حضرت مصلح موعود ؓ

ہر کام کی بنیاد حق الیقین پر ہونی چاہئے (قسط دوم۔ آخری)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

یورپین قوموں کی تربیت اس لحاظ سے ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے کہ افسرانِ بالا کی طرف سے جو کام بھی سپرد کیا جائے اسے پوری دیانت اور محنت کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں اور کبھی اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ افسروں کو سکھایا جاتا ہے کہ جب تم کسی کو کوئی آرڈر دو تو پھر اُسے دُہراؤ کیونکہ بعض دفعہ آرڈر کچھ دیا جاتا ہے اور سمجھا کچھ جاتا ہے، اس کے بعد ماتحت کو ہدایت دی جاتی ہے کہ جب تم کام کر چکو تو تمہارا فرض ہے کہ ہمیں اطلاع دو کہ کام ہو گیا ہے۔ مگر میں نے دیکھا ہے ہمارے کارکنوں کو اس بات کی عادت ہی نہیں کہ جب کوئی کام ان کے سپرد ہو تو وہ اس کے متعلق اپنے افسر کو یہ اطلاع دیں کہ کام ہو گیا ہے یا اس میں فلاں فلاں روکیں پیدا ہوگئی ہیں۔ اگر کارکنوں کو اس بات کی عادت ڈلوائی جائے کہ جب کسی کام کے لئے کہا جائے تو واپس آکر ہمیں بتانا ہوگا کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں تو وہ نقائص پیدا نہ ہوں جو اَب ہمارے کاموں میں بعض دفعہ پیدا ہو جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے بہت کچھ اُلجھنیں واقعہ ہو جاتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ضروری کاغذات دفتر کے سپرد کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ متعلقہ دفاتر میں پہنچا دیئے جائیں۔ تین چار منٹ کے بعد فون کیا جاتا ہے کہ کیا وہ کاغذ بھجوا دیئے گئے ہیں ؟ تو کہا جاتا ہے ابھی دریافت کر کے اطلاع دی جاتی ہے۔ پھر دس منٹ کے بعد جواب آتا ہے کہ غلطی ہوگئی رجسٹرمیں اور بھی بہت سی چِٹھیاں اس وقت نقل ہو رہی تھیں اس لئے ان کاغذات کو بھی کلرک نے رکھ لیا اور سمجھا کہ جب اور چِٹھیاں جائیں گی تو یہ بھی چلی جائے گی۔ اب ہدایت دے دی گئی ہے کہ ان کاغذات کو فوراً پہنچا دیا جائے۔ اگر آرڈر دینے کے بعد ہمیشہ اس کو دُہرایا جائے اور کارکن کو سمجھایا جائے کہ اسے کیا حکم دیا گیا ہے تو اس قسم کی غلطیاں کیوں واقعہ ہوں۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ کام کرنے کے بعد ہمیں آکر بتانا ہے کہ کام ہوا ہے یا نہیں تب بھی یہ نقائص واقعہ نہ ہوں اور یہ جواب نہ دینا پڑے کہ مَیں نے تو کہہ دیا تھا اب مَیں دریافت کر کے اطلاع دیتا ہوں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔

غرض پہلی چیز علم الیقین ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے بہت سے کام علم الیقین سے تعلق رکھتے ہیں مگر جب اہم کام پیش آئیں تو اس وقت علم الیقین کی بجائے عین الیقین بلکہ حق الیقین پر اپنے کاموں کی بنیاد رکھنی چاہئے۔ علم الیقین کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ہمیں آ کر یہ خبر دے کہ مَیں فلاں گھر میں گیا تھا وہاں آگ جل رہی تھی۔ جب وہ کہتا ہے آگ جل رہی تھی تو ہمیں اس کے ذریعہ سے ایک علم حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر یہ علم محض سماعی ہوتا ہے۔ کوئی شخص ہمارے پاس آتا اور ہمیں یہ خبر پہنچا جاتا ہے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس نے سچائی سے کام لیا ہے یا کذب بیانی سے۔ لیکن اس کے بعد جب ہم اُس مکان کی طرف جاتے اوردور سے دُھواں اُٹھتے دیکھتے ہیں تو ہمارا علم عین الیقین سے بدل جاتا ہے۔ یا ہم آگ کو جلتا دیکھ لیتے ہیں تب بھی عین الیقین کا مقام ہم حاصل کر لیتے ہیں لیکن اب بھی آگ کی عام تاثیرات ہم پر نہیں پڑتیں ہم صرف دور سے اس کا نظارہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب اس کے بعد ہم اُس آگ میں اپنا ہاتھ ڈال دیتے ہیں تب ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اُس کی گرمی کیسی ہے یہ مقام حق الیقین کہلاتا ہے کہ ہم نے صرف آنکھوں سے آگ کو نہیں دیکھا بلکہ خود اُس آگ میں پڑ کر اس کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔ اسی طرح جب کسی شخص سے ہم نے کہا کہ فلاں کام تمہارے سپرد کیا جاتا ہے اور اُس نے ہمیں آ کر کہہ دیا کہ میں نے وہ کام کر دیا ہے تو کام کے لحاظ سے یہ صرف علم الیقین کا مقام ہوگا اس کے بعد اگر وہ کوئی ثبوت بہم پہنچا دیتا ہے مثلاً ہمارے پاس رسید لے آتا ہے تو ہم عین الیقین کا مقام حاصل کر لیتے ہیں پھر آخر میں جب ہمیں ہر لحاظ سے کام کے متعلق اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جو کام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ واقعہ میں ہو چکا ہے تو ہمیں حق الیقین حاصل ہو جاتا ہے۔

دنیا میں بہت سے لوگ اپنے کاموں کی بنیاد ابتدائی یقین پر رکھتے ہیں اور اس طرح کئی امور میں ٹھوکر کھاتے یا کام کو نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ بہرحال جسے علم الیقین ہوتا ہے اُس سے بہت زیادہ جدوجہد اُس شخص کی ہوتی ہے جسے عین الیقین حاصل ہوتا ہے اور جسے حق الیقین حاصل ہو جائے وہ تو کمال درجہ کی جدوجہد سے کام لینا شروع کر دیتا ہے۔ حق الیقین سے اوپر جو مقام ہے وہ وہی ہے جو

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوشش کا سوال نہیں ہوتا کیونکہ انسان کسی اور کے لئے کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے کرتا ہے اس لئے اس کی جدوجہد دوسرے لوگوں کی جدوجہد کے مقابلہ میں بالکل نرالا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔

غرض انسانی علم اور یقین کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں جو مختلف لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایک متذبذب حالت ہوتی ہے انسان کام تو کرتا ہے مگر کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید ہو جائے اور کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید نہ ہو۔ مثلاً وہ کسی سے اپنے لئے رشتہ مانگنا چاہتا ہے اُس وقت اُس کی حالت متذبذب ہوتی ہے کبھی خیال کرتا ہے کہ شاید وہ شخص رشتہ دے دے اور کبھی خیال کرتا ہے کہ ممکن ہے نہ دے۔ آخر بہت کچھ سوچنے کے بعد وہ درخواست دے دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اگر اس نے درخواست کو ردّ کر دیا تو کسی اور جگہ کوشش کر دیکھوں گا۔ بہرحال اس کی حالت میں تذبذب ہوتا ہے اور ایک خلجان سا اس کی طبیعت میں پایا جاتا ہے۔ اس سے اوپر ایک اور مقام ہوتا ہے جس میں تذبذب تو نہیں ہوتا مگر یقین بھی نہیں ہوتا اس حالت کو ہم ’’یقینی مگر قابلِ تذبذب حالت‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ وہ ظاہر میں سمجھتا ہے کہ مجھے یقین حاصل ہے مگر دراصل اُس کا یقین کمزور ہوتا ہے اور وہ جلد ہی اپنے اصل مقام سے اِدھر اُدھر ہو جاتا ہے۔ جیسے لَیَالِیْ عَشَرَ کی تشریح میں مَیں نے بتایا تھا کہ حضرت ابن عمرؓ سے جب طلحہ بن عبداللہؓ نے کہا کہ اس سے ذِی الحجہ کے ایامِ عرفہ و نحر مراد ہیں تو انہوں نے کہا تم کو کس طرح معلوم ہوا؟ وہ کہنے لگے مجھے یقین ہے۔ اس پر انہوں نے کہا اگر یقین ہے تو مَیں ابھی تم کو شک میں ڈال دیتا ہوں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ جانتے تھے اس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کوئی بات مروی نہیں جو کچھ کہا جاتا ہے رواۃ کی اپنی رائے ہے اس لئے انہیں آسانی سے شبہ ڈالا جا سکتا ہے۔ گویا یہ مقام ایسا ہے جس میں انسان کو شک تو نہیں ہوتا مگر شک کا امکان ہوتا ہے اور گو وہ اپنے مقصد کے لئے زیادہ جدوجہد کرتا ہے مگر ابھی اس کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ دیوانہ وار جدوجہد کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد ایک اور حالت ہوتی ہے جس میں انسان کو یقین تو ہوتا ہے مگر غیر معمولی حالات میں وہ ہِل جانے والا ہوتا ہے اور کبھی انسان کو ایسا مضبوط یقین حاصل ہوتا ہے کہ بیسیوں دلائل اس کے سامنے پیش کئے جائیں وہ گھبراتا نہیں وہ علیٰ وَجہ ِالبصیرت اپنے دعویٰ پر قائم ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بات اس طرح نہیں جس طرح لوگ کہتے ہیں بلکہ اس طرح ہے جس طرح مَیں کہتا ہوں۔ ایسا شخص اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوسروں سے بہت زیادہ کوشش کرتا ہے اور اس کے قدم کو غیر معمولی ثبات حاصل ہوتا ہے۔ وہ بسا اوقات مشکلات و حوادث کے طوفان میں گھر جاتا ہے مگر اُس کے قدم ڈگمگاتے نہیں اور وہ مضبوطی سے اپنے مقام پر کھڑا رہتا ہے۔

غرض جتنا جتنا یقین ہوتا ہے اتنی ہی اس کے مقابلہ میں کوشش کی جاتی ہے۔ جسے قطعی یقین حاصل ہوتا ہے وہ بالکل اور طرح کوشش کرتا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مجنونانہ وار اپنے کام کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے اور کسی بڑی سے بڑی روک کی بھی پرواہ نہیں کرتا وہ سمجھتا ہے کہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ بہرحال ہو جائے گا لیکن جو شخص سمجھتا ہے کہ کام ہو گا ہی نہیں وہ کوشش بھی نہیں کرتا اور اگر کچھ کرتا بھی ہے تو نہایت بے دِلی سے، کیونکہ یہ خیال اُس کے دل میں بیٹھ چکا ہوتا ہے کہ کام تو ہونا ہی نہیں۔ بہرحال ہر ایک کام اپنی اہمیت کے لحاظ سے یقین کا ایک درجہ چاہتا ہے۔ بعض کام متذبذب بھی کر لیتا ہے، بعض قابلِ تذبذب بھی کر لیتا ہے، بعض مضبوط مگر غیر معمولی حالات میں ہِل جانے والا بھی کر لیتا ہے لیکن جسے اپنے کام کے متعلق غیر معمولی یقین حاصل ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ نہ ہو زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر مَیں اپنے کام میں ناکام نہیں ہو سکتا اُس کے پاس چونکہ اپنے نفس کو تسلی دینے یا لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے کوئی عُذر نہیں ہوتا اس لئے وہ سر توڑ کوشش شروع کر دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میری کانشنس بھی مجھے ناکامی پر ملامت کرے گی اور دنیا بھی مجھے ملامت کرے گی۔

(الفضل قادیان 15؍ اپریل 1946ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button