سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلاممتفرق مضامین

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا عشق رسولﷺ

(ظہیر احمد طاہر۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ کی قسم! یقینا ًمحمدﷺ جانشین کی مانند ہیں اور آپؐ ہی کے ذریعہ دربارِ شاہی تک رسائی ہوسکتی ہے

میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھناانجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنادیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبت الٰہی کی ایک سوزش پیدا کردیتا ہے

خدا کی قسم وہ ایساپاک وجود ہے جو اہل جہاں کے لیے خدا نما ہے

ازل سے ہمارے آقا ومولاحضرت محمد مصطفیٰﷺ کا اسم مبارک مدح وثناکے قابل ٹھہرایا گیا ہے۔ آسمان پر بھی آپؐ قابل تعریف ہیں اور زمین پر بھی آپ کی مدح وثنا کے ترانے گائے جارہے ہیں۔ آپؐ ان گنت خوبیوں کے مالک اورہر تعریف و توصیف کے مستحق ہیں کیونکہ آپؐ صفات حسنہ کامجموعہ اور حسن واحسان میں بے نظیر ہیں۔ آپ کی ذاتِ اقدس انوار سماوی اور فیوضِ باری کے حصول کا ذریعہ ہے۔ زمین وآسمان کی خلقت سے بھی بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے آپؐ کے نور کو پیدا کیااور آپؐ ہی سب سے پہلے بَلٰیکا نعرہ بلند کرنے والے ہیں۔

دورِ آخرین میں خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی اس طرح ظہور پذیر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے سراج منیرﷺ کے فیض روحانی کو ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے ایک ایسے عاشق صادق کو پیدا کیا جواپنے آقا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی محبت میں فنا ہوکر حقیقی معنوں میں غلام احمد ہوگیا۔ حضور علیہ السلام نے رسول مقبولﷺ کے عشق میں سرشارہوکر عاشقانہ رنگ اختیار کیااور آپؐ کے دین کی حفاظت اور آبیاری کے لیے اپنا سب کچھ فدا کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ آپ اپنی دلی کیفیت کو ایک فارسی شعر میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اندر آن وقتیکہ یاد آید مہمِّ دین مرا

بس فراموشم شود ہر عیش ورنج ہر دو دار

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 29)

اُس وقت جبکہ مجھے دین کی مہم یاد آتی ہے تو دونوں جہان کی خوشیاں اور غم مجھے بالکل بھول جاتے ہیں۔

نیز عرض کرتے ہیں :

در رہ عشق محمدؐ ایں سر و جانم رَود

ایں تمنا ایں دعا ایں در دلم عزم صمیم

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 63)

محمدﷺ کے عشق کی راہ میں میرا سر اور جان قربان ہوجائیں یہی میری تمنا، میری دعا اورمیرا دلی ارادہ ہے۔

کہتے ہیں کہ محبت کی بنیاد دوہی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک حسن دوسری احسان۔ ہادیٔ کامل حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کا بابرکت وجود تو ہرلحاظ سے لائقِ عشق ومحبت ہے کیونکہ ایک طرف آپؐ حسن میں بے مثال ہیں تو دوسری طرف آپؐ کے احسانات عدیم المثال ہیں۔ آنحضورﷺ کے اسی حسن واحسان کو یاد کرتے ہوئے عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے آقا کے حضور عرض کرتے ہیں کہ

یَا شَمْسَ مُلْکِ الْحُسْنِ وَالْاِحْسَانٖ

نَوَّرْتَ وَجْہَ البَرِّ وَالْعُمْرانٖ

اِنِّیْ اَرٰی فِیْ وَجْھِکَ الْمُتَھَلِّلِ

شَاْنًا یَّفُوْقُ شَمَائِلَ الْاِنْسَانٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 590)

اے حسن واحسان کے ملک کے آفتاب!آپؐ نے بیابانوں اور آبادیوں کو اپنے حسن واحسان کے نور سے منور کردیا ہے۔ بے شک میں تیرے درخشاں چہرے میں ایک ایسی شان دیکھ رہا ہوں جو انسانی خصائل پر فوقیت رکھتی ہے۔

پس محبت کی آنکھ نے جب محبوب کے لازوال حسن اور اُس کے ان گنت احسانات کو دیکھا تواُس کا دل بے اختیار اپنے محبوب کی تعریف کی طرف مائل ہوااورجوش محبت سے یوں رطب اللسان ہوا۔

دَر دِلم جوشد ثنائے سَروَرے

آنکہ دَر خُوبی نَدارد ہمسَرے

آنکہ جانَش عاشِق یارِ اَزل

آنکہ رُوحش واصلِ آن دِلبرے

آنکہ دَر برّ و کرم بحرِ عظِیم

آنکہ دَر لُطفِ اتَم یکتا دُرے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 17)

میرے دل میں اس سردار آقاؐ کی تعریف جو ش ماررہی ہے، جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔

وہ جس کی جان خدائے ازل کی عاشق ہے، وہ جس کی رُوح اس دلبر سے واصل ہے۔

وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحرِ عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ کی محبت میں ایسا فدائیانہ رنگ اختیار کیا جو ہر تصنع سے پاک اور ہر دکھاوے سے مبرا ہے۔ آپؑ نے حضورﷺ کی ذات اقدس میں ڈوب کربڑی گہرائی اورمحبت کے عالم میں آپؐ کی زندگی کے ہر پہلوکا بغور جائزہ لیا، اُسے اچھی طرح دیکھا، پرکھا، سمجھا اور پھر دنیا کو یہ بتایا کہ

رہبرِ ما سیّد ما مصطفیٰ است

آنکہ ندیدست نظیرش سروش

(مجموعہ اشتہارات جلددوم صفحہ اوّل)

مصطفیٰ(ﷺ ) ہمارا پیشوا اور سردار ہے جس کا ثانی فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا۔

محمدؐ مہیں نقشِ نُورِ خُداست

کہ ہرگز چنوئے بگِیتی نَخَاست

محمدﷺ خدا تعالیٰ کے نور کا سب سے بڑا نقش ہے، ان جیسا انسان دنیامیں کبھی پیدا نہیں ہوا۔

محبت ایک جذبے کا نام ہے

محبت کسی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک ایساجذبہ ہے جو خود بخود دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔ یعنی محبت کسی انسان کے اختیار کی بات نہیں۔ اپنے محبوب سے حقیقی محبت کرنے والے کسی تصنع اور تکلف سے کام نہیں لیتے بلکہ وہ اس فطری جذبہ کے تحت ایسا کرتے ہیں۔ بعض لوگ محبت کو خیال سے تشبیہ دیتے ہیں تو کوئی اسے انسانی فطرت سے تشبیہ دیتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

محبت معنی و الفاظ میں لائی نہیں جاتی

یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں :

’’محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل وجان ساعی ہوتا اپنے محبوب میں ہوکر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہوجاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویااسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہوکر اور اس کے رنگ میں رنگین ہوکر اور اس کے ساتھ ہوکر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔ ‘‘

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9صفحہ 431)

نقشِ ہستی تری اُلفت سے مٹایا ہم نے

اپنا ہر ذرّہ تری رہ میں اُڑایا ہم نے

محبت الٰہی کےلیے محبت رسولﷺ لازمی ہے

ابتدائے انسانیت ہی سے انسانی صلب میں خالق حقیقی کی تلاش کا مادہ رکھا گیا ہے۔ ہر دَور اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کی متلاشی روحوں کی یہ آرزورہی ہے کہ انہیں اُن کے خالق ومالک کا قرب اور دیدار میسر ہو۔ اسی لیے خدا تعالیٰ نے سلسلۂ انبیاء جاری فرماکر اپنے بندوں کی ہدایت اور رہ نمائی کے سامان پیدافرمائے۔ تخلیق وجہ کائناتؐ کا ظہور ہوا تو یہ اعلان عام کیا گیاکہ

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (آل عمران:32)

تو کہہ دے اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

یعنی اے اللہ تعالیٰ کے عشق ومحبت کا دعویٰ کرنے والو! اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو اور واقعۃ ًمیری محبت حاصل کرنا چاہتے ہواور مجھے پانا اور حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے اِس محبوب کی طرف دیکھو، اُس کی پیروی کرواوراُن راہوں پر چلوجن پر میرا محبوب چلا کرتا تھاکیونکہ یہ میراایسا محبوب ہے جس سے میں بہت پیار کرتا ہوں۔ ایسا پیار جو میں نے ابتدائے آفرینش سے کسی اور سے نہیں کیا۔ جب تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں بھی اپنا پیارا اور محبوب بنالوں گااور نہ صرف یہ کہ پیارا اور محبوب بنائوں گا بلکہ اس محبت کے نتیجہ میں تمہارے گناہ بھی معاف کردوں گا۔ آنحضرتؐ کی اس قوت قدسیہ کا ذکر کرتے ہوئے حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعت آنحضرتﷺ ہے اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہوسکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہوجاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کو زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے دیکھو آگ کیونکر ایک دم میں جلادیتی ہے۔ پس اسی طرح پر جوش نیکی جو محض خدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے کی جاتی ہے وہ گناہ کا خس وخاشاک بھسم کرنے کے لئے آگ کا حکم رکھتی ہے جب ایک انسان سچے دل سے ہمارے نبی پر ایمان لاتا ہے اور آپ کی تمام عظمت اور بزرگی کو مان کر پورے صدق وصفا اور محبت اور اطاعت سے آپ کی پیروی کرتا ہے یہاں تک کہ کامل اطاعت کی وجہ سے فنا کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تب اس تعلق شدید کی وجہ سے جو آپ کے ساتھ ہوجاتا ہے وہ الٰہی نور جو آنحضرتﷺ پر اترتا ہے اس سے یہ شخص بھی حصہ لیتا ہے تب چونکہ ظلمت اور نور کی باہم منافات ہے وہ ظلمت جو اس کے اندر ہے دور ہونی شروع ہوجاتی ہے یہاں تک کہ کوئی حصہ ظلمت کا اس کے اندر باقی نہیں رہتا اور پھر اس نور سے قوت پاکر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں اس سے ظاہر ہوتی ہیں اور اس کے ہر عضو میں سے محبت الٰہی کا نور چمک اٹھتا ہے تب اندرونی ظلمت بکلی دُور ہوجاتی ہے اور علمی رنگ سے بھی اس میں نور پیدا ہوجاتا ہے اور عملی رنگ سے بھی نور پیدا ہوجاتا ہے۔ آخر ان نوروں کے اجتماع سے گناہ کی تاریکی بھی اس کے دل سے کوچ کرتی ہے یہ تو ظاہر ہے کہ نور اور تاریکی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے لہٰذا ایمانی نور اور گناہ کی تاریکی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی اور اگر ایسے شخص سے اتفاقاً کوئی گناہ ظہور میں نہیں آیا تو اس کو اس اتباع سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آئندہ گناہ کی طاقت اُس سے مسلوب ہوجاتی ہے اور نیکی کرنے کی طرف اس کو رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنزجلد 1نمبر 5صفحہ194تا195)

رسول کریمﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔

(صحیح بخاری جلد 1کتاب الایمان، باب حُبُّ الرَّسُوْلِﷺ مِنَ الْاِیْمَانِ حدیث 15)

یعنی تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے باپ اور اس کے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اسے پیارا نہ ہوں۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی زندگی کے ابتدا ہی میں اس اہم راز کو جان لیا تھا کہ محبوب حقیقی کی محبت کا رستہ صرف اور صرف در ِمصطفیٰﷺ سے ہوکر گزرتا ہے۔ اسی لیے آپؑ نے رسول کریمﷺ کی محبت میں فناہوکر محبوبِ ازلی وابدی کی تلاش کا سفر شروع کیا اور رسول خداﷺ کی وساطت سے اورآپ کے بتائے ہوئے رستوں پر چل کر اپنے خالقِ حقیقی کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا۔حضور علیہ السلام اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اِس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرتﷺ کی پیروی کرے۔ چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھناانجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنادیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبت الٰہی کی ایک سوزش پیدا کردیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہوکر خدا کی طرف جُھک جاتا ہے اور اُس کا اُنس وشوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلی اُس پر پڑتی ہے اور اُس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذبات ِنفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اُس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ67تا68)

در دلم جوشد ثنائے سرورے

آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے

آنکہ جانش عاشق یارِ ازل

آنکہ روحش واصل آن دلبرے

آنکہ مجذوب عنایات حق ست

ہمچو طفلے پروریدہ در برے

آنکہ در برّ و کرم بحر عظیم

آنکہ در لطف اتم یکتا دُرے

آنکہ در جود و سخا ابر بہار

آنکہ در فیض و عطا یک خاورے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 17)

میرے دل میں اُس سردارؐ کی تعریف جوش مار رہی ہے جو خوبی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا۔

وہ جس کی جان خدائے ازلی کی عاشق ہے وہ جس کی روح اُس دلبر سے واصل ہے۔

وہ جو خدا کی مہربانیوں سے اُس کی طرف کھینچا گیا ہے اور خدا کی گود میں ایک بچہ کی مانند پلا ہے۔

وہ جو نیکی اور بزرگی میں ایک بحرِ عظیم ہے اور کمال خوبی میں ایک نایاب موتی ہے۔

وہ جو بخشش اور سخاوت میں ابرِ بہار ہے اور فیض و عطا میں ایک سورج ہے۔

آنحضرتﷺ کی بلند شان

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے محبوب رسولﷺ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں ملنے والے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی کس قدر شان بزرگ ہے اور اس آفتاب صداقت کی کیسی اعلیٰ درجہ پر روشن تاثیریں ہیں۔ جس کا اتباع کسی کو مومن کامل بناتا ہے۔ کسی کو عارف کے درجے تک پہنچاتا ہے۔ کسی کو آیت اللہ اور حجت اللہ کا مرتبہ عنایت فرماتا ہے اور محامد ِالہٰیہ کا مورد ٹھہراتا ہے۔ ‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ270تا271حاشیہ در حاشیہ نمبر 1)

آن رخ فرخ کہ یک دیدار او

زشت رو را میکند خوش منظرے

احمدِ آخر زمان کز نور او

شد دل مردم زخور تابان ترے

از بنی آدم فزون تر در جمال

واز لآلے پاک تر در گوہرے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 18)

اُس کا مبارک چہرہ ایسا ہے کہ اُس کا ایک ہی جلوہ بدصورت کو حسین بنا دیتا ہے۔

اس احمدؐ زماں کے نور سے لوگوں کے دل آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئے۔

وہ تمام بنی آدم سے بڑھ کر صاحب جمال ہے اور آب و تاب میں موتیوں سے بھی زیادہ روشن ہے۔

چنانچہ حضور علیہ السلام پر آنحضرتﷺ کی سچے دل سے پیروی اور والہانہ عشق و محبت کے نتیجہ میں محبت الٰہی کی ایک خاص تجلی پڑی تو انوارِ الٰہی کی موسلادھار بارشیں آپؑ پر نازل ہونا شروع ہوگئیں اورخدا تعالیٰ نے اپنی برکات اور نصرتوں کے دروازے آپ پر کھول دیےاورحکمت ومعرفت کو آپؑ کی زبان پر جاری کردیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ان انعامات اور افضال الٰہی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ہمارے نبیﷺ کا دعویٰ آفتاب کی طرح چمک رہا ہے اور آنحضرتﷺ کی جاودانی زندگی پر یہ بھی بڑی ایک بھاری دلیل ہے کہ حضرت ممدوح کا فیض جاودانی جاری ہے اور جو شخص اس زمانہ میں بھی آنحضرتﷺ کی پیروی کرتا ہے وہ بلاشبہ قبر میں سے اٹھایا جاتا ہے اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طورپر بلکہ آثار صحیحہ صادقہ اس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مددیں اور سماوی برکتیں اور روح القدس کی خارق عادت تائیدیں اس کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور وہ تمام دنیاکے انسانوں میں سے ایک متفرد انسان ہوجاتا ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اس سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اور اپنے اسرار خاصہ اس پر ظاہر کرتا ہے اور اپنے حقائق ومعارف کھولتا ہے اور اپنی محبت اور عنایات کے چمکتے ہوئے علامات اس میں نمودار کردیتا ہے اور اپنی نصرتیں اس پر اتارتا ہے اور اپنی برکات اس میں رکھ دیتا ہے اور اپنی ربوبیت کا آئینہ اس کو بنادیتا ہے اس کی زبان پر حکمت جاری ہوتی ہے اور اس کے دل سے نکات لطیفہ کے چشمے نکلتے ہیں اور پوشیدہ بھید اس پر آشکار کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان تجلی اس پر فرماتا ہے اور اس سے نہایت قریب ہوجاتا ہے اور وہ اپنی استجابت دعائوں میں اور اپنی قبولیتوں میں اور فتح ابواب معرفت میں اور انکشاف اسرار غیبیہ میں اور نزول برکات میں سب سے اوپر اور سب پرغالب رہتا ہے چنانچہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ سے مامور ہوکر انہیں امور کی نسبت اور اسی اتمام حجت کی غرض سے کئی ہزار رجسٹری شدہ خط ایشیا اور یورپ اور امریکہ کے نامی مخالفوں کی طرف روانہ کئے تھے تا اگر کسی کا یہ دعویٰ ہوکہ یہ روحانی حیات بجز اتباع خاتم الانبیاء ﷺ کے کسی اور ذریعہ سے بھی مل سکتی ہے تو وہ اس عاجز کا مقابلہ کرے اور اگر یہ نہیں تو طالب حق بن کر یکطرفہ برکات اور آیات اور نشانوں کے مشاہدہ کے لئے حاضر آوے لیکن کسی نے صدق اور نیک نیتی سے اس طرف رخ نہ کیا اور اپنی کنارہ کشی سے ثابت کردیا کہ وہ سب تاریکی میں گرے ہوئے ہیں۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 221تا222)

سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تو خدایا

وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

چنانچہ اس عظیم الشان انعام کے ملنے پر آپؑ اپنے آقاﷺ پر دل وجان سے فدا ہوگئے۔ جیسا کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

ہر تار و پُود من بسرائد بعشق او

از خود تہی و از غمِ آں دلستاں پُرم

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 185)

میں اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے محبوب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے عشق میں مخمورہوں اگر آپؐ سے عشق کرنا کفر ہے تو خدا کی قسم! مَیں سخت کافر ہوں۔ میرا ہر ایک رگ وریشہ آپؐ کے عشق کے راگ گارہا ہے (اس عشق کے نتیجہ میں ) مَیں اپنی تمام خواہشات سے خالی ہوچکا ہوں، مگر رسول اللہﷺ کے غمِ عشق سے میرا کاشانہ دل معمور ہے۔

والہانہ عشق ومحبت

دنیا میں عشق ومحبت کی بے شمار داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ مگرہم دو ہی سچے عاشقوں کو جانتے ہیں، ایک وہ جو اپنے ربّ کے عشق میں کھوکر محمدمصطفیٰﷺ ہوگیا اور دوسرا وہ جو محمد مصطفیٰﷺ کے عشق میں کھو کر غلام احمد ہوگیا۔ حضورعلیہ السلام اپنے محبوبﷺ کی روحانی تاثیرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلال کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم رُوح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 141)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی زندگی کا لمحہ لمحہ، آپ کی تحریروں کی سطر سطر اور آپ کی تقریروں کا لفظ لفظ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کے دل میں شہنشاہ دو عالمﷺ کی بےپناہ محبت ہرلمحہ جوش زن رہتی تھی اوراسی جوش میں وہ ہر وقت اُس عالی جناب کی مدح وتوصیف میں رطب اللسان رہتی تھی۔ رسول کریمﷺ کی ذاتِ اقدس میں جو حسن اور خوبصورتی آپؑ کو نظر آئی کوئی دوسرا وجوداُس کا ثانی نہیں کیونکہ آپؑ نے رسول کریمﷺ کے چہرے میں یارِ ازل کے چہرے کو دیکھ لیا تھا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے عشق الٰہی کی جو آگ اپنے محبوب رسولﷺ کے اعمال و افعال میں دیکھی تھی اُسی آتشِ عشق سے حصہ پانے کے لیے آپ آنحضرتﷺ پر دل و جان سے فداہوگئے۔ نبی کریمﷺ کی شان کے اس پہلو کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

شانِ احمد را کِہ دانَد، جُز خُداوندِ کریم

آنچناں، از خود جُدا شُد، کزمیاں اُفتادمیم

زاں نمط شد محوِ دلبر، کز کمالِ اِتّحاد

پیکرِ اُوشُد سراسر، صُورتِ ربِّ رحیم

(توضیح مرام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 62)

یعنی احمدؐ کی شان کو خداوند کریم کے بغیر کون جان سکتا ہے۔ آپؐ خودی سے اس طرح الگ ہوگئے جس طرح (آپ کے نام احمد کے ) درمیان سے میم گرگیا ہے۔

آپ اپنے محبوب میں اس طرح محو ہوگئے ہیں کہ کمال اتحاد کی وجہ سے آپ کا سراپا ربّ رحیم کی صورت بن گئی ہے۔

پھرفرماتےہیں :

گرچہ مَنسُوبم کُند کَس سُوئے اِلحاد و ضلال

چُوں دلِ احمدؐ نمے بینم دِگر عَرشے عظِیم

جو بات میں بیان کرنے جارہا ہوں اس کے کہنے سے میں رک نہیں سکتا، خواہ کوئی مجھ پر کفرو الحاد کا فتویٰ ہی کیوں نہ لگائے، اگر عرش الٰہی دیکھنا چاہتے ہو تو پھر احمد مجتبیٰﷺ کے دل پر نگاہ کرو، یہ وہی عرش عظیم ہے جہاں خدا جلوہ گر ہے۔

حضور علیہ السلام کے رگ وپےمیں عشق محمدﷺ کی جو پاکیزہ آگ شعلہ زن تھی اُس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ایں آتشم زِ آتشِ مہرِ محمدیؐ ست

ایں آبِ من، ز آبِ زلالِ محمدؐ است

یہ میری آگ محمدؐ کے عشق کی آگ کا ایک حصہ ہے اور میرا پانی محمدؐ کے شیریں مُصفّا پانی سے لیا ہوا ہے۔

(اخبار ریاض ہند امرتسر مورخہ یکم مارچ 1886ء۔ درثمین فارسی صفحہ 145)

عاشق صادق علیہ السلام نے جب رسول اللہﷺ کے عشق میں اپنی ذات کو فنا کردیا تو اس کامل اتحاد کی وجہ سے رسول پاکﷺ کی ہستی کا ایک ایک نقش آپؑ پر واضح اور عیاں ہوگیا اور آپ کو اپنے محبوب کی ہرایک ادا میں، آپﷺ کی زندگی کی ہر راہ میں اور آپؐ کی ہر بات میں خدا ہی خدانظر آنے لگا جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں :

خُدا نگویمش از ترسِ حق مگر بخُدا

خُدا نماست وجُودش برائے عالمیاں

میں خوف خدا کی وجہ سے اپنے محبوب کو خدا تو نہیں کہہ سکتا مگر خدا کی قسم وہ ایساپاک وجود ہے جو اہل جہاں کے لیے خدا نما ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عشق رسولﷺ کے بغیر نہ تو ایمان مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی عبادت الٰہی میں وہ سوزوگداز پیدا ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کردے کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ سے کیے جانے والے سچے عشق اور آپ سے کی جانے والی سچی محبت میں یہ تاثیر ہے کہ وہ دربارِ الٰہی تک رسائی کا موجب بنتا ہے اور انسان خدا تعالیٰ کے پاک اور روشن چہرے کا دیدار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عاشق صادق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام چاہتے ہیں کہ تمام دنیا حضورﷺ کے روحانی کمالات اور آپ کے حسن بے مثال کو جان لے اور وہ آپؑ ہی کی طرح رسول خداﷺ کے پاک چہرے پر فدا ہوکر اللہ تعالیٰ کے دربار میں جگہ بنالے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ واحمد مجتبیٰﷺ ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی …سو آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی اور جو شخص پیروی کرے گا وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اُس کو ملے گی کہ کوئی بات اُس کے آگے انہونی نہیں رہے گی۔ زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اُس کا خدا ہوگا اور جھوٹے خدا سب اُس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے وہ ہر ایک جگہ مبارک ہوگا اور الٰہی قوتیں اُس کے ساتھ ہوں گی۔ ‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ82تا83)

کرد ثابت بر جہان عجز بتان

وانمودہ زور آن یک قادرے

آں ترحمہا کہ خلق ازوے بدید

کس ندیدہ در جہان از مادرے

روشنی از وے بہر قومے رسید

نورِ او رخشید بر ہر کشورے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 18)

اُس نے دنیا پر بتوں کا عجز ثابت کر دیا اور خدائے واحد کی طاقت کھول کر دکھا دی۔ وہ مہربانیاں جو مخلوق نے اُس سے دیکھیں۔ وہ کسی نے اپنی ماں میں بھی نہیں پائیں۔ اُس سے ہر قوم کو روشنی پہنچی۔ اُس کا نور ہر ملک پر چمکا۔

ایک عربی شعر میں فرماتے ہیں:

وَاللّٰہِ اِنَّ مُحَمَّدًا کَرِدَافَۃٍ

وَ بِہ الوُصُوْلُ بِسُدَّۃِ السُّلْطَانِ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 593)

اللہ تعالیٰ کی قسم! یقیناً محمدﷺ جانشین کی مانند ہیں اور آپؐ ہی کے ذریعہ دربارِ شاہی تک رسائی ہوسکتی ہے۔

پھر اسی بات کوایک فارسی شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں:

آنکہ مِہرش مے رَسَانَد تا سَما

مے کُنَد چُوں ماہِ تاباں در صفا

وہ جس کی محبت آسمان پر پہنچادیتی ہے اور صفائی میں چمکتے چاند کی مانند بنادیتی ہے۔

جس طرح چاند میں یہ خوبی ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کرکے اُسے آگے بکھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح حضور علیہ السلام نے نبی کریمﷺ کے مہردرخشاں سے برسنے والی انوار الٰہی کی کرنوں کونہایت صفائی سے اپنے اندر جذب کرکے چار دانگ عالم میں بکھیر نا شروع کردیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

عشق والو! عشق میں پیدا کرو اتنا اثر

حُسن خود مجبور ہو تم کو بُلانے کے لئے

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کی عربی عبارت میں فرماتے ہیں :

ترجمہ:’’اور ایک رات مَیں کچھ لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور مَیں سوگیا۔ اس وقت مَیں نے آنحضرتﷺ کو دیکھا۔ آپؐ کا چہرہ بدرِ تام کی طرح درخشاں تھا۔ آپؐ میرے قریب ہوئے اور مَیں نے ایسا محسوس کیا کہ آپؐ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ آپؐ نے مجھ سے معانقہ کیا اور مَیں نے دیکھا کہ آپؐ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہوئیں اور میرے اندر داخل ہوگئیں۔ مَیں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ مَیں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوں اور اس معانقہ کے بعد نہ ہی مَیں نے یہ محسوس کیا کہ آپؐ مجھ سے الگ ہوئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر الہامِ الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے اور میرے ربّ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:

یَااَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ ‘‘

(ترجمہ ازتذکرہ صفحہ 34تا35)

اسی حقیقت کو ایک عربی شعر میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَاللّٰہِ اِنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ جَمَالَہٗ

بِعُیُوْنِ جِسْمِیْ قَاعِدًا بِمَکَانِیْ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 593)

بخدا! میں نے آپؐ کے جمال کو اپنی جسمانی آنکھوں سے اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔

حضور علیہ السلام اپنے فارسی کلام میں اپنے محبوبﷺ کے حضور عرض کرتے ہیں :

یاد کن وقتیکہ در کشفم نمودی شکل خویش

یاد کن ہم وقت دیگر کآمدی مشتاق وار

یاد کن وقتے چو بنمودی بہ بیداری مرا

آن جمالے آن رخے آن صورتے رشک بہار

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 28)

(اے میرے حبیبؐ ) وہ وقت یاد کر جب تو نے کشف میں مجھے اپنی صورت دکھائی تھی اور ایک اور موقع بھی یاد کر جب تو میرے پاس مشتاقانہ تشریف لایا تھا۔

وہ وقت یاد کر جب بیداری میں تونے مجھے اپنا جمال دکھایا تھا، وہ چہرہ، وہ صورت جس پر موسم بہار بھی رشک کرتا ہے۔

پس نورِ مصطفیٰﷺ کابار بار حضورعلیہ السلام پر یوں وا ہوناتھا کہ آپ دل وجان سے اپنے محبوبﷺ پر فدا ہوکر جوشِ محبت اور وفورِ عشق کے رنگ میں نغمہ سرا ہوتے ہوئے عرض کرتے ہیں :

یا نبی اللہ نثارِ رُوئے محبوب تَوام

وقفِ راہت کردَہ اَم این سَر کہ بردوش ست بار

تابمن نورِ رسولِ پاکؐ را بنمودہ اند

عشقِ او در دل ہمی جوشد چو آب از آبشار

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ26تا27)

اے اللہ کے نبی! مَیں آپؐ کے پیارے مکھڑے پرقربان جائوں، میرا سر آپ کے رستہ پر رکھا ہے، ہاں وہی سر جو میرے کندھوں پر ایک بوجھ کی طرح ہے۔

جب سے مجھے آپؐ کا نورِ جمال دکھایا گیا ہے، اُس وقت سے آپ کا عشق میرے دل میں اس طرح جوش ماررہا ہے جیسے آبشار کا پانی جوش سے گرتا ہے۔

جوشِ عشق

جب کوئی انسان کسی کے عشق میں پوری طرح فنا ہوجاتا ہے تووہ اپنے محبوب کی راہ میں ملنے والے ہر دکھ اور تکلیف کو بشاشت ِقلبی سے برداشت کرتا اور اپنی جان تک اُس کی راہ میں فداکرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضورعلیہ السلام جیسا عاشق صادق بھی اپنے محبوب پر فداہونے کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے تا کہ جب اور جس وقت موقع ملے اپنی جان اپنے محبوب پر فدا کردے۔

تا مرا دادند از حسنش خبر

شد دلم ازعشق او زیر وزبر

منکہ می بینم رُخِ آن دلبرے

جاں فشانم گردہددل دیگرے

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 97)

جب سے مجھے اُس کے حسن کی خبر دی گئی ہے، میرا دل اُس کے عشق میں بے قرار رہتا ہے۔

مَیں جو اس دلبر کا چہرہ دیکھ رہا ہوں اگر کوئی اسے اپنا دل نذرانہ دے تو مَیں اس پر اپنی جاں نثار کروں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام عشق رسولﷺ میں سب عاشقوں سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے بار بار اپنے محبوب کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میرے محبوب خدا تعالیٰ سے تیرے لافانی عشق کو دیکھنے کے بعد اب میرے قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے بلکہ اگر اس راہ میں میری جان بھی جاتی ہے تو مجھے اُس کی ہرگز پرواہ نہیں۔ آپؑ اپنے محبوب کے حضور عرض کرتے ہیں:

در کُوئے تو اگر سرِ عشاق را زنند

اوّل کسے کہ لافِ تعشق زندمنم

اے میرے محبوبؐ! اگر تیرے کوچے میں عاشقوں کے سر قلم کئے جائیں تو پہلا شخص مَیں ہوں گا جو وہاں عشق کا نعرہ بلند کرے گا۔

پھر اسی نظم میں حضورعلیہ السلام نے رسول کریمﷺ کی راہ میں جاںنثاری اور فداکاری کے اس جذبہ کو ایک اور رنگ میں اس طرح بیان کیا ہے

تیغ گر بارد بکُوئے آن نگار

آن منم کاوّل کند جان را نثار

اگر میرے محبوب ( محمد مصطفیﷺ ) کی گلی میں تلوار چلے تو اپنی جان نثار کرنے والا مَیں پہلا شخص ہوں گا۔

سو جاننا چاہیے کہ یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو کہا اُس پر عمل کرکے دکھادیا۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کے دین کی آبیاری کرتے ہوئے حضورعلیہ السلام کے خلاف مخالفتوں کے بے شمار طوفان اُٹھے، عداوتوں کے بڑے بڑے سیلاب اُمڈے، حوادث کی تیز رَو آندھیاں چلیں اور بار بار چلیں، آپ پر مصائب وآلام کے بڑے بڑے پہاڑ ٹوٹے مگر آپ کے پائے ثبات میں ایک ذرہ بھر لغزش نہ آئی بلکہ آپؑ نے اپنے محبوبﷺ کی خاطر ان تمام طوفانوں اور آفات ومصائب کے زلازل کو بڑی خوشی اور خوش دلی سے قبول کیا اور عشقِ محمدﷺ میں آنے والے ان حوادث کی ذرہ برابر پرواہ نہ کی بلکہ یہ نعرۂ حق آشنا بلند کیاکہ

سَرے دارم فِدائے خاکِ احمد

دِلَم ہر وقت قُربانِ محمدؐ

بگیسوئے رسول اللہ کہ ہستم

نثارِ رُوئے تابانِ محمدؐ

دریں رہ گر کشندم ور بسوزند

نتابم رُو زِ ایوانِ محمدؐ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 649)

میرا سر احمد(ﷺ )کی خاک پر نثارہے اور میرا دل ہروقت محمد(ﷺ ) پر قربان رہتا ہے۔

رسول اللہ (ﷺ ) کی زلفوں کی قسم کہ میں محمد(ﷺ)کے نورانی چہرے پر فدا ہوں۔

اس راہ میں اگر مجھے قتل کردیا جائے یا جلا دیا جاوے تو پھر بھی میں محمد (ﷺ )کی بارگاہ سے منہ نہیں پھیروں گا۔

محبوب کےلیےبے پناہ غیرت

فی زمانہ جو فسق وفجور برپا ہے اور امن وسلامتی کا نام ونشان مٹاجاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خدا تعالیٰ سے دوری اور عشق رسول ِعربیﷺ کی کمی ہے۔ حضور علیہ السلام کو اپنے آقا ومولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ سے جو بےپناہ محبت تھی یہ اسی بے پناہ محبت کا نتیجہ تھا کہ آپ اپنے محبوب آقاﷺ کی عزت وعظمت اور بلند شان کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جب کورچشم اور دریدہ دہن پادریوں نے اپنی ازلی شقاوت و بغض کے نتیجہ میں حضرت رسول پاکﷺ کی شانِ اقدس میں ہرزہ سرائیوں اورہرزہ درائیوں کا سلسلہ شروع کیا تو اُن کے اس رویے نے حضور علیہ السلام کے جگر کو پاش پاش کر دیا اور حضورﷺ کی ذات اقدس سے بے پناہ محبت کے سبب آپ پر رنج ومصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آپ نے اُن کی اس مذموم حرکت اور کذب وافترا کو اپنے لیے انتہائی غم ومحن کی صورت جانا اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ کی قسم اگر میرے سب لڑکے بچے اور پوتے میرے انصار اور خدام میرے سامنے قتل کردیئے جاتے اورمیرے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیئے جاتے اور میری آنکھوں کی پتلیاں نکال دی جاتیں اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کردیا جاتا تو یہ سب کچھ مجھ پر اُن کے اس توہین آمیز استہزاء سے زیادہ شاق نہ گزرتا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ترجمہ از عربی عبارت بحوالہ شرح القصیدہ صفحہ 34۔ نظارت نشرواشاعت قادیان مطبوعہ 2000ء )

حضورعلیہ السلام اپنی کتاب پیغام صلح میں فرماتے ہیں :

’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں۔ ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیا بانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔ ‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 459)

محبوب کے رنگ میں رنگین

محبت جب اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو محبت کرنے والا اپنے محبوب کی ہر ادااپناکراُس کے تمام اخلاق وشمائل میں رنگین ہونا شروع ہوجاتاہے تاکہ اپنے محبوب کی تمام صفات کو اپنے اندر جذب کرکے اُس کاکامل نمونہ بن سکے جب یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو محب اور محبوب کے درمیان سے دوئی کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور وہ دونوں آپس میں کا مل اتحاد کرلیتے ہیں تب محب اپنی تمام خواہشوں اور آرزوئوں سے الگ ہوکر اپنے وجود تک کو مٹادیتاہے اور اس کی الگ سے کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ حضورعلیہ السلام اپنے پیارے محبوب حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے حضور میں عرض کرتے ہیں :

محو روئے اوشد است ایں روئے من

بوئے اُو آید زِبام و کوئے من

بس کہ من در عشق او ہستم نہان

من ہمانم، من ہمانم، من ہمان

جانِ من از جانِ او یابد غذا

از گریبانم عیان شد آن ذکا

احمد اندر جانِ احمد شد پدید

اسم من گردید آں اسمِ وحید

( سراج منیر، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 97)

میرا چہرہ اس کے چہرہ میں محو اور گم ہوگیا اور میرے مکان اور کوچہ سے اس کی خوشبو آرہی ہے۔

ازبسکہ میں اس کے عشق میں غائب ہوں، میں وہی ہوں، میں وہی ہوں، میں وہی ہوں۔

میری رُوح اس کی رُوح سے غذا حاصل کرتی ہے اور میرے گریبان سے وہی سورج نکل آیا ہے۔

احمد کی جان کے اندر احمد ظاہر ہوگیا، اس لئے میرا وہی نام ہوگیا جو اس لاثانی انسان کا نام ہے۔

اس حالت ِفدائیت کے بعد محب اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے محبوب کی یاد میں بسرکرنے لگتاہے اور اُس کی نگاہیں درِ محبوب پر مرکوز ہوجاتی ہیں کہ کب کوئی حکم آئے اور اس کی فوری تعمیل کی جائے۔ تب محبوب کا ذکراور اُس کی مدح ہی محب کی زندگی کا ماحصل اور محبوب کی یاد ہی اُس کی سب سے بڑی خوشی اور تمنا بن جاتی ہے :

مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِی

لَمْ أَخْلُ فِی لحْظً وَلَا فِی آنٖ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ 594)

اے میری خوشی اور مسرت کے گلشن! میں تو آپ کے ذکر اور یاد سے کسی لحظہ اور لمحہ بھی خالی نہیں ہوتا۔

وَ وَاللّٰہِ لَوْ لَا حُبُّ وَجْہِ مُحَمَّدٍؐ

لَمَا کَانَ لِیْ حَوْلٌ لِاَمْدَحَ اَحْمَداؐ

(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 95)

اور خدا کی قسم! اگر مجھے محمدؐ کے چہرے کی محبت نہ ہوتی تو مجھے کوئی طاقت نہ ہوتی کہ احمد کی مدح کرسکوں۔

پس اس عشق ومحبت کی داستان جتنی دلچسپ، ایمان افروز اور حقیقت پر مبنی ہے یہ اُسی قدر طویل بھی ہے۔ جسے کسی ایک مضمون میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یوں کہا جائے کہ عشق و محبت کا یہ سلسلہ دائمی ہے تو یہ بات ہرگز بے جا نہیں۔ کیونکہ یہ اِسی عشق اور والہانہ محبت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو رسول کریمﷺ کے لائے ہوئے دین کی آبیاری اور بندگان خدا کی اصلاح کے لیے چن لیا۔ پس جب تک زمین و آسماں باقی ہیں اور جب تک انسانیت کا سلسلہ جاری ہے اُس وقت تک اس عشق ومحبت کے سچے قصے بھی جاری وساری رہیں گے۔

اے خداوندم بنام مصطفیٰ

کش شدے در ہر مقامے ناصرے

دست من گیر از رہ لطف و کرم

در مہمم باش یارو یاورے

تکیہ بر زورِ تو دارم گرچہ من

ہمچو خاکم بلکہ زان ہم کمترے

(براہین احمدیہ حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 23)

اے میرے خدا! مصطفٰیؐ کے نام پر جس کا تو ہرجگہ مددگار رہا ہے۔

اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑاور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا۔

میں تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگرچہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر۔

فی زمانہ جماعت احمدیہ کاہر فرد گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیٰﷺ کے عاشق صادق کےہاتھ کو بڑی مضبوطی اور طاقت کے ساتھ پکڑا اور آپ کے تمام کاموں میں آپ کا دوست اور مددگار بن کر آپ کی تائید ونصرت اورآپ کی رہ نمائی فرمائی اور آپ کی وفات کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا سلسلہ جاری کرتے ہوئے آپ کے کام کو ساری دنیا تک وسیع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت ہرلمحہ، ہر دن اورہروقت جماعت احمدیہ اور خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ کا ساتھ دے رہی ہیں جبکہ دنیا بھر میں محمد رسول اللہﷺ کا زندگی بخش پیغام سعید فطرت روحوں کو سیراب کر رہاہے۔

یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا

فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَبَعْثٍ ثَانٍ

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 593)

اے میرے ربّ! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ۔ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button