حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کی صفت الکافی کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تائید و حفاظت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہﷺ کی پیروی میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ ہر احمدی پر بڑا واضح اور عیاں ہے۔ جیساکہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفت کَافِی کے حوالہ سے ذکر کیا تھا کہ عشق و محبت کے اس اعلیٰ مقام کی وجہ سے جو آپؑ کو آنحضرتﷺ سے تھا، آپؑ اللہ تعالیٰ کے انتہائی پیارے بن گئے اور آپ کے بے شمار الہامات جن میں عربی، اُردو وغیرہ کے الہامات شامل ہیں، اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض قرآنی آیات کے حصے جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا آپؑ کو الہاماً بتائے اور جماعت احمدیہ پر طلوع ہونے والا ہر دن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ کے الہامات یقیناً سچے اور آپؑ کا دعویٰ یقیناً سچا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا، خاص طور پرنبوت کا جھوٹ منسوب کرنے والا کبھی بچ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ اصول قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی سورۃ الحاقہ کی آیات میں فرماتا ہے

وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِیْنَ(الحاقۃ: 45-48)

یعنی اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم ضرور اسے داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے۔ پھر ہم یقینا ًاس کی رگ جان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی ایک بھی (ہمیں ) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔
پس یہ ایک اصولی معیار ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس معیار کو اپنی سچائی کے طورپر پیش فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’صادق کے لئے خداتعالیٰ نے ایک اور نشان بھی قرار دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کو فرمایا کہ اگر تُو مجھ پر تَقَوَّلَ کرے تو مَیں تیرا داہنا ہاتھ پکڑ لوں۔ اللہ تعالیٰ پر تَقَوَّل کرنے والا مفتری فلاح نہیں پا سکتا بلکہ ہلاک ہو جاتا ہے اور اب پچیس سال کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ خداتعالیٰ کی وحی کو مَیں شائع کر رہا ہوں۔ اگر افتراء تھا تو اس تَقَوَّلَ کی پاداش میں ضروری نہ تھا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرتا؟ بجائے اس کے کہ وہ مجھے پکڑتا اس نے صد ہا نشان میری تائید میں ظاہر کئے اور نصرت پر نصرت مجھے دی۔ کیا مفتریوں کے ساتھ یہی سلوک ہوا کرتا ہے؟ اور دجالوں کو ایسی ہی نصرت ملا کرتی ہے؟ کچھ تو سوچو۔ ایسی نظیر کوئی پیش کرو اور مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہرگز نہ ملے گی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 89جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 30؍جنوری2009ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button