متفرق مضامین

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں قادیان دارالامان سے ہجرت اور قیام ربوہ

(خواجہ محمد افضل بٹ۔ امریکہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ربوہ کے افتتاح کے لئے لگائے جانے والے خیمہ میں نماز پڑھا رہے ہیں

1947ء برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں قیامت صغریٰ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال انتقال اقتدار کی وجہ سے کروڑوں افراد کا تبادلہ ہوا اورفتنہ و فساد کی آگ دیکھتےہی دیکھتے چاروں طرف پھیل گئی۔ بالخصوص مشرقی پنجاب کے نہتے مسلمانوں پر ایسے انسانیت سوز مظالم توڑے گئے جن کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ قتل و غارت کے ان شعلوں نے جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان کے نواح کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب دیکھاکہ مشرقی پنجاب میں رہناناممکن نظرآرہاہے تو حضوررضی اللہ عنہ نے احمدی مسلمانوں کوہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچنے کی ہدایت فرمائی۔ جومہاجرین ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے وہ بالکل بے سروسامانی اوربےکسی کی حالت میں پاکستان پہنچے تھے۔ قادیان اورقادیان کے گردونواح کے احمدی گھرانے ہجرت کرکے جودھامل بلڈنگ لاہورکے ساتھ رتن باغ کے وسیع احاطہ میں آکرٹھہرے تھے۔ ہمارے خاندان کے افرادبھی راستے کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے رتن باغ لاہورپہنچے تھےجہاں عارضی قیام تھا۔

لنگر خانہ کااجراء

مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین سلسلہ احمدیہ کے مہمان ہوتے تھے۔ اور ان کوکھانا وغیرہ دیا جاتا تھا۔ اس غرض کے لیے رتن باغ کے ایک حصہ میں لنگرخانہ کھول دیا گیا تھا۔ اورمکرم ملک سیف الرحمٰن صاحب فاضل ناظر ضیافت مقرر ہوئے اور ان کی امداد کے لیےمکرم شیخ محبوب الٰہی صاحب کا تقرر ناظم سپلائی کی حیثیت سے ہوا۔

(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ26)

احمدی مہاجرین کی اکثریت رتن باغ میں اکٹھی ہو گئی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بھی خاندان حضرت مسیح موعودؑکے افرادکے ساتھ وہاں موجود تھے۔

رتن باغ کی مرکزی حیثیت

رتن باغ کے متعلق تاریخ احمدیت میں مذکورہے کہ

’’جو دھامل بلڈنگ کے ساتھ رتن باغ کا وسیع احاطہ تھا جہاں حضرت سیّدنا المصلح الموعود رضی اللہ عنہ (معہ خواتین مبارکہ کے) فروکش ہو گئے۔ بعد ازاں حضرت مرزا بشیر احمدصاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے چشم و چراغ بھی پاکستان میں ہجرت کرکے آ گئے تو انہیں بھی اپنی پناہ گزینی کے ابتدائی تکلیف دہ ایام یہیں گزارنے پڑے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ15)

جب قادیان اور قادیان کے گرد و نواح کے احمدی گھرانے ہجرت کر کے ’’رتن باغ‘‘پہنچ چکے تو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کا ارشاد موصول ہوا کہ

’’ان سب کو احمد نگر میں بھیج دیا جائے‘‘

حضور رضی اللہ عنہ کے ارشاد کی تعمیل میں قادیان اور گردونواح کے احمدی مہاجرین نے جن میں غوث گڑھ کے مہاجرین بھی تھے نیز ایک بڑی تعداد جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء کی تھی احمد نگر نزدربوہ رہائش اختیار کی۔ اس طرح احمدنگر میں باقاعدہ مضبوط جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہو گئی۔ شروع شروع میں احمدی احباب نے بہت مشکل وقت گزارا۔ کھانے کے لیے گندم نہ چاول غرضیکہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کسی کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے احمدی مہاجرین کی امداد کے لیے مکرم ابوالمنیرنورالحق صاحب کو ’’آبادی چنیوٹ، احمد نگر‘‘میں لوگوں کو آباد کرنے اور ان کی مشکلات کاحل، لاوارث مستورات جو رتن باغ میں مقیم ہیں ان کی ضروریات کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے مقرر فرمایا جو احمدی مہاجرین کی ضرورت کو پورا کرنے کی حتی الوسع کوشش کیا کرتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ96)

مہاجرین کو متوکّلانہ زندگی بسر کرنے کا ارشاد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 14؍ اکتوبر 1947ء کی مجلس عرفان میں مشرقی پنجاب سے آنے والے احباب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’اگر تم مومن اور متوکل ہو تو تمہیں اپنی جائیدادوں کے تلف ہونے کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے اور گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو دے دیتا ہے اور جب لینے پر آتا ہے تو لے لیتا ہے۔ ہمارامقام یہی ہے کہ جس حالت میں اللہ تعالیٰ رکھے ہم اس پر راضی رہیں ۔ یہی حقیقی توکل ہے اور جب یہ پیدا ہو جائے تو پھرانسان طوعی اور جبری دونوں طرح کی قربانیوں کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شرح صدر کے ساتھ قربانیوں کے میدان میں آ جاتا ہے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد نمبر11صفحہ336)

لاہور پہنچنےوالےاحمدی مہاجرین

احمدی مہاجرین کی حالت زار کے بارے میں حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب رضی اللہ عنہ نےصدر انجمن احمدیہ پاکستان کی پہلی سالانہ رپورٹ میں حضور رضی اللہ عنہ کے لطف و کرم اور شفقت و احسان کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا:

’’جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ہزاروں مرد عورتیں اور بچے بے سروسامانی کی حالت میں لاہور میں آ کر آستانہ خلافت پر پڑے تھے۔ سینکڑوں تھے جنہیں تن پوشی کے لئے کپڑوں کی ضرورت تھی اور ہزاروں تھے جن کو خورو نوش کی فکر تھی اور سینکڑوں تھے جو صدموں کی تاب نہ لا کر بیمار اور مضمحل ہو رہے تھے۔ مزید برآں موسم سرما بھی قریب آ رہا تھا اور ان غریبوں کے پاس سردیوں سے بچنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ پھر ان لوگوں کو مختلف مقامات پر آباد کرانے اور ان کی وجہ معاش کے لئےحسب حالات کوئی سامان کرنے کا کام بھی کچھ کم اہمیت نہ رکھتا تھا۔ یہ مشکلات ایسی نہ تھیں جو غیر ازجماعت لوگوں پرنہیں آئیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ اور ہمارا ایک مونس و غمخوارتھا۔ جب وہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح مارےمارے پھر رہے تھے ہم لوگوں کو آستانہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک گونہ تسکین قلب حاصل تھی۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ101تا102)

16؍نومبر1947ء کوحضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے حضرت مولوی جلال الدین شمس صاحبؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصراحمدصاحب قادیان سے لاہور آگئے اور حضرت شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل امیر مقامی اورمکرم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ171)

آخری کانوائے کی روانگی کا رقّت انگیز منظر

قادیان سے آخری کانوائے16؍نومبر کو روانہ ہوا۔ اس کے متعلق تاریخ میں ملتا ہے کہ

’’یہی وہ کانوائے ہے جس کے ذریعہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، مولانا جلال الدین شمس صاحب اور دوسرے بزرگان سلِسلہ اور احباب جماعت لاہور تشریف لائے۔ مولانا جلال الدین شمس صاحب نے رخصت ہوتےہوئے نہایت درد بھرے الفاظ میں کہا:

’’اے قادیان کی مقدس سرزمین تو ہمیں مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ پیاری ہے۔ لیکن حالات کے تقاضا سے ہم یہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں ۔ اس لئے ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہوئے رخصت ہوتے ہیں ۔ ‘‘

(الفرقان درویشاں قادیان نمبر اگست ستمبراکتوبر1957ء صفحہ6)

(تاریخ احمدیت جلد نمبر11صفحہ367)

صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب اس کا نوائے کی روانگی کے رقّت انگیز منظر کا نقشہ درج ذیل الفا ظ میں کھینچتے ہیں :

’’آخری قافلہ یہاں سے 16نومبر1947ء کو گیا۔ چونکہ بہت لوگوں نے جانا تھا۔ ہر قسم کی تیاری کرنی تھی اس لئے اکثر لوگ قریباًبیشترحصہ رات کا جاگتے رہے مگر صبح ہی پھر ہلچل جلدی ہی شروع ہو گئی اور سامان کے ساتھ یہ لوگ محلہ دارالانوارکی سٹرک پر پہنچنے شروع ہو گئے۔ بارہ بجے کے قریب سب ٹرک لد گئے اور اجتماعی دعاؤں کے بعد جو کہ مسجد مبارک، بیت الدعا، مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ہوئیں سب لوگ ٹرکوں کے پاس پہنچ گئے۔ مگر وہاں منظر ہی اور تھا۔ جانے کی خوشی تو کسی کو کیا ہونی تھی ہر ایک رنج اور غم سے پسا جا رہا تھا۔ ہر ایک قدم جو کانوائے کی طرف اُٹھتا تھا وہ آگے سے بوجھل ہوتا۔ جو ضبط کی طاقت رکھتے تھے وہ ضبط کی کوشش کرتے مگر اس کے راز کو اُن کی سرخ آنکھیں پکارپکار کے فاش کر رہی تھی اور جن کوضبط کی طاقت نہ تھی وہ اس طرح روتے تھے جس طرح بچہ اپنی ماں سے بچھڑنے کے وقت روتا ہے۔ آخر وہ وقت بھی آگیا یعنی الوداعی دُعاکا۔ جس کرب اور الحاح کے ساتھ یہ دعا مانگی گئی اور جس تضرع اورعاجزی سے انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا اس کوالفاظ میں بیان نہیں کر سکتے اور جس نے وہ نظارہ دیکھا وہ بھی اسےبھول نہیں سکتا۔ وہاں بہت غیر مسلم آئے ہوئے تھے اس کے علاوہ مسلم ملٹری کے سب سپاہی موجود تھے اور وہ سب محوحیرت تھے کہ ان لوگوں کو کیاہوا۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کی گذشتہ چار ماہ موت کے مُنہ میں جھانکنے کے باوجود بھی اس وقت یہ حالت ہے جبکہ ان کو موت سے بچایا جا رہا ہے۔ دُعا ختم ہوئی ٹرک ایک ایک کرکے روانہ ہوئے۔ جانے والے چلے گئے اور پیچھے رہنے والے ایک سکتہ کی حالت میں ان کو تکتے رہے۔ میں بھی انہیں لوگوں میں تھا جو کہ اُن کو الوداع کر رہے تھے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ367)

نئے مرکز کی زمین کے معائنہ کے لیے حضورؓ کا سفر

حضورؓ نے مجوزہ نئے مرکز احمدیت کے معائنے کے لیے 18؍اکتوبر1947ء کو اپنے قافلے کے ساتھ سرگودھا کا سفراختیار فرمایا۔ اس کے متعلق تاریخ احمدیت میں درج ہے کہ

’’رتن باغ لاہور سے صبح سویرے روانہ ہو کر تقریباًدس بجے یہ قافلہ ربوہ میں جہاںاب بسوں کا اڈہ ہے وہاں پہنچا۔ وہاں حضور نے اپنی کار سے نکل کر سٹرک پر کھڑے کھڑے رقبہ کا جائزہ لیا…وہاں سے روانہ ہو کر احمدنگر کے بالمقابل سٹرک پر اپنی موٹر سے نکل کر نزدیک ہی ایک کنویں کے قریب درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے اور تمام ہمراہی احباب کے حلقہ میں احمدنگر کے چند غیر احمدی معززین سے جو وہاں آگئے تھے مخاطب ہوئے بالخصوص وہاں کے نمبر دار چوہدری کرم علی صاحب(کرملّی )سے دریافت فرمایا کہ

’’دریائے چناب میں سیلاب کے پانی کی زد کی حد کہاں تک ہے؟نمبر دار نے عرض کیا کہ سیلاب کا پانی تو یہاں (درخت کی شاخ کی طرف اشارہ کر کے کہا) تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ پھر دریافت فرمایا کہ ’’آیا وہ رقبہ جہاں اب ربوہ آباد ہے سیلاب کی زد میں ہے؟ ‘‘اس پر نمبر دار مذکور نے کہاکہ وہاں تو پانی صرف اسی صورت میں پہنچے گا کہ جب سیلاب کے پانی کی بلندی اس درخت کی جس کے نیچے حضور کھڑے تھے جھکی ہوئی شاخوں کو چھوئے گی۔ ‘‘ ان لوگوں کی تالیف قلوب کے لیے تھوڑی دیر اور وہاں گفتگو فرمائی اور پھر سرگودھاکی طرف سفر شروع کیا۔ موٹر میں بیٹھے ’’کُڑانہ پہاڑیوں ‘‘ کے دامن میں جو کھلا میدان ہے اس کا جائزہ لیا۔ سرگودھا پہنچ کر محترم چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج کی کوٹھی پر جو ان دنوں وہاں تعینات تھے دوپہر کا کھانا تمام ہمراہی احباب سمیت تناول فرمایا۔ یہ کھانا حضرت نواب چوہدری محمد دین صاحب پکوا کر اپنے ہمراہ موٹر میں لے گئے تھے۔

اس کے بعد نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں اور بعد نماز جلدی لاہور کو روانہ ہو کر قریباً شام کے وقت واپس لاہور پہنچ گئے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ 286تا 288)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت ابتدا سے ہی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ 18؍ستمبر 1894ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا کہ

’’داغ ہجرت‘‘

(تذکرہ صفحہ 218)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’انبیاء کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا ء نبی کے زمانے میں پورے ہوتے ہیں اور بعض اولاد یاکسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں ۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسریٰ کی کنجیاں ملی تھیں تو وہ ممالک حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فتح ہوئے۔ ‘‘

(بدر جلد اوّل نمبر 32، 7؍ستمبر 1905ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’یہاں پاکستان پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانانہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔ یعنی ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ فوراً ایک مرکز بنایا جائے۔ ‘‘

(ماخوذ از خطبہ جمعہ 15؍جولائی 1949ء منقول از الفضل 31؍جولائی 1947ء)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک خواب کی وجہ سے میرا ذہن سندھ کی طرف جاتا ہے مگر جماعتی تنظیم کے لحاظ سے پنجاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات زیر غور آئے۔ ننکانہ صاحب، ماڈل ٹاؤن(لاہور) وغیرہ مگر شہر کی مسموم فضاکے پیش نظر حضورؓ کو یہ جگہ پسند نہ تھی۔ حضور نے فرمایا کہ

’’حضرت مسیح مو عود علیہ السلام بھی پنجاب میں مبعوث ہوئے اگر پنجاب کوچھوڑ دیا گیا تو پھر پنجاب کو پہلے جیسی پوزیشن کبھی حاصل نہ ہو گی اور بھی کئی مقامات تجویز ہوئے۔ با لآخر چوہدری عزیز احمد صاحب سب سیشن جج سرگودھا کی تجویز پر چک ڈھگیاں کی اراضی جہاں اب ربوہ تعمیر ہوا ہے مرکز نو کے لئے منظورکی گئی۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ 282حاشیہ)

مرکز کے لیے زمین خریدنے کی کامیاب کوشش

پاکستان میں نئے مرکز کے قیام کا ا وّلین مرحلہ یہ تھا کہ موزوں جگہ کی تلاش کی جائے۔ یہ کام مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ کے لیے مقدرتھا جو ان دنوں سرگودھا میں سیشن جج کے عہدہ پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت کو چنیوٹ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا رقبہ مل گیا جو بالکل بنجر اورغیرآباد تھا۔ جہاں صرف رہائش کی غرض سے مکان بنائے جا سکتے تھے۔ ’’ چک ڈھگیاں ‘‘ کے نام سے موسوم یہ رقبہ 1506، ایکڑ پر محیط تھا۔ اس میں سے 427 ایکڑ کا رقبہ تو ’’غیرممکن‘‘کہلاتا ہے۔ یعنی اس میں آبادی نہیں ہو سکتی۔ بقیہ رقبہ 1034، ایکڑ پر مشتمل ہے جو گورنمنٹ نے دس روپے فی ایکڑ کے حساب سے جماعت احمدیہ کو فروخت کر دیا۔ جو چیز مل سکی خدا کے شکر کے ساتھ قبول کر لیااور اسے قادیان سے آئے ہوئے پناہ گزینوں اور صدر انجمن احمدیہ کے اداروں کے واسطے بستی آباد کرنے کے لئے تجویز کر لیا۔

(تاریخ احمدیت جلد11صفحہ 291)

حکومت مغربی پنجاب کا اعلان

حکومت مغربی پنجاب نے بھی مندرجہ بالا بیان کی تائید میں ایک سرکاری اعلان شائع کیا جو بجنسہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

’’احمدیوں کو دس روپے فی ایکڑ کے بھاؤ بنجر زمین دے دی گئی ہے۔ یہاں قادیان کے خانماں ویران لوگ آبادہوں گے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 11صفحہ 295)

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے20؍ستمبر 1948ء بروز پیراس کا افتتاح فرمایا۔ حضورؓ نے ایک بڑے مجمع کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی۔

نماز میں 250احباب نے شرکت کی اس موقع پر ایک وسیع شامیانہ اور کچھ خیمے نصب کر دیے گئے۔ چنیوٹ، احمدنگر، اور سرگودھا کے علاوہ کئی احباب لاہور اور دیگر شہروں سے بھی اس بابرکت تقریب میں شامل ہونے کے لیے پہنچ گئے تھے۔ حضورؓ نے ایک نہایت درجہ موثر اور درد سے بھری تقریر فرمائی اور حاضرین کے ساتھ لمبی دعا کی۔

اس کے بعد برکت کے طور پر پانچ بکرے ذبح کیے گئے۔ چار بکرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار صحابہ نے چار کو نوں پر ذبح کیے اور وسط والا بکرا حضورؓ نے خود ذبح فرمایا۔

بانی ربوہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’یہ کبھی وہم نہ کرنا کہ ربوہ اجڑ جائے گا۔ ربوہ کو خدا تعالیٰ نے برکت دی ہے ربوہ کے چپہ چپہ پر اللہ اکبر کے نعرے لگے ہیں ۔ ربوہ کے چپہ چپہ پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بستی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہوں گی۔ اس لئے کبھی نہیں اجڑے گی۔ کبھی تباہ نہیں ہو گی بلکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈادنیا میں کھڑا کرتی رہے گی۔ ‘‘

ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعا گو

کعبہ کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں

ربوہ کا نام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس جگہ کا نام تجویز کرنے کے لیے احبا ب سے پوچھا توبہت احباب نے نام تجویز کیے۔ آج کل ربوہ جس جگہ آبادہے اس دیہہ کاپرانانام چک ڈھگیاں تھا۔ چک ڈھگیاں کی زمین کے حصول کے بعدمورخہ16؍ستمبر1948ء کوصدرانجمن احمدیہ کی میٹنگ میں ’’چک ڈھگیاں ‘‘ کانیانام تجویزکیاگیا۔جس میں کئی نام زیرغورآئے جن میں ماویٰ(پناہ گاہ)ذکریٰ(عبادت گاہ)، دارالہجرت اورمدینۃ المسیح بھی شامل تھے۔ حضرت مولاناجلال الدین شمس صاحب رضی اللہ عنہ نے چک ڈھگیاں کانیامبارک نام’’ربوہ‘‘تجویزفرمایا۔

یہ اسماء حتمی منظوری کےلیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں پیش کیے گئے۔ سیدناحضرت مصلح موعودؓ نے ’’ربوہ‘‘کے نام کی منظوری عطافرمائی۔ عربی میں ربوہ کاوہی مطلب ہے جوپنجابی میں ’’ڈھگیاں ‘‘یعنی اونچے ٹیلوں والی جگہ کے ہیں ۔ ایک وقت تھاکہ اس پورے علاقہ میں بس اڈے پرصرف کیکرکادرخت ہوتاتھا اورباقی ساراعلاقہ شورزدہ چٹیل میدان پرمشتمل تھا۔ آج یہ شہر گل وگلزاراورسرسبزوشاداب ہوچکا ہے جس میں اہالیان ربوہ کی سالہاسال کی شب وروزمحنت شاقہ کی بدولت ہزاروں اقسام کے پھل اورپھول داردرخت اورپودے اس شہرکے حسن وجمال کو چارچاندلگارہے ہیں ۔ یہ شہرقریباً60ہزارکی آبادی پرمشتمل ہے جہاں 95فیصدی احمدی آبادہیں ۔ قادیان کے بعدیہ شہر جماعت احمدیہ کا دوسرا مرکز بنا۔

(خلافت احمدیہ صدسالہ جوبلی 2008از تحریک جدید، انجمن احمدیہ پاکستان صفحہ143)

ربوہ ایک نظر میں

٭…مرکز کی تلاش کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے چوہدری عزیزاحمد صاحب کوجو ان دنوں سرگودھا میں سیشن جج تھے اس معاملہ کے لیے 25؍ستمبر1947ء کو رتن باغ لاہور میٹنگ کے لیے بلوایا۔

٭…سب سے پہلے چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج نے ربوہ کی اراضی کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی کہ یہ اراضی حضور کے 1941ء کے خواب کے مطابق معلوم ہوتی ہے۔

٭…سب سے پہلے اس اراضی کو نواب محمد دین صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب آف لاہور نے دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔

٭…17؍اکتوبر 1947ء کو محمد عبد اللہ خان صاحب نے ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان کی حیثیت سے ڈپٹی کمشنر ضلع جھنگ کو اراضی کی خریداری کے لیے درخواست کی۔

٭…حکومت پنجاب کی طرف سے 11؍جون1948ء کو یہ زمین 10روپے فی ایکڑ کے حساب سے منظور ہوئی۔ اس وقت شیخ محمد دین صاحب مختار عام صدر انجمن احمدیہ تھے۔ اصل رقبہ 1033؍ایکڑ7کنال8مرلے تھا لیکن قیمت 1034؍ایکڑکی ادا کی گئی۔

٭…2؍اگست1948ء کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کو حکومت سے زمین کا قبضہ ملا۔

٭…ربوہ کا پلان پنجاب کے پراونشل ٹاؤن پلانر مسٹر حبیب جے اے سومجی صاحب نے تیار کیا۔ ربوہ کی زمین کا اونچے سے اونچاکنٹور یعنی سطح سمندر سے بلند ی 613فٹ اور کم سے کم 590فٹ ہے۔

٭…لاہور سے ربوہ کے لیے پہلا قافلہ 19؍ستمبر 1948ء کو چوہدری عبد السلام اختر صاحب (امیر قافلہ) اور مولوی محمدصدیق صاحب کے علاوہ ایک مددگارایک ڈرائیور اور دو مزدوروں پر مشتمل تھا۔ لاہور سے یہ قافلہ تقریباً ایک بجے روانہ ہوااور شام سات بجے کےقریب ربوہ کی سرزمین پر پہنچا۔

٭…لاہور سے ربوہ کے لیے دوسرا قافلہ 19؍ستمبر 1948ء کو چوہدری ظہور احمد صاحب کی قیادت میں پانچ بجے شام روانہ ہو کر رات گیارہ بجے کے قریب چنیوٹ پہنچا اور رات سڑک پر گزارنے کے بعد دوسرے دن ساڑھے آٹھ بجے ربوہ پہنچا۔ ربوہ کا افتتا ح20؍ستمبر 1948ء بروز پیر عمل میں آیا جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ لاہور سے صبح9بج کر 20منٹ پر چل کر 1بج کر 20منٹ پر ربوہ پہنچے اور یہاں نماز ظہر ادا کی۔ جس میں تقریباً اڑھائی صداحباب شریک ہوئے۔ افتتاحی تقریب میں شامل ہونے والے احباب کی تعداد 619تھی۔

٭…جس جگہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے پہلی نماز ادا کی اس جگہ پر مسجد بنا دی گئی جو ’’مسجد یادگار ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اورمتصل فضل عمر ہسپتال ہے۔

مسجد یادگار کا سنگ بنیاد

٭…21؍مارچ1958ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ عنہ نے مسجد مبارک قادیان سے لائی گئی ایک اینٹ سے مسجدیادگار کا سنگ بنیادرکھا۔ جس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دعا کی تھی۔

٭…افتتاح کے موقع پر پانچ بکروں کی قربانی خداتعالیٰ کے حضور پیش کی گئی ۔ رقبہ کے وسط میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنےدست مبارک سے ایک بکرا ذبح کیا۔ اور چار کونوں پر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد، حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی، چوہدری برکت علی خان صاحب اور مولوی محمد صدیق صاحب نے قربانیاں کیں ۔

٭…اس جگہ کا نام ربوہ حضرت مولوی جلال الدین شمسؓ صاحب نے تجویز کیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے منظور فرمایا۔

٭…ربوہ میں رہائش کے لیے رقوم پیش کرنے والوں کی فہرست میں پہلا نام حضرت مصلح موعو دؓ کا اور دوسرا نام حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ کا تھا۔

٭…19؍ستمبر1949ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ مستقل رہائش کے لیے ربوہ تشریف لے آئے۔

وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے

آخر پرسیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاایک اقتباس پیش کیاجاتاہے جس کاتعلق حدیث ’’وطن سے محبت ایمان کاحصہ ہے‘‘سے ہے۔

14؍اکتوبر2005ء کوخطبہ جمعہ میں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’جماعت احمدیہ نے پہلے دن سے ہی جب سے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیشہ پاکستان اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے قربانیاں دی ہیں ۔ اس لئے یہ تو کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایک احمدی کا کوئی مسلمان بھائی تکلیف میں ہویا ملک پر کوئی مشکل ہو اورایک احمدی پاکستانی شہری دور کھڑا صرف نظارہ کرے اوراس تکلیف کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پس جماعت احمدیہ نے ملک کے بنانے میں بھی حصہ لیا ہے اور ان شاء اللہ اس کی تعمیر و ترقی میں بھی ہمیشہ کی طرح حصہ لیتی رہے گی کیونکہ آج ہمیں ’’وطن کی محبت ایمان کا حصہ‘‘ہے کا سب سے زیادہ ادراک ہے۔ آج احمدی ہے جو جانتا ہے کہ وطن کی محبت کیا ہوتی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن4؍نومبر2005ء صفحہ6تا7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button