حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید کی اہمیت اور اِس کے اغراض ومقاصد (قسط سوم)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں مَیں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر احمدی جس نے دفتر اوّل میں حصہ لیا ہے اُسے کوشش کرنی چاہئے کہ کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے والا کھڑا کرے۔ جس طرح آپ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی جسمانی نسل جاری رہے اِسی طرح آپ لوگوںکو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کی روحانی نسل جاری رہے۔ اور روحانی نسل کو بڑھانے کا ایک طریق یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو تحریک جدید کے دفتر اوّل میں حصہ لے چکا ہے وہ عہد کرے کہ نہ صرف آخر تک وہ خود پوری باقاعدگی کے ساتھ اس تحریک میں حصہ لیتا رہے گا بلکہ کم سے کم ایک آدمی ایسا ضرور تیار کرے گا جو دفتر دوم میں حصہ لے اور اگر وہ زیادہ آدمی تیار کر سکے تو یہ اَور بھی اچھی بات ہے۔ دنیا میں لوگ صرف ایک بیٹے پر خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اُن کے پانچ پانچ، سات سات بیٹے ہوں جس طرح دنیامیں لوگ اپنے لئے پانچ پانچ، سات سات بیٹے پسند کرتے ہیں اِسی طرح ہر شخص کو یہ کوشش کر نی چاہئے کہ وہ تحریک جدید کے دفتر دوم میںحصہ لینے والے پانچ پانچ، سات سات نئے آدمی تیار کرے۔ پھر دوسرے دفتر میں حصہ لینے والا ہر شخص کوشش کرے کہ وہ تیسرے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی کھڑے کرے اور تیسرے دفتر میں حصہ لینے والا شخص کوشش کرے کہ وہ چوتھے دفتر کے لئے پانچ پانچ، سات سات آدمی تیار کرے تاکہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے اور اِس روپیہ سے تبلیغ کے نظام کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جا سکے۔ اگر دوست زیادہ آدمی تیار نہ کرسکیں تو کم از کم ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے ایک آدمی ضرور تیار کرے ورنہ روحانی لحاظ سے وہ بے نسل سمجھا جائے گا اور دین کی اشاعت کا کام جو اُس نے شروع کیا تھا وہ اُس کی ذات کے ساتھ ہی منقطع ہو جائے گا۔

پس جماعت کو دفتر دوم کی طرف بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے۔ تحریک جدید کے دَورِ اوّل میں حصہ لینے والوں میں سے ہر فرد کا دفتردوم کے لئے کم ازکم ایک آدمی تیار کرناایسا ہی ہے جیسے روحانی اولاد کی زیادتی میںحصہ لینا۔ اِس طرح قیامت تک یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چلتا جائے گا اور جماعت کے لئے دائمی ثواب اور خدا تعالیٰ کے قرب کا ایک دائمی رستہ کھلا رہے گا۔

اللہ تعالیٰ اگر انسان کو توفیق عطا فرمائے تو وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے لفظ اور ایک چھوٹے سے چھوٹے اشارہ سے بھی وہ کچھ سمجھ لیتا ہے جو بڑی بڑی کتابوں اور تقریروں سے بھی اُسے حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انسان شیطانی حملہ سے کُلّی طور پر محفوظ ہو جاتا ہے اور روحانی میدان میں وہ کسی طرح شکست نہیں کھا سکتا۔ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ یہ بات بیان کی ہے کہ حضرت خلیفہ اوّل بہت بڑے عالم تھے اور آپ ساری عمر ہی درس و تدریس میں مشغول رہے۔ اور پھر مجھے بھی آپ نے بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ پڑھایا اور میری تعلیم کا خاص طور پر خیال رکھا لیکن اصل سبق جو انہوں نے مجھے دیا اور جس کو میں آج تک نہیں بھولا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے انسان کو اسی سے علوم سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اپنی ذات میں ایک ایسا نکتہ ہے کہ اس کے لئے میں اُن کا جتنا بھی ممنون ہوں کم ہے اور جتنا بھی اس نصیحت پر عمل کیا جائے تھوڑا ہے۔

مجھے یا د ہے حافظ روشن علی صاحب اور میں دونوں حضرت خلیفہ اوّل سے پڑھا کرتے تھے بعض اَور دوست بھی ہمارے اس سبق میں شریک تھے۔ حافظ صاحب کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر بال کی کھال اُدھیڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ ابھی ہم نے بخاری کا سبق شروع ہی کیا تھا اور صرف دو چار سبق ہی ہوئے تھے کہ حضرت خلیفہ اوّل ان کے سوالوں سے تنگ آ گئے۔ وہ سبق کو چلنے ہی نہیں دیتے تھے پہلے ایک اعتراض کرتے اور جب حضرت خلیفہ اوّل اس کا جواب دیتے تو وہ اس جواب پر اعتراض کر دیتے۔ پھر جواب دیتے تو جواب الجواب پر اعتراض کر دیتے اور اِس طرح اُن کے سوالات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میری عمر اُس وقت بیس اکیس سال کی تھی اور طبیعت بھی تیز تھی۔ حافظ صاحب کو سوالات کرتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ میں کیوں پیچھے رہوں۔ چنانچہ چوتھے دن میں نے بھی سوالات شروع کر دیئے۔ ایک دن تو حضرت خلیفہ اوّل چپ رہے مگر دوسرے دن جب میں نے بعض سوالات کئے تو آپ نے فرمایا حافظ صاحب کے لئے سوالات کرنے جائز ہیں تمہارے لئے نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ دیکھو! تم بڑی مدت سے مجھ سے ملنے والے ہو اور تم میری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہو کیا تم کہہ سکتے ہو کہ میں بخیل ہوں یا کوئی علم میرے پاس ایسا ہے جسے میں چھپا کر رکھتا ہوں؟ میں نے کبھی کوئی بات دوسروں سے چھپا کر نہیں رکھی جو کچھ آتا ہے وہ بتا دیا کرتا ہوں۔ اب خواہ تم کتنے اعتراض کرو، میں نے تو بہرحال وہی کچھ کہنا ہے جو میں جانتا ہوں اس سے زیادہ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ اب کسی بات کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو جو بات میں نے بتائی ہے وہ معقول ہے تم اسے سمجھے نہیں اور یا پھر جو بات میں نے بتائی ہے وہ غلط ہے اور تمہارا اعتراض درست ہے۔ اگر تو جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ غلط ہے تو یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میں بددیانتی سے تم کو دھوکا دینے کے لئے کوئی بات نہیں کہتا میں جو کچھ کہتا ہوں اسے صحیح سمجھتے ہوئے ہی کہتا ہوں۔ ایسی صورت میں خواہ تم کتنے اعتراض کرو میں تو وہی کچھ کہتا چلا جاؤں گا جو میں نے ایک دفعہ کہا اور اگر میں نے جو کچھ کہا ہے وہ درست ہے تو اس پر اعتراض کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ ایسی حالت میں اگر تم اعتراض کرو گے تو اس سے تمہاری طبیعت میں ضد پیدا ہوگی کوئی فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ تم سوالات نہ کیا کرو بلکہ خود سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر کوئی بات تمہاری سمجھ میں آجائے تو اسے مان لیا کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ وہ خود تمہیں سمجھائے اور اپنے پاس سے علم عطا فرمائے۔ اس نصیحت کے بعد مَیں نے پھر حضرت خلیفہ اوّل سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ کچھ دن گزرے تو آپ نے حافظ صاحب کو بھی ڈانٹ دیا کہ وہ دورانِ سبق سوالات نہ کیا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے روزانہ بخاری کا آدھ آدھ پارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ بے شک اور علوم بھی ہم پڑھتے تھے لیکن بہرحال آدھ پارہ روزانہ تبھی ختم ہو سکتا ہے جب طالب علم اپنے منہ پر مُہر لگالے اور وہ فیصلہ کرلے کہ میں نے استاد سے کچھ نہیں پوچھنا۔ جو کچھ وہ بتائے گا اسے سنتا چلا جاؤں گا۔ پس علمِ حقیقی جوہر قسم کے شبہات و و ساوس کا ازالہ کر سکتا ہو اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے اور وہی قوم دنیا میں علم کو وسیع طور پر پھیلا سکتی ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق ہو کہ خدا تعالیٰ اسے اپنے پاس سے علم سکھائے اور اس کی ہر مشکل کو دور کرے۔

میں بچہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ابھی زندہ تھے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا جو میں نے بارہا سنایا ہے مگر وہ رؤیا ایسا ہے کہ اگر میں اُسے لاکھوں دفعہ سناؤں تب بھی کم ہے اور اگر تم اسے لاکھوں دفعہ سنو تب بھی کم ہے، پھر اگر تم لاکھوں دفعہ سُن کر اس پر لاکھوں دفعہ غور کرو تب بھی اس کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کم ہوگا۔ مَیں نے دیکھا کہ مَیں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ یکدم مجھے آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے انگلی سے ٹھکور دیں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کٹورے کو انگلی ماری ہے اور اس میں سے ٹن کی آوازپیدا ہوئی ہے۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی جیسا کہ آوازیں ہمیشہ جوّ میں پھیلا کرتی ہیں۔ پہلے تو وہ آواز مجھے سمٹی ہوئی معلوم ہوئی مگر پھر دُور دُور تک پھیلنی شروع ہوگئی جب وہ آواز تمام جوّ میں پھیلنے لگی تو میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ آواز ساتھ ہی ساتھ ایک نظارہ کی شکل میں بدلتی چلی گئی۔ گویا وہ خالی آواز ہی نہ رہی بلکہ ساتھ ہی ایک نظارہ بھی پیدا ہو گیا۔ رفتہ رفتہ آواز بھی غائب ہوگئی اور صرف نظارہ رہ گیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ نظارہ سمٹ سمٹا کر تصویر کا ایک فریم بن گیا۔ اُس فریم کو میں حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ عجیب تماشا ہے کہ پہلے آسمان سے ایک آواز پیدا ہوئی، پھر وہ آواز جوّ میں پھیلی، پھیل کر نظارہ بنی اور پھر اس نظارے نے تصویر کے ایک چوکھٹے کی صورت اختیار کر لی۔ اس فریم کی درمیانی جگہ خالی ہے گتے تو لگے ہوئے ہیں مگر تصویر کوئی نہیں۔ مَیں اس فریم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ بات کیا ہے کہ اس فریم میں کوئی تصویر نہیں۔ مگر ابھی کچھ لمبا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس فریم کے اندر ایک تصویر نمودار ہوگئی ہے۔ اِس پر مَیں زیادہ حیران ہوا اور مَیں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ کس کی تصویر ہے۔ ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھاکہ تصویر ہلنی شروع ہوئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یکدم اس میں سے ایک وجود کُود کر میرے سامنے آ گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں کیا مَیں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں۔ مَیں نے کہا اگر تم مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دو تو اور کیا چاہئے۔ اُس نے کہا تو پھر سنو۔ چنانچہ مَیں بھی کھڑا ہوں اور وہ بھی۔ اُس نے تفسیر بیان کرنا شروع کر دی اور مَیں اسے سنتا رہا۔ جب وہ

اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ

پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین نے تفسیریں لکھی ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے۔ آگے تفسیر نہیں لکھی۔ مجھے خواب میں فرشتہ کی اس بات پر حیرت محسوس ہوتی ہے مگر زیادہ حیرت نہیں۔ جاگتے ہوئے تو اگر کوئی شخص ایسی بات کہے تو دوسرا فوراً شور مچانے لگ جائے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ مفسرین نے تو سارے قرآن کی تفسیریں لکھی ہیں مگر خواب میں مجھے فرشتہ کی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی اور مَیں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ میں تمہیں آگے بھی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں سکھاؤ۔ چنانچہ اس نے

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ

تک ساری تفسیر سکھا دی اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس وقت مجھے فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے دو تین باتیں یاد تھیں لیکن چونکہ دو تین بجے کا وقت تھا مَیں بعد میں پھر سو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب مَیں دوبارہ اُٹھا تو مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ صبح اُٹھ کر میںحضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھنے کے لئے گیا، اُس وقت حضرت خلیفہ اوّل مجھے طب پڑھایا کرتے تھے، بخاری غالباً ابھی شروع نہیں کی تھی یا شاید شروع کی ہوئی ہو (مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں) میں نے آپ سے کہا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اس رؤیا کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ یہ رؤیا سنتے وقت حضرت خلیفہ اوّل کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا۔ جب رؤیا ختم ہوا تو آپ نے فرمایا اُن باتوں میں سے کچھ ہمیں بھی سناؤ جو فرشتہ نے تمہیں سکھائی ہیں۔ میں نے کہا دو تین باتیں مجھے یاد تھیں مگر چونکہ بعد میں مَیں سو گیا اس لئے وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں۔ اِس پر حضرت خلیفہ اوّل ناراض ہو کر فرمانے لگے تم نے بڑی غفلت کی کہ فرشتہ کی سکھائی تفسیر کو بُھلا دیا۔ اگر تمہیں ساری رات بھی جاگنا پڑتا تو تمہیں چاہئے تھاکہ تم جاگتے اور اُن باتوں کو لکھ لیتے، سونے کے بعد تو خواب بدل جایا کرتا ہے۔ اُس وقت میرے دل میں بھی ندامت پیدا ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر میں فرشتہ کی بتائی باتوں کو لکھ لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ پہلے کسی اَور تاویل کی طرف میرا ذہن نہیں جاتا تھا مگر بعد میں مَیں نے دیکھاکہ اللہ تعالیٰ کا متواتر میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ جب میں سورہ فاتحہ پر غور کروں تو وہ ہمیشہ اس سورت کے نئے مطالب مجھ پر کھولتا ہے۔(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button