متفرق مضامین

تعلیم الاسلام ہائی سکول

(مرزا دانیال احمد)

’’ہماری غرض مدرسہ کے اجراسے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے …‘‘

پس منظر

1898ءمیں قادیان میں صرف دو سکول تھے۔ ایک سرکاری سکول جولوئرپرائمری تک تھا۔ اوردوسرا آریہ سکول تھا۔ سرکاری سکول کا ہیڈماسٹرآریہ تھا۔ مسلمانوں کے بچوں کو گمراہ کر نے کے لیے اسلام پربرملاحملے کرتاتھا۔ حضرت صا حبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا بیان ہے کہ

’’اس پرائمری سکول میں مَیں بھی کچھ عرصہ پڑھا ہوں … ایک دن جب میرا کھانا آیا جس میں کلیجی کا سالن تھا تو اسے دیکھ کر ایک طالب علم نے حیرانی سے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا یہ تو ماس ہے جس کا کھانا حرام ہے۔ ‘‘

جب سید نا حضرت مسیح موعودؑ کو اس بات کا علم ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ اب ہمارے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایک اسلامی سکول کھولیں۔

درس گاہ کے لیے تحریک

حضرت مسیح موعودؑ نے 15؍ستمبر 1897ء کو ایک اسلا می درس گاہ کے قیام کی بذریعہ اشتہار تحریک فرمائی۔

چنانچہ حضور نے تحریر فرمایا:

’’اگر چہ ہم دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں کہ لوگ اس سچے معبود پر ایمان لاویں جس پر ایمان لانے سے نور ملتا ہے اور نجات حاصل ہوتی ہےلیکن اس مقصد تک پہنچانے کے لئے علاوہ اُن طریقوں کے جو استعمال کئے جاتے ہیں ایک اور طریق بھی ہےاور وہ یہ ہے کہ ایک مدرسہ قائم ہو کر بچوں کی تعلیم میں ایسی کتابیں ضروری طور پر لازمی ٹھہر ائی جائیں جن کے پڑھنے سے ان کو پتہ لگے کہ اسلام کیا شے ہے اور کیا کیا خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ ‘‘

اس کے انتظامی امور پر سو چنے کے لیے حضورؑ نے ایک کمیٹی مقرر کی۔ جس کے صدر حضرت حکیم الامت مو لوی نورالدین صاحبؓ تھے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس27؍دسمبر 1897ء کو منعقد ہوا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سکول یکم جنوری 1898ء کو کھول دیا جائے۔

لیکن بعض مجبوریوں کے باعث اس کا افتتاح3؍جنوری 1898ء کو ہو ا۔ حضور علیہ ا لسلام نے اس مدرسہ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا کہ

’’ہماری غرض مدرسہ کے اجراسے محض یہ ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کیا جاوے۔ مروجہ تعلیم کو اس لئے ساتھ رکھا ہے۔ تاکہ یہ علوم خادم دین ہوں۔ ‘‘

آغاز میں کوئی خاص عمارت نہ تھی۔ 1899-1900ء میں مزید عمارت بنوائی گئی۔ حضرت نواب محمد علی خاں صاحؓب رئیس مالیر کوٹلہ ہجرت کر کےقادیان تشریف لائے تو حضورؑ نے مدرسہ کا پورا انتظام ان کے سپرد کر دیا۔ پانچ سال تک آپ نے یہ خدمت بڑی خوش دلی سے انجام دی۔ مدرسہ کو ضروری فرنیچر فراہم کی۔

اس مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ تھے۔ اور ابتدائی اساتذہ حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانیؓ نو مسلم ومولوی فضل دین صاحب وغیرہ تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں طلباء کی تعداد 220تک پہنچ گئی تھی۔

پرائمری سکول سے کالج تک

مدرسہ تعلیم الاسلام نے جواپنی ابتدائی شکل میں پرائمری کی صورت میں شروع ہوا خدا کے فضل سے چند سالوں کے اندر اندر بڑی ترقی کی۔ چنانچہ 1898ء میں وہ مڈل سکول بنا۔ فروری 1900ء میں اس کو ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا۔ اور مئی 1903ء میں کالج تک پہنچ گیا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 1تا 5)

کالج کا افتتاح

’’تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح 15؍مئی 1903ء کو قرار پایا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناسازیٔ طبع کے باعث 28؍مئی 1903ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ یہ موجودہ دنیا میں غالباً پہلا کالج تھا جس کی افتتاحی تقریب ہر قسم کی عرفی رسومات سے بالکل منزہ تھی۔ اس موقع پر اگر کالج کی طرف سے حکام کو دعوت دی جاتی تو وہ ضرور شریک ہوتے۔ مگر ایک ایسے مذہبی کالج کے افتتاح پر جس کے قیام کی واحد غرض اسلامی عظمت اور مذہبی تعلیم کی اشاعت ہے حکام کی شمولیت محض تکلف سمجھی گئی۔ چنانچہ نہ اس میں دعوت کے کارڈ جاری ہوئے نہ اس میں کسی پارٹی کا اہتمام کیا گیا بلکہ سیدھے سادھے طریق پر محض دعا کے لئے ایک جلسہ کا انتظام کیا گیا۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 302)

’’کالج میں کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی۔ ’’تعلیم الاسلام کالج ‘‘دو سال تک برابر کا میابی سے چلتا رہا۔ اس کے نتائج بھی عمدہ تھے مگر حکومت کے کا لج یونیو رسٹی کمیشن کی کڑی شرائط کے باعث اسے بند کر دینا پڑا۔ تاہم حضرت امام الز مان علیہ السلام کی دعائیں قریباًچالیس سال بعد پھر رنگ لائیں۔ 1944ء میں قادیان میں ہی دوبارہ اجرا عمل میں آیا۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ304)

تعلیم الاسلام ہائی سکول کی سعادت

تعلیم الاسلام ہائی سکول کو یہ سعادت حاصل ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانیؓ، حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ ایم اے، حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ جیسی برگزیدہ شخصیات ا س ادارہ کے قدیم طلباء میں شامل ہیں۔ حضرت مرزاناصراحمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان میں جبکہ حضرت مرزا مسرور احمدصاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ربوہ میں اس ادارہ کے طالب علم ہیں۔

رسالہ تعلیم الاسلام کا اجراء

جولائی 1906ء میں قادیان سے ایک اور رسالہ ’’تعلیم الاسلام ‘‘جاری ہوا۔ اس سے قبل یہاں سے تین رسائل ’’ریویو آف ریلیجنز ‘‘ (اردو، انگریزی)، طبیب حاذق، اور تشحیذالاذہان نکل رہے تھے۔ اب ان کی تعداد چار ہوگئی ۔اس رسالہ کے ایڈیٹر حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ تھے اور یہ ہیڈ ماسٹرصاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اہتمام سے شائع ہوتا تھا۔ رسالہ کی اصل غرض وغایت تفسیر قرآن تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 472)

1906ء میں مدرسہ کی ضروریات بڑھ گئیں۔ اس کے لیے ساتھ ہی اور زمین خریدی گئی۔ جب یہ زمین بھی ناکا فی ثابت ہوئی تو کمیٹی نے قادیان کے شمال میں ایک وسیع قطعہ اراضی خرید لیا۔ 15؍جون 1912ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کی بنیاد رکھی۔ 1913ء میں ہائی سکول جدید عمارت میں آگیا۔ بعد ازاں 1944ء میں یہ عمارت تعلیم الاسلام کالج کو دے دی گئی۔ پھر نورہسپتال کے ساتھ ایک جگہ پر ہائی سکول تعمیر کیا گیا جو 1947ء تک قائم رہا۔ پھر اس کو چنیوٹ میں شفٹ کردیا گیا۔ مارچ 1952ء کے نصف میں اس کو ربوہ میں منتقل کردیا گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ

’’تعلیم الاسلام کالج ایک وہ درسگاہ تھی جب تک جماعت کے پاس رہی اور خاص طور پر اس زمانہ کے لوگ جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور میں اس میں وقت گزارا کہ کس طرح ماں سے بڑھ کر اس درس گاہ نے ہمیں سنبھالا۔ پس اس درسگاہ کا یہ حق بنتا ہے کہ اس میں پڑھنے والے طلباء جنہوں نے اس کے نام پہ ایک ایسوسی ایشن قائم کی ہے اس کی لاج رکھتے ہوئے جو بھی منصوبے آپ نے بتائے ہیں اس کے پورا کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل 13؍اکتوبر2011ء)

1972ء میں ان اداروں کو نیشنلائزکردیاگیا۔وہ تعلیم الاسلام ہائی سکول جو اپنے علمی ثقافتی اور کھیلوں کی وجہ سے پاکستان کے گنتی کے چند اداروں میں شمار ہوتا تھا۔ اسےنیشلائز کئے جانے کے بعد جان بوجھ کر گرانے کی کوشش کی گئی۔ احمدیت کے مخالفین اساتذہ کو اس سکول میں تعینات کیا گیا۔ جو اسی سکول میں تعلیم پانے والے طلباء کے دینی دشمن تھے۔ اسی دوران اس کی عمارت نہایت خستہ ہوگئی تھی بلکہ کھنڈرات کا نمونہ پیش کررہی تھی۔ اس کی مثال موجود ہ تعلیم الاسلام کالج کی خستہ حال عمارت دی جاسکتی تھی۔ بعض دفعہ دوران تعلیم چھتوں کے پیلر اور اینٹیں بھی طالب علموں پر گریں جس کی وجہ سے تمام سکول کی عمارت گراکر نئے سرے سے تعمیر کی گئی گویہ عمارت سابقہ عمارت کے نصف کے قریب ہے۔ اس وقت ربوہ کے ارد گرد کے طلباء بھی تعلیم پارہے ہیں۔ احمدی طلباء کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

حضور انور نے اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن جرمنی تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’یہ بھی میں آج آپ کو بتادوں کہ سکول اور کالجز کا 1995-96ءمیں فیصلہ ہوا تھا کہ جتنے اداروں کے تنظیموں کے سکول قومیائے گئے ہیں Nationalizeہوئے ہیں وہ واپس کردیئے جائیں گے۔ بشرطیکہ ایک ایک سال کی سٹاف کی تنخواہ جمع کرادی جائے اور عیسائی سکولوں نے جمع کروائی، ان کو کچھ ملے۔ کچھ کراچی میں ہندو پارسیوں کے سکول تھے ان کو ملے۔ ہم نے بھی جمع کروائی، میں اس زمانہ میں ناظر تعلیم ہوتا تھا بڑی کوشش سے ہر جگہ جاکے ،خیر کسی طرح فنڈ اکٹھا کرکے کروڑوں میں رقم تھی وہ جمع کروائی اور جیسے کہ حکومت کی عادت ہے وہ بھی ہضم کرلی اور سکول بھی واپس نہیں ہوئے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل -13اکتوبر 2011ء)

آخر کار جماعت احمدیہ نے مختلف کاوشوں کے بعدربوہ میں کئی نئے تعلیمی ادارہ جات قائم کیے۔ ان میں نصرت جہاں اکیڈمی، نصرت جہاں انٹرکالج، نصرت جہاں اکیڈمی گرلز سکول، ناصر ہائر سیکنڈری سکو ل، بیوت الحمد ہائی سکول، مریم صدیقہ ہائر سیکنڈری سکول، مریم گرلزہائی سکول، Institute for Special Education Rabwah، طاہر پرائمری سکول، نصرت جہاں اکیڈمی(Boys)اوربیوت الحمد پرائمری سکول جیسے عظیم ادارے شامل ہیں جو اَب احمدی طلباء کی علمی ضروریات کو پورا کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں اندرون وبیرون ربوہ مزید تعلیمی ادارے کھولے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی علمی وتعلیمی ضروریات کو ہمیشہ پورا کرتا چلا جائے اور احمدی طلباء کو بہترین پڑھائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button