متفرق مضامین

اکتوبر 1924ء۔ دارالتبلیغ ایران و روس کے بعض حالات

مولوی ظہور حسین صاحب پر روسی حکومت کے دردناک مظالم۔ ایک سرفروش عقیدت کے جادہ استقلال کی داستان

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 12؍جولائی 1924ء کو حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لیے روانہ فرمایا۔ آپ کے ہم راہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر تھے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت 16؍ اکتوبر1924ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد میں پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے تہران (دارالحکومت ایران) میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دارالتبلیغ قائم کیا۔

حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے۔ مگر اخراجات یہاں آکر ختم ہو گئے۔ پیچھے کوئی جائیداد تھی نہیں۔ مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو دی نہیں جاتی تھی۔ اس لئے آخر عمر میں بعض اوقات اپنے زائد کپڑے فروخت کرکے گزارہ کرتے تھے۔ اور جیسا کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے آپ معمولی سی صف اور نہایت مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے۔ یہاں تک نوبت آجاتی کہ کپڑے دھونے کے لئے خرچ باقی نہ رہتا۔ بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنا عہد نبھایا اور اپنی بے نفس خدمات سے باقاعدہ جماعت قائم کر دی۔ 22؍فروری 1928ء کو تہران میں انتقال فرما گئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کی وفات پر فرمایا:

’’شہزادہ عبدالمجید صاحب افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے۔ آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے ۔میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا۔ انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا۔ رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا وہ ان کے پاس تھا۔ اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جاؤں گا۔ اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے۔ مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے۔ ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی۔ مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نہ معلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے پھر مجھے اتفاقاً پتہ لگا۔ ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا۔ اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا اس وقت پوچھ لیا جاتاکہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں۔ پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی۔ وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں۔ ابھی پرسوں ترسوں اطلاع ملی ہے کہ آپ یکم رمضان (1346ھ) کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا۔ آخری دن بہت تیز بخار ہو گیا۔ جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو۔ دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے۔ ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے۔ سحری کے وقت آپ نے ایک دو دفعہ پانی مانگا تیماردار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے۔ جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوب انصاریؓ دفن ہوئے۔ اسی طرح یہ ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ23؍مارچ 1928ء )

(حضرت شاہزادہ صاحب کی تیمارداری اور تجہیز و تکفین کرنے والے محمد خان صاحب گجراتی (متوطن پنجن کسانہ تحصیل کھاریاں ) تھے۔ )

حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب تہران کے جنوبی طرف شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں دفن کئے گئے۔ 1953ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد یہ قبرستان ہموار کرکے اس پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں اور اس کا ظاہری نشان بھی مٹ گیا۔

حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحبؓ کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین ایران تشریف لے گئے۔

(1) حضرت میر مہدی حسین صاحب (2) حضرت بابو فقیر علی صاحب (3) شیخ عبدالواحد صاحب (4) مولوی صدر الدین صاحب (5) مولوی عبدالخالق صاحب۔

اول الذکر دونوں بزرگ آنریری مبلغ تھے اور مؤخر الذکر تحریک جدید کے مبلغ جو 1945ءسے 1955ءکے عرصہ میں بالترتیب ایران گئے اور مصروف تبلیغ رہے۔

دارالتبلیغ ایران کی طرف سے فارسی لٹریچربھی شائع ہوا۔

’’فلسفہ اصول اسلام‘‘۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کا ترجمہ (از حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسمل و چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات) ترجمہ براہین احمدیہ جلد اول۔ (از مولوی صدر دین صاحب فاضل) ’’گلدستہ بہار‘‘۔ (حضرت مسیح موعودؑ کے کلام فارسی و عربی کا انتخاب۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل) ’’حقیقت اسلام‘‘(ترجمہ لیکچر حضرت مسیح موعودؑ جلسہ 1906ء۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل) ’’پیغام احمدیت‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا لیکچر۔ مترجم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل) ’’شمشیر براں ‘‘۔ ’’افضل الانبیاء‘‘۔ ’’نعمت الہام دباب و بہا‘‘۔ ’’اولین مسجد اسلامی درلندن‘‘(تالیف مولوی صدر الدین صاحب فاضل)

(شمشیر براں اور نعمت الہام دباب و بہا: یہ دونوں کتابیں ردبہائیت میں ہیں جن کو ایران کے علماء و فضلا ءنے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ آقائی عبدالحسین آیثی (سابق مبلغ بہائیاں ) آقائی عطاء اللہ شہاب پور (انجمن تبلیغات اسلامی کے بانی اور رسالہ نور دانش کے) آقائی حسن نیکو (سابق مبلغ بہائیاں ) اور شیخ مصطفیٰ رہنما صاحب (ایڈیٹر رسالہ حیات مسلمین (تہران) نے ان پر عمدہ تبصرہ لکھے جو دنیائے اسلام۔ نور دانش۔ آئین اسلام اور اصلاحات ایران’آئین برادری‘حیات مسلمین وغیرہ ایرانی اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل 30؍مئی1956ء)

حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء اور دوسرے مصنفین کا لٹریچر تہران کے ’’کتاب خانہ ملی‘‘(پبلک لائبریری) ’’کتاب خانہ شوری ملی‘‘(قومی اسمبلی کی لائبریری) ’’دانش گاہ تہران‘‘(یونیورسٹی) اور ’’دانشکدہ ادبیات‘‘(آرٹس کالج) میں موجود ہے اور ایران کے مذہبی حلقے خصوصاً عیسائیت اور بہائیت کے رد کے لئے جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑی دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اسلام کی خدمت قرار دیتے ہیں۔

مبلغ احمدیت مولوی ظہورحسین صاحب پر روسی حکومت کے دردناک مظالم

بخارا کا تبلیغی وفد (جو مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین خان صاحب پر مشتمل تھا) 16؍ اکتوبر 1924ء کو ایران کے شہر مشہد میں پہنچا۔ یہاں مولوی ظہور حسین صاحب تپ محرقہ میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے مگر مولوی محمد امین خان صاحب جو 1921ء میں بھی بخارا کا سفر کر چکے تھے۔ 6؍ نومبر 1924ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور کچھ عرصہ تک تبلیغی کام کرنے کے بعد حاجی مردان قل ساکن بخارا کو لے کر واپس قادیان آگئے۔

اب مولوی ظہور حسین صاحب کی سنیئے۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی بیماری سے شفا یاب ہوتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھا کہ میں بیماری سے اٹھا ہوں اور سخت کمزور ہوں۔ سردی بھی سخت پڑنے لگی ہے اور برف باری بھی شروع ہو گئی ہے۔ پھر میں نہ روسی زبان سے واقف ہوں نہ رستہ کا علم ہے۔ ویزا بھی نہیں ملا۔ خرچ بھی کم ہے۔ مگر ان مایوس کن حالات کے باجود میں بخارا جانے سے رک نہیں سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعائیں مجھے ناکام نہ ہونے دیں گی۔

مولوی صاحب یہ اطلاع دینے کے بعد اکیلے ہی8؍ دسمبر1924ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور ڈیڑھ دن کے بعد رات روسی ترکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے مگر ارتھک اسٹیشن سے بخارا کا ٹکٹ لے کر گاڑی پر سوارہو رہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور آپ کو جاسوس سمجھ کر پہلے ارتھک، پھر اشک آباد، تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھ کر بہت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ مگر ان مصائب کے باوجود آپ نے قید خانہ میں بھی برابر تبلیغ جاری رکھی چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کرکے روس میں احمدیت کا بیج بو دیا۔

مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘میں بڑی تفصیل سے اپنے دردناک حالات شائع کر دیے ہیں۔ ہم ’’آپ بیتی‘‘ کا ایک اقتباس ذیل میں درج کرتے ہیں :

’’الغرض جب حکومت کے اکثر افراد نے جو میرے سخت مخالف ہو گئے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بیان میں قابو نہیں آتا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کاغذ خود ہی فارسی زبان میں لکھ کر اس جگہ پر اس طرح پھینکا جائے کہ اسے علم نہ ہو ….۔ میرے کمرے میں دو روشندان تھے وہاں سپاہی مقرر کر دیئے گئے …..۔ تاکہ جب مجھے سوتا ہوا دیکھیں روشندان کے ذریعہ سے کاغذ پھینک دیں اور ادھر دروازہ پر جو سپاہی ہیں وہ فوراً دروازہ کھول کر تلاشی لے کر کاغذ پکڑے اور مجھ کو ملزم ثابت کر دے …. پس میں نہ رات کو سوتا نہ دن کو ….۔ اسی طرح کئی دن تک میرا حال رہا کہ نہ میں رات کو سوتا نہ دن کو۔ نہ کھانا صبح کھاتا نہ شام کو۔ جب مجھ کو سخت بھوک لگتی تو نہایت کم ایک دو لقمے کھاتا ادھر….. دو ماہ سے متواتر سور کا گوشت قید میں دیتے تھے اور روسی یا مسلمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی ۔میں بجائے گوشت کے گرم پانی سے روٹی بھگو کر کھایا کرتا تھا کئی کئی وقت پانی نہ پینے ….۔ اور کھانا نہ کھانے کے باعث اور بہت کم سونے کے باعث…۔ سخت لاغر اور کمزور ہو گیا….۔ ایک بار رات کے آٹھ نو بجے کا وقت تھا ایک حاکم جو سپاہی سے بڑا عہدہ رکھتا تھا اس نے دروازہ کھول کر مجھے پکڑ لیا اور اوپر سے روشندان کی طرف سپاہی کو دیکھ کر روسی زبان میں کہا کہ جلدی کاغذ پھینک۔ جب میں نے سپاہی کو روشندان سے دیکھا تو اس وقت بے اختیار میں اونچی آواز سے بڑے حاکم (یعنی اس کے عہدہ کا نام لے کر) پکارا…. تو پانچ چار سپاہی میرے کمرے میں آئے اور مجھ کو پکڑ کر دوسرے تاریک و سیاہ کمرے میں لے گئے….. پھر ایک لکڑی کا اچھا لمبا اور چوڑا تختہ لائے جس پر مجھ کو اس قدر سخت جکڑا کہ میری بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ میں ساری رات …. شدت درد کے باعث جو میرے بازوؤں کو بوجہ سختی سے پیچھے کی طرف باندھنے کے ہوتی تھی جاگتا رہا….۔ جس وقت مجھ کو پیشاب آیا تو میں نے اسی طرح کہ جس طرح لیٹا ہوا تھا اوپر ہی کیا کیونکہ باندھنے اور پھر تختے کے ساتھ جکڑنے کے باعث میں ادھر ادھر ہل نہیں سکتا تھا …. اس رات اپنی سخت تکلیف دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا یہ کی کہ اے خدا! تو میرے آقا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کو خبر دے دے کہ میں قید میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں …. اللہ تعالیٰ نے …. دوسرے تیسرے دن مجھ کو بذریعہ خواب بتایا کہ حضور میرے لئے کوشش فرما رہے ہیں جس پر مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب درست ہے۔ چنانچہ جب عاجز آزاد ہو کر قادیان آیا تو میرے استاذ محترم حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے مجھ کو واضح الفاظ میں فرمایا کہ حضور کو خوابوں کے ذریعہ تیرے قید ہونے اور تکالیف برداشت کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ چنانچہ اس بنا پر حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو جو ان دنوں ناظر امور خارجہ تھے حکم دیا کہ آپ فوراً ماسکو میں انگریز سفیر کو اس مضمون کا خط لکھیں کہ ہم نے ایک سال سے اپنا مبلغ بخارا کی طرف بھیجا ہوا ہے جس کا ہم کو کچھ علم نہیں ہو سکا۔ ‘‘

المختصر روسی حکام نے ڈیڑھ پونے دو سال تک آپ کو قید رکھنے کے بعد ہنزلی (ایران کی بندرگاہ) پر چھوڑ دیا۔ جہاں سے آپ تہران۔ بغداد۔ بصرہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے 25؍اکتوبر1926ء کی صبح کو قادیان پہنچ گئے۔

مولوی صاحب کی واپسی پر ’’کشمیر اخبار‘‘ لاہور نے ’’ایک احمدی کا قابل تقلید مذہبی جوش‘‘ کے عنوان سے لکھا :

’’مولوی ظہور حسین مبلغ احمدیت جو دو سال سے بالکل لاپتہ تھے پھر ہندوستان واپس آگئے ہیں اس دوران میں آپ کو بہت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے ایک خط میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں بغیر پاسپورٹ کے بے کسی اور بے بسی کی حالت میں مشہد سے بخارا کی طرف جانا پڑا اور وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا۔ راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے۔ جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بے رحمی سے مارا گیا۔ تاریک کمروں میں رکھا گیا۔ کئی کئی دن سؤر کا گوشت کھانے کے لئے ان کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن وہ سرفروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا۔ ان کی تعلیمات کی بدولت احمدی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا۔ اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے۔ جو باتیں آج مولوی ظہور حسین سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر ظہور میں آئی ہیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اشاعت مذہب کے لئے ایسی ہی تڑپ ہوا کرتی تھی۔ کیا ہمارے ناظرین کو معلوم نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہؓ جیل کے اندر بھی لوگوں کو درس دیتے رہے احمدی مسلمانوں کے عقائد اور عام مسلمانوں کے عقائد بوجہ احمدیت اور محمدیت بہت کچھ اختلاف ہے تاہم اس امر کو بلا خوف تردید سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر وہ اخلاص و عزم اور وہ تڑپ اپنے مذہب کی حمایت و اشاعت کے لئے نہیں جو ایک معمولی احمدی بھی اپنے دل کے اندر رکھتا ہے۔ کاش! اسلام کے دوسرے فرقے بھی کفر سازی و کفر پروری کی بجائے ایسے ہی مجاہد پیدا کر سکیں۔ ‘‘

(اخبار کشمیری 21؍ اکتوبر1926ء بحوالہ الفضل 30؍نومبر1926ء صفحہ 3-4)(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 471تا476)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button