یادِ رفتگاں

مخلص خادم سلسلہ اور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح محترم محمد اسلم شاد منگلا صاحب کا ذکرِ خیر

(م م طاہر)

تین خلفائےکرام کے ساتھ خدمت کی توفیق پانے والے مخلص خادم سلسلہ، پرائیویٹ سیکرٹری اور نائب صدرمجلس انصاراللہ پاکستان محترم محمداسلم شاد منگلا صاحب 14؍فروری 1945ء کو چک منگلا ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئےاور مورخہ 31؍دسمبر2015ء کو 71سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودۂ خاک ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مخلص خادم سلسلہ کا ذکرِ خیر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری2016ء میں فرماتے ہوئے آپ کی خدمات اور اوصاف ِحسنہ کا تذکرہ فرمایا تھا۔

آپ کاتعلق سرگودھا کی معروف جماعت چک نمبر171/168 شمالی المعروف چک منگلا سے تھا۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی صالح محمد صاحب منگلا اور والدہ کا نام صاحب بی بی صاحبہ تھا۔ آپ نے 10سال کی عمر میں اپنے والد محترم کے ہم راہ حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت آپ کے والد کی سربراہی میں تقریباً 80 رکنی وفد شرف ِبیعت حاصل کرکے گیا تھا۔

خاندان میں احمدیت کا مختصر پس منظر باعثِ ازدیادِ علم و ازدیادِ ایمان ہوگا۔

چک منگلا کے بیشتر افراد پیر سیال کے مرید تھے اور پھر یہ لوگ ان سے الگ ہو کر پیر منور الدین صاحب کے حلقہ ارادت میں آگئے جو بوچھال کلاں سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہاں سے چک منگلا منتقل ہوگئے۔ مکرم محمد اسلم شاد صاحب کےوالدمکرم صالح محمد منگلا صاحب نے انہیں زمین اور رہائش وغیرہ فراہم کی تاوہ یہاں درس و تدریس کا کام جاری رکھ سکیں۔ مکرم صالح محمد منگلا صاحب دیندار اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت تھے۔ وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق انہیں چک منگلاکی مسجدکے احاطہ میں دفن کیا گیا۔ پیرمنورالدین صاحب کا احمدیت سے پرانا تعارف تھا۔ ایک بار انہوں نے بوچھال کلاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اپنی تقریر میں غلط اقتباس منسوب کر دیا۔ وہاں ایک احمدی نے کہا کہ اگر یہ حوالہ درست ہوا تو وہ احمدیت چھوڑ دیں گے اور اگر غلط نکلا تو پھر؟تو پیر صاحب نے کہا کہ میں پھر آئندہ مرزا صاحب کے خلاف کبھی نہیں بولوں گا۔ چنانچہ متعلقہ کتاب لائی گئی توحوالہ غلط ہی نکلا۔ پیر صاحب کو شرمندگی ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت ان کے دل میں بیٹھ گئی اور وہ آپؑ کی صداقت کے قائل ہو گئے۔ اس پر دوسرے علماء آپ کے خلاف ہوتےگئے۔ وہ تحقیق کے لیے قادیان بھی گئے تھے، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کیا۔ وفات ِ مسیح کے عقیدہ کے بھی قائل ہوگئے لیکن حضور علیہ السلام کی نبوت، آپ کے بعد آپ کی خلافت اور بیعت کرنے کو ضروری نہ سمجھتے تھے۔ پیر صاحب کے مرید خاص اور معاون خصوصی مولانا عزیز الرحمٰن منگلا صاحب نے آپ سے اس بات پر اختلاف کیا اور بحث و مباحثہ بھی کیا کہ آپ کو یہ گدی چھوڑ کر مرزا صاحب کی بیعت کر لینی چاہیے لیکن وہ اس طرف نہ آئے۔ بالآخر جلسہ سالانہ 1954ء کے موقع پر مولانا عزیز الرحمٰن منگلا صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ آپ کے ساتھ بیعت کرنے والوں میں رائے اللہ بخش منگلا صاحب(اوّل) بھی شامل تھے پھر پیر منور الدین صاحب کے بیشتر مریدوں نے عزیز الرحمٰن منگلا صاحب کے ذریعہ بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیارکر لی۔

(ماخوذ از ماہنامہ انصاراللہ دسمبر1995ء صفحہ 33تا39)

حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ 1957ء کے موقع پر اپنی تقریر فرمودہ 27؍دسمبر1957ء میں چک منگلا اور ضلع جھنگ میں پیر منور الدین صاحب کے مریدوں کی ہونے والی بیعتوں اور جماعتی ترقی کا تذکرہ فرمایا تھا۔

(الازھار لذوات الخمارصفحہ201)

محترم محمد اسلم شاد صاحب بچپن سے ہی بہت شریف النفس اور نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور پھر ان کے والد محترم انہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں داخل کروانے کے لیے لے آئے۔ آپ کے والد محترم نے اپنے بیٹے کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک چڑیا آپ کے سپرد کررہا ہوں آپ نے اسے باز بنانا ہے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ چنانچہ آپ نے بڑے اعزاز کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی۔ 1961ء میں آپ نے میٹرک پاس کیا۔ تعلیم الاسلام کالج سے بی اے اورپنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پوزیشن بھی حاصل کی۔ 1966ء میں ایم اے عربی کرنے کے بعد آپ تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرار لگ گئے اور 14سال تک تدریس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ جماعتی تعلیمی ادارے چونکہ قومیائے گئے تھے اور آپ تو خدمت ِدین کا جذبہ رکھتے تھے اس لیے آپ نے 1980ء میں اپنی زندگی وقف کر دی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور پھر اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا۔ 1982ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدے پر مقرر فرما دیا اور تادم واپسیں آپ اس عہدہ پر فائز رہے۔ حضرت صاحبؒ کی لندن ہجرت کے بعد آپ تقریباً ایک سال لندن میں بھی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ پرائیویٹ سیکرٹری ہونے کی وجہ سے آپ سیکرٹری مجلس شوریٰ کے طور پر بھی 1982ء تا2015ء احسن رنگ میں ذمہ داری بجالاتے رہے۔ ذیلی تنظیموں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور مجلس انصاراللہ مرکزیہ بعد ازاں پاکستان میں آپ کی خدمات کا سلسلہ کل ملا کر قریبا 47سال پر محیط ہے۔ آپ کو 1968ء تا1983ء خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1968ء تا1970ءآپ ماہنامہ خالد کے مدیر بھی رہے۔ اسی طرح آپ کو مہتمم اشاعت، مہتمم صنعت وتجارت، مہتمم تربیت، مہتمم تعلیم، مہتمم اطفال اور مہتمم مقامی کی حیثیت سےخدمت کی توفیق ملی۔

انصاراللہ مرکزیہ پاکستان میں آپ کی خدمات1986ء تا2015ءیعنی30سال پر محیط ہیں۔ اس عرصہ میں آپ قائد تربیت، قائد عمومی، قائد تحریک جدید، قائد وقف جدید اور پھر آخری سال 2015ء میں آپ نائب صدرمجلس انصاراللہ پاکستان کے عہدہ پر خدمت بجا لا رہےتھے۔

محترم محمد اسلم شاد منگلا صاحب بہت سی خوبیوں کے حامل تھے۔ آپ حلیم الطبع، پر وقار اور ذمہ دار شخصیت تھے۔ آپ نے تین خلفائےکرام کے زیر سایہ کام کر کے ان کا قرب حاصل کیا۔ میراآپ سے تعارف تو مجلس شوریٰ کے موقع پر ہوا تھا جب بطور زائر شوریٰ کی کارروائی سننے کے لیے حصول ٹکٹ کے لیے آپ سے ملاقات ہوتی رہی۔ پھر جب میں اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل مقرر ہوا تو شوریٰ کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے بھی حاضر ہوتا رہا۔ اس دوران آپ بطور سیکرٹری مجلس شوریٰ ادارہ الفضل کو ضروری سہولیات فراہم کرتے اور تعاون فرماتے۔ الفضل سے میرا تقرر طاہر فاؤنڈیشن ہو گیا تو طاہر فاؤنڈیشن کا ابتدائی دفتر، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی عمارت میں قائم ہوا۔ اس عرصہ 2004ءتا2010ء میں آپ سے روز ہی ملاقات ہوجاتی۔ بالخصوص مسجد مبارک میں نماز ظہر کی ادائیگی کے وقت۔ طاہر فاؤنڈیشن کے ان چھ سالوں میں آپ کے ساتھ ہمارا اچھے ہمسایوں والا سلوک رہا اور دفتر میں ابتدائی طورپر ضروری سامان فرنیچر وغیرہ آپ کے تعاون سے ہمیں ملا تھا۔ انصاراللہ پاکستان میں آپ ممبر مجلس عاملہ تھے اور2009ء میں خاکسار انصاراللہ میں آیا اور ممبر انصاراللہ بنا۔ یوں آپ کے ساتھ سات سال اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ آپ ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے۔ آپ معاملہ فہم اور صائب الرائے تھے۔ بات مختصر کرتے تھے۔ آپ کے سپرد جو خدمت کی گئی تھی اس کے اپنے بعض تقاضے تھے۔ آپ نے اس نازک، اہم اور حساس ذمہ داری کو احسن رنگ میں نبھایا۔ اپنے عملہ کے ساتھ آپ ہمیشہ حسن سلوک روا رکھتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کا سٹاف آپ کی خوبیوں کے بیان میں رطب اللسان تھا۔ ان میں سے بعض کے تأثرات کا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنے خطبہ میں ذکر فرمایا تھا۔

اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے ہمیشہ صلہ رحمی کرتے رہے۔ آپ کے والد محترم صالح محمد منگلا صاحب 1972ء میں وفات پاگئے تھے۔ اس وقت آپ ابھی جواں سال ہی تھے۔ آپ کے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ آپ نے والد کی وفات کے بعد ان کا ہمیشہ پیار و محبت سے خیال رکھا۔ اپنے گاؤں کے احمدی عزیزوں اور غیر از جماعت احباب سے بھی آپ کا بہت اچھا تعلق تھا۔ اسی وجہ سے گاؤں کے غیر از جماعت بھی آپ کا بہت احترام کرتے اور پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کے گاؤں سے غیر از جماعت احباب کی ایک خاص تعداد ربوہ تعزیت کے لیے آئی۔

آپ لوگوں کے دُکھ درد میں شریک ہوتے اور ان کی ممکنہ مدد بھی کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کی اہلیہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ مکرم منگلا صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ایک خاتون تشریف لائیں اور کہنے لگیں کہ میں نے منگلا صاحب کو ملنا ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں تو بہت غمزدہ ہوئیں اور کہا کہ وہ توبہت اچھے انسان تھے۔ انہوں نے میری مشکل وقت میں مالی مدد کی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بہت فضل ہیں اور میں وہ رقم واپس کرنا چاہتی ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بڑے اصرار کے ساتھ وہ رقم مجھے دے دی کہ یہ ضرور رکھ لیں۔

آپ خود تو پابند صوم و صلوٰۃ تھے ہی اپنے بچوں کی تربیت بھی احسن رنگ میں کی اور ان کو ہمیشہ نمازوں کی حفاظت کی تلقین کرتے رہے۔ بچوں سے دوستانہ اور محبت کا تعلق تھا لیکن نماز کی پابندی کے لیے سختی سے بھی توجہ دلاتے اور بچوں کو تلقین کرتے کہ ایسے دوست بناؤ جو نمازی ہوں۔ بچوں کی تربیت کے ساتھ ان کو تعلیم کے زیورسے آراستہ کرنے کے لیے کوشاں رہے اور ان کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی سامان کیے۔ بچوں کی تربیت کے لیے آپ انہیں ہمیشہ خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی نصیحت کرتے اور اس کے لیے آپ انہیں MTAسے مستقل استفادہ کی تلقین کرتے۔ گھروالوں کو حضور انور کا خطبہ جمعہ لائیو سنوانے کا خاص اہتمام ہوتا۔ اسی طرح جلسہ سالانہ کے مواقع پر گھر میں جشن کا سماں پیدا کرتے۔ بچوں کی تربیت کے لیے ایک خاص بات جذبات شکر کا اظہار بھی ہے۔ آپ اپنے بچوں کو اپنے گاؤں اور بزرگان کے حالات بتاتے اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہتے تھے تا بچے اپنے بزرگان کی اقدار کی حفاظت کر سکیں۔ بچوں میں امانت ودیانت کے وصف کو اجاگر کرنے کے لیے آپ کبھی بھی دفتری باتیں گھر میں نہ کرتے تھے۔ یہ بات آپ کے ذمہ دارانہ رویہ پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے بچوں میں امانت کی حفاظت اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ الحمدللہ کہ آپ کے بچوں میں بھی وقف کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کا ایک بیٹا مربی سلسلہ جبکہ ایک اَور بیٹا وقف ِنو میں شامل ہے اور فضلِ عمر ہسپتال میں لیب ٹیکنیشن کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔

آپ کے ایک سمدھی مکرم محمد اسلم بھروانہ صاحب سانحہ لاہور2010ء میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ نے ان کی بیٹی جو آپ کی بہو ہیں کا اَور بھی زیادہ خیال کرنا شروع کر دیا کہ یہ شہید کی بیٹی ہے۔ آپ نے بہوؤں کو ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھا جو کہ گھر کے جنت نظیر ماحول کے لیے لازمی امر ہے۔

اپنے بچوں کے ساتھ بہت شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپ ایک شفیق باپ تھے۔ آپ کی بیٹی مکرمہ صادقہ شاہین اہلیہ مکرم لئیق احمد منگلا صاحب کارکن انصاراللہ پاکستان اپنے بزرگ والد کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میرے والد بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ بہت خوش طبع اور ملنسار تھے۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ ابا جان ہم سب بہن بھائیوں سے بہت پیار اور محبت کا سلوک فرماتے۔ اگر ہم بہن بھائیوں کے درمیان کسی بات پر کوئی جھگڑا پیدا ہو جاتا تو نہایت نرمی سے سمجھاتے۔ ہاں اگر کہیں کوئی ایسی بات ہوتی جس پر سختی کرنا ضروری ہوتی تو سختی بھی کرتے۔ مگر یہ سختی صرف زبانی ہوتی۔ ہر قدم پر ہماری رہ نمائی اور مدد فرماتے۔ میں پڑھائی سے بہت گھبراتی تھی۔ مجھے اپنے ہاتھ سے لکھنا پڑھنا سکھایا۔ اپنے ہر بچے کو اچھی تعلیم دلوائی۔ جب ہمارے امتحانات ہوتے تو ہمیں ہر پرچہ سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھنے کی تاکید فرماتےاور خود بھی ساری زندگی ہر معاملہ میں حضور انور کی خدمت میں دعا کےلیے لکھتے اور رہ نمائی اور مدد لیتے رہے۔ آپ نے ہر خط ایک قیمتی اثاثہ سمجھ کر محفوظ کیا ہوا تھا۔ آپ نےکبھی اپنی بیماری کا ذکر ہمارے سامنے نہیں کیا اور نہ ہی چہرے سےاظہار کیا۔ جب بھی آپ سے طبیعت کا پوچھتے تو کہتے کہ میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن اُن کی وفات کے بعد خلیفۂ وقت کو لکھے گئے خطوط کے جوابات پڑھ کر معلوم ہوا کہ آپ اپنے سارے معاملات حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کےلیے لکھ کر بالکل مطمئن ہو جاتے تھے۔

گھریلو کام کاج میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے میری ہر قدم پر رہ نمائی اور دلجوئی فرمائی۔ مثلاً روٹی بنانا، سالن پکانا، چائے بنانا نیز سلائی کڑھائی کا ہنر سکھانے کےلیے باقاعدہ سکول میں داخلہ دلوایا۔ ہمیشہ ہر کام میں حوصلہ بڑھایا۔ آپ کا یہ معمول ساری عمر رہا کہ آپ نماز تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے۔ فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن کریم کی تلاوت اُونچی آواز میں کرتے۔ فجر کی نماز کے لیے سب بچوں کو اٹھاتے۔ بیداری کےلیے ہر بچے کے پاس جا تے اور اس وقت تک چین نہ آتا جب تک کہ وہ اٹھ کر نماز کے لیے چلا نہ جاتا۔ رمضان المبارک میں گھر میں عبادتوں کا ایک جوش ہوتا اور ہر ایک میں مقابلہ کی دوڑ ہوتی اور یہ سب ہم نے اپنے والد صاحب سے سیکھا۔ جب MTAکی نشریات شروع ہوئیں اور سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ترجمۃ القرآن کلاسز نشر ہوتی تھیں تو ان کو باقاعدگی سے سنتے اور نوٹس لیتے۔

میں نے کسی بھی مشکل وقت میں اُن کے چہرے پر گھبراہٹ نہیں دیکھی ہر وقت ایک پُر سکون مسکراہٹ رہتی تھی۔ ایک دفعہ میرے بڑے بھائی لاہور جارہے تھے کہ ربوہ اڈہ پر ہی ان کی جیب کٹ گئی۔ بھائی بہت پریشان گھر آئے تو اباجان نے ان کو تسلی دی اور دوبارہ کرایہ دے کر لاہور کےلیے بھجوایا اور کسی گھبراہٹ یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ جب بھی انہیں ملنے کےلیے جانا تو پُر جوش طریق پر استقبال کرتے اور بہت خوش ہوتے۔ گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے اور ان کی خاطر مدارت کی طرف توجہ دیتے۔ بیماروں کی عیادت کے لیے ضرور تشریف لے جاتے۔ آپ نے ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ قرض ادا کرنے میں کبھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ محلہ میں اگر کسی نے اپنے بچے کو ٹیوشن پڑھانے کےلیے بھیجنا تو کہتے کہ ٹیوشن فیس نہیں لینی، مفت پڑھانا ہے۔ چنانچہ میں نےکبھی کسی بچے کو ٹیوشن فیس لے کر نہیں پڑھایا۔ ہم سب بہن بھائیوں کی اولادسے بھی بہت پیار اور محبت کا سلوک تھا۔ ہمیشہ ان کی بہتر تعلیم و تربیت کےلیے ہمیں نصیحت فرماتے۔ بچوں کے وقف کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔

خاندان کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے آپ نے بہت کوشش کی۔ آپ کے بھتیجے اورداماد مکرم لئیق احمد منگلا صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم منگلا صاحب خاندان کےسب بچوں کوتعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ تمام بچے تعلیم حاصل کرجائیں۔ اس حوالے سے آپ نے عملی کوششیں بھی کیں اور چک منگلا سے آپ کے خاندان کے کئی افراد نے آپ کے گھر میں رہ کرتعلیم حاصل کی۔ خاکسار نےبھی آپ کی تحریک پر ایف اےاور کمپیوٹر کا کورس کیا۔

محترم محمد اسلم شاد منگلا صاحب نے ایک کامیاب عائلی زندگی گزاری۔ آپ کی شادی جنوری1970ءمیں مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ بنت مکرم عبدالرحمان صاحب آف چک منگلا سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نےآپ کو چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ جن کے اسماء یہ ہیں۔ مکرم محمد سعید منگلا صاحب لاہور، مکرمہ عابدہ متین صاحبہ اہلیہ مکرم محمد یعقوب منگلا صاحب ربوہ، مکرم محمد احسن منگلا صاحب کینیڈا، مکرمہ صادقہ شاہین صاحبہ اہلیہ مکرم لئیق احمد منگلا صاحب ربوہ، مکرم محمد انور منگلا صاحب کینیڈا، مکرم محمدناصر طارق منگلا صاحب ربوہ، مکرم محمد نیر منگلا صاحب مربی سلسلہ، مکرم محمد عتیق منگلا صاحب ربوہ۔

آپ کی وفات کے بعد محترم مبارک احمد ظفر صاحب نے آپ کی خوبیوں اور اوصاف کو منظوم صورت میں یوں بیان کیا ہے:

تھے وہ یاروں کے یار اسلم شاد

ایک عالی وقار اسلم شاد

تھے وہ سادہ حلیم طبع بھی

تھے مگر وضع دار اسلم شاد

تھے علامت وہ ایک خدمت کی

عاجز و خاکسار اسلم شاد

تھے دل و جان سے خلافت کے

اِک مطیع، تابعدار اسلم شاد

وہ امیں تھے امانتوں کے ظفرؔ

قول کے پاسدار اسلم شاد

محترم محمد اسلم شاد منگلا صاحب بعض عوارض میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود بیماری کا احساس نہیں ہونے دیا اور بڑے ہشاش بشاش نظر آتے تھے اور اپنے فرائض پوری ذمہ داری اور ہمت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ وفات سے چند روز قبل معمول کے معائنہ کے لیے ہسپتال گئے تھے۔ وہاں آپ کو داخل کر لیا گیا اور اسی دوران دل کے جان لیوا حملوں کی وجہ سے مورخہ 31؍دسمبر 2015ء کو اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری2016ء میں آپ کا ذکر خیر فرمایا اور آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ آپ کے ذکر خیر میں حضور انور ایدہ اللہ نے آپ کے بارے میںمختلف عزیزوں اور احباب کے تاثرات بھی بیان فرمائے جن میں آپ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان تاثرات کے بیان کے بعد حضور انور نے جن الفاظ میں آپ کا تذکرہ فرمایا وہ آپ کی سیرت کا خلاصہ ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’جن صفات کا لوگوں نے ذکر کیا ہے بچوں نے بھی، غیروں نے بھی اس میں ذرا بھر بھی مبالغہ نہیں ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں میرے خیال میں ان کے اوصاف اس سے بہت زیادہ تھے۔ میرا ان سے لمباعرصہ تعلق رہا۔ شروع شروع میں جب یہ کالج میں آئے ہیں تو چند دن شاید میں ان سے کالج میں پڑھا بھی۔ پھر خدام الاحمدیہ میں بھی، انصاراللہ میں بھی ان کے ساتھ کا م کیا۔ پھر جب مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ناظر اعلیٰ بنایا تو اس وقت بھی براہ ِراست ان سے بہت زیادہ واسطہ رہا۔ میں نے ہمیشہ ان کو انتہائی اطاعت گزار دیکھا اور کام کرنے میں بڑا مستعد دیکھا ہے اور بڑی ذمہ داری سے کام کرتے تھے۔ پھر خلافت کے بعد بھی جب بھی ان کو کوئی کام دیا انہوں نے کیا۔ عاجزی انکساری ایسی تھی کہ کئی دفعہ میں نےان کو جلسے پہ یہاں بلایا جب بھی آتے تھے تو عام کارکنوں کے ساتھ بیٹھ کر دفتر میں کام کیا کرتے تھے۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ میں وہاں پرائیویٹ سیکرٹری ہوں تو یہاں مجھے علیحدہ میز کرسی ملے۔ عام کارکنوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور معمولی معمولی کام بھی یہاں کر رہے ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری 2016ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 29؍جنوری2016ءصفحہ9)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button