اداریہ

کیا خاتم النبیینﷺ کے فیوض وبرکات کا چشمہ بھی جاری ہے!؟

مقصدِ حیات خدا تعالیٰ کی عبادت، اس کی پہچان، اس سے تعلق پیدا کرنا اور اس کی رضا جوئی ہے۔ خدا تعالیٰ تک جو وراء الورا ہستی ہےکیسے پہنچا جائے ۔ اس بنیادی مسئلے کا حل بھی خدا تعالیٰ نے انسان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ جہاں ہر شخص کو کسی نہ کسی انداز میں روحانیت سے تعلق رکھنے والے امور مثلاً سچی خوابوں وغیرہ کا تجربہ کروا کر وہ اپنے وجود کا پتہ دیتا ہے وہاں انسانوں کی طرف مبعوث کیے جانے والے انبیائے کرام کے ذریعے اپنی ذات کا بین ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔انبیاء اللہ کا پیغام لاتے ہیں۔ ان کی سچائی کا ثبوت خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا فرمودہ معجزات و نشانات کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے نبی کو پہچاننے کے لیے خدا تعالیٰ سے دعا اور اس کے حضور عاجزی و انکساری کے ساتھ ساتھ اس کا تقویٰ، ہدایت کےحصول کی تڑپ اور بصیرت رکھنے والا دل بھی شرائط میں سے ہیں۔

اس میں کسی شک کا احتمال بھی نہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خاتَم النبیین ،سب سے اعلیٰ شان رکھنے والے ہیں۔اسی لحاظ سے حضور پاکؐ کے توسّط سے انسانوں تک پہنچنے والا خدا تعالیٰ کا پیغام اور اس کی طرف سے حضورؐ کی سچائی میں اتارے جانے والے معجزات و نشانات تمام انبیاء سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔

نبی اکرمﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے۔ معراج و اسراء، شق القمر، غزوۂ احزاب میں جبکہ انتہائی کس مپرسی کی حالت تھی مسلمانوں کو قیصر و کسریٰ کی فتح کی خبر دینا، روم کے مغلوب ہونے کے بعد اس کے غالب آنے کی پیشگوئی کرنا، سراقہ کو کسریٰ کے کنگن کی خوش خبری دینا، مشکل حالات میں کھانے یا دودھ وغیرہ کو برکت بخشنا، ایک دھاگے کی مانند چلنے والے چشمے کے پانی کو ایسی برکت دینا کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس جگہ سے پانی کے فوارے ابل رہے ہیں وغیرہ سمیت اَن گنت ایسے معجزات ہیں جنہیں علمائے سلف کی جانب سے تحریر کردہ متعدد کتب میں درج کیا گیا ہے۔ ان کتب میں امام بیہقی کی کتاب ’’دلائل النبوۃ‘‘ اور امام ماوردی کی تصنیف ’’اعلام النبوۃ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

پھر رسولِ کریمﷺ سے روحانی فیض پانے والے اولیائے کرام و مجدّدین نیز خاتم الخلفاء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ بابرکات سے پچھلے کئی سو سال میں جو متعدد معجزات صادر ہوئے انہیں بھی ؎شاگرد نے جو پایااستاد کی دولت ہے کے تحت نبی کریمﷺ کے معجزات کہنا بےجا نہ ہوگا۔

معجزات کا ایک مقصد جہاں مومنوں کو ایمان میں بڑھانا اور سعید روحوں کو انبیاء کی سچائی کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ صرف رحم کر کے اُن کے مزید اطمینان اور اپنی ہستی منوانے کے لیے نشانات ظاہر فرماتا ہے‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 378، ایڈیشن 1984ء) وہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو مختلف بہانوں سے اعتراض کرتے اور نشانات کا انکار کرتے ہوئے اپنے کفر پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتا ہے، گویا معجزات خدا تعالیٰ کی ہستی کے دلائل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ حق و باطل میں فرق دکھانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’انبیاء علیہم السلام کو جو معجزات دیئے جاتے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی تجارب شناخت نہیں کر سکتے۔ اور جب انسان اُن خوارق عادت امور کو دیکھتا ہے۔تو ایکبار تو یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔لیکن اگر اپنی عقل کا ادّعا کرے اور تفہیم الٰہی کے کوچے میں قدم نہ رکھے تو دونوں طرف سے راہ بند ہو جاتی ہے۔ ایک طرف معجزات کا انکار۔دوسری طرف عقل خام کا ادعا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان دقیق در دقیق کنہ کے دریافت کرنے کی فکر میں وہ نادان انسان لگ جاتا ہے جو معجزات کی تہ میں ہے اور جس کی فلاسفی زمینی عقل اور سطحی خیالات پر نہیں کھل سکتی۔اس سے وہ انکار کی طرف رجوع کرتے کرتے نبوت کے نفس کا ہی منکر ہو جاتا ہے اور شکوک اور وساوس کا ایک بہت سا ذخیرہ جمع کر لیتا ہے جو اس کی شقاوت کا موجب ہو کر رہتا ہے۔کبھی یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ بھی ہمارے جیسا ایک آدمی ہے جو کھاتا پیتا اور حوائج انسانی رکھتا ہے۔اس کی طاقتیں ہم سے کیونکر بڑھ سکتی ہیں؟اس کی طاقتوں میں روحانیت کی قوت ،اور دعاؤں میں استجابت کا اثر کیونکر خاص طور پر آجائے گا؟افسوس!اس قسم کی باتیں بناتے اور اعتراض کرتے ہیں۔جس کے سبب جیسا میں نے ابھی کہا نفس نبوت کاا نکار کر دیتے ہیں ۔سوچنے اور سمجھنے کا مقام ہے کہ معمولی طور پر تو مانتے نہیںاور غیر معمولی طور پر اعتراض کرتے ہیں۔اب یہ عمداً اورصریحاً ا نبیاء علیہم السلام کے وجود کا انکار نہیںتو اور کیا ہے ۔کیا انہی عقلوں اور دانشوں پر ناز ہے ۔کہ فلاسفر کہلا کر دہریہ یا بت پرست ہو گئے۔اللہ تعالیٰ کی مخفی طاقتیں کبھی الہام اور وحی کے سوا اپنا کرشمہ نہیں دکھلا سکتیں ۔وہ وحی اور الہام ہی کے رنگ میں نظر آتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ94، ایڈیشن 1984ء)

رسولِ اکرمﷺ کے بعض معجزات حضور پاکؐ کے زمانہ میں صادر ہوئے اور آج بھی ہم اگر ہمت و طاقت نیز سعادت رکھتے ہوں تو ان کے پورا ہونے کے گواہ بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ 23؍ اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیان فرمایا کہ تبوک کے علاقے میں موجود سبزہ اور باغات اسی باریک سے چشمے کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں جسے نبی پاکؐ نے برکت عطا فرماتے ہوئے حضرت معاذبن جبلؓ کو بطور پیشگوئی فرمایا تھا کہ’اے معاذؓ! اگر تیری عمر لمبی ہوئی تو تُو دیکھ لے گا کہ یہ جگہ باغوں سے بھر گئی ہے۔‘(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی معجزات النبی ﷺ)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کی ذات کی برکت سے عرب کے لق و دق صحرا میں موجود پانی چودہ سو سال سے سیرابی کرتا چلا آ رہا ہے تو کیا وجہ ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک رسولِ کریمﷺ کا روحانی فیض یعنی نبوت اور وحی و الہام کا پانی خشک ہو چکا ہے۔

آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے

لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button