حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

رسول کریم ﷺ ایک انسان کی حیثیت میں

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

31؍ مئی 1929ء کو الفضل قادیان نے ’خاتم النبیینؐ نمبر‘ شائع کیا۔ اس خصوصی اشاعت کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم مبارک سے درج ذیل مضمون تحریر فرمایا اور بحیثیت انسان اسوۂ رسولﷺ کو اجاگر کیا۔ حضورؓ نے اس مضمون میں وضاحت فرمائی کہ کامل نبی کا کامل انسان ہونا ضروری ہے۔ جب تک انسانیت کے تمام لطیف خواص کسی انسان میں صحیح طور پر نشوونما نہ پائیں وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ رسول کریمﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جس طرح آپؐ کامل نبی تھے اسی طرح آپؐ ایک کامل انسان بھی تھے۔

قارئین کی خدمت میں سیرت النبی ﷺ کے حوالہ سے اس خصوصی اشاعت میں اس مضمون کا متن بطور تبرک پیش ہے۔ (ادارہ)

نبوت کمالات انسانی میں سےا یک کمال ہے

بظاہر یہ ایک عجیب بات معلوم دیتی ہے کہ وہ شخص جسے انبیاء کے سردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اسے ایک انسان کی حیثیت میں بھی پیش کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔ لیکن حق یہ ہے کہ باوجود نبوت کے دعویٰ کے کوئی شخص اس بات سے بالا نہیں ہو سکتا کہ اس کی انسانیت پر بحث کی جائے کیونکہ نبوت کمالات انسانی میں سے ایک کمال ہے اور انسانیت ہی کے کمالات کے ظہور کے لئے اس کا وجود پیدا کیا گیا ہے۔

میرے نزدیک یوں سمجھنا چاہئے کہ نبوت ایک بارش ہے جو فطرت انسانی کی مخفی طاقتوں کو ابھار کر باہر نکال دیتی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ جس زمین پر وہ بارش خداتعالیٰ کے انتخاب کے ماتحت نازل ہو گی وہ زمین اس بارش کےا ثر کو قبول کرنے کی سب سے زیادہ قابلیت رکھتی ہو گی اور انسانی کمالات کو سب سے زیادہ ظاہر کرے گی۔

کامل نبی کامل انسان ہوتا ہے

اوپر کی بات کو پوری طرح واضح کرنے کے لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک انسانی فطرت گندی نہیں ہے جس کی اصلاح نبوت کرتی ہے بلکہ اسلام کے نزدیک فطرت انسانی ان تمام قابلیتوں کو بیج کے طور پر اپنے اندر رکھتی ہے جن کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے ہاں وہ اسی طرح بیرونی مدد کی محتاج ہے جس طرح آنکھ نور کی اور زمین بارش کی۔ پس نبوت کا یہ کام نہیں کہ وہ فطرت انسانی کے بعض خواص کو کاٹے بلکہ اس کا یہ کام ہے کہ وہ تمام خواص انسانی کو صحیح طور پر ابھارے۔ پس کامل نبی کا کامل انسان ہونا ضروری ہے جب تک انسانیت کےتمام لطیف خواص کسی انسان میں صحیح طور پر نشوونما نہ پائیں وہ نبی نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ خواص اپنے اپنےد ائرہ میں کمال کو نہ پہنچ جائیں وہ شخص نبی نہیں کہلا سکتا۔

خاص دائرہ میں خاص قابلیت

یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ بعض لوگ کسی خاص بات میں غیرمعمولی قابلیت رکھتے ہیں اور دنیا ان کی لیاقت کو دیکھ کر حیران ہو جاتی ہےلیکن آخر کار وہ پاگل اور مجنون ہو کر مرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص دائرہ میں قابلیت کا ظہور انسانی کمال پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف بعض خواص انسانی کے ایک محدود دائرہ میں حد سے زیادہ ترقی کر جانے پر دلالت کرتا ہے۔ یہ امر بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جس کےاندر عشق کا مادہ ایسا غالب آگیا ہو کہ دوسرے تمام جذبات پر وہ غالب ہو گیا ہو، بجائے کسی انسان پر عاشق ہونے کے خداتعالیٰ ہی کی محبت کی طرف متوجہ ہو جائے اور دنیا و مافیھا کو بھلا دے۔ مگر ایسا شخص کبھی بھی ان کمالات روحانیہ کو حاصل نہ کر سکے گا جو دوسرے لوگ حاصل کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اس کا جذبۂ محبت بگڑی ہوئی نفسی حالت کانتیجہ ہے تندرست اور صحیح نشوونما کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس شخص کی حالت بالکل اس بیج کی سی ہو گی جو نہایت طاقتور زمین میں بویا جاتا ہے اور اس قدر جلد نشوونما پا کر بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کی بالیں دانوں سے محروم رہ جاتی ہیں وہ بھوسہ تو بہت کچھ دے دیتا ہے مگر دانہ اس سے بہت کم نکلتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو شخص تمام انسانی کمالات کو ظاہر کرنے والا ہو گا اس کی نشوونما تمام خواص فطرت پر مشتمل ہو گی اور ان کے اندر ایک خاص تناسب ہو گا۔ ہر ایک خاصہ فطرت اس نسبت سے ترقی کرے گا جس نسبت سے کہ اسے ترقی کرنی چاہئے۔ مثلاً سزا دینے کی طاقت بھی اس کی نشوونما پائے گی اور رحم کی بھی اور عفو کی بھی اور برداشت کی بھی اور موازنہ کی بھی کہ یہ پانچوں جذبات جرائم کے متعلق فیصلہ کرتے وقت ضروری ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جذبہ بھی اپنی حد مناسب سے کم ہو جائے تو انسانیت ناقص ہو جائے گی اور کمالات انسانیہ کا ظہور ناممکن رہ جائے گا۔

چونکہ یہ ایک علمی مسئلہ ہے اور علم النفس کے باریک مطالعہ کے بغیر اس کا سمجھ میں آنا بغیر تفصیل کے مشکل ہے اور وہ چند کالم جن میں مَیں نے اس مضمون کو ختم کرنا ہے اس کے لئے کافی نہیں اس لئے میں ایک دو مثالوں کے ذریعہ سے اس امر پر روشنی ڈال کر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔

وفاداری کا جذبہ

مثال کے طور پر میں وفاداری کے جذبہ کو لیتا ہوں ہر شخص اسے پسند کرتا ہے لیکن یہی جذبہ اگر بدصحبت کے متعلق استعمال ہوتو کیسا سخت مضر ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ دو شخص ایک جرم میں شریک ہوتے ہیں ایک کی ضمیر ایک وقت میں اسے ملامت کرنے لگتی ہے لیکن اس کی وفاداری کی روح جو موازنہ نیک و بد کی طاقت سے بڑھی ہوئی تھی، اس کی اندرونی آواز کو خاموش کرادیتی ہے اور اس کے کان میں کہہ دیتی ہے کہ بےوفا نہیں ہونا چاہئے جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب مجھے اپنے دوست کا ساتھ دینا چاہئے۔

اولاد کی محبت کا جذبہ

یا مثلاً اولاد کی محبت ایک اچھا جذبہ ہے اور بقائے عالم کے زبردست اسباب میں سے ہے لیکن اگر کسی شخص کےا ندر یہی جذبہ ترقی کر جائے اور باقی جذبات کو دبا دے تو یہی ایک گناہ بن جاتا ہے اور اولاد کو بھی گناہ کا عادی بنا دیتا ہے۔ غرض کسی ایک یا بعض خواص فطرت انسانی کا کمال، حقیقی کمال نہیں ہوتا بلکہ بالکل ممکن ہے کہ بعض حالتوں میں وہ ایک خطرناک نقص کی صورت بن جائے۔ اور نہ ایسا کمال بنی نوع انسان کے لئے نمونہ بن سکتا ہے کیونکہ نمونہ وہی بن سکتا ہے جو طبعی ترقی کا مظہر ہو۔ غیر طبعی ترقی دوسرے کے لیے نمونہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کا حاصل کرنا دوسروں کے لئے ناممکن ہوتا ہےا ورنمونہ کے لئے شرط ہے کہ اس کی نقل کرنا ہماری طاقت میں ہو۔

رسول کریم ؐکا رتبہ بحیثیت انسان

اس تمہید کے بعد میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اس امر کے متعلق اپنی تحقیق کو پیش کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ بحیثیت انسان کے کیا رتبہ رکھتے تھے۔

انسانی تقاضے نبوت کے منافی نہیں

جو کچھ میں اوپر لکھ آیا ہوں اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ (1) نبوت کمالات انسانیہ کے صحیح ظہور کا نمونہ پیش کرنے کے لئے آتی ہے۔ (2) پس کامل نبی کے لئے کامل انسان ہونا ضروری ہے۔ (3) اگر کوئی شخص بعض خواص انسانی کو ان کی انتہائی صورت میں دکھاتا ہے تو یہ اس کے کامل انسان ہونے کی علامت نہیں بلکہ بسا اوقات یہ امر اس کے نظام عصبی کی ظاہر یا مخفی خرابی کی علامت ہو سکتا ہے ان امور کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ جو لوگ انسانی تقاضوں کے پورا کرنے کو نبوت کے منافی سمجھتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ نبوت ایک ذہنی کیفیت ہے اور انسانی تقاضوں کا صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنا اس کیفیت کا عملی ظہور ہے جس کے بغیر نمونہ کامل نہیں ہو سکتا۔ نبی ہماری فطرت کو بدلنے کے لئے نہیں آتا بلکہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح اور متناسب طور پر پورا کرنے کے لئے ہمیں عملی سبق دینے کے لئے آتا ہے۔ پس فطرت کے تقاضوں کا کلی ترک اگر بعض دوسرے شخصوں کے لئے جائز بھی ہو سکتا ہے تو نبی کے لئے نہیں کیونکہ وہ نمونہ ہے امت کے لئے اور جس قدر تقاضوں کو وہ ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اپنے نمونہ کو نامکمل کر دیتا ہے۔

انسانوں کے لئے کامل نمونہ

رسول کریم ﷺ کو اس روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ جس طرح کامل نبی تھے کامل انسان بھی تھے اور آپ کے اہم کاموں نے آپ کو انسانی جذبات سے غافل نہیں کر دیا تھا۔ بلکہ ان کے ساتھ ہی ساتھ آپ انسانی تقاضوں کو بھی ایسے رنگ میں پورا کر رہے تھے کہ تمام انسانوں کے لئے ایک کامل نمونہ قائم ہو رہا تھا۔

اچھا کھانا

فطرت انسانی کے کمالات سے ناواقف لوگوں میں یہ عام خیال ہے کہ اچھا کھانا ایک حیوانی فعل ہے اور اعلیٰ روحانی مقامات کے منافی ہے لیکن وہ فطرت انسانی جسے خدا نے پیدا کیا ہے اس کے بالکل برخلاف ہے۔ کھانوں کا انسانی اخلاق سے ایک گہرا تعلق ہے اور مختلف کھانے اپنے نباتی احساسات کو انسانی جسم میں جا کر اخلاقی میلانوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کھانے میں میانہ روی کی تو بے شک تعلیم دیتے تھے لیکن عمدہ کھانے سے آپ نے کبھی نہیں روکا۔ بلکہ جب کبھی کسی نے عمدہ کھانا دعوت میں پیش کیا آپ نے اسے استعمال فرمایا۔ ہاں یہ شرط لگا دی کہ کھانے کے متعلق ان امور کو مدنظر رکھو۔ (1)ایسی طرح کھانے کی چیزوں کو ضائع نہ کرو کہ غرباء کو تکلیف ہو۔ (2) جس وقت ملک میں قحط ہو اور لوگ تکلیف میں ہوں غذا سادہ کر دو تاکہ تمہارے بہت سے کھانوں میں غرباء کا ایک کھانا بھی ضائع نہ ہو جائے۔ (3) سوائے حقیقی ضرورت کے کھانوں کا ذخیرہ جمع نہ کرو تا غرباء اپنے حصہ سے محروم نہ رہ جائیں۔

خوش طبعی

انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا خوش طبعی بھی ہے ہنسی انسان کے طبعی جذبات میں سے ہے۔ ایک اچھا انسان جو اپنے ہم جنسوں کے لئے وبال جان نہ بننا چاہتا ہو۔ اس کے لئے خوش مذاق ہونا بھی شرط ہے۔ لیکن دنیا کو یہ ایک وہم ہے کہ جو شخص خدارسیدہ ہو اس کے لئے نہایت سنجیدہ مزاج اور خاموش رہنے والا ہونا ضروری ہے مسکراہٹ اس کے درجہ کو گراتی ہے اور ہنسی اس کےتقویٰ کو برباد کر دیتی ہے لیکن انسانیت پر غور کرنے والا انسان جانتا ہے کہ ہنسی اور خوش طبعی کو انسانی تمدن سے خارج کر کے وہ ایک ایسا ڈھانچہ رہ جاتا ہے جو تمام خوش نمائیوں سے معرّا ہو۔ رسول کریم ﷺ باوجود اپنی تمام سنجیدگیوں کے اور عارضی خوشیوں سے بالا ہونے کے اور باوجود اپنے اس عظیم الشان دعویٰ کے جو ان کے درجہ کو معمولی انسان سے غیرمحدود طور پر اونچا کر دیتا تھا اس طبعی جذبہ کو دبانے کی کبھی کوشش نہ کرتے تھے۔ آپ کے درجہ کی بلندی اور رفعت میں سے پھوٹ پھوٹ کر خوش طبعی کا انسانی جذبہ ایسے خوشنما طور پر نکل رہا تھا کہ دیکھنے والے کو حیرت ہوتی تھی وہ جو ایک تند اور سخت مزاج حاکم کو دیکھنے کی امید رکھتا تھا، ایک خوش مذاق اور مسکراتے ہوئے چہرہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا۔ مجلس اصحاب میں بیٹھے جہاں اعلیٰ تعلیمات کا درس دیا جاتا تھا لوگوں کی کوفت کو دور کرنے اور ملال کو کم کرنے کے لئے لطائف بھی بیان ہوتے چلے جاتے تھے کبھی اپنے اصحاب سے پاکیزہ ہنسی بھی ہوتی جاتی تھی۔ بچے آجاتے تو ان کو بہلانے کے لئے کوئی چڑیا چڑے کا قصہ بھی بیان ہو جاتا تھا۔ کبھی بچہ کو خوش کرنے کے لئے اس کے منہ پر پانی کا باریک چھینٹا دیا جاتا تو اہل خانہ کی دلجوئی کے لئے عرب کی مروّجہ کہانیوں میں سے کوئی کہانی بھی سنا دی جاتی تھی مگر ہاں ان سب امور کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی جاتی تھی کہ (1)ہنسی اس رنگ میں نہ کرو کہ دوسرے کی تحقیر یا دل شکنی ہو۔ (2)ہنسی کو پیشہ یا عادت نہ بناؤ اور اس غرض سے ہنسی نہ کرو کہ لوگ ہنسیں بلکہ جس وقت طبیعت خودبخود اپنے آپ کو پرکیف رنگ میں ظاہر کرنا چاہے اسے ایسا کرنے دو۔ (3) ہنسی اور مذاق میں جھوٹ نہ ہو بلکہ صداقت کا پہلو محفوظ ہو، تا ادنیٰ طبعی جذبات کے ظہور کے وقت اعلیٰ طبعی جذبات کا خون نہ ہوتا چلا جائے۔

صفائی پسندی

انسانی تقاضوں میں سے ایک تقاضا صفائی پسندی کا ہے جسم کو صاف رکھنا منہ کو صاف رکھنا۔ کپڑوں کو صاف رکھنا اور ایسی اشیاء کا استعمال کرنا جو ناک کی قوت کو صدمہ نہ پہنچانے والی ہوں بلکہ اس کے لئے موجب راحت ہوں۔ اس تقاضا کو بھی لوگوں نے غلطی سے تقویٰ اور نیکی کی اعلیٰ راہوں پر چلنے والوں کے طریقے کے خلاف سمجھاہے اور ایک ایسی راہ اختیار کر لی ہے کہ یا تو خداتعالیٰ کی پیدا کردہ طیب اشیاء فضول جائیں یا خدا کے بندے جو ان طیب اشیاء کو استعمال کریں گنہگار ٹھہریں۔ رسول کریم ﷺ نے اس بناوٹی نیکی اور جھوٹے تقویٰ کی چادر کو بھی چاک کر دیا اور حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاک رہنے کو پسند کرتا ہے۔ آپ جہاں رہتے اکثر غسل فرماتے۔ کئی امور کے ساتھ غسل کو آپ نے واجب قرار دے دیا۔ چونکہ انسان اپنے گھر کے اشغال کی وجہ سے صفائی میں سستی کر بیٹھتا ہے اس لئے آپ نے خداتعالیٰ کے حکم سے میاں بیوی کے تعلقات کے ساتھ غسل کو واجب قرار دیا۔ پانچوں نمازوں سے پہلے آپ ان اعضا کو دھوتے جو عام طور پر گرد و غبار کا محل بنتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس امر پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیتے۔ کپڑوں کی صفائی کو آپ پسند فرماتے۔ جمعہ کے دن دھلے ہوئے کپڑے پہن کر آنے کا حکم دیتے اور خوشبو کو خود بھی پسند فرماتے اور اجتماع کے مواقع کے لئے خوشبو کا لگانا پسند فرماتے۔ جہاں اجتماع ہونا ہو چونکہ مختلف قسم کے لوگ جمع ہوتے ہیں متعدی بیماریوں کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ ہوتا، آپ وہاں خوشبودار مصالحہ جات اور ان جگہوں کو صاف رکھنے کا حکم دیتے۔ بدبو دار اشیاء سے پرہیز فرماتے اور دوسروں کو بھی اس سے روکتے کہ بدبودار اشیاء کھا کر اجتماع کی جگہوں میں آئیں۔ غرض جسم کی صفائی، لباس کی پاکیزگی اور ناک کے احساس کا آپ پورا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم د یتے۔ ہاں یہ ضرور فرماتے کہ جسم کی صفائی میں اس قدر منہمک نہ ہو جاؤ کہ روح کی صفائی کا خیال ہی نہ رہے اور لباس کی پاکیزگی کا اس قدر خیال نہ رکھو کہ ملک و ملت کی خدمت سے محروم ہو جاؤ اور غریب لوگوں کی صحبت سے احتراز کرنے لگو اور کھانے میں اس قدر احتیاط نہ کرو کہ ضروری غذائیں ترک ہو جائیں ہاں یہ خیال رکھو کہ اہل مجلس کو تکلیف نہ ہوتا کہ اچھے شہری بنو اور لوگ تمہاری صحبت کو ناگوار نہ سمجھیں بلکہ اسے پسند کریں اور اس کی جستجو کریں لوگوں نے کہا کہ صفائی اور خوشبو سے بچو کہ وہ جسم کو پاک مگر دل کا ناپاک کرتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ

حُبِّبَ اِلَیَّ …… الطِّیْبُ اور اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ

مجھے خوشبو کی محبت بخشی گئی ہے اور یہ کہ خداتعالیٰ ظاہری اور باطنی صفائی رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

مرد و عورت کا تعلق

عورت و مرد کا تعلق بھی ایک ایسا طبعی تقاضا ہے کہ دنیا کا تمدن اس پر مبنی ہے اور وہ گویا دنیا کی ترقی کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہے مگر عجیب بات ہے کہ دنیا کے ایک کثیر حصہ نے اسے بھی روحانیات کے خلاف سمجھ رکھا ہے۔ وہ عورت جو نسل انسانی کے چلانے کی ذمہ وار ہے جس کے بغیر انسان ایک کٹا ہوا جسم معلوم ہوتا ہے جو کسی کام کا نہیں جو مرد کے لئے بطور لباس کے ہے اور جس کے لئے مرد بطور لباس کے ہے اس عورت کو ہاں اس عورت کو ایک ناپاک شے قرار دیا جاتا تھا اور خدا رسیدہ انسان کے لئے جائے اجتناب سمجھا جاتا تھا اور اس طرح گویا پاکیزگی کو انسانیت کے مخالف قرار دے کر خود پاکیزگی کے درخت پر ہی تبر رکھا جاتا تھا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ انسان ہی حقیقی پاکیزگی کا برتن ہے اور برتن کے بغیر لطیف اشیاء محفوظ رہ ہی نہیں سکتیں۔ رسول کریم ﷺ نے خدا کو پاکر انسان کو نہیں بھلایا۔ آپ نے شادیاں کیں اور اپنے ملک کے فائدہ اور مسلمانوں کے فائدہ اور بعض دفعہ خود بیویوں کے فائدہ کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور نہ صرف شادیاں کیں بلکہ جذبات محبت سے اپنی بیویوں کو محروم نہیں کیا۔ اور ان سے اس طرح معاملہ کیا کہ ان میں سے ہر اک نے یہ سمجھا کہ گویا آپ اسی کے لئے ہیں آپ خدا کے تھے اور خدا آپ کا تھا۔ مگر آپ نے کہیں یہ ظاہر نہیں کیا کہ گویا خداتعالیٰ نے آپ کو دنیا سے نرالا پا کر چن لیا بلکہ آپؐ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ بہتر انسان کو اپنے لئے چنتا ہے چونکہ آپ بہتر انسان بن گئے اس لئے خداتعالیٰ نے آپ کو اختیار کر لیا۔

بیوی کی محبت خدا کی رحمت ہے

دنیا نے کہا کہ تم اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کوچھوڑ دو اہلی تعلقات کی بنیاد کو اکھاڑ کر پھینک دو۔ تب تم خدا سے ملو گے مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے کہا نہیں بلکہ تم اپنے اہل ہی کے ذریعہ سے خدا سے مل سکتے ہو دنیا کا ہر ایک ذرہ خدا کی پیدائش ہے اور ہر اک ذرہ تم کوخداتعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور جس چیز کو اس نے جس قدر خوبصورت بنایا ہے اسی قدر واضح طور پر وہ خداتعالیٰ کے رستہ کے لئے دلیل ہے اور خداتعالیٰ کی اعلیٰ مخلوقات میں سے عورتیں بھی ہیں اسی وجہ سے

حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُم النِّسَاءُ

مجھے دنیوی چیزوں میں سے بیویوں کی محبت خداتعالیٰ کی طرف سے بطور تحفہ کے ملی ہے اور

خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ کُمْ

تم میں سے بہتر لوگ وہی ہو سکتے ہیں جو اپنی بیویوں اور بچوں سے زیادہ نیک سلوک کریں۔ اوران کے احساسات کا خیال رکھیں۔ کیا ہی عجیب فرق ہے دنیا نے کہا کہ خدا نے عورت کو ایک خوبصورت سانپ بنا کر پیدا کیا ہے اور انسان کو ہوشیار کیا ہے کہ اس کی خوبصورتی کی طرف نہ دیکھے بلکہ اس کے زہر سے بچے۔ محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیویوں سے محبت کروں اور جو رحمتیں اس نے مجھ پر کی ہیں ان میں سے ایک رحمت یہ ہے کہ میرے دل میں اپنی بیویوں کی محبت پیدا کر دی گئی ہے لوگوں نے کہا کہ عورتوں سے دور بھاگو اور ان کے فریبوں سے بچو۔ مگر محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورتوں سے محبت کرو اور ان سے محبت کر کے خداتعالیٰ تک پہنچو کیونکہ جس طرح خداتعالیٰ نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت بنائی ہے اسی طرح بیوی کی دعا کو بھی اپنے قرب کا ذریعہ بنایا ہے۔ پس اس کےد ل کو خوش کرو خداتعالیٰ تم سے خوش ہو گا۔

بیوی کے احساسات کا خیال رکھو

آپ عملاً اس حکم پر عمل کرتے اپنی بیویوں کے سب احساسات کا خیال رکھتے۔ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ ان سے پیار کرتے ان کی دلدہی کے لئے باریک در باریک راہیں تلاش کرتے ایک بیوی نے ایک گلاس سے پانی پیا تو اسی جگہ پر منہ رکھ کر خود پانی پی لیا۔ ایک بیوی کو جو یہود میں سے تھی دوسری نے غصہ میں یہودن کہہ دیا تو آپؐ نے فرمایا کیوں نہیں کہتیں کہ میں یہودن نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی اولاد ہوں۔ اگر کوئی بیمار ہوتی تو آپ اس کی بیماری کو اپنی بیماری سمجھتے اور اس سے بھی زیادہ اس کے درد کو محسوس کرتے ان کے جذبات کا خیال رکھتے اور انہیں اپنے عزیزوں سے جدا نہ کرتے بلکہ تعلق بڑھانے میں مدد کرتے۔ اپنی ایک بیوی ام حبیبہؓ کے گھر میں آپ داخل ہوئے وہ اپنے بھائی معاویہؓ کو جو بعد میں بادشاہ اسلام ہوئے پیار کر رہی تھیں۔ آپ نے اس امر کو ناپسند نہیں فرمایا بلکہ محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور بہن بھائی کی محبت کو طبعی تقاضوں کا ایک خوبصورت جلوہ تصور فرماتے ہوئے پاس بیٹھ گئے اور پوچھا ام حبیبہ! کیا معاویہ تمہیں پیارا ہے ام حبیبہ نے جواب دیا۔ ہاں فرمایا اگر یہ تمہیں پیارا ہے تو مجھے بھی پیارا ہے۔ بیوی کا دل اس جواب کو سن کر کس قدر خوشی سے اچھلا ہو گا کہ میرے رشتہ داروں کو یہ غیریت کی نگاہ سے نہیں بلکہ میری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ جو مجھے جس قدر پیارا ہو اسی قدر ان کو بھی پیارا ہوتا ہے گویا وہی نظارہ ہے کہ

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی

مگر باوجود انسانیت کے اس کامل اور اتم نظارہ کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کلی طور پر اور سر سے پا تک اپنے خدا کے تھے۔ اور اپنی بیویوں کو بھی اسی کا اور خالص اسی کا بنانا چاہتے تھے۔

بقائے نسل کا جذبہ

انسانی فطرت بقائے نسل کے جذبہ سے نہایت ہی گہرے طور پر رنگین ہے جونہی ایک عورت کامل جوان ہوتی ہے اولاد کی خواہش خواہ الفاظ میں پیدا نہ ہو مگر تاثیرات کے ذریعہ سے ظاہر ہونے لگتی ہے صحیح القویٰ مرد خواہ کسی قدر ہی آزاد کیوں نہ ہو اپنی علیحدگی کی گھڑیوں میں اس کی طرف ایک زبردست رغبت پاتا ہے مگر باوجود اس کے بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ خدا رسیدوں کو اولاد سے کیا تعلق۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر اولاد سے ان کو تعلق نہیں تو اولاد کی تربیت جو نسل انسانی کا ایک اہم ترین فرض ہے اس میں دنیا کا رہنما کون ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد ہوئی اور آپ نے اس اولاد پر فخر کیا اس کی محبت کو چھپایا نہیں اسے خدا کی ایک رحمت قرار دیا۔ اولاد سے بے تعلقی کا اظہار نہیں کیا اس کی طرف توجہ کی اور اس کی تربیت کا خیال رکھا۔ اس سے بے اعتنائی نہیں ظاہر کی بلکہ اس سے محبت کرنے کو خدا تعالیٰ کے مقدس فرائض میں سے قرار دیا جب وہ نا سمجھ تھی اس کی پرورش کی جب وہ چھوٹی تھی اس کی تربیت کی جب وہ بڑی ہوئی اسے تعلیم دلائی اور جب وہ اپنے گھربار کی مالک ہوئی اس کا ادب کیا اور اپنی محبت کا مقر اسے بنایا۔ ایک دفعہ آپ کا ایک نواسہ بیمار ہوا اس کے دیکھنے کیلئے آپ کی صاحبزادی نے آپ کو بلایا اس کی حالت اس وقت سخت تکلیف کی تھی اور زندگی کی آخری گھڑیوں کو نہایت اضطراب اور دکھ کے ساتھ وہ طے کر رہا تھا۔ آپ نے اسے ہاتھوں میں لیا اور اس کے اضطراب کو دیکھا آنکھیں فرط محبت اور وفوررحمت سے پرنم ہو گئیں۔ ایک شخص جو اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ نبی کے لئے یہی ضروری نہیں کہ ہمیں خدا کی باتیں سکھائے بلکہ اس کا یہ بھی کام ہے کہ وہ ہمارے لئے کامل نمونہ ہو انسانیت کا، مکمل نقشہ ہو بشریت کا۔ اس امر کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور بے اختیار ہو کر بولا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو ہمیں صبر کا سبق دیتے ہیں اور آج خود آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا تمہارا دل شاید رحم سے خالی ہوگا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحم دل بنایا ہے۔ کیا لطیف سبق ایک ہی فقرہ میں دے دیا کہ اولاد کی محبت اور ان کی تکلیف کا احساس تو انسانیت کے اعلیٰ جذبات میں سے ہے خدا کا نبی ان جذبات سے خالی کیونکر ہو سکتا ہے وہ دوسروں کے لئے اس میں بھی نمونہ ہے جس طرح اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں نمونہ ہے۔

اولاد کی تکریم

آپ کی اولاد میں سے آخر عمر میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ رہ گئی تھیں جب کبھی وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ کھڑے ہو جاتے بوسہ دیتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ آپ کی اولاد کھیلتی ہوئی پاس آ جاتی تو گود میں اٹھا لیتے پیار کرتے اور ان کی عمر کے مطابق نصیحت کرتے اور اخلاق کا کوئی عمدہ سبق دیتے۔ غرض آپ نے اس جذبہ انسانیت میں بھی ایک اعلیٰ نمونہ ہمارے لئے قائم کیا ہے۔ ہاں اولاد کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ یہ تعلیم بھی دیتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کہ اولاد کی محبت انسان کو اس کے ان فرائض سے غافل نہ کر دے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہیں اور نہ خود اولاد کی اصل ذمہ داری کو جو اعلیٰ پرورش اعلیٰ تربیت اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ رہنمائی پر مشتمل ہے اس کی نظروں سے اوجھل کر دے۔

صحت کی درستی اور ورزش کا خیال

انسانی روح اور جسم کا ایسا جوڑ ہے کہ ایک کی خرابی دوسرے پر اثر ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں بھی ہمارے لئے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے اور نیکی اور تقویٰ کو صحت کی درستی اور ورزش کا خیال رکھنے کے خلاف نہیں قرار دیا ہے تاریخ بتاتی ہے کہ آپ اکثر شہر سے باہر باغات میں جا کر بیٹھتے تھے۔ گھوڑے کی سواری کرتے تھے اپنے صحابہ کو کھیلوں وغیرہ میں مشغول دیکھ کر بجائے ان پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے ان کی ہمت بڑھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے اپنے احباب کو تیر اندازی کا مقابلہ کرتے دیکھا تو خود بھی اس مقابلہ میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ مرد تو مرد رہے آپؐ عورتوں کو بھی ورزش کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔ چنانچہ کئی دفعہ آپ اپنی بیویوں کے ساتھ مقابلہ پر دوڑے اور اس طرح عملاً عورتوں اور مردوں کو ورزش جسمانی کی تحریک کی۔ ہاں آپ اس امر کا خیال ضرور رکھتے تھے کہ انسان کھیل ہی کی طرف راغب نہ ہو جائے اور اس امر کی تعلیم دیتے تھے کہ ورزش مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے نہ کہ خود مقصد۔

دنیا کے لئے اسوہ حسنہ

غرض انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلیٰ نمونہ دکھا کر اور بے نظیر مثال قائم کر کے اس امر کو ثابت کر دیا کہ آپ کی زندگی دنیا کے لئے ایک اسوہ حسنہ تھی کیونکہ اگر آپ صرف خدا تعالیٰ کی عبادت یا اعلیٰ فلسفیانہ تعلیمات کی اشاعت کی طرف متوجہ ہوتے تو ہر اک سمجھ دار انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر معمولی دل و دماغ کے انسان تھے اور ان جذبات سے عاری تھے جو عام انسان کے دل میں موجزن رہتے ہیں اور اس وجہ سے باوجود اپنے اعلیٰ تقویٰ کے وہ بنی نوع انسان کے لئے نمونہ نہیں بن سکتے لیکن آپ کی ساری زندگی اس شبہ کا ازالہ کرتی ہے۔ آپ ہماری ہی طرح کے جذبات رکھتے تھے اور ہماری ہی طرح کی ذمہ واریاں۔ اور پھر آپ ان ذمہ داریوں سے بزدلانہ طور پر آنکھیں نہیں بند کر لیتے تھے بلکہ آپ ان ذمہ داریوں کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور ان کے ادا کرنے کو اپنا مذہبی فرض سمجھتے تھے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے تھے کہ ہر اک انسان محسوس کرتا تھا اور کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ اس نمونہ کی تقلید سے وہ کسی عذر اور بہانے سے بچ نہیں سکتا یہاں ایک ایسا شخص ہے جو اسی کی طرح کے جذبات اور اسی کی طرح کے احساسات لے کر پیدا ہوا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات کو کچلتا نہیں بلکہ انہیں ایک بہادر آدمی کی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ایسا انسان ہے جس کے راستہ میں وہ سب مشکلات ہیں جو دوسرے انسانوں کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں اور وہ ان سب مشکلات کو دور کرتا ہوا اپنا بوجھ خود اٹھائے ہوئے تقویٰ اور طہارت کے اس پل پر سے جو بال سے بھی زیادہ باریک ہے نڈر اور بے خوف گذر جاتا ہے اور ایک آنچ ہاں ایک خفیف سی آنچ بھی اسے نہیں آتی۔ ایک لمحہ کے لئے بھی اس کا قدم نہیں لڑکھڑاتا۔ پس جب وہ انسان ہمارے جیسا انسان اس کام کو جسے لوگ ناممکن خیال کرتے تھے اور کرتے ہیں اس خوبی سے سرانجام دے سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کام کو نہ کر سکیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف کلام الہی میں اشارہ

خدا تعالیٰ کس لطیف پیرایہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ فرماتا ہے کہ

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِندَ رَبِّهِمْ

کیا لوگوں کو اس پر تعجب آتا ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر یہ کہتے ہوئے وحی نازل کی کہ لوگوں کو ہوشیار کر اور ان لوگوں کو جو مان لیں خوشخبری دے کہ ان کے رب کے حضور میں انہیں ایک ہمیشہ قائم رہنے والا درجہ حاصل ہے محمد رسول اللہ ہم میں سے ایک انسان ہے اسی لئے اس کے نقش قدم پر چلنے میں ہمیں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ جو امر اس کے لئے ممکن ہے وہ دوسرے انسانوں کے لئے بھی ممکن ہے وہ ایسا نبی نہیں جو انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے مقام کو حاصل کرتا ہے بلکہ ایسا نبی ہے جو انسانیت کو کامل کرتے ہوئے اور اس کے دروازہ میں سے گزرتے ہوئے نبی بنتا ہے اس کا ایک ہاتھ خدا کی طرف ہے جو اس کا پیدا کرنے والا اور اسے ترقیات عطا فرمانے والا ہے اور وہ اس کی برکتوں اور اس کے فضلوں کو مانگتا ہے اور دوسرا ہاتھ اپنے ہم جنسوں اور بھائیوں کی طرف ہے جنہیں وہ ہمت کرنے اور اپنے پیچھے پیچھے چلے آنے اور خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کا وعدہ دے رہا ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ

کَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی

کا مظہر ہے۔ خدا کی لاکھوں کروڑوں برکتیں نازل ہوں تجھ پر اے کامل انسان جس نے ہمیں شش و پنج کی زندگی سے نجات دلا کر اس یقین پر قائم کیا کہ انسانیت تقویٰ کے خلاف نہیں بلکہ وہ تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ اور خدا تعالیٰ کے وصال کا ایک موجب ہے۔ تیرا درجہ بلند ہو کہ تو جس قدر خدا کے قریب ہوا، اسی قدر ہمارے نزدیک ہوا۔ یقیناً تو ہمارا ہے اور ہم تیرے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button