سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پاکیزہ اور مقدّس ومطہرّجوانی

ایک معمر ہندو جاٹ کی شہادت

یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے

حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ نے اپنی کتاب تذکرة المہدی حصہ دوم میں لکھا ہے کہ قادیان کے پاس گاؤں کا ایک ہندو جاٹ جو عرصہ ہوا فوت ہو گیا ہے اور وہ بہت معمر آدمی تھا مجھ سے بیان کرتا تھا کہ میں مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب) سے بیس سال بڑا ہوں اور بڑے مرزا صاحب (یعنی حضرت صاحب کے والدصاحب) کے پاس میرا بہت آنا جانا رہتا تھا۔میرے سامنے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی بڑا افسر یا رئیس بڑے مرزا صاحب سے ملنے کیلئے آتا تھا تو باتوں باتوں میں ان سے پوچھتا تھا کہ مرزا صاحب!آپ کے بڑے لڑکے (یعنی مرزا غلام قادر ) کے ساتھ تو ملاقات ہو تی رہتی ہے لیکن آپ کے چھوٹے بیٹے کو کبھی نہیں دیکھا۔وہ جواب دیتے تھے کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے لیکن وہ الگ الگ ہی رہتا ہے اور لڑکیو ں کی طرح شرم کرتا ہے اور شرم کی وجہ سے کسی سے ملاقات نہیں کرتا۔پھر وہ کسی کو بھیج کر مرزا صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعو علیہ السلام) کو بلواتے تھے۔ مرزا صاحب آنکھیں نیچے کئے ہوئے آتے اور اپنے والد سے کچھ فاصلہ پر سلام کر کے بیٹھ جاتے۔بڑے مرزا صاحب ہنستے ہو ئے فرماتے کہ لو اب تو آپ نے اس دلہن کو دیکھ لیا ہے اور پیر صاحب نے لکھا ہے کہ وہی ہندو جاٹ ایک دفعہ قادیان آیا اس وقت ہم بہت سے آدمی گول کمرے میں کھا ناکھا رہے تھے۔اس نے پوچھا کہ مرزا جی کہاں ہیں؟ ہم نے کہا اندر ہیں اورچونکہ اس وقت آپ کے باہر تشریف لانے کا وقت نہیں ہے اس لئے ہم بلا بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ کام میں مشغول ہو نگے۔جب وہ تشریف لائیں گے مل لینا۔اس پر اس نے خودہی بے دھڑک آواز دیدی کہ مرزا جی ذرا باہر آؤ۔حضرت اقدس برہنہ سر اسکی آواز سن کر باہر تشریف لے آئے اور اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا سردار صاحب! اچھے ہو،خوش ہو۔بہت دنوں کے بعدملے۔ اس نے کہا ہاں میں خوش ہوں مگر بڑھاپے نے ستا رکھا ہے۔چلنا پھرنا بھی دشوار ہے پھر زمینداری کے کام سے فرصت کم ملتی ہے۔مرزا جی آپ کو وہ پہلی باتیں بھی یاد ہیں۔بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا مسیتڑ ہے۔نہ نوکری کرتا ہے نہ کماتا ہے اور پھر وہ آپ کو ہنس کر کہتے تھے کہ چلو تمہیں کسی مسجد میں مُلّا کروا دیتا ہوں۔دس من دانے تو گھر میں کھانے کو آجایا کریں گے۔پھر آپ کو وہ بھی یاد ہے کہ بڑے مرزا صاحب مجھے بھیج کر آپ کو اپنے پاس بلا بھیجتے تھے۔اور آپ کو بڑے افسوس کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔کہ افسوس میرا یہ لڑکا دنیا کی ترقی سے محروم رہا جاتا ہے۔آج وہ زندہ ہوتے تو یہ چہل پہل دیکھتے کہ کس طرح ان کا وہی مسیتڑ لڑکا بادشاہ بنا بیٹھا ہے۔ اور بڑے بڑے لوگ دور دور سے آکر اس کے در کی غلامی کرتے ہیں۔حضرت اقدس اس کی ان باتوں کو سُن کر مسکراتے جاتے تھے اور پھر آخر میں آپؑ نے فرمایا۔ہاں مجھے یہ ساری باتیں یاد ہیں۔یہ سب اللہ کا فضل ہے ہمارا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور پھربڑی محبت سے اسے فرمایا کہ ٹھہرو میں تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہوں اور یہ کہہ کر آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے۔ پیر صاحب لکھتے ہیں کہ پھر وہ بڈھا ہندو جاٹ میرے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔اور کہنے لگا کہ بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے کہ میرا یہ لڑکا ملّا ہی رہے گا اور مجھے فکر ہے کہ میرے بعد یہ کس طرح زندگی بسر کرے گا۔ہے تو وہ نیک مگر اب زمانہ ایسا نہیں۔چالاک آدمیوں کا زمانہ ہے۔ پھر بعض اوقات آب دیدہ ہو کر کہتے تھے کہ غلام احمد نیک اور پاک ہے۔جو حال اس کا ہے وہ ہمارا کہاں ہے۔یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے۔یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے۔پیر صاحب کہتے ہیں کہ یہ باتیں سناتے ہوئے وہ بڈھا ہندو خود بھی چشم پر آب ہو گیا اور کہنے لگا آج مرزا غلام مرتضیٰ زندہ ہوتا تو کیا نظارہ دیکھتا؟

( ماخوذ ازتذکرة المہدی حصہ دوم صفحہ 298 تا 302)

المساجد مکانی…مسجدمیراگھرہے

آپؑ کی سوانح پرغورکرنے والایہ نتیجہ نکالنے میں دیرنہیں کرے گا کہ آپؑ کی روح کی غذا نماز ہی تھی۔اور مسجد میں دیرتک رہنا بلکہ وہیں رہنا آپؑ کو محبوب تھا۔یہی وہ طبعی رجحان تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ نے ایک مرتبہ اپنی یادداشت میں لکھاکہ

اَلْمَسَاجِدُ مَکَانِی وَخَلْقُ اللّٰہِ عَیَالِیْ

[سیرت حضرت مسیح موعودؑ از عرفانی صاحب (جلدپنجم)ص 598]یعنی مساجد میراگھر ہیں اور اللہ کی مخلوق میرا گھربار اور کنبہ ہے۔

آپؑ کا نمازوں اور عبادات کے للی گھنٹوں مسجد میں رہنا آپؑ کو محبوب تھا۔اکثر آپؑ عبادات کے لئے مسجدمیں ہی رہتے۔آپؑ کا مسجدمیں اس طرح چمٹے رہنا ہی تھا کہ آپؑ کو ’’مسیتڑ‘‘کہاجانے لگا۔آپؑ کے والد بزرگوار بھی آپ کی اس عادت کاتذکرہ ایک پیاربھرے اندازمیں کرتے ہیں۔چنانچہ حضرت معراج الدین عمر احمدی صاحب نےجب حضرت اقدسؑ کی اجازت سے 1906ء میں براہین احمدیہ کا ایک ایڈیشن شائع کیا تو اس میں پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل آپؑ کے مقدس سوانح بھی مختصر طورپرتحریرفرمائے۔اس میں آپ ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگر کبھی اتفاق سے اُن سے [آپؑ کے والد ماجد سے۔ ناقل] کوئی دریافت کرتا کہ مرزاغلام احمدکہاں ہیں؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ مسجد میں جاکر سقاوہ کی ٹوٹنی میں تلاش کرو۔اگروہاں نہ ملے تومایوس ہوکر واپس مت آنا۔مسجد کے اندر چلے جانا اوروہاں کسی گوشہ میں تلاش کرنا اگروہاں بھی نہ ملے تو پھر بھی ناامید ہوکرلوٹ مت آنا کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اسکو لپیٹ کر کھڑا کرگیا ہوگا۔کیونکہ وہ تو زندگی میں مراہوا ہے۔اور اگر کوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔‘‘ (’’براہین احمدیہ‘‘(حضرت مسیح موعودؑ کے مختصر حالات )شائع کردہ میاں معراج الدین عمرؓ صاحب صفحہ67)

آپؑ کی پاکیزہ جوانی اور مقدس شباب کے متعلق چند مزید شہادتیں

قادیان کے ماحول کی کچھ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ حضوراقدسؑ نے اپنی جوانی کا ایک حصہ جو کہ کم وبیش سات سال تک محیط تھا۔سیالکوٹ میں گزارا۔ وہاں آپؑ نے اپنے شب وروز کیسے گزارے۔ سیالکوٹ کے معتبراور بزرگ سمجھے جانے والے چند افراد کی شہادتیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔

سیالکوٹ کے حکیم مظہرحسین صاحب

سیالکوٹ میں ایک صاحب حکیم مظہر حسین تھے جو اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت پر دشمنان احمدیت کی صف اول میں چلے گئے اور انہوں نے بطرزِ ناول حضرت مسیح موعودؑ کے بعض واقعات پر معاندانہ اعتراض بھی کیے تاہم حضور کے زمانہ سیالکوٹ کی پاکیزہ یاد کو وہ مخالفت کے ہجوم میں بھی فراموش نہیں کر سکے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

’’ثقہ صورت، عالی حوصلہ اور بلند خیالات کا انسان اپنی علوہمتی کے مقابل کسی کا وجود نہیں سمجھتا۔ اندر قدم رکھتے ہی وضو کے لیے پانی مانگا اور وضو سے فراغت پاکر نمازمغرب ادا کی۔ وظیفہ میں تھے۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 158)

جوانی میں بھی نہایت صالح

مشہور مسلم لیڈر مولوی ظفر علی صاحب آف ’’زمیندار‘‘اخبار کے والد بزرگوار منشی سراج الدین صاحب مرحوم نے بیان کیا:

’’مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر 22۔ 23سال ہوگی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے۔‘‘(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 94)

خداتعالیٰ کے خاص بندے

شمس العلماء مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم جو کہ سیالکوٹ ہی میں نہیں ہندوستان بھر میں علوم مشرقی کے بلند پایہ عالم اور مسلمانوں میں ایک نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے۔ شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ایسے شہرہ آفاق فلسفی شاعر ابتدا میں آپ ہی سے شرف تلمذرکھتے تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز رہا۔جن دنوںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سیالکوٹ میں قیام پذیر تھے مولانا صاحب موصوف کو بھی حضور سے اکثر ملاقات کا موقعہ ملتا تھا۔ مولوی صاحب نے اس زمانہ میں حضور کو بڑے قریب سے مطالعہ کیا اور دیکھا۔ وہ سرسید تحریک کے دلدادہ تھے مگر ان کے دل پر حضور کی بزرگی، تقدس اور تقویٰ کا غیر معمولی اثر تھا اور وہ حضرت اقدس علیہ السلام کی بے حد عزت کیا کرتے تھے۔ ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ سیالکوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ادنیٰ تامل سے بھی دیکھنے والے پر واضح ہوجاتا تھا کہ حضرت اپنے ہر قول وفعل میں دوسروں سے ممتاز ہیں۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت280)

ایک دفعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سیالکوٹ میں ان سے ملے تو انہوں نے چشم پر آب ہو کر فرمایا:

’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خدا تعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں۔‘‘(الحکم 7اپریل1934ء جلد37 نمبر12ص3)

مولانا سید میر حسن صاحب مرحوم نے حضور کے قیام سیالکوٹ کے متعلق دو مفصل بیانات بھی لکھے جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ سیالکوٹ پر تفصیلی روشنی پڑتی ہے اور جنہیں کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا بلکہ حق یہ ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ میں یہ قیمتی معلومات بنیادی لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ دونوں بیانات سیرت المہدی میں شائع شدہ موجودہیں۔ان میں آپ بیان فرماتے ہیں:

’’حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اورقیام فرمایا۔ چوں کہ آپ عزلت پسند اور پارسا اورفضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے اس واسطے عام لوگوں کی ملاقات جو اکثر تضیع اوقات کا باعث ہوتی ہے آپ پسند نہیں فرماتے تھے…… شہر کے بزرگوں سے ایک مولوی صاحب محبوب عالم نام سے جو عزلت گزین اور بڑے عابد اور پارسا اور نقشبندی طریق کے صوفی تھے مرزا صاحب کو دلی محبت تھی…ان دنوں میں پنجاب یونیورسٹی نئی نئی قائم ہوئی تھی۔ اس میں عربی استاد کی ضرورت تھی جس کی تنخواہ ایک سو روپیہ ماہوار تھی۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ آپ درخواست بھیج دیں چونکہ آپ کی لیاقت عربی زباندانی کی نہایت کامل ہے آپ ضرور اس عہدہ پر مقرر ہوجائیں گے۔ فرمایا ’’میں مدرسی کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ اکثر لوگ پڑھ کر بعدازاں بہت شرارت کے کام کرتے ہیں اورعلم کو ذریعہ اور آلہ ناجائز کاموں کا بناتے ہیں۔ میں اس آیت کے وعید سے بہت ڈرتا ہوں

اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَھُمْ (الصّٰفّٰت:23)

اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسے نیک باطن تھے…‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 150)

پھر ایک اور روایت وہ یہ کرتے ہیں کہ

’’حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُر معاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے۔ کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر،کھڑے ہو کر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر280)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button