اختلافی مسائل

لفظ ’خاتَم‘ عربی لغت و محاورے میں کیا معنی رکھتا ہے؟

آنحضرتﷺ دنیاوی لحاظ سے، بظاہر اُمّی تھے لیکن آپؐ کا استاد عالم الغیب اور مالک دوجہاں تھا۔ آپؐ سے بڑھ کر کوئی شخص عربی محاورہ سے واقفیت نہیں رکھ سکتا تھااورنہ ہی آپؐ سے بڑھ کر کوئی فصیح و بلیغ کبھی ہوا۔ آپؐ پر ہی آیت خاتم النبیین نازل ہوئی اور کوئی بھی اس آیت کا مطلب و مفہوم آنحضرتﷺ سے بہتر نہیں سمجھ سکتا۔

جماعت احمدیہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ ’خاتم النبیین‘ سے مراد انبیاء کو ختم کردینے والا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبیٔ اکرم ﷺنے آیت خاتم النبیین کے موجود ہونے کے باوجود آخری زمانے میں امتِ محمدیہ میں خدمت اسلام کے لیے ’مسیح نبی اللہ‘ کے آنے کی بشارت دی ہے۔ کسی حدیث میں خدمت اسلام کے لیے ’مسیح ولی اللہ‘ کے آنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب تک مسلمانوں کے تمام بڑے فرقے اور عالم اسلام کی اکثریت، آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین ماننے کے باوجود خدمت اسلام کے لیے مسیح نبی اللہ کے آنے کی قائل ہے۔

اگر ہمارے مسلمان بھائیوں کے عقیدہ کے مطابق عربی زبان کے محاورے میں ’خاتَم النبیین‘ کا ترجمہ زمانے کے لحاظ سے آخری نبی ہوتا، اور آپﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا تو آنحضرتﷺ کبھی بھی خدمت اسلام کے لیے، امت محمدیہ میں آخری زمانے میں مسیح نبی اللہ کے آنے کی بشارت نہ دیتے۔ دیگر قرائن کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کا مسیح نبی اللہ کے نزول کی بشارت دینا اور مسلمانوں کے تمام بڑے فرقوں میں اس بشارت کا تواتر سے ملنا ہماری رہ نمائی کررہا ہے کہ خاتم النبیین کا مطلب زمانے کے لحاظ سے آخری نبی نہیں ہے۔

جب خاتم النبیین کا مطلب زمانے کے لحاظ سے آخری نبی نہیں بنتا تو پھر سوال یہ ہے کہ خاتم کا مطلب کیا ہے۔ چنانچہ عربی کے اس محاورے کی کنہ میں پہنچنے کے لیے جب ہم عربی زبان میں اس کے استعمال کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ زبان کئی انداز سے اس محاورے کو استعمال کرتے ہیں جن میں سے ایک لفظ خاتَم کو بطور مہر لینا ہے، ایک انگوٹھی ہے، ایک افضل و اعلیٰ ہے وعلیٰ ہٰذا القیاس۔ اس وقت اس لفظ کے معنی بطور ’افضل‘ کی مختصرتفصیل پیش خدمت ہے۔

حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کو ’خاتَم الاولیاء‘کہا گیا۔ کیا حضرت علیؓ آخری ولی ہیں؟کیا امت محمدیہ میں ان کے بعد اور کوئی ولی نہیں آیا؟ اسی طرح مشہور شاعر ابو تمام کو ’خاتَم الشعراء‘ کہا گیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدّث دہلوی کو ’خاتَم المحدثین‘ کہا گیا۔ مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خاں صاحب کو بھی ’خاتم المحدثین‘ لکھا گیا۔ گویا جہاں کسی شخص کی ایک خاص شعبہ میں تعریف بیان کرنا مقصود ہوتا اسے یہ خطاب دیا گیا۔ گویا مقام مدح میں ایک مخصوص طبقہ اور شعبہ میںصاحب کمال لوگوں کا ’خاتَم‘ کہا گیا یعنی اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ وہ شخص ان تمام لوگوں سے اعلیٰ و افضل ہے یا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ عربی زبان میں کثرت سے یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ ایسی بیسیوں مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہے کہ اہل عرب اور دوسرے محققین علماء کے نزدیک جب بھی کسی ممدوح کو ’خاتم الشعراء‘ یا ’خاتم الفقہاء‘ یا ’خاتم المحدثین‘ یا ’خاتم المفسرین‘ کہا جاتا ہے تو اس کے معنے بالعموم بہترین شاعر، سب سے بڑا فقیہ، سب سے بلند مرتبہ محدث یا مفسر کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں حضرت علیؓ کے لیے جب ’خاتم الاولیاء‘ کا لقب استعمال کیا گیا تو مراد ایک عظیم الشان ولی کی لی گئی۔ ابو تمام کو جب ’خاتم الشعراء‘ کہا گیا تو مراد سب سے اعلیٰ و افضل شاعر لی گئی۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کو ’خاتم المحدثین‘ کا لقب دیا گیا تو یقیناً اس سے مراد یہ نہ تھی کہ آپ کے بعد کبھی کوئی محدث پیدا ہی نہ ہو گا۔ الغرض جب عربی محاورے کا مفہوم عربی زبان کے استعمال کے مطابق کیا جائے یعنی جب ’خاتم النبیین‘ کا ترجمہ اردو میں کیا جائے تو اس کا مطلب افضل النبیین یعنی نبیوں میں سے سب سے اعلیٰ و افضل نبی کا کیا جائے گا۔

چنانچہ قرآن کریم کے عظیم مفسر حضرت علامہ فخر الدین رازیؒ (متوفی 544ھ)نے اپنی تفسیر ’’التفسیر الکبیر‘‘ میں خاتم النبیین سے مراد افضل الانبیاء ہی لی ہے۔

(تفسیر کبیر لامام رازیؒ زیر آیت رب اشرح لی صدری و یسرلی امری)

عربی زبان میں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہی ہیں۔ اردو دان طبقہ بھی اسے انہی معانی میں استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں دو مثالیں درج ذیل ہیں۔

٭…مولوی ثناء اللہ امرتسری۔ خاتَم المناظرین

مولوی ثناء اللہ امرتسری جماعت احمدیہ کے چوٹی کے مخالف تھے۔ اہلحدیث میں ان کا شمار نامور اور مشہور علماء میں کیا جاتا ہے۔ ان کے سوانح حیات سیرت ثنائی کے نام سے جناب عبد المجید خادم صاحب نے لکھے ہیں۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 18 پر مولوی ثناء اللہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ

’’آپ کو اگر خاتم المناظرین بھی کہہ دیا جائے تو شاید نامناسب نہ ہوگا۔ ‘‘

(سیرت ثنائی۔ سوانح حیات شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری۔ مکتبہ قدوسیہ۔ اردو بازار لاہور۔ صفحہ 18)

پھر اسی صفحہ پر مولوی ظفر علی خاں صاحب کی آپ کے متعلق رائے درج ہے:

’’آپ پر حاضر جوابی ختم تھی۔ ‘‘(ایضاً صفحہ 18)

آج کل سوشل میڈیا پر جماعت احمدیہ کے خلاف کئی نام نہاد علماء اپنے آپ کو مناظرکے طور پر مشہور کرتے ہیں۔ ان کے تیار کردہ ویڈیو کلپس میں بھی ’مناظرہ‘ و ’مباحثہ‘ جیسے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ اگر تو یہ افراد واقعی ’مناظر‘ ہیں تو پھر مولوی ثناء اللہ صاحب یعنی ’خاتم المناظرین‘ کے ہونے کے بعد کیسے کوئی مناظر پیدا بھی ہو سکتا ہے۔ان علماء کی اپنی تعریف کے مطابق تو مولوی ثناء اللہ صاحب کے بعد کوئی مناظر نہیں آسکتا۔ پھر ان کا اپنے آپ کو عظیم الشان مناظر کہنا کیا عوام الناس کو دھوکا دینے کے مترادف ہے؟

تعجب یہ ہے کہ مولوی ثناء اللہ صاحب اور اُنہیں ’خاتَم المناظرین‘ ماننے والے پیروکار بیک وقت نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے اپنے آپ کو مناظر کہنے پر سوال نہیں اٹھاتے بلکہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ’خاتَم النبیین‘ کا ترجمہ ایسا آخری نبی کرتے ہیں جس کے بعد کسی لحاظ سے کوئی بھی نبی نہیں آ سکتا۔ آخر ان کی کس بات کو صحیح سمجھا جائے۔

٭…شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ۔ خاتم المفسرین و المحدثین

شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ ہندوستان کے چوٹی کے عالم تھے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے علماء آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ ان کی وفات 1239ھ میں ہوئی۔ آپ کے متعلق تاریخ اہلحدیث میں لکھا ہے:

’’آپ ہندوستان بھر میں استاذ الاساتذہ خاتم المفسرین و المحدثین تھے۔ ‘‘

(تاریخ اہلحدیث۔ از مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی۔ مکتبہ قدوسیہ لاہور۔ صفحہ 464)

(مرسلہ:ساجد محمود بٹر۔ گھانا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button