متفرق مضامین

گلوبلائزیشن کے دَور میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیش فرمودہ زریں اصول حکومتِ وقت کی اطاعت اور خیر خواہی (قسط پنجم)

(ابو حمدانؔ)

ہندوستان دارالحرب یا دارالسلام

گذشتہ اقساط میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح علمائے ہندوستان کی اکثریت نے اپنے من پسند عقائد اور نظریات کے پرچار کےلیے متفرق طریق اپنائے۔ اور مخالف عقائد رکھنے والوں پر کہیں فتاویٰ کی بوچھاڑ کی تو کہیں حکومت ہی کو خلاف کرنا چاہا۔ چنانچہ مسئلہ جہاد کو بنیاد بنا کر عوام الناس کو گمراہ کرنے کی خاطر بہتیرے پاپڑ بیلے گئے۔ اور ہندوستان کو دارالحرب بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

مگر یہ سب کچھ درحقیقت اسلامی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کے منافی تھا، کیونکہ (جیسا کہ گذشتہ اقساط میں تفصیلی طور پربیان کیا جاچکا ہے کہ) حکومت انگلشیہ نے تو ہر قسم کی آزادی عطا کیے رکھی تھی۔ پھر کس بنا پر اس حکومت کے خلاف جہاد جائز قرار دیا جارہا تھا جبکہ

٭…حکومت برطانیہ کے دَور میں مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کو مذہبی آزادی حاصل رہی۔

٭…حکومت برطانیہ اپنی رعایا کے تمام بنیادی حقوق مہیا کر تی رہی۔

٭…حکومت برطانیہ اپنی رعایا کو بلا تمیز عدل وانصاف فراہم کرتی رہی۔

اور ان سب کی گواہی انہیں علماء کے آباء یا بزرگوں نے بھی دی جو تفصیلی بیان کی جاچکی ہیں۔ (ملاحظہ ہو قسط دوم اورسوم)

بہرحال انہیں سب خصائص کو دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانوں کو اس محسن گورنمنٹ سے لڑنے سے منع فرمایا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اِس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں۔ سو یاد رہے کہ یہ سوال اُن کا نہایت حماقت کا ہے کیونکہ جس کے احسانات کا شکر کرنا عین فرض اورواجب ہے اُس سے جہاد کیسا۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بَد کار آدمی کاکام ہے۔ ‘‘

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ380)

پھر فرمایا:

’’آئے دن جو سرحدیوں کی ایک وحشی قوم ان انگریز حکام کو قتل کرتی ہے جو اُن کے یا ان کے ہم قوم بھائی مسلمانوں کی جانوں اور عزتوں کے محافظ ہیں۔ یہ کس قدر ظلم صریح اور حقوق عباد کا تلف کرنا ہے۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ24)

آپ علیہ السلام گورنمنٹ کا شکر اداکرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

’’میں اس کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایۂ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیر سایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت اور وعظ کا ادا کر رہا ہوں۔ اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیر ہو رہے ہیں ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ کسی اور گورنمنٹ کے زیر سایہ انجام پذیر ہو سکتے۔ اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔‘‘

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 284)

یہ نظریہ کئی اور علماء کا بھی تھا چنانچہ کتاب ’’سرسید سےاقبال‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ

’’سید احمد خان، مرزا غلام احمد اور دیگر مسلم دانشوروں کی طرح وہ انگریزی حکومت کی اس بنا پر تعریف کرتے تھے کہ اس نے ہندوستان کو امن و امان کی صورتِ حال عطا کی ہے اور اس سے مسلمانوں کو اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے کی مکمل آزادی مل گئی ہے‘‘

اسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایک جگہ اسی بابت لکھتے ہیں :

’’اس گروہ اہل حدیث کے خیر خواہ ووفادار رعایا برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی روشن اور قوی دلیل(جو اور کسی اسلامی فرقہ کی وفاداری پر پائی نہیں جاتی) یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے کو اسلامی سلطنتوں کے ماتحت رہنے سے(بلحاظ امن و آزادی وروز افزوں ترقی نہ بلحاظ مذہب) بہتر سمجھتے ہیں اور ا س امر کو اپنے قوی وکیل اشاعۃ السنہ کے ذریعے سے(جس کے نمبر10 جلد6میں اس ا مر کا بیان ہوا ہے اور وہ نمبر ہر ایک لوکل گورنمنٹ اور گورنمنٹ آف انڈیا میں پہنچ چکا ہے) گورنمنٹ پر بخوبی ظاہرو مدلل کر چکے ہیں جو آج تک کسی اسلامی فرقہ رعایا گورنمنٹ نے ظاہر نہیں کیا اور نہ آئندہ کسی سے اس کے ظاہر ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔ ‘‘

(اہل حدیث کو وہابی کہنے پر اعتراض، اشاعۃ السنۃجلد8نمبر9صفحہ262)

ایک لمبے عرصہ تک یہی بحث مباحث چلتے رہے ہیں کہ آیا ہندوستان دارالحرب ہے یا نہیں۔ جس کے لیے کبھی ان کی اسلام دشمن کارروائیوں کی تلاش کی جاتی رہی تو کبھی برصغیر کومسلمان حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا۔ اور خطہ کے بعض حصوں میں جہادی ایجنڈے کے تحت کارروائیاں بھی ہونا شروع ہوگئیں۔ جن میں اکثر صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ پاکستان )کے علاقے شامل رہے۔ بہرحال مختلف حیلے بہانوں سے مسئلہ جہاد اور حکومت انگلشیہ پر لمبے لمبے حاشیے چڑھائے جاتے رہے۔ جن کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں تقسیم ہند تک جاری رہا۔ آہستہ آہستہ اس مسئلہ پر ہمیں دو دھڑے نظر آنے لگ گئے۔ ایک وہ جو خونی مہدی اور جہاد بالسیف کے عقیدہ سے منسلک تھے اور حکومت برطانیہ کے خلاف اس کو بروئے کارلانے کے درپےتھے۔ جبکہ دوسری جانب ایسے علماء جو حکومت برطانیہ کی عوام دوست، مذاہب سے ہم آہنگ اور حقوق کی ادائیگی جیسے خواص کی بنا پر ان کے خلاف جہاداور تلوار کے استعمال کے خلاف تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کو دارالحرب کی بجائے دارالاسلام ڈکلیئر (declare)کرنے کےلیے مختلف فتاویٰ بھی جاری کیے۔ ان میں نامی گرامی اسماء (سرسید احمد خاں، جونا پور سےمولوی کرامت علی، چراغ علی وغیرہ ) شامل تھے۔ اسی طرح نامی گرامی عالم سید نذیر حسین دہلوی نے بھی اپنے دیگر عقائد کے برخلاف اس معاملہ میں حکومت برطانیہ کی امن پسندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ ان کے متعلق کتاب الحیات بعد الممات میں لکھا ہے کہ

’’ہندوستان کو ہمیشہ میاں صاحب دارالامان فرماتے تھے دارالحرب کبھی نہ کہا۔ ‘‘

(الحیات بعد الممات یعنی سوانح عمری شمس العلماء شیخ الکل استاد المحدثین حضرت علامہ مولانا مولوی سید نذیر حسین المعروف میاں صاحبؒ صفحہ 80)

مولوی نذیر حسین دہلوی کا اس سے پہلے بھی کئی بار حکومت برطانیہ کی حمایت میں کھڑا ہونا ثابت ہے۔ خاص کر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت میں اضافہ کےلیے مولوی صاحب اس بات کے ہمیشہ خواہاں رہے کہ اعلیٰ تعلیم کا حصول ہونا چاہیے۔ ’’افسوس بڑے افسوس بڑے سخت افسوس کی بات ہے کہ ہماری بدنصیب ہندوستان کی رعایا اور گورنمنٹ میں وہ گاڑھا اتحاد نہیں ہے اور اسکے ہونے میں ابھی بہت دیر معلوم ہوتی ہے جسکا ہونا رعایا اور گورنمنٹ دونوں کے حق میں مفید بلکہ ضروری ہے۔ برٹش گورنمنٹ کو ہندوستان میں حکومت کرتے ہوئے قرن ہوگئے۔ بھلا پھر کونسی چیز رعایا اور گورنمنٹ میں اتحاد پیدا ہونے کی مانع ہے۔ کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے۔ توبہ توبہ ماباپ سے بڑھ کر شفیق۔ ‘‘ ان کا یہ نظریہ تھا کہ

’’تعلیم ہی رعایا ہندوستان کو شائیستہ اور مہذب بنائیگی۔ تعلیم ہی ان کو دولت کی کیمیا سکھائیگی۔ تعلیم ہی ان کی نظر میں برٹش گورنمنٹ کی قدر بڑھائیگی۔ تعلیم ہی اون کو برٹش گورنمنٹ کی برکتوں سے متمتع ہونے کی حرص دلائیگی۔ تعلیم ہی بدگمان رعایا اور رکی ہوئی گورنمنٹ کے دلوں میں صفائی کرائیگی۔ ‘‘

(لیکچر مولوی نذیر حسین دہلوی لیکچر نمبر 9بمقام لاہور 28؍دسمبر1888ء)

الغرض نامی گرامی علماء بھی برطانوی حکومت کی مداح سرائی میں پیش پیش رہے اور ہندوستان کو دارالحرب کی بجائے دارالسلام کہنے کے ہی حامی تھے۔

اس زمانے کے حکم و عدل کا فیصلہ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کی احادیث کے مطابق بحیثیت حکم وعدل جہاں امت میں پائے جانے والے دیگر مسائل پر روشنی ڈالی، وہیں آپؑ نے جہاد پر بھی کافی مفصل مضامین تحریر فرمائے۔

چنانچہ سن 1900ء میں کتاب ’’ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ تحریر فرمائی جس میں پہلے تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کی اصلیت پر بحث کی ۔اور بتایا گیا کہ اسلام ایک انتہائی پرامن مذہب ہے۔ اور تاریخ اسلام کے ابتدا میں 13سال ظلم اور زیادتیوں کی بھرمار کے بعد مسلمانوں کو اپنی حفاظت میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت ملی تھی۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک موقع پر اس کتاب میں فرمایا کہ

’’یاد رہے کہ مسئلہ جہاد کو جس طرح پر حال کے اسلامی علماء نے جو مولوی کہلاتے ہیں سمجھ رکھا ہے اور جس طرح وہ عوام کے آگے اس مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ہرگز وہ صحیح نہیں ہے۔ اور اس کا نتیجہ بجزاس کے کچھ نہیں کہ وہ لوگ اپنے پُر جوش وعظوں سے عوام وحشی صفات کو ایک درندہ صفت بناویں۔ اور انسانیت کی تمام پاک خوبیوں سے بے نصیب کر دیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں یقیناً جانتاہوکہ جس قدر ایسے ناحق کے خون ان نادان اور نفسانی انسانوں سے ہوتے ہیں کہ جو اس راز سے بے خبر ہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے اسلام کو اپنے ابتدائی زمانہ میں لڑائیوں کی ضرورت پڑی تھی۔ ان سب کا گناہ ان مولویوں کی گردن پر ہے کہ جو پوشیدہ طور پر ایسے مسئلے سکھاتے رہتے ہیں جن کا نتیجہ دردناک خونریزیاں ہیں۔ یہ لوگ جب حکام وقت کو ملتے ہیں تو اس قدر سلام کے لئے جھکتے ہیں کہ گویا سجدہ کرنے کے لئے طیار ہیں اور جب اپنے ہم جنسوں کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو بار بار اصرار ان کا اِسی بات پر ہوتا ہے کہ یہ ملک دارالحرب ہے اور اپنے دلوں میں جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ اور تھوڑے ہیں جو اس خیال کے انسان نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے اس عقیدہ جہاد پر جو سراسر غلط اور قرآن اور حدیث کے برخلاف ہے اس قدر جمے ہوئے ہیں کہ جو شخص اس عقیدہ کو نہ مانتا ہو اور اس کے بر خلاف ہو اُس کا نام دجال رکھتے ہیں اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بھی مدت سے اِسی فتویٰ کے نیچے ہوں۔ اور مجھے اس ملک کے بعض مولویوں نے دجال اور کافر قرار دیا اور گورنمنٹ برطانیہ کے قانون سے بھی بے خوف ہو کر میری نسبت ایک چھپا ہوا فتویٰ شائع کیا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور اس کا مال لوٹنا بلکہ عورتوں کو نکال کر لے جانا بڑے ثواب کا موجب ہے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ یہی تو تھا کہ میرا مسیح موعود ہونا اور اُن کے جہادی مسائل کے مخالف وعظ کرنا اور اُن کے خونی مسیح اور خونی مہدی کے آنے کو جس پر اُن کو لوٹ مارکی بڑی بڑی اُمیدیں تھیں سراسر باطل ٹھہرانا اُن کے غضب اور عداوت کا موجب ہو گیا۔ مگر وہ یاد رکھیں کہ درحقیقت یہ جہاد کا مسئلہ جیسا کہ اُن کے دلوں میں ہے صحیح نہیں ہے اور اِس کا پہلا قدم انسانی ہمدردی کا خون کرنا ہے۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اورجہاد، روحانی خزائن جلد17صفحہ7تا8)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button