اختلافی مسائل

کیا واقعی بزرگانِ اُمّت مسلمہ کا ہر قسم کی نبوت کے ختم ہونے پر اجماع ہے؟؟ (قسط اوّل)

ہر قسم کی نبّوت ختم ہونے کا عقیدہ رکھنے والے مخالفین جماعت احمدیہ مسلمہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پچھلی چودہ صدیوں کے تمام علماء اور بزرگان اُمّت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی اکرمﷺ کے بعد ہر قسم کی نبوت ختم ہو چکی ہے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ جہاں ایک طرف بفضلہ تعالیٰ قرآن و حدیث کے ذریعہ یہ ثابت کرچکی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ذات بابرکات میں شریعت والی نبوّت اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے گویا حضورﷺ کے بعد کسی شرعی نبی کی ضرورت باقی نہیں، بالفاظ دگر شرعی نبوت ختم ہوچکی ہے جبکہ شریعت کے بغیر نبوّت جاری ہے وہاں غیراحمدی علماء کے مزعومہ دعویٰ اجماع کو بھی بزرگانِ اُمّت کے متعدد حوالوں سے بحمد اللہ توڑ چکی ہے۔

اس تحریر میں قریباً تمام ہی امت مسلمہ کی جانب سے معتبر اور مستند جانے والے عالمِ دین اور صوفی بزرگ حضرت محی الدین ابن عربیؒ کی کتاب فتوحات مکیہ سے چند حوالہ جات پیش کیے جارہے ہیں جن سے صراحتاًاور وضاحتاً یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے وجودِ بوجود کے بعد شرعی نبوّت ختم ہو چکی ہے جبکہ غیرتشریعی نبوّت جاری ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک صرف قرآن و سُنّت ہی حُجّت ہیں اور انہی دو بھاری چیزوں کو، جن کا ذکر نبی اکرمﷺ نے اپنے خطبہ حجّۃُ الوداع میں فرمایا، اُمّت کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔

تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا مَسَکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہِ

(مؤطا امام مالک۔ باب النھی عن القول بالقدر)

یعنی میں تمہارے اندر دو باتیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے جڑے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اُس کے نبیؐ کی سُنّت۔ علماء و بزرگانِ اُمّت کے اقوال جماعتِ احمدیہ کی تائید میں جابجا پائے جاتے ہیں۔ سرِ دست ابن عربیؒ کے بعض حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں تاکہ مخالفین جماعت کے دعویٰ اجماع بر ختم نبوّت کو غلط ثابت کیا جاسکے۔

ابن عربی (1165-1240ء) دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علماء اور علوم كا بحربےكنار ہیں۔ اِن کا پورا نام محمد بن علی بن محمد ابن العربی الطائی الحاتمی الاندلسی تھا۔ اسلامی تصوف میں آپ كو ‘‘شیخ اکبر’’ کے نام سے یاد كیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ تمام مشائخ آپ كے اس مقام پر تمكین كے قائل ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ جن میں فصوص الحكم اور الفتوحات المکیۃ (4000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المكيۃ 560 ابواب پر مشتمل ہے اور کتب تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ ذیل میں فتوحات المکیۃ اور فصوص الحکم سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ غیر تشریعی نبوت کے جاری رہنے کے قائل تھے اور اپنے اس عقیدہ کو انہوں نے محض ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ جابجا اپنی ان دونوں کتب میں بیان فرمایا ہے۔

شریعت کے بغیر رسالت و نبوت جاری ہے

‘‘النبوۃ والرسالۃ قد ارتفعت في الشاھد في الدنیا، فلا یکون بعد رسول اللّٰہﷺ في أمتہ نبي یشرع اللّٰہ لہ خلاف شرع محمدﷺ و لا رسول و ما منع المرتبۃ و لا حجرھا من حیث لا تشریع…فعلمنا بقولہﷺ ‘‘إِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِيْ وَ لَا رَسُوْل’’ و أن النبوۃ قد انقطعت و الرسالۃ إنما یرید بھا التشریع۔ ’’

(الفتوحات المکیۃ۔ المجلد الثانی صفحہ 247۔ في المعارف۔ الباب التاسع و الستون في معرفۃ أسرار الصلاۃ و عمومھا)

اس زمانہ میں نبوت و رسالت دنیا سے اٹھا لی گئی ہے۔ پس اب رسول اللہﷺ کے بعد آپ کی امت میں ایسا کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا جسے اللہ محمدﷺ کی شریعت کے خلاف شریعت عطا کرے۔ لیکن شریعت کے بغیر مرتبہ اور مقام منع نہیں ہے…پس آپﷺ کے قول سےکہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ہے، ہم یہ جانتے ہیں کہ نبوت و رسالت کے منقطع ہونے سے ان کی مراد شریعت والی نبوت و رسالت ہے۔

(جلد 2صفحہ 247)

‘‘فان النبوۃ التی انْقطعتْ بوجوْد رسوْل اللّٰہﷺ انما ھی نبوۃ التشْریْع لا مقامھا فلا شرْع یکوْن ناسخا لشرْعہﷺ ولا یزید فیْ حکْمہ شرْعا اٰخروھٰذا معْنٰی قوْلہٖﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قدانْقطعتْ فلا رسول بعدی ولا نبی ای لا نبی یکون علٰی شرع یخالف شرْعی بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی و لا رسول أی لا رسول بعدي إلی أحد من خلق اللّٰہ بشرع یدعوھم إلیْہ فھذا ھو الذي أنقطع و سد لا مقام النبوۃ۔ ’’

(الفتوحات المکّیۃ جلد 3صفحہ 6 الباب الثالث والسبعون: فی معرفۃ عدد ما یحصل من الأسرار للمشاھد عند المقابلۃ والانحراف)

وہ نبوت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے منقطع ہوئی ہے وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام نبوت۔ پس اب کوئی شرع نہ ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرع کی ناسخ ہو اور نہ آپ کی شرع میں کوئی نیا حکم بڑھانے والی شرع ہو گی اور یہی معنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا نہ نبی۔ یعنی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ ہے کہ اب ایسا نبی کوئی نہیں ہو گا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا۔ اور نہ کوئی رسول یعنی میرے بعد خلق اللہ میں سے کوئی ایسا رسول نہیں ہوگا جواُن کو کسی اور شریعت کی طرف بلائے۔ پس یہ ہے وہ جو منقطع ہوا ہے اور اس کا دروازہ بند ہے نہ کہ مقام ِ نبوّت۔ (جلد 3صفحہ 6)

‘‘و ختم الأمم بأمۃ محمدﷺ و جعلھم خیر أمۃ أخرجت للناس، و ختم بمحمدﷺ جمیع الرسل علیھم السلام و ختم بشرعہ جمیع الشرائع فلا رسول بعدہ یشرع و لا شریعۃ بعد شریعتہ تنزل من عند اللّٰہ’’

(المجلد السابع۔ في ھجیرات الأقطاب و مقاماتھم المحمدیہ۔ الباب الثاني و الستون و أربعمائۃ۔ صفحہ 111)

محمدﷺ کی امت کے ذریعہ تمام امتیں ختم کردی گئیں اور اسے لوگوں کے لئے نکالی جانے والی بہترین امت بنایا گیا۔ اور محمدﷺ کے ذریعہ تمام رسولوں کو ختم کردیا گیا اور آپﷺ کی شریعت کے ذریعہ تمام شریعتوں کو ختم کردیا گیا۔ پس اب آپﷺ کے بعد کوئی صاحب شریعت رسول نہیں ہوگا اور آپﷺ کی شریعت کے بعد اللہ کی طرف سے کوئی شریعت نازل نہیں کی جائے گی۔

(جلد 7صفحہ111)

شریعت کے بغیر نبوت قیامت تک جاری

‘‘فالنبوۃ ساریۃ الٰی یوم الْقیامۃ فی الخلق وان کان التشریع قد انقطع فالتشریع جزْء ٌ منْ اجزاء النبوۃ۔ ’’

(فتوحات مکیہ المجلد الثالث صفحہ 135 الباب الثالث والسبعون: فی معرفۃ عدد ما یحصل من الأسرار للمشاھد عند المقابلۃ والانحراف)

نبوت مخلوق میں قیامت تک جاری ہے اگرچہ شریعت کا لانا منقطع ہو گیا۔ پس شریعت کا لانا نبو ت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔

‘‘و أما نبوۃ التشریع و الرسالۃ فمنقطعہ۔ و في محمدﷺ قد انقطعت۔ فلا نبی بعدہ یعنی مشرِعًا او مشرِعًا لہ، ولا رسول و ھو المشرع…إلا ان اللّٰہ لطف بعبادہ فأبقی لھم النبوۃ العامۃ التی لا تشریع فیھا۔ ’’

(فصوص الحکم۔ صفحہ 134تا135)

جہاں تک تشریعی نبوت و رسالت کا تعلق ہے پس وہ تو منقطع ہوچکی ہے اور یہ محمدﷺ کی ذات میں منقطع ہوئی ہے۔ پس اب کوئی صاحب شریعت نبی اور رسول نہیں ہوگا…سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے ایسی نبوت عامہ باقی رکھی ہے جس میں شریعت نہیں ہے۔

حدیث لا نبی بعدی کا حقیقی مطلب

‘‘فما ارْتفعت النبوۃ بالکلیۃ ولھذا قلنا انما ارتفعت نبوۃ التشریع فھذا معنی لا نبی بعدہ…فعلمنا ان قولہ: لا نبیّ بعدہ أی لا مشرع خاصۃ لا أنہ لا یکون بعدہ نبیّ، فھذا مثل قولہ: إذا ھلک کسریٰ فلا کسری بعدہ، و إذا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ، و لم یکن کسری و قیصر إلا ملک الروم و الفرس و ما زال الملک من الروم و لکن ارتفع ھذا الاسم مع وجود الملک فیھم و تسمّی ملکھم باسم الآخر بعد ھلاک قیصر و کسریٰ، کذلک اسم النبیّ زال بعد رسول اللّٰہﷺ فإنہ زال التشریع المنزّل من عنداللّٰہ، بالوحی بعدہ، فلا یشرع احد بعدہ بشرعا۔ ’’

(فتوحات مکیہ جلد 3صفحہ 88 الباب الثالث والسبعون: فی معرفۃ عدد ما یحصل من الأسرار للمشاھد عند المقابلۃ والانحراف)

نبوت کلی طور پر بند نہیں ہوئی اس لئے ہم نے کہا صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے پس لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے یہی معنی ہیں…پس ہم نے ان کے اس قول کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں، سے جانا کہ شریعت خاصہ والاکوئی نبی نہیں نہ یہ کہ ان کے بعد کوئی بھی نبی نہیں ہوگا۔ اور یہ ان کے قول کی مثل ہے کہ جب کسریٰ ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہوگا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ پھر روم اور فارس میں بادشاہ تو ہوئے لیکن ان سے یہ نام اٹھا لیا گیا اور انہیں دوسرے نام سے موسوم کیا جانے لگا۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کے بعد اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ نازل کردہ شریعت والے نبی آنا بند ہوگئے۔ پس اب ان کی شریعت کے بعد کوئی شریعت نہیں۔

(جلد 3صفحہ 88)

پس جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا، حضرت الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ کے ان متعدد اقتباسات سے جو ان کی کتب الفتوحات المکیۃ اور فصوص الحکم میں جابجا بیان کیے گئے ہیں، یہ بات واضح طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ اُن کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذات اقدس سے اور آپﷺ کی بعثت کے ساتھ تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے جبکہ آپﷺ کی اُمّت میں آپﷺ کی متابعت میں غیرتشریعی نبوت جاری ہے اور یہی آپﷺ کے قول ‘‘لَا نَبِیَّ بَعْدِيْ’’ کا مطلب اور مفہوم ہے۔ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ!

(مرسلہ : انصر رضا ۔ کینیڈا )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button