اختلافی مسائل

پرانے نبی یعنی ’’عیسیٰ نبی اللّٰہ‘‘ کے دوبارہ آنے سے کیا مراد ہے ؟

مسلمانوں کی اکثریت یہ عقیدہ رواج پا چکا ہے کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتاحالانکہ خود رسول کریمﷺ نے اپنے بعد ایک نبی کی آمدبیان فرمائی ہے۔

حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مشہور روایت مروی ہے جس میں رسول کریمﷺ نے آنے والے دجال کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیاہے اوراس کے بالمقابل حضرت عیسیٰ نبی اللہ علیہ السلام کے آنے کی پیشگوئی بیان فرمائی۔ اس لمبی روایت میں جہاں حضرت عیسیٰ نبی اللہ کا چار دفعہ ذکر ہے وہ درج ذیل ہے:

عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ…وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللّٰهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللّٰهِ فَيُرْسِلُ اللّٰهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللّٰهُ۔

(صحیح مسلم حدیث نمبر 7373کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت باب:مسیح دجال کابیان)

’’حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا …اور خدا کا پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہوگا سو اشرفی سے آ ج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہوگی ) پھر خدا کے پیغمبر عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو خدا تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہوگا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے پھر خدا کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے تو زمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پاویں گے (یعنی تمام زمین پر انکی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہونگی ) پھر خدا کے رسول عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی خدا سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹون کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھالے جاویں گے اور ان کو پھینک دیں۔ ‘‘

( صحیح مسلم جلد ششم صفحہ نمبر451، 452مترجم وحید الزمان مطبوعہ علی آصف پرنٹرز لاہور )

آنے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلقہ روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے مکرم وحید الزمان صاحب (مشہور غیر احمدی مترجم )نے پیغمبر اور رسول کے الفاظ لکھے ہیں۔

غور طلب امور

(1) اس واضح پیشگوئی کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ نیا نبی نہیں آئے گابلکہ پرانا ہی آئے گا اوریہ نہیں سوچتے کہ پرانا بنی اسرائیلی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں ،وہ کیسے دوبارہ آسکتے ہیں۔ آنے والاعیسیٰ امت محمدیہ میں سے ہی ہوگا۔ آنے والے کو عیسیٰ اور مسیح نام دینے کی وجہ اس کے کام کی نوعیت اور بنی اسرائیلی عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہت ہے۔

(2)اصل بحث یہ نہیں ہے کہ نبی آسکتا ہے یا نہیں بلکہ اصل بحث یہ ہے کہ نیا آئے گا یا پرانا۔ یہ کہنا کہ مقام نبوت ختم ہوگیا اب امت محمدیہ میں نبی نہیں آسکتا تویہ بات فرمان رسولﷺ کے خلاف ہے۔ مذکورہ بالا حدیث امت محمدیہ میں مقام نبوت کے جاری رہنے کی دلیل ہے۔

(3)بعض علماء یہاں تک جسارت کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ’’عیسٰی نبی اللّٰہ‘‘کے الفاظ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ عیسیٰ مجدد اور امتی بن کر آئیں گے۔ نبی اللہ کا لفظ استعارۃً ہے جیسے حدیث میں بیان کردہ دیگر امور استعارات پر مبنی ہیں۔ حالانکہ رسول کریمﷺ نے واضح رنگ میں ’’نبی اللّٰہ‘‘ فرمایا ہے۔ مذہبی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی اللہ کا نبی اپنے بعد کسی نبی اللہ کے آنے کی پیشگوئی بیان فرمائے اور اس سے مراد نبی نہ ہو۔ پیشگوئیوں میں دیگر امور استعارات کے ذریعہ بیان ہوسکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ ’’نبی اللّٰہ‘‘ پکارا جائے اور مراد غیر نبی ہو۔ نبوت ایک منصب، مقام اور عہدہ ہے۔ جو نبی ہو اسے ہی نبی کہا جاتا ہے کسی غیر نبی کو نبی نہیں کہا جاسکتا۔ رسول کریمﷺ نے ایک ہی حدیث میں آنے والے مسیح کو ایک دفعہ نہیں بلکہ چار دفعہ ’’نبی اللّٰہ‘‘ فرما یا ہے تو کس امتی میں جرأت ہے کہ وہ کہے کہ آنے والا مسیح نبی اللہ نہیں ہوگا۔

(4) اللہ تعالیٰ نبی بناتا ہےجیسا کہ فرمایا:

اللّٰهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ(الانعام:125)

’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے ‘‘۔

(آسان ترجمہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی مکتبہ معارف القرآن کراچی )

ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ خاتم النبیینﷺ آنے والے عیسیٰ کو ’’نبی اللّٰہ‘‘بیان فرمائیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بطور نبی نہیں بھیجنا تھا۔ یا یہ کہ آنے والے مسیح کو اللہ تعالیٰ نے نبی نہیں بنانا تھا لیکن رسول کریمﷺ نے(نعوذ باللہ )اپنی طرف سے انہیں ’’نبی اللّٰہ‘‘ کہا۔ کیا کوئی مسلمان ایسا سوچنے کی جسارت کر سکتا ہے ؟

نیا یا پرانا نبی؟

اگر نئے اور پرانے نبی کی آمد کا مسئلہ سمجھنے میں مشکل درپیش ہوتوقرآن رہ نمائی فرماتا ہے کہ

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ –(الانبياء:8)

’’تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ ‘‘

(تفہیم القرآن جلد سوم از ابو الاعلیٰ مودودی ادارہ ترجمان القرآن لاہور )

کیا اہل کتاب میں بھی کسی پرانے نبی کی آمد کاعقیدہ پایا جاتا تھا ؟اگر عقیدہ پایا جاتا تھا تو کیا اس پر بحث ہوئی تھی؟ اور اگر بحث ہوئی تھی تو پھر اس مسئلہ کو کس طرح حل کیا گیا تھا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے وقت بنی اسرائیل میں ایک پرانے نبی کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔ پرانے نبی کی آمد کس طرح ہوگی اس حوالے سے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نےایک فیصلہ کیا۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ کیا ہے :

پرانے عہد نامے میں ایلیاہ نبی کے متعلق لکھا ہےکہ

’’اور ایلیاہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا ‘‘

(سلاطین 2 باب 2آیت 11)

پھر ذکر ہے کہ ’’دیکھو خدا وند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیاؔہ نبی کو تمہارے پاس بھیجو نگا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کریگا۔ ‘‘

(ملاکی باب 4آیت5تا6)

اب بنی اسرائیل میں اپنی کتاب کی روشنی میں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ ایلیاہ آسمان پر گیا ہوا ہے اور اسی نے واپس آنا ہے۔ اس حوالے سے جب بنی اسرائیلی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایلیاہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرکے کہا کہ

’’سب نبیوں اور توریت نے یوحنا تک نبوت کی اور چاہو تو مانو۔ ایلیاہ جو آنے والا تھا یہی ہے۔ جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے ‘‘۔(متی باب 11آیت 13تا15)

پھر لکھا کہ

’’شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ پھر فقیہ کیوں کہتے ہیں کہ ایلیاہ کا پہلے آنا ضرورہے اس نے جواب میں کہا ایلیاہ البتہ آئیگا اور سب کچھ بحال کر یگا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کےساتھ کیا۔ اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائیگا۔ تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔ ‘‘(متی باب17آیت 10تا13)

شاگردسمجھ گئے کہ پرانے نبی ایلیاہ کے دوبارہ آنے سے مراد نئے نبی یوحنا کا آنا ہی ہےجو اس زمانے میں ہی پیدا ہوا تھا لیکن بنی اسرائیلی علماء نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس تشریح اور فیصلہ کو قبول نہ کیا اور آپ علیہ السلام کا انکار کر دیا۔ آج بھی نئے اور پرانے نبی کی آمد پر بحث ہوتی ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فیصلہ کو مان کر بآسانی اس کو حل کیا جاسکتا ہےکہ پرانے نبی کے دوبارہ آنے سے مراد یہی ہے کہ نیا نبی پیدا ہوگا نہ کہ وہی پرانا نبی دوبارہ آئے گا۔

(مرسلہ:عبدالکبیر قمر)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button