متفرق مضامین

پیغام حق پہنچانے میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط ہفتم۔ آخری)

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

قبل ازیں اقساط میں 1995ء تک کی شائع شدہ خبروں کی کچھ حد تک تفصیل آ چکی ہے۔ اس قسط میں خاکسار یہاں سے آگے کے حالات اور واقعات کے متعلق کچھ عرض کرےگا۔

رمضان المبارک کے حوالے سے پریس سے رابطہ کرنا بہت مفید رہتا ہے۔ اس میں رمضان کا مقصد اور اس سے متعلقہ امور کو وسیع پیمانے پر بتانے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ جنوری 1996ء میں اس حوالے سے وائس آف ایشیا، انڈو امریکہ نیوز، دی لیڈر، 1960 West sun، ہیوسٹن کرانیکل، انڈیا ہیرلڈ، یو ایس ایشین نیوز، دی ہیوسٹن پنچ نے خبر یں شائع کیں۔

رمضان کے بعد عید الفطرکے حوالے سے بھی پریس اور میڈیا سے رابطہ کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی سال دی لیڈر اخبار، وائس آف ایشیا، یو ایس ایشیا نیوز، انڈیا ہیرلڈ، انڈو امریکن نیوز اور دی ہیوسٹن پنچ، 1960 East Sun نے عید الفطر منانے کی خبر یں شائع کیں۔

جلسہ سالانہ قادیان کے حوالے سے بھی پریس سے رابطہ کیا جاتا ہے کیونکہ یہ جماعت احمدیہ کے اولین مرکز قادیان دارالامان میں منعقد ہوتا ہے۔

یو ایس ایشیا نیوز، انڈیا ہیرلڈ، دی ہیوسٹن پنچ، وائس آف ایشیا، نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جلسہ سالانہ قادیان سےخطابات کے حوالے سے خبریں شائع کیں۔

دی مارننگ نیوز آرکنساس نے 20؍مارچ 1996ء صفحہ 8A پر نصف صفحہ کی خبر شائع کی ہے۔ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ باسکٹ بال کے ایک بہت مشہور کھلاڑی جو مسلمان تھے انہوں نے امریکہ کا قومی ترانہ سنائے جانے کے وقت کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس پر بہت بڑا شور برپا ہوا۔ یہ چونکہ مسلمان تھے اس لیے لوگوں نے خیال کیا اور ان کے بیانات کی وجہ سے بھی کہ اسلام قومی ترانہ کا ادب نہیں سکھاتا اس پر خاکسار نے انٹرویو دیا اور مذکورہ بالا اخبار نے اسےشائع کیا۔ اس میں اس بات کا ذکر تھا کہ اسلام تو ہر ایک کی عزت و احترام سکھاتا ہے۔ قومی ترانہ کے وقت کھڑے ہونا عبادت نہیں ہے بلکہ احترام ہے۔ اسلام کی تعلیم تو احترام اور عزت سکھاتی ہے اس لیے لوگوں کو غلط فہمی نہ ہو کہ جو مسلمان کھلاڑی نے کیا ہےیہ اسلام کی تعلیم ہے ۔ اسلام تو ہر ملک کے شہری کویہ بات سکھاتا ہے کہ وہ ملک کے قوانین کی پابندی اور احترام اور اطاعت کرے۔

ہیوسٹن کرانیکل نے 18؍مئی 1996ء کی اشاعت میں صفحہ 2Eپر ہمارے خدام اور لجنہ کے ریجنل اجتماع کے بارے میں خبر شائع کی ہے۔

ہیوسٹن کرانیکل نے 3؍اپریل 1996ء صفحہ 10کی اشاعت میں اطفال الاحمدیہ کے ایک تربیتی کیمپ کا ذکر کر کے خبر دی۔

نارتھ ویسٹ آرکنساس ٹائمز (آرکنساس) نے 23؍مارچ 1996ء کی اشاعت میں صفحہ 9A پر اس عنوان کے ساتھ خبر دی ہے۔

ٹائمز کے نیوز رپورٹر Rusty Garretنے ’’مسلمان مبلغ اپنے عقائد کو پھیلا رہا ہے۔ ‘‘ کے عنوان سے خبر دی جس میں لکھاکہ جماعت احمدیہ کے ساؤتھ ریجن کے مبلغ اس ہفتہ ہمارے شہر میں تھے۔ جو یہاں جماعت احمدیہ کا پیغام لے کر آئے۔ اس موقع پر انہوں نے پیار اور محبت کی اسلامی تعلیمات کو بیان کیا اورلوگوں کی اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو بھی دور کرتے ہے

قبل ازیں اقساط میں 1988ء سے 1996ء قریباً 8 سال تک کی پریس سے رابطہ اور خبروں کی قدرے تفصیل آچکی ہے۔ ایک بات جو نہیں آسکی وہ یہ کہ ڈیٹن، ڈیٹرائیٹ اور ہیوسٹن کے علاقہ میں خاص طور پر جہاں اخبارات میں خبریں آئیں وہاں پر TV کے قریباً سبھی چینلز جن میں چینل نمبر 2، نمبر5، نمبر7 اور 22 اور 27خصوصیت سے کوریج کے لحاظ سےقابل ذکر ہیں۔ ان چینلز پر ہمارے رمضان، عیدالفطر، عیدالاضحیہ، ریجنل اجتماعات کے علاوہ گلف میں جنگ پر ہماری پریس کانفرنسز اور جلسہ کی خبریں بھی آئیں۔ ہیوسٹن میں قیام کے دوران تو ایک چینل نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے جلسہ سے خطاب میں سے کچھ حصہ خود لے کر اپنی خبروں میں دیا۔

خاکسار نے مئی 1996ء تک ہیوسٹن میں خدمت بجا لانے کی توفیق پائی۔ مئی 1996ء کے آخر میں خاکسار کاتبادلہ مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے ہیوسٹن سے امریکہ کے نیشنل ہیڈ کوارٹر سلور سپرنگ میری لینڈ (MARYLAND) مسجد بیت الرحمان میں کیا۔ چنانچہ خاکسار مئی کے آخر میں مسجد بیت الرحمان پہنچ گیا۔

یہاں کی مصروفیات اَور قسم کی تھیں۔ خاکسار نے پریس کے ساتھ رابطے کی کوشش کی مگر اس میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے تسلسل قائم نہ رکھ سکا۔ یہاں پر زیادہ تر جماعتی تربیت، تبلیغ اور ہیڈکوارٹر سے متعلقہ امور کی سرانجام دہی کرنا ہوتی تھی۔

خاکسار کے ہیڈکوارٹر میں قیام کا عرصہ سیاسی اور مذہبی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یہ وقت ہے جس کو 11/9کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس نے دنیا کو یکسر تبدیل کر دیا اور جس کی وجہ سے دنیا پہلے سے بڑھ کر اسلام کو خوف، بدامنی اور تشدد سے منسوب کرنے لگی۔ لیکن ہر زمانے کی طرح جب بھی اسلام کو بیرونی یا اندرونی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا جماعت احمدیہ نے اسلام کی حقیقی پُر امن تعلیم کا چرچا کیا اور اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے پریس اور میڈیا کے ذریعہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوششوں میں تیزی لائی گئی۔

خاکسار چاہتا ہے کہ نائن الیون کے بارے میں اور اس موقع پر جماعت احمدیہ نے جو خدمت کی ہے اس کا نہایت مختصر ذکر بھی یہاں کیا جائے۔

11؍ستمبر 2001ء کا دن امریکہ کی تاریخ میں بڑے دکھ اور غم کے ساتھ طلوع ہوا ۔اس دن قریباً صبح کے 9:15پرنیویارک کے 2 اہم مقامات ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگانکو ہوائی جہاز سے ٹکرا کر تباہ کرنے کی کوشش میں ہزاروں جانیں تلف ہوئیں۔ نیویارک اور واشنگٹن میں قیامت کا سا سماں تھا۔ جیسا کہ بعد کی خبروں میں ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات نے بار بار یہ خبریں نشر کیں کہ اس سانحہ عظیمہ کے پیچھے مسلمانوں کی بعض تنظیموں کا ہاتھ ہے اور اس کے ساتھ ہی پریس اور میڈیا میں اسلام کے بارے میں غلط تأثر پیش کیا جانے لگا کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے اور یہ کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور اس طرح اسلام پر پورے زور کے ساتھ حملہ کیا گیا۔

اس سانحہ کے فوراً بعد ہی جماعت احمدیہ امریکہ کے امیر مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم نے امریکہ کے صدر کے نام ایک تعزیتی خط کھا۔ جس میں اس بات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا کہ احمدیہ مسلم جماعت دہشت گردی کی کلیۃً مذمت کرتی ہے اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی کرتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں ہر ممکن مدد اور تعاون بھی کرنے کو تیار ہے۔ خصوصاً ہسپتالوں میں جو لوگ زخمی ہیں، نیز خون کے عطیات دینے کی بھی پیشکش کی۔

اس خط کی نقل سیکرٹری آف سٹیٹ جنرل کولن پال کو بھی بھیجی گئی۔

اس خط کے علاوہ ایک پریس ریلیز بھی فوری طور پر جاری کی گئی جو تمام جماعتوں کو ارسال کی گئی۔

پریس اور ٹی وی نے ملک میں بہت سی جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کیا اور اُن سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے جتنے بھی انٹرویودیے یا پریس میں بیانات دیے وہ بالکل اُن کے عقائد اور خیالات کے برعکس تھے جو آج تک وہ اختیار کیے ہوئے تھے۔

اب مسلمانوں کے علماء اور لیڈر یہ کہنے لگ گئے کہ ہم اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔ اسلام اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ اور یہ کوئی جہاد نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام میں ایسا جہاد ہے۔ گویا اب جہاد کی وہی تعریف ہونے لگی جو آج سے سوا سو سال قبل حضرت مسیح موعودؑ نے کی تھی۔ اور جہاد کی اس تعریف پر اُس وقت کے علماء جماعت احمدیہ کو نعوذ باللہ کافر قرار دیتے۔

پریس، اخبارات اور TVنے جماعت احمدیہ اور مختلف مراکز میں بھی رابطہ کیا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ جماعت نے اسلام کی صحیح تعلیم اور جہاد کے بارے میں اسلامی نظریہ پیش کیا۔ اور دہشت گردی کی مذمت کی۔

خاکسار جولائی 2004ء میں لاس اینجلس کیلیفورنیا آیا۔ یہاں پر چینو Chino ایک جگہ ہے جہاں پر ہماری مسجد بیت الحمید واقع ہے۔ خاکسار نے یہاں پر آکر بھی پریس کے ساتھ رابطے قائم کرنےکی کوشش کی۔

چنانچہ یہاں بھی اسلام کی پُر امن تعلیم کے حوالے سے نیز رمضان المبارک، عیدین اور دیگر جماعتی تقریبات کے حوالے سے پریس سے مسلسل رابطہ رہا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔

مغربی دنیا میں عمومی طور پر پریس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب بھی پایا جاتا ہے اور وہ مسلمانوں کو ایک بے جان چیز خیال کرتے ہیں۔ اگر ان سےرابطہ کیا جائے تو بسا اوقات وہ ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان اور خلافت احمدیہ کی برکت ہے کہ وہ ہماری حقیر کوششوں کو برکت بخشتا ہے اورہمیں ہر لحاظ سے ان ذرائع سے پیغام حق پہنچانے کی توفیق ملتی ہےجو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے۔

اخبارات میں خبر شائع کرنے یا کرانے کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے۔ بعض اوقات اخبار والے ہماری خبر شائع کر دیتے ہیں جبکہ بعض اوقات نہیں کرتے۔ لیکن خبر شائع نہ ہونے پر ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا کام نیک نیتی کے ساتھ کوشش اور دعا کرتے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کوشش کو ضرور پھل لگاتا ہے۔

موجودہ زمانے میں اگرچہ حالات بدل چکے ہیں اورترقی کی رفتار بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ ایک خبر آناً فاناً سیکنڈوں میں کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے۔ تاہم ہمیں تمام ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھانا چاہیے جن میں پرنٹ میڈیا بھی شامل ہے۔ آج کے دَور میں بھی ایک کثیرتعداد ایسی ہے جو اخبار پڑھنا پسند کرتی ہے۔

خاکسارنے قریباً ہر جگہ یہ دیکھا ہے کہ جب صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتا ہوں تو بہت سارے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر اپنے گھر کے سامنے سے اخبارات اٹھاتے ہیں۔ یا میل بکس سے اخبار اٹھاتے ہیں اور پڑھتے ہیں۔ اس لیے یہ میں اپنے تجربہ کی بنا پرکہتاہوں کہ پریس اور پرنٹ میڈیا سے جس حد تک ممکن ہو فائدہ اٹھانا چاہیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ جدید ایجادات اس زمانہ میں ہمارے لئے اس نے مہیا فرمائی ہیں۔ ہمارے لئے یہ مہیا کر کے تبلیغ کے کام میں سہولت پیدا فرما دی ہے۔ اور ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں، ان کو کام میں لائیں۔ اور اگر اُس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍اکتوبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5؍نومبر2010ءصفحہ6)

اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے اور ہم سب سلطان القلم کے سپاہی اور خلیفۂ وقت کے سلطان نصیر بنیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button