سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط سوم)

(امۃ الباری ناصر)

شرف بیعت سے ہجرت قادیان تک

(حصہ دوم)

می پریدم سُوئے کُوئے تو مدام

من اگر میداشتم بال و پرے

ایک نشان کے اوّل گواہ

حقیقۃ الوحی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ بطور گواہ حضرت مفتی صاحب کا نام تحریر فرمایا ہے۔ ایک سو بیسویں نشان کے تحت انجمن حمایت اسلام لاہور کے متعلق آپؑ کی پیشگوئی پوری ہوئی جس کی تائید میں ’’اس نشان کے اوّل گواہ مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر ‘‘کے ہاتھ کا خط بطور شہادت درج فرمایا۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ288تا289)

واقعات صحیحہ

1899ءمیں پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے حضرت اقدسؑ کی مخالفت شروع کی۔ آپ نے اُسے تفسیر نویسی میں مقابلہ کی دعوت دی۔ پیر صاحب نے چالاکی سے اپنے مریدین کو جمع کر کے یہ کوشش کی کہ جلسہ کی صورت ہو جائے جس میں شور مچا دیا جائے کہ مقابلہ پر کوئی نہیں آیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر لاہور سے اشتہارات شائع کر کے حقیقت حال واضح کی گئی۔ یہ اشتہار حضرت مفتی صاحبؓ نے تحریر کیے جن کو بعد میں ایک رسالہ کی شکل میں شائع کیا گیا۔ حضرت اقدسؑ نے اس رسالہ کا نام ’’واقعاتِ صحیحہ‘‘رکھا۔

حضرت اقدس کی خدمت میں نب، لفافے، کاغذ

حضرت مفتی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں :

’’اوائل میں حضرت مسیح موعودؑ کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے۔ اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے۔ تاکہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کا انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے۔ لیکن ایک دفعہ جبکہ عید کا موقع تھا۔ میں نے حضورؑ کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نبیں پیش کیں۔ اس وقت تو حضورؑ نے خاموشی سے رکھ لیں۔ لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت اقدسؑ کا خط آیا کہ آپ کی وہ نبیں بہت اچھی ہیں اور اب میں اُن ہی سے لکھاکروں گا۔ آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھجوادیں۔ چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد اس قسم کی نبیں حضور کی خدمت میں پیش کرتا رہا۔ لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہوتا ہے کچھ عرصے کے بعد مال میں کچھ نقص پیدا ہو گیا اور حضرت صاحبؑ نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا۔ جس پر مجھے آئندہ کے لئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر دامن گیر ہوا اور میں نے کارخانے کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نبیں پیش کیا کرتا تھا۔ لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے۔ اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا اور اس خط میں مَیں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کون ہیں؟ اور پھر میں نے حضورؑ کے دعویٰ وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی۔ کچھ عرصے کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اُس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیہ مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دیں۔ اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا حضور یہ سن کر مسکرائے۔ مگر مولوی عبدالکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے ہنستے ہو ئے فرمانے لگے کہ جس طرح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے اسی طرح آپ نے بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہو گا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں نبوں کے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے دعاوی کا ذکر شروع کر دیا لیکن یہ کوئی گریز نہیں۔ زبردستی ہے۔‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ254تا255)

ایک دفعہ آپ نے چند لفافے انگریزی میں پتہ لکھ کر اور ٹکٹ لگا کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کیے اس پیش کش کو حضورؑ نے پسند فرمایا۔ ایک دفعہ مفتی صاحبؓ نے اچھے کاغذ دیکھے تو سلطان القلم کو تحفہ دینے کا خیال آیا۔

ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں

وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں

پیارے مسیح کا پیغام اہلِ لاہور کے نام

ایک دفعہ مفتی صاحبؓ قادیان سے واپس لاہور جا رہے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ازراہِ شفقت فرمایا:

’’لاہور کی جماعت کو ہماری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں اور ان کو سمجھا دیں کہ دن بہت ہی نازک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی پروانہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ ہر ایک آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح د یوے اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں پیش آ جاؤ‘‘

یہ ایک قدرے طویل پیغام ہے ایک درد مند باپ کی طرح محبت بھرے دل سے اپنے بچوں کے لیے صلح و امن کا پیغام دیا ہے جس سے آپ کی اپنے مریدین کے لئے محبت چھلکتی ہے۔ فرماتے ہیں :

’’یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خُلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 174تا175، ایڈیشن 2003ء)

بشپ جارج الفریڈ لیفرائے کو مسکت جواب

18؍مئی 1900ء کو فورمین چیپل لاہور انار کلی لاہور میں بشپ جارج الفریڈلیفرائے نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ انداز میں تقریر کی۔ تقریر کا موضوع ’’معصوم نبی‘‘ تھا موقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں لفظ ذنب استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ گناہ گار تھے۔ آخر میں کہا کہ کوئی ہے جو اعتراض کر سکے۔ اس لیکچر میں انہوں نے ضعیف روایات اور تفاسیر کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ سارے نبیوں کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ آخر میں کہا کہ کوئی ہے جو اعتراض کر سکے۔ سارا مجمع خاموش تھا۔ علماء حضرات

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ

پڑھتے ہوئے جلسہ سے چل دیے۔ صرف ایک عاشقِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کاسرِ صلیب کا تربیت یافتہ اُٹھا اور جلالی شان سے آنحضورؐ کا دفاع کیا اوردلائل سے ثابت کیا کہ آپؐ معصوم نبی تھے جبکہ انجیل خود مسیح کو معصوم نبی نہیں مانتی۔ آپ نے حضرت مسیحؑ کا قول دہرایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے کوئی نیک نہیں سوائے باپ کے جو آسمان پر ہے، وہ خود کو معصومیت کے مقام پر کھڑانہیں کرتے تھے جبکہ ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس آپ کی تقریر سے عیسائی پادری مبہوت رہ گیا اور مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ خوب اسلام کا بول بالا کیا۔ کئی دن تک اس کا عام چرچا رہا کہ ’’مرزائی جیت گیا۔‘‘

جب حضرت اقدسؑ کو بشپ صاحب کے اس لیکچر کا علم ہوا تو حضورؑ نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں ’’معصوم نبی‘‘کے موضوع پر بحث کرنے کے لیے بلایا اورلکھا کہ کسی نبی کو معصوم ثابت کرنا کوئی عمد ہ نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا کیونکہ نیکی کی تعریف میں کئی مذاہب کا آپس میں اختلاف ہے مثلاًبعض مذاہب شراب پینا حرام کہتے ہیں بعض جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں۔ پس عمدہ طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعلمی اور عملی اور تقدیسی اور برکاتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلا یا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں وغیرہ۔ یہ اشتہار کثرت سے شائع کیا گیا اور بشپ صاحب مذکور کو بھی انگریزی میں ترجمہ کروا کے بھیجا گیا۔

بشپ صاحب نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ اشتہار دیا کہ وہ 25؍مئی کو ’’زندہ رسول‘‘ کے موضوع پر پھر لیکچر دیں گے۔ حسب سابق مسلمانوں کو مقابلہ پر آنے کی دعوت دی۔ مسلمانوں میں بڑا جوش پھیلا مولوی ثناء اللہ امرتسری کو جواب دینے کے لیے کہا گیا مگر انہوں نے مسلمانوں کو جلسہ سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ اس پر سب کی نظر یں ’مرزائیوں ‘ کی طرف اُٹھیں کہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ میں مرزائی ہی جواب دے سکتے ہیں۔ 24؍مئی کو نماز ظہر کے بعد مفتی صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں سب واقعات پیش کیے۔ جلسے میں چوبیس گھنٹے باقی تھے۔ آپ کی طبیعت بھی کچھ کمزور تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، عظمت اور جلال کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو غیرت بخشی تھی اُس نے آپ میں وہ طاقت بھردی اور ایسا جوش پیدا کیا کہ آپ نے اُسی وقت قلم پکڑا اور ’’زندہ رسول‘‘ کے موضوع پر ایک لاجواب اور مسکت مضمون تحریر فرمایا۔ جس میں آپ نے حضرت مسیحؑ کی وفات کا ناقابل تردید دلائل سے ثبوت دینے کے بعد بتایا کہ زندہ نبی تنہا ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی تاثیرات و برکات کا ایک زندہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے اور اس کا ایک نمونہ مَیں ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

ڈیڑھ دو گھنٹہ میں روح القدس کی تائید سے لکھا ہوا یہ مضمون راتوں رات چھپا پھر حضرت مفتی صاحبؓ چار بجے یہ مضمون لے کر لاہور روانہ ہوئے۔ یہ جلسہ رنگ محل ہائی سکول میں منقعد ہوا۔ جلسہ میں بشپ موصوف نے ’’زندہ رسول‘‘ کے عنوان پر تقریر کے بعد سوالات کے لیے وقت دیا۔ مفتی صاحبؓ نے مضمون پڑھ کر سنایا اس وقت تین ہزار کا مجمع تھا۔ پُر شوکت مضمون سن کر لاہور ایک بار پھر دین حق کی فتح کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ خوشی کی بات یہ بھی تھی کہ حضرت اقدسؑ کے مضمون میں جو روح القدس کی تائید سے لکھا گیا تھا پادری صاحب کے ہر اعتراض کا جواب موجود تھا۔ بشپ صاحب ایسی زبردست شکست کھا کر انگشت بدنداں ہو گئے اور چپ سادھ لی کہا تو یہ کہ

’’معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو ہم تم سے گفتگو نہیں کرتے ہمارے مخاطب عام مسلمان ہیں۔‘‘

وہ لوگ جو وعظ سن رہے تھے باہر آ کر کہنے لگے مرزائی اگرچہ کافر ہیں مگر آج اسلام کی عزت انہی نے رکھ دکھائی ہے۔

(ماخوذ از الحکم 31؍مئی 1900ءملفوظات جلد پنجم صفحہ397ایڈیشن )

پادری صاحب کی ہزیمت پر متعدد انگریزی اخبارات مثلاًپائنیر، انڈین سپیکٹیٹر اور انڈین ڈیلی ٹیلی گراف وغیرہ نے تبصروں میں حیرت کا اظہار کیا۔

(حیاتِ طیبہ ایڈیشن دوم صفحہ210)

عبرانی زبان کی تعلیم

1895ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے میں قرآن پاک پر ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ پہلی کتب مقدسہ جن قوموں کے واسطے نازل ہوئی تھیں اُنہیں کی زبان میں ہوئی تھیں قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ ساری دنیا کے لیے ہے تو پھر اس کے زبان عربی میں ہونے کی کیا وجہ ہے۔ حضرت اقدسؑ نے اس کے جواب میں ایک کتاب ’’منن الرحمان‘‘تصنیف فرمائی جس میں یہ ثابت فرمایا کہ عربی ام الالسنہ ہے اس لیے اس زبان میں ساری دنیا کے لیے آخری شریعت ناز ل ہوئی اس مقصد کے لیے ہر زبان کے الفاظ سے ثابت کرنا مقصود تھا کہ وہ عربی سے نکلے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ حضرت اقدسؑ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی بے قراری، عاجزی اور تضرع سے مدد مانگی۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک آیت کی طرف اشارہ فرمایا۔

’’اگر تو چاہتا ہے کہ آیتِ موصوفہ اور اس کے حملے سے نجات ہو تو قرآن کے اس مقام کو پڑھ جہاں یہ لکھا ہے کہ لِتُنْذِرَاُمَّ الْقُرٰی وَمَن حَوْلَھَا جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بھیجا تا تو اس شہر کو ڈراوے جو تمام آبادیوں کی ماں ہے اور ان آبادیوں کوجو ان کے گرد ہیں یعنی تمام دنیا کو اور اس میں قرآن کی مدح اور عربی کی مدح ہے پس عقلمندوں کی طرح اس پر تدبر کر اورغافلوں کی طرح ان پر سے مت گزر اور جان کہ یہ آیت قرآن اور عربی اور مکہ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں ایک نور ہے جس نے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور لا جواب کردیا پس تمام آیت کو پڑھ اوراس کے نظام کی طرف دیکھ اور دانشمندوں کی طرح تحقیق کر اور میں نے ان آیتوں میں تدبر کیاپس کئی بھید ان میں پائے پھر گہری غور کی توکئی نور ان میں پائے پھر ایک بہت ہی عمیق نظر سے دیکھا تواتارنے والے قہار کا مجھے مشاہدہ ہوا جو رب العالمین ہے اور میرے پر کھولا گیا کہ آیت موصوفہ اور اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی طرف ہدایت کرتی ہیں۔ اوراس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ ام الالسنہ ہے۔ اور قرآن پہلی کتابوں کا ام یعنی اصل ہے اور مکہ تمام زمین کا ام ہے۔ ‘‘

( روحانی خزائن جلد 9منن الرحمن صفحہ183)

مسیح زمانؑ کو اللہ تعالیٰ نے اس کام پہ لگایا اور انصار بھی مہیا فرما دئے۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحبؓ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ مجھے کوئی دینی خدمت سونپیں۔ جس پرحضورؑ نے فرمایا:

’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی ثابت کریں کہ عبرانی زبان بھی عربی سے نکلی ہے لیکن یہاں کوئی عبرانی پڑھا ہوا نہیں ہے۔ جو عبرانی زبان کے الفاظ کی فہرست بنائے جیسا کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کی ہم نے فہرستیں بنوائی ہیں۔ پس آپ لاہور میں کسی سے عبرانی سیکھیں پھر آ کر ہمیں سُنائیں۔ ‘‘

یہ ایک انتہائی دقیق علمی کام تھا۔ جو اُن کے مرشد نے تفویض کیا تھا۔ لاہور میں عبرانی کے اُستاد کی تلاش کی مگر ناکامی ہوئی صرف یہ معلوم ہوا کہ انار کلی کے چوباروں میں کوئی رنڈی رہتی ہے جو عبرانی جانتی ہے وہاں آ پ نے مناسب خیال نہ کیا اور یہ معاملہ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کر دیا۔

حضورؑ نے فرمایاکہ

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ

آپ چلے جائیں آپ کی نیت پر آپ کو ثواب ہوگا۔ مفتی صاحب اُس کے پاس پہنچے تو اس نے بتایا کہ چند دن میں اُس کا ایک ہم وطن یہودی آنے والا ہے جو عبرانی پڑھا سکے گا۔ اس طرح ایک ٹیوٹر کا انتظام ہو گیا۔ صرف تین ماہ میں آپ نے عبرانی سیکھ لی تاکہ الفاظ کی فہرست بنا کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ اس سلسلے میں آپ نے اس قدرعبرانی بائبل کو بغور پڑھا تو اُس میں بہت سی پیشگوئیاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق اصلی حالت میں ملیں جبکہ تراجم میں اُن کو مشتبہ کر دیا گیا تھا۔ یہ مواد آپ وقتاً فوقتاً حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کرتے جو آپ اپنی کتب میں شامل فرماتے۔ عبرانی تحریر بھی مفتی صاحب کی لکھی ہوئی ہے۔ تحفہ گولڑویہ کے صفحات 114,111 اور 138 پر ایسی تحریریں موجود ہیں۔ کچھ حوالے اربعین نمبر4کے تتمہ ص8پر بھی درج فرمائے۔

(ماخوذازالفضل3؍جنوری1945ء)

دینی اغراض کے لیے عبرانی کی تعلیم کا ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا تھا جب اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ آپؐ کا کوئی صحابی عبرانی سے واقفیت پیدا کرے۔ آپؐ نے اس غرض سے ایک نوجوان صحابی حضرت زیدؓ بن ثابت انصاری سے جنہوں نے جنگِ بدر کے قیدیوں سے عربی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور جو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبِ خاص کا کام کرتے تھے ارشاد فرمایا کہ وہ عبرانی لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیں چنانچہ زیدؓ نے جو خاص طور پر ذہین واقع ہوئے تھے صرف پندرہ دن کی محنت سے عبرانی سیکھ لی۔ (اصابہ و خمیس)

اشتراک السنہ ثابت کرنے والوں کے لیے الٰہی تمغہ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ا س کام میں معاونت کرنے والوں کو دلی دعاؤں سے نوازا اور آخر میں جو نام تحریر فرمائے اُن میں چھٹا نام اخویم مفتی محمدصاد ق صاحب بھیروی ہے تحریر فرماتے ہیں کہ

’’ہم اس جگہ اپنے ان دوستوں کا شکر ادا کرنے سے رہ نہیں سکتے جنہوں نے ہمارے اس کام میں زبانوں کا اشتراک ثابت کرنے کے لئے مدد دی ہے ہم نہایت خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے مخلص دوستوں نے اشتراک السنہ ثابت کرنے کے لئے وہ جان فشانی کی ہے جو یقیناً اس وقت تک اس صفحہ دنیا میں یاد گار رہے گی جب تک کہ یہ دنیا آباد رہے ان مردان خدا نے بڑی بہادری سے اپنے عزیز وقتوں کو ہمیں دیا ہے اور دن رات بڑی محنت اور عرق ریزی اُٹھا کر اس عظیم الشان کا م کو انجام دیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان کو جنابِ الٰہی میں بڑا ثواب ہو گا کیونکہ وہ ایک ایسے جنگ میں شریک ہوئے ہیں جس میں عنقریب اسلام کی طرف سے فتح کے نقارے بجیں گے پس ہر ایک اُن میں سے الٰہی تمغہ پانے کا مستحق ہے۔ میں اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کیوں کر ہر یک جلسہ میں اشتراک نکالنے کے لئے اندر ہی اندر صد ہا کوس نکل جاتے تھے اور پھر کیوں کر کامیابی کے ساتھ واپس آ کر کسی لفظ مشترک کا تحفہ پیش کرتے تھے یہاں تک کہ اسی طرح دنیا کی زبانیں ہمارے پاس جمع ہو گئیں ہیں کبھی اس کو فراموش نہیں کروں گاکہ اس عظیم الشان کام میں ہمارے مخلص دوستوں نے وہ مدد دی جو میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعے سے میں اُس کا اندازہ بیان کر سکوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ یہ اُن کی محنتیں قبول فرماوے اور ان کو اپنے لئے قبول کر لیوے اورگندی زیست سے ہمیشہ دور اور محفوظ رکھے اور اپنا اُنس اور شوق بخشے اور اُن کے ساتھ ہو۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘

(منن الرحمن روحانی خزائن جلد 9صفحہ143تا144)

حضور سجدۂ شکر میں گر گئے

جن ایام میں حضور اقدس مسیح موعودؑ اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘لکھ رہے تھے ایک دوست میاں محمد سلطان صاحب آئے اور ذکر کیا کہ میں ایک مرتبہ افغانستان گیا تھا وہاں مجھے ایک قبر دکھائی گئی تھی جو لامک نبی کی قبر کے نام سے موسوم تھی۔ حضورؑ نے مفتی صاحبؓ کو فرمایا کہ اس کے معنی عبرانی میں کیا ہیں ؟ لُغت میں دیکھ کر بتائیں۔ مفتی صاحبؓ نے بتایا کہ لامک کے معنی جمع کرنے والا اور حضرت مسیح گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لیے ہی تھے اس لیے یہ نام ان کے لیے تجویز ہوا اور ان کا یہ نام اناجیل میں درج ہےکہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے واسطے آیا ہوں۔ یہ سن کر حضورؑ کو بہت خوشی ہوئی اورآپ سجدہ میں گر گئے اور آپ کے ساتھ حضرت مفتی صاحبؓ نے بھی سجدہ کیا۔

شام سے صبح ہو گئی

ایک دفعہ بائبل کی کسی آیت کے مفہوم میں اختلاف رائے ہو گیا۔ حضرت اقدسؑ نے مفتی صاحبؓ کو لکھا کہ آیت کی اصل عبرانی مع لفظی ترجمہ کے ہمیں بھیج دیں۔ جب حضورؑ کا یہ ارشاد موصول ہواتو آپؓ دفتر میں تھے۔ دفتر سے واپس آکر عبرانی کی بائبل کھول کر بیٹھے۔ آیت کا لفط بلفظ ترجمہ لغت سے تحقیق کر کے لکھا۔ ساری رات اسی تعمیلِ ارشاد میں گزر گئی اور صبح کی اذان کے ساتھ کام مکمل ہوا۔ دفتر جا کر خط ڈاک میں ڈال دیا۔ یہ صدق و وفا کے انداز تھے جو حضرت مسیح پاکؑ سے دعائیں لُوٹتے تھے۔ آپؑ نے تحریر فرمایا:

’’آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور مجھے نہایت قوی یقین ہے کہ آپ تزکیہ نفس میں ترقی کریں گے۔ اور آخر خدا سے ایک قوت ملے گی۔ جو گناہ کی زہریلی ہوا اور اُس کے اُبال کو بچائے گی اورآج مجھے بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا کہ کسی قدر عبرانی کو بھی سیکھ لوں۔ اگر خدا چاہے تو زبان کا سیکھنا بہت سہل ہو جاتا ہے۔ آپ نے مجھے انگریزی میں تو بہت مدد دی ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ وقت ملنے پر میں جلد تر کچھ انگریزی میں دخل پیدا کر سکتا ہوں۔ اب اس میں بالفعل آپ سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ عبرانی کے جُدا جُدا حروف سے مجھے ایک نمونہ بھیج کر اطلاع دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک حصہ تراکیب کا بھی ہو۔ اس نمونہ پر صورت حرف در فارسی صورت حرف در عبرانی۔

ایسا کریں جس سے مجھے تین حروف جوڑنے میں قدرت ہو جائے۔ باقی خیریت ہے

مرزاغلام احمد عفی اللہ عنہٗ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ269)

حضرت اقدسؑ کی خواہش پر آپ نے موٹے حروف کی انجیل خریدی اس کے الفاظ کاٹ کر ایک کاپی پر چسپاں کیے اور ان کے نیچے خوش خط حروف میں تلفظ اور معانی لکھے۔ حضورؑ نے اس طرز کوپسند فرمایا۔ آپ نے حضرت اقدسؑ کی آسانی کے لیے ایک عبرانی قاعدہ بھی تصنیف کیا تھا۔

(ذکر حبیب صفحہ34تا35)

محبت کا تو اک دریا رو اں ہے

حضرت مفتی صاحبؓ کی حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور قادیان دارالامان کی محبت کا اندازہ لگانے کے لیے آپ کا ایک مکتوب پیش ہے اور اُس مکتوب سے پہلے حضرت محمد ظہور الدین اکملؔ صاحب کا ایک نوٹ جو اخبار بدر مورخہ 19؍مارچ 1908ء میں شائع ہوا ہے پیش خدمت ہے۔ یہ مکتوب آپ نے 1899ء میں ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم کو افریقہ بھیجا تھا۔

اکمل صاحب کا نوٹ

’’یہ وہ وقت تھا جب ہمارا صادق عثمانی دوست (ایڈیٹر بدر) اپنے محبوب کے عشق میں سرگرداں تھا وہ اس پروانہ کی مانند تھا جو شمع کے گرد بڑی بے تابی سے اِدھر اُدھر پھرتا اور آخر پھر اس میں آ کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے وہ اس بچہ کی مانند تھا جو بدر کامل کو دیکھ کر ہمک ہمک کر اُوپر اُٹھتا اور اُس تک پہنچنے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ یہ ابتدائی زمانہ بھی کیاہی پُرلذت زمانہ تھا ہمار ا دوست جب کوئی موقع پاتا تو دیوانہ وار اُٹھ دوڑتا نہ رات دیکھتا نہ دن آخر عشق صادق نےاپنا رنگ دکھایا اور وہ قطرہ سمندر میں آ کر مل گیا یا یوں کہیے کہ جس لڑی کا موتی تھا اُس میں پرودیاگیا…ناظرین مطلع رہیں کہ سب سے پہلے ڈائری لکھنے والا میرا صادق بھائی ہے یہ مبارک رسم انہیں پُر صدق ہاتھوں سے پڑی ہے۔ ‘‘

اس تمہید کے بعد حضرت مفتی صاحبؓ کا ایک طویل مکتوب درج ہے۔ جس کا آغاز اس طرح ہے:

’’اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہمیشہ آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت افریقہ کے ساتھ ہو۔ مثل مشہور ہے۔ کہ جس کو لگتی ہے وہی جانتا ہے اور دوسرا کیا جانے۔ امام پاک کے قدموں سے دوری کے سبب جو کچھ آپ کے دل کا حال ہے اس کو میں خوب سمجھ سکتا ہوں۔ کیونکہ ایسی اشیاء کے اندازہ کے واسطے میرا دل بھی ایک پیمانہ ہے میں جانتا ہوں کہ کوئی مضبوط ہو اور وہ ایسے صدموں کو کم Feelکرے اور کوئی میرے جیسا کمزورہو اور وہ ذرا سی بات پر سرگرداں ہو جاوے مگر وہ شارٹ سائٹ کے چشموں کی طرح ہر ایک شارٹ سائیٹڈ دوسرے شارٹ سائیٹڈ کے چشمے کو دیکھتے ہی فوراً تاڑ جاتا ہے کہ یہ بھی اس مرض میں میرا ساتھی ہے سو کیا ہوا کہ ہم آپ سے بہت دور ہیں اور ہمیں آپ کی ملاقات اور زیارت سے وافر حصہ نہیں ملا بہر حال دل را بدل رہیست۔ اور میں خوب سمجھتا کہ احباب افریقہ کے مخلصین کے قلوب کس جوش میں بھرے ہوئے ہیں …میں اس بات کے کہے بغیر رک نہیں سکتا کہ ہماری جانیں قربان ہو جاویں اس پیارے کے نام پر جو احمدؐ کا غلام پر ہمارا سید اور آ قاہے کہ اس کی جوتیوں کی غلامی کے طفیل ہمارے سارے دُکھ مبدل بہ راحت ہو گئے اور ہمارے سارے غم مبدل بہ خوشی ہو گئے ہمارا ملنا اور ہمارا جُدا ہونا سب خدا کے لئے ہو گیا۔ اور ہمارا سفر اور ہمارا حضر سب دین کے لئے بن گیا اور ہم خدا کی محبت کے قلعہ میں ایسے آ گئے کہ شیطان کا کوئی تیر ہم تک نہیں پہنچ سکتا کہ ہم و غم میں ڈالے خیر تو گزشتہ دو دنوں کے واسطے مجھے توفیق عطا ہوئی تھی کہ میں تھوڑی دیر کے واسطے اس پاک سر زمین کی آب و ہواکے ذریعہ سے اپنی بیماریوں کے مدافعت کے لئے سعی کروں۔ تو آج واپس آ کر میں نے سوچا کہ جو میوے اس بہار سے میں لایا ہوں ان کے ساتھ اپنے پیارے رحمت علی کی دعوت کروں تا کہ کسی کی دلی دعا میرے واسطے بھی رحمت کا موجب ہو جائے۔ ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ238تا239)

نوجوان عاشق قابلِ تقلید، قابل فخر

6؍جنوری 1900ء کو حضرت مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مضمون لکھا جس میں حضرت اقدسؑ کی صحبت سے استفادہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو بطور مثال پیش کیا۔ مضمون سے آپ کی سیرت پر خوب روشنی پڑتی ہے۔

’’ایک مفتی صادق صا حب کو دیکھتا ہوں (سلمہ اللّٰہ وبارک علیہ وفیہ)کہ کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود۔ مفتی صاحب تو عُقّاب کی طرح اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کوئی فرصت غصب کریں اور محبوب اور مولیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں۔

اے عزیز برادر! خدا تیری ہمت میں استقامت اور تیری کوششوں میں برکت رکھ دے اور تجھے ہماری جماعت میں قابلِ اقتداء اور قابل ِفخر کارنامہ بنائے۔ حضرت نے بھی فرمایا:

’’لاہور سے ہمارے حصے میں تو مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں میں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کو کوئی بڑی آمدنی ہے؟ اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہاتھ نہیں پڑتا اور مفتی صاحب توہنوز نو عمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا اُمنگیں نہیں ہوا کرتیں پھر مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشقِ کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زنجیروں کو توڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اُتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن، نہ سردی نہ گرمی نہ بارش، نہ اندھیری۔ آدھی آدھی رات کو یہاں پیادہ پہنچے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہیے۔ ‘‘

(الحکم 24؍جنوری 1900ء صفحہ 7)

خوابوں کی تعبیر اور صدقہ

تذکرہ صفحہ687پر درج ہےکہ حضرت اقدسؑ نے اپنے ایک خواب کے نتیجہ میں مفتی صاحبؓ سے فرمایا:

’’میں نے دیکھاکہ منظور(حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادے) کی طرف چیل جھپٹی ہے آپ ایک مسکین کو کھانا کھلایا کریں۔ ‘‘

مفتی صاحبؓ نے عرض کیا….. حضور مقرر کر دیا ہے۔

حضرت مفتی صاحب کے نَو سال کے بیٹے محمد منظور صادق نے ایک منذر خواب دیکھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’مومن کبھی رؤیا دیکھتا ہے اور کبھی اُس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے ہم نے اس کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ سب جماعت کو کہہ دو کہ جس جس کو استطاعت ہے قربانی کردے…‘‘

(بدر13؍اپریل1905ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کو سن کر اپنے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکراذبح کیا اور آپ کی اتباع میں ہر شخص نے جو مقدرت رکھتا تھا ہر ممبر خاندان کی طرف سے ایک ایک یا کل خاندان کی طرف سے ایک ہی بکرا ذبح کیا اور اس قسم کی قربانیوں سے خون کی ایک نالی جاری ہو گئی تھی۔ کم از کم ایک سو بکرا ذبح ہو گیا ہو گا۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ388)

20؍ستمبر1905ء کو حضرت مفتی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کی خدمت میں اپنی ایک رؤیا بیان کی کہ

’’میں رات مولوی عبدالکریم کے واسطے بہت دعا کرتا تھا تو تھوڑی غنودگی میں ایسا معلوم ہوا کہ میں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے بلا ؤں میں جندرے مارے گئے

فرمایا : ’’مبشر ہے‘‘

اسی دن ایک اور خواب بھی پیش کیا کہ طاعون بہت پھیلا ہوا دکھائی دیا اور کوئی کہتا ہے یا میں کہتا ہوں کہ جو آج کل رات کو اٹھ کر دعا کرلے گا وہ اس سے آئندہ طاعون کے وقت بچایا جائے گا۔

فرمایا یہ بالکل سچ ہے راتوں کو اٹھ کر بہت دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے عذاب سے اپنے فضل و احسان سے محفوظ رکھے۔

(بدر29؍ستمبر1905ء)

وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ اپنے زیرِ تربیت متبعین کے قلوب میں بھی روشن کر دیے تھے۔ حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں :

’’جنوری 1897مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنی تمام خواہشوں کے عوض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کروں گا۔ میرے واسطے دعا کی جائے۔ حضور نے ہاتھ اُٹھا کر تمام حاضرین کے ساتھ دعا کی۔ ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ186)

یہ خیال آپ کو ایک حدیث پڑھ کر آیا تھاجس کا ترجمہ ہے:

حضرت اُبَی بن کعبؓ کہتے ہیں میں نے (ایک رات حضورﷺ کے جگانے پر اُٹھ کر) عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی دعا کا بڑا حصہ حضورؐ کے لیے مخصوص کر دیا کرتا ہوں (مگر بہتر ہو کہ حضور ارشاد فرما دیں کہ) میں اپنی دعا کا کتنا حصہ حضورؐ کے لیے مخصوص کیا کروں فرمایا جتنا چاہو۔ میں نے عرض کیا ایک چوتھائی؟فرمایا جتنا چاہو اور اگراس سے زیادہ (حصہ میرے لیے مخصوص کیا) کرو تو زیادہ بہتر ہو گا۔ میں نے عرض کیا نصف حصہ؟فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بہتر ہوگا۔ میں نے عرض کیا دو تہائی؟فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر دو تو اور بھی بہتر ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ میں آئندہ اپنی تمام دُعا کو حضورؐ کے لیے مخصوص رکھا کروں گا فرمایا اس میں تمہاری سب ضرورتیں اور حاجتیں آ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کر دے گا اور تمہاری ساری مرادیں پوری کر دے گا اور کوتاہیاں معاف کردے گا۔

قادیان ہجرت

1898ءمیں آپؓ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں درخواست لکھی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ ملازمت ترک کر کے قادیان ہجرت کر لوں۔ حضرت اقدسؑ نے جواب میں تحریر فرمایا:

’’مومن کے واسطے قیام فیما اقام اللّٰہ ضروری ہے۔ یعنی جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کھڑا کیا ہے اور اس کے لئے روزی کا سبب بنایاہے وہیں صبر کے ساتھ کھڑا رہے یہاں تک کہ کوئی سبب آپ کے لئے ایسا بنے کہ آپ کو کسی کام کے واسطے قادیان بُلالیا جائے لیکن چونکہ آپ نے ہجرت کا ارادہ کر لیا ہے اس واسطے آپ کو اس کا ثواب ہر حال ملتا رہے گا۔ ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ21)

1900ء میں قادیان کا مڈل سکول ہائی سکول میں بدل گیا سکول کے ناظمین نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مفتی صاحبؓ کو قادیان بلا لیا جائے چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مفتی صاحب کوارشاد فرمایا:

’’آپ فی الحال دفتر سے تین ماہ کی رخصت لے کر آجائیں۔ ‘‘

حضرت مفتی صاحب نے یہ ارشاد سن کر تین ماہ کی رخصت کی درخواست لکھی آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ اگر مجھے رخصت نہیں مل سکتی تو استعفیٰ منظور کر لیا جائے۔ آپ کو حضرت اقدسؑ کے حکم کی تعمیل اپنی ملازمت برقرار رہنے سے زیادہ عزیز تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں اس امر کے بارے میں مزید مشورے ہوئے جس کے نتیجہ میں حضرت اقدسؑ نے دوبارہ پیغام دیا۔

’’آپ استعفیٰ نہ دیں ہاں آسانی سے رخصت مل جائے تو رخصت لے کر یہاں چلے آ ئیں۔ ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ21)

حضور کا یہ پیغام لے کر مکرم عبدالعزیز قادیان سے صبح سحری کے وقت لاہور پہنچے اُن دنوں مفتی صاحبؓ اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ جو اس وقت میڈیکل کے پہلے سال کے طالب علم تھے ایک ہی مکان میں رہتے تھے۔ مسیح پاکؑ کا ارشاد موصول ہوا تو مفتی صاحبؓ نے جو اپنی درخواست پر لکھ چکے تھے کہ اگر درخواست منظور نہ ہو تو استعفیٰ منظور کر لیا جائے اکاؤنٹنٹ جنرل کی میز پر پڑی ہوئی درخواست میں سے لفظ استعفیٰ کاٹ دیا۔ چھٹی کی درخواست منظور ہو گئی۔ آپ کی دلی مراد بَر آئی فوراً قادیان پہنچے جہاں آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سیکنڈ ماسٹر کے فرائض سونپ دیے گئے۔ جب تین ماہ گزر گئے تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا:

’’آپ چھ ماہ کے لئے اور رخصت کی درخواست بھیج دیں۔ ‘‘

چھ ماہ کی درخواست دے دی گئی جن میں سے تین ماہ کی رخصت منظور ہو گئی۔ جب یہ تین ماہ بھی گزر گئے تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا:

’’آپ استخارہ کریں ‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ21تا22)

آپؓ نے سات دفعہ استخارہ کیا جب انشراح صدر نصیب ہو ا تومحبت و اخلاص سے بھر پور ایک خط 7؍جولائی 1901ء کو حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھیجا۔

’’گزارش ہے کہ اس عاجز نے گزشتہ تین چار دنوں میں کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتے ہوئے استخارہ کیا ہے اور اس کے بعد اپنے دینی اور دنیوی فوائد کو یہ عاجز اسی میں دیکھتا ہے کہ حضور کی جوتیوں میں حاضر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس امر کے لئے اس عاجز کو انشراحِ صدر عطا فرمایا ہے پھرجیسا حضور اقدسؑ حکم فرما ویں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آپ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ میرے قلب کا میلان بعد دعائے استخارہ کے بالکل اس طرف ہو گیا ہے اے خدا میرے گناہوں کو بخش دے میری کمزوریوں کو دُور فرما اور مجھے صراطِ مستقیم پر چلا۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کے دُشمنوں کو رُو سیاہ کرے آمین ثم آمین۔ آج سات تاریخ ہے اس واسطے اب لاہور خط لکھ دینا چاہیے۔

حضور کی جوتیوں کا غلام

عاجز محمد صادق قادیان‘‘

(ذکر حبیب، صفحہ279تا280)

حضرت مسیح موعودؑ نے جواب عنایت فرمایا:

’’جب کہ آپ کا دل استخارہ کے بعد قائم ہو گیا ہے تو یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرےہمیں بہت خوشی اور عین مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں۔

خاکسار

مرزا غلام احمد عفی عنہٗ‘‘

ملازمت ترک کرنے کی خبر پہنچنے پر حضرت مفتی صاحبؓ کے دفتر کے مسلمان کلرکوں کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن قادیان آیا اُس کے لیڈر مکرم منشی نظام الدین نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اُن کو لاہور میں رہنے دیا جائے۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ اپنے فیصلے پر قائم رہے۔

حضرت مفتی صاحبؓ نے استعفیٰ بھیج دیا جو منظور ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا دائمی وصل کے سامان کر دیے۔ آپؓ نے جنوری 1901ء میں ہجرت کی۔

(ذکر حبیب، صفحہ26)

تاریخِ احمدیت جلد اول صفحہ 492 پر ہجرت کرنے والوں کی فہرست میں آپ کی ہجرت کا سال جولائی 1900ء تحریر ہے۔

می پریدم سُوئے کُوئے تو مدام

من اگر میداشتم بال و پرے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button