متفرق

میراگھر میری جنت

(شازیہ باجوہ۔ جرمنی)

میرا جنت نظیر گھرانہ

ایک انسان کی زندگی میں سب سے اہم اور سب سے پیاری جگہ گھر ہے۔گھر خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔نہ صرف انسان بلکہ باقی جاندار بھی خواہ وہ حیوان ہیں، کیڑے مکوڑے ہیں یا پھر چرند پرند ہیں سب کوئی نہ کوئی گھر بناتے ہیں۔اسی لیے کو ئی اپنا گھر درختوں پر بناتا ہے اور کوئی غاروں میں اور کوئی زمین کے اندر بِل بنا کر رہتا ہے اور سب کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ میں دن بھر کے سفر سے تھک ہار کر اپنے گھر جا کر آرام کر سکتا ہوں۔

ہر مخلوق کو اپنا گھر بہت پیارا ہوتا ہے۔آپ نے کبھی چڑیا کو گھونسلا بناتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ کس طرح وہ ایک ایک تنکا اکٹھا کرتی ہے اور اگر کوئی اسے خراب کرنے کی کوشش کرے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے اور وہ کس طرح شور مچاتی ہے۔ کیونکہ گھر بنانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اس لیے ہر جاندار اپنے گھر سے بہت پیار اور محبت کرتا ہے۔

پھر انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ، اسے ہر طرح کی سمجھ بوجھ عطا فرمائی ،تمام اچھائی اور بُرائی کی تمیز دی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف یہ نہیں کہا کہ وہ حیوانوں کی طرح اینٹوں کی چار دیواری یا مکان بنا کر اس میں رہنا شروع کر دے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیمات اور اپنے انبیاء کے ذریعہ یہ سکھایا کہ اس نے اس مکان کو گھر کیسے بنانا ہے بلکہ ایک جنت نظیر گھر کیسے بنانا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کی تعلیمات میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ اس کے لیے ہمارے پیارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے نمونے سے ہمیں یہ سکھایا کہ ہم اپنے گھروں کو جنت نظیر کیسے بنا سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہر وہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن پاک میں دی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کے نمونے ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ذمہ داریوں کے باوجود گھر کے کاموں میں ازواجِ مطہرات کی مدد فرمایا کرتے تھے۔سودا سلف بازار سے خود اٹھا کر لاتے،اپنے کپڑوں کو خود پیوند لگا لیتے،بکریوں کا دودھ دوہتے یہاں تک کہ چولہے میں آگ جلانے میں بھی مدد فرماتے۔رات کو اگر دیر سے گھر آتے تو کسی کو نہ جگاتے اور خود ہی کھانا تناول فرمالیتے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مدد فرماتے تھے،بچوں کو اٹھاتے،انہیں بہلاتے،بارش آنے پر چارپائیاں اور بستر اندر کرنے میں مدد فرماتے۔

ایک گھر کو خوبصورت ماحول دینے کے لیے سب سے پہلے میاں بیوی کا آپس میں پیار و محبت کا مضبوط تعلق ہو گا تو پھر ہی تمام کام خوش اسلوبی سے ہو رہے ہوں گے چاہے وہ اولاد کی تربیت ہو یا ماں باپ،بہن بھائیوں،رشتہ داروں، ہمسایوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی بات ہو یا پھر زندگی کے دوسرے معاملات ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو گھر کا نگران بنایا ہے۔ اس لیے گھر کے ہر فرد کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جو بھی گھر کا سربراہ ہے اس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ گھر کا ماحول پُرسکون اور خوشگوار رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جہاں مرد کو سربراہ بنایا ہے وہاں اس پر ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔اس لیے مرد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو خدا تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے احسن رنگ میں پورا کرنے کی کوشش کرے اور خدا کا شکر ادا کرے کہ اُس نے یہ ذمہ داری مجھے دی اور مجھے اتنی طاقت بخشی ۔پھرجہاں خاوند کو ایک سربراہ ہونے کی حیثیت سے بہت ساری ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں وہاں ایک عورت نے بھی ایک ماں اور بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ اسی طرح گھر کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ ماں باپ ہوں یا میاں بیوی،بہن بھائی ہوں یا بچے سب کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی۔جب سب اپنے حصے کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہوں گے تو یقیناً ہمارا گھرانہ ایک جنت نظیر گھرانہ ہو گا۔

عورتوں اور مردوں کی ذمہ داریوں کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے مرد کے قویٰ کو جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے۔اس لئے اس کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی عورت سے زیادہ ہیں،اس سے ادائیگی حقوق کی زیادہ توقع کی جاتی ہے۔عبادات میں بھی اس کو عورت کی نسبت زیادہ مواقع مہیا کیے گئے ہیں۔اور اس لئے اس کو گھر کے سر براہ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔اور اسی وجہ سے اس پر بحیثیت خاوند کے بھی اہم ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔ اوراسی وجہ سے بحیثیت باپ بھی اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ اور ان ذمہ داریوں کو نبھانے کا حکم دیا۔کہ تم نیکیوں پر قائم ہو۔ تقویٰ پر قائم ہو اور اپنے گھر والوں کو اپنی بیویوں کو اپنی اولادوں کو تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے نمونہ بنو۔ اور اس کے لئے اپنے ربّ سے دعا مانگو۔اس کے آگے روؤ،گِڑ گڑائو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کروکہ اے اللہ اُن راستوں پر ہمیشہ چلاتا رہ جو تیری رضا کے راستے ہیں۔کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ ہم بحیثیت گھر کے سربراہ کے ایک خاوند اور ایک باپ کے حقوق ادا نہ کر سکیں۔ اور اس وجہ سے تیری ناراضگی کا موجب نہ بنیں۔ تو جب انسان سچے دل سے یہ دُعا مانگے اور اپنے اعمال سے بھی اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔تو اللہ تعالیٰ ایسے گھروں کو برباد کرتا ہے اور نہ ہی اس کی اولاد ان کے لئے بد نامی کا موجب بنتی ہے۔اور اس طرح گھر جنت کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 16؍جولائی2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےایک اور موقع پرفرمایا: ’’سب سے پہلے تو یہی ہے کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔اپنے گھروں کو محبت و پیار کا گہوارہ بنائیں۔اور اولاد کا حق ادا کریں۔اُن کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں۔ ایک دوسرے کے ماں باپ، بہن بھائی سے محبت کا تعلق رکھیں۔ اُن کے حقوق ادا کریں۔اور یہ صرف عورتوں کی ہی ذمہ داری نہیں۔بلکہ مردوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس طرح جو معاشرہ قائم ہو گا وہ پیار و محبت اور رواداری کا معاشرہ قائم ہو گا۔ اس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہو گی۔ہر عورت اور ہر مرد ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے قربانی کی کوشش کررہا ہو گا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میری تعلیم ہے۔یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں۔یہ عورت و مرد کی ذمہ داریاں ہیں۔جو فطرت کے عین مطابق ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو۔اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنو گے۔ تمہیں قطعاً مغربی معاشرے سے متاثر ہونے اور اُن کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ وہ تم سے متاثر ہوں گے اور کچھ سیکھیں گے،اسلام کی خوبیاں اپنائیں گے۔‘‘

(مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی بحوالہ الفضل 29؍ اگست 2003ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اسلام کی پاکیزہ اور پُر حکمت تعلیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے گھروں کو جنت بنائیں اور اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضل فرماتے ہوئے ہمارے گھروں کو ہمارے لیے امن وسلامتی ،پیار اور محبت کا گہوارہ بنادے۔ اور ہمارے گھر ہمارے لیے ایسی جنت ہوں جس میں نہ صرف ہم اپنے آ پ کو اپنے اہل و عیال کو خوش رکھیں بلکہ ہمارا پیارا خدا بھی ہم سے راضی ہو اور ہمیں ہماری زندگی کے ساتھیوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button