سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ کی عورتوں اور بچوں کے لیے رحمت و شفقت

(امۃ الباری ناصر)

’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ بے انتہا رحم کرنے والا۔ بن مانگے دینے والا۔ اور باربار رحم کرنے والا ہے۔حضرت مصلح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کی رحمتیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک عمومی اور ایک خصوصی یعنی ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو صفت رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہیں اور مومن اور کافر سب کو ملتی ہیں اور ایک وہ رحمتیں ہوتی ہیں جو خاص طور پر اعلیٰ درجے کے کارکنوں کو ملتی ہیں جو جزا کے طور پر ہوتی ہیں اور صفت رحیمیت کے تحت نازل ہوتی ہیں‘‘۔ ( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 120)

اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے کئی جلوے ہیں۔ کبھی وہ اپنی رحمت ہی اپنے کسی پیارے کو عنایت فرمادیتا ہے جیسا کہ فرمایا

وَوَ ھَبْنَا لَھُمْ مِّنْ رَحْمَتِنَا

اور کبھی اپنے محبوب کو ہی رحمت بنا دیتا ہے۔ رحمت کا یہ اعلیٰ ترین مقام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو عطا فرمایا

وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ (الانبیاء:108)

اور ہم نے تجھے عالمین کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اور قلبِ محمدﷺ کو محبت، نرمی، شفقت، مہربانی عفو ودرگزر اور معافی کے جذبات سے بھر دیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’سورۃ فاتحہ میں جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ اربعہ بیان ہوئی ہیں آنحضرتﷺ ان چاروں صفات کے مظہرِ کامل تھے۔ مثلاً پہلی صفت ربّ العالمین ہے آنحضرتﷺ اس کے بھی مظہر ہوئے جبکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔

جیسے ربّ العالمین عام ربوبیت کو چاہتا ہے اسی طرح پر آنحضرتﷺ کے فیوض و برکات اور آپؐ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی‘‘۔

( الحکم جلد 7نمبر 29 مورخہ 10؍اگست 1903ء صفحہ 20)

نبی ٔ رحمتؐ تشریف لائے۔ صدیوں کی تپتی ہوئی خشک زمین پر ابر رحمت برسنے لگا۔ پہلی بارش کی سوندھی خوشبو فضا میں پھیلی ہر طرف زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ سب سے کمزور، معتوب اور مظلوم طبقۂ اناث نے ایک مژدۂ جانفزا سنا کہ سب انسان برابر ہیں۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءًۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (النساء : 2)

اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پر نگران ہے۔

رسوم و رواج اور جھوٹی غیرت کی بھینٹ چڑھی ہوئی مظلوم عورت کو یہ زندگی بخش پیغام بہت خوشگوار لگا جیسے ایک مجسّم رحمتؐ نے اُس کے سر سے منوں مٹی ہٹا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر قعر مذلّت سے نکال کر اشرف المخلوقات کی مسند پر بٹھا دیا ہو۔ بےاختیار اپنے محسن نبیٔ رحمت پر دُرود بھیجنے لگی۔ یہ ساری کیفیت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے انتہائی خوب صورتی سے اپنی مشہور عارفانہ نظم میں پیش فرمائی ہے۔ ہم اس نظم کے ساتھ چلتے ہیں اورسب مل کر حمد و درود میں شامل ہوتے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ اَکْثَر مِمَّا صَلَّیْتَ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ اَنْبِیَآئِکَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن! جب زندہ گاڑی جاتی تھی

گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی

جب باپ کی جُھوٹی غیرت کا خُوں جوش میں آنے لگتا تھا

جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی

بہنو! وہ وقت وہ حالت اور حیثیت نظر کے سامنے لاؤ جب تمہیں اس دنیا میں آتے ہی مصیبت سمجھ کر جان چھڑانے کے لیے زندہ ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ تمہاری پیدائش سےکسی کو خوشی نہیں ہوتی تھی بلکہ گھر میں سوگ کی کیفیت طاری ہوجاتی دَر و دیوار رو نے پیٹنے لگتے۔ تمہاری آمد کی خبر باپ کے لیے خاص طور پر ناقابل برداشت ہوتی۔اُس کی جھوٹی غیرت و حمیّت کا خون جوش مارنے لگتا اور وہ کسی نہ کسی طرح اس بدنامی کے داغ کو مٹا دینا چاہتا تھا اور ماں کو جب پتہ لگتا کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا ہے تو وہ اس کے اور اپنے حشر کا سوچ کر ایسی خوف زدہ ہوجاتی جیسے وہ ننھی سی بچی نہ ہو ایک زہریلا سانپ ہو۔

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ۔

(النحل:59تا60)

اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جائے تو اس کا چہرہ غم سے سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ (اسے) ضبط کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔

وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی۔ کیا وہ رسوائی کے باوجود (اللہ کے) اُس (احسان) کو روک رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے؟ خبردار! بہت ہی بُرا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔

نبی کریمؐ کے سامنے بچیوں پر ظلم کے واقعات بیان کیے جاتے تو آپؐ کو بہت دکھ ہوتا۔ ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو گڑھے میں گاڑ دینے کا دردناک واقعہ سنایاکہ وہ ابا ابا کہتی رہ گئی مگر اُسے ترس نہ آیا اور اُسے زندہ دفن کر کے چھوڑا۔ یہ سن کر نبی کریمؐ کا دل بھر آیا اور فرمانے لگے کہ جب وہ معصوم ابا ابا کہہ رہی تھی تو تمہیں اُس پر رحم نہ آیا۔

ایک مرتبہ ايک صحابی نے اسلام لانے سے پہلے کا ايک واقعہ بيان کيا کہ اس نے اپنی گیارہ سالہ بیٹی کو گڑھا کھود کر زبردستی گڑھے ميں دھکيل کر اُوپر سے مٹی ڈالنی شروع کردی۔ وہ بچی بہت چيخی چلاّئی ليکن ميں برابر اپنا کام کیے گيا۔ يارسول اللہؐ!آج بھی اُس بچی کی دردناک چيخيں ميرے کانوں ميں گونج رہی ہيں۔ اور ميرا دل پاش پاش ہو رہا ہے۔ آنحضرتﷺ يہ واقعہ سُن رہے تھے اور آپؐ کی آنکھيں اشکبار تھيں۔

( خلاصہ سنن دارمی جلد 1صفحہ3)

یہ خون جگر سے پالنے والے تیرا خُون بہاتے تھے

جونفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی

کیا تیری قدروقیمت تھی؟ کچھ سوچ! تری کیا عزت تھی؟

تھاموت سے بدتر وُہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی

لڑکیوں سے نفرت کی شدت نے خونی رشتوں میں بےرحمی کی آگ بھڑکا دی تھی۔ باپ جس کے خون سے بچہ بنتا ہے ماں جواپنی کوکھ میں دکھ اٹھا کر پالتی اور جنم دیتی ہے اس رحمی تعلق اور فطری لگاؤ کو بھلا کر جانی دشمن بن جاتے گویا عورت ذات سے نفرت نے ان کی فطرت مسخ کردی تھی۔ معاشرے کا دباؤ کیسے کیسے غلط کام کرادیتا ہے عورت کی کوئی قدرو قیمت اور عزت نہ تھی وہ ایک مفت کا کھلونا سمجھی جاتی تھی۔ اوّل تو اس کا زندہ رہنا ہی مشکل تھا۔اگر کسی طرح بچ جاتی تو اس کی زندگی اتنی تکلیف دِہ ہوتی کہ اس سے مرجانا ہی بہتر ہوتا۔ موت یہی نہیں ہوتی کہ کوئی گلا گھونٹ دے بلکہ عزت نفس کا کچلا جانا اور مر مر کے جینا بھی ایک طرفہ عذاب ہوتا ہے۔

عورت ہوناتھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا

گویا تُو کنکر پتھرتھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے

توہین وہ اپنی یاد تو کر! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

یہ جُرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی

عورت کا جرم اور قصور صرف یہ تھا کہ وہ عورت ذات تھی اس پر ہر قسم کا ظلم ہو سکتا تھا۔ مردوں کی اجارہ داری کے معاشرہ میں وہ ہر طرح کی بے درد ایذا دہی کے لیے آسان نشانہ تھی۔ اس کا کوئی ہمدرد نہیں تھا وہ کسی طرح بھی رحم کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی صرف موت ہی اس کو ان اذیتوں سے نجات دلا سکتی تھی۔

عورت کو سنگریزے اور پتھر کی طرح ٹھوکروں میں رکھا جاتا جس کے کوئی احساسات اور جذبات نہ ہوں جیسے وہ کوئی مفت کا مال ہو جسے بیچا اورخریدا جا سکتا تھا ترکے میں بانٹا جاسکتا تھا۔عورت انسان نہیں ایک چیز تھی جس کی ملکیت تبدیل ہوتی رہتی تھی مگر اس کا نصیب تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ مرد ایک وقت میں کئی کئی شادیاں کرسکتے تھے اور جب چاہے بیوی کو طلاق دے کر گھر سے باہرپھینک سکتے تھے۔ بیوہ عورت شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی۔ مرد کے قریبی رشتہ دار(مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے۔ اگروہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کرلیتے۔ ورنہ کسی اور کو دے دیتے۔

(بخاری کتاب التفسير سورة النساء باب لايحل لكم أن ترثوا النساءکرھا)

اسلام سے پہلے عورتوں کی حالت کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :

’’عورتوں میں پردے کی رسم نہ تھی بلکہ وہ کھلی پھرتی تھیں۔ تعدّد ازدواج کی کوئی حد نہ تھی اور جتنی بیویاں کوئی شخص رکھنا چاہتا تھا رکھتا تھا بعض اوقات باپ کی منکوحہ پر بیٹا وارث کے طور پر قبضہ کرلیتا تھا۔ اور دو حقیقی بہنوں سے بھی ایک وقت میں شادی کرلیتے تھے مگر ان باتوں کو اشراف ِعرب اچھی نظر سے نہ دیکھتے تھے۔ عرب میں طلاق کا عام رواج تھا اور خاوند جب چاہتا بیوی کو الگ کرسکتا تھا۔ لڑکیوں کے زندہ دفن کردینے کی رسم بھی عرب میں تھی مگر یہ رسم خاص خاص قبائل میں تھی عام نہ تھی‘‘۔

(سیرت خاتم النبیین صفحہ 59)

وہ رحمت عالم آتا ہے تيرا حامی ہو جاتا ہے

تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تيرے دلواتا ہے

ان ظلموں سے چھڑواتا ہے

بھيج درود اس محسن پر تُو دن ميں سو سو بار

پاک محمد مصطفےٰﷺ نبيوں کا سردار

بہنو! تمہاری اس حالت پر رحم کھا کر اللہ تعالیٰ نے رحمۃللعالین حضرت محمدﷺ کو بھیجا آپؐ وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کو اپنے سایۂ عاطفت، مروت، محبت اور حمایت میں لے لیا۔آپؐ نے انہیں سارے ظلموں سے نجات دلائی قرآنی ارشاد کے مطابق ان کے حقوق بتائے۔

وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ

(البقرۃ:229)

اور اُن (عورتوں ) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے

گويا انسانی، اخلاقی اور مذہبی حقوق ميں اسے مرد کے مساوی قرار ديا۔

اس دَور جہالت میں عورت کے ساتھ نفرت اور حقارت کے جذبات زائل کرکے عزت کا مقام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنایا کہ …

اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (الحجرات:14)

…بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

اورتقویٰ حاصل کرنے کی راہیں دونوں اصناف کے لیے برابر کھلی ہیں۔

اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی

(آل عمران:196)

میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مَرد ہو یا عورت۔

جب اللہ کی خوشنودی بلا تخصیص ہے تو دوسری باتوں میں فرق کیوں ہو۔

ہمارے آقا و مولاﷺ نے اپنے عمل سے عورت کی قدر کرنے کی تلقین فرمائی۔ فرمایا:

’’مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں۔ پھر اچھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الٰہی میں ہی ہے‘‘

(نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء)

صدیوں سے عورت ذات سے شدید نفرت کرنے والوں کے ذہن کو نفرت سےہٹا کراپنے برابر سمجھنے اور عزت کا مقام دینے کے لیےآپؐ نے کیا تدبیر کی ؟ سخت سے سخت سزائیں، گرفتاریاں، کوڑے، مقدمے، قیدو بند پھانسی؟نہیں یہ تدبیریں دل نہیں بدلتیں۔ آپؐ نے تودل بدلے۔ ان میں اللہ کی محبت ڈالی ،اللہ کا خوف ڈالا اور پھر ان کے حقوق سلب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا خوف دلایا اور خوش اسلوبی سے پیش آنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کی بشارت دی۔ یہی کارگر طریق ہے جس سےانقلاب آتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سےبہتر اخلاق کا مالک ہےاور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں۔ ‘‘

(ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)

یہ انقلاب آفریں مژدہ عرب کے صحراؤں کے لیے نیا تھا۔ دنیا کے کسی مذہب نے عورتوں کو اتنے حقوق نہیں دیے۔ حتیٰ کہ آج اکیسویں صدی میں بھی کہیں عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو پندرہ سو سال پہلے عرب کے اس عظیم الشان نبیؐ نے دیا تھا۔ ریاست کے معاملات میں خواتین کو رائے دینے کاحق، مشورے کو اہمیت، معاشرتی تعمیر و ترقی میں مردوں کی طرح کردار ادا کرتے ہوئے چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سارے احسانات کو یاد کرتے ہوئے واجب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کریں اور اپنے محسن حضرت محمدﷺ پر دن میں سَو سَو بار درودوسلام بھیجیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِہٖ وَسَلِّم۔

قیمتی متاع کی حفاظت

’’دنیا راحت و آرام کے سامانوں سے بھری پڑی ہے لیکن سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے۔ ‘‘

(ابن ماجہ ابواب النکاح صفحہ 134)

آپؐ نے اس قیمتی متاع کی حفاظت کے لیے ان سارے راستوں پر پہرے بٹھادیے جہاں سے اس کو خطرہ ہو سکتا تھا۔ گھر میں باپ، بھائی، شوہر، بیٹا اس کی حفاظت کریں اور اسے ضروریات زندگی نان نفقہ گھر میں مہیا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ اگر باہر جائے تو بھوکی نظروں سے بچنے کے لیے حجاب لے کر جائے۔ حیا عورت کا زیور ہے۔ایسے وقار سے رہے کہ کوئی گندی نظر سے دیکھنے کی جرأت نہ کرے۔ تعلیم حاصل کرنے، روزی کمانے یا کسی بھی ضرورت کے لیے گھر سے باہر جانا پڑے تو غیر مردوں سے خلا ملا نہ ہو۔ اسی طرح گھر میں آنے والے غیر مردوں سے بھی حجاب رکھاجائے عورت گھر کی ملکہ اور نگران ہے گھر میں سکون اور طمانیت کا ماحول پیدا کرنا عورت کے فرائض میں شامل ہے۔

عفت ہے، حیا ہے، نیکی ہے، جنت ہے، سکینت ہے عورت

عورت تو گھر کی زینت ہے یہ سامانِ تشہیر نہیں

عورت کی ہر حيثيت ميں عز ت و تکریم

عورت ماں ہو تو یہ ارشاد سائبان بن جاتا ہے

الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأمَّهَات

یعنی ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے، بیوی ہو تو یہ ارشاد تقویت دیتا ہے:

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي

یعنی سب سے بہترین وہ ہے جواپنے اہل و عیال کے لیے اچھاہے۔ اور گھروالوں سے بہترین سلوک میں میراطرزعمل تم میں سے سب سے بہترین ہے۔

(سنن الترمذي كتاب المناقب باب فضل أزواج النبي صلى اللّٰه عليه وسلم)

عورت بیٹی ہو تو حضرت فاطمہؓ سے پیاربھرا برتاؤ لطف دیتا ہے۔آنحضرتﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب حضورؐ سے ملنے کے لیے آتیں تو حضورؐ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ (سنن ترمذی کتاب المناقب باب مناقب فاطمہ) آپؐ نے بیٹیوں سے حسن سلوک کا اجر جنت بتایا۔

یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا

فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا وَ بَعْثٍ ثَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 593)

عورت کی تعلیم و تربیت

علم کا حصول مرد اور عورت کے لیے یکساں فرض قرار دیا۔ آپؐ کے خطبات وخطابات مرد عورت سب سنتے۔اس کے علاوہ عورتوں کو الگ سے بھی خطاب فرماتے۔آپؐ نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک الگ دن مقرر فرمایا تھا جس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔ ایک موقع پر نبی کریمؐ نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورتیں مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعدادیں رکھتی ہیں کہ مردوں پر غالب آجاتی ہیں۔ شادی کے لیے کسی خاتون کو ترجیح دینا اس کے خاندان اس کے مال اس کے حُسن کو نہیں اس کے ذاتی تقویٰ اور دینداری کو قرار دیا۔

تعلیم نے عورتوں میں جرأتِ اظہار پیدا کی اب وہ گونگی نہ تھیں زبان مل گئی تھی۔ اس تبدیلی کو حضرت عمر فاروقؓ نے اس طرح محسوس کیا ’’خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی ان کو حقدار بنا دیا۔ ایک دن میں اپنے کسی معاملہ میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی بولی اگر آپ اس طرح کرلیتے تو ٹھیک ہوتا۔ مَیں نے کہا تمہیں میرے معاملہ میں دخل اندازی کی جرأت کیوں ہوئی؟وہ کہنے لگی تم چاہتے ہو کہ تمہارے آگے کوئی نہ بولے اور تمہاری بیٹی رسول اللہؐ کے آگے بولتی ہے۔ ‘‘

(بخاری کتاب التفسیرسورۃ التحریم باب 386)

حضرت عائشہؓ کے بارے میں یہ فرمانا کہ آدھا دین عائشہؓ سے سیکھو۔ عورت کے تفقہ فی العلم پر اعتماد کا اظہار ہے۔

عورتوں کے جذبات کا خیال

’’عورتوں کے جذبات کا آپؐ کو اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ نماز میں آپؐ کو ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تو آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھا کر ختم کردی۔پھر فرمایا ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تھی میں نے کہا اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہورہی ہوگی۔ چنانچہ میں نے نماز جلدی ختم کردی تاکہ ماں اپنے بچہ کی خبر گیری کر سکے۔‘‘

(بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوٰۃ)

جب آپؐ ایسے سفر پر جاتے جس میں عورتیں بھی ساتھ ہوتیں تو ہمیشہ آہستگی سے چلنے کا حکم دیتے ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر جبکہ سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اور اونٹوں کی نکیلیں اٹھا لیں آپؐ نے فرمایا۔ رِفْقًا بِالْقَوَارِیْرَ۔ کیا کرتے ہو عورتیں بھی ساتھ ہیں اگر تم اس طرح اونٹ دوڑاؤ گے تو شیشے چکنا چور ہو جائیں گے۔

(بخاری کتاب الادب باب المعاریض مندوحۃ عن الکذب)

آپؐ نے عورتوں کے لیے قواریر آبگینے کا لفظ استعمال فرمایا جس سے عورت کی نزاکت۔کمزوری اور زودحسی کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کے ساتھ احتیاط سے برتاؤ کرنے اور حسن سلوک کرنے کاارشاد فرمایا جیسے شیشے کے سامان کی پیکنگ پر لکھا ہوتا ہے اس میں نازک سامان ہے احتیاط رکھیے۔

پھر آپؐ نے عورت کو پسلی سے مشابہ قرار دیا۔ یہ بھی اس کی نزاکت طبع کی طرف اشارہ ہے۔فرمایا عورتوں سے زیادہ سختی کا معاملہ نہ کیا کرو اگر تم زیادہ زور دوگے تو وہ ٹوٹ جائے گی سیدھی نہیں ہو سکے گی۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی میں دیکھو کہ آپ عورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے۔میرے نزدیک وہ شخص بزدل اور نامرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو مطالعہ کرو تا تمہیں معلوم ہو کہ آپ ایسے خَلیق تھے۔ باوجودیکہ آپؐ بڑے بارعب تھے لیکن اگر کوئی ضعیفہ عورت بھی آپ کو کھڑا کرتی تو آپ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اجازت نہ دے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 44-45۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

نبی کریمؐ نے عیدین کے موقع پر تمام عورتوں اور بچیوں کو اسلامی تہواروں میں شریک کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس پردہ کےلیے چادر نہ ہو تو وہ کسی سے ادھار لے لے اور وہ عورتیں بھی جنہوں نے نماز نہیں پڑھنی اجتماع عید میں شامل ہوکر دعا میں ضرور شریک ہوجائیں۔

(بخاری، کتاب العیدین باب 20)

ورثہ میں عورت کا حصہ

آپؐ نے قرآنی تعلیم کے مطابق لڑکیوں کو بھی ماں باپ کے ورثہ میں حقدار قرار دیا۔اسی طرح ماں اور بیویوں بیٹوں اور شوہر وں کے ورثہ میں اور بعض صورتوں میں بھائیوں کے ورثہ میں بہنوں کا حصہ بھی قائم کیا۔ نیز عورت کو اپنے مال کا مالک اورمختار قرار دیا۔ وہ جیسے چاہے استعمال کرے۔خاوند عورت کی مرضی کے بغیر اس کا مال استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ عورتوں کو حصہ نہ دینا بڑاظلم ہے مال سے محروم کرنا ایک طرح زندہ درگور کرنا ہے۔اس طرح حاصل کیا ہوا سرمایہ حلال نہیں ہو سکتا۔اپنی ہی نسل اپنے ہی خون پر زیادتی کرنا اور اسے کمتر ذلیل سمجھ کر حق سے محروم کرنا ،جائز حق ادا کرنے کی بجائے فرضی معافیاں فرضی ادائیگیاں تقویٰ اور دیانت کے خلاف ہیں، نفس کے بہانے ہیں۔

یتیم بچیوں کے حقوق کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ بعض دفعہ ایسی مالدار یتیم لڑکیوں کے ولی ان کے مال پر قبضہ کرنے کے لیے خود ان سے شادی کرلیتے تھے اور حق مہر بھی اپنی مرضی کے مطابق معمولی رکھتے تھے۔ قرآن شریف میں ان بدرسوم سے بھی روکا گیا۔ اور ارشاد ہوا کہ یتیم بچیوں سے انصاف کا معاملہ کرو۔

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا( الکہف :47)

مال اور لڑکے (جن کی خاطر تم لڑکیوں کا حق مارتے ہو) محض اس ورلی زندگی کی عارضی زینت ہیں لیکن قائم اور دائم رہنے والی نیکی وہ ہے جو خدا کے حضور ثواب کا موجب اور اگلے جہان کی اُمید گاہ ہو۔

ورثہ کا حق دراصل کئی حقوق کا مجموعہ ہے جو عورت کے معاملات میں انصاف کا درس دیتا ہے۔

نکاح شادی طلاق وغیرہ کے معاملات میں عورتوں کو با اختیار کیا

اسلام کی تعلیم کے مطابق والدین کو ولی کی حیثیت سے لڑکیوں کے لیے مناسب ہم پلّہ رشتے تلاش کرنےکا ذمہ دار ٹھہرایا۔ نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری قرار دی۔ آپﷺ نے خود ایک ایسی لڑکی کو، جس کے والدین نے اُس کی رضا کے برخلاف نکاح کر دیا تھا، حق دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو منسوخ کروا دے۔

نیز ظالم، ناکارہ، نا پسندیدہ شوہر کے مقابلے میں عورت کو خلع اور فسخِ نکاح کے وسیع اختیارات دیے۔بیوہ اور مطلقہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ (بخاری کتاب النكاح)

خاوند کی وفات کے بعد عدّ ت گزارنے کا طریق آسان بنایا جو پہلے بہت ظالمانہ اوررُسواکُن تھا۔ اسے ایک سال تک بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں رہنا پڑتا۔ عورت کے کردار پر بہتان لگانے والے کی سزا مقرر کی۔

خلقی کمزوری کی وجہ سے دینی امور میں سہولتیں

آنحضورؐ کے زمانے میں تلوار سے جہاد ہورہا تھا اس کے ثواب کی حرص میں عورتوں کا بھی دل چاہتا تھا۔کہ مردوں کی طرح وہ بھی ثواب حاصل کریں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مردوں کے گھر سے جانے کے بعد گھر اور بچے سنبھالنے کا ثواب بھی جہاد جتنا ہے۔ آپؐ نے عورتوں اور بچوں کو نمازِ جمعہ پڑھنے سے مستثنیٰ کر دیا۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ

’’غلام اور عورت اور بچہ اور مریض یہ سب مجبوری کے زُمرہ میں آتے ہیں۔‘‘

(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للملوک والمرأۃ حدیث 1067)

یہ استثناء ان کی سہولت کے لیے دیا گیا ہے تاکہ اس بات کا عورتوں کو قلق نہ رہے کہ وہ مردوں سے پیچھے رہ گئیں۔ عورتوں پر مسجد جا کر نماز باجماعت فرض نہیں ہے۔ اگرچہ بالکل منع بھی نہیں کیا گیا۔ اسلا م سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدا رہنا پڑتاتھا۔ خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے۔آپؐ نے معاشرتی برائی کو دور کیا۔حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایّام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہرگز منع نہیں (سورۃ البقرۃ:223) آپﷺ بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا زیادہ خیال رکھتے۔ ان کے ساتھ مل بیٹھتے۔ بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے۔

(ابو داؤد کتاب الطهارۃ باب في مواكلۃ الحائض)

اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عورت کو سزادینے کی اجازت ہے۔ اگرچہ یہ اجازت بھی گھروں کا امن قائم رکھنے کے لیے تھی جو کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دی، مگر اس خیال سے کہ اس رخصت کا غلط استعمال نہ ہو اس سے بھی منع فرمایالَا تَضْرِبُوْا اِمَاءَ اللّٰہِ۔ عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پردست درازی نہ کیا کرو۔ عورتوں پر سختی کرنے والوں کے بارے میں فرمایاکہ لَیْسَ اُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ۔ یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔

( سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء)

ہمیشہ کے لیے دستور العمل

آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بیچاریاں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہی تو ہوتی ہیں۔ تمہیں ان پرسخت روی کا صرف اسی صورت میں اختیار ہے کہ اگر وہ کسی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو تم اپنے بستروں میں ان سے جدائی اختیارکر سکتے ہو یا اس سے اگلے قدم کے طور پر انہیں کچھ سرزنش کرتے ہوئے سزا بھی دے سکتے ہو مگر سزا بھی ایسی جس کا جسم کے اوپر کوئی نشان یا اثر نہ پیدا ہو۔ اگر وہ اطاعت کر لیں تو پھر ان کےلیے کوئی اور طریق اختیار کرنا مناسب نہیں۔

یاد رکھو جس طرح تمہاری عورتوں کے اوپر کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح عورتوں کےبھی کچھ حق ہیں جوتم پر عائد ہوتے ہیں۔ تمہاراحق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے لیے اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں اور تمہاری مرضی کے سوا کسی کو تمہارے گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں۔ اور ان کاحق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ لباس میں، پوشاک میں اور کھانے پینے میں احسان کا سلوک کرنے والے ہو اور جس حد تک تو فیق اور استطاعت ہے، ان سے حسن سلوک کرو۔

(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق المرأة على زوجها۔ 1083)

اللّٰھم صل وسلم وبارک علیہ واٰلہ بِعددِ ھمہ وغمہ وحزنہ لھذہ الاُمَّۃِ وَ اَنزِل علیہ انوارَ رحمتک الی الابد

(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 7)

اے اللہ آپؐ پر اور آپ کی آل پر اس قدر درود اور سلام اور برکات بھیج جس قدر آپؐ نے اس اُمت کی خاطر ہم و غم اُٹھایا۔ اور ابد الآباد تک آپؐ پر اپنی رحمت کے انوار نازل فرما۔

آنحضورﷺ کی بچوں پر رحمت

رسول کریمﷺ بچوں کے لیے بھی بارانِ رحمت ہیں۔ اس زمانہ میں بچوں کو اخراجات اور ذمہ داریوں میں اضافے کے خوف سے پسند نہیں کیا جاتا تھا حتّی کہ بعض قبائل میں لڑکیوں کو تو زندہ ہی دفن کردیا جاتا۔آپؐ نے قرآنی ارشاد کے مطابق قتل اولاد سے منع فرمایا۔اولاد کو اللہ کی رحمت اور جنت کی نوید قرار دیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور اپنی اولاد کو کنگال ہونے کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم ہی ہیں جو انہیں رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔ ان کو قتل کرنا یقیناً بہت بڑی خطا ہے۔ (بنی اسرائیل:32)

آپؐ جب عورتوں سے بیعت لیتے تو یہ عہد بھی لیتے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی۔ پھر شادی کے وقت جوڑے کے انتخاب میں تقویٰ کو بنیادی شرط بتا کر اگلی نسلوں کو محفوظ کیا۔ میاں بیوی کو ملتے وقت نیک نصیب اولاد کے لیے دعائیں سکھائیں۔ پیدائش کے بعد بچہ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے کا ارشاد فرمایا (الجامع الصغیر جلد2 صفحہ 182) تاکہ پہلا نقش بچے کے ذہن پر توحید کا لگے۔اذان شیطان کو دھتکار دیتی ہے۔ پھر فرمایا بچے کا اچھا نام رکھا جائے اس کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے اس کا عقیقہ کیا جائے۔

(مسند احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن عامر۔ ؓ جلد 3صفحہ 447 مطبوعہ بیروت)

لڑکیوں کی پیدائش کے بارے میں فرمایا:

’’جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی‘‘۔

(اسوہ ٔ انسان کامل صفحہ 462)

بیٹیوں کی اچھی تربیت و پرورش پر ثواب اور جنت میں اپنے قرب کی بشارتیں دیں۔(ترمذی ابواب البر والصلہ)

حضورؐ بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آتے۔ ان سے ہنسی مذاق کرتے۔ ان سے دل لگی کرتے۔ ان کو بہلاتے۔ بچے بھی آپؐ سے بہت پیار کرتے آپؐ کو دیکھتے ہی خوشی سے اُچھلتے۔ سلام میں آپؐ سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ (سنن ابی داؤد کتاب السلام باب فی السلام علی الصبیان)مصافحہ کرتے ،آپؐ بھی انہیں گود میں لیتے اور پیار سے اچھی اچھی باتیں سکھاتے۔بچوں کو چومتے ،تھپکی دیتے۔ایک دفعہ ارشاد فرمایا:

اَکثِروا قبلۃ اولادکُم فاِنَّ لکم بِکل قبلۃ درجۃ فی الجنۃ۔(صحیح بخاری الادب المفرد باب رحمت العیال )

اے لوگو! بچوں کو چوما کرو کیونکہ ان کے چومنے کے بدلے میں تم کو جنت میں ایک درجہ ملے گا۔

آپؐ نے بچوں کو کبھی نہیں مارا تھا۔دوسروں کو بھی منع فرماتے کہ بچوں کو مارنا نہیں چاہیے۔ خاص طور پر چہرے پرمارنے سے منع فرمایا۔ حضورؐ سواری پر ہوتے تو بچوں کو ساتھ بٹھالیتے۔ایک بار ایک بدو نے آپؐ کوبچوں سے پیار کر تے دیکھ کر کہا حضورؐ میرے تو اتنے بچے ہیں۔ میں نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا۔ آپؐ نے فرمایا اگر خدا نے تمہارے دل سے شفقت لے لی ہوتو میں کیا کرسکتا ہوں۔ پھر فرمایا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ خدا بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔

(الادب المفردللبخاری باب قبلۃ الصبیان)

بچوں کے حقوق کے بارے میں رہ نما اصول

تربیت اولاد کے حوالے سے آپؐ کے بعض ارشادات درج ہیں :

آنحضورﷺ نے بہترین تربیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک والد کا اپنی اولاد کی بہترین تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔

اکرموااولادکم فان اکرام الاولاد ستر من النار ولاکل معھم برآۃمن النار (سنن ابن ماجہ ابواب الادب)

اپنے بچوں کی عزت کیا کرو کیونکہ ان کی عزت کرنا دوزخ کا پردہ ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔

اپنی اولاد کی ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ یہ تین خوبیاں بطور عادت و خصلت کے ان میں راسخ ہوجائیں۔اپنے نبی کی محبت ،اہل بیت کی محبت ،قرآن کریم کا پڑھنا۔

(الجامع الصغیر للسیوطی جز اوّل 18)

مثل الذي يتعلم العلم في صغره النقش علی الحجر، (الجامع الصغیر سیوطی جلد 2-3صفحہ 153)

بچپن کا سکھایا ہواپتھر پر نقش کی طرح ہوجاتا ہے۔

اکرموااولادکم واحسنوا اَدَبَھم

(ابن ماجہ باب الادب برالوالد)

بچوں کی عزت کرو اورانہیں اچھے آداب سکھاؤ۔

ہر بچے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے اس لیے آپؐ نے احکامات میں ان کی نفسیات کا لحاظ رکھا۔ فرمایا جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اسے کلمہ سکھاؤ۔جب دائیں بائیں ہاتھ کی پہچان ہوجائے تو نماز سکھاؤ۔جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دو۔ سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کے لیے کہا کرو۔ اگر دس سال کی عمر میں بچے نماز نہ پڑھیں تو سزا بھی دے سکتے ہو۔

( ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب 26)

بچوں کی تعلیم کا اس قدر خیال تھا کہ فرمایا :جنگِ بدر کے پڑھے لکھے قیدی مدینہ کے دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں توانہیں آزاد کردیا جائے گا۔

بچے ورزشی کھیلیں کھیلتے اور قرآن، حدیث اور فقہ سیکھتے۔ چنانچہ آپؐ کے ارد گرد کھیلنے والے بچے آپؐ کے قول اور فعل کو ذہن میں محفوظ رکھتے رہے۔ جب بڑے ہوئے تو قرآن کے مفسر حدیث کے راوی اور علم کی روشنی کے مینار بنے۔

خدمت گزاروں کو آپؐ کبھی بھی کمتر نہ سمجھتے۔ چنانچہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں: پیارے آقا نے مجھےکبھی ڈانٹا نہ مارا نہ جھڑکا بلکہ جو خود کھاتے وہ مجھے کھلاتے اچھا کپڑا پہناتے اور کام میں برابر ہاتھ بٹاتے۔ دس سال میں آپؐ کی خدمت میں رہا مگر اس طویل عرصہ میں آپؐ نے مجھے اُف تک نہ کہا مجھ سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو میں کر نہیں سکتا تھا۔میرے ساتھ خود کام کرتے اگر مجھ سے کوئی کام خراب بھی ہوجاتا تو کبھی غصہ نہ فرماتے اور نہ ہی نفرت سے دیکھتے اور نہ بُرا بھلا کہتے بلکہ مجھے تسلی تشفی سے سمجھا دیتے سخت کلامی سے پیش نہ آتے۔

(بخاری جلد سوم 356حدیث نمبر957)

حضورؐ کا منہ بولا بیٹا زیدؓ تھا آپؐ نہ صرف زیدؓ کو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہؓ سے بھی اپنے بچوں کی طرح بہت پیار کرتے۔حضورؐ اپنے نواسے حسین کو ایک زانو پر بٹھالیتے اور اُسامہ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچے اور فرماتے :اللہ، میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کرنا۔

(صحیح بخاری کتاب المناقب )

آج بھی آپؐ کا اسوہ امید کی کرن ہے

ماضی میں جن مسائل میں عورتیں اور بچے گرفتار تھے فی زمانہ، اسلام کی تعلیم کو پس پشت ڈالنے سے، زیادہ شدید بھیانک گھمبیر اور تباہ کن ہو کر سامنے آچکے ہیں۔ کتنی بھی تحریکیں چلالیں ،نئے نئے نعرے بنالیں ،خود مختاری کے حقوق کے لیے خود کو سڑکوں پر خوار کرلیں۔ تجربہ ہوچکا اصل حل اسلام کے سوا کسی مذہب کے پاس نہیں۔ تاریخ کھنگال لیں کوئی انسان حضرت رسول اکرمﷺ سے زیادہ عورتوں کا محسن نہیں۔ آج سے پندرہ سَو سال پہلے قرآن کی تعلیم سے مسائل حل ہوئے تھے آج بھی یہی ہدایت کا سرچشمہ سیراب کرے گا۔ اللہ تعالیٰ رحمان ہے۔ اس نے عصر حاضر کے انسانوں کو محروم نہیں رکھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اِحیائے اسلام کے لیے تشریف لائے ہیں اور خلفائے کرام کی قیادت میں اسوۂ رسولﷺ پرصدقِ دل سے عمل کرنے والے احمدی مسلمان ہر راہ میں مشعلیں لیے کھڑے ہیں۔ نئی نسلوں کی درست تعلیم و تربیت کرکے اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کی ذمہ داری اب احمدی عورت کے ہاتھ میں ہے۔ زمانے میں امن کے لیے ہر دل میں محمدﷺ کی تصویر بنانی ہوگی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح کھول کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے بارہ میں فرمایا ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں جس طرح تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق تربیت دینے کی طرف توجہ دلائی ہے، اگر عورتیں اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو احمدیت کے اندر بھی ہمیشہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا اور پھر اس کا اثر آپ کے گھروں تک ہی محدود نہیں رہے گا، جماعت کے اندر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا اثر گھروں سے باہر بھی ظاہر ہوگا۔ اس کا اثر جماعت کے دائرہ سے نکل کر معاشرہ پر بھی ظاہر ہو گا اور اس کا اثر گلی گلی اور شہر شہر اور ملک ملک ظاہر ہوگااور وہ انقلاب جو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی جس خوبصورت تعلیم کا علم دے کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے اس تعلیم کودنیا میں پھیلانے اور اسلام کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے میں اور جلد از جلد تمام دنیا کو آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں ہم تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب احمدی عورت اپنی ذمہ داری کو سمجھے، اپنے مقام کو سمجھ لے اور اپنے فرائض کو سمجھ لے اور اس کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔‘‘

(جلسہ سالانہ ہالینڈ خطاب مستورات 3؍جون 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جولائی 2005ء)

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ،اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرماتا رہے۔آپ کی خواہش پر ہم نبیوں کے سردار اپنے محسنﷺ کے احسانات کو یاد کرتے ہوئے آپؐ پرصدق دل سے سَو سَو بار درود وسلام بھیجتے ہیں۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button