حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کی حیثیت میں

از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی و المصلح الموعود رضی اللہ عنہ

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ۔

خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔

ھوالناصر

اہم مضامین پر اخبار میں قلم اٹھانے کے یہی معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان کے کسی ایک پہلو پر روشنی ڈال دی جائے ورنہ جو مضامین کہ سینکڑوں صفحات کے محتاج ہیں انہیں ایک دو صفحات میں لے آنا یقیناً انسانی طاقت سے بالا ہے میں بھی مذکورہ بالا مضمون کے متعلق جو اپنی تفصیلات کے لئے بیسیوں مجلدات کا محتاج ہے بلکہ پھر بھی ختم نہیں ہو سکتا یہی طریق اختیار کروں گا۔

خدا تعالیٰ کا کلمہ

انبیاء خدا تعالیٰ کا کلمہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا

تو کہہ دے کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے میرے کلمات کی توضیح اور تشریح کی جائے تو سمندر ختم ہو جائیں گے مگر میرے کلمات کے کمالات کا بیان ختم نہ ہوگا۔ خواہ اس قدر سیاہی ہم اور بھی کیوں نہ پیدا کر دیں۔ غرض نبوت کا مضمون تو ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے مگر موقع کے لحاظ سے اس کا ایک قطرہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

نبی کے کام

قرآن کریم نے نبی کے چار کام مقرر فرمائے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں اس کا اشارہ ہے ان کی دعا قرآن کریم میں یوں نقل ہے

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (البقرة 130)

اے ہمارے رب! اہل مکہ میں ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو اور ان کو تیرے نشانات سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی باتیں سکھائے اور انہیں پاک کرے۔

ایک سرسری نگہ ڈالنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ نبی کے کاموں کا ایک بہترین نقشہ ہے جو اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کھینچ دیا ہے۔ نبی کا کام (1)اللہ تعالیٰ کی آیات کا سنانا۔ (2)کتاب کا سکھانا۔ (3)حکمت کی باتوں کی تعلیم دینا اور (4)لوگوں کے نفوس کو پاک کرنا ہے۔ کیا اس سے زیادہ مختصر الفاظ میں کوئی اَور نقشہ نبی کے کاموں کا کھینچا جا سکتا ہے؟ آئو اب ہم دیکھیں کہ ان کاموں کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ثابت ہوتے ہیں۔

نبی کا پہلا کام آیات سنانا

پہلا کام نبی کا آیات کا سنانا بتایا گیا ہے۔ آیت کے معنی عربی زبان میں عبرت اور دلیل کے ہوتے ہیں۔ جو چیز کسی اَور چیز کی طرف راہنمائی کرے وہ آیت ہے پس آیات کے سنانے کا یہ مطلب ہوا کہ ایسی باتیں بتائیں جو امور غیبیہ پر ایمان لانے کا موجب ہوں کیونکہ امور غیبیہ ایسے امور ہیں کہ انسان ان تک خود نہیں رسائی پا سکتا خدا تعالیٰ کا وجود سب سے مقدم ہے بلکہ ایک ہی حقیقی وجود ہے مگر وہ اس قدر وراء الورا ہے کہ اس تک پہنچنا انسانی طاقت سے بالا ہے اس تک پہنچنے کا ذریعہ محض وہ دلائل اور براہین اور وہ عرفان اور مشاہدہ ظہور صفات الٰہیہ ہو سکتا ہے جو ہمیں اس کے قریب کر دے اور اس کے وجود کے متعلق ہمارے دلوں میں کوئی شک باقی نہ چھوڑے۔ یہی حال قانون قدرت کے ظہور کا اور ملائکہ کا اور رسالت کا اور کلام الہی کا اور بعثت مابعدالموت کا ہے ان میں سے ایک چیز بھی ایسی نہیں کہ جس کی سمجھ انسان کو براہ راست ہو سکتی ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر ایک شے ایسے دلائل کی محتاج ہے جو ہمیں روحانی اور عقلی طور پر ان کے قریب کر دیں۔ ان سے ہمیں ایسا اتصال بخش دے کہ گویا ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

امور مذکورہ بالا کی اہمیت اس امر سے ثابت ہے کہ جس قدر بھی مذاہب ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ان امور پر ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور کسی نہ کسی نام کے نیچے ان امور کو اپنے معتقدات میں شامل رکھتے ہیں خواہ تشریحات میں کس قدر ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ پس جو شخص بھی ان امور پر ایمان لانے کو ہمارے لئے آسان کر دیتا ہے اور ہمیں ایسے مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ جس جگہ کھڑے ہو کر ان امور کا گویا ایسا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی وہ نبوت کے کام کو اپنے کمال تک پہنچا دیتا ہے۔

صفات الٰہی کا بیان

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر جب ہم غور کرتے ہیں اور آپؐ کے کام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ مذکورہ بالا کام کو آپ نے ایسے بے نظیر طریق پر کیا ہے کہ اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ خدا تعالیٰ کے وجود کے متعلق سب سے پہلی چیز اس کی صفات کا بیان ہے۔ ایک غیر محدود ہستی ہونے کے لحاظ سے وہ اپنی صفات ہی کے ذریعہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص صفات الہٰیہ کو اس طرح بیان نہیں کرتا کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلنشین ہو اور دوسری طرف عقل ان کا اس حد تک ادراک کر سکے جس حد تک کہ ان کا سمجھنا انسانی عقل کے لئے ممکن ہو وہ ہر گز خدا تعالیٰ تک بندوں کو پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

توحید الٰہی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات خدا تعالیٰ کی بیان کی ہیں وہ ایسی ہیں کہ ایک طرف تو عقل انسانی ان سے تسلی پا جاتی ہے دوسری طرف وہ ایک غیر محدود اور قادر اور خالق ہستی کے بالکل شایان شان ہیں۔ آپؐ ایک طرف خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں اور جلووں سے پاک ثابت کرتے ہیں اور اس کی توحید پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ تمام آلائشوں اور نقصوں سے اسے پاک قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اس کی محبت اور اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچانے کی خواہش کو ایسے واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ انسانی دل محبت سے بھر جاتا ہے اور عقل مطمئن ہو جاتی ہے مگر آپؐ اسی پر بس نہیں کرتے۔ آپؐ اس اصل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ امور جن پر ایمان لانا انسان کی نجات کے لئے ضروری ہو ان پر ایمان لانے کی بنیاد صرف عقلی دلیل پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ مشاہدہ پر ہونی چاہئے تا کہ دل شک و شبہ کے احتمال سے بھی پاک ہو جائے اور آپؐ اس امر پر زور دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات اس کے خاص بندوں کے لئے ایسے خاص رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ ان کے معجزانہ ظہور کو دیکھ کر انسان کا دل یقین کی آخری کیفیات سے لبریز ہو جاتا ہے۔

ملائکہ کی حقیقت

ملائکہ کے متعلق جہاں ایک طرف آپ نے ان لوگوں کے خیالات کو رد کیا ہے جو ان کے وجود ہی کے منکر ہیں وہاں ان لوگوں کے خیالات کو بھی ردّ کیا ہے جو انہیں بادشاہی درباریوں کی حیثیت میں پیش کرتے ہیں اور بتایا ہے کہ ملائکہ نظام عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ میں اسی طرح ضروری وجود ہیں کہ جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب۔ وہ ایک مادی خدا کے دربار کی رونق نہیں ہیں بلکہ ایک غیر مادی خدا کے احکام تکوین کی پہلی کڑیاں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلے پوری طرح ان پر قائم ہیں اور جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت نہیں ہو سکتی اسی طرح ملائکہ کے بغیر کائنات کا وجود ناممکن ہے۔

قانون قدرت کیا ہے؟

آپ نے قانون قدرت کو ایسا قریب الفہم کر دیا کہ مادی علل واسباب کا دیکھنے والا سائنس دان اور عقلی موجبات کی موشگافی کرنے والا فلسفی اور روحانی اثرات پر نگہ رکھنے والا صوفی اور موٹی موٹی باتوں سے نتیجہ نکالنے والا عامی یکساں طور پر تسلی پا گیا۔ ہر اک نے اسے اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے دیکھا۔ غور کیا اور اطمینان کا سانس لیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی تصدیق کر دی کیونکہ مختلف پہلوئوں سے غور کرنے کے بعد جب ایک ہی نتیجہ نکلے تو اس نتیجہ کی صحت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔

رسالت اور کلام الٰہی کی ضرورت

آپؐ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت اور قانون قدرت کی مثالوں سے ثابت کیا کہ وہ خدا جس نے جسمانی آنکھ کے لئے سورج کو پیدا کیا ہے کس طرح ممکن ہے کہ روحانی آنکھ کو کام کرنے کے قابل بنانے کے لئے اس نے روحانی سورج اور روحانی نور پیدا نہ کیا ہو حالانکہ جسمانی آنکھ کا تعلق تو ایک محدود عرصہ سے ہے لیکن روحانی بینائی کا اثر انسان کی تمام آئندہ زندگی پر ہے خواہ اس دنیا کی ہو خواہ اگلے جہاں کی۔

بعث مابعد الموت

بعث ما بعد الموت کے متعلق بھی آپؐ نے مختلف پیرایوں سے بحث کی اور ایسے رنگ میں اسے پیش کیا کہ وہ ایک خالص علمی مسئلہ کی بجائے ایک عملی مسئلہ بن گیا۔ انسانی اعمال ایک زبردست جزا کے طالب ہیں اور وہ جزا اس امر کی مقتضی ہے کہ اسے دوسروں کی نگہ سے مخفی رکھا جائے کیونکہ اس عظیم الشان جزا کے ظاہر ہو جانے پر انسانی اعمال اختیاری نہیں رہیں گے بلکہ ایک رنگ میں غیر اختیاری ہو جائیں گے۔ عالم آخرت ایک نئی دنیا نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں مادیات کے اثر سے آزاد ہو کر انسانی روح اسی راستہ پر بلا روک ٹوک چلنا شروع کر دیتی ہے جو اس نے اپنے اعمال کی داغ بیل ڈال کر اپنے لئے تیار کیا تھا۔ خدا تعالیٰ ایک غم و غصہ سے پُر بادشاہ نہیں۔ اس کی صفات کے تقاضے نے انسان کو پیدا کیا تھا اور وہی صفات اس امر کی متقاضی ہیں کہ انسان آخر کار اپنے مقصد کو پا جائے اور کوئی پہلے اور کوئی پیچھے آخر اس وجود سے پیوست ہو جائے جس وجود کی رحمت اسے عالم وجود میں لائی تھی۔

غرض ہر اک مخفی مسئلہ کو جس پر ایمان کی بنیاد تھی وہم اور شک کے بادلوں سے نکال کر ایک چمکتے ہوئے سورج کی روشنی کے نیچے آپؐ نے رکھ دیا تا کہ ہر شخص اپنی عقل کی آنکھ سے اسے دیکھ سکے اور اپنے روحانی ادراک سے اسے چھو سکے اور وہم اور وسوسہ سے نکل کر یقین اور اطمینان حاصل کر سکے۔

نبی کا دوسرا کام تعلیم کتاب

دوسرا کام نبی کا تعلیمِ کتاب ہے۔ اس کام کو بھی آپؐ نے ایسے رنگ میں پورا کیا ہے کہ کسی اَور وجود میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپؐ نے سب سے اول تو یہ بتایا کہ شریعت ایک فضل ہے۔ انسان اپنی دنیوی اوراخروی زندگی کی بہتری کے لیے اس امر کا محتاج ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس پر اپنی مرضی کا اظہار کرے تاکہ اس روحانی سفر میں جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے کاموں کی بنیاد شک اور وہم پر نہ ہو بلکہ یقین اور وثوق پر ہو۔ شریعت ایک بوجھ نہیں جو آگے ہی بوجھ سے دبے ہوئے انسان کو کچلنے کے لئے اس کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ وہ کسی سزا کا نتیجہ نہیں بلکہ محبت کے تقاضے کے ماتحت اس کا نزول ہوا ہے اور ان مخفی گڑھوں اور یکدم چکر کھا جانے والے موڑوں اور سربلند اور سیدھی پہاڑیوں اور تیز اور سرعت سے بہنے والی ندیوں اور حد سے جھکی ہوئی شاخوں اور کانٹے دار جھاڑیوں اور گندگی اور میل کے ڈھیروں سے مطلع کرنے کے لئے اتاری گئی ہے جو اس لمبے سفر میں انسان کے لئے تکلیف کا موجب اور اسے اس کے سفر کو بآرام طے کرنے سے محروم کر دینے کا باعث ہو سکتی ہیں۔ وہ نہ سزا ہے نہ امتحان بلکہ رہنما ہے اور ہادی۔ اس کا کوئی حکم خدا تعالیٰ کی شان کو بڑھانے والا نہیں بلکہ ہر اک حکم انسان کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہے۔

عالمگیر شریعت

آپؐ نے دنیا کے سامنے یہ ایک نیا طریق پیش کیا کہ شریعت عالمگیر ہونی چاہئے اور اس میں مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ رکھا جانا چاہئے جو کتاب کہ مختلف طبائع اور مختلف طاقتوں کا لحاظ نہیں کرتی وہ گویا دنیا کے ایک حصہ کو نجات پانے سے بالکل محروم کر دیتی ہے اور اس طرح خود اس غرض کو معدوم کر دیتی ہے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا۔

شریعت کے دو اہم امور

تیسرا اصل کتاب کی تعلیم میں آپ نے یہ مدنظر رکھا کہ شریعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ دو اہم ضرورتوں کو پورا کرے۔ ایک طرف تو اس میں ان تمام ضروری امور کے متعلق ہدایت ہو جن کا مذہبی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ تعلق ہے اور دوسری طرف انسان کی ذہنی ترقی کے لئے اس میں گنجائش ہو اور وہ انسانی دماغ کو بالکل جامد بنا کر اس میں سڑاندھ نہ پیدا کر دے۔ ان دو اصول کے ماتحت آپ نے ان دو خطرناک راستوں کو بند کر دیا جو حقیقی روحانیت کو تباہ کرنے کا باعث بن جایا کرتے ہیں یعنی اباحت کے راستہ کو بھی جو انسان کے روحانی مفاد کو مادی لذات کی قربان گاہ پر قربان کروا دیا کرتا ہے اور تقلید جامد کے راستہ کو بھی جو انسانی دماغ کو ایک سڑے ہوئے تالاب کی طرح بنا کر ان بدبوئوں کا مرکز بنا دیتا ہے جو نشوونما کی تمام قابلیتوں کو جلا کر رکھ دیتی ہیں۔

نبی کا تیسرا کام، تعلیم حکمت

تیسرا کام نبی کا تعلیم حکمت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام میں بھی ایک بے نظیر مثال قائم کی ہے۔ آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے باوجود خدا تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے بے نظیر اظہار کے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کے یہ معنی نہیں کہ وہ جو چاہے حکم دے اور کسی کو اس کی وجہ دریافت کرنے کی مجال نہ ہو۔ وہ اگر قادر ہے تو غنی بھی ہے۔ کسی حکم میں خود اس کا اپنا فائدہ مدنظر نہیں ہوتا۔ اور پھر وہ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم نہیں دیتا جس میں کہ کوئی حکمت نہ ہو پس کسی تعلیم کے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس کی جزئیات تمام حکمتوں سے اور اس کے احکام تمام علتوں سے خالی ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا ہی اس امر کا ضامن ہے کہ وہ بات ضرور حکمتوں سے پر اور مقاصد عالیہ سے وابستہ ہے ورنہ وہ حکیم اور غنی ہستی اس کا حکم کیوں دیتی۔ اس اصل کے ماتحت آپؐ نے اپنی تمام تعلیم کی حکمتیں ساتھ ساتھ بیان فرمائی ہیں ہر اک بات جس کا حکم دیا ہے اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اس کے کرنے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے نہ کرنے کے کیا نقصانات ہیں اور ہر اک بات جس سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بتایا ہے کہ اس کے کرنے سے کیا نقصانات ہیں اور اس کے نہ کرنے میں کیا فوائد ہیں۔ پس آپؐ کی تعلیم پر عمل کرنے والا اپنے دل میں انقباض نہیں محسوس کرتا بلکہ ایک جوش اور خوشی محسوس کرتا ہے اور خوب سمجھتا ہے کہ مجھے جو حکم دیا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً فائدہ ہے اور جس امر سے مجھے روکا گیا ہے اس میں بھی میرا خصوصاً اور دنیا کا عموماً نفع ہے اور یہ بشاشت اس کے اندر ایک ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دیتی ہے کہ شریعت پر عمل کرنا اسے ناگوار نہیں گزرتا بلکہ وہ اس پر عمل کرنے کو ایک ضروری فرض سمجھتا ہے اور اسے ایک چٹی نہیں خیال کرتا بلکہ ایک عظیم الشان رحمت خیال کرتا ہے۔

نبی کا چوتھا کام، تزکیہ نفس

چوتھا کام ایک نبی کا تزکیہ نفس ہے یعنی لوگوں کے دلوں کو پاک کر کے ان کے اندر ایسی قابلیت پیدا کرنا کہ وہ خداتعالیٰ سے اتصال تام حاصل کر سکیں اور اس کے فیوض کو اپنے نفس میں جذب کر کے بقیہ دنیا کے لئے اس کے مظہر اور اس کی قدرتوں کی جلوہ گاہ بن سکیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو اس احسن طریق پر پورا کیا ہے کہ دوست تو دوست آپ کے دشمن بھی اس کام کے قائل ہیں۔ جس ملک میں آپ پیدا ہوئے اور جس قوم کے آپ ایک فرد تھے، اس کی جو حالت تھی وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں۔ خود اس زمانہ کی عام حالت بھی اچھی نہ تھی۔ عرب جو آپ کا ملک تھا اس کے سوا دوسرے ممالک بھی مذہبی، اخلاقی، علمی اور عملی حالت میں اچھے نہ تھے گویا ایک رات تھی جو سب دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ اول تو پہلے مذاہب کی پاک تعلیموں کو ہی لوگوں نے بگاڑ دیا تھا۔ دوم جو کچھ پہلی تعلیموں میں سے موجود تھا اس پر بھی عمل نہ تھا۔ مذہب تو ایک بالا چیز ہے، معمولی انسانیت بھی مردہ ہو چکی تھی اور شرافت مفقود ہو رہی تھی۔ شرک و بدعت اور گندی رسوم، ایک دوسرے کا حق مارنا، فسق و فجور ظلم، قتل و غارت، بے شرمی اور بے حیائی، جہالت، سستی، نکما پن، تفرقہ، شراب خوری، جوئے بازی، کبر، خود پسندی، غرض ہر اک عیب اس وقت موجود تھا اور اس کے مقابل کی ہرایک نیکی مفقود تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی مٹ گیا تھا اور اس کے ارتکاب پر بجائے شرمندگی محسوس کرنے کے فخر کیا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں پیدا ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوم کو اپنی تربیت کے لئے چنا جو اس تاریک زمانہ میں بھی سب قوموں سے گناہ اور بدی میں بڑھی ہوئی تھی۔ نظام حکومت اس کے اندر اس قدر مفقود تھا کہ اسے سب سے زیادہ فخر اپنی لا مرکزیت پر تھا۔ اس قوم کے اندر اپنی پاکیزی کی روح آپؐ نے پھونکنی شروع کی۔ جیسا کہ قاعدہ ہے جس چیز کو جی نہ چاہے انسان اس کا مقابلہ کرتا ہے لوگوں نے آپ کا مقابلہ شروع کیا اور سخت ہی مقابلہ کیا مگر آپؐ استقلال اور صبر سے اپنا کام کرتے چلے گئے اور لوگوں کی مخالفت کی کچھ بھی پروا نہ کی۔ ماریں کھائیں، گالیاں سنیں، طعنے سہے سب کچھ برداشت کیا۔ مگر دنیا کی گمراہی کو برداشت نہ کیا۔ آخر ایک ایک کر کے لوگوں کے دلوں پر فتح پانی شروع کی۔ سالہا سال تک یہ مقابلہ جاری رہا۔ بڑے بڑے قوی دل، دل ہار گئے مگر آپ نے دل نہ ہارا۔ جس طرح پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بہتے بہتے نرمی سے ملائمت سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آخر ایسی نشیب والی جگہیں پیدا کر لیتا ہے جن پر سے وہ آسانی کے ساتھ بہ سکے۔ اسی طرح آپؐ نے اپنے نیک نمونہ سے اور موثر وعظ سے دنیا کی اصلاح کا کام جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ پاکیزگی اور طہارت کی خوبی کے دل قائل ہو گئے۔ روحانی مردوں نے اپنے اندر ایک نئی روح، سوئے ہوئوں نے تمازت آفتاب، بیماروں نے صحت کے آثار اور کمزوروں نے ایک طاقت کی لہر اپنے اندر محسوس کرنی شروع کی۔ دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔ جہاں ظلم اور تعدی کی حکومت تھی وہاں عدل اور انصاف کا دور دورہ ہو گیا۔ جہاں جہالت کے بادل چھا رہے تھے وہاں علم کا سورج چمکنے لگا۔ جہاں برودت اور جمود جمے بیٹھے تھے وہاں امن اور سعی کی گرم بازاری ہو گئی۔ نسل انسانی نے سانس لیا، کروٹ بدلی اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس معجزانہ تغیرپر نظر ڈالی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بےنفس جدوجہد نے پیدا کر دیا تھا۔ اور بے اختیار ہو کر چلا اٹھی کہ بےشک تو نبی ہے بلکہ نبیوں کا سردار۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

خاکسار

مرزا محمود احمد ‘‘

(الفضل31؍مئی1929ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button