سیرت النبی ﷺمتفرق مضامین

نبی اکرمﷺ کی شفقت، رأفت، رواداری، محبت و برداشت کی تعلیم

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

اخلاقِ حسنہ کی تعریف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’یہ بات بھی بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جیسا کہ عوام الناس خیال کرتے ہیں کہ خُلق صرف حلیمی اور نرمی اور انکسارہی کا نام ہے یہ ان کی غلطی ہے بلکہ جو کچھ بمقابلہ ظاہری اعضاء کے باطن میں انسانی کمالات کی کیفیتیں رکھی گئی ہیں ان سب کیفیتوں کا نام خُلق ہے۔ مثلاً انسان آنکھ سے روتا ہے اور اس کے مقابل پر دل میں ایک قوت رقّت ہے وہ جب بذریعہ عقل خداداد کے اپنے محل پر مستعمل ہو تو وہ ایک خُلق ہے۔ ایسا ہی انسان ہاتھوں سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کوشجاعت کہتے ہیں۔ جب انسان محل پر اور موقع کے لحاظ سے اس قوت کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کا نام بھی خُلق ہے۔ اور ایسا ہی انسان کبھی ہاتھوں کے ذریعہ سے مظلوموں کو ظالموں سے بچانا چاہتا ہے یا ناداروں اور بھوکوں کو کچھ دینا چاہتا ہے یا کسی اور طرح سے بنی نوع کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو رحم بولتے ہیں اور کبھی انسان اپنے ہاتھوں کے ذریعہ سے ظالم کو سزا دیتا ہے اور اس حرکت کے مقابل پر ایک قوت ہے جس کو انتقام کہتے ہیں اور کبھی انسان حملہ کے مقابل پر حملہ کرنا نہیں چاہتا اور ظالم کے ظلم سے درگزر کرتا ہے، اور اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کوعفو اور صبر کہتے ہیں اور کبھی انسان بنی نوع کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے کام لیتا ہے یا پیروں سے یا دل اور دماغ سے اور ان کی بہبودی کے لیے اپنا سرمایہ خرچ کرتا ہے تو اس حرکت کے مقابل پر دل میں ایک قوت ہے جس کو سخاوت کہتے ہیں۔ پس جب انسان ان تمام قوتوں کو موقع اور محل کے لحاظ سے استعمال کرتا ہےتو اس وقت ان کا نام خُلق رکھا جاتا ہے۔ اللہ جلشانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ(القلم :5)

یعنی تو ایک بزرگ خُلق پر قائم ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزئن جلد 10صفحہ 332تا333)

اخلاقِ حسنہ کا حقیقی ظہور کب ہوتا ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ

’’انسان کے اخلاق ہمیشہ دو رنگ میں ظاہر ہو سکتے ہیں یا ابتلا کی حالت میں اور یا انعام کی حالت میں۔ اگر ایک ہی پہلو ہو اور دوسرا نہ ہو تو پھر اخلاق کا پتا نہیں مل سکتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے اخلاق مکمل کرنے تھے اس لئے کچھ حصہ آپؐ کی زندگی کا مکی ہے اور کچھ مدنی۔ مکہ کے دشمنوں کی بڑی بڑی ایذا رسانی پر صبر کا نمونہ دکھایا اور باوجود ان لوگوں کے کمال سختی سے پیش آنے کے پھر بھی آپؐ ان سے حلم اور بردباری سے پیش آتے رہے اور جو پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے اس کی تبلیغ میں کوتاہی نہ کی۔ پھر مدینہ میں جب آپؐ کو عروج حاصل ہوا اور وہی دشمن گرفتار ہو کر پیش ہوئے تو ان میں سے اکثروں کو معاف کر دیا۔ باوجودقوتِ انتقام پانے کے پھر انتقام نہ لیا۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 6صفحہ195تا196)

حضرت رسول اللہﷺ اعلیٰ اخلاق کے مالک

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی آیت نُورٌ عَلٰى نُورٍ (النور :36) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’عقلِ ذکا، سرعت فہم، صفائی ذہن، حسنِ تحفظ، حسنِ تذکّر، عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، تورّع، جوانمردی، استقلال، عدل، امانت، صدق لہجہ، سخاوت فی محلّہٖ، ایثار فی محلّہٖ، کرم فی محلّہٖ، مروّت فی محلّہٖ، شجاعت فی محلّہٖ، علّوہمت فی محلّہٖ، حلم فی محلہ، تحمل فی محلّہٖ، حمیّت فی محلّہٖ، تواضع فی محلّہٖ، ادب فی محلّہٖ، شفقت فی محلّہٖ، رأفَت فی محلّہٖ، رحمت فی محلّہٖ، خوفِ الٰہی، محبت الہٰیہ، اُنس باللہ، انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ … جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصومؐ کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود روشن ہونے پر مستعد تھے… اُن نوروں پر ایک اور نورِآسمانی جو وحی الٰہی ہے وارد ہوگیااور اُس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا۔ ‘‘

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد1صفحہ195حاشیہ 11)

حصول قوت کے بعد کمال شفقت کے نمونے

آپﷺ کا باب رحمت ہر خاص و عام کے لیے کھلا تھا۔ اور جس کسی کا آپ سے کوئی تعلق بھی ہوا وہ اس رحمت سے بہرہ ور ہوا۔ اس میں دوست اور دشمن کی کوئی تمیز نہ تھی۔ آپﷺ کو دکھ دینے، ستانے اور ایذا دینے والے بھی اس رحمت کے طفیل نہ صرف کسی سزا کے مستوجب نہ ہوئے بلکہ بسااوقات بطور احسان مال و متاع سے بھی نوازے گئے۔ چنانچہ کتب احادیث نبویﷺ ایسے واقعات سے پُر ہیں۔ یہ گستاخی کرنے والے ہر طرح کے لوگ تھے۔ آپﷺ پر راکھ پھینکنے والے، راستے میں کانٹے بکھیرنے والے، پتھر مارنے والے، گلے میں پٹکاڈال کر کھینچنے والے، زہر دینے والے، برا بھلا کہنے والے، برملا تکذیب کرنے والے، زبان سے بھی تذلیل وتمسخر اور ٹھٹھا کرنے والے، گھر سے بے گھر کرنے والے اور بار ہا قتل کی کوشش کرنے والے۔ یہ گستاخ مشرک، کفار، یہودی اور منافقین بھی تھے۔ الغرض آنحضرتﷺ کی ذات اقدس پر رکیک سے رکیک حملے کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود رحمۃ للعالمینﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ایک روایت مذکورہے کہ

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کسی عورت کو اور نہ کسی خادم کو۔ سوائے اس کے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے (کسی کو مارا ہو)۔

وَمَا نِيلَ مِنْهُ شَيْءٌ قَطُّ، فَيَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِهِ، إِلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيْءٌ مِنْ مَحَارِمِ اللّٰهِ، فَيَنْتَقِمَ لِلّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ۔

آپﷺ کو جب کبھی کسی نے تکلیف پہنچائی تو بھی آپﷺ نے کبھی اس سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں جب اللہ تعالیٰ کے کسی قابل احترام مقام کی ہتک اور بے حرمتی کی جاتی تو پھر آپﷺ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے۔

(صحيح مسلم۔ کتاب الفضائل۔ بَابُ مُبَاعَدَتِهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْآثَامِ وَاخْتِيَارِهِ مِنَ الْمُبَاحِ، أَسْهَلَهُ وَانْتِقَامِهِ لِلّٰهِ عِنْدَ انْتِهَاكِ حُرُمَاتِهِ)

اسی طرح مخالفین آپﷺ کے مقدس نام ’’محمد‘‘(ﷺ )کو بگاڑ کر (نعوذباللہ)’’مذمم‘‘یعنی قابل مذمت کہتے تھے۔ آنحضرتﷺ اس کے جواب میں یہی فرماتے کہ اللہ نے میرا نام محمد رکھا ہے جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا گیا‘‘پس ان کے مذمم کہنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ایسی توہین اور تمسخر کرنے والوں کا معاملہ آپﷺ نے خدائے ذوالانتقام پر چھوڑ دیا کہ جس سے بڑھ کر اپنے محبوب محمدﷺ کی غیرت رکھنے والا اَور کوئی نہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ :أَلاَ تَعْجَبُوْنَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللّٰهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ، يَشْتِمُوْنَ مُذَمَّمًا، وَيَلْعَنُوْنَ مُذَمَّمًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ

(صحيح البخاري۔ کتاب المناقب۔ بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)

ترجمہ: رسول اللہﷺ نے فرمایاکیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی لعنت و ملامت اور بُرا بھلا کہنے کو دور کرتا ہے۔ وہ مذمّم کہہ کر میری برائی بیان کرتے ہیں اور مذمّم کہہ کر مجھے لعنت ملامت کرتے ہیں حالانکہ میں تو(مذمّم نہیں )محمد (ﷺ )ہوں۔

غزوۂ اُحد کے موقع پر جب دشمن نے آپﷺ کو زخمی کیا اس موقع پر بجائے اس کے کہ ان کے لیے سزا تجویز کرتے آپﷺ ان پر ان الفاظ میں اظہار افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ كُسِرَتْ رَبَاعِيَةُ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشُجَّ، فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ، وَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ:’’كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ، وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللّٰهِ؟۔ ‘‘

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ)

ترجمہ:حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کے روز جب نبی کریمﷺ کا دانت ٹوٹ گیا اور آپؐ کا سر زخمی ہو گیا جس سے آپﷺ کے چہرے پر خون بہنے لگا۔ آپؐ نے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ قوم کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے جنہوں نے اپنے نبی کا چہرہ خون سے رنگ دیا ہو جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلاتا ہو۔

پس آنحضرتﷺ کی زندگی میں ایسے بے شمار مواقع آئے کہ وہ لوگ جو آپﷺ کو انفرادی، نیز مسلمانوں کو اجتماعی حیثیت میں تکالیف پہنچایا کرتے تھے، جب آپﷺ کو عروج حاصل ہوا اور وہی دشمنان اسلام بعض عاجز ہو کر، اور بعض گرفتار ہو کر آپﷺ کے سامنے پیش ہوئے، تو ان میں سے اکثرکو معاف کردیا گیا۔ حالانکہ اس وقت آپ کو قوت حاصل تھی۔ گویا

لیا ظلم کا عفو سے انتقام

عَلَیْکَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکَ السَّلَامُ

مدنی زندگی میں یہود اور منافقین کے توہین آمیز رویہ کے بالمقابل شفقت و حلم کے واقعات

بعض اوقات یہودی رسول اللہﷺ کے پاس آکر السلام علیکم کہنے کی بجائے ’’السام علیک ‘‘ کہہ کر لعنت و ہلاکت کی بددعا دیتے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے یہود کی یہ بد دعا سن کر جواباً ان کو کہا۔ اے یہودیو! تم پر خداکی لعنت اور مار ہو۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔ اے عائشہ! نرمی اختیار کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں لکھا ہے کہ

حضرت عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نبی کریمﷺ کی بیوی کہتی تھیں۔ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور انہوں نے کہا۔ السام علیکم۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں میں ان کی یہ بات سمجھ گئی۔ میں نے کہا۔ وعلیکم السام واللعنۃ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ عائشہ !ٹھہرو۔ اللہ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ نے نہیں سنا جو انہوں نے کہا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا میں جواب دے چکا ہوں وعلیکم۔

(صحيح البخاري كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ الرِّفْقِ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ)

اس قسم کی حرکت کو دیکھ کر صحابہ رضوان اللہ علیھم نے آنحضورﷺ سے دریافت کیا، کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’لَا ‘‘نہیں۔ اسے قتل نہ کرو۔ اور فرمایاکہ اگر اس قسم کا مشتبہ معاملہ ہو تو صرف ’’علیکم‘‘کہہ دیا کرو۔

اس کی تفصیل حضرت انسؓ کی روایت میں اس طرح بیان ہوئی ہےکہ

ایک مرتبہ ایک یہودی رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرا اور اس نے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہا (یعنی تجھ پر ہلاکت وارد ہو )۔ آپؐ نے اس کے جواب میں فرمایا عَلَیْکَ ( تم پر ہلاکت ہو)۔ پھر رسول اللہؐ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا تمہیں پتہ چلا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا۔ پھر آنحضورؐ نے بتایا کہ اس نے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہا تھا۔ صحابہ رضوان اللہ علیھم نے یہودی کی یہ حرکت دیکھی تو آنحضورؐ سے دریافت کیا، کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں ؟ آنحضورﷺ نے فرمایا ’’ لَا‘‘نہیں۔ اسے قتل نہ کرو۔ اہلِ کتاب میں سے کوئی شخص جب تم پر سلام بھیجے تو تم اس کا جواب وَعَلَیْکُم کے ساتھ دیا کرو۔

(بخاری کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین… بَابُ إِذَا عَرَّضَ الذِّمِّيُّ وَغَيْرُهُ بِسَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُصَرِّحْ، نَحْوَ قَوْلِهِ: السَّامُ عَلَيْكَ)

بدوی کا غیر مہذبانہ رویہ اور آپؐ کا عفو و کرم

بدوی لوگوں کے غیر مہذبانہ رویہ کے باوجود آپﷺ کا عفو و کرم آج بھی ہمارے لیے مشعل ِراہ ہے اس کی ایک جھلک کتاب الشفاء میں درج روایت میں اس طرح آئی ہے:

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نبیﷺ کی معیت میں تھا۔ آپ نے ایک موٹے حاشیہ والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدوی نے آپ کی چادر کو اتنی زور سے کھینچا کہ اس کے حاشیہ کے نشان آپ کے کندھے پر پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد!(ﷺ ) مجھے اللہ تعالیٰ کے اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے یہ دو اونٹ دے دیں۔ آپ نے مجھے کوئی اپنا یا اپنے والد کا مال تو نہیں دینا؟ اُس کی ایسی کرخت باتیں سن کر پہلے تو نبیﷺ خاموش رہے پھر فرمایا:

اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ۔

کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں۔ پھر آنحضورؐ نے فرمایا کہ تم نے جو مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا۔ اُس بدوی نے کہا مجھ سے اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدوی نے کہا۔

لأَنَّكَ لَا تكافي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ( فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَمَرَ أَنْ يُحْمَلَ لَهُ عَلَى بَعِيرٍ شَعِيرٌ وعَلَى الآخَرِ تَمْرٌ،)

اس لیے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہﷺ ہنس پڑے، تبسم فرمایا۔ پھر آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے مطلوبہ دو اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دیں۔ اور وہ اس کو عنایت فرمائیں۔ ‘‘

(کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفىﷺ الْقِسْمُ الأَوَّلُ (فِي تَعْظِيمِ الْعَلِيِّ الأَعْلَى لِقَدْرِ النَّبِيِّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا وَفِعْلًا)الْبَابُ الثَّانِي فِي تَكْمِيلِ اللّٰهِ تَعَالَى لَهُ الْمَحَاسِنَ خَلْقًا وَخُلُقًا وَقِرَانِهِ جميع الفضائل الدينية وَالدُّنْيَوِيَّةِ فِيهِ نَسَقًا (فصل) وَأَمَّا الْحِلْمُ وَالاحْتِمَالُ وَالْعَفْوُ مَعَ المَقْدِرَةِ وَالصَّبْرُ عَلَى مَا يَكرَهُ۔ صفحہ74جلد اوّل)

غزوہ خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت کا حضورﷺ کو زہر دینے کا واقعہ

آپؐ اور آپ کے صحابہؓ کو ایک یہودیہ نے گوشت میں زہر ملا کر کھلانے کی کوشش کی اور اقبالِ جرم کرنے کے باوجود آپؐ نے اسے معاف فرما دیا۔ صحابہ کو غصہ تھا، انہوں نے پوچھا بھی کہ اس کو قتل کر دیں، آپؐ نے فرمایا نہیں، بالکل نہیں۔

(بخاری کتاب الھبۃ باب قبول الھدیۃ من المشرکین۔ حدیث2617)

اپنی محبوب بیٹی کے قاتل کو معاف کرنا

احادیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکّہ سے ہجرت کے وقت ایک ظالم شخص ھبار بن اسودنے نیزہ سے قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ اس حملے کی وجہ سے آپ کو زخم بھی آئے اور آپؓ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ آخر کار یہ زخم آپؓ کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔ اس جرم کی وجہ سے اس شخص کے خلاف قتل کا فیصلہ دیا گیا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا۔ لیکن بعد میں جب آنحضرتﷺ واپس مدینہ تشریف لے آئے تو ھبار مدینہ میں آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں آپؐ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا۔ جرم میرے بہت بڑے بڑے ہیں۔ میرے قتل کی سزا آپ سنا چکے ہیں۔ لیکن آپﷺ کے عفو اور رحم کے حالات پتہ چلے تو یہ چیز مجھے آپ کے پاس لے آئی ہے۔ مجھ میں اتنی جرأت پیدا ہوگئی کہ باوجود اس کے کہ مجھ پر سزا کی حد لگ چکی ہے لیکن آپ کا عفو، معاف کرنا اتنا وسیع ہے کہ اس نے مجھ میں جرأت پیدا کی اور مَیں حاضر ہو گیا۔ کہنے لگا کہ اے اللہ کے نبی ہم جاہلیت اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔ خدا نے ہماری قوم کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں اور جرموں کا اعتراف کرتا ہوں۔ میری جہالت سے صرفِ نظر فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی معاف فرما دیا اور فرمایا جا ھبار اللہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق دی۔

(المعجم الکبیر للطبرانیجلد 22صفحہ 431 مسند النساء ذکر سن زینب… حدیث 1051 والسیرۃ الحلبیۃ جلد 3صفحہ 131-132 ذکر مغازیہﷺ فتح مکۃ … دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)

زوجہ مطہرہ کی وجہ سے تکلیف اور عفو کا سلوک

انسانی طبیعت ہے کہ بعض اوقات اپنے متعلق تو انسان بات برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے اہل و عیال کے متعلق وہ بھی اگر اس کوسب سے زیادہ محبوب ہوں تو پھر اس سے برداشت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ حضورﷺ کی سب سے محبوب بیوی حضرت عائشہؓ کے متعلق بھی واقعہ اِفک میں انتہائی بھیانک الزام لگایا گیا لیکن کسی ایک کو بھی اس استہزا کی وجہ سے قتل کی سزا نہیں دی گئی۔ آگے جا کر اس واقعہ کی کچھ مزید تفصیل بھی بیان ہو گی۔

منافقین اور نَو مسلموں کاحضورﷺ پر اموال میں بددیانتی کا الزام

جب غزوۂ حنین کے غنائم آئے اورحضورﷺ نے تالیف قلب کے لیے بعض نَو مسلموں کو وہ غنائم دے دیے تو اس موقع پر حضورﷺ کے متعلق ایک شخص نےکہا کہ اس تقسیم میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مدّنظر نہیں رکھا گیا جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ آثَرَ النَّبِيُّﷺ نَاسًا، أَعْطَى الأَقْرَعَ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى نَاسًا، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُرِيدَ بِهَذِهِ القِسْمَةِ وَجْهُ اللّٰهِ، فَقُلْتُ: لَأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّﷺ، قَالَ: رَحِمَ اللّٰهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ

(صحيح البخاري كِتَابُ المَغَازِي بَابُ غَزْوَةِ الطَّائِفِ)

ترجمہ:حضرت عبداللہؓ (بن مسعود) سے روایت ہےکہ انہوں نے کہا۔ جب حنین کا واقعہ ہوا تو نبی کریمﷺ نے کچھ لوگوں کو مقدم کیا۔ الاقرع بن حابس کو ایک سو اونٹ دیے اور عیینہ (بن حصن) کو بھی اتنے ہی اونٹ اور چند اور لوگوں کو بھی دیا۔ یہ دیکھ کر ایک شخص بولا۔ اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی نہیں چاہی گئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے تھے۔ میں نے کہا۔ میں نبی کریمﷺ کو ضرور بتاؤں گا۔ آپﷺ نے فرمایا۔ اللہ موسیٰ پر رحم کرے۔ انہیں اس سے بھی زیادہ دکھ دیا گیا اور انہوں نے صبر کیا۔

ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ کے مال تقسیم کرنے پر اعلانیہ اعترض کیا کہ اس میں عدل سے کام نہیں لیا گیا اور رسول اللہﷺ سے کہا کہ خدا کا خوف کریں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس کے قتل کرنے کی رسول اللہﷺ سے اجازت چاہی تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ حضرت خالدؓ نےعرض کیا یارسول اللہﷺ کتنے ہی نماز پڑھنے والے ہیں جن کے دل میں کچھ جبکہ ظاہر کچھ اور کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹ پھاڑنے نہیں مبعوث ہوا۔ ہمیں بہر حال ان کے ظاہر کو قبول کرنا ہو گا۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہےکہ

حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے رسول اللہﷺ کو یمن کی طرف سے ایک سونے کا چھوٹا سا ٹکڑا رنگے ہوئے چمڑے میں لپیٹ کر بھیجا جو طبعی حالت میں تھا کندن نہیں ہوا تھا۔ ابوسعید کہتے تھے۔ آپ نے وہ ٹکڑا چار آدمیوں کے درمیان تقسیم کیا۔ عیینہ بن بدر اقرع بن حابس زید خیل(بن مباہل) اور چوتھے علقمہ (بن علاثہ) یا عامر بن طفیل تھے۔ یہ دیکھ کر آپﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص بولا۔ ان سے تو ہم اس کے زیادہ حق دار تھے۔ ابوسعید کہتے تھے۔ جب یہ خبر نبیﷺ کو پہنچی آپﷺ نے فرمایا۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ جب کہ میں اس (ذات کا) امین ہوں جو آسمان میں ہے۔ صبح اور شام مجھے آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا جس کی آنکھیں اندر گھسی ہوئی تھیں۔ دونوں رخسار اوپر کو اٹھے ہوئے تھے۔ تہ بند اٹھائے ہوئے کہنے لگا۔ یا رسول اللہ(ﷺ )! اللہ سے ڈریں۔ آپؐ نے فرمایا۔ تم پر افسوس کیا زمین کے تمام لوگوں میں سے میں ہی زیادہ اس لائق ہوں کہ اللہ سے ڈروں۔ کہتے تھے۔ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا۔ خالد بن ولیدؓ نے کہا۔ یارسول اللہﷺ ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ خالد نے کہا۔ کتنے ہی نمازی ہیں اپنی زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔،

إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ وَلاَ أَشُقَّ بُطُونَهُمْ

مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دلوں کو کریدوں اور لوگوں کے پیٹوں کو پھاڑوں۔ کہتے تھے۔ پھر آپﷺ نے اسے دیکھا جب کہ وہ پیٹھ پھیر کے جارہا تھا۔ فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب بڑے مزے سے پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلے سے آگے نہیں جائیں گے۔ دین سے وہ ایسے نکلیں گے جیسے تیر شکار سے گزر جاتا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے یہ بھی کہا۔ اگر میں نے ان کو پالیا تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے ثمود قتل کیے گئے۔

(صحيح البخاري كِتَابُ المَغَازِي بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَخَالِدِ بْنِ الوَلِيدِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ)

رئیس المنافقین کی حضورﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اور اہانت کا واقعہ

عبداللہ بن ابی بن سلول جو کہ منافقوں کا سردار تھا اور جس نے غزوۂ بنو مصطلق میں انصار و مہاجرین کے ایک جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل مدینہ کو بھڑکایا اور یہ گستاخانہ کلمات اس کے منہ سے نبی اکرمﷺ کے بارے میں نکلے جو قرآن شریف میں سورۃالمنافقون میں مذکور ہیں کہ

لَئِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ

اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو مدینہ کا سب سے معزز آدمی (بزعم خود عبداللہ بن ابی ) مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی(معاذاللہ نبی اکرمﷺ کو)اس سے نکال دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کے دعویدار کے ان واضح اہانت آمیز کلمات کو سن کر حضرت عمرؓ برداشت نہ کر سکے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! اس خبیث شخص کے قتل کی مجھے اجازت دیں۔ آنحضورﷺ نے سختی سے روک دیا اور فرمایا۔ عمر! لوگ کیا کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ اور آنحضورﷺ نے نہ صرف اس دشمن رسول کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ جب وہ فوت ہوا تواپنی چادر اس کے کفن کے لیے عطا فرمائی اور حضرت عمرؓ کے باربار روکنے کے باوجود اس کی نماز جنازہ خود پڑھائی۔ یہ تھا رحمۃ اللعالمین کی کمال رحمت و شفقت کا سلوک ایک ایسے شخص سے جو آپؐ کی توہین کا مرتکب ہوا یا بالفاظ دیگر یہ تھی توہین رسالت کی سزا جو رحمۃ اللعالمین کے دربار سے اس دشمن رسول کے لیے ظاہر ہوئی۔ اس واقعہ کی تفصیل مختلف احادیث میں ملتی ہے، ان کا خلاصہ بیان کرتےہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’… عبداللہ بن أبی بن سلول کے واقعات لیتا ہوں، جو رئیس المنافقین تھا۔ ظاہر میں گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو منظور کر لیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غلیظ حملے کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑتا تھا۔ مدینہ میں رہتے ہوئے مسلسل یہ واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس کی دشمنی اصل میں تو اس لئے تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا سردار بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن آپؐ کی مدینہ آمد کے بعد جب آپؐ کو ہر قبیلے اور مذہب کی طرف سے سربراہِ حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تو یہ شخص ظاہر میں تو نہیں لیکن اندر سے، دل سے آپؐ کے خلاف تھا اور اس کی مخالفت مزید بڑھتی گئی، اس کا کینہ اور رنجشیں مزید بڑھتی گئیں۔ ایک روایت میں آپؐ کے مدینہ جانے کے بعد اور جنگِ بدر سے پہلے کا ایک واقعہ ملتا ہے جس سے عبداللہ بن أبی بن سلول کے دل کے بغض اور کینے اور اس کے مقابلے پر آپ کے صبر کا اظہار ہوتا ہے۔ اور یہ اظہار جو دراصل عفو تھا، یہ عفو ا آپ کا ردّ عمل ظاہر کرتا ہے۔ بہر حال روایت میں آتا ہے۔ امام زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے علاقہ کی ایک چادر ڈال کر گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے پیچھے اسامہ بن زید کو بٹھایا اور سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج میں واقعہ بدر سے پہلے (یعنی جنگِ بدر سے پہلے) تشریف لے جا رہے تھے تو ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن أبی بن سلول بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس مجلس میں مسلمان بھی بیٹھے ہیں، بُت پرست بھی ہیں اور یہودی بھی بیٹھے ہیں اور اسی مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اس مجلس پر گدھے کے پاؤں سے اٹھنے والی دھول پڑی تو عبداللہ بن أبی بن سلول نے اپنی چادر سے ناک کو ڈھانک لیا۔ پھر کہا ہم پر مٹی نہ ڈالو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کو سلام کیا۔ پھر رُک گئے اور اپنی سواری سے اترے اور ان کو دعوتِ اِلی اللہ کی۔ اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اُس پر عبداللہ بن أبی بن سلول نے کہا اے صاحب! جو بات تم کہہ رہے ہو، وہ اچھی بات نہیں ہے اور اگر یہ حق بات بھی ہے تو ہمیں ہماری مجلس میں سنا کر تکلیف نہ دو۔ اپنے گھر میں جاؤ اور جو شخص تمہارے پاس آئے اسے قرآن پڑھ کر سنانا۔ عبداللہ بن أبی بن سلول کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجالس میں آ کر قرآن سنایا کریں کیونکہ ہم قرآن کو سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ مسلمان اور مشرک اور یہود سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح بحث میں الجھ گئے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے گلے پکڑ لیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلسل خاموش کرواتے رہے اور وہ چُپ ہو گئے۔ جب خاموش ہو گئے تو آپؐ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سعد بن عبادہؓ کے پاس پہنچے اور اس کو جا کر بتایا کہ ابو حباب یعنی عبداللہ بن أبی بن سلول نے کیا کہا ہے؟ اُس نے یہ بات کی ہے۔ تو سعد بن عبادہؓ نے عرض کی۔ یا رسول اللہؐ! اس سے عفو اور درگزر کا سلوک فرمائیں۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپ پر قرآنِ کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حق کو لے آیا جس کو اس نے آپ پر نازل فرمایا۔ اس سرزمین کے لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عبداللہ بن أبی بن سلول کو تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنا ئیں اور اس کے دست و بازو کو مضبوط کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس فیصلے سے اس حق کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے انکار کر دیا تو اس سے اس کو بڑا دکھ پہنچا۔ اس وجہ سے اس نے آپؐ سے یہ بدسلوکی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عفو کا سلوک فرمایا۔

یہ اس وجہ سے نہیں فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے بات کی تھی کہ عفو کا سلوک فرمائیں بلکہ آپؐ نے اس کو یہ بتانے کے لیے بات کی تھی کہ آج اس نے اس طرح میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے لیکن مَیں تو بہر حال عفو کا سلوک کرتا چلا جاؤں گا۔ آگے پھر لکھا ہے کہ آپؐ اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہلِ کتاب سے درگزر کا سلوک فرماتے تھے جیسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اور وہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب عبداللہ بن اُبی بن سلول بظاہر مسلمان ہوا تو اپنی منافقانہ چالوں سے آپؐ کو تکلیف پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہتا تھا۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کسی غزوہ کے لیے گئے ہوئے تھے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا۔ اس پر اس انصاری نے بآوازِ بلند کہا کہ اے انصار! میری مدد کو آؤ اور مہاجر نے جب معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو اس نے بآوازِ بلند کہا کہ اے مہاجرو! میری مدد کو آؤ۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیں۔ تو آپ نے دریافت فرمایا۔ یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی آوازیں بلند ہو رہی ہیں ؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یا رسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مار دیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنا چھوڑ دو۔ یہ ایک بُری بات ہے۔ بہر حال پانی پینے کے اوپر یہ جھگڑا شروع ہو گیا تھا کہ مَیں پہلے پیوں گا، اُس نے کہا پہلے مَیں۔ بعد میں یہ بات عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے سنی تو اس نے کہا مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ لوٹے تو مدینہ کا معزز ترین شخص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا (نعوذ باللہ)۔

عبداللہ بن اُبی بن سلول کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ حضرت عمرؓ کی بات سن کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس سے درگزر کرو۔ کہیں لوگ یہ باتیں نہ کہنے لگ جائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ المنافقین ـ باب قولہ سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفر لہم۔ حدیث نمبر 4905)

اس کے باوجود کہ اس کی ایسی حرکتیں تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنا ساتھی کہا ہے۔ کیونکہ جب تک وہ ظاہراً اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا تھا۔ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے عبداللہ بن أبی اور اس کے ساتھیوں کو بلوا کر پوچھا کہ اس طرح مشہور ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ سب اس بات سے مکر گئے۔ ان میں بعض انصار تھے انہوں نے بھی سفارش کی اور کہا کہ شاید زید کو جو چھوٹے تھے، جنہوں نے یہ بتایا تھا کہ اُن کے سامنے یہ بات ہوئی ہے غلطی لگی ہو گی۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مزید کچھ نہیں پوچھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو وحی کے ذریعے بتا دیا کہ یہ واقعہ سچ ہے تو سب دنیا کو، اُس وقت کے لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ بہر حال یہ سچ ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ

یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلّ۔ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(المنافقون: 09)

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور مومنوں کی۔ لیکن منافق لوگ جانتے نہیں۔

اب اس وحی کے بعد آپؐ سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ عبداللہ بن اُبی ابن سلول جو ہے وہ جھوٹا اور منافق ہے۔ بلکہ آپؐ کی فراست پہلے سے ہی یہ علم رکھتی تھی کہ یہ منافق ہے لیکن آپؐ نے صرفِ نظر فرمایا۔ بلکہ مدینہ داخل ہونے سے پہلے جب عبداللہ بن أبی کے بیٹے نے جو ایک مخلص مسلمان نوجوان تھا آپ کے سامنے عرض کی کہ یہ بات میں نے سنی ہے۔ اور اگر آپؐ کا ارادہ ہے کہ اس کو قتل کرنا ہے تو مجھے حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کی گردن اڑا دوں۔ کیونکہ اگرکسی اور نے اسے قتل کیا یا سزا دی تو پھرکہیں میری زمانہ جاہلیت کی رَگ نہ پھڑک اٹھے اور مَیں اُس شخص کو قتل کر دوں جس نے میرے باپ کو قتل کیا ہو۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کسی قسم کی کوئی سزادینے کا مَیں ارادہ نہیں رکھتا۔ بلکہ فرمایا کہ مَیں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔ نہ صرف یہ کہ سزا نہیں دوں گا بلکہ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام غزوہ بنی المصطلق، طلب ابن عبداللّٰہ بن ابی ان یتولی قتل ابیہ… صفحہ 672 دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2001)

پھر یہی سفر تھا جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاغلطی سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ جب قافلہ نے اپنی جگہ سے کوچ کیا تو بعد میں ایک صحابی نے، جو قافلہ چلے جانے کے بعد میدان کا جائزہ لے رہے تھے کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی، آپ کو دیکھا۔ حضرت عائشہؓ اس وقت سوئی ہوئی تھیں تو اِنَّا لِلّٰہ پڑھاجس سے آپ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے فوراً اپنے اوپر چادر اوڑھ لی۔ اُن صحابی نے اپنا اونٹ لا کر پاس بٹھا دیا اور آپ اس اونٹ پر بیٹھ گئیں۔ جب یہ لوگ قافلے سے ملے ہیں تو انہی منافقین نے حضرت عائشہؓ کے بارہ میں طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں۔ غلط قسم کے الزام (نعوذ باللہ) حضرت عائشہؓ پر لگائے گئے۔ آپ کو یہ باتیں سن کر بڑی بےچینی تھی۔ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانا اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہی نقصان پہنچانے والی بات تھی یا کوشش تھی۔ جب یہ واقعہ ہو گیا اور مدینہ پہنچ گئے تو ایک دن آپؐ نے مسجد میں تشریف لاکر تقریر فرمائی جس کا ایک پہلافقرہ یہ تھا کہ مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دُکھ دیا گیا ہے۔ لیکن آپؐ نے منافقین کے ان الزامات کو برداشت کیا۔

(بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر4141)

اور جنہوں نے یہ الزام لگائے تھے ان کو فوری سزا نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب حضرت عائشہ کی بریت کی وحی ہوئی تو تب بھی ان لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جن کے بارہ میں یہ پتہ تھا کہ الزامات لگا رہے ہیں بلکہ عفو سے کام لیا۔ بلکہ روایات میں آتا ہے جب عبداللہ بن أبی فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے (جو ایک مخلص مسلمان تھا جیسا کہ مَیں نے کہا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ اپنا کرتہ مجھے عنایت فرمائیں تا کہ اس کرتے میں مَیں اپنے باپ کو دفناؤں، کفناؤں۔ آپؐ نے وہ کرتہ عطا فرمایا۔ بلکہ آپ کی شفقت اور عفو کا یہ حال تھا کہ آپؐ اس کے جنازہ کی نماز کے لئے بھی تشریف لائے اور جنازہ پڑھایا۔ قبر پر دعا کرائی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کو ان تمام باتوں کا علم ہے کہ یہ منافق ہے اور منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے اور مغفرت طلب کرے تو ان کی مغفرت نہیں ہو گی۔

(بخاری کتاب الجنائز باب الکفن فی القمیص الذی یکف او لا یکف… حدیث نمبر 1269)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک اجازت بھی دی ہوئی ہے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ ستّر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں یعنی کثرت سے کروں گا۔ اُس کے لئے اگر مجھے اس سے زیادہ بھی بخشش طلب کرنا پڑی تو کروں گا۔ یہ تھا آپ کا اُسوہ جو آپ نے اُن منافقین کے ساتھ بھی روا رکھا۔

یہ واقعہ تو میں نے بتایا کہ جس میں رئیس المنافقین کے ساتھ عفو اور بخشش کا سلوک ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ14؍جنوری2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍فروری 2011ء صفحہ5تا8)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ عبداللہ بن ابی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ

’’حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابیّ کی وفات ہوئی تو رسول اللہﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا…حضورﷺ وہاں گئے اور جب اس کی نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں اپنی جگہ سے ہٹ کر آنحضرتﷺ کے سینے کے سامنے دوبدو کھڑا ہوگیا، قریب ہو کر بالکل قریب جا کر سینے کے سامنے اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا آپﷺ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن فلاں بات کہی اورفلاں وقت فلاں بات کہی اس بات کا قرآن کریم میں ذکر بھی ہے۔ (نہایت ہی خبیثانہ بات ہے اور گستاخی رسول اس سے زیادہ متصور نہیں ہو سکتی یعنی نہ صرف یہ کہ جھوٹے تھے اور منافق تھے بلکہ شدیدگستاخ تھے یہ لوگ اور حضرت عمرؓ نے وہیں اس کی نعش کے سامنے یہ بات آنحضرتﷺ کو یاد کروائی تھی )۔ حضرت عمرؓ بتاتے ہیں کہ اس طرح میں اس کے ایسے واقعات گنوانے لگا کہ اس بدبخت نے یہ کہا، یہ کہا، یہ کیا، یہ کیا، یہ کیا اور آپﷺ آج اس کی نماز جنازہ کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ رسول اللہﷺ اسی طرح مسکراتے رہے۔ عجیب حوصلہ ہے ہمارے آقاﷺ کاحیرت ہے۔ ایک ایک بات پر آنحضرتﷺ کی دل عشق سے اچھلتا ہے۔ وہ ساری گالیاں سن رہے ہیں جو بدبخت نے دی ہیں سارے ذلت آمیز اس کے واقعات جوخود ذلتوں سے بھرے ہوئے تھے اور نعوذباللّٰہ من ذالک ذلتیں آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کر رہا تھا۔ وہ سنتے رہے جناز ہ سامنے پڑا ہوا ہے مسکراتے رہے حتیٰ کے میں نے اس بات پر بہت ہی زور دیا جتنا میں دے سکتاتھا۔ حضورﷺ نے فرمایا اے عمر! میرے سامنے سے ہٹ جاؤ مجھے اختیار دیا گیا ہے اس لیے میں نے اختیار کو استعمال کیا ہے مجھے کہا گیا ہے:۔

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ (التوبة 80)

مجھے کہا گیا ہے تو ان کے لئے چاہے بخشش مانگ چاہے بخشش نہ مانگ

إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً

اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش مانگے گا

فَلَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ اللہ

انہیں معاف نہیں فرمائے گا۔ اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ اگرمیں اس کے لئے ستر سے زائد مرتبہ استغفار کروں تو اس کوبخش دیا جائے گا تو میں ضرور ستر سے زائدمرتبہ استغفار کروں گا۔ یہ ہے حضرت محمد مصطفیﷺ۔ روح اچھلتی ہے آپ کے عشق میں۔ ایساکامل حسن ہے اخلاق کوایسا درجۂ کمال تک پہنچایا ہے کہ اس کے اوپر اخلاق کا تصور نہیں ہو سکتا اور یہ ان کا حال ہے یہ ان لوگوں کے متعلق آنحضرتﷺ کا اسوہ ہے جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ منافق ہے اس بات کو بھولے نہیں اور یہ خود ساختہ اپنے منافقوں کے متعلق یہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اس کو باربار اب یہاں بتانے کی ضرور ت نہیں آپ جانتے ہیں ساری دنیا جانتی ہے اب تو۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر رسول اللہﷺ نے اس کی نماز پڑھائی اور اس کی میت کے ساتھ گئے حتیٰ کہ اس کی قبر کے پاس کھڑے رہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوئے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جرأت پر بہت تعجب ہوا جو رسول اللہﷺ کے سامنے میں نے کی اور اللہ اور رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے آخری وقت تک پچھتاتے رہے ہیں۔ جب یہ روایت بیان کی ہے تو اس وقت تک شرمندہ اور پچھتاتے رہے ہیں کہ عمر ! تجھے ہوا کیا تھا، اللہ اور رسول زیادہ جانتے ہیں اسی میں سب حکایت، سب بات مکمل ہو جاتی ہے۔ تمہیں جرأت کیسے ہوئی کہ رسول اللہﷺ کو یا د دلا رہے ہو کہ قرآن میں یہ اترا اوراس نے یہ کہا اور اس نے یہ کہا۔ جس پر قرآن نازل ہو رہا تھا وہ زیادہ جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کیا مفہوم ہے اور اس کے نتیجے میں مجھے کیا کرناچاہئے… دوسری بات یہ کہ وہ معلوم لوگ تھے، معروف لوگ تھے…صاف پتا چلتا ہے کہ وہ سارے لوگ سوسائٹی میں معروف تھے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جنرل(General) ایک فتویٰ تھا خدا کا۔ معین فتویٰ تھا سب کو علم تھا کس کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ چنانچہ عبداللہ جب مرا ہے حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ وہ شخص ہے اس کے متعلق یہ یہ باتیں آئیں تو آنحضرتﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نہیں اس کانام دکھاؤ قرآن کریم نے کہاں لکھا ہے۔ معروف لوگ تھے سوسائٹی جانتی تھی اور اللہ گواہی دے چکا تھا اس کے باوجود ساری زندگی منافقوں میں سے ایک کو بھی آنحضرتؐ یا آپؐ کے صحابہؓ نے کلمہ پڑھنے سے نہیں روکا۔ یہ کہہ کر کہ یہ ناپاک ہیں اور جھوٹے ہیں ان کے دل میں کچھ اور ہے اور زبان سے کچھ اورجاری ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍مارچ1987ء مطبوعہ خطباتِ طاہر جلد6صفحہ نمبر157-159)

پس مختصر یہ کہ

نبوّت کے تھے جس قدر بھی کمال

وہ سب جمع ہیں آپؐ میں لا محال

صفاتِ جمال اور صفاتِ جلال

ہر ایک رنگ ہے بس عدیمُ المثال

لیا ظُلم کا عَفو سے انتقام

عَلَیْکَ الصَّلوٰۃ عَلَیْکَ السَّلَام

اللہ تعالیٰ کی توسب صفات ہی پیاری اور خوبصورت ہیں جن کی مظہراتم رسول اللہؐ کی ذات تھی اس لیے ہمارے نبیؐ کے سب اخلاق پاکیزہ، حسین اورنورانی ہیں۔ آپؐ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا کہ

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ

میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اخلاق نام ہے فطری قویٰ کے برمحل استعمال کا اوربلاشبہ آپؐ نے مکارم اخلاق کے بہترین نمونے قائم کرنے کا حق ادا کر کے دکھادیااورہر خلق کواُس کی معراج تک پہنچا دیا۔ کیونکہ آپؐ ہی تھے جن کے تمام فطری قویٰ کمال اعتدال پر موزوں تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button