مکرم شریف احمد پیرکوٹی صاحب (آف حافظ آباد)

(فہیم احمد خادم۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل گھانا)

تعارف

خاکسار کے والد محترم کا نام مکرم شریف احمد پیرکوٹی ہے۔ آپ اپنی سیرت و کردار میں اسم با مسمیٰ تھے۔ یعنی سراپا شرافت۔ آپ کے والد حضرت میاں نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے او رآپ کی والدہ مکرمہ عائشہ بی بی صاحبہ تھیں۔ آپ 1928ء میں گاؤں پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قریبی گاؤں اونچے مانگٹ میں واقع سکول میں تین یا چار جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ قادیان میں بھی حصول تعلیم کے لیے کچھ عرصہ رہے اور وہاں کے بزرگوں سے بے حد متاثر تھے۔ آپ نے اپنے طور پر بعد میں بہت محنت کی اور لکھنے پڑھنے میں بہت عبور حاصل کیا۔ آپ نے کئی سال کپڑے کی دکان کی جس کا سارا حساب کتاب خود ہی کرتے تھے۔

آبا و اجداد

آپ کے دادا جان کا نام حضرت میاں امام الدین صاحب رضی اللہ عنہ تھا۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ آپ کی دادی جان کا نام محترمہ عمر بی بی صاحبہ تھا۔ تاریخ احمدیت کے مطابق آپ کے دادا جان اور والدکی بیعت کا سن 1903ء ہے جس کا ذکر اخبار البدر کے 6؍ فروری 1903ء کے شمارےمیں بھی ہے۔ 1903ء سے قبل آپ تحریری بیعت کرچکے تھے لیکن 1903ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی اور شرف بیعت حاصل کیا۔ ان کی اہلیہ محترمہ عمر بی بی صاحبہ کی وفات سن بیعت سے قبل ہی ہوگئی تھی۔ لیکن آپ کے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کی ایک بہت بڑی وجہ ان کا وجود ہی تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ محترمہ عمر بی بی صاحبہ جو کہ خود ایک پاکباز اور تقویٰ شعار خاتون تھیں اپنے گھر والوں کو ہمیشہ نصیحت کرتی تھیں کہ امام مہدی کے ظہور کا وقت دو ر نہیں ہے۔ وہ وقت آگیا ہے جب سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ جب بھی امام مہدی آئے تو فوراً اس کو قبول کرلینا۔ گو آپ امام مہدی کا زمانہ خود نہ دیکھ سکیں لیکن اپنے بچوں اور خاوند کی قبول احمدیت کا باعث بن گئیں۔

آپ کے بیٹے حضرت میاں نور محمد صاحب رضی اللہ عنہ کی منگنی ایک جگہ بچپن میں ہوئی تھی۔ آپ اپنے بیٹے کی بارات لے کر گئے تو لڑکی والوں نے بتایا کہ چونکہ لڑکا احمدی ہو چکا ہے۔ وہ لڑکی نہیں دے سکتے۔ انہوں نے یہ شرط عائد کردی کہ لڑکا احمدیت ترک کرنے کا اعلان کردے۔ بے شک دل میں احمدیت برقرار رکھے اور جا کر لڑکی کی بھی بیعت کرادے۔ حضرت میا ں امام الدین رضی اللہ عنہ نے بیٹے کی بارات خالی بغیر دلہن کے واپس لے جانے کو ترجیح دی لیکن احمدیت کو ترک کرنے سے انکار کر دیا۔

شادی

آپ کی شادی محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ بنت مکرم محمد عبداللہ صاحب سے ہوئی جو چک چٹھہ اور ڈاہرانوالی پر مشتمل ایک مشترکہ جماعت کے صدر تھے۔

آپ کے ہاں شادی کے پانچ سال بعد اولاد ہوئی۔ خدا تعالیٰ نے انہیں پانچ بچوں سے نوازا جس میں دو لڑکیاں اور تین لڑکے شامل ہیں۔

آپ اکثر اپنی خواب سنایا کرتے تھے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کو پانچ بچوں کی نوید سنائی تھی۔ آپ بتاتے تھے کہ میری شادی ہوئی تو خواب میں دیکھا کہ ایک باغ ہے اور میں نے اس سے پانچ مالٹے توڑے ہیں۔ میں نے یہ خواب مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم کوسنائی تو پوچھنے لگے : کیا کسی مالٹے میں کوئی نقص تھا؟ میں نے کہا نہیں، صاف ستھرے تھے۔ فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پانچ بچے عطاکرے گا۔ اسی طرح ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے پانچ بچے عطا فرمائے۔ الحمد للہ علی ذلک

بچوں کی تعلیم و تربیت کا جذبہ

آپ کے ہاں بڑی بیٹی ہوئی تو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لاحق ہوئی۔ اس کو اپنے کزن مولوی محمد سعید صاحب سابق انسپکٹر مال کے ہاں چونڈہ ضلع سیالکوٹ بھجوایا جو کہ بعد ازاں ربوہ منتقل ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد والد صاحب نے اپنی پوری فیملی ربوہ منتقل کردی۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر آپ کا قربانیاں کرنا روز کا معمول تھا۔ آپ کی رہائش گاہ گاؤں پیرکوٹ ثانی میں تھی جہاں آپ اپنی والدہ (یعنی ہماری دادی جان) کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ شہر حافظ آباد میں کپڑے کی دکان کرتے تھے۔ آپ نے ہماری والدہ صاحبہ اور بچوں کو تعلیم و تربیت کے لیے ربوہ بھجوارکھا تھا تاکہ ربوہ کے پاکیزہ ماحول میں ان کی تربیت بھی ہو اور تعلیم سے آراستہ بھی ہو سکیں۔ یہ تعلیم و تربیت گاؤں میں رہ کر ممکن نہ تھی۔ اس دور میں ربوہ میں رہنا کوئی آسان نہ تھا۔ محلہ دارالعلوم میں گھر دور دور تھے۔ رات کو گیدڑوں اور دوسرے جانوروں کی آوازیں آتیں۔ والدہ صاحبہ کی بھی قربانی تھی کہ اکیلے تن تنہا ان بچوں کو پال رہی تھیں۔

والد صاحب اپنے گاؤں میں روزانہ بھینسوں کا دودھ دوہتے اور انہیں چارہ ڈالتے پھرآپ روزانہ سائیکل پر گاؤں سے شہر آتے( یہ گاؤں شہر سے چار کوس کے فاصلے پر تھا) اور دکان کرتے اور شام کو پھر واپس گاؤں جاتے۔ جمعرات کو دکان جلد بند کر کے ربوہ کا سفر اختیار کرتے۔ بچوں سے ملتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ کر پھر واپسی کا سفر کرتے اور پھر سارا ہفتہ یہی روٹین جاری رہتی۔

خاکسارگھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جمعہ کے روز آپ مجھے انگلی پکڑ کر مسجد اقصیٰ لے کر جاتے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کرتے۔

بھائی جان مرزا رشید صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں یونیورسٹی میں داخل تھا تو کبھی ایسا نہ ہوا کہ والد صاحب سے پیسے خود مانگنے پڑے ہوں۔ جب بھی گھر سے واپس یونیورسٹی واپس جانا ہوتاتو خود بغیر مانگے کچھ رقم دیتے پاس نہ ہوتی تو کسی سے مانگ کر دے دیتے۔ بچوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتے۔ اپنے دوستوں کو بتاتے کہ میرا بیٹا وکیل بن رہا ہے۔

جب دادی جان کی وفات ہوگئی تو انہوں نے اکیلے گاؤں رہنے کی کوشش کی۔ کوشش تھی کہ بچے ربوہ میں ہی رہیں لیکن اکیلے رہنے کی عادت نہیں تھی تو آپ بیمار پڑگئے۔ اس وجہ سے بچوں کو ربوہ سے حافظ آباد شفٹ کرنا پڑا۔ 1977ء میں حافظ آباد میں ایک مکان خرید لیا اور ہم سب کو وہیں بلا لیااور یوں ایک لمبے عرصہ کے بعد آپ ہمارے ساتھ رہنے لگے۔

تعلق باللہ

آپ روزانہ نماز تہجد کا التزام کرتے۔ خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کرنا آپ کی عادت میں شامل تھا۔ نماز فجر سے قبل سب بچوں کو جگاتے اور مسجد جا کرنماز باجماعت ادا کرتے۔

آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ اکثرآپ کی خوابیں پوری ہوتے دیکھیں۔ ایک بار آپ نے خواب میں دیکھا کہ گاؤں میں آ پ کے پاس پانچ کمزور اور بیمار چوزے ہیں۔ آپ نے انہیں ایک تھیلے میں ڈالا کہ شہر آکر بیچ ڈالیں۔ یہاں آکر تھیلے کو دکان میں الٹایا تو کیا دیکھاکہ پانچوں چوزے بڑے خوبصورت اورصحت مند ہیں اور اڈاریاں مارنے لگے۔

آپ اس کی یہ تعبیر کرتے تھے کہ کس طرح شہر میں آکر بچوں نے ترقی کی اور دکان نے اس کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔ ایک بچہ ہو میو ڈاکٹر بنا اوربعد میں معلم سلسلہ بنا، ایک وکیل بنا اور ایک مربی۔ ایک بیٹی لیڈی ہیلتھ وزٹر بنی اور ایک بیٹی سوشل ویلفیئر کے محکمہ میں سپروائزر بنی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

تلاوت قرآن مجید بڑی باقاعدگی سے کرتے۔ آپ کی بڑی خوبصورت آواز تھی۔ آپ کا طریق یہ تھا کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ بلند آواز سے اردو ترجمہ بھی پڑھتے جاتے۔

خدا تعالیٰ کی ذات پر بہت توکل تھا۔ اس پر قائم تھے اور بچوں کو بھی اسی امر کا سبق دیا۔ بھائی جان مرزا رشید صاحب کہتے ہیں کہ میں جب دکان پر کام کرتا تھا اور ابھی بچہ ہی تھا تو والد صاحب کو اپنے سوالوں سے تنگ کیا کرتا تھا اور اپنی نادانستگی میں پوچھتا تھا کہ آپ اتنی نمازیں پڑھتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں مگر ہمارے حالات اچھے کیوں نہیں ہوتے؟ آپ ہمیشہ فرماتے کہ اللہ پر توکل رکھو۔ اللہ کے فضل سے ہی سارے کا م ہوں گے۔ پھر ساتھ ہی یہ منطق پیش کی کہ اگر ہمارا کاروبار بہت اچھا ہوتا تو شاید میں تم بھائیوں میں سے کسی کو مجبور کرتاکہ دکان پر میرے ساتھ لازمی بیٹھو جس کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑتی اور یہاں کام میں لگ جاتے۔ اب کاروبار بہت اچھا نہ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ تم پڑھ لکھ جاؤگے۔

دعا کی قبولیت

ہمارے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر مرزا نصیر احمد شریف صاحب جب بچے تھے تو اکثر بیمار رہتے تھے۔ اکثر آپ کو والد صاحب ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس لے کر جایا کرتے تھے۔ ایک بار آپ شدید بیمار تھے تو والد صاحب ان کو چک چٹھہ جو کہ حافظ آباد شہر کے قریب ایک گاؤں ہے وہاں لے کر گئے۔ بچے کی طبیعت بہت خراب تھی اور کمزوری کے باعث جسم بہت زیادہ نڈھال تھا۔ چنانچہ آپ نے راستہ میں ہی بچے کو سڑک کے کنارے گھاس پر لٹایا اور سجدے میں گرگئے۔ اور رو رو کر بچےکی صحت کے لیے دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ کا ایسا خاص فضل ہوا کہ جب آپ دعا کر کے فارغ ہوئے تو بچےکی آنکھیں کھلی تھیں اور بازو ہلا رہا تھا۔ اس طرح معجزانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد کو شفا عطا فرمائی۔

والدہ کی خدمت

آپ نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی۔ چنانچہ ہماری بڑی بہن مکرمہ منصورہ مبشرصاحبہ کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ ایک بار ہماری دادی جان نے والد صاحب کو شہر سے ایک شربت لانے کے لیے کہا۔ آپ غلطی سے دوسرا شربت لے آئے۔ اس پر دادی جان نےناراضگی کا اظہار کیا۔ چونکہ بیمار تھیں تو نازک طبیعت کے باعث رونے لگیں۔ یہ دیکھ کر والد صاحب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور رونے لگے۔ ان سے بار بار معافی مانگنے لگے۔ آپ کی والد ہ صاحبہ چونکہ بیمار تھیں آپ ان کے قریب گئے اور محبت سے ان کا سر اپنی گود میں لیا اور بار بار یہی کہتے جاتے تھے۔ بے بے جی! نہ روؤ! میری عاقبت نہ خراب کرو! اللہ مجھ سے ناراض ہوگا۔ ان کی والدہ صاحبہ نے آپ کو معاف کیا توآپ کے دل کو قرار آیا اور اگلے دن مطلوبہ شربت لا کر دیا۔

امیر صاحب ضلع کی فرمانبرداری

بیماری کے باعث آپ کی خواہش تھی کہ کوئی بچہ دکان میں آپ کے ساتھ کام کروائے۔ چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا رشید احمد صاحب نے دکان پر کام کرنا شروع کردیاجس سے آپ کو بے حد سہولت ہوگئی۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ ضلعی اجتماع منعقد ہوا، جس میں مکرم چودھری ظفر اللہ صاحب امیر ضلع تشریف لائے۔ اس موقع پر میرے بڑے بھائی صاحب نے بہت سےانعامات حاصل کیے۔ امیر صاحب نے ان سے پوچھا کہ بیٹا تم کیا کرتے ہو؟ بتایا کہ دکان پر کام کرتا ہوں۔ اس پر امیر صاحب نے فوراً والد صاحب کو بلایا اور کہا کہ یہ بچہ بڑی صلاحیتوں والا ہے۔ اسے فوراً سکول داخل کروائیں۔ آپ نے ’’اچھا جی‘‘ کہا اور اپنی تمام سہولتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بغیر کسی چون و چرا کے امیر صاحب کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بھائی جان کو دوبارہ سکول میں داخل کروادیا۔

بیت بازی کا شوق

آپ کو درثمین، کلام محمود اور درعدن وغیرہ کے بےشمار اشعار زبانی یاد تھے۔ ایک بار حافظ آباد میں ضلعی اجتماع کے موقع پر بیت بازی کا مقابلہ جیتا بھی۔

آپ اکثر یہ اشعار بآواز بلند پڑھتے۔ اکثریہ شعر ہمارے لیے پڑھتے اور آواز نم ہوجاتی

مری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو

سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو

آپ کی آواز بہت خوبصورت تھی۔ آپ ہمیں یہ اشعار ترنم سے پڑھ پڑھ کر صبح نماز پر اٹھایا کرتے تھے۔ اٹھاتے ہوئے اکثر گنگناتے

اٹھو ڈھونڈو متاع آسمانی…

جب کبھی ہم سب بچے اکٹھے ہوتے تو نظم پڑھنے کا مقابلہ کرواتے۔ اس مقابلہ میں بیٹے بیٹیاں اور بہوئیں بھی شامل ہوتیں۔

آپ بڑے اچھے مقرر بھی تھے۔ تقریر پنجابی میں کرتے۔ کئی بار خطبہ جمعہ دیا یا تقریر کی تو بڑی مؤثر اور علمی تقریر تھی۔ تقریر میں قرآن اور حدیث کے علاوہ درثمین اور کلام محمود کے اشعار موقع کی مناسبت سے استعمال کرتے۔

مہمان نوازی

ایک لمبا عرصہ زعیم انصار اللہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ جب سے ہوش سنبھالا تو انہیں ضیافت کا انچارج پایا۔ ہمارا گھر مسجد سے چند منٹ کے فاصلہ پر تھا۔ جب بھی کوئی مرکزی مہمان آتا تو خوشی سے پھولے نہ سماتے اور خوشی سے اسے گھر لاتے اور ان کی مہمان نوازی کرتے۔ میری والدہ صاحبہ بھی اس نیکی میں بھر پور حصہ ڈالتیں۔ دیر ہو یا سویر۔ وقت کم ہو یا زیادہ۔ ان کے ماتھے پربل نہ آتا اپنے خاوند کے کہنے پر فوراً کھانے کی تیا ری میں جت جاتیں۔ اللہ کے فضل سے مرکز سے آنے والے بے شمار مہمانوں نے ہمارے گھر کو رونق بخشی۔

خلافت سے محبت

خلافت سے محبت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ خلافت رابعہ کے دَور میں جب آڈیو کیسٹ کی جگہ سیٹلائٹ ڈش نے لے لی اور ہم کو حضرت خلیفۃ المسیح کا چہرہ مبارک ٹی وی پر براہ راست دیکھنے کا موقع ملا تو بے حد خوش تھے اور خطبہ سن کر اور حضور پر نور کو دیکھ کر بار بار رو پڑتے۔ آپ کو کئی بار آنسوؤں کے ساتھ یہ کہتے سنا ’’حضور توانوں کدوں ملاں گے۔ بڑی دور چلے گئے او۔ بڑا دل کردا اے ملن تے‘‘ یعنی حضور آپ کو ہم کب ملیں گے۔ آپ بڑی دور چلے گئے ہیں۔ بڑا دل کرتا ہے ملنے کو۔

2007ء میں آپ پہلی مرتبہ یوکے تشریف لے گئے۔ میرے والدین اور خاکسار کی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ لندن میں ملاقات تھی۔ والد صاحب حضور انور کے کمرے میں جاتے ہی ان کے گلے لگ گئے اور جذباتی ہو کر کہا: حضور ! میرے پندرہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں وقف نو میں ہیں جن کو آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ آپ جہاں چاہیں ان سے خدمت لیں۔ حضور نے فرمایا: شکریہ جزاک اللہ پھر آپ نے رو کر جذباتی حالت میں حضور سے عرض کی :میری درخواست ہے کہ آپ میرا اور میری بیگم کا جنازہ پڑھائیں۔ حضور پر نور نے مسکراتے ہوئے پنجابی میں فرمایا:

’تسی تے چنگے پلے ہو۔ کی ہو گیا توانوں۔ وقت آئے گا تے دیکھا ں گے۔ ‘

یعنی آپ تو اچھے بھلے ہیں۔ کیا ہو اہے آپ کو۔ جب وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔

گویا ان کی زندگی میں یہ شدید تڑپ اور خواہش تھی کہ وفات پر ان کا جنازہ خلیفۃ المسیح پڑھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش پوری کی اور حضور انور نے ان کی وفات پر ان کا جنازہ غائب پڑھایا۔

1974ء کے واقعات

1974ء کا پر آشوب دور تھا۔ ملک بھر میں احمدیت کے خلاف مخالفت کی آگ لگی تھی۔ گھیرا ؤ، جلاؤ، توڑ پھوڑ ہورہی تھی۔ احمدیوں کو زبردستی احمدیت سے منحرف کرنے کی مہم تھی۔ احمدیوں کو از سر نو کلمہ پڑھایا جارہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے انکار پر مجبور کیا جارہا تھا۔ ان حالات میں ہمارے والد صاحب نے جس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بڑی جوان مردی سے اپنے ایمان کی حفاظت کی۔ یہ ایمان افروز کہانی سننے کے لائق ہے۔

حافظ آباد شہر میں ستارہ مارکیٹ نام سے ایک مارکیٹ تھی۔ اس میں 58دکانیں تھیں۔ ان میں سے ایک دکان کپڑوں کی میرے والد صاحب کی تھی۔

مقاطعہ کا فیصلہ

صدر مارکیٹ اور جملہ دکانداروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ والد صاحب کا مقاطعہ کریں۔ ان سے کوئی بھی لین دین نہ کرے یا یہ مسلمان ہوجائے۔ اس وقت اس مجلس میں والد صاحب کے ایک دوست شیخ محمد طفیل صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کیوں نہ ہم اس کے پاس جائیں اور اس کو سمجھائیں اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس میں کیا اعتراض ہے؟

احمدیت ترک کروانے کی کوشش

والد صاحب بتاتے تھے کہ بازارکے دکانداروں کا ایک وفد میرے پاس آیا۔ شیخ محمد طفیل نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بھائی شریف ! دیکھو حالات کتنے خراب ہیں۔ اس میں کیا حرج ہے کہ کلمہ پڑھ لو اور ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ اور ان سب مشکلات سے بچو؟میں نے کہا محمد طفیل ! خدا کے فضل سے میرا کلمہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے۔ تمہارے کلمہ پڑھنے سے مراد ہے کہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو نہ مانوں۔ میں تو پکا نمازی ہوں۔ نمازیں پڑھتا ہوں۔ تم لوگ جوآئے ہو تم میں سے اکثر کو تو نماز کے الفاظ بھی نہیں آتے۔ تم وہابی ہو۔ میں نے حاجی محمدحیات(سیکرٹری مارکیٹ کمیٹی ) کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ اہل سنت ہے۔ میرا بھی فرقہ ہے جو احمدیت ہے۔ احمدیت چھوڑوں تو مجھے موت آجائے گی۔ جیسے مچھلی پانی سے نکلتی ہے تو مرجاتی ہے۔

حاجی محمدحیات (سیکرٹری مارکیٹ) نے کہا: پھر افسوس نہ کرنا کہ تمہارا نقصان ہوا۔ میں نے کہا مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا میرا ایک اللہ ہے۔ اسی پر میرا انحصار ہے۔ احمدیت سچی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں تم جو کرنا چاہتے ہو، کر لو۔ وفد نے آ کر صدر صاحب مارکیٹ کو بتا دیا کہ اس نے بات نہیں مانی۔ اس پر سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ مجھ سے سلام نہیں کرنا۔ مجھے کھلا(ریزگاری) نہیں دینا۔ کسی کام میں میری مدد نہیں کرنی۔

پانی بند کر دیا گیا

مارکیٹ والوں نے جب دیکھا کہ ان کی پابندیوں کا والد صاحب پر کوئی اثر نہیں ہورہا توایک نئی سکیم بنائی۔

والد صاحب نے بتایا کہ ایک دن صبح کو میں دکان کھول رہا تھا کہ صدر مارکیٹ کا ایک نمائندہ آیا اور مجھے بتایا کہ صدر صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے ہماری مارکیٹ کے نلکے سے پانی نہیں لینا، یہاں وضو نہیں کرنا اور نہ ہی یہاں پیشاب کرنا ہے۔

میں نے یہ نئی پابندیاں سنیں تو دکان بند کردی اور فوراً بازارکا رخ کیا۔ ایک گھڑا خریدا۔ سوچا کہ اگر پانی قریب کسی نلکے سے بھرا تو لوگ مجھے پہچان لیں گے اور تنگ کریں گے۔ بہت دور جا کر چودھری ہارون الرشید کے ڈیرہ سے پانی بھرا اور سر پر اٹھا کر دکان پر لایا۔ یہی دعا کرتا رہا کہ یا اللہ ! چھوٹا سا کام ہو تو کہتے ہیں کہ مزدور لاؤ۔ اب تیری خاطر یہ گھڑا سر پر رکھا ہے تو ہی اپنی حفاظت فرما۔ تیرے فضل کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

آپ کہا کرتے تھے کہ اللہ کے فضل سے میں پوری دیانتداری سے کہتا ہوں کہ اس گھڑے کا پانی شدید میٹھا تھا جیسے اس میں شہد ڈال دیا گیا ہو۔

گاہکوں کو روکنے کے لیے ایک مولوی کا تقرر

چند دن گزرے مارکیٹ والوں کو یہ برداشت نہ ہوا کہ آپ امن سے رہیں اور احمدیت بھی نہ چھوڑیں تو انہوں نے ان کی دکان کے آگے ایک مولوی بٹھا دیا۔ وہ ہر آنے والے کو روکتا اور کپڑا لینے کے لیے اندر نہ جانے دیتا۔

خوابوں کے ذریعہ تسلی کا سامان

والد صاحب نے بتایاکہ اسی رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ گھر کی بیٹھک میں لیٹا ہوں۔ بیٹھک میں ایک آلنایعنی طاقچہ ہے جس میں کچھ گند پڑا ہے جو میرے دیکھتے دیکھتے پانچ چھوٹے چھوٹے سانپوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔ میں ان سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ باہر نکل کر ایک شخص سے ایک سوٹی چھین کر لاتا ہوں اور سانپوں کو مار دیتا ہوں۔ سوچنے لگا کہ اگر کتے یہ سانپ کھالیں تو زہریلے ہوجائیں گے۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان ہے جس میں یہ مرے ہوئے سانپ پڑے ہیں۔ آسمان سے پرندے، کوے، چیل وغیرہ آتے ہیں اور انہیں کھالیتے ہیں۔

اس خواب سے والد صاحب کی تسلی ہوئی کہ اللہ سارے کام سنوارے گا اور یہ مخالفین کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔

ایذا دہی کے گھٹیا پن کا مظاہرہ

1974ء کے پر آشوب دور میں والد صاحب کو بے حد ذہنی اذیتوں کو سہنا پڑا جس کا آپ کو بے حد دکھ تھا اور اس کا درداور قلق آپ دل میں محسوس کرتے تھے۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ میرے دوست شیخ محمد طفیل کا ایک بھائی شیخ ریاض احمد تھا جس کی دکان میرے سامنے تھی۔ اس نے ایک اشتہار اپنی دکان پر لگایا۔ اس میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس میں حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر کی توہین کی گئی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کی منت سماجت کی کہ اسے اتار دے مگر وہ باز نہ آیا۔ اس دوران اس کے پاس دو یا تین آدمی آئے جو جماعت احمدیہ کے خلاف باتیں کرنے لگے خصوصاً حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف گھٹیا اور گندی زبان استعمال کی کہ میرا دل دہل گیا ۔دعا کی کہ اے خدا! میں کچھ نہیں کرسکتا۔ تیرا حکم ہے کہ اللہ اور رسول کے خلاف ایذا دہی کی باتیں سنو تو وہاں سے چلے جاؤ۔ میں اس جگہ کو چھوڑ کر اپنی دکان پر آگیا۔ وضو کر کے سجدے میں گر گیااور رو رو کر دعا کی کہ اے اللہ! کیا کروں ؟ میں کاروبار چھوڑ نہیں سکتا۔ یہ سب کچھ میرے سامنے کیا جارہا ہے۔ تو ہی ہدایت دے اور میری مدد فرما۔

ہماراخدا مستجاب الدعوات ہے اور مضطر دل کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ اس کے دکھ کو راحت میں تبدیل کرتا ہے اور اس کے زخموں پر پھاہے رکھتا ہے اور اطمینان قلب کے سامان مہیا کرتا ہے۔ خدا خوابوں کے ذریعہ آپ کو تسلی دے رہا تھا کہ گھبرانا نہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔

رات کو آپ نے نے خواب میں دیکھا کہ آپ گھر کے چبوترہ پر بیٹھےکھانا کھا رہے ہیں۔ ایک سفید چھوٹا سا مریل سا کتا آپ کے سامنے آتا ہے۔ پھر دیکھتے ہیں کہ بہت سے کتے سفید، کالے، رنگ برنگے ہیں اس سفید کتے کو آپ ایک چھڑی مارتے ہیں تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے سارے کتے چوں چوں کرتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کی تسلی کروائی کہ گھبرانا نہیں یہ مخالفین تمہار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

ایک مخالف کے لیے عبر ت ناک نشان

دو دن نہیں گزرے تھےکہ ایک نشان ظاہر ہوا۔ اس ریاض احمد نے کچھ رقم اپنے ایک عزیز سے ادھار لی تھی اور ایک اچھی خاصی رقم اپنی اہلیہ کو دے رکھی تھی تاکہ جب موقع ملے تو گوجرانوالہ یا لاہور سے تھوک کا کپڑا خرید لائے۔ اس کا ایک بیٹا تھا جس کی عمر 13سال کی تھی۔ یہ بچہ اس کی دکان پر کام کرتا تھا۔ اس نے والدسے دوپہر کا کھانا کھانے کے بہانہ گھر جانے کی اجازت مانگی۔ والدہ سے کہا کہ ابو نے آج تھوک کا سامان لینے لاہور جانا ہے سب پیسے دے دیں۔ والدہ نے ایک بہت بڑی رقم اس کے حوالےکردی۔ وہ بچہ اپنے ایک بد قماش دوست کے ساتھ مل کرلاہور چلا گیا اور آٹھ دن تک نظر نہ آیا اور نہ گھر والوں سے کسی قسم کا رابطہ کیا۔

یہ دن اس کے والد شیخ ریاض احمد کے لیے قیامت سے کم نہ تھے۔ دن رات بچے کی تلاش میں پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرتا رہا۔ دکان بند کی اور دن رات پانی کی طرح پیسہ بہایا کہ کسی طرح بچہ کا سراغ مل جائے۔ وہ بچہ آٹھ دن کے بعد واپس گھر آگیا۔ اس وقت تک وہ سارے پیسے خرچ کرچکا تھا۔ اس کے دوست نے اسے دھمکی لگائی تھی کہ اگر اس کا نام پولیس یا والدین کو بتایا تو وہ اسے قتل کردے گا۔ اس دھمکی کی اس بچہ پر اتنی دہشت تھی کہ اس نے کسی کا نام نہیں لیا اور خود ساری ذمہ داری قبول کی۔

اس واقعہ کے بعد شیخ ریاض احمد نے مخالفت ترک کردی اور والد صاحب کے خلاف کوئی شوشہ نہیں چھوڑا۔

اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا سامان کر دیا

مخالفین نے آپ کو مارنے اور دکان کو آگ لگانے کے منصوبے باندھنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ ہر مرتبہ اپنی حفاظت کے سامان پیدا فرما دیتا۔

1974ءکے حالات کے پیش نظر ایک غیر احمدی دوست نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ دکان میں کپڑاتو بکتا نہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ دکان بند کر کے گھر بیٹھ جائیں۔

چنانچہ والد صاحب اپنے گاؤں پیرکوٹ ثانی آگئے۔ یہاں آپ کے ایک غیر احمدی دوست نے آپ کی دکان سے کپڑا نکال کر آپ کو پہنچا دیا جو آپ نے گاؤں میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔

خواب میں دکان میں برکت کی بشارت

خدا تعالیٰ نے بذریعہ خواب آپ کو بشارت دی کہ وہ آپ کے کاروبار میں برکت ڈالے گا۔

چنانچہ قریباً دو ماہ بعد جب حالات بہتر ہوئے تو والد صاحب واپس مارکیٹ میں آئے اور دکان شروع کی۔ خدا تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ تمام بچےپڑھ لکھ گئے اور برسر روزگار ہوئے۔ حافظ آباد میں اپنا مکان خریدا۔ ربوہ میں پلاٹ لیا اور اس پر مکان بنایا۔ الحمد للہ۔

مخالفوں کا انجام

والد صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے اللہ نے اپنے فضلوں سے مالامال کر دیا۔ اس کے برعکس میرے دشمنوں اور مخالفو ں کا بہت بر ا انجام ہوا۔ حاجی حیات جو سیکرٹری مارکیٹ تھا۔ اس کے ہاں ایک اپاہج بچہ پیدا ہوا جس کو آنکھ اور کان وغیرہ کے مسائل تھے۔ اسے سانپ نے ڈسا اور شدید تکلیف میں مبتلا ہوا۔ خود بیمار ہوا۔ اسے فیصل آباد لے جایاگیا۔ شدید بیمار رہ کر فوت ہوگیا۔

مارکیٹ ایسوسی ایشن کا صدر بیمار ہوا۔ دماغ میں درد تھا۔ آپریشن کرنے لگے تو فوت ہوگیا۔ اس کی میت گھر لائے۔ اسی دن اس کی ایک بیٹی جامن کے درخت سے گری۔ دماغ پر چوٹ آئی اور مر گئی۔ گویا دونوں باپ اور بیٹی ایک ہی روز اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ اس طرح باقی بھی بڑھ بڑھ کر مخالفت کرنے والے ناکام و نامراد ہوئے اور ان کی دکانیں اونے پونے بک گئیں۔

خدا کی عجیب شان: عزت کے سامان

والد صاحب کا مخالف صدر مارکیٹ تو اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کی دکان کسی اور نے خرید لی۔ کچھ عرصے کے بعد جب مارکیٹ میں انتخاب ہو اتو سب نے اس نئے شخص کو صدر منتخب کر لیا۔ ا س صدر نے اپنے عہدیدار چنے اور ایک مشاورتی کمیٹی تشکیل دی۔ اس نے سب کے سامنے کہا کہ میں بھائی شریف احمد کو اس کمیٹی کا ممبر مقرر کرتا ہوں۔ اس طرح والد صاحب کی دنیاوی عزت کے سامان پیدا ہوئے۔

کچھ ذاتی باتیں

والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ ان کا کوئی بیٹامربی بنے۔ بڑے بیٹے کو جامعہ بھجوانے کی تمنا تھی جو بوجوہ پوری نہ ہو سکی۔ ( بعد میں اسی خواہش کے مطابق بڑے بیٹے کو2001ء میں معلم سلسلہ کے طور پر زندگی وقف کرنے کی توفیق ملی) میری باری آئی اور میں نے جامعہ جانے کا فیصلہ کیا تو آپ بےحد خوش ہوئے۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی خصوصی شفقت اور محبت کا مورد بنا۔ آپ کی شبانہ روز دعاؤں کا محور بنا اور وہ دعائیں آج تک میرے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گی۔

رخصت پر گھر آتا تو واپسی پر جذباتی ہو کر تر آنکھوں سے بار بار کہتے:

میری تو حق میں تمہارے یہ دعا ہے پیارو

سر پہ اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو

میں جامعہ میں تھا۔ ایک بار میری بعض کمزوریوں کے باعث مکرم پرنسپل صاحب نے میرے ایک کلاس فیلو کو میرے والد صاحب کو بلانے حافظ آباد بھیجا۔ آپ رات بھر میرے لیے دعائیں کرتے رہے۔ پرنسپل صاحب سے مل کر مجھے ڈانٹا تو نہیں لیکن بڑے جذباتی ہو کر بھرائی آواز میں نصیحت ضرور کی جس کا مجھ پر بہت اثر ہوا اور آئندہ سے شکایت کا موقع نہ دینے کا وعدہ کیا۔

گھانا میں بطور مربی تقرر ہوا تو بے حد خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔ بالعموم والدین بچے کو ہزارہا میل دور اور آنکھوں سے اوجھل جگہوں پربھجوانے سے پریشان ہو جاتے ہیں اور دل طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ مگر یہاں ایسا کچھ نہ تھا۔ خواہش تھی تو ایک ہی کہ بیٹا خدمت دین کرے اوروقف نبھائے۔

میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ میرے مربی بننے اور آج تک وقف نبھانے میں ان کی دعاؤں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ ان دعاؤں کا ساتھ زندگی کے آخری لمحوں تک رہے گا۔ انشاء اللہ

آپ نے ہمیشہ نیکیوں کے جاری رکھنے کی تلقین کی۔ مجھے بتایا کہ وہ اپنی والدہ اور والد کی طرف سے تحریک جدید اور وقف جدید کا چند ہ دیتے آئے ہیں۔ آپ نے مجھے بھی نصیحت کی کہ میں ان کی اور ان کے والدین کی طرف سے یہ نیکی کا سفر جاری رکھوں۔

میرے مربی ہونے کے ناطے ان کی خصوصی شفقت میرے سر پر رہی۔ اپناایک پلاٹ جو ناصر آباد میں تھا میرے نام کیا۔ جب جائیداد کی تقسیم کی تو میرے حصہ میں آنے والی رقم سے اس پلاٹ پر ایک مکان تعمیر کیااور حافظ آباد سے وہاں شفٹ ہو گئے۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا اس وقت خاکسار گھانا میں تھا۔ یہ سب ان کی واقفین زندگی کےساتھ محبت اور شفقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین

وفات

سار ی عمر آپ کی صحت بہت اچھی رہی۔ ہفتے میں چھ دن مسلسل دکان کرتے تھےاورصرف ایک دن آرام کرتے۔ ربوہ میں رہے تو سائیکل چلاتے تھے اور سارے کام خود ہی کرتے تھے۔

آخری دنوں میں آپ اکثر بیمار رہنے لگے۔ آپ کو ربوہ سے آپ کے بڑے بیٹے ہومیو ڈاکٹر مکرم نصیر احمد شریف صاحب معلم سلسلہ( جن کی تقرری گاؤں حافظ والہ ضلع میانوالی میں تھی) کے پاس لے جایا گیا جہاں آپ کا علاج ڈاکٹر صفی اللہ صاحب کرتے رہے۔ آپ کو واپس ربوہ لایا گیا جہاں ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب نے ان کادل بڑھ جانے کا بتایا۔ آپ 2؍دسمبر 2009ء کو اپنے مولاکریم کو پیارے ہو گئے۔

اناللّٰہ و انا الیہ راجعون۔

آپ کی نماز جنازہ مکر م صاحبزادہ مرزا خورشیداحمد صاحب مرحوم نے پڑھائی۔ آ پ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد مکرم وکیل اعلیٰ صاحب نے دعا کرائی۔

آپ نے اپنے پیچھے اپنی اہلیہ مکرم سکینہ بیگم صاحبہ سوگوار چھوڑی تھیں جو 16؍ اگست 2011ء کو لندن میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ آپ ان دنوں اپنے بیٹے مکرم مرزا رشید احمد طاہر صاحب کے پاس تھیں۔ مکرم والد صاحب کی خواہش کے مطابق آپ کا جنازہ غائب حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں پڑھایا نیز آپ کی اہلیہ کی وفات پر ان کا جنازہ حاضر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہی پڑھایا۔

آپ کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔

1۔ مکرمہ مبارکہ اختر صاحبہ اہلیہ مکرم محمد شریف قیصر صاحب حال کینیڈا

2۔ مکرمہ منصورہ شریف صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب حال نیو جرسی۔ امریکہ

3۔ مکرم ہو میوڈ اکٹر مرزا نصیر احمد شریف صاحب (معلم سلسلہ )

4۔ مکرم مرزارشید احمد طاہر صاحب حال یوکے

5۔ خاکسار فہیم احمد خادم (مربی سلسلہ۔ گھانا)

اللہ کے فضل سے ان کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی تعداد 22ہے جس میں سے دو پوتے اور ایک نواسہ مربی سلسلہ بن کر خدمت دین کی توفیق پا رہے ہیں اورایک پوتااس وقت جامعہ احمدیہ یوکے میں زیر تعلیم ہے۔

ہماری دعا ہے کہ اللہ ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی آئندہ نسل کو ا ن کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button