خواب اپنے میاں کو بتایا۔ چند دن بعد میرے میاں جب گھر آئے تو بڑی خوشی سے کثیر رقم دے کر کہا کہ جلد سے جلد تحریک جدید کا وعدہ پورا کرو۔ جب میرے میاں آن لائن موٹر سائیکل ٹیکسی کے کام کا منافع جو پچاس ہزار انڈونیشین روپے تھا، لینے کے لیے بینک میں گئے تو دیکھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں اس سے بیس گنا زیادہ رقم موجود ہے۔ کہتی ہیں ہمیں نہیں معلوم کہ یہ پیسے کہاں سے آئے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ محض خدا تعالیٰ کی تائید تھی جو اس نے ہماری نیت دیکھتے ہوئے ہم پر انعام کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ فکروں اور غموں سے نکالتا ہے۔

امیر صاحب انڈونیشیا ہی بیان کرتے ہیں لامپونگ (Lampong) کے ایک گاؤں کی احمدی خاتون نور صاحبہ ہیں۔ وہ روزانہ اپنے خاوند کے ساتھ کسی ایلیمنٹری سکول کی دکان میں چیزیں بیچتی ہیں۔ کہتی ہیں اس میں زیادہ منافع تو نہیں ہے لیکن روزمرہ ضروریات اور چندہ ادا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ہر ماہ بڑے شوق سے چندہ ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دو مہینے کے لیے سکول بند ہو گئے اور آمدنی ختم ہو گئی۔ بہت پریشانی ہوئی کہ چندہ کیسے ادا کریں گے۔ ان کو خیال آیا کہ ان کے اور ان کے بیٹے کے پاس ایک منی باکس (money box)ہے، بُوگی ہے جس میں انہوں نے پیسے جمع کررکھے ہیں۔ اس میں جمع کرتے رہتے تھے، ڈالتے رہتے تھے۔ اس کو توڑ کر تحریک جدید اور وقف جدید کے لیے دے دیتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کو مالی قربانی کی اہمیت کے بارے میں سمجھایا اور بچوں کی یہ رقم چندے میں ادا کر دی۔ وہ کہتی ہیں کہ رمضان سے پہلے گھر میں صرف ایک پیالہ چاول باقی تھے جو دو بچوں کے لیے بھی کافی نہیں تھا۔ کہتی ہیں میں نے بچوں کے لیے ناشتہ بنایا۔ بچوں نے چاول اور پانی سے ناشتہ کیا۔ بچے پوچھتے تھے کہ آپ کیوں ہمارے ساتھ چاول نہیں کھاتے؟ تھوڑے تھے۔ ماں باپ نے قربانی کی تو مسکرانے کے علاوہ ہمارا کوئی جواب نہیں تھا۔ دوپہر کا وقت آگیا۔ پھر بچوں کو بھوک لگی۔ تھوڑے سے چاول بچے تھے۔ ایک بچہ ہی کھا سکتا تھا دوسرے کو بھوک لگی وہ رونے لگا ۔کہتی ہیں ہم اس وقت دعا کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ نماز پڑھی اور بہت دعائیں کیں۔ کچھ ہی دیر بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آئی اور کوئی شخص آیا جسے اپنے مکئی کے کھیت میں کام کروانے کے لیے مزدور کی ضرورت تھی۔ چنانچہ میرے خاوند کو کام مل گیا اور ہماری ضرورت پوری ہو گئی۔

حافظ عطاء الحلیم صاحب مربی سلسلہ مالی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ایک ستّر سالہ معمر احمدی یاتارا تراوڑے صاحب ہر ماہ باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے ہیں اور نظام ِوصیت میں بھی شامل ہیں۔ یہ چندہ ادا کرنے کے لیے سات کلومیٹر کچا رستہ سائیکل پر طے کر کے آتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کی زمین پر ساتھ والے گاؤں کے چیف نے قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھے۔ انہوں نے مجھے بھی یہاں دعا کے لیے خط لکھا اور باقاعدگی کے ساتھ کچھ زائد رقم بھی چندے میں ادا کرنا شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اسی جج نے جو پہلے ان کے خلاف فیصلہ دے چکا تھا اس نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ان کی زمین ان کو واپس مل گئی جس کی کوئی امید نہیں تھی کیونکہ گاؤں کا چیف بڑا آدمی تھا اور اثر و رسوخ والا تھا اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جج چیف کے خلاف فیصلہ دے دے گا۔ انہوں نے نہ صرف اپنے گاؤں میں بلکہ ریجن میں آ کر مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد تمام لوگوں کے سامنے اس نصرتِ الٰہی کا واقعہ بیان کیا اور جس سے دوسرے لوگ بھی بڑے متاثر ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ خوف کو بھی امن میں بدلتا ہے۔

امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ایک دوست نے بتایا کہ مَیں نے اس سال اپنا تحریک جدید کا وعدہ گذشتہ سال کی نسبت دوگنا کر کے ایک ہزار یورو کا لکھوایا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آمدنی بالکل کم ہو گئی اور بظاہر ممکن نہیں لگ رہا تھا کہ وعدہ پورا ہو گا۔ میں نے کچھ قرض بھی لیا ہوا تھا اور اس کی بھی ادائیگی کرنی تھی اور ہزار یورو کا وعدہ پورا کرنا تھا جو بڑا مشکل لگ رہا تھا۔ دعا کے علاوہ کوئی رستہ نہیں تھا۔ دل میں یہی تھا کہ جو بھی تنخواہ ہو گی چاہے کھاؤں یا نہ کھاؤں کچھ بھی ہو جائے لیکن میں نے اپنا وعدہ ضرور پورا کرنا ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل اور احسان کے ساتھ اسی ہفتے مجھے میرے مالک کی طرف سے لاک ڈاؤن کے دوران کام کرنے کی وجہ سے بعینہٖ میرے وعدے کے مطابق ایک ہزار یورو بونس کے طور پر مل گئے۔ کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ کے حضور جو مَیں نے وعدہ کیا تھا تو یہ فقط اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملا ہے ورنہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرا مالک مجھے اس مشکل وقت میں اتنا زیادہ بونس دے دے گا۔

لاک ڈاؤن کا ذکر آیا تو بتا دوں کہ آج سے پھر یہاں چار ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے۔ اس لیے آج مسجد میں بھی کوئی نمازی خطبے میں اس وقت میرے سامنے نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہی کہا ہے کہ خطبہ تو آپ دے سکتے ہیں لیکن سوائے مؤذن کے اَور کوئی نہ ہو۔

کینیڈا سے ایک سیرین احمدی نے مجھے لکھا اور یہ بھی ساتھ لکھا کہ اگر کہیں بیان کرنا ہی پڑ جائے تو میرا نام نہ ظاہر کریں۔ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے نئے مرکز کے بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے میں نے وعدہ کیا تھا کہ تحریک جدید میں مَیں اس خوشی میں پانچ ہزار کینیڈین ڈالر ادا کروں گا۔ انہوں نے گذشتہ سال کا وعدہ کیا تھا۔ کہتے ہیں ان دنوں میری آمد چار ہزار ڈالر ماہانہ تھی اور اچھے حالات تھے۔چند ماہ بعد ہی میں نے نئی گاڑی خرید لی اور جاب بھی تبدیل کر لی پھر آمد بڑھ گئی لیکن پھر بھی اچھے حالات ہونے کے باوجود اتنی کشائش نہیں تھی کہ بہت کھلی ہو اور میں پانچ ہزار وعدہ پورا کر سکوں کیونکہ میں سیریا اپنے گھر والوں کو بھی کچھ رقم بھیجتا تھا اور روزانہ دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ میرا چندے کی ادائیگی کا سامان کر دے۔ کہتے ہیں جنوری 2020ء میں ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایک ماہ کام نہیں کر سکا۔ ماہوار اخراجات کے لیے پھر قرض بھی لینا پڑ گیا۔ پھر کورونا کی وجہ سے مالی حالات مزید خراب ہو گئے، لاک ڈاؤن ہو گئے حتی کہ فروری مارچ کے مہینوں میں میاں بیوی سستا ترین کھانا خرید کرکھاتے تھے اوراس پر مجبور تھے۔ بڑی کوشش تھی کہ سال ختم ہونے سے قبل یہ وعدہ بھی پورا کر سکیں۔ دعا کرتے تھے کہ کم از کم سال ختم ہونے سے پہلے نہیں بلکہ رمضان میں ہی پوری ادائیگی کر دیں لیکن ہمیں یہ خواب لگ رہا تھا۔ کہتے ہیں پھر میں نے ٹیکسی کا کام چھوڑ کر کھانے کی ڈلیوری کا کام شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات بہتر ہونے لگے پھر ہم نے دوبارہ عزم کیا اور رمضان ختم ہونے سے قبل وعدہ پوراکرنے کا عہد کیا تاکہ خلیفہ وقت سے دعائیں بھی لے سکیں۔ پھر کہتے ہیں اپنے کام کا وقت بڑھا کر روزانہ گیارہ سے بارہ گھنٹے کام کرنے لگا۔ اس کے بعد ایسی ایسی جگہوں سے انکم آنے لگی کہ ہمیں کوئی علم نہیں تھا اور میری ماہوار آمد نو ہزار ڈالر کے قریب ہو گئی۔ کہتے ہیں اس طرح اللہ کے فضل سےہم نے آغاز رمضان سے دس دن قبل ہی وعدہ ادا کر دیا۔ یہ بھی لکھتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ اگر میرا وعدہ اس سے تین گنا بھی زیادہ ہوتا تو سال ختم ہونے سے پہلے میں وعدہ ضرور پورا کر لیتا۔ یہ اپنے غریب رشتے داروں کی سیریا میں مدد بھی کرتے ہیں۔

سیرالیون کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں فری ٹاؤن کے عثمان صاحب ہیں جو ایک جماعت کے امام ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ویسے تو ہم ہر سال چندہ تحریک جدید ادا کرتے ہیں مگر اس سال خیال آیا کہ جو چندہ ہم ادا کرتے ہیں وہ بہت ہی معمولی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری کوئی ملازمت نہیں ہے۔ صرف ایک چھوٹی سی دکان ہے جو میں اور میری اہلیہ چلاتے ہیں۔ اس سے کوئی خاص آمدنی بھی نہیں ہوتی صرف گھر کا مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ بار بار تحریک جدید کے چندے کی ادائیگی کا اعلان سنتے رہے۔کہتے ہیں میری اہلیہ نے کہا کہ ایک کیش بکس بناتے ہیں اور ہر روز کچھ رقم اس میں ڈال دیں گے۔ اکتوبر کے آخر میں جو کچھ اکٹھا ہو گا وہ تحریک جدید میں ادائیگی کر دیں گے۔ گذشتہ سالوں میں ہم نے کبھی بھی بیس ہزار لیون سے زائد ادائیگی نہیں کی تھی لیکن اس سال کہتے ہیں کہ اللہ کے فضل سے اس طریقے سے ہم نے دو لاکھ لیون سے زائد ادائیگی کی ہے۔ میرے دوسرے دو بھائیوں نے بھی اس طریقے کو استعمال کیا اور انہوں نے بھی ایک لاکھ تیس ہزار لیون کی ادائیگی کی ہے۔ کہتے ہیں میری اہلیہ خاص طور پر ایسا کرنے سے بہت خوش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سال ہمیں اچھی مالی قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح کرنے سے ہماری قربانی کا معیار بھی بہتر ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آمدن میں بھی اضافہ ہوا اور اب اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ سکھایا ہے اس کو ہم جاری رکھیں گے۔

مارشل آئی لینڈز امریکہ سے بھی پرے ایک اَور دور دراز کا علاقہ ہے۔ یہاں کے مبلغ ساجد اقبال صاحب لکھتے ہیں کہ مارشل آئی لینڈز میں ایک ناصر کیوشی راکن (Kioshi Rakin) صاحب ہیں۔ دوران سال جب احباب جماعت سے تحریک جدید کے وعدے لیے جا رہے تھے تو کیوشی (Kioshi) صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس تو کوئی نوکری نہیں ہے، رہنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ کھانے پینے کے لیے بھی جماعت کے لنگر پر انحصار ہے۔ اس پر ہم نے ان کو کچھ عرصے کے لیے مسجد میں رہنے کے لیے جگہ دے دی اور ساتھ انہیں کہا کہ خواہ معمولی سی رقم ہی کیوں نہ ہو آپ کچھ نہ کچھ وعدہ لکھوا دیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے۔ اس پر انہوں نے دو امریکن ڈالر کا وعدہ لکھوا دیا۔ چند ماہ کے بعد یہ مشن آئے اور پچاس ڈالرز تحریک جدید میں پیش کر دیے۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعاؤں کو قبول فرما لیا ہے۔ مجھے نوکری بھی مل گئی ہے اور رہنے کے لیے اپارٹمنٹ بھی مل گیا ہے۔ اب وہ اپنا کھانے پینے کا انتظام بھی خود کرنے کے قابل ہو گئے ہیں اور ایمان کی تقویت کے لیے دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ایسے طریقے سے مدد فرماتا ہے کہ ہمارے مبلغین بھی بعض دفعہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔

امیر جماعت گیمبیا لکھتے ہیں کہ بَصّےمیں تحریک جدید کے حوالے سے پروگرام کیا گیا۔ وعدہ جات ادا کرنے کے حوالے سے توجہ دلائی گئی۔ اس پروگرام میں موسیٰ صاحب بھی شریک تھے۔ ان کے پاس چندے میں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ بہت بے چین ہوئے اور تہجد میں اٹھ اٹھ کر خدا تعالیٰ کے حضور اس کا فضل مانگتے ہوئے جھکتے کہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں شامل ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دلی خواہش کو قبول فرمایا۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ یہ جس کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ پر کام کرتے تھے انہوں نے کہا کہ وہ بَصّے میں دو دن کا ایک پروگرام کر رہے ہیں جس میں یہ شامل ہوں تو معاوضہ کے طور پر چار ہزار ڈلاسی دیے جائیں گے۔ یہ بہت خوش ہوئے اور دو دن کے پروگرام میں شامل ہونے کے بعد اپنے وعدے کو بڑھا کر دو ہزار ڈلاسی کر دیا۔ چندے کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آمدن کے مزید ذرائع پیدا فرما دیے۔ دوسرے احمدی بھائیوں کو بھی تحریک جدید کی اہمیت اور مالی قربانی کی تحریک کرتے رہتے ہیں۔

طلحہ علی صاحب فلپائن کے صدر جماعت ہیں، مربی بھی ہیں۔کہتے ہیں کہ فلپائن کی پرانی جماعتوں میں سے ایک سمیونول جماعت ہے۔ یہاں اکثریت تدریس کے پیشے سے وابستہ لوگ ہیں۔ اس جماعت کے صدر صاحب نے اپنے ٹارگٹ سے بڑھ کر وصولی کے بعد خاکسار کو میسج (Message)کر کے کہا کہ تین اساتذہ کو خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ انہیں مارچ سے تنخواہ نہیں ملی مگر اس کے باوجود تینوں نے تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ قربانی کر کے بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اب دیکھیں کہ دور دراز علاقوں میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی کس طرح قربانی کرتے ہیں۔

کبابیر سے شمس الدین صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ الخلیل فلسطین میں نئی جماعت ہے۔ یہاں اکثر احباب جماعت کی مالی حالت بہت کمزور ہے مگر اللہ کے فضل سے سب نے تحریک جدید میں حصہ لیا۔ ابراہیم صاحب الخلیل کے ایک نومبائع احمدی ہیں۔ موصوف بیعت کرتے ہی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اس بار ایک اچھی رقم انہوں نے تحریک جدید کے لیے ادا کی ہے۔ یہ موصوف کہتے ہیں کہ ایک دوست میرا قرض دار تھا جو کسی مجبوری کے سبب قرض واپس نہیں کر رہا تھا۔ کافی وقت انتظار کرتا رہا۔ اب چونکہ تحریک جدید کا چندہ میرے ذمے ہے، کچھ مالی مشکلات بھی ہیں، جو رقم ملنے والی ہے اس کی امید بھی نہیں رہی۔ بہرحال جب امیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو کچھ انتظام کر کے میں نے چندہ تحریک جدید ادا کر دیا۔ میری حالت کو سمجھنے کے بعد امیر صاحب نے کہا کہ اب تو آپ تحریک جدید کا چندہ فی سبیل اللہ ادا کر چکے ہیں تو پھر اللہ ضرور برکت دے گا۔ چنانچہ امیر صاحب کے نکلنے کے چندگھنٹے بعد ہی میرے قرض دار نے مجھے پیسے واپس کیے اور میری تمام پریشانیاں دور ہو گئیں۔

ویزبادن (Wiesbaden)جرمنی سے ایک دوست دفتر تحریک جدید میں تشریف لائے اور بتایا کہ میرا اسائلم کیس ایک ایسے جج کے پاس ہے جو کیس منظور نہیں کرتا تھا۔ تحریک جدید کے حوالے سے پروگرام میں ایمان افروز واقعات سنے۔ یہ سن کر میں نے ارادہ کیا کہ ایک ہزار یورو تحریک جدید میں ادا کروں گا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میرا کیس اس جج سے ایک دوسرے جج کے پاس چلا گیا اور اللہ کے فضل سے کیس منظور ہو گیا۔ اب اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی مطلوبہ رقم جو وعدے والی رقم تھی وہ دے دی۔

سیکرٹری تحریک جدید یوکے کہتے ہیں برٹن جماعت کے ایک دوست کے پاس کام نہ تھا۔ تحریک جدید کا چندہ ادا کرنے سے اگلے روز ہی اس کو مناسب کام مل گیا۔ برٹن جماعت کے ایک اَور دوست کو مالی پریشانی تھی تاہم چندہ تحریک جدید ادا کر دیا۔ چنانچہ کچھ عرصے بعد انہیں HMRC، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے خط موصول ہوا کہ تمہاری پچھلے سال زائد ادائیگی ہوئی تھی۔ یہ رقم ان کے چندے کی رقم سے کہیں زیادہ تھی۔ ایک پروفیشنل دوست کو کام پر پریشانی تھی ۔کسی نے اس کی بے جا شکایت کر دی تھی۔ اس نے اپنا تحریک جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ وہ شخص جس نے شکایت کی تھی اس کو فارغ کر دیا گیا۔ الٹا شکایت کرنے والے کو فارغ کر دیا گیا۔ ایک دوست کی کار گڑھے میں گر گئی۔ اس نے سوچا کہ اگر یہ سلامت باہر آ گئی تو مزید چندہ تحریک جدید ادا کروں گا۔ چنانچہ گاڑی بغیر نقصان کے باہر آ گئی۔ انہوں نے ایک ہفتہ کی آمدنی کے مطابق چندہ تحریک جدید ادا کر دیا۔ ایک طفل نے اپنا چھ ماہ کا جیب خرچ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔ بچے بھی مالی قربانیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک خادم نے چھٹیوں پر جانے کے لیے رقم بچا کے رکھی ہوئی تھی یہ تمام رقم تحریک جدید کے چندے میں ادا کر دی۔ بارکنگ (Barking)اور ڈیگنہم (Dagenham)کے صدر جماعت کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ہم نے تحریک جدید کا ٹارگٹ ضرور پورا کرنا ہے خواہ اپنی جیب سے زائد ادا کرنا پڑے۔ چنانچہ جو ٹارگٹ کم رہ گیا تھا وہ انہوں نے اپنی طرف سے ادا کر دیا۔ اس کے بعد انہیں اپنی جاب کی طرف سے اطلاع ملی کہ انہیں گذشتہ سال کی نسبت اس سال ستر فیصد زائد بونس ملے گا جو رقم انہوں نے اضافی طور پر چندے میں ادا کی تھی یہ بونس کی رقم اس سے کہیں زیادہ تھی۔

قازقستان سے لینار عبدالرحمانوف کہتے ہیں: میں باقاعدگی سے چندہ عام،جلسہ سالانہ، تحریکِ جدید اور وقفِ جدید ادا کرتا ہوں۔ یہ مختلف قوموں کے مختلف لوگ ہیں۔ اور ان چندوں کی یہ برکت ہے کہ میری بیوی نے میڈیکل کالج ختم کر کے حکومت کے پروگرام میں نوکری حاصل کی اور حکومت نے بچوں کی رہائش کے لیے قرض فراہم کیا اور بچے نرسری میں پڑھ رہے ہیں اور اب مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور اب میں ذاتی مکان بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور چندہ ادا کرنے کا نتیجہ ہے۔ پہلے ہم کرائے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ مالی مشکلات تھیں لیکن پھر بھی ہم چندہ دیتے رہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر بےحد فضل فرمایا۔

گذشتہ سال جب تحریک جدید کا میں نے اعلان کیا ہے تو گنی بساؤ کے مربی محمد احسن صاحب لکھتے ہیں کہ ایک احمدی دوست محمد ابراہیم صاحب کہتے ہیں کہ اس روز اعلان سن کے، خطبہ سن کے، انہوں نے اپنا وعدہ لکھوا دیا اور ارادہ کیا کہ ہر ماہ ادا کرتا رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا لیکن کورونا وبا کے ایام میں آمدن بند ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ اس وقت پریشانی ہوئی پھر جب تحریک جدید کے سال کا اختتام قریب پہنچا تو پریشانی اَور بڑھ گئی۔ کہتے ہیں میں دعا کرتا رہا۔ ایک صبح کسی صاحب کی جانب سے فون موصول ہوا۔ اس نے پوچھا کہ کیا آپ تعمیراتی بلاکس بنا سکتے ہیں؟ میں نے فوراً حامی بھرلی۔ چنانچہ گھر بیٹھے بیٹھے کام مل گیا اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کرنے کا سبب پیدا فرما دیا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو مالی تنگی پیدا ہوئی تھی وہ بھی دور ہو گئی۔ ابراہیم صاحب کہتے ہیں یہ تمام برکات خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے ہیں۔

تنزانیہ کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ زنجبار سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ احمدی خاتون آمنہ بی بی صاحبہ ہر سال اپنی محدود آمدن کے باوجود چندہ جات کی ادائیگی میں سرفہرست رہتی تھیں۔ اس سال بھی جب رمضان المبارک میں مالی قربانی کی تحریک کی گئی تو انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسی مہینے میں اپنا وعدہ مکمل کر دیں لیکن بعض مالی مشکلات کی وجہ سے ان کے پاس رقم میسر نہ ہوسکی۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن مجھے اس امر کا اتنی شدت سے احساس ہوا کہ میں رات کو اٹھ گئی اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر عرض کی کہ خلیفہ وقت کی تحریک پر لبیک کہنے کا وقت ہے اور میں اس سے محروم رہی جاتی ہوں۔ چنانچہ اسی دن صبح ان کے ایک عزیز کا ٹیلیفون آیا جس سے ایک مدت سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے عزیز نے اپنی طرف سے کچھ رقم بطور تحفہ بھجوائی جس سے انہوں نے اپنا چندہ ادا کر دیا۔ وہ خود بتاتی ہیں کہ چندہ ادا کرنے کی وجہ سے ہمیشہ میرا خدا میرے ساتھ پیار کا معاملہ رکھتا ہے اور کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔

قادیان سے وکیل المال صاحب لکھتے ہیں کیرالہ کی جماعت کیرولائی کے ایک دوست کا تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ روپے کا ہے۔ انہوں نے کچھ رقم اپنی فرم کے فرنیچر کی خریداری کے لیے رکھی ہوئی تھی اور وقت پر رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں فرم کا کام روکنا پڑنا تھا لیکن اسی وقت چندہ تحریک جدید کی ادائیگی کا بھی مطالبہ تھا۔ انہوں نے چندے کی اہمیت کے پیش نظر وہ رقم چندے میں ادا کر دی۔ اس خلوص ِنیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ تھوڑی دیر میں چندے میں پیش کی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں کسی طرف سے جمع ہو گئی اور فرم کے لیے جو سامان مہیا کیا جانا تھا وہ منگوالیا ۔اس کے بعد موصوف کو بہت بڑی رقم کا، کئی ملین روپے کا پراجیکٹ ملا اور اپنے وعدے کے علاوہ ایک خطیر رقم تقریباً بارہ لاکھ روپے تحریک جدید کے لیے پیش کیے۔

پھر انڈیا سے ہی عبدالباسط صاحب انسپکٹر لکھتے ہیں کہ کیرالہ کی ایک جماعت ’’کوچین‘‘ میں تحریک جدید کے حوالے سے جلسے کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک جدید کے اغراض و مقاصد کے بارے میں بیان کیا گیا۔ احباب جماعت کو تحریک جدید کی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کی گئی۔ جلسے کے ختم ہونے کے بعد ہم صدر صاحب کے گھر گئے تو صدر صاحب کی بیٹی جس کی عمر آٹھ سال ہے وہ اپنا منی باکس لے کرآگئی کہ مولوی صاحب اس میں جتنی بھی رقم ہے وہ چندہ تحریک جدید میں جمع کر لیں۔اس وقت اس کے باکس میں تقریباً آٹھ سو چونسٹھ روپے تھے جو بچی نے چندہ تحریک جدید کے لیے پیش کیے۔ اس کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک عرصے سے یہ رقم چندہ تحریک جدید میں دینے کی نیت سے ہی جمع کر رہی تھی۔ باپ نے کہا جب میں اپنی دکان سے واپس آتا تو میری جیب میں جو بھی سکّے ہوتے وہ مجھ سے لے کر جمع کر لیتی ۔کہتی وہ سکّے مجھے دے دیں۔ اور اپنے بُوگی میں ڈال لیتی۔ اس طرح اس بچی نے کئی مہینوں سے جمع کی ہوئی رقم چندے میں ادا کر دی۔ یہ ادراک ہے مالی قربانی کا جو احمدی بچوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیا ہے۔

بیعت کرنے کے بعد کس طرح قربانی کی فکر ہوتی ہے! صمد صاحب البانیا سے لکھتے ہیں کہ البانیا کے ایک گاؤں میں مقیم دالیب جرجی (Dalip Gjergji) صاحب یہ لوکل احمدی ہیں۔ ایک دن جمعہ کے بعد ملے۔ یہ پنشنر ہیں اور معمولی آمد کے باوجود ہر ماہ باقاعدگی سے چندہ ادا کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر جمعہ پر آتے تھے اور حالیہ وبا کی وجہ سے کافی عرصہ بعد جمعہ پر آئے۔ جمعہ کے بعد کہنے لگے کہ دل پر بوجھ سا تھا کہ اتنے مہینوں سے چندہ ادا نہیں کیا۔ یہ اپنے ساتھ آٹھ ماہ کا چندہ لائے ہوئے تھے اور چندہ عام کے علاوہ تحریک جدید اور وقف جدید کا چندہ بھی ادا کیا۔ اس طرح اَور بےشمار مثالیں ہیں مثلاً تنزانیہ سے ایک معلم حسین صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مخلص احمدی صالح مٹونگا صاحب ہیں۔ بڑھ چڑھ کر دلی خوشی سے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بیمار ہو گئے۔ علاج کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ مہینے کے آخر پرجب ان کو پینشن کے پیسے ملے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنے تحریک جدید کے وعدے کو مکمل کیا۔ کہتے ہیں میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی۔ آپ اس رقم سے پہلے اپنا علاج کروائیں پھر اپنا وعدہ مکمل کر لیں لیکن انہوں نے کہا خدا تعالیٰ کی ذات شفا عطا کرنے والی ہے۔ اس لیے پہلے میں اپنا خدا سے کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا پھر اپنا علاج کرواؤں گا۔ قربانی کے بھی یہ عجیب معیار ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ان نئے آدمیوں پر بھی جو شامل ہوئے ہیں کس طرح اللہ تعالیٰ نے دور دراز علاقوں میں یہ اہمیت واضح کر دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بیعت میں آ کر ان لوگوں میں ایک انقلاب پیدا کر دیا ہے۔

گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں ایک علاقے میں تحریک جدید کے مطالبات کے حوالے سے پروگرام کیا گیا۔ اسلام کے لیے زندگی وقف کرنے، سادہ زندگی اپنانے اور ادنیٰ سے ادنیٰ کام میں شرم نہ کرنے کے حوالے سے توجہ دلائی گئی۔ چنانچہ اس پروگرام کے بعد ایک دوست ابراہیم صاحب نے بتایا کہ وہ ایک ہزار ڈلاسی چندہ تحریک جدید میں پیش کر رہے ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے واحد بیٹے کو، ان کا اکلوتا بیٹا ہے، اس کو زندگی وقف کر کے مربی سلسلہ بننے کے لیے بھجوائیں گے۔ اب یہ بیٹا سیکنڈری سکول میں ہے تو یہ ان کی نیت ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ مربی بنے۔

گھانا سے آدم صاحب جنرل سیکرٹری اکرازون لکھتے ہیں کہ مجھے زونل صدر صاحب نے پچاس گھانا سیڈی کی رقم بطور کرایہ دی۔ میں نے یہ رقم چندہ تحریک جدید میں ادا کر دی۔ اگلی صبح افسر کے ساتھ کسی کام کے لیے گیا۔ واپس آنے لگا تو افسر نے پوچھا کہ واپس کس طرح جاؤ گے؟ میں نے کہا ٹیکسی پر جاؤں گا۔ اس پر افسر نے مجھ سے میرا فون مانگا اور کہنے لگا اپنا فون چیک کرو۔ کہتے ہیں میں نے چیک کیا تو ایک ہزار سیڈی انہوں نے مجھے موبائل کے ذریعہ سے وہاں بھیجا ہوا تھا۔ پچاس سیڈی میں نے دی تو ہزار سیڈی ملی۔ یہ تو چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کیے ہیں۔ اور بےشمار ایسے واقعات میرے پاس ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔

اب یہ جو قربانی ہوئی،مکمل کُل کتنی ہوئی؟ اس کی تفصیل بھی تھوڑی سی بیان کر دیتا ہوں جیسا کہ تحریک جدید کے اعلان کے ساتھ بیان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کا چھیاسیواں سال 31 اکتوبر کو ختم ہوا اور ستاسیواں سال شروع ہو گیا اور اللہ کے فضل سے اس سال جماعتہائے احمدیہ عالمگیر کو تحریک جدید کے مالی نظام میں 14.5 ملین یعنی ایک کروڑ چون لاکھ پاؤنڈ مالی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گذشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ لاکھ بیاسی ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ اس سال دنیا بھرکی جماعتوں میں جرمنی اوّل رہا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی، معاشی اور سیاسی حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پاکستان کی جماعتوں نے گو دنیا کی جماعتوں کے مقابلے میں تو نہیں لیکن عمومی طور پر اپنے ملک کے لحاظ سے اپنی مقامی کرنسی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے اور قربانی پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام ملکوں میں بھی امن اور سکون پیدا کرے اور بہتری پیدا کرے جہاں معاشی اور سیاسی حالات خراب ہیں تا کہ ان لوگوں کو بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دینے کی توفیق عطا ہو۔ بہرحال مجموعی طور پر جو صورت ِحال ہے وہ یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں سے پہلا نمبر جرمنی کا ہے۔ پھر برطانیہ کا ہے۔ پھر امریکہ کا ہے۔ پاکستان کا بھی بیچ میں آ جاتا ہے۔ امریکہ نمبر تین، پھر کینیڈا، پھر مڈل ایسٹ کا ایک ملک ہے، پھر بھارت ہے، پھر آسٹریلیا ہے، پھر انڈونیشیا ہے، پھر گھانا ہے اور پھر ایک اَور مڈل ایسٹ کی جماعت ہے۔ گھانا بھی اب افریقہ کے مقابلے سے باہر نکل کے دنیا کے مقابلے پر مالی قربانی میں شامل ہو گیا ہے جو اب امریکہ اور یورپ اور دوسرے ممالک سے مقابلہ کرتا ہے۔

اسی طرح فی کس ادائیگی کے لحاظ سے سوئٹزرلینڈ پہلے نمبر پر ہے، پھر امریکہ ہے، پھر سنگاپور ہے۔ تین جماعتوں میں یہ ہیں۔ باقی بھی ہے۔ باقی تفصیل بعد میں۔

افریقن ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں یہ ہیں۔ پہلے نمبر پہ گھانا ہے، پھر نائیجیریا ہے، پھر بورکینا فاسو ہے، پھر تنزانیہ ہے، پھر گیمبیا ہے، پھر سیرالیون ہے۔ یہاں سیرالیون جماعت کافی بڑی اور پرانی جماعت ہے۔ ان کے امیر صاحب کو اور متعلقہ عہدیداروں کو کوشش کرنی چاہیے کہ اگر صحیح طرح مالی قربانی کا جماعت کے افراد کو احساس دلائیں تو افراد جماعت تو قربانیاں کرنے کو تیار ہیں۔ ان کو توجہ کرنی چاہیے۔ پھر بینن ہے۔ بینن میں بھی اللہ کے فضل سے بڑی کوشش ہوئی ہے۔ نائیجر اور بینن میں فی کس ادائیگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بینن میں فی کس ادائیگی میں مقامی کرنسی کے لحاظ سے چھ گنا اضافہ ہوا ہے اور نائیجر میں آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے باوجود اس کے کہ حالات کی وجہ سے ان کی جو شاملین کی تعداد تھی وہ کم تھی لیکن مجموعی رقم گذشتہ سال سے زیادہ یا اتنی ہو گئی۔ شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد سولہ لاکھ آٹھ سو ہے اور اس میں جو قابلِ ذکر افریقن ممالک ہیں جن میں گذشتہ سال کی نسبت اضافہ ہو اہے ان میں نمبر ایک گھانا ہے، پھر بورکینا فاسو ہے، پھر مالی ہے، پھرسینیگال ہے، پھر گیمبیا ہے، کانگو کنشاسا ہے، تنزانیہ ہے، لائبیریا ہے، کینیا ہے، سینٹرل افریقہ ہے، ساؤتومے ہے، کانگو برازاویل ہے اور زمبابوے ہے۔ باقی دوسری بڑی جماعتوں میں بنگلہ دیش، جرمنی، کینیڈا، بھارت، آسٹریلیا اور برطانیہ کے شاملین میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔

دفتر اوّل کے کھاتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ ہزار نو سو ستائیس افراد کے ہیں جن میں سے تینتیس حیات ہیں اور وہ اپنے چندے خود ادا کر رہے ہیں اور تین ہزار ایک سو انیس کھاتے ان کے ورثاء کے ذریعے سے جاری ہیں۔ باقی دوہزار سات سو پچہترکھاتے مخلصین جماعت کی طرف سے جاری ہیں۔

جرمنی کیونکہ مجموعی طور پر ساری دنیا میں فرسٹ ہے اس لیے نمبر ایک پہ جرمنی کا ہی جائزہ پیش کیاجائے گا۔ جرمنی کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ان میں مہدی آباد (Mehdi-Abad)، نمبر ایک، پھر روئڈر مارک(Rödermark)، نوئس(Neuss)، نیدا(Nidda)، کولون(Köln)، پنے برگ(Pinneberg)، اوسنا بروک(Osnabrück)، فلؤرزہائم(Flörsheim)، کیل(Kiel)، فرائنز ہائم(Freinsheim) ہے اور لوکل امارتیں جو ہیں ان میں ہیمبرگ(Hamburg)، ڈٹسن باخ(Dietzenbach)، فرینکفرٹ(Frankfurt)، گروس گیراؤ(Gross-Gerau)، ویزبادن(Wiesbaden)، مورفلڈن(Mörfelden)، من ہائم(Mannheim)، ریڈشٹڈ(Riedstadt)، روسلزہائم(Rüsselsheim)، ڈامشٹڈ(Darmstadt) ہے۔

اس کے بعد پھر نمبر دو پہ برطانیہ ہے تو برطانیہ کی جماعتوں کی پوزیشن یہ ہے۔ بیت الفتوح ریجن نمبر ایک پہ ہے۔ مسجد فضل ریجن، اسلام آباد ریجن، پھر مڈ لینڈز(Midlands) ریجن اور بیت الاحسان ریجن۔ مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی دس بڑی جماعتیں آلڈرشاٹ(Aldershot)، اسلام آباد، پھر مسجد فضل، پھر ووسٹر پارک(Worcester Park)، پھر برمنگھم ساؤتھ(Birmingham South)، جلنگھم(Gillingham)، پٹنی(Putney)، ساؤتھ چیم(South Cheam)، برمنگھم ویسٹ (Birmingham West) اورچیم (Cheam) ہیں۔ مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کی پانچ چھوٹی جماعتیں سپِن ویلی(Spen Valley) کیتھلی(Keighley)، سوانزی(Swansea)، نارتھ ویلز(Noth Wales)، نارتھ ہیمپٹن(Northampton) ہیں۔

اس کے بعد مجموعی وصولی کے لحاظ سے یہ امریکہ آ گیا لیکن میرا خیال ہے پہلے پاکستان کا بیان کر دوں ۔ پاکستان میں جو جماعتوں کا موازنہ ہے وہ یہ ہے کہ لاہور نمبر ایک پہ، ربوہ دوسرے نمبر پہ، کراچی تیسرے نمبر پہ ہے۔ ضلعی سطح پر جو زیادہ قربانی کرنے والے دس اضلاع ہیں ان میں اسلام آباد، پھر سیالکوٹ، پھر گجرات، پھر گوجرانوالہ، حیدرآباد، میرپور خاص، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، عمر کوٹ، چکوال کوٹلی ہے۔ چکوال علیحدہ ہونا چاہیے ۔کوٹلی علیحدہ ہونا چاہیے۔ پتہ نہیں اکٹھا کیوں لکھ دیاہے۔ یا دونوں ایک ہی پوزیشن میں ہیں۔

وصولی کے اعتبار سے زیادہ قربانی کرنے والی پاکستان کی جو شہری جماعتیںہیں وہ امارت ڈیفنس لاہور، امارت شہر راولپنڈی، امارت ڈرگ روڈ کراچی، امارت مغل پورہ لاہور، امارت ٹاؤن شپ لاہور، امارت عزیزآباد کراچی، امارت گلشن اقبال کراچی، پشاور، کوئٹہ، امارت دہلی گیٹ لاہور ہیں۔

امریکہ کی جو جماعتیں ہیں ان میں میری لینڈ(Maryland) پہلے نمبر پر ہے، پھر لاس اینجلیس(Los Angeles) ہے، سلیکون ویلی(Silicon Valley) ہے، پھر سینٹرل ورجینیا(Central Virginia) ہے، سیاٹل(Seattle) ہے، اوش کوش(Oshkosh) ہے، پھر ڈیٹرائٹ(Detroit) ہے، پھر شکاگو(Chicago) ہے، ساؤتھ ورجینیا(South Virginia) ہے، ہیوسٹن(Houston) ہے، اٹلانٹا ہے(Atlanta) اور بوسٹن(Boston) ہے۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی لوکل امارات میں سے وان(Vaughan) ہے، پھر پیس ولیج(Peace Village) ہے، پھر کیلگری(Calgary) ہے، پھر وینکوور(Vancouver) ہے، ٹورانٹو ویسٹ(Toronto West) ہے، مسس ساگا(Mississauga) ہے، برامپٹن(Brampton) ہے، برامپٹن ایسٹ(Brampton East) ہے، پھر سسکاٹون(Saskatoon) ہے، پھر ٹورانٹو(Toronto) ہے۔ کینیڈا کی چھوٹی جماعتوں میں بریڈ فورڈ(Bradford)، ہیملٹن ماؤنٹین(Hamilton Mountain)، ایڈمنٹن ویسٹ(Edmonton West) اور رجائنا(Regina) اور ہیمِلٹن ایسٹ(Hamilton East) ہیں۔

پھر بلحاظ قربانی انڈیا کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں اس میں کوئمبٹور (Coimbatore) نمبر ایک پہ ہے، پھر کرولائی(Karulai)، پھر قادیان(Qadian)، پھر پتھ پریم(Pathapiriyam)، پھر حیدرآباد (Hyderabad)،کنانور ٹاؤن(Kinanoor Town)، کولکتہ(Kolkata)، کالی کٹ(Calicutt)، بنگلور(Bangalore) ، ماتھاٹم(Mathatum)۔ پہلے دس جو صوبہ جات ہیں ان میں کیرالہ(Kerala) نمبر ایک پہ ہے، پھر تامل ناڈو(Tamil Nadu)، پھر کرناٹک(Carnatic)، پھر جموں وکشمیر(Jammu Kashmir)، پھر تلنگانہ(Telangana)، پنجاب(Punjab)، اڑیسہ(Odissa)، بنگال(Bengal)، دہلی(Delhi)، مہاراشٹرا(Maharashtra) ہیں۔

آسٹریلیا کی پہلی دس جماعتیں جو ہیں ملبرن لانگ وارن(Melbourne Long Warren)، کاسل ہل(Castle Hill)، ملبرن بیروک(Melbourne Berwick)، مارسڈن پارک (Marsden Park)، ایڈیلئڈ ساؤتھ(Adelaide South)، پین رتھ(Penrith)، اےسی ٹی کینبرا(ACT Canberra) ایڈیلائڈ ویسٹ(Adelaide West)، ماؤنٹ ڈروئٹ (Mount Druitt)، پیرا ماٹا (Paramatta)۔

یہ سب جماعتوں کے موازنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے اور ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے۔ اس کے ساتھ ہی اب مَیں جیسا کہ میں نے کہا تحریک جدید کے ستاسیویں سال کا بھی اعلان کرتا ہوں جو اب شروع ہوا ہے۔ ان شاء اللہ یکم نومبر سے وہ شروع ہو چکا ہے۔

اب میں اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آج کل بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ دعاؤں کی طرف توجہ کریں۔ ہم اپنے لیے اور جماعت کے لیے تو دعائیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے عمومی طور پر بھی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آج کل مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم دنیا کے بعض ممالک کے لیڈر بڑے بغض اور کینہ کے جذبات رکھتے ہیں اور ظاہر ہے لیڈر جو ہیں وہ اس جمہوری دور میں عوام کو خدا سمجھ کر ان کی خواہش کے مطابق اپنے بیان اور پالیسیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا خود ہی بعض دفعہ ان کو غلط رہنمائی کر کے اس طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا نہیں ہے بلکہ تم ہی سب کچھ ہو۔ یہ لوگ جہاں کھل کر بیان نہیں بھی دیتے وہاں بھی دلوں میں اسلام کے خلاف نفرتیں اور تحفظات لیے ہوئے ہیں اور عوام الناس کا ایک بڑا حصہ بھی اسلام سے صحیح واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف ہے۔ بہرحال ہم نے دعاؤں کے ساتھ، کوشش کے ساتھ دنیا کو بتانا ہے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔ گذشتہ دنوں کھل کر اگر کسی مغربی لیڈر کا بیان آیا ہے، ویسے تو کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ سیاسی طور پہ لپٹے لپٹائے فقرات بیان کر کے یا اس طرح گول مول سے الفاظ میں بیانات آتے رہتے ہیں لیکن کھل کے کسی لیڈر کا بیان آیا تو وہ فرانس کا صدر تھا۔ اس نے اسلام کو کرائسس کا شکار مذہب قرار دیا ہے۔ کرائسس کا شکار اگر ہے تو خود ان کا اپنا مذہب ہے۔ اوّل تو وہ کسی مذہب کو مانتے ہی نہیں، عیسائیت کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ کرائسس کا شکار تو یہ ہیں۔ اسلام تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ مذہب ہے اور پھلنے پھولنے والا مذہب ہے اور پھل پھول رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری لیے ہوئے ہے۔ اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اس کی تبلیغ دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل رہی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کی یہ مخالف قوتیں یا لوگ اس لیے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں ایکا نہیں ہے۔ یہاں کینیڈا کے وزیراعظم کا بہرحال میں تعریف کے رنگ میں ذکر کر دوں۔ انہوں نے فرانس کے صدر کے بیان پر بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا اور مذہبی لیڈروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کاش کہ باقی دنیا کے لیڈر بھی وزیراعظم کینیڈا کی سوچ اور بیان کو ذرا غور سے دیکھنے والے ہوں اور دنیا کے امن اور سکون کو قائم کرنے کے لیے اس پر عمل کریں۔ بہرحال یہ کینیڈا کے وزیراعظم صاحب اس لحاظ سے قابل تعریف ہیں اور ہمیں ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مزید ان کا سینہ کھولے۔

بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں ایکا نہیں ہے اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔مسلمانوں کا ہر ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف ہے۔ فرقہ واریت نے باہر کی دنیا میں یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مسلمانوں میں پھوٹ ہے۔ اگر دنیا کو پتہ ہو کہ مسلمان ایک ہیں، ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں دینا جانتے ہیں تو کبھی غیر مسلم دنیا کی طرف سے ایسی حرکتیں نہ ہوں۔ کبھی کسی اخبار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے چھاپنے کی جرأت نہ ہو۔ چند سال پہلے بھی ڈنمارک میں بھی اور فرانس میں بھی جو خاکے چھپے تھے اس پہ وقتی شور مچا کر اور ان کی چیزوں کا بائیکاٹ کر کے، نہ خریدنے کا اعلان کر کے پھر خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔ چند مہینوں کے بعد خاموشی ہو گئی۔ اُس وقت بھی جماعت احمدیہ نے ہی صحیح ردّ عمل دکھایا تھا اور ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت سیرت پیش کی تھی جس کی بہت سے غیروں نے، پڑھے لکھے طبقے نے، لیڈروں نے، عوام الناس نے تعریف کی تھی اور پسند کیا تھا اور یہی کام ہم آج بھی کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ چند سرپھرے لوگوں کے اسلام کے نام پر غلط عمل کو اسلام کا نام نہ دو۔ کسی ملک کے صدر کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی شخص کے غلط عمل کو اسلام کی تعلیم اور مسلمانوں کے لیے کرائسس کا نام دے کر پھر اپنے لوگوں کو مزید بھڑکایا جائے کہ ان کے خلاف ہماری یہ لڑائی ہے اور یہ لڑائی ہم جاری رکھیں گے۔ اس شخص کو غلط عمل پر بھڑکانے والے بھی تو یہ خود ہی ہیں۔ میں نے پہلے بھی یہ بیان دیا تھا کہ یہ خاکے وغیرہ بنانا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی رنگ میں کرنا کسی بھی غیرت مند مسلمان کو برداشت نہیں ہے اور یہ حرکتیں بعض مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہیں اور بھڑکاتی ہیں اور پھر اگر کسی سے کوئی خلاف ِقانون حرکت سرزَد ہو جائے، اگر کوئی شخص قانون اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کے ذمہ دار پھر یہ غیرمسلم لوگ ہیں، یہ حکومتیں ہیں یا نام نہاد آزادی ہے جس کو فریڈم آف ایکسپریشن کا نام، اظہارِ خیال کا نام دیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ غیر مسلم دنیا ان کے جذبات بھڑکاتی ہے۔ میں نے اس وقت بھی جب پہلی دفعہ یہ معاملہ اٹھا تھا خطبات کے ایک سلسلہ میں صحیح ردّعمل کی وضاحت کی تھی کہ ہمیں کس طرح صحیح ردّ عمل کرنا چاہیے اور کیا دکھانا چاہیے اور اس کا جیسا کہ میں نے بتایا کہ لوگوں پر اچھا اثر بھی ہوا تھا اور ابھی تک ہم مسلسل وہ کیے جا رہے ہیں اور اسی طریقے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پھر ہالینڈ کے سیاستدان نے جو ایک بیان دیا تھا تو اس وقت بھی ہالینڈ میں مَیں نے ایک خطبہ دیا تھا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا تھا بلکہ اس پر اس نے ہالینڈ کی حکومت کو درخواست بھی دی تھی کہ اس نے مجھے موت کی دھمکی دی ہے اور میرے خلاف اس نے ہالینڈ کی حکومت کو یہ کہا تھا کہ اس کا یہاں آنا بین کیا جائے بلکہ اس پہ مقدمہ چلایا جائے۔ تو بہرحال ہم تو جہاں تک ہو سکتا ہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے خلاف ہونے والی ہر حرکت کا جواب دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے اور یہی حل پیش کرتے ہیں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قدم ہمیں اٹھانا چاہیے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے اور گذشتہ کئی خطبات میں مَیں اس بات کی تحریک کر چکا ہوں اور باوجود ہمارے بارے میں غیر احمدی علماء کے سخت بیان کے ہم اسلام کے دفاع میں اسلام کی حقیقی تعلیم کی روشنی میں اپنا کام کرتے چلے جائیں گے اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

ایک یا دو یا چار آدمی کو قتل کرنے سے وقتی جوش تو نکل جاتا ہے لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ مسلم امہ اگر مستقل حل چاہتی ہے تو تمام مسلمان دنیا اکٹھی ہو۔ اب بھی فرانس کے صدر کے جواب میں ترکی کے صدر نے جواب دیا یا ایک دو اور ملکوں نے ردّ عمل ظاہر کیا تو یہ بات اتنا اثر نہیں ڈال سکتی جتنا کہ تمام مسلمان ممالک کے ایک ردّ عمل کا اثر ہو سکتا ہے۔ گو یہ کہا جاتا ہے کہ ترکی وغیرہ کے ردّ عمل پر فرانس کے صدر نے اپنا بیان بدلا اور کچھ نرم کیا کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا، میرا مطلب یہ تھا۔لیکن ساتھ ہی اپنی بات پر بھی قائم رہا ہے کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ ٹھیک کر رہے ہیں۔لیکن اگر چوّن پچپن مسلمان ممالک ایک زبان ہو کر بولتے تو پھر وہ فرانس کا صدر اگر مگر کی بات نہ کرتا ۔ پھر اس کو مجبوراً بہرحال معافی مانگنی پڑتی، گھٹنے ٹیکنے پڑتے۔

بہرحال مَیں یہاں مختصر اتنا ہی کہنا چاہتا تھا کہ دعا کریں کہ مسلمان ممالک کم از کم غیروں کے سامنے ایک ہو کر آواز اٹھائیں پھر دیکھیں کتنا اثر ہوتا ہے۔ ہم تو اپنا کام کیے جا رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ کہ مسیح محمدیؐ کے ماننے والوں کا یہ کام ہے، یہ فرض ہے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خوبصورت چہرے کو دنیا کو دکھائیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہ لے آئیں۔ دنیا کو بتائیں کہ تمہاری بقا اسی میں ہے کہ خدائے واحد کو پہچانو اور ظلموں کو ختم کرو۔ کچھ عرصہ پہلے کووڈ کے دوران میں نے چند سربراہانِ حکومت کو دوبارہ خط لکھے تھے۔ فرانس کے صدر کو بھی مَیں نے لکھا تھا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے الفاظ میں یہ تنبیہ بھی کی تھی کہ یہ عذاب اور آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظلموں کی وجہ سے آتے ہیں اس لیے تمہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظلموں کو ختم کرو اور انصاف کو قائم کرو اور حق پر مبنی بیان دو۔ ہم نے جو اپنا فرض تھا پورا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ اب یہ کسی کی مرضی ہے کہ چاہے وہ اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن ہم نے بہرحال امّت مسلمہ کو دعاؤں میں نہیں بھولنا۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو بھی پہچان لیں اور دنیا کو عمومی طور پر بھی سوچنا چاہیے کہ ایسی باتیں کرکے اگر وہ خدا سے دور ہٹتے چلے گئے تو ان کی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور عمومی طور پر ہم نے بھی یہ کوشش کرنی ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید کے نیچے لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانا یہی تحریک جدید کا مقصد بھی ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ دنیا کے عمومی حالات کے لیے بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں اس بیماری سے جب جان چھوٹے تو یہ نہ ہو کہ ایک اور آفت جنگ عظیم کی صورت میں ان پر نازل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے اور خدائے واحد کو پہچان کر اس کا حق ادا کرنے والے بنیں۔

(الفضل انٹر نیشنل 27؍نومبر 2020ء صفحہ 5تا11)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button