متفرق مضامین

قرآن کریم کا عظیم اعلان …دنیا کے ہر خطے اور ہر قوم میں نبی آئے ہیں (قسط اوّل)

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

بہت سے نبی تاریخ کی گرد میں گم ہو گئے یا دیو مالائی کہانیوں کا حصہ بن گئے

عرب وعجم، ہند، ایران، چین، جاپان، یورپ، افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا وغیرہ میں نورانی وجودوں کا تذکرہ

اسلام کے علاوہ تمام مذاہب اور اقوام کا یہ خیال ہے کہ خدا کے فرستادے اور مامور صرف انہی کے علاقوں میں آئے ہیں اور دوسرے کسی علاقے میں خدا کا کلام نازل نہیں ہوا اس لیے وہی خدا کے سب سے چنیدہ اور بزرگ لوگ ہیں۔ ایک اور طبقہ یہ کہتا ہے کہ دنیا کے چند محدودخطوں مثلاً مشرق میں انبیاء آئے ہیں جن کا ذکر تاریخ میں موجود ہے مگر یورپ، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں کسی نبی کا ذکر نہیں ملتا اس لیے وہاں کوئی مامور اور نبی نہیں آیا۔ قرآن کریم اس خیال اور عقیدہ کی نفی کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ ربّ العالمین ہے اور اس نے تمام جنّ و انس کو عبد بننے کے لیے پیدا کیا ہے(الذاریات :57) اس لیے لازمی ہے کہ جہاں بھی انسان موجود ہو وہاں خدا کی تجلی، کلام اور الہام کا ظہور ہو اور ایسے برگزیدہ لوگ بھی موجود ہوں جو نبی اور رسول بن کر خدا کا پیغام انسان کو پہنچائیں اور پھر وہ نذیر اور بشیر بھی ہوں جو ان کی سنے اور اطاعت کرے ان کے لیے خدا کی رضا مقدر ہو اور جو انکار اور عداوت پر مصر ہوں ان کے لیے نذیر بن جائیں ۔

قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا پیغام ہمیشہ سے ایک ہی ہے اور وہ ابدی ہے اور وہ توحید کا پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

یُنَزِّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوۡحِ مِنۡ اَمۡرِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرُوۡۤا اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوۡنِ۔ (النحل:3)

یعنی وہ فرشتوں کو اپنے بندوں پر جنہیں وہ پسند کرتا ہے اپنے امر سے کلام دے کر اتارتا ہے اور رسولوں کو کہتا ہے کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ بات یہی درست ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اس لئے تم میرا ہی تقویٰ اختیار کرو۔

پس یہ ناممکن ہے کہ خدا کسی قوم کو توحید کی پہچان سے دُور رکھے کیونکہ خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ انسان خود خدا تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ خدا خود انسان کو اپنی پہچان کرواتا ہے

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (انعام :104)

یعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں لیکن وہ نظروں تک پہنچتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ قیامت کے دن یہ پوچھ گچھ بھی ہو گی :

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ (الانعام:131)


اے جنوں اور انسانوں کی جماعت !کیا تم میں سے (ہی) تمہارے پاس رسول نہیں آئے جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں آج کے دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے۔ وہ کہیں گے ہم اپنے خلاف (خود) گواہی دیتے ہیں۔ اور ورلی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال دیا اور انہوں نے اپنے خلاف (آپ یہ) گواہی دی کہ وہ کافر تھے۔

تمام خطۂ زمین پر انبیا٫کی بعثت

قرآ ن کریم حضرت آد مؑ اور شیطان کا واقعہ اور ہبوط آدم کاذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے:

یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (الاعراف:36)

اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ تمام خطہ زمین پر تمام بنی آدم کو یہ پیغام اللہ کی طرف سے دے دیا گیا کہ تمہارے پاس ہمیشہ رسول آتے رہیں گے اور ان کی پیروی کرنے والے برکت پاتے رہیں گے۔ اسی لیے تمام متمدّن اقوام میں آدم اور شیطان کا واقعہ یا ان سے ملتے جلتے قصے پائے جاتے ہیں۔

قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسانی گروہ کے لیے مامور مبعوث فرمائے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ ان کے لیے قرآن کبھی قوم کا لفظ استعمال کرتا ہے اور کبھی امت کا، قرآن کریم نے حضرت یونسؑ کی قوم کی تعداد ایک لاکھ بتائی ہے اور اس کو قوم کے نام سے موسوم کیا ہےمگر یہ سب انبیا٫ اور ان کی تعلیمات مختص القوم و الزمان تھیں کیونکہ انسانی شعور ابھی ترقی کی منازل طے کر رہا تھا جوں جوں اس میں بہتری اور وسعت ہوتی رہی آسمانی احکام بھی زیادہ وسعت اور جامعیت اختیار کر رہے تھے۔ حضرت موسیٰؑ کی تعلیما ت میں خدا کے الفاظ کم اور انسانی مفہوم زیادہ ہے یہاں تک کہ انسانی شعور جب کمال کو پہنچا تواللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے مکمل کتاب قرآن کریم نازل فرمائی جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں موجود ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لیا۔ سابقہ تعلیمات میں انسانی دستبرد بھی ہوتی رہی اور وہ صفحہ ہستی سے مٹتی بھی رہیں کیونکہ ان کا محفوظ رکھنا خدائی حکمت کے ماتحت ضروری نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان انبیا٫کے ناموں سے بھی دنیا ناواقف ہوتی گئی۔

قرآن میں مذکور انبیا٫کی حکمت

مگر جن انبیا٫کا خاص تعلق حضرت رسول کریمﷺ سے تھا ان کے نام، کام اور خصوصاًپیشگوئیوں کو اللہ تعالیٰ کی حکمت نے محفوظ رکھا۔ مثلاً حضرت آدمؑ جو اس دَور نبوت کے بانی ہیں۔ حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ جن کی قومیں خالص عرب تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ جن کی نسل سے رسول اللہﷺ نے پیدا ہونا تھا۔ حضرت موسیٰؑ اور ان کے بعد حضرت مسیحؑ تک آنے والے انبیا٫کا سلسلہ جو سلسلہ موسویہ کہلاتا ہے ان کے اور بنی اسرائیل کےحالات اس لیے محفوظ رکھے گئے کہ سلسلہ محمدیہ سلسلہ موسویہ کا مثیل ہے اور امت محمدیہ پر عام طور پر وہی حالات وارد ہونے والے تھے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے اور اس کے آخر پر مسیح ناصریؑ کی طرح مسیح موعودؑ نے آنا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ (آل عمران :34)

یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو سب جہانوں پر فضیلت دی تھی۔ ایسے ہی کئی انبیا٫کے متعلق فرمایا

تَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ

یعنی ہم نے ان کا ذکر بعد میں آنے والوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمایئے۔ حضرت نوحؑ ( الصافات: 79)حضرت ابراہیمؑ (الصافات:109)، حضرت موسیٰؑ، ہارونؑ (الصافات :120)حضرت الیاسؑ (الصافات :130)

پس قرآن کریم کا ہر بیان اور قصہ حکمت سے پُر اور پیشگوئیوں پر مشتمل ہے۔ جن انبیا٫کا ذکر کیا وہ بھی مصالح پر مبنی ہے اور جن کو چھوڑ دیا وہ بھی بلا وجہ نہیں۔ چنانچہ فرمایا:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ۔ (المومن:79)

یعنی ہم نے تجھ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں ان میں سے ہم نے بعض کا ذکر تجھ سے کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا ۔

متعدد رنگوں میں بیان

قرآن ہر قوم میں نبی اور مامور مبعوث ہونے کے مضمون کو مختلف الفاظ اور صفات کے ساتھ کئی رنگوں میں بیان کرتا ہے تاکہ کسی قسم کا شبہ اور ابہام باقی نہ رہے اور مامورین کی مختلف ذمہ داریوں کی طرف بھی اشارہ ہو۔

1۔ رسول کا لفظ استعمال کرتا ہے …

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلٌ (یونس :48) وَ لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا (نحل:37)

2۔ مرسَل کا لفظ استعمال کرتا ہے۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ۔ (الکہف:57)

3۔ ہادی کا لفظ استعمال کرتا ہے …

لِکُلِّ قَوۡمٍ ہَادٍ(الرعد:8)

4۔ نذیر کا لفظ استعمال کرتا ہے…

اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ (فاطر 25)

5۔ منذِر کا لفظ استعمال کرتا ہے…

وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِيْنَ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيْهِمْ مُنْذِرِينَ(الصافات:72تا73)

6۔ شہید کا لفظ استعمال کرتا ہے …

جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃًۭ بِشَہِیۡدٍ(النسا٫:42) یَوۡمَ نَبۡعَثُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا(النحل: 85) یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ (النحل:90) وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيْدًا (القصص:76)

7۔ شاہد کا لفظ استعمال کرتا ہے…

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا (المزمل:16)

رسول کریمﷺ کے غلام آنے والے مسیح موعود نبی اللہ کے لیے بھی شاہد کا لفظ بولا گیاہے

اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ وَ یَتۡلُوۡہُ شَاہِدٌ مِّنۡہُ(ہود:18)

8۔ مبشر کا لفظ استعمال کرتا ہے

کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ(البقرۃ:214)

9۔ امام کا لفظ استعمال کرتا ہے…

یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِہِمْ(بنی اسرائیل:72)

قرآن کئی نبیوں کا ذکر کر کے فرماتا ہے

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا(الانبیاء:74)

10۔ کتاب کا لفظ استعمال کرتا ہے …

کُلُّ اُمَّۃٍ تُدۡعٰۤی اِلٰی کِتٰبِہَا(الجاثیہ :29)

کتاب کا حامل ہی نبی یا رسول کہلاتا ہے

کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ۔ (البقرۃ:214)

11۔ منسک کا لفظ استعمال کرتا ہے…

لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا(الحج:35و68)

منسک کے معنی عبادت یا قربانی کے طریق کے ہیں جو نبی کے ذریعہ ہی مقرر ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ان آیات کو بھی شامل کر لیا جائے جن میں کہا گیا ہے کہ ہر قوم کا حساب ہو گا اور سزا ملنے کے وقت ہر قوم یہ اقرار کرے گی کہ ہمارے پاس خدا کے رسول اور نذیر آئے تھے۔ مثلاً

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ… قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا (الانعام:131)

کافروں سے کہا جائے گا

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ… قَالُوۡا بَلٰی(الزمر: 72) اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَذِیۡرٌ…قَالُوۡا بَلٰی قَدۡ جَآءَنَا نَذِیۡرٌ(الملک: تا10)وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ(الاعراف:95) وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ(سبا :35) جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا(الانعام:124)

روحانی مجرم تو نبی کی بعثت کے بعد ہی بنتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ سورۃالنحل کی آیت 124کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’’سر ولیم میور اس آیت پر لکھتا ہے کہ محمد صاحب پر اس جہالت کے زمانہ میں یہ علم منکشف ہو گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی رسالت اور نبوت تمام قوموں میں مسلسل طور پر جاری ہے۔ (اللہ تعالیٰ بعض دفعہ دشمن کے منہ سے بھی حق کہلوا دیتا ہے)‘‘

(تفسیر کبیر جلد 4صفحہ 270)

انبیا٫کے متعلق غلط عقیدہ کی وجوہ

محدود انبیاء کے متعلق غلط عقیدہ کی 3 امکانی وجوہ ہو سکتی ہیں :

1۔ روابط کا فقدان

سابقہ زمانوں میں انسانوں کے درمیان روابط کے ذرائع بہت محدود تھے بعض بڑے بڑے خطے اور آبادیاں تو کل کی دریافت ہیں مثلاً امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ۔ اس لیے انسانوں کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ دوسری قوموں میں بھی نبی آتے رہے ہیں۔

2۔ تحریری ریکارڈ کی کمی

مجموعی طور پرانسان کی تحریری زندگی بھی بہت مختصر ہے۔ بے شمار قوموں کا تحریری ریکارڈ دستیاب ہی نہیں جس سے ان کی تاریخ کا پتہ چل سکے معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں کا انکار کرنے والے خدا کے غضب کا شکار ہوگئے اور ان کے ساتھ ہی ان کی تاریخ بھی دفن ہو گئی اور بعد میں ان کا کچھ پتہ ہی نہیںچلا۔ جیسے قوم عاد اور ثمود کا قرآن میں ذکر ہے ان کی طرف حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ مبعوث ہوئے تھے۔ مدتوں مؤرخین ان کے وجود سے منکر رہے مگر گذشتہ عرصہ میں ایسے آثار ملے ہیں جن سے ان قوموں کے وجود کا ثبوت ملتا ہے اور بعینہٖ قرآن کریم کے مطابق ہے۔ اسی طرح پاکستان اور عراق کے آثار قدیمہ سے کئی ناپید تہذیبوں کے آثار ملےہیں۔ محققین اندرونی شہادتوں سے اندازہ لگا کر ان کے رہن سہن کا حال بتاتے ہیں مگر خارجی طور پر کوئی شواہد میسر نہیں۔

قرآن کریم اس تباہی کے بار ےبھی الٰہی سنت بیان فرماتاہے۔

وَ مَا کَانَ رَبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا یَّتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۚ وَ مَا کُنَّا مُہۡلِکِی الۡقُرٰۤی اِلَّا وَ اَہۡلُہَا ظٰلِمُوۡنَ (القصص :60)

یعنی تیرا ربّ جب تک کسی مرکزی بستی میں ایسا رسول نہ بھیج دے جو ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کے سنائے ان بستیوں کے مجموعہ (یعنی ملک) کو ہلاک کرنے کا ارتکاب نہیں کر سکتا تھا اور ہم بستیوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتے سوائے اس کے کہ ان کے رہنے والے ظالم ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ ایسی قوموں کا ذکر کرکے فرماتا ہے:

اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕۛ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ (ابراہیم : 10)

یعنی کیا تم تک ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود اور جو ان کے بعد آئے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قومیں اپنی تہذیب، تمدن اور تاریخ سمیت دفن کر دی گئیں اسی لیے متعدد بار قرآن کریم یہ بھی ترغیب دیتا ہے کہ ساری زمین میں پھر کے دیکھو کہ منکروں کا انجام کیسا ہوا۔ (الانعام :12)

حضرت مصلح موعودؓ سورۂ ابراہیم کی مذکورہ آیت

مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕۛ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ

کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

’مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ سے مراد ابراہیمی نسل کے سوا دوسری نسلیں ہیں۔ جن کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ یعنی کتب سماوی جو ایک حد تک محفوظ ہیں ان میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیمی زمانہ میں بھی غیر قوموں میں نبی آ رہے تھے بعض تاریخوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا زمانہ اور ثمود کا زمانہ برابر چل رہے تھے۔ اگر یہ درست ہے تو ظاہر ہے کہ اسی وقت سے ہی غیر قوموں میں نبی آرہے تھے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 449)

3۔ نبیوں کو خدا بنا لیا

قرآن حکیم یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ مذہبی قوموں نے بگڑنے کے بعد اپنے نبیوں اور بزرگوں کو خدا بنا لیااور ان کی عبادت شروع کر دی جیسا کہ فرمایا

إِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ(الاعراف:194)

یعنی جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا بلاتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ پھرفرمایا

وَقَالُوا اتَّخَذَالرَّحۡمٰنُ وَلَدًا سُبۡحٰنَہٗ ؕ بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ(انبیا٫:27)

یعنی وہ لوگ کہتے ہیں کہ رحمان خدا نے بیٹا بنا لیا ہے وہ تو اس سے پاک ہے بلکہ وہ خدا کے کچھ بندے ہیں جن کو خدا کی طرف سے عزت ملی ہے۔ پھر فرمایا

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ(بنی اسرائیل:58)

یعنی وہ لوگ جنہیں وہ پکارتے ہیں وہ بھی اپنے ربّ کے قرب کےلیے کوئی ذریعہ تلاش کرتے ہیں (یعنی یہ دیکھتے رہتے ہیں )کہ کون خدا کے زیادہ قریب ہے(تاکہ ہم اس کی مدد حاصل کریں )اوروہ ہمیشہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

اس آیت کی شرح میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

’’اس جگہ معبودان باطلہ سے مراد نبی یا فرشتے ہیں جن کو مشرک خدا تعالیٰ کا شریک قراردیتے تھے ورنہ بتوں یا ادنیٰ لوگوں پر یہ آیت کسی طرح چسپاں نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

(تفسیر صغیرصفحہ 356)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’ہر ایک قوم میں نبی آئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے نام ہمیں معلوم نہ ہوں

مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ(المؤمن:79)

لمبے زمانے گزر جانے کی وجہ سے لوگ ان کی تعلیمات کو بھول کر کچھ اور کا اور ہی ان کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب دیکھو بیچارے حضرت عیسیٰؑ وہ تو خود اپنی وفات کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خدا کا ایک عاجز بندہ اور معمولی انسان کی طرح کھاتا پیتا اور دیگر حوائجِ انسانی کا محتاج بیان کرتے ہیں اور خدائی سے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں مگر عیسائی ہیں کہ ان کو زبردستی خدا بنائے بیٹھے ہیں …‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ460، ایڈیشن1988ء)

اس صداقت کی مثال میں ہندو مت، بدھ مت، شنٹو ازم وغیرہ کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین بھی برملا اعلان کر رہے ہیں کہ اساطیر عالم کے زیادہ تر دیوی دیوتا پیغمبر ہیں اس سلسلہ میں Brandonکی تصنیف Religion in ancient history بہت قابل قدر ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ قوموں نے اپنے آباصلحا٫ اور پیشوایان مذاہب کو دیوتا بنا لیا۔ ان دیوتاؤں میں نبی بھی شامل ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ موجودہ تحقیق ہمیں بتاتی ہے کہ اقوام عالم کے زیادہ تر دیوتے اور دیویاں ان کے ہیرو تھے ان کے کارنامے عزت و تکریم سے گزر کر الوہی تقدیس پر منتج ہوئے اس طرح وہ دیوتے بن گئے۔ (صفحہ6)

جماعت احمدیہ کے تحقیقی رسالہ ماہنامہ الفرقان کے مئی 1976ء کے شمارے میں محترم شیخ عبدالقادر صاحب نے ایک بہت عمدہ مضمون اسی حوالے سے لکھا اس میں سے چند ضروری باتیں پیش ہیں :

مصر سے ایک کتبہ 3100سال پہلے کا ملا جس میں لکھا ہے کہ فراعنہ کی تباہی کے بعد ایک شامی شہزادہ غلاموں کی مدد سے برسر اقتدار آگیا اور اس نے اعلان کیا کہ جن کو تم پوجتے ہو وہ اپنے وقت کے انسان تھے تمہارے پروہت انہی دیوتاؤں کے نام پر تمہارا استحصال کرتے رہے ہیں۔ اس کتبہ کی تشریح میں ایک عالم اثریاتErich Zshrenکہتے ہیں کہ شامی شہزادہ نے بتایا کہ تم نے نیک انسانوں کو دیوتا بنا لیا مثلاً مصری آتم دیوتا کو پوجتے تھے یہ در اصل آدم ہے وہ سیتھ کی پرستش کرتے تھے یہ فرزند آدم شیث ہے۔

(The crescent and the hilal, p 330)

آج سے 2300 سال پہلے ایک یونانی عالم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یونانیوں کے بڑےبڑے دیوتے اصالتا ًپرانے زمانہ کے عظیم بادشاہ ہیں ظاہر ہے کہ وہی بادشاہ دیوتا بنے ہوں گے جو قوم کے ہادی تھے اور کردار بے مثال۔ قدیم یونان و مصر میں ہرمس Hermes کے نام پر بے بہا لٹریچر مرتب ہوا اس کے شہ پارے Gospel of Hermes میں جمع کر دیے گئے ہیں یہ ایک پیغمبر کا کلام معلوم ہوتا ہے اس کا زمانہ 2500سال پہلے کا بتایا جاتا ہےیہ مصریوں اور یونانیوں دونوں کا دیوتا ہے۔

تیسری صدی میں بابل میں پیداہونے والا ایک عالم مانی عیسائیت کے باطنی فرقوں سے متاثر ہوا وہ لکھتا ہے کہ آسمانی پیغامبر ہر زمانے میں آئے ہیں نسل انسانی کی ہدایت کے لیے ایک کے بعد دوسرا ہادی برپا ہوا۔ ہند میں بدھا ایران میں زرتشت اور مغرب میں مسیح مبعوث ہوئے مانی فرقہ کے لوگ مانتے ہیں کہ مصر میں ہرمس یونانیوں میں افلاطون اور یہود میں یسوع مبشر خدا بن کر آئے۔

(بحوالہ الفرقان مئی 1976ء)

نبیوں کی تعداد اور نام۔ قرآن کریم سے رہ نمائی

بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کتنے نبی آئےاور ان کے کیا نام تھے۔ قرآن کریم میں تو ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں اور ہر قوم اور امت میں نبی ہوں تو تعداد شمار کرنا ممکن بھی نہیں البتہ قرآن کریم میں محمد رسول اللہﷺ کے علاوہ 25؍ نبیوں کے نام ملتے ہیں اکثرکو قرآن کریم نے واضح لفظوں میں نبی یا خلیفہ قرار دیا ہے یا ان کو زمرہ انبیا٫میں شامل کیا ہے جو یہ ہیں حضرت آدمؑ، نوحؑ، ادریسؑ، صالحؑ، ہودؑ، ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ، یوسفؑ، لوطؑ، موسیٰؑ، ہارونؑ، شعیبؑ، زکریا، یحیٰؑ ،عیسیٰؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، الیاسؑ، الیسعؑ، ذوالکفلؑ، ایوبؑ، یونؑس(ذوالنون)، عزیر، ذوالقرنین، لقمان، آخری2کے نبی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

ذو القرنین ایک عظیم منصف بادشاہ تھے جن کی تعریف بائبل میں بھی ہے اور قرآن میں ان کی جو وحی اور کارنامے لکھے ہیں وہ کسی معمولی ملہم من اللہ کے نہیں ہیں۔ حضرت ابن عباس نے ان کو نبی قرار دیا ہے (تفسیر الدر المنثور جلد 5 صفحہ 436) حضرت مسیح موعودؑ نے ذوالقرنین ہونے کا دعویٰ بھی فرمایا ہے جس سے اس کو مزید تقویت ملتی ہے واللہ اعلم۔

حضرت لقمان کو بعض نبی اور بعض ولی مانتے ہیں تفسیر ابن کثیر کے مطابق وہ سوڈان کے نوبی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور افریقی النسل تھے (تفسیر ابن کثیر جلد 6صفحہ 334)حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے ترجمہ قرآن میں ان کے لیے 2 دفعہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (صفحہ709، 710) قرآن کریم نے بعض جگہ نبیوں کا ذکر کیا ہے مگر ان کا نام نہیں لیا مفسرین نے ان کے نام بیان کیے ہیں مگر بہت اختلاف ہے۔ مثلاً بعض مفسرین نے سورۃالبقرۃ کی آیت 248میں

قَالَ لَہُمۡ نَبِیُّہُمۡ

سے مراد یرمیاہ نبی لیے ہیں۔ البقرۃ آیت 260میں

اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ

سے مراد حضرت یوشع یا عُزَیر لیے گئے ہیں مگر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نزدیک اس سے مراد حضرت حزقیلؑ ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد2 صفحہ 596تا597) بعض ذوالکفل سے مراد حضرت بدھؑ لیتے ہیں مگر حضرت مصلح موعودؓ نے اس سے بھی حضرت حزقیلؑ مراد لیے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 555)بعض مفسرین نے شیث اور خالد بن سنان کو بھی نبی کہا ہے۔ (تفسیر روح البیان جلد 8صفحہ 215)

احادیث نبویہ سے رہ نمائی

نبیوں کی تعداد کے متعلق احادیث سے بھی رہ نمائی ملتی ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے 4ہزار نبی بھیجے ہیں۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ کو 8 ہزار نبیوں کے بعد بھیجا گیا جن میں سے 4ہزار بنی اسرائیل میں سے تھے۔

(تفسیر طبری جلد 21 صفحہ 419 زیر آیت المومن 79)

حضرت ابو ذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ سے پوچھا کہ

كَمْ وَفَّى عِدَّةُ الْأَنْبِيَاءِ؟ قَالَ: ’’مِائَةُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ أَلْفًا الرُّسُلُ مِنْ ذَالِكَ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيرًا۔

نبیوں کی تعداد کتنی گزری ہے تو آپؐ نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ ان میں سے 315 رسول تھے اور یہ بہت بڑی تعداد ہے۔

(مسند احمد جلد 36صفحہ 618۔ حدیث نمبر 22288 )

مسلمانوں کا ایک طبقہ نبی اور رسول میں فرق کرتا ہے اور عموم خصوص کی اصطلاح استعمال کرتا ہے مگر قرآن کریم نبی اور رسول کو ایک ہی معنی میں اور متبادل الفاظ کے طور پر استعمال کرتا ہے اس لیے مندرجہ بالااستنباط تو درست نہیں سو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ نبیوں میں خصوصی درجہ رکھنے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں اور ان میں بھی نمایاں مقام پانے والے 315 ہیں جیسا کہ فرمایا

تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ(البقرۃ:254)فَضَّلۡنَا بَعۡضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعۡضٍ(بنی اسرائیل:56)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ قمر الانبیا٫ نے لکھا ہے کہ سب نبی رسول اور سب رسول نبی ہیں مگر اس جگہ رسول کا لفظ مخصوص معنوں میں لیا جائے گا یعنی صاحب شریعت رسول جو 315 ہیں اور یہ بڑی تعداد ہے۔

(الفضل 9؍جون 1950ء۔ مضامین بشیر جلد 2صفحہ 866)

ایک حدیث میں ہے اِنِّیْ خَاتمُ الف نبی او اکثر …میں ایک ہزارسے زیادہ نبیوں کا خاتم ہوں اور دوسری روایت میں ہے انی خاتم الف الف نبی او اکثریعنی میں 10 لاکھ سے زیادہ نبیوں کا خاتم ہوں۔

(تفسیر ابن کثیر جلد 4 صفحہ397)

حدیث میں ہندکے ایک نبی کا ذکر ہے

کَانَ فِیْ الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ اللَّوْنِ اِسْمُہٗ کَاہِنا

یعنی ہند میں ایک نبی گزرا ہے جو سیاہ رنگ کا تھا اور نام اس کا کاہن تھا۔ (تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف) حضرت مسیح موعودؑ نے اس سے مراد حضرت کرشنؑ لیے ہیں۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 382)

حدیث میں بربر قوم کے ایک نبی کا ذکر آتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا إن قوم هذا أتاهم نبي قبلي فذبحوه وطبخوه وأكلوا لحمه وشربوا مرقهاس قوم کے پاس مجھ سے پہلے ایک نبی آیا انہوں نے اس کو ذبح کیا اس کو پکایا اس کا گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔

(کنز العمال فی کتاب الفضائل باب فی اماکن مذمومہ بربر حدیث نمبر38284 )

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ

بعث اللّٰه عَبْدًا حَبَشِيًّا نَبِيًّا۔

یعنی اللہ نے ایک حبشی بندہ کو نبی بنا کر مبعوث کیا۔

(تفسیر در منثور جلد 7صفحہ 306)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button